Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4713 articles
Browse latest View live

حُسن بانٹتے ہوئے ’ثمر‘۔۔۔

$
0
0

ہمارا ملک اس اعتبار سے خوش نصیب ہے کہ یہاں ہر موسم کے بے شمار پھل وافر مقدار میں دست یاب ہوتے ہیں اور ہر پھل کی ہی اپنی اپنی افادیت ہے، لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ پھل کھانے کے ساتھ ساتھ اگر آپ اپنی جلد پر بھی استعمال کریں، تو آپ نہایت کم قیمت پر گھر بیٹھے فیشل جیسا اثر پا سکتی ہیں۔

آج ہم آپ کو پھلوںکی ایسی ہی افادیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ماسک کے لیے اسٹرابری کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا ماسک ہر قسم کی جلد کے لیے بہت موزوں ہے۔ یہ چہرے کو نکھار کر چہرہ جاذب نظر بناتا ہے۔ اس کے لیے آپ گرینڈر کی مدد سے اسٹرابری کا آمیزہ بنالیں اور ایک چمچا شہد شامل کر کے ماسک کی طرح چہرے پر لگائیں۔ اس کے 20 منٹ بعد چہرہ دھولیں۔

کلینزنگ کے لیے سب سے پہلے اپنے بالوں کو اچھی طرح باندھ لیجیے۔ اگر آپ خشک جلد کی مالک ہیں، تو کیلے کا گودا بنا کر اس سے چہرے پر 10 منٹ کے لیے مساج کریں اور اگر آپ کی جلد چکنی ہے، تو کھیرے کے قتلے لے کر چہرے پر ملیں۔ یاد رہے کہ آپ کے ہاتھوں کی حرکت اندر سے باہر اور نیچے سے اوپر کی جانب ہونی چاہیے۔ 15 منٹ کے مساج کے بعد چہرہ ٹشو سے صاف کر لیں۔

اگرآپ ڈیپ کلینزنگ کرنا چاہتی ہیں، تو اس کے لیے آپ پپیتے کے چھلکوں کو اندرونی حصے کی جانب سے اپنے چہرے پر ملیں۔ مساج کرتے وقت ہاتھوں کی حرکت گولائی میں رکھیں۔ اس مساج کا دورانیہ 15 سے 20 منٹ ہے۔ اس کے بعد چہرہ صاف کرلیں۔

اسکربنگ کے لیے آپ چیکو کا گودا لے کر خوب اچھی طرح میش کریں، پھر اس میں تھوڑی سی چینی شامل کر کے چہرے پر ہلکے ہاتھوں سے گولائی میں مساج کریں۔ آنکھوں کے اطراف مساج سے گریز کریں، کیوں کہ یہ جلد بہت نازک ہوتی ہے۔ اسکربنگ کے عمل کے لیے پانچ سے سات منٹ کافی ہیں۔ اپنی جلد پر دھیرے اور ہلکے ہاتھ سے مساج کیجیے، بہت زیادہ رگڑنے سے گریز کیجیے۔ اسکربنگ کے بعد چہرہ صاف پانی سے دھو کر خشک کر لیں۔

اپنے چہرے کے مسام بند کرنے کے لیے کھیرے کا جوس بطور فیس ٹانک چہرے پر لگائیں اور کھلی ہوا میں خشک ہونے دیں اور اپنے چہرے پر نظر ڈالیں۔ آپ کا چہرہ آپ کی محنت کی گواہی دے گا۔

The post حُسن بانٹتے ہوئے ’ثمر‘۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.


بچوں کے لیے پرسکون نیند کی اہمیت

$
0
0

ہمارے بچے صبح جلدی نہیں اٹھے اور اسکول وین گیٹ پر پہنچ جانے کی وجہ سے خالی پیٹ روانہ ہو گئے ہیں۔ اس صورت حال سے زیادہ پریشانی کا سامنا ماؤں کو کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ اس روٹین کی وجہ سے بچوں کا پڑھائی کی طرف رجحان کم ہوتا جاتا ہے۔

یہ سب کچھ نیند میں کمی اور رات کو دیر تک جاگنے کا نتیجہ ہے۔ کم عمر بچوں میں نیند کی کمی کا مطلب محض تھکا ہوا محسوس کرنے سے کہیں زیادہ ہے۔ نیند کی کمی نہ صرف بچوں کی تعلیم پر اثرانداز ہوتی ہے، بلکہ یہ ان کی جسمانی، دماغی اور جذباتی صحت کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

امریکا کی ’نیشنل سلیپ فاؤنڈیشن‘ ہر شخص کو اس کی مخصوص ضرورت کے مطابق رات کو روزانہ آٹھ سے 10 گھنٹے نیند لینے کا مشورہ دیتی ہے۔ تاہم تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم عمر افراد (13سال سے 19سال) نیند کی کمی کا شکار ہورہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، نیند کا معیار بہتر بنانے کے لیے والدین کو اپنے بچوں میں صحت مند عادتیں پیدا کرنی ہوں گی، تاکہ وہ نیند کے حوالے سے مطمئن ہو سکیں۔

تھوڑی سی محنت سے ہم اپنی زندگیوں کو فطری شیڈول کے تحت کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایک رات دیر تک جاگتے رہیں گے، تو اگلی رات بھی ہمارا جسم ہمیں اس وقت تک جگائے رکھے گا۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کم عمر بچوں کا جسم رات کو دیر تک جاگنے اور اگلے دن دیر تک سونے کے شیڈول کو آسانی سے اپنا لیتا ہے۔

اگر آپ اپنے بچوں کو اچھی نیند کا عادی بنانا چاہتے ہیں، تو سب سے گھر میں موجود الیکٹرانک میڈیا کے نظام کو بہتر کریں۔ بچوں کے ٹی وی دیکھنے کے اوقات مقرر کریں۔ رات کو بچوں کے سونے کے وقت سے ایک گھنٹے پہلے ہی ٹی وی بند کر دیں۔

بچوں کو تلقین کریں کہ وہ سونے سے پہلے اپنے کل کے کپڑے اور ہوم ورک ایک نظر دیکھ لیں، اس طرح ان کی توجہ بٹ جائے گی اور وہ اسکرین سے نظر ہٹا کر اپنے کمرے کی طرف ضرور جائیں گے۔ موبائل فون اور گیم کا وقت بھی مقرر کریں، کوشش کریں کہ ان کا استعمال اپنی نگرانی میں کروائیں، کیوں کہ آج کی ہماری تھوڑی سی محنت ہمارے بچوں کے مستقبل کو روشن بنا سکتی ہے۔

بچوں کے کمروں پر بھرپور توجہ دیں۔ بچوں کے سونے سے پہلے ان کے کمروں کے پردے گرا دیں اور ہلکی روشنیاں جلا دیں۔ ماں اور باپ باری باری بچوں کو وقت دیں ان سے روزمرہ کی سرگرمیاں پوچھیں۔ انھیں اخلاقی کہانیاں سنائیں اور اصلاحی گفتگو کرتے ہوئے سلائیں۔ اس طرح بچوں کا ذہن بٹے گا اور وہ ایک پرسکون نیند سے لطف اندوز ہوں گے۔

جو بچے صبح اٹھ کر کہتے ہیں کہ ان کے سر میں درد ہو رہا ہے یا انھیں رات اچھی طرح سے نیند نہیں آئی، تو سمجھ لیں کہ آپ بچے کے کہیں نہ کہیں اپنے دماغ میں کوئی پریشانی لیے ہوئے ہیں۔ اس مرحلے میں بہت تحمل اور پیار سے ان سے پوچھیں اور انھیں ذہنی دباؤ سے نکالنے کی کوشش کریں۔ یہ جان لیں کہ اگر آپ کے بچے اچھی نیند نہیں لیں گے، تو وہ کسی بھی سرگرمی میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ کچھ ماہرین کے مطابق چند ایسی غذائیں ہیں، جنھیں کھانے سے پرسکون نیند آتی ہے۔

اگرچہ عام طور پر کیلے توانائی کو بڑھانے والی غذا سمجھے جاتے ہیں، لیکن یہ میگنیشیم سے بھرپور ہوتے ہیں، جو پٹھوں کو سکون دیتے ہیں اور ان میں سیرٹونن اور میلاٹونن جیسے اجزا بھی ہوتے ہے، جو اچھی نیند کے لیے مدد فراہم کرتے ہیں۔

صرف ایک چائے کے چمچے جتنا شہد دماغ میں میلاٹونن کے اخراج کی تحریک پیدا کرنے اور اوریکسن (جو دماغ کو چوکس رکھتا ہے) کو بند کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس طرح یہ آپ کو نیند آنے میں مدد کرتا ہے۔

بادام میں موجود میگنیشیم قدرتی طور پر آپ کے دل کی دھڑکن کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ عضلات اور اعصاب پر دباؤ کم کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔

سونے سے پہلے مسالے دار کھانے سے گریز کریں اور بچوں کو بھی منع کریں کہ وہ چٹ پٹی چیزیں نہ کھائیں۔ معدہ چکنائی سے بھرپور کھانے کو جلد ہضم نہیں کر سکتا اور اس سے سینے میں جلن کا زیادہ امکان ہوتا ہے، جس کی وجہ سے نیند آنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بچوں کو سونے سے پہلے کافی اور چائے بالکل نہ  دیں۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرنے سے ہم اپنے بچوں کو ایک پرسکون نیند کا عادی بنا سکتے ہیں۔

The post بچوں کے لیے پرسکون نیند کی اہمیت appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (03338818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!

اول طریقہ تاریخ پیدائش
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے ، ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے
1+2+7+1+9+9=29=2+9=11=1+1=2
گویا تاریخ پیدائش سے احمد کا نمبر 2 نکلا۔

اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد انکے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”

حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ی،ق،غ) 2 کے حروف (ب،ک،ر) 3 کے حروف (ج،ل،ش)
4 کے حروف (د،م،ت) 5 کے حروف (ہ،ن،ث) 6 کے حروف (و،س،خ)
7 کے حروف (ز،ع،ذ) 8 کے حروف (ح،ف،ض) 9 کے حروف (ط،ص، ظ)
احسن کے نمبر (1،8،6،5) تمام نمبرز کو مفرد کردیں:
(1+8+6+5=20=2+0= 2 گویا احسن کا نمبر2 ہے۔
ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ ”کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا۔ (2+9+1=12=1+2=3) گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
سوموار 8 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر8 ہے۔
8 نمبر کی خرابی یہ ہے کہ یہ جلدباز فطرت لوگوں کے لیے مسائل لاتا ہے یہ وقت بوڑھوں کی طرح سوچنے اور دوراندیشانہ فیصلہ لینے کا ہے، دیرپا کاموں کی ابتدا کے لیے اچھا ہے
2،3،4،6،7اور 8 نمبر والوں کے لیے آج کا دن اچھا رہنے کی توقع ہے۔
1، 5 اور 9 نمبر والوں کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِ صدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص ”یارحیم یا رحمٰن یا اللہ” 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 9 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر7 ہے۔
تاریخ اور ماضی دونوں آج کا خاصہ ہیں، کوئی پرانا معاملہ تلخی کی وجہ بن سکتا ہے
دل کی آواز سننے کے لیے موزوں دن۔
3،4،5،7،8،اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔
1،2 اور 6 نمبر والوں کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی سیکیوریٹی سے منسلک معذور فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاغفار یاستار استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 10 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر4 ہے۔
تبدیل اور اچانک حادثاتی فیصلے لینے کا دن، کچھ ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ کو یو ٹرن لینا پڑے یا آپ کی دل شکستگی کا سامان ہو۔
1،2،3،6،7 اور 8 نمبر والوں کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔
4، 5 اور 9 نمبر والوں کو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔
صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چاچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”یاخبیرُیا وکیلُ یا اللہ” 41 بار اول و آخر 11 باردرودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 11 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر 3 ہے۔
ایک سعد دن سمجھا جاسکتا ہے، حقیقی مذہب کے پیروکاروں کے لیے معاونت کرنے والے حالات کی امید ہے، ترقی اور آگے بڑھنے کے مواقع ملیں گے۔
2،3،4،7،8 اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن کافی بہتر رہنے کی امید ہے۔
1، 5 اور 6 نمبر والوں کو کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: میٹھی چیز، 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے، مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یا قدوس یا وھابُ یا اللہ” 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 12 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر7 ہے۔
اندر کی دنیا سے جڑنے اور ماضی کے اوراق پلٹ کے اپنی راہوں کا قبلہ درست کرنے کا وقت ہوسکتا ہے۔
3،4،5،7،8اور 9 نمبر والوں کے لیے آج کا دن بہتر ہونے کی امید ہے۔
1،2 اور 6 نمبر والوں کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔
صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص”سورۂ کہف یا یاودود یا معید یا اللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 13 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر 1 ہے۔
حکم رانوں اور انتظامیہ کرسیوں پر براجمان لوگوں کے لئے کچھ رکاوٹوں اور مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
1،2،4،5،6،اور 9 نمبر والوں کے لیے کسی حد تک بہتری کی امید ہے۔
3،7 اور 8 نمبر والوں کو کچھ امور میں مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 80 یا 800 روپے یا کالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔
وظیفۂ خاص” یا فتاح یاوھابُ یارزاق یا اللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار14 فروری 2021
آج کا حاکم نمبر4 ہے۔
ایک نیا فیصلوں، اقدامات اور الجھنوں کا دن جن کی پہلے توقع نہ تھی۔
کچھ غیرمتوقع حالات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
1، 2، 3، 6،7اور 8 نمبر والوں کے لیے ایک بہتر دن کی امید ہے۔
4، 5 اور 9 نمبر والوں کو مشکل ہوسکتی ہے۔
صدقہ: 13 یا 100 روپے یا گولڈن رنگ کی چیزیں گندم، پھل، کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔
وظیفۂ خاص”یاحی یاقیوم یا اللہ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

یہ تھے کراچی کے بادشاہ

$
0
0

لاہور والو! تمھیں مبارک ہو، تمھارے شہر کو نیویارک ٹائمز نے رواں سال دنیا کے 52 بہترین سیاحتی مقامات میں شامل کرلیا ہے۔ اور ہاں، یہ مبارک باد ہم خوشی خوشی نہیں بڑے دُکھی دل کے ساتھ دے رہے ہیں، کیوں کہ ہمارے شہر کراچی کو اس فہرست میں جگہ نہیں دی گئی۔

نیویارک ٹائمز نے لاہور کے لائقِ سیاحت ہونے کا سبب لاہوریوں کی زندہ دلی، مہربان فطرت، مہمان نوازی، لذیذ کھانے، سردیوں میں دھند کے پار سے چھلکتی روشنیوں کے نظارے اور مغلیہ عمارتوں کو قرار دیا ہے۔ یہ تو کراچی کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے، آخر کراچی اور کراچی والوں میں کس بات کی کمی ہے کہ یہ شہر اس فہرست میں جگہ نہ پاسکا۔

دراصل ہمارا شہر شرمیلا بہت ہے، اتنا کہ ہماری ایک سیاست داں کا نام بھی شرمیلا ہے، شہر کی شرم وحیا کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جب مردم شماری کرنے والے دروازوں پر آئے تو کراچی کی آدھی آبادی نے شرم کے مارے دروازہ کھولا ہی نہیں اور ’’اوئی اللہ، جانے کون اجنبی ہیں موئے‘‘ کہہ کر گھر میں بیٹھی رہی اس لیے شمار نہ ہوسکی۔ اسی شرمیلے پن کی وجہ سے کراچی اپنے بارے میں کچھ بتاتا نہیں، ورنہ لاہور اور لاہوریوں میں ایسا کیا ہے جو کراچی اور ’’کراچویوں‘‘ میں نہیں۔ چلیے ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ شہر کس طرح لاہور کے ہم پلہ ہے۔

بات شہریوں کی صفات سے شروع کرتے ہیں۔ ہم کراچی کے لوگ کیا لاہور والوں سے کم زندہ دل ہیں! یہ زندہ دلی ہی تو ہے کہ ہم میں سے بہت سے اب تک کراچی کو عروس البلاد کہتے ہیں، حالاں کہ اس عروس کا چہرہ کسی کھڑوس بڑھیا کا ہوچکا ہے۔ مہربان تو ہم ایسے ہیں کہ ہمارے بارے میں ہی کہا گیا:

مہرباں ’’ہوں میں‘‘ بُلا لو مجھے چاہو جس وقت

میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

مہربانی کی یہ تصویر ہماری سیاسی قیادت حکم رانوں کو دکھاتی رہتی ہے۔ مہمان نواز تو ہم ایسے کہ پوچھیے مت، مہمان کا اتنا خیال ہوتا ہے کہ اس کے آنے کی خبر ملتے ہی کہہ دیتے ہیں،’’ارے جب چاہیں آئیں، آپ ہی کا گھر ہے، مگر تین دن سے آپ کے اس گھر میں پانی نہیں ہے۔‘‘

رہے لذیذ کھانے، ان میں تو ہمارا جواب ہی نہیں۔ صرف گائے کے گوشت کے ہم ایسے ایسے مزے دار پکوان بناتے ہیں کہ خود گائے حیران ہوکر کہتی ہے۔۔۔۔ایسی ’’بریانی‘‘ بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔ لاہور میں صرف سردیوں میں دھند کے پار روشنیوں کے نظارے دل فریب لگتے ہیں، ہمارے ’’کرانچی‘‘ میں تو پورا سال دھواں اور دھول روشنی اور آنکھوں کے بیچ حائل رہتی ہے۔ اگر سیاح سائنس داں بن کر تمیز کرنے کی کوشش نہ کریں تو دھوئیں اور دھول کے پار دکھائی دینے والی روشنی بھی وہی لطف دے گی جو دھند میں چھپی روشنی دیکھنے میں ہے۔

اب رہ گئیں مغلیہ یا تاریخی عمارتیں۔ اب کیا کریں بھیا! مغلوں نے کراچی سے بڑا تعصب برتا۔ یہاں کوئی چھوٹی موٹی عمارت بھی نہ بنوائی۔ ہمیں تو لگتا ہے یہ مغل لاہور کے علاقے ’’مغل پورہ‘‘ کے رہنے والے تھے، اسی لیے لاہور کو نوازتے رہے۔ چلو مغلوں نے جو کیا وہ کیا۔

یہ باقی کے بادشاہ لودھی، خلجی، سوری بھی کراچی سے دور دور عمارتیں بنواتے رہے، ہمارے شہر میں کوئی عوامی بیت الخلاء، ’’گھوڑا اسٹاپ‘‘ (بسیں تو جب تھیں ہی نہیں) یا بیرون شہر جانے والوں کے لیے ہاتھیوں کا اڈا بنادیتے تو ہمارا شہر بھی تھوڑا بہت تاریخی ہوجاتا۔ کچھ نہیں تو کسی سڑک کی استرکاری ہی کرادیتے۔ اس میں خود ان کا بھی فائدہ تھا، کیوں کہ اس شہر میں سڑک پر ڈامر بچھانے سے پلیہ بنانے تک کسی بھی تعمیر میں ٹھیکے دار اور معمار کے کروڑوں بن جاتے ہیں۔ یہ بادشاہ کراچی میں چائنا کٹنگ کے ذریعے آبادیاں بنا کر اپنا خزانہ بھر سکتے تھے، مگر شاید انھیں اس معاملے میں کوئی ’’کمال‘‘ میسر نہیں تھا۔

واضح رہے کہ کراچی میں بادشاہوں اور ان کی نشانیوں کے نہ ہونے کی بات ہم ماضی اور حال کے مؤرخ کی لکھی گئی تاریخ کی روشنی میں کر رہے ہیں، مستقبل کا مورٔخ جب تاریخ لکھے گا تو اس میں کراچی کے بادشاہوں اور ان کی یادگاروں کے ذکر سے صفحات کے صفحات بھرے ہوں گے۔

وہ لکھے گا کہ جس طرح کبھی پنجاب میں سکھا شاہی تھی، اسی طرح کراچی میں ’’سیکٹرشاہی‘‘ مچی رہی۔  یہ تذکرہ ہے مغلوں کی طرز کے ’’ساشے پیک‘‘ بادشاہوں کا۔ مغلوں کی طرح یہ بھی تعمیر کا شوق رکھتے تھے، لیکن انھوں نے تاج محل جیسی عمارتوں پر پیسہ ضایع نہیں کیا، بلکہ غریبوں کے لیے چھوٹے چھوٹے مکان بنا کر انھیں بیچتے رہے، مفت میں بھی دے سکتے تھے، لیکن بیچے اس لیے کہ غریبوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔

تاج محل پر پیسہ لُٹا کر شاہ جہاں نے جو بدنامی کمائی اسے دیکھتے ہوئے ان بادشاہوں نے یہ خیال رکھا کہ تعمیرات پر رقم ضایع نہ ہو، چناں چہ سرکاری زمینوں پر اسی طرح قبضہ کیا جس طرح مغل راجپوتانے سے دکن تک کرتے رہے تھے، پھر ان پر مکانات بنوائے۔ چوں کہ یہ نیکی کا کام تھا، اس لیے بہت چُھپا کے کیا جاتا تھا۔

ان کی مزید تعمیرات میں سیکٹر آفس شامل ہیں جہاں یہ اپنا دربار لگایا کرتے تھے۔ ان درباروں میں اکثر درباری خاموش ہی رہا کرتے تھے، اس کی وجہ خوف نہیں منہ میں دبا گٹکا ہوتا تھا۔ ان بادشاہوں کی بڑی خدمات ہیں، جیسے انھوں نے ’’بوری‘‘ کے استعمال کو وسعت دی، جس سے بوری کی صنعت نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی، ٹیکس کے ظالمانہ، جابرانہ اور قاہرانہ نظام کی جگہ ’’چندے‘‘ کا عاجزانہ طریقہ متعارف کرایا۔ اس نظام سے رعایا بہت خوش تھی، یہاں تک کہ غیرمسلم بھی فطرہ اور زکواۃ دینے لگے تھے، یوں یہ تاریخ کے پہلے بادشاہ تھے جنھیں رعایا ’’مستحق‘‘ سمجھتی تھی۔

ان کی ایک اور خصوصیت جو انھیں مغلوں سے جدا کرتی ہے ان کا لمبے چوڑے القابات سے گریز تھا، وہ چاہتے تھے کہ رعایا انھیں اپنے ہی میں سے سمجھے، اس لیے بھاری بھرکم القاب کے بجائے کالا، ٹیڑھا، موٹا جیسی خالص عوامی عرفتیں اختیار کرتے تھے، بس ان کے نام کے ساتھ بھائی کا سابقہ لگانا ضروری تھا وہ بھی سابقہ پڑنے پر۔

شہر کے کچھ حصوں میں ’’حقیقی بادشاہت‘‘ بھی خاصے عرصے تک قائم رہی۔ کچھ حصوں پر مشتمل ہونے کے باوجود اسے ’’آفاقی بادشاہت‘‘ بھی کہا جاتا ہے، غالباً اس لیے کہ یہ بادشاہت ایک دن اچانک قائم ہوئی تھی، لہٰذا اسے اوپر سے نازل شدہ سمجھا جاتا تھا۔ شہر کے ایک علاقے میں کسی شاہی خاندان کی جگہ ’’گینگ‘‘ کی بادشاہت قائم تھی۔ یقیناً یہ بہت بہادر تھے، اسی لیے انھیں ’’جیالے بادشاہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

جس طرح  ماضی میں رجواڑے ہوا کرتے تھے، اسی طرح کراچی کے مضافات میں ایک ’’راؤ۔۔۔واڑا‘‘ تھا، جس کا راجا مقابلوں کا بڑا شوقین تھا۔

اب اتنے سارے بادشاہوں کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ کراچی میں ان کی یادگاریں اور ان سے منسوب تاریخی عمارات نہ ہوں۔ پس تو یہ مسئلہ بھی حل ہوا، اور لاہور کو اس معاملے میں بھی کراچی پر فوقیت نہیں رہی۔ اب انتظار بس اس بات کا ہے کہ کب ان بادشاہوں اور ان کی یادگاروں کی تشہیر ہو، جس کے باعث کراچی بھی تاریخی شہر قرار پائے، اور اسے بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں دیکھ کر ہمارے دل کو قرار آئے۔

The post یہ تھے کراچی کے بادشاہ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل


اونٹ کو باندھ دیا تیغ اتاری میں نے
شب حریفوں کے علاقے میں گزاری میں نے
ایسے لوگوں سے کوئی جیتنا مشکل تو نہ تھا
جان کی بازی مگر جان کے ہاری میں نے
آج دیکھا ہے اسے جاتے ہوئے رستے میں
آج اس شخص کی تصویر اتاری میں نے
توسنِ حرص و ہوس روند بھی سکتا تھا مجھے
چھوڑ دی ایسی ترے بعد سواری میں نے
سرد موسم تھا ترے شہر کے ہوٹل پہ اسدؔ
بے سہاروں کی طرح رات گزاری میں نے
(اسد اعوان۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


ایسے موسم میں یوں افسردہ نہیں بیٹھتے ہیں
چائے پیتے ہیں چلو چل کے کہیں بیٹھتے ہیں
اپنا معیار زمانے سے الگ ہے کہ ہمیں
پیار ملتا ہے جہاں جا کے وہیں بیٹھتے ہیں
آج کچھ وقت ہے اور وقت امر کرنے کو
کسی درویش کے حُجرے میں کہیں بیٹھتے ہیں
لا کے قدموں میں ستارے نہ بچھا، رہنے دے
ہم تو بیٹھیں گے جہاں خاک نشیں بیٹھتے ہیں
جانے اِس میز سے کیسی انہیں نسبت ہے کہ وہ
جب کبھی آتے ہیں کیفے میں یہیں بیٹھتے ہیں
چاہے جتنا بھی اندھیرا ہو مجھے خوف نہیں
میری محفل میں کئی زہرہ جبیں بیٹھتے ہیں
اب درختوں پہ پرندے ہوں کہ مُوڑھوں پہ بزرگ
شام کے وقت اکیلے تو نہیں بیٹھتے ہیں
(اسد رحمان۔ پپلاں)

۔۔۔
غزل


ہجر زادوں کو بھی خوشحال بنا دیتی ہے
سرخیٔ شام ترے گال بنا دیتی ہے
بیٹھ جاتے ہیں ملنگ اپنی کہانی لے کر
بھوک درگاہوںکو چوپال بنا دیتی ہے
اس لیے تم کو پریشان نہیں لگتا ہوں
ماں کی عادت ہے مرے بال بنا دیتی ہے
جانے والے ابھی اوجھل نہیں ہونے پاتے
دھول وحشت کے خد و خال بنا دیتی ہے
کوچۂ عشق تری خاک کے کیا کہنے ہیں
سر میں پڑتی ہے تو ابدال بنا دیتی ہے
ہم وہ احساس کے مارے ہوئے حاتم، ساجدؔ
اک سخاوت جنہیں کنگال بنا دیتی ہے
(لطیف ساجد۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل


کس واسطے وفا سے گریزاں ہے آج بھی
یہ روگ عمر بھر کا فروزاں ہے آج بھی
محفل میں گرچہ اور بھی ہیں حسن والے لوگ
لیکن مرا نگار نمایاں ہے آج بھی
تعبیر ہو گی کس طرح دیرینہ خواب کی
تکمیل کی تلاش میں ارماں ہے آج بھی
عمرِ رواں نے فرق تو چہرے پہ ڈالا ہے
لیکن وہ اس کی چشمِ غزالاں ہے آج بھی
اب وہ کہاں ہے صحبتِ احبابِ مخلصاں
کہنے کو ایک حلقۂ یاراں ہے آج بھی
ساجد ؔتم اُس کی راہ کو بس دیکھتے رہو
اور اُس کے بھول جانے کا امکاں ہے آج بھی
(شیخ محمد ساجد۔لاہور)

۔۔۔
غزل


خوں پسینہ ہوا ہاتھ چھالے ہوئے
پر نہ محرومیوں کے ازالے ہوئے
چند ٹکڑے جگر کے سنبھالے ہوئے
اے شبِ ہجر تیرے حوالے ہوئے
تیرے در سے اٹھائے گئے تو کھلا
ہم تھے جنت سے پہلے نکالے ہوئے
ہاتھ دیکھا مرا تب سے خاموش ہے
جوتشی سر گریباں میں ڈالے ہوئے
خون ہم نے دیا پر تری بزم میں
سرخرو چوریاں کھانے والے ہوئے
چل چراغِ شبِ ہجر ہی سے سہی
جھونپڑی میں مری بھی اجالے ہوئے
زور ہم کیا دکھائیں کہ شہزاد جی
سب مقابل ہیں ہاتھوں کے پالے ہوئے
(شہزاد احمد کھرل۔جلالپور جٹاں)

۔۔۔
غزل


خواہش و خواب نگر سے مجھے کیا لینا ہے
ایک بے فیض سفر سے مجھے کیا لینا ہے
اوڑھ کر دشت میں سو لیتا ہوں وحشت اپنی
ایک اجڑے ہو ئے گھر سے مجھے کیا لینا ہے
میں ابھی ہوش میں آیا ہی کہاں ہوں لوگو
کسی مدہوش نظر سے مجھے کیا لینا ہے
اور لاکھوں ہیں ثمردار میسر مجھ کو
ایک ممنوعہ شجر سے مجھے کیا لینا ہے
میں زمیں زاد یہی خاک ہے مسکن میرا
چاند تاروں کے نگر سے مجھے کیا لینا ہے
مانگتا ہوں میں کسی اور ہی در سے زاہدؔ
ایک مفلوک کے در سے مجھے کیا لینا ہے
(حکیم زاہد محبوب۔منڈی بہائُ الدین)

۔۔۔
غزل


کہ جن پہ کرتے رہے غور کتنے راستے ہیں
تمہارے پاس ابھی اور کتنے راستے ہیں
زمانوں بعد کی باتیں فسانہ لگتی ہے
ہمیں بتاؤ کہ فی الفور کتنے راستے ہیں
قریب آ کے وہ معصومیت سے پوچھتا ہے
جو لے کے جاتے ہیں لاہور کتنے راستے ہیں
جو آپ کہتے ہیں اس راہ پر نہیں چلنا
بغیر ظلم، ستم، جور کتنے راستے ہیں
امیرِ شہر بتا کیا ہوئے ترے وعدے
دکھائیں ہم کو نیا دور کتنے راستے ہیں
(عنبرین خان ۔لاہور)

۔۔۔
غزل


میں سمجھا نہیں تھا کبھی یار کا دکھ
نہ پوچھا سمندر سے اس پار کا دکھ
نہیں جانتے امن میں میرے دشمن
مری زنگ آلو د تلوار کا دکھ
یہ کندھے جھکے جا رہے ہیں گلی میں
اٹھائے ہوئے گھر کے انبار کا دکھ
یہ دنیا ہماری ہے لیکن کریں کیا
لیے پھرتے ہیں اس کے انکار کا دکھ
یونہی کٹ رہی ہے خرابے میں اپنی
یوںہی پال رکھا ہے بیکار کا دکھ
کوئی جان سکتا نہیں ہے یہاں پر
کسی ہجر کے مارے بیمار کا دکھ
مجھے روکتی ہے یہ پاؤں کی بیڑی
مرا مسئلہ تو ہے رفتار کا دکھ
(امتیاز علی۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


نگاہوں کی حکایت کون سمجھے کون جانے
پسِ پردہ محبت کون سمجھے کون جانے
تمھارے نام کی نسبت سے شہرت یہ ملی ہے
ہماری تم سے نسبت کون سمجھے کون جانے
تمھاری یہ ادائیں ہم نشیں ہم جانتے ہیں
تمھاری یہ نزاکت کون سمجھے کون جانے
نظر آتی ہے چہرے پر تو رعنائی بظاہر
مگر اندر کی وحشت کون سمجھے کون جانے
قیامت کیا ہے ،کیسی ہے کبھی راحلؔ سے پوچھو
جدائی ہے قیامت کون سمجھے کون جانے
(علی راحل ۔ بورے والا)

۔۔۔
غزل


بدن کی قید سے نکلیں گے مل کے روئیں گے
ہم اپنے اپنے مقدر پہ کھل کے روئیں گے
ہمارے رونے کو کچھ اور ہی نہ سمجھیں لوگ
مزید جو بھی ہے کمرے میں چل کے روئیں گے
ہمیں تو لوگوں کی باتوں سے خوف آتا ہے
ہم اگلی بار ذرا سا سنبھل کے روئیں گے
یہ اپنے سینے میں پتھر سا دل ہی رکھتے ہیں
عجیب لوگ ہیں کلیاں مسل کے روئیں گے
ہم اپنے ماضی کو ایسے خراج بخشیں گے
ہم اپنے ماضی سے آگے نکل کے روئیں گے
ہمارے چہروں سے لگنا نہیں کہ روئے ہیں
چلو کہ ہم وہاں چہرہ بدل کے روئیں گے
(محمد احمد لنگاہ۔عارف والا، پنجاب)

۔۔۔
غزل


شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو خدا کی خاطر
صدا مسلسل یہ دے رہے ہیں پرند اپنی بقا کی خاطر
جمیل صورت، غزال آنکھیں، مزاج نازک، گلاب لہجہ
مرے خدا کیا یہ تن بنایا ہے صرف تو نے فنا کی خاطر
خیال رکھا گیا جدائی کے بعد بھی ایک دوسرے کا
اگرچہ دونوں بچھڑ گئے تھے ہم اپنی اپنی انا کی خاطر
کہیں سے لے کر وہ لائے تیرے بدن کی خوشبو ہماری جانب
ہم ایسے لوگوں نے اب دریچے کھلے رکھے ہیں ہوا کی خاطر
ہمارے سرکش مزاج کو جو نہ چین آیا بہشت میں بھی
تو اس لیے ہی ہمیں اتارا گیا فلک سے سزا کی خاطر
(اویس قرنی۔ بنوں، خیبر پختونخوا)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

پھر وہی دھوبی کا کُتّا……..

$
0
0

زباں فہمی نمبر 83
گزشتہ سے پیوستہ
(دوسرا اورآخری حصہ)

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس سوم

{دھوبی کپڑے دھونے‘ کوٹنے کے لیے جو چیز استعمال کرتا ہے اس کے لیے اردو میں ایک لفظ مستعمل ہے اور وہ ہے ’’موگری‘‘۔ فرہنگ آصفیہ جلد چہارم ‘ الفیصل ناشران ۲۰۱۹ء (صفحہ نمبر ۲۰۸۸)۔ موگرا: (ہ) اسم مذکر: ایک قسم کا پھول‘ بڑی موگری‘ کوٹنے کا بڑا کوبہ‘ موسل‘ توپ کا سنبسہ۔ موگری: (ہ) اسم مونث: کوبہ‘ زمین کوٹنے اور کپڑے کو کندی (؟) کرنے کا چوبی آلہ۔ کلوخ کوب: ’’جیسے یہ تو کولھو کاٹ کے موگری بنائے ہیں۔‘‘ کندی: (۱) اسم مونث: موگری‘ کوبہ‘ دھلے ہوئے یا رنگے ہوئے کپڑوں کو ‘ کوٹ کر صفائی کرنے کی چیز ‘ کپڑوں کی صفائی جو موگری کے وسیلے سے کی جائے۔ فیروزاللغات (جامع)

(صفحہ نمبر ۱۳۱۷)۔ موگری: (ھ۔م) کوٹنے کا آلہ۔ علمی اردو لغت۔ (صفحہ نمبر ۱۴۵۶)۔ موگری: کوٹنے کا آلہ۔ نوراللغات۔ جلد دوم۔ (صفحہ نمبر ۲۷۱۹)۔ موگری: و ہ آلہ جس سے دھوبی یا دھویا ہوا کپڑا کوٹتے ہیں۔ اردو ڈائجسٹ میں اصلاح زبان اور ذخیرہ الفاظ بڑھائیے کے عنوان سے فضل الہٰی عارف کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے ۔ دسمبر ۱۹۷۰ء کے اردو ڈائجسٹ کے صفحہ نمبر ۱۵۴/۱۶۸۔ پر: ’’وہ آلہ جس سے دھوبی کپڑے دھوکر کوٹتے ہیں اسے موگری کہتے ہیں‘‘ درج ہے۔…………………… مجھ میں اتنی قابلیت ہے نہ علمیت کے بہ یک جنبش قلم ان تمام مرتبین و مولفین اور ان کی مرتب کردہ لغات کو ناکارہ اور فضول اور ناقابل اعتبار قرار دے دوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اور وہ تمام حضرات جو کتا اور کتکا کا فرق نہیں جانتے تھے اب جان جائیں گے اور یہ بھی مان جائیں گے کہ دھوبی کپڑے دھونے یا کوٹنے کے لیے جو چیز استعمال کرتا ہے اسے ’’کتکا ‘‘ نہیں ’’موگری‘‘ کہتے ہیں}۔

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب! موضوع سخن یہ نہیں تھا کہ کتکا ہوتا ہے یا موگری، بلکہ بحث فقط اس نکتے پر مرتکز تھی کہ آیا دھوبی کا کُتّا کوئی غلط العام ترکیب تو نہیں۔

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس چہارم

{محترم اردو زبان کی کوئی بھی لغت اٹھالیجیے اس میں یہ محاورہ،’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ اسی طرح موجود ہے ۱۔ جامع الامثال (اردو ضرب الامثال کا ایک جامع معجم)۔ مرتب: وارث سرہندی۔ نظرثانی : شان الحق حقی۔ مقتدرہ قومی زبان ‘ اسلام آباد ‘ صفحہ نمبر ۲۱۲:’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ اس شخص کے متعلق بولتے ہیں جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو ۔ دو گھروں کا مہمان ہمیشہ بھوکا رہتا ہے۔ فرہنگ آصفیہ ۔ جلد دوم ( صفحہ نمبر ۱۳۲۱)۔دھوبی کا کتا : اسم (م) اِللذی نہ اُللذی ۔ ادھر نہ اُدھر ۔ بے سروپا آدمی ۔ محض نکما اور بیکار آدمی۔ آوارہ گرد ۔ جیسے دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ اردو لغت‘ مرکزی اردو بورڈ لاہور ۔ (صفحہ نمبر ۱۹۶)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ ایسے شخص کے متعلق بولتے ہیں جو بالکل ناکارہ ہو۔ علمی اردو لغت (جامع)۔ علمی کتب خانہ‘ لاہور ( صفحہ نمبر ۷۶۶)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کا (مثل) جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو ‘ نکما اور بے کار آدمی۔ نہ ادھر کا نہ اُدھر کا۔ فیروزاللغات (جامع)۔ (صفحہ نمبر۶۶۷)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ جس کا کوئی ٹھکانہ ‘ نہ ہو ‘ نکما ۔ بے کار ‘ نہ ادھر کا نہ اُدھر کا}

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب!  اگر آپ نے کالم نمبر 72پڑھا ہوتا تو آپ دیکھتے کہ خاکسار نے کہیں بھی اس محاورے کو غلط قرار نہیں دیا۔ اب آپ یہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ میں نے ماقبل کیا لکھا تھا:

فرہنگ آصفیہ میں اس پیشے کے متعلق یہ اندراجات شامل ہیں: ۱)۔ دُھلائی (ہندی) اسم مؤنث، کپڑے دھونے کی اُجرت، دُھلوائی۔۲)۔ دُھوب (ہندی) اسم مذکر، شوپ، دُھلاوَٹ، ۳)۔ دُھوب پڑنا (ہندی) فعل لازم، شوب پڑنا، دھویا جانا،۴)۔ دھوبن (ہندی) اسم مؤنث، دھوبی کی بیوی، کپڑے دھونے والی عورت، ایک چڑیا کا نام (پرندہ: دھوبی چڑیا)، ۵)۔ دھوبی (ہندی) اسم مذکر، کپڑے دھونے والا ، برینٹھا}یہ لفظ بالکل متروک اور نامانوس ہے{۶)۔دھوبی پاٹ (ہندی) اسم مذکر، کُشتی کے ایک پیچ کا نام جس میں حریف کو کمر پر لاد کر دے مارتے ہیں۔

کپڑا دھونے کی سِل یا تختہ،۷)۔ دھوبی کا چھیلا (ہندی) صفت، پرائے مال پر اِترانے والا، دورَنگا، ناموزوں لباس والا، ۸)۔ دھوبی کا کُتّا (ہندی) اسم مذکر۔ اِلَّل لَذی نہ اُلَّل لَذی، اِدھر نہ اُدھر، بے سروپا آدمی، محض نکمّا اور بے کار آدمی، آوارہ گرد جیسے ’دھوبی کا کُتّا ، گھر کا نہ گھاٹ کا‘}اِلَّل لَذی نہ اُلَّل لَذی خالصاً زنانہ فقرہ /کہاوت ہے۔

یہ جب بولاجاتا تھا کہ جب کوئی شخص کسی معاملے میں تَذَبذُب کا شکار ہو اور کسی ایک طرف ہونے کی بجائے کبھی کچھ تو کبھی کچھ کہتا ہو۔ غیرمستقل مزاج پر بھی منطبق ہوتا تھا{۔ یہاں محض اطلاعاً عرض کردوں کہ راجہ راجیسور رائو اصغرؔ جیسے فاضل نے اپنی ہندی۔اردو لغت میں دھوبی شامل نہیں کیا اور قدرت نقوی نے بھی اس کے ضمیمے میں اس کا ذکر ضروری خیال نہیں کیا۔ نوراللغات میں فرہنگ آصفیہ سے استفادے کے بعد، لکھا ہے: ’’ دھوبی سے بَس نہ چلے، گدھے کے کا ن کاٹے (مَثَل)]یعنی[ زبردست سے (پر) زور نہ چلا تو کمزور کو دَبالیا۔‘‘ زیربحث کہاوت کے متعلق مولوی نور الحسن نَیّر نے لکھا ہے: ’’اُس شخص کی نسبت بولتے ہیں جو کسی مَصرَف کا نہ ہو، جیسے ’ارے ہندوستانی بھائیو! خدا کے واسطے، کچھ ہاتھ پائوں ہِلائو۔ اب تو گھر بار سب جگہ ترقی کا دَوردورہ ہوچلا۔ اب تو مُنہ (منھ)چھُپانے کو کہیں جگہ نہیں رہی۔ اگر پھسڈی رہ گئے تو پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ سچ مچ دھوبی کے کُتّے، گھر کے نہ گھاٹ کے۔‘‘ نوراللغات میں لفظ ’کَتّا‘ کے ذیل میں لکھا ہے: (ہندی ) بالفتح (یعنی زبر سے)، ایک مشہور قسم کی تلوار جو آگے سے چوڑی اور دُہری دھار کی ہوتی ہے۔

اسی لغت میں لفظ ’کُتّا‘ (جانور) کے دیگر معانی میں لکھا ہے: بندوق کا گھوڑا، گھڑی کا پُرزہ جو چکّر کو روکتا ہے، رَہٹ کی لکڑی جو اُس کے چکّر کے اوپر لگی رہتی ہے، (نیز) کنایتاً پیٹ جیسے یہ کُتّا ایسا پیچھے لگا ہے کہ کہیں سے ہو، پہلے اِسے کھِلادو۔ مزید تفصیل کے لیے لغت ملاحظہ فرمائیں۔ کُتّے کے متعلق فرہنگ آصفیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک قسم کی گھاس بھی کُتّا کہلاتی ہے ، جس کی بال کپڑوں میں لپٹ جاتی ہے۔ اسے لیدھڑا بھی کہا جاتا ہے۔ مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ گھاس عربی میں السبط المحدب، فارسی میں خوردال، انگریزی میں ان ناموں سے پکارا جاتا ہے:Buffel grass, African foxtail grass, Foxtail Buffalo grass,Blue buffalo grass, Rhodesian foxtail and Sandbur ۔ اس کا نباتی نام Cenchrus cilié ہے۔ }یہاں رک کر ایک دل چسپ نکتہ بیان کرتا ہوں۔

ہمارے یہاں نیلے پھولوں کی ایک بیل کو ’’کُتّا بیل‘‘ اور اس کے پھولوں کو کُتے والے پھول کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل Asian pigeonwings ہے جس کے بہت سارے نام ہیں اور ہندو اپنی پوجا کی رسوم میں بھی استعمال کرتے ہیں{۔ پروفیسر محمد حسن کی مُرَتّبہ فرہنگ اردو محاورات میں زیربحث کہاوت کو بطور محاورہ شامل کرتے ہوئے یہی لکھا گیا: ’’اِدھر، اُدھر پھرنے والا، نکمّا آدمی‘‘، پھر ایک اور اضافہ یہ کیا گیا: ’’دھوبی کا گیت (کی گت)، دھوبی جانے یعنی جس کا کام، اُسی کو بھاوے۔‘‘ ہم تو یہی سنتے پڑھتے آئے ہیں کہ جس کا کام اُسی کو ساجے (یعنی سجتا ہے)۔ ناموراستاد فارسی محترم حضوراحمدسلیم مرحوم (شعبہ فارسی، جامعہ سندھ، جام شورو، حیدرآباد۔سندھ) نے اپنی درسی کتاب ’آموزگارِفارسی‘ میں ’’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کا فارسی مترادف بھی تحریر فرمایا تھا: ’’از آنجا ماندہ، از اِین جا راندہ۔‘‘ (طبع چہارم، فروری ۱۹۸۴ء)۔ فرہنگ عصریہ (اردو سے فارسی لغات) از حافظ نذراحمد، پرنسپل شبلی کالج، لاہور کی رُو سے یہ برعکس ہے: ازاین جا درماندہ و ازآنجا راندہ۔

تازہ ترین از قلم سہیل احمدصدیقی:

محترم شجاع الدین غوری صاحب نے یہ انکشاف بھی فرمایا ہے کہ اصل میں دھوبی کا کُتّا نہیں، بلکہ گدھا کارآمد ہوتا ہے، اسی لیے کہاجاتاہے،’’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا یعنی کسی کام کا نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے اُن کے زیرِبحث مکتوب کا پانچواں اقتباس:

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس پنجم

{ دھوبی کا گدھا دھوبی کے لیے بڑے کام کا جانور ہے۔ گھر سے میلے کپڑوں کی لادی/گٹھری لاد کر گھاٹ تک پہنچاتا ہے اور شام کو دُھلے ہوئے کپڑوں کی گٹھری گھر پہنچاتا ہے، دھلنے اور استری ہونے کے بعد کپڑوں کو ان کے مالکوں تک پہنچانے میں بھی دھوبی کی مدد کرتا ہے۔ گھاس پھوس‘ دھوبی کے گھر کی بچی کھچی روٹی کے ٹکڑے بھی کھا کر گزارہ کرلیتا ہے۔

 

دھوبی کا کتا دھوبی کے کسی کام کا نہیں‘ دھوبی کے لیے وہ بے کار اور نکما جانور ہے۔ کتا وہ نہیں کھاتا جو گدھا کھا تا ہے اور دھوبی کے پاس وہ نہیں جو کتا کھاتا ہے۔ اگلے وقتوں میں نوے فیصد دھوبی ہندو ہو اکرتے تھے۔ ان کے مذہب میں ماس‘ مچھلی حرام ہے لہٰذا کتا گھر پر ہو یا گھاٹ پر اپنی بھوک مٹانے کے لیے ادھر اُدھر گھومتا پھرتا ہے۔ اور زیادہ وقت آوارگی میں گزارتا ہے۔ نہ گھر کو ٹھکانہ بناتا ہے اور نہ گھاٹ کو۔ اس لیے کہا جاتا ہے ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ یعنی کسی کام کا نہیں۔ بے کار} ۔

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب! راقم کو کسی بھی لغت یا دیگر مآخذ سے ایسا کوئی مواد نہیں ملا کہ آپ کے اس خیال کی تصدیق کرسکے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی فاضل اہل قلم نے یہ اظہارخیال فرمایا ہو کہ گدھے کو کُتّے پر فوقیت وفضیلت حاصل ہے، مگر پھر بھی اس بات کا ہماری بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ اب ملاحظہ فرمائیں کہ کالم زباں فہمی نمبر 72(دھوبی کا کُتّا ہوتا ہے یا کتکا؟) کا حاصل کلام کیا تھا:

تمام مآخذ سے خوشہ چینی کرتے ہوئے بندہ یہی کہہ سکتا ہے کہ بلاسند وحوالہ پھیلائی گئی یہ بات غلط ہے کہ اصل کہاوت ہمارے مشہور جانور، اور مغرب میں علامت ِ وفاداری، کُتّا صاحب کی بجائے کَتّا یا کُتکا یا کُتکہ کے متعلق ہے۔ ٹی وی کے بقراط کو یہی بات ذرا بقراطی انداز میں سمجھانے کے لیے خاکسار یوں سعی کرتا ہے: یہ لسانی قیاس ہے جسے اجتہاد کا درجہ ملنا بعیدازقیاس ہے، چہ جائیکہ اس پر اِجماع ہوجائے۔

٭٭٭

اب آئیے کچھ اور موضوعات کی طرف رُخ کریں۔ چونکہ راقم کا تعلق شعر و ادب کے علاوہ، درس تدریس، نشریات اور تشہیر کے شعبہ جات سے بھی ہے، لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ ان شعبوں میں ہونے والے لسانی معاملات سے یکسر پہلو تِہی کرسکے۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز پر جس طرح زبان کو شعوری اور لاشعوری طور پر بگاڑا جارہا ہے، اس کے سَدّباب کے لیے خاکسار سمیت متعدد اہل قلم اپنی سی کوشش کیے جارہے ہیں، مگر تخریبی عناصر بظاہر تعمیری عمل پر اس طرح غلبہ کیے ہوئے ہیں کہ دور تک تاریکی یا نیم تاریکی ہی نظر آتی ہے۔

بہرحال ہم مایوس ہیں نہ بددِل، کیونکہ ہمارے پاس ذہن، زبان اور قلم کے بے مثل ہتھیار ہیں جن سے قوموں کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ یہ ہیچ مَدآں ایک طرف اپنے نجی مسائل سے نبردآزما ہے تو دوسری طرف، یہ اصلاحی اُمور ہیں جن سے یکسر دست کَش ہونا ہرگز ممکن نہیں۔ قومی زبان تحریک کے زیراہتمام اکیس دسمبر سن دوہزار بیس کو بہادریارجنگ اکادمی، کراچی میں منعقد ہونے والی ایک خصوصی تقریب میں مجھے مسند ِصدارت پر براجمان ہونے کا شرف ملا تو نہایت اختصار سے عرض کیا کہ ہمیں ہر شعبے کے ماہرین کو یکجا کرکے عملی مساعی کرنی ہوں گی۔ خواہی نخواہی مجھے اس تحریک سمیت متعدد تنظیموں اور افراد کے واٹس ایپ حلقوں کا حصہ بننا پڑا یا بنا دیا گیا، کچھ میں منتظم کی گدّی بھی پیش کردی گئی ، گویا خاکسار گدّی نشیں ہوگیا۔

واٹس ایپ اور فیس بک کی برکات سے مستفیض ہوتے ہوئے مجھے بعض ایسے احباب کی دوستی نصیب ہوئی کہ ناصرف میرے علمی ذوق کی تسکین ہوتی ہے، بلکہ زبان وادب سے متعلق معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے اور اکثر کم یاب یا نایاب، قدیم وجدید، وقیع کتب کا ہدیہ PDF فائل کی شکل میں موصول ہوتا رہتا ہے۔ انہی حضرات میں محترم سلیم فاروقی صاحب بھی شامل ہیں جنھوں نے اپنے دائرہ علم وادب پاکستان نامی واٹس ایپ حلقے اور فیس بک پر ایک منفرد تحریک بعنوان ’’بھولی بِسری اردو‘‘ اور اس کے تحت ’’اردوبحالی مہم‘‘ کا کچھ عرصے قبل آغاز کیا۔

اس عمدہ تحریک کے نتیجے میں اردو گو طبقے میں یہ شعور اُجاگر ہورہا ہے کہ ہم اپنے روزمرہ معمولات میں، بِلاضرورت ایسے انگریزی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جن کا متبادل یا مترادف، ماقبل اردو میں موجود ہے۔ خاکسار نے سن دو ہزار پندرہ میں کالم زباں فہمی کے آغاز سے پہلے بھی اپنی تحریروتقریر میں اس نکتے پر بہت زور دیا، مگر بہرحال ’’چھُٹتی نہیں ہے مُنھ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ کے مصداق ، فی الحال یکسر تبدیلی ممکن نہیں۔ یوں بھی ’’تبدیلی سرکار‘‘ نے عوام الناس اور خواص سمیت سب کی طبیعت صاف کردی ہے اور اب اس کے معانی بدل چکے ہیں۔

دائرہ علم وادب پاکستان کے محترم رکن، سید شہاب الدین (مقیم سعودی عرب) نے یہ دل چسپ تحریر پیش فرمائی:’’تمام ”تعلیم” یافتہ خواتین و حضرات اور ہر عمر کے تعلیم پانے والے بچے اور بچیوں سے میری گزارش ہے کہ ریختہ یعنی زبان اردو، اردوئے معلی…ہماری دل ربا، دل آرام، دل پسند، دل فزا، دل افروز، دل آفرید، دل دار، دل موہی، دل خواہی، دل شاہی، دل گیر، دل پذیر، دل خوگر، دل چسپ، دل بست، دل کشا، دل کشاد، دل کشود، دل تافتہ، دل پرور زبان ..ہماری بے توجہی سے، عدم استعمال سے، عدم مہارت و موانست سے، عدم اہتمام و تکلف سے دل گرفتہ، دل آزار، دل بند، دل سوز، دل دوز، دل شوریدہ، دل ربودہ، دل برداشتہ…حتیٰ کہ دل مردہ ہوتی جاتی ہے۔ براہ کرم اسے کتابت میں لائیں، اسے استعمال میں لائیں، ایک دوسرے کو رسائلِ اردو یعنی Messages کو اردو رسم الخط میں لکھ کر بھیجیں اور مقابل کو اسی رسم الخط میں موصول کرنے کی درخواست کریں، ورنہ عدم افادیت سے تو ڈایناسور بھی ناپید (Extinct) ہوجاتے ہیں۔

اس بے چاری الہڑ، بانکی، حسین و جمیل دوشیزہ (اردو) کو بدقسمتی سے سرکاری سر پرستی تو نہ مل سکی، ہائے افسوس! لیکن اگر ہم سب نے مل کر اس دوشیزہ کی زلفیں نہ سنواریں تو اس کے عارض ِگلگوں کی سرخی و تازگی کمھلا جائے گی۔ خدا کے لئے اسے بچا لو، خدا کے لئے اس اپنا لو، خدا کے لئے اسے اپنا بنا لو۔‘‘ دائرہ علم وادب پاکستان کے محترم قائدین ڈاکٹر افتخارکھوکھر صاحب اور جناب احمد حاطب صدیقی، قوم کے بڑوں کے ساتھ ساتھ، بچوں کی اصلاح وتہذیب کے لیے عملاً کمربستہ ہیں اور اُن کی ادارت میں اکادمی ادبیات پاکستان کا سہ ماہی ادبیات ِ اطفال گزشتہ چار سال سے فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ وطن عزیز میں قومی زبان اردو کے ہمہ جہت نفاذ کے ضمن میں، ادب ِاطفال کا فروغ بہت ضروری ہے۔ اس ضمن میں ابتدائی کاوش اردو میں اور پھر ایک عرصے کے بعد، انگریزی اور علاقائی زبانوں میں بھی کی جائے۔ بحمداللہ! راقم نے اس ضمن میں مساعی شروع کردی ہیں۔

The post پھر وہی دھوبی کا کُتّا…….. appeared first on ایکسپریس اردو.

گنج پن کے لئے وگ کا انتخاب کیوں؟

$
0
0

 لاہور: پاکستان میں انسانی بالوں کی خریدوفروخت کا کاروبار بھی بڑھتاجارہا ہے،یہ انسانی بال وگوں کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں، گنجے پن اوربالوں کے گرنے کے مسائل سے دوچار افراد جہاں اب پیوندکاری کروا رہے ہیں وہیں آج بھی بڑی تعداد وگ کے استعمال کو ترجیع دیتی ہے۔ مارکیٹ میں اس وقت سینی تھیٹک وگیں بھی دستیاب ہیں تاہم ان کے مقابلے میں قدرتی بالوں سے تیاروگ زیادہ مہنگی اورپسند کی جاتی ہے۔ نوجوان جہاں شخصیت کی خوبصورتی کے لئے وگ استعمال کرتے ہیں وہیں خواتین شادی بیاہ اور مختلف تقریبات میں شرکت کے موقع پر منفرداندازکی وگ استعمال کرتی ہیں۔

ناصر حسین لاہور کے انارکلی بازارمیں وگیں تیارکرنے والے سب سے پرانے کاریگرہیں، 60 سال پہلے ان کے والد نے یہ کام شروع کیا تھا جسے آج ناصر حسین اور ان کے بھائی چلارہے ہیں۔

ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ناصرحسین نے بتایا ان کے پاس مرد وخواتین دونوں کے لئے وگیں موجود ہیں،مردوں کے استعمال کے لئے وگیں انسانی بالوں سے ہی تیارہوتی ہیں جبکہ خواتین کے استعمال کے فینسی وگیں مصنوعی بالوں سے تیارکی جاتی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ وگیں تیارکرنے والے کئی کاریگرہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ پہلے پورے سر کے لئے وگ تیارکی جاتی تھی جوکافی مشکل ہوتا تھا تاہم پارٹس کی شکل میں وگ تیار ہوتی ہے جو زیادہ آسان ہے۔ اس کے علاوہ مشینری کی مدد سے بالوں کی صفائی اورانہیں اکٹھا کرنا بھی آسان ہوگیا ہے۔

وگ کی تیاری کے لئے انسانی بال چارسے پانچ ہزارروپے فی کلوخریدے جاتے ہیں اور پھر صفائی کے بعد 10 سے 12 ہزار روپےکلومیں فروخت ہوتے ہیں۔ انسانی بال گھروں اور خاص طورپر خواتین کے پارلرزسے خریدے جاتے ہیں۔ بال جتنے زیادہ لمبے ہوتے ہیں ان کی قیمت بھی اسی قدرزیادہ ہوتی ہے،انسانی بالوں کی سب سے زیادہ خریدوفروخت انڈیا میں ہوتی ہیں جہاں خواتین مذہبی رسم کے طورپر سر کے بال منڈواتی ہیں۔

ناصر حسین کہتے ہیں یہ بال بھارت اور بنگلا دیش سمیت مختلف ممالک سے منگوائے جاتے ہیں ، اس کے علاوہ جب سے پاکستان میں خواتین پارلر زیادہ کھلے ہیں اس وجہ سے بھی انسانی بال آسانی سے مل جاتے ہیں ،پہلے ان کی قیمت کم تھی لیکن جب سے یہ بال چائنہ ایکسپورٹ شروع ہونا شروع ہوئے ہیں ان کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ ایک وگ کی تیاری میں دوہفتے لگ جاتے ہیں، ایک وگ کی قیمت 5 ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے جو 10 پندرہ ہزار تک جاتی ہے۔ وگ اس طریقے سے تیارکی جاتی ہے کہ اسے آسانی سے پہنا اور اتارا جاسکتا ہے، اگر کسی حصے سے بال گرجائیں تو وہ دوبارہ لگائے جاسکتے ہیں، وگ کی مرمت بھی ہوجاتی ہے، ایک وگ کا اگر اچھے طریقے سے استعمال کیا جائے تو دو سال تک چل جاتی ہے۔انسانی بالوں سے تیار وگ کو پسند کا ہیرکلر بھی کیا جاسکتا ہے۔

وگ خریدنے آئے ایک نوجوان فضل خان نے بتایا کہ ان کی عمر ابھی 24 سال ہے لیکن ان کے سر کے بال تیزی سے گررہے ہیں، اس لئے وہ وگ استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی پرسنلٹی اچھی لگے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہیں، ان کی بیوی توانہیں گرتے بالوں کے ساتھ بھی پسندکرتی ہیں لیکن مسلہ بیوی کا نہیں بلکہ سوسائٹی کا ہے۔ اگرکہیں سیروتفریح کے لئے جاناہو یا پھرآفس میں جب بزنس میٹنگ ہوتی ہے توانہیں عجیت لگتا ہے۔ وہ زیادہ عمرکے لگتے ہیں۔

ایک خاتون نادیہ طفیل نے بتایا ہماری خوراک، آب وہوا اورمختلف بیماریوں کی وجہ سے کم عمری میں ہی بال گرناشروع ہوجاتے ہیں ، یہ مردوں اور عورتوں دونوں کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح کینسر کی مریض خواتین جن کے کیموتھراپی کے دوران بال بالکل ختم ہوجاتے ہیں ان کے لئے بھی پھرکااستعمال ضروری ہوجاتا ہے۔ وگ ضرورت کی ماں ہے۔ اس کے علاوہ خواتین شادی بیاہ اوردیگرتقریبات کے موقع پر بھی خوبصورت دکھانی دینے کے لئے وگ استعمال کرتی ہیں، ایسی وگیں عموما مصنوعی بالوں سے تیارکی گئی ہوتی ہیں جو چند بار کے استعمال کے بعد فارغ ہوجاتی ہے، ان کے اپنے بال بھی چھوٹے ہیں اور گرتے ہیں اس لئے کسی تقریب میں جانے کے لیے وہ وگ استعمال کرتی ہیں۔

وگ میکر خریدار کے سر کے سائزاوراس کی پسند کے مطابق وگ تیارکرتے ہیں، وگ کے اندرپلاسٹک اورچپکنے والا سٹکراستعمال کیاجاتا ہے جسے آسانی سے پہنا اوراتاراجاسکتا ہے، بالوں کے گرنے کے مسائل سے دوچار نوجوان پیوندکاری کی بجائے وگ لگواتے ہیں۔

گنجے پن کا شکارکئی افرادپیوندکاری کرواتے ہیں تاہم یہ پراسیس کافی مہنگا ہونے اوراس کے سائیڈافیکٹس کی وجہ سے کئی لوگ بالوں کی پیوندکاری سے ڈرتے ہیں ،فلموں ، ڈراموں کے اداکار اور خواجہ سرا بھی یہ وگیں استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ناصرحسین جیسے وگیں تیارکرنیوالے کاریگروں کا روزگارچل رہاہے۔

The post گنج پن کے لئے وگ کا انتخاب کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

معاملہ لڑکیوں کی شادی کا

$
0
0

صبیحہ میری بچپن کی دوست تھی، اس کے بھائی بھابی امریکا سے آئے ہوئے تھے۔ ہم نے ان لوگوں کو کھانے پر بلایا۔ ان کے ساتھ پیاری سی بیٹی نتاشا تھی، جو اگرچہ بہت زیادہ خوب صورت تو نہ تھی، لیکن دیکھنے میں پیاری لگتی تھی۔

سانولی سلونی رنگت، لمبا قد پھر قاعدے سلیقے سے پہنے اوڑھے ہوئے تھی۔ میں نے اس سے پوچھا ’ تم پڑھتی ہو‘ اس نے بتایا کہ ’بی ایس کر لیا ہے، دو سال سے ایک کمپنی میں جاب کر رہی ہوں۔‘

میں نے بھابی سے مزاحاً پوچھا ’ نتاشا کی شادی کب کر رہی ہو۔۔۔؟‘ بھابھی ایک دم سنجیدہ ہوکر بولیں ’بھئی کوئی اچھا رشتہ بتاؤ، ہم تو فوراً تیار ہیں۔‘ صبیحہ نے میرے کان میں سرگوشی کی’اسی لیے تو لائی ہوں۔‘ میں نے کہا ’ بھابھی آپ ہیوسٹن میں رہ رہی ہیں، وہاں تو پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔‘ بھابی نے جواب دیا’ وہاں شادیاں مشکل سے چلتی ہیں۔‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’ آخر کیا وجوہ ہوتی ہیں۔‘

بھابی سنجیدہ ہو کر بولیں۔ ’بھئی ہمارے ایک دوست کی بیٹی کا رشتہ اس لیے ٹوٹا کہ لڑکا اور لڑکی بہت ’امریکن‘ ہوگئے تھے۔ ماں باپ کو پیچھے چھوڑ کر سب کچھ خود ہی طے کرلیا۔ آخر پاکستانی ماں باپ تھے، انھیں یہ بات بالکل پسند نہ آئی۔ لہٰذا آپس میں غلط فہمیاں پیدا ہونا شروع ہوئیں اور آخر کار رشتہ ٹوٹ گیا۔ ایک ہماری ڈاکٹر دوست ہیں، جن کے شوہر بھی ڈاکٹر ہیں۔ دونوں میاں بیوی نیویارک میں لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں۔

ان کی ایک ہی بیٹی ہے، بہت دھوم دھام سے بالکل پاکستانی انداز کی زور دار شادی کی، خوب جہیز دیا۔ لڑکا ابھی ایم ایس کر کے نمٹا تھا، جاب نئی تھی، چھوٹا سا اپارٹمنٹ لے کر رہ رہا تھا۔ لڑکی کے ماں باپ اس کو بے چارہ سمجھ کر ہر چھوٹی بڑی چیز دیے جا رہے تھے۔ چھے ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ لڑکا اس صورت حال سے تنگ آگیا۔ اس نے لڑکی کو منع کیا کہ ہر وقت اپنے ماں باپ سے چیزیں نہ لیا کرو، لیکن لڑکی شاید اس پر تیار نہ ہوئی ایک دم ہی سنا کہ طلاق ہوگئی۔ بہن ایک قصہ ہو تو سناؤں، وہاں تو آج کل ’قیامت‘ سی مچی ہوئی ہے۔ دھوم دھام سے شادیاں ہوتی ہیں اور پھر چند ہی مہینے میں طلاق کا سن لو۔ لہٰذا ہم نے سوچا ہم اپنی بیٹی کو پاکستان لے کر جائیں گے اور وہیں اس کا رشتہ کریں گے۔‘

میں نے قدرے متعجب ہو کر پوچھا ’ آپ کی لڑکی یہاں پرورش پائے ہوئے لڑکے سے نباہ کرلے گی؟‘

بھابی سکون سے بولیں ’اسی لیے تو ہم ہر دو سال بعد بچوں کو پاکستان لاتے رہتے ہیں کہ اپنے ماحول سے واقف رہیں، اپنے رشتہ داروں کو جانیں اور سچی بات ہے میری بچیوں کا تو امریکا سے کہیں زیادہ پاکستان میں اپنے رشتہ داروں میں دل لگتا ہے۔ وہاں تو مستقل یہ انتظار ہی رہتا ہے کب پاکستان جائیں۔ ہم امریکیوں سے بچوں کو ملنے نہیں دیتے۔ بس اسکول کالج وغیرہ میں جو ساتھ ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ گھر پر تو آنا جانا ہوتا نہیں۔ شادی بیاہ میں اگر ان لوگوں کو مدعو کر لیا جاتا ہے، تو وہ بہت حیران ہوتے ہیں۔‘ میں نے بھابی کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’ویسے بھابی اب ہماری نسل اپنے کلچر پر شرم سار بھی تو نہیں ہے۔ ہمارے بچے ہم لوگوں کی طرح انگریز یا امریکیوں سے اس طرح مرعوب بھی تو نہیں ہوتے۔ ان کے اندر غلامی کے اثرات باقی نہیں ہیں۔‘

بھابی سنجیدہ ہوکر بولیں ’بھئی وہاں کی پرورش پائی ہوئی لڑکی تو شادیوں کے معاملے میں دُہری مشکل میں ہے۔ ایک ہمارے دور کے رشتہ دار ہیں ان کے لڑکے کا پرسوں نتاشا کے لیے رشتہ آیا۔ لڑکے کے ابا تمھارے بھائی سے کہنے لگے۔ ’آپ کا ماحول تو بہت ماڈرن ہوگا۔‘ ادھر لڑکے کی والدہ مجھ سے پوچھنے لگیں۔ ’آپ تو اکثر پاکستان آتی ہیں، تو وہاں جوان بچی اکیلی رہتی ہوگی۔‘ بھلا بتاؤ باپ کے ساتھ کوئی اکیلا ہوتا ہے۔ لڑکیاں کیا یہاں اکیلی اسکول کالج نہیں جاتیں۔ مگر لوگ کہاں یقین کرتے ہیں۔ ہم دوسرے ماحول میں بچے پال رہے ہیں ہمیں کتنی سختی کرنا پڑتی ہوگی۔ ہم تو یہاں سے زیادہ اپنا کلچر، عقیدے، عقائد بچوں کو بتاتے ہیں اور ان پر عمل بھی کراتے ہیں۔‘

امریکا انگلستان میں جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود ہے، وہاں اب لوگوں نے شادی کرانے کی سروس بھی شروع کر دی ہے۔ خواتین اور بعض دفعہ مرد بھی اکثر ٹیلی فون کے ذریعہ رشتے کرانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں شکر ہے کہ اس معاملے میں لوگ ٹیلی فون پر اعتبار نہیں کرتے، ورنہ کبھی کوئی رشتہ نہ طے ہو پاتا کیوں کہ اکثر ٹیلی فون خراب ہی رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں شادی کرانے کے دفتر ضرورت سے بہت کم نظر آتے ہیں۔ جتنی لڑکیاں لڑکے شادی کے لائق نظر آتے ہیں اس لحاظ سے یہ سروس بہت کم ہے۔

اکثر والدین ان دفاتر میں جانے سے کتراتے بھی ہیں۔ اپنے لڑکے کے لیے رشتہ تلاش کرنا بہت عزت کی بات ہے، لیکن اپنی لڑکی کے لیے رشتہ تلاش کرنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ حالاں کہ آج کل کے حالات کے پیش نظر جب شہروں میں خاندان اس طرح بکھر گئے ہیں اور آبائی سلسلے شہروں کی حد تک ختم ہوتے جا رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ شادی دفتر ہر محلے میں کھولے جائیں۔ بعض برادریوں میں پرانے زمانے کی نائنیں، اب بیچ والی کے نام سے رشتے کرانے کا کام انجام دیتی ہیں، لیکن ایسی عورتوں کی تعداد بھی بہت کم ہے جو بڑھانے کی بہت ضرورت ہے اور پھر معاشرے میں یہ بات معیوب سمجھی جاتی ہے کہ اپنی لڑکی کے رشتے کے بارے میں ماں باپ زبان کھولیں، اس بات کو بھی اب ختم کرنا چاہیے۔

ہمارے معاشرے میں لڑکی اور لڑکے کا رشتہ طے کرنے میں بڑے مسائل حائل ہیں۔ ذات پات، برادری، نسل اس موقع پر ہر چیز سامنے لائی جاتی ہے۔ ایک طرف ہر لڑکے کی ماں حسین ترین اور مال دار گھرانے کی بہو لانے کی جستجو میں لگی رہتی ہے۔ نباہ ہو نہ ہو یہ معاملہ شادی کے بعد خود لڑکا یا لڑکی طے کریں۔ لڑکے کی ماں بہنیں اپنے ارمان پورے کرنے کی فکر میں رہتی ہیں، لیکن لڑکی کے ماں باپ اور بہن بھائی کسی ارمان کے حق دار نہیں۔

امریکا میں جہاں ہر قسم کی آزادی ہے اور لڑکا لڑکی دونوں کے ماں باپ اس ذمہ داری سے بری الذمہ ہوتے ہیں کہ ان کی اولاد کی شادیاں کہاں ہوں کب ہوں حتیٰ کہ کیسے ہوں، مگر اب وہاں بھی اب شادی کے دفاتر کھل رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک خاتون نے نیویارک کے ایک بارونق ، مصروف ترین اور مہنگے علاقے میں ’شادی دفتر‘ کھولا، جس میں وہ شادی کے خواہش مند لڑکا یا لڑکی دونوں سے 500 ڈالر فیس لیتی ہیں اور رشتہ اس طرح طے کراتی ہیں کہ پہلے کمپیوٹر کے ذریعے ان کے تمام کوائف معلوم کرتی ہیں، پھر ضرورت کے مطابق رشتہ مہیا کرتی ہیں۔

جب دونوں فریق اس رشتے پر راضی نظر آتے ہیں، تو پھر دونوں کے لیے ایک بہت اچھے ہوٹل میں کھانے کا انتظام کرتی ہیں، تاکہ دونوں ایک دوسرے سے مل کر تمام معلومات حاصل کر لیں۔ اس طرح کی کئی ملاقاتوں کے بعد لڑکا اور لڑکی کی رضا مندی کے بعد ان کی شادی کرا دیتی ہیں۔ ضرورت رشتہ کا یہ ادارہ اس قدر مقبول ہو رہا ہے کہ ایک سال کے عرصے میں لاس اینجلس، شکاگو اور دوسرے بڑے شہروں میں اس کی شاخیں کھل رہی ہیں اور فیس بھی دوگنی کر دی گئی ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعے دولھا دلہن رشتہ ازدواج میں منسلک ہو رہے ہیں۔

ہمارے یہاں لڑکی یا لڑکے کی شادی کا مسئلہ شدید صورت اختیار کر رہا ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں نیک جذبات کے ساتھ شریک ہوں۔ ہمارے یہاں یوں بھی کسی کا رشتہ طے کرانا کارِ خیر سمجھا جاتاہے۔ اخبارات میں ضرورت رشتہ کے کالم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں، لیکن وہ لوگ صرف نشان دہی کر دیتے ہیں۔ یہاں ضرورت نشان دہی سے آگے کی ہے، کیوں کہ اپنے قریبی رشتہ داروں میں بھی رشتہ طے کرتے وقت لڑکا اور لڑکی دونوں کے بارے میں معلومات ضرور فراہم کی جاتی ہے، جو لڑکی اور لڑکے والوں کا حق بھی ہے۔

ہمارے یہاں جس رفتار سے شادی ہال بڑھ رہے ہیں، تقریباً اسی رفتار سے یا شاید اس سے بھی زیادہ ’شادی دفتر‘ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جن میں سنجیدہ اور متین لوگ کام کریں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی ’شادی دفاتر‘ بہت کم نظر آتے ہیں۔ جہاں لوگ تندہی سے کام کر رہے ہوں۔ اس معاملے میں عورتوں کو ایک خاص ڈھب بھی ہوتا ہے اور چند یہ کام کر بھی رہی ہیں، لیکن زیادہ سے زیادہ عورتوں کو اس میدان میں آگے آنا چاہیے، بعض رفاحی ادارے بھی یہ کام کرتے ہیں، لیکن اس کی کارکردگی اور تعداد میں اضافہ ضروری ہے۔

The post معاملہ لڑکیوں کی شادی کا appeared first on ایکسپریس اردو.


’’موبائل مانیٹرنگ ایپس ‘‘

$
0
0

آن لائن کلاسوں کی وجہ سے اب موبائل فون کا استعمال بچوں سے لے کر نوجوانوں تک کافی ضروری ہو گیا ہے، کیوں کہ زیادہ تر گھروں میں لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کے بہ جائے ’اسمارٹ فون‘ پر ہی کلاسیں لی جاتی ہیں۔۔۔

نوجوانوں کی نسبت چھوٹے بچوں میں موبائل فون تک رسائی اور ’آن لائن‘ کلاسوں کی وجہ سے ہر وقت موبائل کا استعمال ایک خطرناک صورت حال اختیار کر چکا ہے۔

ان دنوں آن لائن کلاسوں سے پہلے یا اس کے بعد ویڈیو گیم کھیلنے یا دیگر مشاغل کی ایپس کے استعمال کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، چوں کہ کلاس کے بچوں کے وٹس ایپ گروپ بن چکے ہیں، اس لیے بچے اپنی عمر کے دوستوں کو غیر ضروری پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے کے انتظار میں اپنا بہت سا قیمتی وقت بھی برباد کر نے لگے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ پریشان کن معاملہ غیر مناسب ویب سایٹ ہیں، جو اب چھے سے 13 سال کے بچوں کی پہنچ میں آگئی ہیں اور یہ خطرناک دنیا انگلی کی ایک ’جُنبش‘ کے فاصلے پر ہے، جو معصوم ذہنوں پر انتہائی منفی اثرات  مرتب کر سکتی ہے۔

گویا ایک ایسا مہلک ہتھیار بچے کے ہاتھ میں آ چکا ہے، جو ان کی ذہنی، جسمانی، جذباتی نشوونما کو بدترین نقصان پہنچا سکتا ہے اور والدین چاہے کتنی بھی کوشش کر لیں، وہ اپنے بچے کو اس ناگہانی آفت سے نہیں بچا سکتے اور نہ ہی وہ ہر وقت ان پر نگران رہ سکتے ہیں، کیوں کہ آن لائن کلاسوں کی وجہ سے بچوں کو یہ جواز مل چکا ہے کہ وہ نہ صرف موبائل رکھ سکتے ہیں، بلکہ کسی بھی وقت استعمال کر سکتے ہیں۔

بعض اوقات آن لائن کلاسوں کا وقت، پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا، اچانک شروع ہونے والی کلاسوں میں والدین بچوں کے لیے وقت نہیں نکال سکتے، جس کی وجہ سے بچوں کی موبائل کی سرگرمیوں سے مکمل طور پر باخبر رہنا ان کے لیے ممکن نہیں،  لہٰذا آج کا بچہ بے خوف ہو کر موبائل کا آزادانہ استعمال کر رہا ہے اور اب آپ انھیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کون سا وقت ہے موبائل دیکھنے کا؟ یا کیا ہر وقت موبائل لیے بیٹھے ہو؟ کیوں کہ بچہ آپ کو بہت آسانی سے یہ کہہ کر لاجواب کر دے گا کہ آن لائن کلاسوں کا وقت ہونے والا ہے، یا وٹس ایپ گروپ  سے اسکول کا اسائمنٹ بنا رہا ہے، لہٰذا پہلے کی طرح اب موبائل پر پابندی لگانا یا اس کے استعمال سے روکنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔۔۔

اس صورت حال میں اپنے بچوں کو ویڈیو گیم سے لے کر سائبر کرائم کے چنگل سے بچانے کے لیے والدین کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔۔۔  چناں چہ اسی خطرے کے پیش نظر سوفٹ وئیر کمپنیاں موبائل کی مانیٹرنگ ایپس تیار کر رہی ہیں، جو بچے کی آن لائن سرگرمیوں کے بارے میں والدین کو فوراً الرٹ جاری کرتی ہیں، جن کے بارے میں جاننا آج کے والدین کے لیے بے حد ضروری ہے اس ضمن میں مندرجہ ذیل ایپس بہ آسانی گوگل پلے اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں

ٹریک اِٹ ایپ  (Trackit app)

اس ایپ کے ذریعے بچوں کی ’آن لائن‘ سرگرمیوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، اس کی بدولت والدین براؤزر اور میسج پر بہ آسانی نظر رکھ سکتے ہیں، یہاں تک کہ آن لائن گیم کھیلنے پر بھی آپ جان سکتے ہیں کہ بچہ کون سا گیم کھیل رہا ہے اور کھیلتے ہوئے اسے کتنا وقت ہو چکا ہے۔  اس سے وائی فائی ٹریکنگ جیسی اہم معلومات حاصل ہو جاتی ہیں اور ٹریک کیے گئے فون سے نوٹیفیکیشن بھی موصول ہو جاتا ہے۔

ایم اسپائے ایپ ( mSpy app)

اس ایپ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ بچوں کے فون کی زبردست طریقے سے  مانیٹرنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے  آپ بچوں کے موبائل پر آنے والی کال بھی سن سکتے ہیں  اور براؤزر کی تاریخ کی مکمل جان کاری، کال لاگنگ اور پیغامات بھی دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔

دی ٹرتھ اسپائی ایپ  (The Truth spay app)

اس ایپ کی ٹریکنگ خصوصیت کی وجہ سے صارفین اپنی گم شدہ ڈیوائس کا کھوج لگا سکتے ہیں، اس ایپ میں براؤزر اور ’جی پی ایس سسٹم‘ کی مانیٹرنگ شامل ہے۔ مفت دست یاب یہ اینڈرائڈ ایپ والدین کے لیے بہترین ہے، جو بروقت درست مقام کو ٹریک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

اسپائزی ایپ (Spyzie app)

یہ بہ آسانی انسٹال ہونے والی ایپ  بچے کے اینڈرائڈ فون کے لیے بہترین مانیٹرنگ کا کام سرانجام دیتی ہے، اگر آپ کا بچہ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارتا ہے، تو پریشانی کی بات نہیں، آپ اس ایپ کے ذریعے پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے محفوظ کیے گئے ملٹی میڈیا مواد کو ڈاؤن لوڈ کر کے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس ایپ کی key logger ٹول کے ذریعے جان سکتے ہیں کہ بچے نے کیا ٹائپ کیا ہے۔

چلڈرن ٹریکنگ

یہ ایپ والدین کے لیے نعمت ہے۔ یہ دیگر اینڈرائیڈ ‘ایپ‘ سے ذرا مختلف ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہ صرف بچوں کی آن لائن سرگرمیوں سے باخبر  رہنے میں معاون ہے، بلکہ جسمانی طور پر بھی انہیں ٹریک کر سکتی ہے کہ وہ اس وقت کہاں موجود ہیں۔

فامی سیف ایپ ) (Fami Safe app

فامی سیف مانیٹرنگ ایپ ونڈر کمپنی نے بنائی ہے،  یہ ایپ اپنے سوفٹ ویئر  کی وجہ سے سے اتنی منفرد ہے کہ والدین بہ آسانی بچے کے موبائل پر  رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور انھیں بچے کی نگرانی کے لیے اس کے پاس ہر وقت موجود رہنے کی بھی ضرورت نہیں، کیوں کہ والدین ’جیو فینسنگ فیچرز‘ کے ذریعے بچوں کے علم میں لائے بغیر، ان کی  سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔

The post ’’موبائل مانیٹرنگ ایپس ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

سینیٹ الیکشن 2021ء: ارکان کی خریدوفروخت کا تدارک ممکن ہوپائے گا؟

$
0
0

 گیارہ مارچ 2021ء کو چھ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے 65 فیصد سینیٹرز کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے جس کے بعد بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ارکان میں خاصی کمی واقع ہوجائے گی تاہم دوسرا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی بلکہ وہ اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملا کر بھی مشکلات میں گھری رہے گی۔

مجموعی طور پر 104ارکان کے ایوان بالا سے ریٹائرہونے والے34 ارکان کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے جبکہ18کا تعلق حکمران جماعت  یا اس کے اتحادیوں سے ہے۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار نے حلف نہیں اٹھایا تھا، وہ لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کے دن گزار رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے اس وقت 30سینیٹرز ہیں جن میں سے17سینیٹرز ریٹائرڈ ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے21 سینیٹرز میں سے آٹھ ریٹائرڈ ہوں گے۔ تحریک انصاف کے14میں سے سات، بلوچستان عوامی پارٹی کے نو میں سے تین،  ایم کیو ایم کے پانچ میں سے چار ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے چار میں سے دو سینیٹر ریٹائرڈ ہوں گے۔

اسی طرح نیشنل پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائرڈ ہوں گے۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائر ہو جائیں گے۔ جماعت اسلامی کے دو سینیٹرز ہیں جن میں سے ایک ریٹائر ہوگا۔ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ہی سینیٹر تھا، وہ بھی مارچ میں ریٹائرڈ ہوجائے گا ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کا بھی ایک ہی سینیٹر تھا جو ریٹائر ہوجائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کا ایک سینیٹر ہے لیکن اس کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوگی۔ سینیٹ میں سے سات ارکان آزاد تھے، ان میں سے چار ریٹائر ہوں گے۔

تحریک انصاف پہلی بار 2015ء میں ایوان بالا میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں سے زیادہ تر خیبر پختون خوا سے جیت کر آئے تھے۔ مارچ انتخابات کے بعد قوی امکان ہے کہ خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں عددی برتری حاصل ہونے کے سبب وہ سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھرے گی تاہم اسے مجموعی طور پر اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔

سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ خسارہ مسلم لیگ ن کو اُٹھانا پڑے گا۔ جماعتوں کی عددی قوت کے اعتبار سے انتخابی نتائج سامنے آئے تو مسلم لیگ ن اپوزیشن پارٹیوں میں پیپلزپارٹی سے نیچے کھڑی ہوگی۔ چونکہ پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت ہے، اس لئے وہ سندھ سے اپنے زیادہ سینیٹرز منتخب کروا لے گی، یوں وہ اپوزیشن جماعتوں میں سب سے آگے ہوگی اور  ممکن ہے کہ اگلا اپوزیشن لیڈر اسی کا ہو۔

مارچ کے سینیٹ انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مارچ کے بعد سینیٹ کا ادارہ 100 ارکان پر مشتمل ہوگا کیونکہ قبائلی علاقہ جات کے صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم ہونے کے بعد وہاں کی چار سیٹیوں پر انتخاب نہیں ہوگا۔ ان علاقوں سے منتخب ہونے والے باقی چار سینیٹرز 2024ء میں ریٹائر ہوں گے۔

شو آف ہینڈ کا تنازعہ

یوں محسوس ہوتا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے خفیہ حکمت عملی ترتیب دے رکھی ہے اور اپنے پتے چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو کئی ماہ قبل اطلاعات مل چکی تھیںکہ ان کے بعض ارکان پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے لئے ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے’’ انھیں معلوم ہے کہ کون سا سیاسی لیڈر پیسے لگا رہا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ وزیراعظم کے مطابق’’ گزشتہ سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے20 ارکان اسمبلی میں سے ہر ایک کو پچاس ملین روپے دیے گئے تھے۔ ‘‘ اب کی بار  وزیراعظم عمران خان نے اپنے ارکان اسمبلی کو قابو میں رکھنے کے لئے ’’ ترقیاتی فنڈ ‘‘ کے نام پر اپنے ہر منتخب رکن اسمبلی کو پچاس ، پچاس کروڑ روپے دیے ہیں۔ حالانکہ وہ ماضی میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی روایت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے پچاس کروڑ روپے لے کر رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ دے گا ؟ کوئی بھی اس سوال کا جواب یقین کے ساتھ ’ہاں ‘ میں نہیں دے سکتا۔ سینیٹ انتخابات میں چونکہ خفیہ ووٹنگ ہوتی ہے، اس لئے  کس نے غداری کی، اس کا پتہ تب چلتا ہے ، جب قیامت گزر چکی ہوتی ہے۔ اپنے ارکان کی مشکوک وفاداری کی بو محسوس کرتے ہوئے وزیراعظم نے گزشتہ برس نومبر ہی میںکہہ دیا تھا کہ وہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کا طریقہ اختیار کرنے کے لئے آئینی ترمیم لائیں گے۔

ایسی کوئی بھی ترمیم لانے کے لئے حکومت کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے جو  پی ٹی آئی  کے پاس نہیں ہے ، نتیجتاً حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ وہ اسے شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کرانے کی اجازت دے۔ حکومتی موقف ہے کہ سینیٹ انتخابات پیسہ کا کھیل بن چکے ہیں، اس لئے شو آف ہینڈ کے ذریعے وہ اس کھیل کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے ابھی اس معاملے پر اپنی حتمی رائے ظاہر نہیں کی تھی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے شو آف ہینڈ کے طریقے کے لئے صدارتی آرڈی ننس جاری کردیا، تاہم اسے سپریم کورٹ کی رائے سے مشروط کیا۔ ’ الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021‘ میں پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017 کی سینیٹ الیکشن کے حوالے سے تین شقوں 81، 122 اور 185 میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی رائے اس حق میں ہو گی تو قوانین میں تبدیلی کے ساتھ اوپن ووٹنگ کرائی جائے گی۔آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعتوں کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کر سکے گا۔

اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے آئین پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ یہ سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔  دوسری طرف سپریم کورٹ کی طرف سے جو ریمارکس آئے ہیں، انھیں پڑھ کر حکومتی ذمہ داران کو دل ڈوبتے محسوس ہوتے ہیں۔

مثلاً چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے صدارتی آرڈی ننس کے متعلق کہا کہ ’’ لگتا ہے آرڈی ننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے۔‘‘ جبکہ جسٹس عمرعطا بندیال نے شو آف ہینڈ کے معاملے پر پوچھا: ’’ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزرا سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟‘‘ خفیہ رائے دہی کے حامیوں کے دل بھی دھڑک رہے ہیں، انھیں بھی یقین نہیں کہ سپریم کورٹ اپنی رائے کا وزن اس کے پلڑے میں ڈالے گی یا نہیں۔

اپوزیشن جماعتیں ’ شو آف ہینڈز‘ کی مخالفت کررہی ہیں، کیونکہ ان کے مطابق ’ آئینی ترمیم کے بغیر سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہوسکتا ‘۔ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف کہتی ہیں کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی جانب سے ساتھ چھوڑنے پر حکمرانوں کو سینیٹ الیکشن میں شو آف ہینڈز یاد آگیا۔ حکمرانوں نے سینیٹ الیکشن میں خود ووٹ توڑے بھی اور خریدے بھی، انہیں خود ووٹ توڑنے اور خریدنے کے وقت اوپن بیلٹ کیوں یاد نہیں آیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو شک ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں ہی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو قابو میں کرنے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ اگر حکمران جماعت کا شک درست ہے، ایسے میں سینیٹ انتخابات ایک دلچسپ کھیل ثابت ہوں گے، پھر مارچ کے بعد ایوان بالا کا منظرنامہ حکمران جماعت کے لئے کسی بھی اعتبار سے خوش کن نہیں ہوگا۔ اگر ارکان اسمبلی نے پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ کاسٹ کیا تو ممکنہ طور پر چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینیٹ تحریک انصاف اور کسی اتحادی جماعت کا ہوگا لیکن حکمران جماعت کو سینیٹ سے قوانین منظور کرانے میں کافی مشکلات کا سامنا رہے گا۔

وہ کھینچ تان کر اکثریت حاصل کرے گی، ایسے میں  سینیٹ میں چھوٹی جماعتوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوجائے گی، آزاد ارکان بھی اپنی حیثیت سے خوب فائدہ اٹھائیں گے۔ تحریک انصاف کو ایک ، ایک ووٹ کی ضرورت ہوگی جو اسے کافی بھاری قیمت سے حاصل کرنا ہوگا۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے ایک واحد راستہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو فارورڈبلاک کے نام پر قابو کیا جائے۔ کیا ایسا ممکن ہوگا؟ یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے۔

٭ریٹائر ہونے والی نمایاں شخصیات

مسلم لیگ ن کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر( سینیٹ)  راجہ ظفرالحق ، ڈپٹی چئیرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا(پیپلزپارٹی)، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان ، وزیراطلاعات و نشریات شبلی فراز ، سابق وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید (مسلم لیگ ن)، پیپلزپارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمان ، سابق وزیرداخلہ رحمان ملک (پیپلزپارٹی) ، سابق وزیرقانون فاروق ایچ نائیک(پیپلزپارٹی)۔ ایم کیوایم کی خوش بخت شجاعت، میاں عتیق شیخ، بیرسٹر محمد علی سیف اور نگہت مرزا بھی ریٹائرڈ ہونے والوں میں شامل ہیں۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عطاالرحمن (مولانا فضل الرحمن کے بھائی) اور مولانا عبدالغفور حیدری کی مدت بھی پوری ہورہی ہے۔

دیگر ریٹائرہونے والوں میں مسلم لیگ ن کے آغا شہباز درانی ، عائشہ رضا فاروق، چوہدری تنویر خان ، اسد اشرف ، غوث محمد نیازی ، کلثوم پروین ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ترمذی ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم ، جاوید عباسی ، نجمہ حمید ، پروفیسر ساجد میر ، راحلیہ مگسی ، سلیم ضیا اور سردار یعقوب خان ناصر، پیپلزپارٹی کی  سسی پلیجو ، اسلام الدین شیخ ، گیان چند، یوسف بادینی ، تحریک انصاف کے ریٹائرڈ بریگیڈئر جان کینتھ ولیمز ،لیاقت ترکئی ، ثمینہ سعید اور ذیشان خانزادہ، ایم کیو ایم کی نگہت مرزا ، بلوچستان عوامی پارٹی کے سرفراز بگتی ، منظور احمد  اور خالد بزنجو، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی گل بشرا ، نیشنل پارٹی کے اشوک کمار اور میر کبیرشاہی ، بلوچستان نیشل پارٹی (مینگل) کے ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی ، جبکہ آزاد ارکان میں اورنگ زیب خان ، مومن خان آفریدی،سجاد حسین طوری  اور تاج محمد آفریدی شامل ہیں۔

یوسف رضا گیلانی کو چیرمین سینٹ بنانے کے لئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں معاملات طے پا گئے

اسلام آباد سے ارشاد انصاری

پاکستان مسلم لیگ(ق)کے رہنما و سپیکر پنجاب اسمبلی چودہری پرویز الہی نے تجوز دی ہے کہ پنجاب میں خالی ہونے والی گیارہ نشستوں پر اپوزیشن اور حکومت اپنی اپنی عددی  اکثریت کی بنیاد پر اپنے حصے کے مطابق نشستیں لے لیں انکی تجویز ہے کہ پنجاب میں ن لگ پانچ اور حکومت  اور اسکے اتحادی چھ سیٹیں لے لیں جن میں سے ایک سیٹ ق لیگ کے پاس چلی جائے گی۔

اس طرح پی ٹی آئی کو پانچ نشستیں مل جائیں گی اس تجویز کے ماننے سے پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ کا  راستہ بند ہوجائے گا۔ لیکن اس تجویز پر پی ٹی آئی کی طرف سے ابھی کچھ نہیں کہا گیا۔ اگر ہارس ٹریڈنگ کے بغیر فیئر انتخابات ہوتے ہیں تو اس صورت میں انتخابات کے بعد سینٹ میں  پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے سینٹرز کی تعداد بڑھ کر 51 ہوجائے گی اور اپوزیشن کے سینٹرز کی تعداد کم ہوکر 49 رہ جائے گی لیکن  اگر اپوزیشن اسلام ا ٓباد سے ایک سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوتی ہے تو پھر سینٹ میں دونوں کے پاس تعداد ایک جیسی ہوجائے گی۔ لیکن اگر پیپلز پارٹی سندھ میں  اضافی سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس سے صورتحال تبدیل ہوجائے گی یہی معاملہ  پنجاب کے علاوہ کے پی کے میں بھی  ہے اگر وہاں  پی ٹی آئی اے کے بندے  توڑ لئے جاتے ہیں تو حکومت کیلئے مشکلات  بڑھ جائیں گی۔

فیئر انتخابات کی صورت میںوفاقی دارالحکومت سے سینٹ کی دونوں نشستیں حکومت کی ہیں جس کیلئے خواتین کی نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نیلوفر بختیار اور ڈاکٹر زرقا تیمور کے نام آرہے ہیں جبکہ دوسری نشست کیلئے  طاقتور شخصیات میدان میں ہیں۔ اپوزیشن  اس کوشش میں ہے کہ اسلام آباد سے سینٹ کی ایک سیٹ لے اُڑے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی  کو اسلام آبادسے سینٹ کا انتخاب لڑانے کی باتیں اسی تناظر میں ہو رہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا سینٹ انتخابات کیلئے پنجاب سے بھی نام چل رہا ہے۔

اگلے چندروز میں واضع ہوجائے گا کہ  پیپلزپارٹی کیا کرنے جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے سینٹ ٹکٹس کی تقسیم کیلئے پارلیمانی بورڈ تشکیل دیدیا ہے، پیپلز پارٹی سید یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کیلئے نہ صرف سنجیدگی سے متحرک ہے بلکہ انہیں متفقہ امیدوار نامزد کرانے کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری نے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔   سید یوسف رضا گیلانی کو مشترکہ امیدوار بنانے کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے درمیان معاملات طے پا چکے ہیں اور پیپلز پارٹی اس کے بدلے میں پنجاب میں ن لیگ کے امیدواروں کی حمایت کرے گی۔ کیونکہ وزیر اعظم پچھلے سینٹ انتخابات میں اپنے ہی کھلاڑیوں کے ہاتھوں ڈسے جا چکے ہیں اس لئے ہارس ٹریڈنگ کے خوف نے کپتان اور اس کی ٹیم کو پرشیان کر رکھا ہے۔

پاکستان بار کونسل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حکومت نے عدالت کے فیصلے کا انتظارکیے بغیر جلد بازی میں آرڈیننس پاس کیا،  بار کونسل نے صدارتی ریفرنس کو آئین کے آرٹیکل 226 کے ساتھ متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرڈیننس سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔ آرڈیننس کا معاملہ عدالت میں پہنچ گیا ہے  ادھر سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت  کے دوران چیف جسٹس  آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کے اہم ریمارکس سامنے  آئے ہیں جس میں چیف جسٹس آف پاکستان  نے کہا ہے کہ لگتا ہے آرڈیننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے، صدر مملکت کو آرڈیننس کے اجراء سے نہیں روکا جاسکتا جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر آرڈیننس میں کوئی تضاد ہے اورعدالت ریفرنس کا جواب نفی میں دیتی ہے تویہ خود بخود غیرمؤثر ہوجائے گا۔

اپوزیشن متفقہ امیدوار لا پائے گی؟
کراچی سے عامرخان
سندھ سے پاکستان پیپلزپارٹی کے 7سینیٹرز عبدالرحمن ملک ،فاروق ایچ نائیک ،اسلام الدین شیخ ،گیان چند ،سلیم مانڈووی والا ،سسی پلیجو اور شیری رحمن اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہورہے ہیں۔ ایوان بالا کی موجودہ پارٹی پوزیشن کے حساب سے سندھ کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ پیپلزپارٹی کی نشستیں سینیٹ میں اپوزیشن کی طاقت کا اظہار ثابت ہوں گی۔

ان الیکشن کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کے لیے زیادہ خوش کن خبریں نہیں ہیں۔ اپنے 4سینیٹرز میاں محمد عتیق ،خوش بخت شجاعت ،محمد علی سیف اور نگہت مرزا کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی نمائندگی کے لیے صرف وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم ہی رہ جائیںگے۔ سندھ میں سینیٹ کی 11 نشستوں پر انتخابات ہوںگے ،جن میں 7جنرل ،2ٹیکنو کریٹ اور 2خواتین کی نشستیں شامل ہیں۔

سندھ اسمبلی میں اگر پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو 168رکنی ایوان میں پیپلزپارٹی کے 97،تحریک انصاف کے 30،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 21،گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 14،تحریک لبیک پاکستان کے 3اور جماعت اسلامی کا ایک رکن ہے۔صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں خالی ہیں جن پر 16فروری کو ضمنی انتخابات ہوںگے۔ ان پر کامیابی کی صورت میں پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد 99ہوجائے گی۔ موجودہ صورتحال میں جنرل نشستوںمیں پیپلزپارٹی 4 نشستیں حاصل کرسکتی ہے جبکہ پانچویں نشست کے حصول کے لیے اسے تحریک لبیک پاکستان اور جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔

پیپلزپارٹی نے ٹی ایل پی اور جماعت اسلامی کے ساتھ اس حوالے سے رابطے شروع کردیئے ہیں۔ ٹیکنو کریٹ اور خواتین کی 4نشستوں میں سے پیپلزپارٹی کو 2نشستیں حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی جبکہ اضافی نشستوں کے لیے پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ اپوزیشن کے کچھ ارکان سے رابطے کرکے انہیں اپنی حمایت کے لیے راضی کرے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو امیدوار بنانے کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے۔

پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے حوالے سے اس وقت مختلف ناموں پر غور جاری ہے اور ممکنہ امیدوارں میں شیری رحمن ،فاروق ایچ نائیک ،یوسف رضا گیلانی ،اسلام الدین شیخ ،عبدالرحمن ملک ،سلیم مانڈوی والا ،نثار کھوڑو ،جام مہتاب اور ایاز مہر شامل ہیں جبکہ کوئی نیا نام بھی سامنے آسکتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں تاحال سینیٹ الیکشن کے حوالے سے کوئی متفقہ لائحہ عمل بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔سندھ میں اپوزیشن کی تین بڑی جماعتیں تحریک انصاف ،ایم کیو ایم پاکستان اور جی ڈی اے ہیں جن کے ارکان کی تعداد 65ہے۔اگر ان جماعتوں نے متفقہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیا تو یہ ان کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔ تینوں جماعتیں اگر متفق ہوجائیں تو انہیں متفقہ امیدوار لانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی اور وہ سینیٹ کی 3سے4نشستیں باآسانی حاصل کرسکتی ہیں۔

ن لیگ میں فارورڈ بلاک متحرک
لاہور سے رضوان آصف
سینیٹ الیکشن کے حوالے سے پنجاب کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پر پارٹی کی جانب سے دباو ہے کہ پنجاب میں تنظیمی رہنماوں کو زیادہ تعداد میں سینیٹر بنوایا جائے۔ دوسری جانب ان کی کابینہ میں شامل اہم ترین معاونین اور مشیران بھی ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ پنجاب میں سینیٹ نشستوں کی مجموعی تعداد 11 ہے جن میں سے 7 جنرل نشستیں ہیں جبکہ2 نشتوں پر ٹیکنو کریٹس اور 2 پر خواتین کو منتخب کیا جانا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں ایک جنرل نشست کے لئے پنجاب اسمبلی میںاوسطا52 ووٹ درکار ہوں گے۔

تحریک انصاف کے پاس 181 جبکہ مسلم لیگ(ن) کے پاس 165 نشستیں ہیں، پیپلز پارٹی کے پاس 7 اور مسلم لیگ(ق) کے پاس 10 نشستیں ہیں، آزاد ارکان کی تعداد 4 ہے جبکہ پاکستان راہ حق پارٹی کے پاس ایک نشست ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو سینیٹ میں جو بھی نشستیں جیتنا ہیں وہ پنجاب اسے پنجاب ہی سے لینا ہوں گی۔ اسکے 17 سینیٹر ریٹائر ہو رہے ہیں جبکہ ممکنہ طور پر صرف 5 نئے منتخب ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن)کے اندر فارورڈ بلاک موجود ہے، وزیر اعلی سردار عثمان بزدار گزشتہ دو ماہ سے تسلسل کے ساتھ اپوزیشن کے اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف میں بھی’’ہم خیال گروپ‘‘ کے نام سے ایک گروپ بنا ہوا ہے ،اس گروپ نے سینیٹ کی نشست اور چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی کا عہدہ مانگ رکھا ہے لیکن گزشتہ چند روز میں اس گروپ کے بعض ارکان نے پراسرار خاموشی اختیار کر لی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کہیں سے انہیں سخت پیغام یا ’’وارننگ‘‘ مل چکی ہے۔ تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی ٹکٹ کے مضبوط امیدوار ہیں۔ پہلے ارشد داد کو مضبوط امیدوار تصور کیا جاتا تھا لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔

تحریک انصاف سنٹرل ریجن کے صدر اعجاز چوہدری اور تحریک انصاف جنوبی لاہور کے صدر ملک ظہیر عباس کھوکھر بھی امیدوار ہیں تاہم ملک ظہیر عباس کھوکھر کو ٹکٹ ملنے کا امکان کم ہے۔ مضبوط امیدوار ہونے کے باوجود اعجاز چوہدری کا ٹکٹ بھی فی الوقت’’کنفرم‘‘ نہیں۔ لاہور سے تحریک انصاف کے رہنما ہمایوں اختر خان بھی ٹکٹ کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔

بعض لوگوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ عبدالعلیم خان بھی سینیٹ الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن علیم خان جیسا مضبوط سیاستدان حلقہ کی سیاست کو نہیں چھوڑے گا۔یہ اطلاعات بھی پھیلائی گئیں کہ جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین کو بھی ٹکٹ مل سکتا ہے لیکن یہ بھی غلط اطلاعات ہیں۔

جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کے ریجنل صدر نور بھابھا بہت مضبوط امیدوار ہیں کیونکہ اسحاق خاکوانی کو ٹکٹ نہیں مل رہا ہے تاہم نور بھابھا کیلئے یہ خطرہ بدستور موجود ہے کہ ابھی تک شاہ محمود قریشی گروپ اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے لوگوں نے اپنے امیدوار کے بارے میں کوئی بات ظاہر نہیں کی۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اور بابر اعوان بھی سینیٹ الیکشن کیلئے کوشاں ہیں جبکہ چند روز سے زلفی بخاری کا نام بھی سامنے آرہا ہے،معروف آئینی ماہر بیرسٹر علی ظفر کا نام بھی حکومتی حلقوں میں سنائی دے رہا ہے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل اور وزیر اعلی کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان بھی متحرک ہیں۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی ایک مالدارسیاسی شخصیت کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ٹکٹ کیلئے بہت موثر لابنگ کر رہے ہیں جبکہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈار برادران بھی ٹکٹ کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ خواتین کی نشستوں کی بات کی جائے تو ڈاکٹر زرقا سب سے مضبوط امیدوار دکھائی دے رہی ہیں لیکن ان کا سخت مقابلہ نیلوفر بختیار سے ہے ۔

تحریک انصاف لاہور کی اہم رہنما تنزیلہ عمران بھی دوڑ میں شامل ہیںلیکن پارٹی کیلئے برسوں کی محنت کے باوجود سنٹرل ریجن تنظیم ان کی حمایت نہیں کر رہی ہے جبکہ تحریک انصاف جنوبی پنجاب نے نگہت محمود کی حمایت کی ہے۔ مسلم لیگ(ق) کو تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ کی ایک نشست ’دی جا رہی ہے چوہدری برادران کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس نشست پر چوہدری وجاہت حسین اورکامل علی آغامیں سے کون امیدوار ہو گا۔ابتک کی صورتحال میں تحریک انصاف کوپنجاب سے سینیٹ الیکشن میں 4 جنرل(جن میں سے ایک ق لیگ کو ملے گی)ایک سیٹ ٹیکنوکریٹ اور ایک خاتون سیٹ ملنے کا قوی امکان ہے جبکہ ن لیگ کو تین جنرل نشتیں اور ٹیکنو کریٹ و خواتین کی ایک ایک نشست ملتی دکھائی دے رہی ہے۔

کے پی کے میں پی ٹی آئی کی واضح برتری
پشاور سے شاہدحمید
خیبرپختونخوا اسمبلی میں عددی اکثریت کے اعتبار سے پاکستان تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں اس وقت پی ٹی آئی کے اپنے ارکان کی تعداد94 ہے جبکہ اگر 19 فروری کو پی کے 63 نوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو کامیابی حاصل ہوگئی تو اس صورت میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد بڑھ کر95ہوجائے گی جبکہ ایوان میں ممکنہ طورپر دو آزاد ارکان کی بھی پی ٹی آئی کو حمایت حاصل ہے۔ مسلم لیگ(ق)کے اکلوتے رکن بھی پی ٹی آئی ہی کے ساتھ جائیں گے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی بھی اپنے امیدوار کے حوالے سے معاملات طے پانے کی صورت میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہی جائے گی کیونکہ ذیشان خانزادہ کی بطور سینیٹر کامیابی میں بھی بی اے پی نے اپنا وزن پی ٹی آئی کے پلڑے ہی میں ڈالا تھا۔

خیبرپختونخواسے اس مرتبہ12نشستوں پر انتخاب ہوگاجن میں 7جنرل نشستوں کے علاوہ خواتین اورٹیکنوکریٹس کی دو،دو جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہے اور عددی اکثریت کو مد نظر رکھتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے کہ پی ٹی آئی 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلے گی جبکہ دوسری جانب اپوزیشن کی صورت حال یہ ہے کہ پانچ جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد41 بنتی ہے جبکہ دو آزاد ارکان بھی اپوزیشن کے ساتھ جاسکتے ہیں جس سے یہ تعداد43ہوجائے گی البتہ یہ اب تک واضح نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کیا حکمت عملی اپنائے گی کیونکہ وہ نہ تو حکومت کا حصہ ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کھڑی ہے 2015ء میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق، پی ٹی آئی جبکہ 2018ء میں امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا مشتاق احمدخان ،اے این پی کے ووٹوں سے کامیاب ہوکر ایوان بالا پہنچے تھے اس لیے جماعت اسلامی کو واضح لائن اختیار کرنا پڑے گی۔

صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے کہ سات میں سے دو جنرل نشستیں اپوزیشن حاصل کرسکتی ہے اور ان دو نشستوں کے لیے جمعیت علماء اسلام اور عوامی

نیشنل پارٹی اپنے امیدوار میدان میں اتار سکتی ہے کیونکہ یہ دونوں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں ہیں جن کے ارکان کی تعداد باالترتیب 15 اور 12 ہے جبکہ خواتین اور ٹیکنوکریٹ نشستوں کے لیے مسلم

لیگ(ن)اورپیپلزپارٹی قسمت آزمائی کرسکتی ہیں جو6 اور5 ارکان رکھتی ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 124 سے 145 ہونے کے بعد پہلی مرتبہ موجودہ صوبائی اسمبلی کے ارکان سینٹ انتخابات میں اپناحق رائے دیہی استعمال کریں گے ،ارکان کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ تمام نشستوں کے لیے درکار ووٹوں کا تناسب تبدیل ہوگیاہے بلکہ ساتھ ہی قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی پہلی مرتبہ سینٹ انتخابات کے لیے اپنے ووٹ استعمال کریں گے۔اس وقت تک نہ تو پی ٹی آئی اپنے امیدواروں کا فیصلہ کرسکی ہے اور نہ ہی اپوزیشن۔

پاکستان تحریک انصاف،وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فرازاوروزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر کوٹکٹ جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے ساتھ ہی موجودہ سینیٹرز محسن عزیز یا نعمان وزیر میں سے بھی کسی ایک یا دونوں کی واپسی ہوسکتی ہے۔ سینیٹر لیاقت ترکئی بھی میدان میں موجود ہیں جبکہ جمعیت علماء اسلام(س)کے سربراہ اور مولاناسمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق حقانی کو بھی سینٹ ٹکٹ مل سکتاہے تاکہ پی ٹی آئی اور دارالعلوم حقانیہ میں فاصلوں کو کم کیا جاسکے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جے یو آئی اپنے صوبائی امیر سینیٹر مولانا عطاء الرحمن کو دوبارہ ایوان بالا بھیجنے کی خواہاں ہے۔

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے بعض حلقوں میں پارٹی سربراہ اسفند یار ولی خان کو ایوان بالا بھیجنے کی خواہش موجود ہے تاہم ان کی علالت رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے شاہی سید سمیت دیگر امیدواروں میں سے کسی کے نام قرعہ نکل سکتا ہے ،بلوچستان عوامی پارٹی شاہ جی گل آفریدی یا سینیٹر تاج آفریدی میں سے کسی ایک کو میدان میں اتار سکتی ہے۔

اگرحکومت کی منشاء کے مطابق سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سسٹم کے تحت ہوئے تو اس صورت میں اس مرتبہ صوبائی اسمبلی میں وہ کھیل نہیں کھیلا جاسکے گا جو سینٹ کے گزشتہ انتخابات میں کھیلے جاتے رہے۔

بلوچستان میں حکمران اتحاد کا پلڑا بھاری
کوئٹہ سے رضاء الرحمن

مارچ2021ء میں بلوچستان سے سینیٹ کی 12نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں جن میں 7جنرل 2خواتین2 ٹیکنوکریٹس اور ایک اقلیتی نشست ہے ،2015ء سے 2021ء کے دوران ملک اور صوبے میں سیاسی اتار چڑھائو اور پھر 2018ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان کی سینیٹ میں نمائندگی میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی۔ خصوصاً2018ء میں بلوچستان سے نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام اور سینیٹ میں نمائندگی کے ساتھ ساتھ چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر کامیابی نے ملک کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی۔

اس ڈرامائی تبدیلی کے اثرات 2015ء کے سینیٹ الیکشن میں بلوچستان کو ملنے والی نمائندگی پر بھی دکھائی دیئے جہاں 2015ء سے 2018ء کے دوران بلوچستان سے خالی ہونے والی سینیٹ کی نشستوں پر آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے سینیٹرز بعد ازں بلوچستان کی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوگئے۔

اس وقت سینیٹ میں بلوچستان کی نمائندگی کچھ یوں ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی 10،نیشنل پارٹی4،پشتونخواملی عوامی پارٹی 4، جمعیت علماء اسلام2، مسلم لیگ ن، بی این پی اور آزاد ایک ایک ، جن میں سے مارچ2021ء میں 12سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ کے بعد پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح ہوگی۔

بلوچستان عوامی پارٹی 6، نیشنل پارٹی 2، پشتونخواملی عوامی پارٹی 2اور جمعیت علماء اسلام 1، 2018ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان اسمبلی کی 65نشستوں میں سے64 پر پارٹی پوزیشن یوں ہے، بلوچستان عوامی پارٹی 24، بلوچستان نیشنل پارٹی 10، جمعیت علماء اسلام10، تحریک انصاف 7،عوامی نیشنل پارٹی 4،بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی 2، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 2، پشتونخواملی عوامی پارٹی، ن لیگ ، جمہوری وطن پارٹی اور پاکستان نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے، جبکہ ایک آزاد رکن ہیں۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی کی ایک نشست جے یو آئی(ف) کے رکن سید فضل آغا کے انتقال کے باعث خالی ہے جس پر اسی ماہ کی 18تاریخ کو ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے۔

توقع کی جارہی ہے کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر 12نشستوں میں سے سینیٹ کی 7نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں باآسانی کامیاب ہوجائیگی، جبکہ متحدہ اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے باقی 5نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ خان زہری نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا جبکہ آزاد رکن اور سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

بلوچستان سے 2021ء کے سینیٹ انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو کوئی نشست نہیں ملے گی اسی طرح پی ڈی ایم کی دوسری قوم پرست جماعتوں نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کے حصے میں بھی کوئی نشست نہیں آئے گی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کو ایک ایک نشست ملنے کی توقع ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی ’جس کے 4سینیٹرز ریٹائرڈ ہو رہے ہیں‘ کوشش ہے کہ وہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر 4یا اس سے زائد نشستیں حاصل کر لے۔

اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی جوکہ سینیٹ میں اس سے قبل صرف ایک نشست رکھتی ہے مارچ 2021ء کے سینیٹ الیکشن میں اپنی عددی پوزیشن میں بہتری لائیگی، اسی طرح جمعیت علماء اسلام کی نشستوں میں بھی اضافہ ہوگا سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک اچھی حکمت عملی مرتب کی تو وہ 8سے 9نشستیں نکالنے میں بھی کامیاب ہوسکتی ہے۔

The post سینیٹ الیکشن 2021ء: ارکان کی خریدوفروخت کا تدارک ممکن ہوپائے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

فضائل نمازِ تہجّد

$
0
0

حضرت ابواُمامہ ؓ سے روایت ہے کہ رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم ضرور قیامِ لیل کیا کرو (نمازِ تہجّد پڑھا کرو) کیوں کہ وہ تم سے پہلے صالحین کا شیوہ، شعار اور طریقہ رہا ہے اور قربِ الٰہی کا تمہارے لیے خاص وسیلہ ہے، اور وہ برائیوں کو مٹانے والی اور معاصی سے محفوظ رکھنے والی چیز ہے۔‘‘ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ)

نمازِ تہجّد خواص کی عبادت ہے:

خالق کائنات نے اپنی خاص حکمت کے تحت دن کو روشن اور رات کو پُرسکون بنایا، رات کے سناٹے میں جیسا سکون عموماً آرام میں اور خصوصاً عبادت میں ملتا ہے ویسا کسی دوسرے وقت میں نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ رات کی تنہائی میں عوام تو خوابِ غفلت میں مست ہوتے ہیں، مگر خواص یادِ الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں، بل کہ یہ لوگ رات کا ایسا انتظار کرتے ہیں جیسا دولہا شب زفاف کا۔

قرآنِ کریم نے ان ہی کی شان میں فرمایا، مفہوم: ’’ان کے پہلو اس وقت (رات میں جو لوگوں کے سونے کا خاص وقت ہے) ان کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں۔ یعنی میٹھی نیند اور نرم بستروں کو چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کے سامنے قیام کرتے ہیں اور نماز تہجد پڑھتے ہیں۔‘‘ (السجدۃ)حضرت عبداﷲ ابن رواحہؓ نے حضور اکرم ﷺ کے متعلق فرمایا: ’’آپ ﷺ رات اس حال میں گزارتے کہ پہلو بستر سے جدا ہوتا، جب کہ مشرکوں کے بستر ان کے بوجھ سے گراں بار ہوچکے ہوتے۔‘‘ (بخاری شریف)

اس سے معلوم ہوا کہ نمازِ تہجّد خواص کی عبادت ہے، جیسا کہ حدیث مذکور سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

نمازِ تہجّد کی چار خصوصیات:

نماز تہجّد کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دورِ قدیم سے صلحاء کا شعار، طریقہ اور ان کی عبادت رہی ہے۔ اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے: ایک تو یہ کہ جب امم سابقہ کے اولیاء اور صلحاء نمازِ تہجّد کا اہتمام کرتے تھے تو تمہیں بہ طریق اولیٰ اس کا اہتمام کرنا چاہیے، کیوں کہ تم تو خیر الامم ہو۔ دوسرا: اس طرف اشارہ ہے کہ نمازِ تہجد صالحین کا شیوہ ہے، جو اس کا اہتمام نہیں کرتا وہ صالحین (کاملین) میں سے نہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم: ’’میری امت کے شرفاء حاملین قرآن (قرآن کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والے) اور تہجّد گزار لوگ ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)

نمازِ تہجّد کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے، اس سے ربِ کریم کی قربت و محبّت نصیب ہوتی ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری پہر میں ہوتا ہے، لہٰذا تم بھی اس وقت اس کے یاد کرنے والوں میں ہوسکتے ہو تو ضرور ہوجاؤ۔‘‘ (ترمذی)

تہجّد اور ذکر اﷲ کے ذریعے اس کا قرب بہ آسانی حاصل ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بندے کے لیے اس سے بڑی کوئی سعادت ہرگز نہیں ہوسکتی، کیوں کہ ساری شریعت، عبادات اور طاعات سے مقصود معبودِ حقیقی کی قربت و محبّت ہی تو ہے، جو نمازِ تہجّد سے بہ آسانی حاصل ہوتی ہے۔

ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں: ’’اِس میں اُس حدیث قدسی کی طرف اشارہ ہے جس میں رب العالمین نے فرمایا کہ بندہ برابر نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبّت کرنے لگتا ہوں۔‘‘ (مرقاۃ المفاتیح) اور نوافل میں افضل ترین نمازِ تہجّد ہے، جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے: ’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل تہجّد کی نماز ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)

لہٰذا اﷲ تعالیٰ کی محبّت اور قربت کے حصول کا یہ اہم ترین ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ حضرت شیخ الزماں فرماتے ہیں کہ صوفیاء اور عشاق کے لیے تہجد مثل بُراق کے ہے، جیسے شب معراج میں حضور ﷺ براق کے ذریعے آن کی آن میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے، ایسے ہی صوفیاء بھی تہجّد کے ذریعے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔

نماز تہجّد کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ کفارۂ سیئات کا ذریعہ ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں، اور نمازِ تہجّد بہت بڑی نیکی ہے، اس سے حق تعالیٰ گناہوں کو مٹا تے ہیں، جیسے موسم پت جھڑ میں تیز و تند ہوا درخت سے سوکھے پتوں کو گرا دیتی ہے اسی طرح نمازِ تہجّد گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔

اس کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ وہ گناہوں سے بچاتی ہے اور ترکِ معاصی سے تہجّد کی توفیق نصیب ہوتی ہے اور تہجّد سے حفظ معاصی کی توفیق ملتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ سے کسی کے متعلق یہ شکایت کی گئی کہ فلاں آدمی رات کو تہجّد تو پڑھتا ہے، مگر دن میں چوری کرتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: عن قریب اس کو تہجّد کی نماز برائی سے روک دے گی۔ (رواہ احمد) کیوں کہ نماز کی یہی خاصیت ہے کہ اگر اسے صحیح طریقہ پر قائم کیا جائے تو وہ نماز ی کو برائی سے روکتی ہے ۔ ال غرض نماز اور تہجّد سے حفظ معاصی کی توفیق ملتی ہے۔

حضرت حسن بصریؒ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہو کر کہنے لگا: حضرت! تہجّد کی توفیق نہیں ملتی، کوئی ترتیب بتلائیں۔ تو آپؒ نے فرمایا: دن میں معاصی سے اجتناب کرو تو رات میں تہجّد کی توفیق نصیب ہوگی۔ معلوم ہوا کہ ترکِ معاصی اور توفیق تہجّد لازم ملزوم ہیں۔

اﷲ تعالیٰ ہمارے تمام گناہوں کو معاف فرما دیں۔ آمین

The post فضائل نمازِ تہجّد appeared first on ایکسپریس اردو.

سیرت رسول کریم ﷺ اور خدمتِ خلق

$
0
0

مسلمانوں کو آپس میں معاملات اور معاشرت بھائیوں کی طرح کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ رحمت، شفقت، نرمی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و تناصر میں پورے اخلاص اور خیر خواہی سے پیش آنا چاہیے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے: ’’رحم کرو تم زمین والوں پر، رحم کرے گا تم پر آسمان والا۔‘‘ (ترمذی)

ایک اور حدیث کا مفہوم ہے: ’’ساری مخلوق میں سب سے زیادہ اﷲ کے نزدیک وہ ہے جو اﷲ کی عیال یعنی مخلوق کے ساتھ زیادہ بھلائی سے پیش آتا ہے۔‘‘ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ شمائل نبویؐ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آپؐ کے قریب بہت لوگ ہوتے تھے لیکن ان میں سے آپؐ کی نظر میں زیادہ صاحبِ فضیلت وہی ہوتا جو عام لوگوں کی زیادہ بھلائی چاہتا تھا اور آپؐ کے نزدیک وہی شخص صاحب مرتبہ ہے جو لوگوں کے دین و دنیا کے کام آتا اور ان کے ساتھ محبّت و اخلاق سے پیش آتا ہے۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے (لہٰذا) نہ خود اس پر ظلم و زیادتی کرے نہ دوسروں کا مظلوم بننے کے لیے اس کو  بے یار و مددگار چھوڑے نہ اس کی تحقیر کرے۔ حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرکے فرمایا: تقویٰ یہاں ہوتا ہے، کسی آدمی کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کی تحقیر کرے۔ مسلمانوں کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے۔ اس کا خون بھی، اس کا مال بھی اور اس کی آبُرو بھی۔‘‘ (مسلم) حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے کہ اس عمارت کا بعض حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کردیتا ہے۔‘‘ (ترمذی)

یاد رکھیے! جو قوم اپنے اجتماعی نظام، قوت و استحکام اور نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے اپنے بھائی کا بوجھ خوشی اور محبت کے ساتھ اُٹھا کر برداشت نہیں کرتی تو دشمن ان پر مسلط ہوکر زبردستی ان کے سروں پر بیٹھ جاتا ہے اور پھر وہ جبراً و کرھاً ناگواری کے ساتھ دشمن کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ بلاشبہ سچ یہ ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے امّت کی خیرخواہی کا اکمل طریقے سے حق ادا فرمایا ہے اور کسی قوم کو کسی نے اس سے زیادہ اسباق نہیں پڑھائے ہوں گے، جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی امّت کی راہ نمائی فرمائی ہے۔ لیکن کاش کہ امّت محمدیؐ خواہشات نفسانی کی پیروی اور یہود و نصاریٰ کا اتباع چھوڑ کر جناب رسول اکرمؐ کی تعلیمات کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے بنیاد بنالے اور امّت کی کام یابی اور فلاح کے لیے جدوجہد کرے تو امید کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں پر چھائے ہوئے ان گھٹاٹوپ اندھیروں کا جلد خاتمہ ہو اور مسلمان طلوع سحر دیکھ لیں۔

جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک! تم میں سے ہر ایک (مسلمان) اپنے بھائی (دوسرے مسلمان) کا آئینہ ہے، پس اگر اس نے اس مسلمان میں کوئی بُری اور تکلیف دہ چیز دیکھی تو اس چیز کو اس سے دُور کردے۔‘‘ (مسلم)

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔ عالمی اخوت ِ اسلامی کی یہ دعوت ہی نہیں بل کہ حقیقت ایمان کا یہ نتیجہ ہے جس کو آیت مذکورہ میں بیان کردیا گیا ہے اور نتیجہ تب ہی ظاہر ہوگا جب ایمان اور ایمان کے تقاضوں کو سمجھ کر ان پر عمل کا جذبہ ہوگا۔ جب وہ اپنے مومن بھائی کو نہ رسوا کرے گا، نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑے گا، بل کہ اگر ضرورت پڑے گی تو اس کے لیے سَپر بن جائے گا۔ یہ ہے وہ ایمانی اخوّت کا مضبوط تر رشتہ جس کے نتیجے میں ایک صحابیؓ نے جان دے دی لیکن اپنے پیاسے ایمانی بھائی سے پہلے خود پانی پینا گوارہ نہ کیا۔

حضرت ابوجہم بن حذیفہؓ کہتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں، میں اپنے چچازاد بھائی کی تلاش میں نکلا کہ وہ لڑائی میں شریک تھے اور ایک مشکیزہ پانی کا میں نے اپنے ساتھ لیا کہ ممکن ہے کہ وہ پیاسے ہوں تو پانی پلاؤں۔ اتفاق سے وہ ایک جگہ اس حالت میں پڑے ہوئے ملے کہ دم توڑ رہے تھے اور جان کنی شروع تھی۔ میں نے پوچھا: پانی کا گھونٹ دوں۔ انہوں نے اشارے سے ہاں کی۔ اتنے میں دوسرے صاحب نے جو قریب ہی پڑے تھے اور وہ بھی شہادت کے قریب تھے، نے آہ کی۔ میرے چچا زاد بھائی نے آواز سنی تو مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا۔ میں ان کے پاس پانی لے کر گیا۔ وہ ہشام بن ابی العاصؓ تھے، ان کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ان کے قریب ایک تیسرے صاحب اسی حالت میں پڑے دم توڑ رہے تھے۔ انہوں نے آہ کی۔ ہشامؓ نے مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کر دیا۔ میں ان کے پاس پانی لے کر پہنچا تو ان کا انتقال ہوچکا تھا۔ ہشامؓ کے پاس واپس آیا تو وہ بھی شہید ہوچکے تھے۔ ان کے پاس سے اپنے بھائی کے پاس لوٹا تو اتنے میں وہ بھی شہید ہوچکے تھے۔

اس نوع کے متعدد واقعات کتب حدیث میں ذکر کیے گئے ہیں۔ کیا انتہاء ہے ایثار کی، ان شہداء کی روحوں کو اﷲ تعالی اپنے لطف و فضل سے نوازیں کہ مرنے کے وقت بھی جب ہوش و حواس سب ہی جواب دے جاتے ہیں یہ لوگ ہم دردی میں جان دیتے ہیں۔ دینی اخوت کی فضیلت کے بارے میں سرکا ر دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میری محبّت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہیں، میری محبّت ان لوگوں کے لیے ثابت ہے جو میری خاطر ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ میری محبّت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔ (بہ حوالہ: احیاء العلوم)

خالق کی عبادت کی ساتھ اس کی مخلوق سے حسن سلوک بے پناہ اجر کا باعث ہے۔ احادیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نماز روزہ اور دیگر عبادات کے بارے میں تاکید کے ساتھ صحابہ کرامؓؓ کو دوسرے انسانوں سے بھلائی اور خیر خواہی کی بھی بھر پور تلقین فرماتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ کے ایثار کی حق تعالیٰ شانہ نے قرآن حکیم میں تعریف فرمائی اور اس صفت کا ذکر فرمایا کہ وہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ اُن پر فاقہ ہی ہو۔

کنزالعمال میں ایک حدیث ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یہ عمل پسند ہے کہ کسی مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ اسی طرح انسانی تعلقات میں باہمی خیرخواہی کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے سرکار دو عالم ﷺ نے معاشرت کا یہ زرّیں اصول عطا فرمایا کہ ایسے شخص کی محبّت میں کوئی خوبی نہیں جو تمہارے لیے بھی وہ کچھ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے یا اس انداز میں نہ سوچے جس انداز میں وہ اپنی بہتری اور بھلائی سوچتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’خد ا کی قسم! تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ نہ چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو۔‘‘

رحمت عالم ﷺ کے فرمودات ہما رے لیے فلاح و نجات کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے نہ تو اسے وہ رسوا کرے اور نہ ہی اس پر ظلم کرے اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں رہے گا اﷲ اس سے قیامت کے دن کی تکالیف دور کرے گا اور جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا قیامت کے دن اﷲ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘ حضور ﷺ کا ارشاد مبارکہ کا مفہوم ہے: ’’آپس میں خصومت اور دشمنی سے گریز کرو کیوں کہ اس سے خوبیاں فنا ہو جاتی ہیں اور فقط عیوب زندہ رہتے ہیں۔‘‘ پڑوسیوں کے ساتھ حسن معاملہ کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو شخص خدا اور روز جزا پر اعتقاد رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کی عزت کرے اور اسے ایذا نہ دے ۔ اور وہ شخص جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہیں وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔

حضرت ابُوموسیٰ اشعریؓ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’بھوکے کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور ناحق پکڑے جانے والے قیدی کو رہا کراؤ۔‘‘ ایک دن آپؐ کہیں تشریف لے جارہے تھے راستے میں ایک بچے کو دیکھا جو دوسرے بچوں سے الگ تھلگ اور مغموم بیٹھا تھا۔ حضور ﷺ نے اس بچے سے پو چھا: ’’بیٹے! کیا بات ہے تم کیوں افسردہ ہو؟ بچے نے جواب دیا: میرا باپ مر چکا ہے، میری ماں نے دوسری شادی کرلی ہے، میرا کوئی سرپرست نہیں۔

حضور ﷺ نے فرمایا: کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ محمد ﷺ تمہارے باپ ہوں، عائشہؓ تمہاری ماں ہوں اور فاطمہؓ تمہاری بہن۔ بچہ خوش ہوگیا اور رحمت عالم ﷺ نے اسے اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔

حضرت عمرؓ کی زبانی آپؐ کا ارشاد مروی ہے: ’’تم میں سب سے بہتر گھر وہ ہے، جس میں یتیم معزز طریقے سے رہتا ہے۔‘‘ ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا: میرا دل سخت ہے اس کا علاج کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔‘‘ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’جو زمین والوں پر رحم نہیں کرے گا آسمان والا اس پر رحم نہیں کرے گا۔‘‘

The post سیرت رسول کریم ﷺ اور خدمتِ خلق appeared first on ایکسپریس اردو.

زباں فہمی؛ حیدرآبادی بولی

$
0
0

زباں فہمی 119

سایہ نئیں ہے، دھوپ کڑی ہے
سر پو آ کو موت کھڑی ہے
پھٹّا  دامن کیسا  سیؤں میں
دھاگہ چھوٹا، سوئی بڑی ہے
(خواہ مخواہؔ حیدرآبادی)

}مشکل الفاظ:- نئیں: نہیں کا عوامی صوتی تلفظ، سرپو: سر پریا سر پہ،آکو: آکر یا آکے، پھٹّا: پھٹا ہوا{

بزدل ہے وہ جو جیتے جی مرنے سے ڈر گیا
ایک مئیچ (میں+اِچ) تھا جو کام ہی کچھ اور کر گیا
جب موت آکو میرے کو کرنے لگی سلام
میں وعلیکم سلام بولا اور مر گیا!!
(خواہ مخواہؔ حیدرآبادی)

}مئیچ (میں+اِچ): میں ہی، میرے کو: مجھ کو….جو اِن دنوں ہمارے یہاں ہر خاص وعام کی بول چال میں رائج ہے۔ اور ہم اسے غلط ہی سمجھتے ہیں۔{

قارئین کرام ! خاکسار نے آج اپنی تحریر کا آغاز، یونہی، خواہ مخواہ، کلامِ خواہ مخواہؔ (سید غوث محی الدین احمد) حیدرآبادی (۱۹۲۸ء تا ۲ مئی ۲۰۱۷ء)کے نمونوں سے نہیں کیا، بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ عنوان دیکھ کر بعض حیدرآبادی حضرات حیران ہوں گے تو کچھ معترض۔ ہم اپنی معلومات کے مطابق حیدرآبادی کو اردوئے قدیم کا ایک لہجہ یا بولی سمجھتے ہیں جو ہنوز، زندہ ہے، جبکہ ’حائیدرابادی لوگاں‘ اسے اپنی زبان قراردیتے ہیں۔ ہرچندکہ یہ بحث فقط اہل علم کے مابین رہی، مگر بہرحال عوام الناس، خصوصاً ادبی قارئین کا یہ حق ہے کہ انھیں ان معاملات سے بھی آگاہ کیا جائے۔

ممتاز حیدرآبادی شاعر وادیب سلیمان خطیب (۲۶دسمبر۱۹۲۲ء تا ۲۲ اکتوبر ۱۹۷۸ء) اور ہمارے مشفق، بزرگ معاصر محترم حمایت علی شاعرؔ ( ۱۴جولائی ۱۹۲۶ء تا۱۵جولائی ۲۰۱۹ء ) کا مؤقف تھا کہ حیدرآبادی یا دکنی کو جدا گانہ زبان تسلیم کیا جائے۔ ہم نے اُن کے حینِ حیات اس بابت اختلاف کیا اور وہ ’’عدم آباد جانے والے‘‘ اپنے پیچھے بہت سی دیگر باتوں کے علاوہ یہ یاد بھی چھوڑگئے کہ ’’اختلاف اچھا، مخالفت نہیں‘‘۔ حمایت مرحوم کا یہ قول نجی گفتگو اور تحریر میں اس قدر مؤثر لگا کہ بندہ جابجا دُہراتا ہے۔ (میرے ایک عزیز شاعر کی بیرون ملک سے تشریف آوری پر، خاندان کی ایک تنظیم نے، خاکسار کی تحریک سے، عشائیے کا اہتمام کیا۔

ایک نوجوان نے بغیر سوچے سمجھے مسلکی اختلاف کی بابت سوال کردیا۔ میں نے یہی قول مع حوالہ دُہراکر بات ختم کردی، ورنہ خواہ مخواہ تلخی ہوجاتی)۔ آج وہ زندہ ہوتے تو اس تحریر کی اشاعت کے بعد، شاید سب سے پہلی ٹیلی فون کال اُنھی کی آتی اور پھر ایک مفصل گفتگو کا باب کھُل جاتا۔

اب ذرا یہ دیکھیے کہ اس راقم نے جو نمونہ کلام آغاز میں پیش کیا، اس میں ایسا کیا ہے جو اردو سے یکسر مختلف ہے اور اسے کوئی اور زبان قرار دیا جاسکے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ حیدرآبادی احباب خفا ہوکر یہ کہیں کہ ’’آپ کو نَکو معلوم…باتاں نئیں کرتے ، ہم حائیدرابادی…آپ اِتّا آسان آسان اشعار لیے…مشکل نَکو معلوم‘‘، تو بصد اَدب گزارش کروں کہ اس بنیاد پر ناصرف اردو ہی کی کئی بولیاں، بلکہ ہمارے قدیم ادب میں شامل نظم ونثر کا بہت بڑا حصہ، اردو سے خارج کرنا پڑے گا، خواہ اس پر عربی، فارسی، ہندی سمیت کسی بھی زبان کا اثر یا گہری چھاپ نمایاں ہو۔ (مرحوم سلیمان خطیب کی شاعری اور حالات ِزندگی کے متعلق معلومات انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ ایک مضمون یہاں بھی دیکھا جاسکتا ہے:http://www.urdulinks.com/urj/?p=2987)

 

{ویسے اس ساری گفتگو سے قطع نظریہ مشہور اور منفرد شعر بھی حضرت خواہ مخواہؔ حیدرآبادی سے یادگار ہے:

چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی رخساروں کو

تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے}

ہرچند کہ حیدرآبادی یا دکنی کو زبان قرار دینے کے حق میں لکھا جانے والا ایک مقالہ بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، مگر ہم پھر بھی یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ اگر یہ کوئی الگ زبان ہے تو پھر اردو کا اولین صاحب ِدیوان شاعر قلی قطب شاہ بھی اسی کے شعراء کا سَرخَیل ہوا نہ کہ اردو کا (یہ لفظ سَر+خیل ہے ناکہ سُرخیل یا سُرخِیل: کسی گروہ یا قبیلے کا سربراہ۔ ہمارے یہاں اچھے خاصے تجربہ کار اہلِ قلم بھی اس لفظ کا درست تلفظ ادا کرنے سے قاصر ہیں)۔ {یہ اور بات کہ جب اردوئے قدیم کا نام ہندوی تھا تو سلطان مسعود غزنوی کے درباری شاعر مسعود سعد سلمان لاہوری نے اس ترقی پذیر زبان میں اس قدر شاعری کی کہ دو ضخیم دیوان تیار ہوگئے، جبکہ تیسرا فارسی میں تھا، مگر افسوس وہ کارنامہ کتابی شکل میں محفوظ نہیں۔ یہ بات ہے گیارہویں صدی کی، یعنی امیر خسرو (رحمۃ اللہ علیہ) سے بھی دو سو برس پہلے کی}۔

بہرحال خاکسار اپنا نظریہ دُہرائے بِنا نہیں رہ سکتا کہ اردو، کُرہ ارض کی واحد زبان ہے جس کی پیدائش اور پرورش کسی ایک علاقے تک محدودنہ رہی، بلکہ برِصغیر (یا برِعظیم) پاک وہند کے تقریباً تمام نمایاں حصوں میں اس کی بنیاد وقتاً فوقتاً پڑی، پڑتی رہی اور اُس جگہ کی مقامی زبانوں اور بولیوں کے اختلاط سے یہ پھلتی پھولتی رہی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسے باقاعدہ عروج یقیناً شمالی ہند، علی الخصوص دِلّی اور نواح میں حاصل ہوا۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ ہر علاقے میں اسے ایک نیا نام اور نرالا روپ بھی ملا۔ بالکل اسی طرح دکَن یا دکِن کی بولی اور زبان والا معاملہ بھی ہے جسے مقامی طور پر الگ کہا گیا۔ نصیر الدین ہاشمی اور ڈاکٹر سید محی الدین زورؔ قادری جیسے محققین بھی اسی نظریے کے پرچارک تھے، مگر اویس احمد ادیبؔ نے اس کی مخالفت کی۔

مزید گفتگو سے پہلے پروفیسر اویس احمد ادیبؔ کا یہ قول نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ امیرخسرو ؔ کی زبان، ’’اردونُما‘‘ برج بھاشا ہے۔ اور مزید وضاحت کرتا چلوں، ہمیشہ کی طرح، کہ امیرخسروؔ سے منسوب تقریباً تمام کلام اُس دور میں کہا ہوا یا لکھا ہوا ہرگز نہیں، یہ کسی اور (ممکن ہے اسی تخلص کے) شاعر کی طبع آزمائی معلوم ہوتی ہے۔ امیرخسروؔ کی واحد محفوظ غزل (برنگ ریختہ) ’’زِحال ِمسکیں‘‘ والی بھی پوری طرح اصل متن کے ساتھ نہیں ہے، اس بابت ہمارے بزرگ معاصر محترم احمد عمرشریف صاحب نے تحقیق فرمائی ہے۔ دعا ہے کہ وہ کتاب جلد منظرعام پر آئے اور ہم ایسے تحقیق کے جویا اکتساب ِ فیض کرسکیں، آمین!

جب حیدرآبادی /دکنی کی بات ہوگی تو ناواقفین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس سے مراد، ہندوستان کے دکن / دکھن/دَکھشنڑ یعنی جَنوب میں بولی جانے والی بولی ہے جو مقامی زبانوں مَراٹھی، تیلَگُو اور کَنّڑ کے اثرات سے مَملُو ہے اور جس کا قدیم رشتہ وانسلاک، ہندی، سنسکرت اور اردو کی قدیم بولیوں سے ہے۔ اب یہاں ایک وضاحت اور بھی ضروری ہے کہ دکن یا جنوب سے کون سے علاقے مراد ہیں۔ {یہ نکتہ اُس پرانی بحث سے بھی جُڑا ہوا ہے کہ اردو کے پہلے توانا شاعر وَلی گجراتی دکنی کو دکنی (اور اورنگ آبادی، دکنی) کیوں کہا جاتا ہے۔

ماقبل کسی تحریر میں، غالباً زباں فہمی ہی میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان مرحوم کا یہ قول نقل کرچکا ہوں کہ ’’انھیں گجراتی کہیے یا دکنی کہیے، ایک ہی بات ہے، کیونکہ دکن کا اطلاق جنوبی ہند کے علاقے پر ہوتا تھا جو دریائے نربدا سے لے کر گجرات تک اور جنوب میں مدراس اور راس کُماری تک تھا‘‘ (رسالہ تحقیق مضمون قاضی احمد میاں اختر ؔجوناگڑھی مرحوم، شمارہ نمبر آٹھ نو، ۹۵۔۱۹۹۴ء، ص ۱۲)۔ قاضی احمدمیاں اخترؔ جوناگڑھی نے بالتحقیق ثابت کیا ہے کہ ولیؔ کا تعلق احمد آباد، گجرات سے تھا، وہ اورنگ آباد، حیدرآباد اور دہلی سمیت متعدد شہروں میں مقیم رہے، مگر اُنھیں حیدرآبادی یا اورنگ آبادی دکنی سمجھنا خلاف ِ حقیقت ہے۔

اس بحث کا خلاصہ پھر کبھی پیش کرو ں گا، فی الحال دکن کی تعریف مزید واضح کردوں}۔ اس خطے کی آبادی میں مَرٹھواڑا، خاندیش، کرناٹک، حیدرآباد۔ کرناٹک، تلنگانہ ، جنوبی اور وسطی آندھراپردیش ، شِمالی تَمِل ناڈ (ناڈو نہیں) اور گوا اور کیرالہ (کیرلا) کے اقلیتی دکنی باشندے شامل ہیں۔ یہاں یہ لطیف نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ دکن یعنی جنوب میں فقط یہی ایک بولی یا زبان نہیں تھی، بلکہ وہاں زمانہ قدیم سے متعدد زبانیں بشمول گجراتی، تیلگو، تامل یا تَمِل، کنڑ، ملیالم بھی رائج تھیں اور ہیں، یہ سب کی سب دکنی ہیں۔

حیدرآبادی بولی اور اس کے زبان قرار دینے کی تاریخ، ہماری تاریخ کے ایک اہم موڑ سے جُڑی ہوئی ہے جب روایت کے مطابق، سلطان علاؤ الدین خلجی (1266–1316) کے عہد میں ہونے والے حملوں کے نتیجے میں مختلف زبانیں بولنے والوں کا آپس میں اختلاط ہوا، خاص طور پر اُس کے چِتّوڑ / چتّوڑگڑھ (راجستھان) پر حملے اور (ایک ہندی نظم پَدماوَتی میں بیان کردہ)، رانی پدمنی سے مفروضہ عشق کی داستان بھی اسی مقامی لسانی پس منظر میں اہمیت کی حامل ہے۔ اس عظیم حکمراں نے 1305 میں مالوہ/مالوا، اُجّین، چندیری اور منداوَرکی فتح کے دوسال بعد، دیوگِری پر چڑھائی کی اور1309 میں اُس کا لشکر ہندوستان کے انتہائی جنوبی حصے میں واقع کنھیا کُماری (’’کنواری شہزادی‘‘) یا Cape  Comiron تک جاپہنچا تھا اور مزید دوبرس کے اقتدار میں اُسے سلطنت ِدہلی کے امیرترین بادشاہ ہونے کا اعزاز مل گیا تھا۔

1327  میں سلطان محمد بن تغلق نے اچانک دارالسلطنت، دِلّی سے ایک نئے شہر، دولت آباد، دکن منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جس پر ہمہ جہتی تنقید ہوتی رہی۔ (اس پایہ تخت کے آثار اورنگ آباد، مہاراشٹر کے قریب واقع ہیں)۔ یہی وہ دور ہے جب شہر و نواح کی تقریباً تمام آبادی بشمول اُمَراء وسپاہ نے ایک نئے مقام پر بُود ووباش اختیار کی اور ایسے میں ہندوی، ہندوستانی یا زبان ہندوستان نے دکنی روپ دھارنے کا باقاعدہ آغاز کیا۔ لسانی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ اردو کی نشو نما (ناکہ نشو ونُما) میں اس موڑ پر زبان شمال سے جنوب گئی ہے۔

ایسا نہیں کہ ولیؔ کے طفیل اردو میں ریختہ یعنی اردوغزل گوئی کے رواج کو بنیاد قراردیتے ہوئے معاملہ برعکس ہو اور یہ کہا جائے کہ شمال کی زبان کچھ اور تھی، دکن یعنی جنوب کی کچھ اور۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ولیؔ کی زبان میں فارسیت اور پھر صاف اردو کے استعمال کا معاملہ فقط دِلّی آمد کے دورسے مشروط یا محدود نہیں، کیونکہ لہجے کے فرق سے قطع نظر، فارسی کا عمل دخل تو دکن میں بھی تھا، ہاں نقل مکانی نے اُن کی زبان کی صفائی وروانی میں اہم کردار ادا کیا۔ ولیؔ گجراتی دکنی ہر لحاظ سے ہمارے کلاسیکی شعراء یعنی متقدمین کے نہایت فاضل، محسن اور لائق تقلید پیش رَو ہیں۔ یہاں ہم ایک اہم نگارش سے اقتباس پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

تیرہویں صدی سے سترہویں صدی تک دکنی ادب کے کئی اہم کارنامے منظر عام پر آئے۔ دکنی میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ 1867ء تک برقرار رہا۔ چنانچہ اسی برس حیدرآباد کے ایک صوفی فقیر اللہ شاہ حیدر نے نہال چند لاہوری کی تصنیف ’’بکاولی‘‘ کے مقابل میں اپنی تصنیف ’’تناولی‘‘ پیش کی۔ باقر آگاہ اپنی مثنوی ’’گلزار عشق‘‘ کے دیباچے میں جو 1796 ء میں لکھی گئی ’’دکنی‘‘ پر کئے ہوئے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مقصود اس تمہید سے یہ ہے کہ اکثر جاہلان و ہرزہ سرایاں زبان دکنی پر اعتراض اور ’’گلشن عشق‘‘ و ’’علی نامہ‘‘ کے پڑھنے سے احتراز کرتے ہیں اور جہل مرکب سے نہیں جانتے کہ جب تک ریاست سلاطین دکن کی قائم تھی زبان ان کے درمیان خوب رائج تھی‘‘۔ (دکنی دور کی اہمیت، تحریر: اقبال احمد)۔ اسی مضمون نگار نے دکنی ادب کے چار ارتقائی عہد کا ذکر کیا ہے۔ آگے ملاحظہ فرمائیں کہ یہ تفصیل کس طرح مختصراً بیان ہوئی ہے:

’’دکنی(زبان) کے ادوار: دکنی کی ترقی کا اندازہ لگانے کے لئے دکنی ادب کی تاریخ کو ان چار ادوار میں منقسم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور: گجرات میں دکنی یا قدیم اردو کا چلن۔ دوسرا دور: 1324 ء سے 1686 ء تک علاؤ الدین خلجی اور محمد بن تغلق کے حملوں کے بعد بہمینہ سلطنت کے قیام اور بہمینہ سلطنت کے سقوط کے بعد گولکنڈہ، بیجا پور اور احمد نگر کے شمالی ہند میں انضمام تک۔ تیسرا دور:۔ جب اور نگ زیب کے عہد میں دکنی کا اہم مرکز اور نگ آباد تھا۔ چوتھا دور:۔ دور آصفی۔ مرکز گجرات، گجرات میں اس زبان کی سرپرستی حضرت عین الدین گنج العلم، شاہ علی جیو گام دھنی، بہاؤالدین باجن، شیخ خوب محمد چشتی، جیسے علما و صوفیا نے کی۔ شاہ علی جیوگام دھنی نے اپنی یادگار، ایک اردو دیوان ’’جواہر اسرار اللہ‘‘ چھوڑا۔ شیخ خوب محمد نے اپنے مرشد بہا الدین باجن کے کلام کی شرح ’’خوب ترنگ‘‘ کے نام سے لکھی۔ مابعد کے زمانے میں محمد امین گجراتی کی تصنیف ’’یوسف زلیخا‘‘ قدیم اردو کی اہم تصنیف ہے۔ سید علی جیوگام دھنی کے کلام کو ان کے ایک شاگرد نے ترتیب دیا اس میں ان کی شاعری کے متعلق لکھتا ہے۔

’’دربیان توحید و اسرار باالفاظ گجری بطریق فرمودہ‘‘ یہ نام گجری اور گوجری دکنی کے لیے اس دور میں خاصا مقبول رہا۔ چنانچہ بیجاپور کے مشہور صوفی شاہ برہان الدین جانم اپنی تصانیف ’’کلمۃ الحقائق‘‘ اور ’’حجۃ البقا‘‘ میں دکنی کو گجری کے ہی نام سے یاد کرتے ہیں۔ گجرات کے ساتھ دکنی کی سرپرستی دکن کی جن سلطنتوں نے کی ان میں سلطنت بہمینہ اور اس کے انفراض کے بعد عادل شاہی، قطب شاہی، نظام شاہی، عماد شاہی، برید شاہی وغیرہ مشہور ہیں‘‘۔ اس فہرست میں شامل متعدد اسمائے شعراء درحقیقت گوجری اور گجراتی کے سخنور تھے۔ قاضی احمدمیاں اخترؔ جوناگڑھی کے مضامین میں پوری تحقیق موجود ہے۔ (مضامین ِ اختر ؔ جوناگڑھی، انجمن ترقی اردو، کراچی: ۱۹۸۹ء)۔ خاکسار نے ’’اردو کی ماں، گوجری؟‘‘ کے عنوان سے تین اقساط پر مبنی مضمون یا مقالہ اسی زباں فہمی کے سلسلے میں لکھا تھا جسے زیرنظر کالم سے ملاکر پڑھنا مفید ہے۔

قلی قطب شاہ کو اردو کی موجودہ شکل میں اوّلین صاحب ِدیوان شاعر قراردیا جاتا ہے۔ مغل تاجدار جلال الدین اکبر کا ہم عصر، سلطان محمد قلی قطب شاہ (۹۷۳ھ/۱۵۶۵ء تا ۱۰۲۰ھ/۱۶۱۱ء) المتخلص بہ قطب شاہؔ (نیز معانیؔ، ترکمانؔ اور کئی دیگر)، دبستان ِ دکن کا اولین غزل گو تھا، ورنہ وہاں مثنوی کو اولیت حاصل تھی۔ ڈاکٹر زورؔ نے۱۹۴۰ء میں اُس کا کلّیات شایع کیا جو ۱۸۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں پچاس ہزار اشعار بشمول غزلیات، قصائد (نعتیہ، منقبتیہ)، مثنویات، رباعیات و مراثی شامل ہیں۔ اُس کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

میں نہ جانوں کعبہ و بُت خانہ ومئے خانہ کوں

دیکھتا ہوں ہر کہاں دِستا ہے تُج مُکھ کا صفا

(کوں: کو، ہرکہاں: ہرجگہ، دِستا: دِکھتا یا نظر آتا، تُج: تجھ/تیرا ، مُکھ: چہرہ ، صفا: صاف)

میں نہ جانوں کیوں اچھے گی حورِ جنّت

حسن تیرا مُج عجب دیوانہ کِیتا

(کیوں اچھے گی: کیسی ہوگی، مُج: مجھے، کِیتا: کیا۔یہ کیِتا پنجابی میں بھی مشترک ہے)

رُخ کیے مئے خانہ رُخ، لے پیالا  ہات

ڈگمگی چالاں سے سب کسی کوں بھلات

(ہات: ہاتھ ، چالاںسے : چال سے ، بھلات : بھلادیا)

}غزل نُما از قلم اداؔ جعفری، انجمن ترقی اردو، کراچی: ۱۹۸۷ء{

اب ذرا ایمان داری سے بتائیے کہ آیا یہ منقول کلام، اردو سے ہٹ کر یا اُس سے خارج ہے؟

قدیم شعرائے دکن کی فہرست بہت طویل ہے۔ اگر ہم اداؔجعفری کی کتاب ہی سے نقل کریں تو یہ اسماء سامنے آتے ہیں:

قطب شاہؔ، شوقیؔ (شیخ حسن)، غوّاصیؔ، شاہیؔ (علی عادل شاہ)، نصرتیؔ (محمد نصرت)، ہاشمیؔ بیجاپوری (سید میراں)، بحریؔ (قاضی محمود)، سراج ؔ اَورنگ آبادی (سید سراج الدین) اور قاسمؔ اورنگ آبادی (شاہ قاسم)۔ موضوع بہت وسیع ہے، مگر تنگی قرطاس وتنگی وقت مانع ہے۔

The post زباں فہمی؛ حیدرآبادی بولی appeared first on ایکسپریس اردو.

چھوٹی ٹیموں نے آنکھوں میں بڑے خواب سجا لیے

$
0
0

ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کے ابتدائی راؤنڈ کا آغاز اتوار سے ہورہا ہے، چھوٹی ٹیموں نے آنکھوں میں بڑے خواب سجا لیے اور سپر12میں جگہ بنانے کیلیے پْرعزم ہیں۔

پہلے مرحلے میں 8 کوالیفائنگ ٹیموں کے درمیان 2 گروپس میں مقابلہ ہوگا، اس میں سے 4 ٹیمیں سپر 12 راؤنڈ میں براہ راستکوالیفائی کرنے والی ٹاپ 8سائیڈزکو جوائن کریں گی۔ دونوں گروپس میں ایک ایک انتہائی تجربہ کار ٹیم سری لنکا اور بنگلادیش کی صورت میں موجود ہے جو ورلڈ کپ میں ڈائریکٹ جگہ بنانے کیلیے کٹ آف ڈیٹ تک رینکنگ ٹاپ 8 میں جگہ نہ بنا سکی تھیں۔

ابتدائی راؤنڈ کے گروپ اے میں سری لنکا، آئرلینڈ، نیدرلینڈز اور نمیبیا کی ٹیمیں شامل ہیں،ان کا پہلا ہدف سپر 12 راؤنڈ کی ٹکٹ کٹوانا ہوگا، تمام چاروں ٹیمیں راؤنڈ روبن فارمیٹ میں  ایک دوسرے کے خلاف ایک مرتبہ مدمقابل آئیں گی، ان میں سے زیادہ پوائنٹس کی حامل 2 سائیڈز اگلے راؤنڈ میں جگہ پائیں گی، نمیبیا نے پہلی مرتبہ میگا ایونٹ کیلیے کوالیفائی کرکے نئی تاریخ رقم کی ہے، اس نے 2019 میں ٹی 20 ورلڈ کپ کوالیفائر میں عمان پر فتح حاصل کی تھی۔

آئرلینڈ اور نیدرلینڈز نے بھی کوالیفائنگ راؤنڈ میں کامیابی کے بعد ہی میگا ایونٹ کے پہلے مرحلے میں جگہ بنائی، 2014 کی چیمپئن سری لنکن ٹیم اپنی رینکنگ کی بنیاد پر پہلا راؤنڈ کھیلنے پر مجبور ہوئی۔

گروپ اے کی ٹاپ سیڈ سپر 12 مرحلے کے گروپ ون میں جگہ بنائے گی جس میں آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز اور گروپ بی کی سیکنڈ سیڈ ٹیم شامل ہوگی۔ اسی طرح گروپ اے کی سیکنڈ سیڈ ٹیم سپر 12 کے گروپ بی میں جائے گی جہاں پر وہ پاکستان، بھارت، نیوزی لینڈ اور کوالیفائرگروپ بی کی ٹاپ سیڈ ٹیم کو جوائن کرے گی۔ اس گروپ میں فیورٹ سائیڈ سری لنکا ہی ہے،وہ 2007 کے ابتدائی ایڈیشن سے ہی ٹی 20 ورلڈ کپ کھیل رہی ہے،2014 میں چیمپئن بننے کا بھی اعزاز حاصل ہو چکا جب فائنل میں بھارت کو زیر کیا تھا۔

اس سے قبل 2009 کے فیصلہ کن معرکے میں اسے پاکستان کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی،2012 میں بھی آئی لینڈرز رنر اپ رہے تھے،اس بار وہ کٹ آف ڈیٹ تک ٹی 20 رینکنگ میں ٹاپ 8 میں جگہ نہ بنا پائے۔

آئرلینڈ کی ٹیم ٹی 20 ورلڈ کپ کا ابتدائی ایڈیشن نہیں کھیل پائی تھی تاہم اس کے بعد سے تمام مینز میگا ایونٹس کا حصہ بنتی آ رہی ہے،اب چھٹی مرتبہ ٹی 20 میگا ایونٹ میں شریک ہوگی۔ اس کی ٹورنامنٹ میں اب تک کی بہترین کارکردگی انگلینڈ میں منعقد ہونے والے 2009 کے ایڈیشن میں سامنے آئی جہاں پہلے راؤنڈ سے سفر شروع کرنے کے بعد بنگلادیش کو زیر کرتے ہوئے سپر 8 میں جگہ بنائی تھی، اس بار بھی ٹیم کے حوصلے بلند اور وہ سپر 12 کی ٹکٹ کٹوانے کیلیے پْرعزم ہے۔

نیدرلینڈز نے ٹی 20 فارمیٹ میں اپنی مہارت کا ثبوت 2019 میں آئی سی سی ٹی 20 ورلڈکپ کوالیفائر جیت کر دیا، جہاں اس نے دبئی میں کھیلے گئے فائنل میں پاپوانیوگنی کو 7 وکٹ سے شکست دی، ڈچ سائیڈ پہلے ہی اس ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں رسائی کی وجہ سے میگا ایونٹ کیلیے کوالیفائی کرچکی تھی، سیمی فائنل میں نیدرلینڈز نے آئرلینڈ کو 21 رنز سے شکست دی۔ اب ایک بار پھر اس کی نگاہیں خود سے بڑی ٹیموں کو حیران کرتے ہوئے دوسرے راؤنڈ میں جگہ پکی کرنے پر مرکوز ہوں گی۔

ٹورنامنٹ میں سب سے کم رینکڈ 19 کی حامل ٹیم نمیبیا اس سال آئی سی سی مینز ٹی 20 ورلڈ کپ میں ڈیبیو کرنے والی ہے، اس نے بھی بڑا ہدف بنایا ہوا ہے، نمیبیا کی ٹیم عمدہ کھیل سے ٹورنامنٹ میں کم سے کم اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش ضرور کرے گی۔ وہ پہلے ہی یہ ثابت کرچکی  کہ آسانی سے ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہے، ورلڈ کپ میں رسائی کے سفر میں بھرپور فائٹ اس بات کی گواہ ہے، جہاں اس نے  نیدرلینڈز اور پاپوانیوگنی سے شکست کے بعد لگاتار 5 فتوحات حاصل کیں۔

آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ 2021 کے ابتدائی راؤنڈ کے گروپ بی میں بنگلادیش، میزبان عمان، پاپوا نیوگنی اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان سپر 12 راؤنڈ میں جگہ بنانے کی کشمکش ہوگی، راؤنڈ روبن مقابلوں کے بعد ٹاپ 2 پوزیشن پر رہنے والی ٹیمیں اگلے مرحلے کا ٹکٹ کٹوائیں گی۔ عمان کو ہوم ایڈوانٹیج حاصل ہوگا، گروپ بی کے تمام میچز عمان کرکٹ اکیڈمی گراؤنڈ الامارات میں کھیلے جائیں گے۔

میزبان ملک نے بھی آئی سی سی مینز ٹی 20 ورلڈ کپ کوالیفائر 2019 کے ذریعے ہی شوپیس ایونٹ کھیلنے کا حق حاصل کیا تھا، یہ عمان کا دوسرا ٹی 20 ورلڈ کپ ہوگا۔ 5 برس قبل اس نے ٹی 20 ورلڈ کپ میں آئرلینڈ جیسی ٹیم کو مات دے کر عالمی منظر نامے پر اپنی شناخت بنائی تھی، اس کے بعد سے کارکردگی میں کافی حد تک بہتری آچکی ہے،اپنے ہوم گراؤنڈ پر کھیلنے کی وجہ سے ٹیم کے اعتماد میں بھی اصافہ ہوگا، جس کی وجہ سے اسے کم سے کم اگلے راؤنڈ میں رسائی پانے کی امید دکھائی دے رہی ہے۔

بنگلادیش کی ٹیم اپنی ورلڈ ٹی 20 رینکنگ کی بنیاد پر میگا ایونٹ کے ابتدائی راؤنڈ میں انٹری پر مجبور ہوئی، اس کی رینکنگ اتنی بہتر نہیں تھی کہ وہ براہ راست سپر 12 میں جگہ بنا پاتی، بنگال ٹائیگرز نے ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کے 2007 میں کھیلے گئے پہلے ایڈیشن کے سپر8 مرحلے میں جگہ بنائی تھی، اس کے بعد وہ اب تک کھیلے گئے اس فارمیٹ کے شوپیس ایونٹس میں ایک بار پھر اس سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

2014 میں ورلڈ کپ کی میزبانی سے بھی قسمت نہیں بدلی تاہم اس بار بنگلادیش ٹیم کو توقع ہے کہ وہ سپر 12 راؤنڈ کی ٹکٹ پانے میں کم سے کم کامیاب ہوجائے گی، اس اعتماد کی وجہ اپنے ہوم گراؤنڈز پر حال ہی میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیم کو اس فارمیٹ میں بڑے مارجن سے مات دینا ہے۔اس کے باوجود اسے چھوٹی ٹیموں کے ہاتھوں خود کو اپ سیٹ شکستوں سے بچانے کا چیلنج بھی درپیش ہوگا۔

پاپوانیوگنی 2014 اور 2016 میں تھوڑے سے فرق کی وجہ سے ورلڈکپ میں جگہ بنانے میں ناکام رہ گئی تھی مگر اس نے 2019 میں کسی بھی صورت موقع ضائع نہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کی اور اس میں کامیاب بھی رہی، گروپ اے میں ٹاپ پر رہنے کی وجہ سے وہ میگا ایونٹ میں نشست بک کرانے والی پہلی ٹیم بنی تھی۔

اسکاٹ لینڈ نے 7 برس کی دوری کے بعد آخر کار ٹی 20 ورلڈ کپ میں دوبارہ انٹری دی اور 2016 کے ایڈیشن میں ایکشن میں دکھائی دی، اس کے بعد ٹیم نے 2019 کے ورلڈ کپ کوالیفائر میں پانچویں پوزیشن کے پلے آف میں عمان پر فتح پاکرٹورنامنٹ میں جگہ پکی کی۔ اس کی بھی نگاہیں اس راؤنڈ سے بھی ایک قدم اور آگے بڑھنے پر مرکوز ہیں۔

پاپوانیوگنی نے بھی 2019 کے کوالیفائنگ راؤنڈ سے ہی ورلڈ کپ میں جگہ بنائی، وارم اپ میچ میں آئرلینڈ پر 5 وکٹ کی کامیابی یہ امکان پیدا کررہی ہے کہ وہ شوپیس ٹورنامنٹ میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کامیاب رہے گی۔

 

The post چھوٹی ٹیموں نے آنکھوں میں بڑے خواب سجا لیے appeared first on ایکسپریس اردو.

معاشی استحکام کی ضامن ’’دیہی خواتین‘‘ خود معاشی استحصال کا شکار !!

$
0
0

15 اکتوبر کو ہر سال دیہی خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد انہیں درپیش مسائل و حل پر بات کرنا اور معاشرے میں ان کے کردار کو اجاگر کرنا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18 دسمبر 2007ء کو دیہی خواتین کے حقوق کے متعلق قرارداد منظور کی تھی جس کے ایک سال بعد 15 اکتوبر 2008ء کو نیو یارک میں پہلی مرتبہ دیہی خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔اس وقت سے آج تک یہ دن ہر سال باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے رواں برس ’’دیہی خواتین کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کی نمائندہ خواتین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سعدیہ سہیل رانا

(رہنما پاکستان تحریک انصاف وچیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب )

ملک کی 70 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے جس کی بڑی تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔ لائیوسٹاک کی بات کریں تو اس شعبہ کی 80 فیصد منیجرز خواتین ہیں جبکہ کھیتوں میں بھی خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کام کرتی ہے اورملکی معیشت میں اپنا اہم کردار ادا کررہی ہے مگر بدقسمتی سے ان خواتین کو سیاسی، سماجی، معاشی ،معاشرتی و دیگر حوالے سے مسائل درپیش ہیں۔ وزیراعظم کا ویژن ہے کہ ہم نے انسانی ترقی پر زیادہ خرچ کرنا ہے۔ اسی ویژن کے تحت موجودہ حکومت خواتین کی ترقی کیلئے ہرممکن اقدامات کر رہی ہے۔

اس حوالے سے موثر قانون سازی کی گئی۔ موجودہ حکومت نے بھی خواتین کے حوالے سے اچھی قانون سازی کی، اس وقت تمام خواتین اراکین اسمبلی نے ان کا ساتھ دیا۔اس وقت بھی خواتین کے مسائل کے حل اور قانون سازی کیلئے متمام خواتین اراکین اسمبلی اپنی جماعت سے بالاتر ہوکر کام کر رہی ہیں،میں اسمبلی کے فلور پر دیہی خواتین کے حقوق و تحفظ کیلئے ہر ممکن آواز اٹھاؤں گی۔

ہماری حکومت نہ صرف ان قوانین کو مزید بہتر بنا رہی ہے بلکہ نئی قانون سازی بھی کی جارہی ہے جس کے موثرکیلئے موثر قانون سازی بھی کی گئی اور بڑے اقدامات بھی۔ دیہی خواتین کی ایک بڑی تعداد گھر میں سلائی کڑھائی کرکے روزگار کماتی ہے مگر انہیں معاوضہ انتہائی کم ملتا ہے، انہیں بطور ورکر تسلیم کرنے کیلئے اقدامات کیے گئے تاکہ سوشل سکیورٹی کی سہولت بھی دی جاسکے۔

دیہی خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے تربیتی پروگرامز شروع کیے جا رہے ہیں جن میں لائیوسٹاک کی دیکھ بھال و دیگر کورس شامل ہیں۔ دیہی خواتین کو 50 لاکھ روپے تک کے قرضے دیے جارہے ہیں،اس کا طریقہ کار مزید آسان بنانے کیلئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈار نے یقین دہانی کروائی ہے، جلد خواتین کی رہنمائی اور رجسٹریشن کیلئے ٹیلیفون نمبرز کی تشہیر کر دی جائے گی۔ ہیلتھ کارڈ کی صورت میں دیہی خواتین کو صحت کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

مقامی ہسپتالوں کو بھی اپ گریڈ کیا جا رہا ہے تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں خاتون کو علاج فراہم کیا جاسکے، اس سے دوران زچگی شرح اموات میں بھی کمی آئے گی۔ دیہاتوں میں بچے، بچیوں کے الگ الگ اور فاصلے پر سکول یقینی بنائے جا رہے ہیں، سکول میں داخلے اور تعلیم حاصل کرنے کی صورت میں بچیوں کا وظیفہ بڑھا دیا گیا ہے، جلد اس کا آغاز کر دیا جائے گا۔ دیہی خواتین کو ہنر کی تعلیم دینے کیلئے ٹیوٹا کے ساتھ مختلف پروگرامز شروع کیے گئے ہیں، کورس مکمل کرنے کے بعد کاروبار کیلئے مالی معاونت بھی کی جائے گی۔

وویمن پروٹیکشن اتھارٹی کے ذریعے خواتین کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے، تمام اضلاع میں وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں جہاں ایک ہی چھت کے تلے تمام سہولیات میسر ہونگی، اس کے لیے پہلے سے موجود دارالامان کو اپ گریڈ کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں خواتین کی نمائندگی مزید موثر بنانے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں، کسان کی نشست پر بھی خاتون کو نمائندگی دی جائے گی۔

 بشریٰ خالق

(نمائندہ سول سوسائٹی )

بدقسمتی سے دیہی اور شہری آبادی میں خلیج بڑھ رہی ہے۔ ہماری 70 فیصد سے زائد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور وہاں کی 80 فیصد خواتین ملکی معیشت میں اپنا کردار کرتی ہیں مگر بدقسمتی سے انہیں بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں، ان کی سماجی حیثیت کمزور ہے، جاگیردارانہ نظام کے ساتھ جڑی سوچ کی وجہ سے دیہی خواتین تعلیم، صحت، کام کا جائز معاوضہ، فیصلہ سازی کے اختیارات سمیت مختلف حوالے سے استحصال کا شکار ہیں، وراثت کے حوالے سے بھی ان کی سماجی حیثیت کمزور ہے۔

زمین کے مالک مرد طاقتور ہیں جبکہ بہت کم خواتین زمین کی مالک ہیں جس کی وجہ سے انہیں مسائل درپیش ہیں۔ بیج کی بوائی سے لے کر فصل کی صفائی اور سنبھالنے تک خواتین مکمل کردار ادا کرتی ہیں مگر مارکیٹ سے خاتون کے بجائے مرد کا تعلق ہے اور وہ سارے پیسے کما لیتا ہے جس سے خواتین کا معاشی استحصال ہورہا ہے لہٰذا ہمیں دیہی عورت کی معاشی و معاشرتی حیثیت کو بہتر بنانا ہوگا۔ کپاس واحد فصل ہے جس کا 100فیصد کام خواتین کرتی ہیں، پودے کا قد کم ہونے کی وجہ سے خواتین کو جھک کر کپاس چننا پڑتی ہے جس سے انہیں کمر کی تکلیف کی شکایت ہوتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ فصلوں پر سپرے کی و جہ سے خواتین کو ’ٹی بی‘ اور سانس کی بیماریاںبھی لاحق ہوتی ہیں مگر انہیں صحت کی سہولیات میسر نہیں اور نہ ہی جائز معاوضہ ملتا ہے۔ مطالبہ ہے کہ دیہی اور زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بااختیار بنایا جائے، انہیں فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے، تعلیم، صحت، کام کے اوقات، کھیتوں میں کام کرنے کیلئے مخصوص لباس، آسان شرائط پر قرض سمیت دیگر سہولیات دی جائیں۔ مقامی حکومتوں کا قانون جلد آنے والا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ اس میں خواتین کو 33فیصد نمائندگی دی جائے اور کسان کی مخصوص نشست پر صرف مرد ہی نہیں بلکہ خواتین کو بھی لازمی نمائندگی دی جائے۔

 بدر االنساء

(اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی دیہی خاتون)

کھیتوں میں لگنے والے آلودہ پانی سے تیار فصلیں کھانے اور گندا پانی پینے کی وجہ سے مرد و خواتین بیمار ہورہے ہیں۔  ہیپاٹائٹس، جلد ی امراض و دیگر بیماریوں کی وجہ سے خواتین کی صحت شدید متاثر ہورہی ہے،یہ صورتحال بچوں کی صحت کیلئے بھی ٹھیک نہیں ہے لہٰذا فوری طور پر صاف پانی کی فراہمی یقینی بنا کر دیہی خواتین کی صحت کا حق ادا کیا جائے۔ میری بیٹی واحد ہے جو گاؤں سے 4کلومیٹر دور سکول میں پڑھتی رہی،میں پیدل اسے سکول لے کر جاتی تھی، الحمداللہ! آج وہ وکیل بن چکی ہے۔

میں نے اپنے علاقے میں مردوں سے جنگ لڑی ہے، میری خواہش ہے کہ اب میری بیٹی قلم سے جدوجہد کرے۔ مجھے اپنے علاقے کی بیٹیوں کے مستقبل کی فکر ہے، میں نے جو کام اپنی بیٹی کیلئے کیا وہی قوم کی دیگر بیٹیوں کیلئے کرنا چاہتی ہوں۔دیہی خواتین بدترین استحصال کا شکار ہیں لہٰذا ان کے حقوق و تحفظ کیلئے حکومت کا کام کرنا ہوگا۔ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ قرضہ سکیم سے غریب آدمی کو فائدہ نہیں، 40 سے45 ہزار ماہانہ تنخواہ والا شخص یا 5 ایکڑ سے زائد زمین کا مالک قرض لے سکتا ہے۔ اتنی آمدن یا زمین رکھنے والا شخص غریب نہیں ہوتا، میرا مطالبہ ہے کہ قرض کے حصول کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ کم رقبے کے مالک افراد کو بھی قرض فراہم کیا جائے۔

کائنات ملک

(راجن پور سے تعلق رکھنے والی دیہی خاتون )

ناخواندگی دیہی خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، انہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور کس طرح حاصل کرنے ہیں۔ وہ خاموشی سے ظلم برداشت کرتی رہتی ہیں اور وسائل پر قابض مرد ان کا ہر ممکن استحصال کرتا ہے۔ دیہی خواتین معاشی طور پر کمزور ہیں، ان سے کام زیادہ لیا جاتا ہے جبکہ معاوضہ نہ ہونے کے برابر دیا جاتا ہے۔

افسوس ہے کہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کو بیماری یا سانپ، بچھو وغیرہ کے کاٹنے کی صورت میں طبی امداد مہیا نہیں ہوتی، ان کے پاس ڈاکٹر کی فیس ادا کرنے کے پیسے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے وہ علاج کیلئے بھی نہیں جاتی، خواتین کو ان کے بنیادی حقوق دینے کیلئے ہمیں سماجی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔کپاس کے 3 ماہ کے سیزن میں 6 سال سے 15 برس کی عمر کی بچیوں کو سکولوں سے ہٹا کر فصلوں میں کام کیلئے لگا دیا جاتا ہے، یہ سکول سے لڑکیوں کے ڈراپ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے جو ان کے مستقبل کے ساتھ ظلم ہے۔

فیصلہ سازی میں دیہی خواتین شامل نہیں، انہیں تنظیم سازی کا حق بھی حاصل نہیں ہے، وہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں مگر کہیں رجسٹرڈ نہیں، کسی کو معلوم ہی نہیں کتنی خواتین کھیتوں میں کام کر رہی ہیں، ان کے ساتھ کتنے حادثات پیش آئے؟ اس حوالے سے لیبر ڈیپارٹمنٹ کو ڈیٹا اکٹھا کرنا چاہیے تاکہ اس کی روشنی دیہی خواتین کے حوالے سے اقدامات کیے جاسکیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین کیلئے لٹریسی سینٹرز قائم کیے جائیں، تربیت کیلئے انہیں معاوضہ بھی دیا جائے،اس کے ساتھ ساتھ ا نہیں شعور و آگاہی دی جائے تاکہ ظلم و نا انصافی کا خاتمہ ہوسکے۔

The post معاشی استحکام کی ضامن ’’دیہی خواتین‘‘ خود معاشی استحصال کا شکار !! appeared first on ایکسپریس اردو.


نعت رسول مقبول ﷺ

$
0
0

اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی

انؐ کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیں
جس راہ چل گئے ہیں، کوچے بسا دیے ہیں

جب آگئی ہیں جوش رحمت پہ انؐ کی آنکھیں
جلتے بجھا دیے ہیں، روتے ہنسا دیے ہیں

انؐ کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو
جب یاد آ گئے ہیں، سب غم بھلا دیے ہیں

میرے کریمؐ سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دیے ہیں، دُر بے بہا دیے ہیں

اسرا میں گزرے جس دم بیڑے پہ قدسیوں کے
ہونے لگی سلامی، پرچم جھکا دیے ہیں

ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلّم
جس سمت آگئے ہو، سکّے بٹھا دیے ہیں

داغ دہلوی

توؐ جو اﷲ کا محبوب ہوا، خُوب ہوا
یا نبیؐ خُوب ہوا، خُوب ہوا، خُوب ہوا

شب معراج یہ کہتے تھے فرشتے باہم
سخن طالب و مطلوب ہوا، خُوب ہوا

حشر میں امت عاصی کا ٹھکانا ہی نہ تھا
بخشوانا تجھے مرغوب ہوا، خُوب ہوا

تھا سبھی پیش نظر معرکہ کرب و بلا
صبر میں ثانی ایوب ہوا، خُوب ہوا

داغ ہے روز قیامت مری شرم اس کے ہاتھ
میں گناہوں سے جو محبوب ہوا، خُوب ہوا

ساغر صدیقی

جاری ہے دو جہاں پہ حکومت رسولؐ کی
کرتے ہیں مہر و ماہ اطاعت رسولؐ کی

ایماں ایک نام ہے حُبّ رسولؐ کا
ہے خُلد کی بہار مُحبّت رسولؐ کی

نوک مژہ پہ جن کی رہے اشک کربلا
پائیں گے حشر میں وہ شفاعت رسولؐ کی

غار حرا کو یاد ہیں سجدے رسولؐ کے
دیکھی ہیں پتھروں نے عبادت رسولؐ کی

ساغر تمام عالم ہستی ہے بے حجاب
آنکھوں میں بس رہی ہے وہ خلوت رسولؐ کی

عبدالرحمن گیلانی

زندگی پُربہار ہوجائے
ہر نظر لالہ زار ہوجائے

ناطقہ دل کا ترجمان بنے
ہر نفس اک شرار ہوجائے

دشتِ طیبہ جنوں نواز بنے
خاکِ بطحیٰ مزار ہوجائے

زندگی اپنی جس قدر بھی ہے
انؐ کی خاطر نثار ہوجائے

انؐ کی الفت کے پھول گَر نہ کِھلیں
گُلِ تر نوکِ خار ہوجائے

نام انؐ کا اگر زباں پر ہو
جذبِ دل باوقار ہوجائے

نقشِ پا انؐ کے گر نہ روشن ہوں
زندگی خار زار ہوجائے

کیف و مستی کی ہر ادا بڑھ کر
میری لوحِ مزار ہوجائے

انؐ کے در کی رسائی ہو ممکن
ہر نفس بے قرار ہوجائے

ناز پرور تری مشیت ہے
کیوں نہ عالی وقار ہوجائے

میرے ذوقِ نظر کا ہر پردہ
اک گریباں کا تار ہوجائے

The post نعت رسول مقبول ﷺ appeared first on ایکسپریس اردو.

دعائے خلیل و نوید مسیحا ﷺ

$
0
0

بیت اﷲ جسے سیّدنا ابراہیم خلیل اﷲ اور ان کے فرزند عزیز سیّدنا اسمٰعیل ذبیح اﷲ علیہم السلام نے خالص اﷲ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا 360 معبودان باطلہ کی آماج گاہ بن چکا تھا۔

ہر طرف کفر و شرک کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ کہیں ستاروں کی پُوجا ہو رہی تھی تو کہیں آتش پرستی سے قلوب و اذہان بھسم کیے جارہے تھے۔ گویا انسانیت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی کہ اﷲ کی رحمت کو جوش آیا اور مکہ مکرمہ کی اسی سرزمین سے کہ جہاں اﷲ کا گھر اس کے خلیلؑ نے تعمیر کیا تھا اور دعا کی تھی، مفہوم: ’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔ بے شک تو غلبے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘

اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بشارت دی۔ مفہوم: ’’اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میری قوم بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی بھی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی خوش خبری سنانے والا ہوں‘ جن کا نام احمد ہے۔‘‘

اسی طرح دیگر انبیائے کرامؑ نے بھی بشارتیں دی تھیں کہ ایک رسول رحمت آنے والے ہیں تو وہ ابر رحمت قریش کے سردار عبدالمطلب کے گھر ہویدا ہوا اور نبی مکرم ﷺ کی پیدائش پر رب کائنات نے یہ معجزہ دکھایا کہ نور کی تجلّیات و عرفان سے شام کے محلات روشن ہوگئے اور بیت اﷲ میں رکھے گئے بُت سرنگوں ہوگئے اور آتش کدۂ ایران جو صدیوں سے روشن چلا آ رہا تھا بجھ گیا اور پوری کائنات ارضی کو یہ پیغام ربّانی دیا گیا کہ اب وہ ہستی کائنات میں تشریف لاچکی جو ہر قسم کے شرک و ضلالت کو اپنے پائے استحقار تلے روندنے والی ہے۔

عبدالمطلب کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ وہ اپنے حسین و جمیل پوتے کو گود میں لیے بیت اﷲ میں آئے اور ولادت کا اعلان عام کیا۔ لوگوں نے جب پوچھا کہ بچے کا نام کیا رکھا ہے تو عبدالمطلب نے برجستہ کہا محمّد (ﷺ)۔ سب لوگ حیران ہوگئے کہ یہ نام عرب میں مانوس نہیں تھا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ اس نام کے معنی بہت زیادہ تعریف کیے گئے ہیں۔ یہ نام اﷲ ہی نے رکھوایا کہ تاقیامت جب تک اﷲ کا نام بلند ہوگا تو اس کے محبوبؐ کا نام بھی بلند ہوتا رہے گا۔

رب العالمین کے ارشاد کا مفہوم ہے: ( اے نبی! ﷺ) ’’ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ نبی مکرمؐؐ کی پیدائش کی بشارت عالم ارواح میں تمام انبیائؑ سے عہد لینے کی صورت میں بھی واضح کردی گئی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں مالک کائنات کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ نے (عالم ارواح میں) نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائیں (یعنی تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے) تو تمہیں ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا ضروری ہے۔ کیا تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا ہاں ہمیں اقرار ہے۔ فرمایا! تو اب تم گواہ رہو اور خود میں تمہارے ساتھ گواہ ہوں پس اس کے بعد جو بھی پلٹ جائیں وہ یقیناً پورے نافرمان ہیں۔‘‘

یعنی سیدنا آدمؑ سے لے کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک تمام نبیوں سے روز اول ہی اﷲ تعالیٰ نے یہ قول و قرار اور وعدہ لے لیا تھا کہ اگر میں اپنے محبوب محمد رسول اﷲ ﷺ کو تمہارے زمانے میں بھیجوں تو تم پر فرض ہوگا کہ تم ان پر ایمان لاؤ اور ان کی مدد کرو، اگر تم اس کا اقرار کرتے ہو تو تمہیں نبی اور رسول بنا کر بھیجیں گے اور کتاب و حکمت بھی عطا کریں گے‘ تو تمام انبیاء و رسلؑ نے اس کا اقرار کیا اور جب وہ انبیاء دنیا میں مبعوث ہوئے تو انہوں نے اپنی امّتوں کو یہ نصیحت فرمائی کہ اگر تم محمد ﷺ کا زمانہ پاؤ تو ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا۔ گویا تمام انبیائؑ نے رسالت محمدیؐ کا اقرار کیا اور ان کا امّتی ہونے کی خواہش ظاہر کی۔

نبی کریم ﷺ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہیں۔ یہی نہیں بل کہ آپؐ کے اندر اﷲ تعالیٰ نے تمام اوصاف حمیدہ اتمام و اکمال کے ساتھ پیدا فرما دیے۔ آپؐ محمّد ہیں‘ محمود‘ احمد ‘ بشیر و نذیر‘ حبیب و حلیم‘ رشید و عادل‘ خازن و قاسم‘ سید الخلق‘ امام الانبیاء‘ سیّد المرسلین‘ رحمۃ اللعالمین ﷺ بھی ہیں۔ آپؐ صادق و مصدوق اور امین بھی ہیں۔ طیّب و طاہر‘ حامی و حاشر و عاقب ‘ مدثر و مزمل بھی ہیں۔ آپؐ کی عظمت و رفعت پوری کائنات میں افضل و اعلیٰ ہے۔ چوں کہ آپؐ خاتم النبیین بن کر آئے لہٰذا آپؐ کی ذات بابرکات میں جمیع اوصاف و کمال مجتمع کر دیے گئے تھے۔ تمام انبیاء و رسلؑ میں جو اوصاف و کمالات موجود تھے وہ سب کے سب آپ ﷺ کی ذات والا صفات میں اکمل و اجمل پیدا فرما دیے گئے۔

امام کائناتؐ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو کسی بدترین دشمن کو بھی آپؐ کی سیرت مبارکہ میں زندگی کے کسی بھی موڑ پر کہیں بھی انگشت نمائی کی جرأت نہیں ہوسکتی۔ آپؐ صدق و صفا کے پیکر‘ علم و تواضع کے خوگر‘ نرم گفتار‘ ملن سار‘ خلیق‘ باحیا اور مصائب و آلام پر صبر کا کوہ گراں ثابت ہوئے۔ کفار مکہ نے ہر طریقے سے آپؐ کو آپ کے مشن سے باز رکھنے کے جتن کرلیے مگر آپؐ کے پائے استقامت میں ذرّہ برابر بھی جنبش نہیں آئی بل کہ آپؐ نے اپنے چچا ابوطالب سے فرمایا کہ اگر یہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند لاکر رکھ دیں تب بھی میں اپنے مشن سے باز آنے والا نہیں۔

آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں نے ہر طرح کی مصیبتیں جھیلیں مگر اُف تک نہ کی، یہاں تک کہ آپؐ کو مدینہ منورہ ہجرت کا حکم ہوا اور اﷲ کا کلمہ بلند ہوکر رہا اور رحمت کائنات ؐ نے انسانی تاریخ کی سب سے مثالی ریاست قائم کرکے دکھا دی جو رہتی دنیا تک کے لیے منارۂ نور ہے۔ رحمۃ اللعالمین ﷺ نے اپنی سیرت مبارکہ کے ایسے مقدس و پاکیزہ گہرہائے نقوش چھوڑے جو پوری انسانیت کے لیے منبعٔ رشد و ہدایت اور دنیاوی و اخروی فوز و فلاح کے ضامن ہیں۔

ماہ ربیع الاول کی ان ساعتوں میں ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ اپنی پوری زندگی کو خالص قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالیں گے اور اپنے اخلاق و کردار‘ عقائد و اعمال کی درستی کا اہتمام کرتے ہوئے اسلام کے آفاقی نظریۂ حیات پر عمل پیرا رہ کر دنیا و آخرت کی کام یابیوں اور کام رانیوں سے ہم کنار ہونے کی بھرپور سعی و جہد کریں گے۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 

The post دعائے خلیل و نوید مسیحا ﷺ appeared first on ایکسپریس اردو.

دانائے سُبُل، ختم الرسل، مولائے کُل ﷺ

$
0
0

دانائے سُبل، ختم ِرُسل، مولائے کُل حضور سیّد الرمرسلین، خاتم النبیین حضرت محمّد مصطفٰی ﷺ جس طرح رفعت ِسیرت و کردار میں بے عدیل و بے مثال ہیں وہ اس بلندی کردار میں ابتدائے آفرنیش سے فنائے دنیا تک اس کرہ ارضی کے اوپر اور چرخ ِ کبود کے نیچے آپ ﷺ جیسا نہ کوئی پیدا ہوا اور نہ ہوگا۔ اسی طرح اﷲ رب العزت کے حبیبِ مکرم ﷺ ظاہری حسن و جمال میں لا مثال و یکتا ہیں۔

فی الواقع رخِ مصطفٰی ﷺ وہ آئینہ ہے جو انسانی بزم خیال میں سما اور آسکتا ہے اور نہ دکان آئینہ ساز میں اس کا تصوّر تو کیا اس کا شائبہ تک بھی نہیں پایا جاتا۔ خالق دو جہاں نے ٹھیک اپنی حکمت سے اپنے محبوب ﷺ کا پیکر تخلیق کیا اور بلندی سیرت وہ کہ آپ ﷺ کی تقلید و اتباع کرنے والوں کو بہارِ فردوسِ بریں کی نوید ِجاں سنائی، گویا یہ رعنائی کردار کی کاملیت و جامعیت کی انتہا ہے۔

ایسا کیوں نہ ہو جس کی خاک پا سے سرزمینِ بطحاء کا ہر ذرّہ کہکشاں ٹھہرا، جس کی تشریف آوری سے ہر گنہگار کو خود پر بخشش کا گماں ہونے لگتا ہے، جس کی عظمتوں کی انتہا یہ کہ بہ وقتِ معراج گردشِ ہفت و زمین آسمان رک جاتی ہے، جس کے غلاموں کی شانِ جلالت کی وجہ سے کوہ ساروں کی جبینوں پر پسینہ آ جاتا ہے، جس کے دم قدم سے امت کو خیر امم کا مرتبہ بخشا جاتا ہے، جس کی تابشِ جمال کا نظارہ کرنے کے لیے مہر و مہ لب بام نظر آتے ہیں، جس کے دستِ عطا نے سرِحیات کے رخ سے نقاب الٹ کر اُنہیں نسلِ آدمیت کے لیے مفیض بنا دیا، جس نے تنگ دامانی شش جہاد کو وسعتِ دو جہاں عطا کی، جس نے بھٹکی ہوئی نسل انسانی کو عشق کا انداز تخیّل عطا کیا، جس کے قدو مِیمنت لزدم سے شعلہ خورشیدِ محشر کو ذوقِ برودت عطا ہوا، جس نے نعرہ ہائے تکبیر سے مزاج گردشِ دوراں بدل کر رکھ دیا، جس نے خوف ِشب ِغم کو نُورِ سحر سے مالا مال کر دیا، جس نے رہینِ خوف و ہراس سسکتی انسانیت کو صبحِ آزادی کی دل کشائی سے آشنا کیا، جس نے فکر کی ہر کسک کو شعور تسکین ارزانی کیا، جس نے جہنم کے دہکتے ہوئے شعلوں کی جانب بڑھتی ہوئی مخلوق خدا کو طلب گار خلد بریں بنا دیا، جس کی وجہ سے یاس و قنوطیت و پژمردگی کے مارے ہوئے انسانوں کو نقش جمال عید کی تاثیر عطا ہوئی، جس کے جمال جہاں آراء سے عروس صبح کے رخ پر پڑے ہوئے نقاب خود بہ خود الٹ گئے اور سپیدۂ سحر نمودار ہوا، جس کے نعلینِ پُرفیوض سے ذرّاتِ صحرائے عرب رشکِ فرودسِ بریں بن جاتے، جن کے تلوے مبارک کو چھونے والے ذارّتِ خاکی خورشید و مہتاب میں ڈھل جاتے، جن کے محوِ خرام ہونے سے رستے کہکشاں در کہکشاں بنتے چلے جاتے ہیں، چمن کی نکہتیں جس کی زلفِ عنبرین سے خُوش بُو کشید کر کے عالمِ گیتی میں بکھرتی ہیں۔ کیوں نہ اُس رفیع الشان ہستی کی رفعت کردار کو سیارگان فلک جھک جھک کر سلام پیش کریں:

ہر خیر تریؐ سیرتِ تاباں سے چلی ہے

خُوش بُو کی ہر اک موج گلستاں سے چلی ہے

بالکل ٹھیک اسی طرح خد و خالِ نبوت ﷺ میں ایسی جامعیت و جاذبیت ہے کہ حسینان زمن اس حسن بے مثال پر تصدق و نثار ہونے کی آرزو کرتے رہیں گے، برگ گل کی نزاکت، لب ہائے مصطفٰی ﷺ پر فدا ہوتی رہے گی۔ تابش خورشید و قمر اور زیبائی نجوم و کہکشاں لاریب رخسارِ نبوتؐ سے خیراتِ رخشندگی حاصل کرتی رہے گی۔ ظلمتِ شب تاب آپ ﷺ کے حیات آفریں تبسم سے تابانیت کشید کرتی رہے گی۔ سیارگانِ فلک آپؐ کی سبک خرامی سے قرینہ ہائے رفتا ر پاتے رہیں گے۔ متانت کوہ و دمن آپؐ کے قیام کا ٹھہر ٹھہر کر نظارہ کرتی رہے گی۔ گلاب و چنبیلی کا پیرہن آپؐ کے جمال جہاں آرا ء سے فیض یاب ہوتا رہے گا۔

قطرہ ہائے شبنم پسینہ رسالت مآب ﷺ سے در افشانی کا لقب پاتے رہیں گے۔ عطر و گلاب و نسترن کی شمیم انگیزیاں آقا ﷺ کے پسینے پر ہزار جان سے تصدق ہوتی رہیں گی۔ مخزن و معدن، فصاحت و بلاغت حضور ﷺ کے طرز تکلّم اور حسن بیاں پر قربان ہوتے رہیں گے۔ نشیب و فراز ارض و سما آقا ؐ کی زلف طرح دار سے بانکپن حاصل کرتے رہیں گے۔ تابانیٔ سحر حضور ﷺ کے کندھوں کے درمیان موجود مہر نبوت پر دیوانہ وار نثار ہوتی رہے گی۔ زمرد اور یاقوت کی چمک سرکار رسالت مآب ﷺ کے دندان مبارک سے تزئین حاصل کرتی رہے گی۔ نکہت احساس آدمیت قربت مصطفٰی ﷺ کو سرمایہ انبساط گردانتی رہے گی۔

رونق ہنگامۂ کونین آپؐ کے وجود اقدس کا طلوع آفتاب قیامت تک طواف کرتی رہے گی۔ ابیض و اسود و احمر اپنے ہیولے میں رنگ بھرنے کے لیے اذن حضور طلب کرنے کے لیے بے قرار رہیں گے۔ خُوش بُوئے رگ گل شام پیکر مصطفٰی ﷺ کا رک رک کر مشاہدہ کرتی رہے گی۔ یہ حقائق جبین و ارض و سماء پر رقم ہیں کہ آقائے دو جہاں ﷺ جب محو خرام ہوتے تو دو جہاں ساتھ ساتھ چلتے محسوس ہوتے۔

حضور ﷺ قیام فرماتے تو چشم ِ افلاک جھک جھک کر مشاہدے میں محو ہو جاتی۔ آپؐ اپنے جاں نثار رفقاء کے درمیان فروکش ہوتے تو یوں لگتا جیسے چاند ستاروں کے درمیان ضو ریزی کر رہا ہو۔ حضورؐ کی جنبشِ لب سے وجدانِ رفقائے نبوت میں بے خودی کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ حضور سرور کائنات ﷺ کی آنکھوں کی پتلیاں حرکت پذیر ہوتیں تو قلبِ کائنات دو عالم بھی محو سا ہو جاتا۔

آپؐ کے مژگان و ابرو کے جھپکنے سے طائران بام حرم عقیدت سے گردنیں خم کر دیتے۔ حضور ﷺ کی انگشت مبارک حمد رب لایزال کے لیے آسمان کی جانب بلند ہوتی اہل فلک اس حمد رب کائنات پر احد احد پکارتے معلوم ہوتے اطلس و کمخواب و ہریر و پرنیاں لباسِ حبیب ِکبریا ﷺ کے سامنے خجل ہوتے نظر آتے۔

حضورؐ کے تلووں مبارک پر جبینِ جبرائیلؑ عقیدتاً خم ہوتی نظر آتی۔ ہلال آسمان حضورؐ کے ناخن مبارک کا عکس نظر آتا۔ شفق کی رعنائی سرکارؐ کے روئے مبارک کا فیضان معلوم ہوتی۔ قیامت تک موسموں کا تغیر و تبدل اپنا حسن ِ ضوفشاں لیے حریمِ حسنِ نبوتؐ پر محو ِ التماس رہے گا۔ بھٹکتی ہوئی تاریکیاں اور خارزار ظلمت انوار سحر میں تبدیل ہونے کا شرف حاصل کرنے کے لیے درخواست گذار بن کر حسن محمد ﷺ کے حضور ایستادہ رہے گا۔

دردود ان کے لیے سلام ان کے لیے

کہ جن کے نُور سے گھر گھر چراغ جلتا ہے

ملی ہیں مجھ کو بھی کرنیں حضورؐ کے در سے

کہ جن کو دیکھ کے سورج بھی رخ پلٹتا ہے

The post دانائے سُبُل، ختم الرسل، مولائے کُل ﷺ appeared first on ایکسپریس اردو.

کہانی اور میں

$
0
0

’’ کہانیاں ہماری یادداشت کے پہلے آسمان کے ستارے ہیں ۔

روشن اور شوخ، مدھم اور نہایت مدھم ۔

جن کی روشنی فرقت کی تنہائی اور شب کی تاریکی کو کم کر کے گوارا بناتی ہے ۔

عمر کے ہر دور کی کہانی کا اپنا ایک الگ رنگ اور ذائقہ ہوتا ہے ۔

بچپن کی کہانیاں ہم جولیوں کی طرح ہوتی ہیں ۔ انھیں جب بھی پکاریں ، وہ دروازوں اور پردوں کے عقب سے نکل کر آجاتی اور ہمارے ساتھ گلی ڈنڈا اور لکن میٹی کھیلنے لگتی ہیں ۔ عہد شباب کی کہانیاں رسیلی اور خوشبو دار ہوتی ہیں اور ادھیڑ عمری میں کہانیوں کے سارے ذائقے اور معانی تبدیل ہو جاتے ہیں اور ان کی نئی پرتیں دکھائی دینے لگتی ہیں ۔‘‘

کہانی سے عشق کا یہ اظہار ’ بزم جہاں افسانہ ہے ‘ سے لیا گیا ہے جو اردو کے معروف افسانہ نگار منشا یاد ( مرحوم ) کی یادداشتوں کا مجموعہ ہے ۔ یہ یادداشتیں ایک اعتبار سے ان کی خودنوشت ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا نہ آتا تو شاید وہ اسے اپنی زندگی میں آپ بیتی کی شکل دیتے ۔ ان کے انتقال کے بعد جناب خلیق الرحمن ( جو ان کے بھانجے ہیں) ، سیکرٹری حلقہ ارباب ذوق نے اس کی ترتیب و تدوین کی ۔ آئیں ! مرحوم منشا یاد سے کچھ مزید سیکھتے ہیں :

’’کہانیوں کی کئی قسمیں ہیں

بعض کہانیاں لباسوں کی طرح ہوتی ہیں جنھیں ہم کچھ عرصہ پہن اور اوڑھ کر اتار دیتے ہیں ۔ بعض کہانیاں زیورات کی طرح ہوتی ہیں جنھیں ضرورت کے وقت اور خاص خاص موقعوں پر اپنے حافظے کی الماری سے نکال کر تھوڑی دیر کے لئے پہن لیتے پھر گڈی کاغذ میں لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں ۔ بعض کہانیاں جسم پر چوٹوں ، زخموں اور جلنے کے نشانوں کی طرح ہوتی ہیں جو ہمارے ساتھ جوان اور بوڑھی ہوتی رہتی ہیں ۔

کہانیاں ہمارے ساتھ پیدا ہوتی اور ہمارے بعد بھی زندہ رہتی ہیں ۔

ہم دن رات کہانیوں میں گھرے رہتے ہیں ۔

کہانیاں دور دراز کے سفر کرتی ہیں اور وہاں بھی پہنچ جاتی ہیں جہاں ہم خود نہیں پہنچ پاتے ۔ ‘‘

مرحوم منشا یاد کی یہ باتیں ہمیں سکھاتی ہیں کہ کہانی ہوتی کیا ہے؟ اسے کیسے لکھا جاتا ہے؟ اچھی کہانی کس قسم کے لوگ لکھ سکتے ہیں ؟ ان کی پرورش کس ماحول میں ہوتی ہے ؟ ان کے اپنے اوصاف کیا ہوتے ہیں ؟ آج ہمارے ہاں کہانیاں لکھی جا رہی ہیں ، ظاہر ہے کہ کہانی اس کائنات میں روز اول ہی سے تخلیق ہو رہی ہے، جب اس دنیا میں دو انسان اتارے گئے تھے، ایک نئی کہانی شروع ہو گئی ، پھر کہانی سنانے والے پیدا ہوتے گئے، ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ پھر کہانیاں لکھی جانے لگیں ، ایسے لکھاری ہزاروں نہیں لاکھوں اور کروڑوں میں ہیں ۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں اچھی کہانی لکھنے والے کم ہو گئے ہیں ۔ منشا یاد جیسے کہانی کار چلے گئے تو اب کہانی لکھنے کا شوق رکھنے والے نئے لوگوں کو سکھانے والا کوئی نہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے ، ہمت بڑھانے والے نظر نہیں آتے، ایسے میں منشا یاد کی یادداشتیں ہی رہنما ہوتی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ گاؤں میں سب سے زیادہ کتابیں ہمارے ہی گھر میں تھیں اور گاؤں کے جس گھر میں رات کو دیر تک دیا جلتا رہتا ، وہ بھی ہمارا ہی گھر تھا ۔گاؤں گاؤں گھوم پھر کر کتابیں بیچنے والا پتوکی منڈی کا ایک نیم نابینا شخص بابا جلال بھی سال میں دو ایک بار آتا اور ہمارے ہی گھر میں قیام کرتا ۔ کچھ قصے کتابیں ہم قیمتاً خریدتے، کچھ وہ تحفتاً دے جاتا ۔ یہ سب منظوم قصے اور کتابیں ہوتیں اور باقاعدہ گا کر پڑھی اور ایک دوسرے کو سنائی جاتیں ۔‘‘

میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ، ہزاروں کہانیاں پڑھ اور سن چکا ہوں ۔ سیکڑوں کہانیاں سوچ چکا ہوں ۔ ان میں سے کچھ محفوظ ہو گئیں باقی جہاں سے آئی تھیں ، وہیں چلی گئیں مگر بعض اب تک میرے اردگرد چکر لگاتی رہتی ہیں کہ ہمیں لکھو ۔ ان میں کچھ کمزور اور معمولی ہیں ، ان کا لکھنا کچھ ضروری نہیں ۔ بعض کو میں کسی خوف ، دل آزاری کے اندیشے اور مصلحت کی بنا پر نہیں لکھنا چاہتا اور بعض اتنی میلی کچیلی اور ٹوٹی ہوئی ہیں کہ انھیں جھاڑنے ، پونچھنے اور جوڑنے پر بہت محنت کرنا پڑتی ہے ۔ بعض جگنوؤں کی طرح ہیں، لحظہ بھر کے لئے ٹمٹاتی ہیں اور اس سے پہلے کہ انھیں مٹھی میں بند کر لیا جائے نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں ۔‘‘

٭٭٭

کہانی سے میری رغبت بچپن ہی سے تھی بلکہ اس سے بھی پہلے ، جب میرا بسیرا پھولوں ، درختوں اور بادلوں پر تھا ۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میں اور کہانی ایک ساتھ پیدا ہوئے کیونکہ کہانی میرے پیدا ہونے سے پہلے بھی موجود تھی اور کہیں دور نہیں ، ہمارے اپنے گھر میں رہتی تھی یا شاید ہم اس کے گھر میں رہتے تھے ۔ وہ دن کو گھر کی ایک پڑچھتی پر کتابوں میں سوئی پڑی رہتی ۔ رات کا اندھیرا پھیلتے اور لالٹین روشن ہوتے ہی آنکھیں مل کر جاگ اٹھتی اور رات بھر ہمیں بھی جگائے رکھتی ۔ کبھی سردیوں کی کسی رات کو جب نانا جی اور ماموں جان ہمارے ہاں آئے ہوتے تو ہم آدھی آدھی رات تک جاگتے اور کہانیوں ، لطیفوں اور شعر و شاعری کا دور چلتا رہتا ۔ اکثر اوقات تایا جی کو بھی بلوا لیا جاتا جن سے ہیر وارث شاہ سنی جاتی لیکن عام حالات میں ہمارے ہاں تایا جی کے آنے جانے کا کوئی وقت مقرر نہ تھا ۔ ان کا گھر قریب ہی تھا ۔ وہ روز ہی چکر لگاتے اور ان کی آواز سن کر نہ صرف کہانی کی بلکہ سارے گھر والوں کی نیند اڑ جاتی ۔

کہانی سے میرا شغف خاندانی تھا ۔ دادا جی اور چچا جان کو بھی کہانیوں سے دلچسپی تھی اور وہ بھی یوسف زلیخا اور ہیر وارث شاہ پڑھتے رہتے تھے ۔ گھر میں کوئی مہمان آتا تو میں اس سے یہ ضرور پوچھتا کہ کیا اسے کوئی کہانی یاد ہے ۔ مجھے وہ مہمان ذرا اچھے نہ لگتے جنھیں کوئی کہانی یا لطیفہ یاد نہ ہوتا ۔ اب بھی وہ لوگ جنھیں کہانی ، شعر اور نغمے سے دلچسپی نہ ہو مجھے لکڑی یا پلاسٹک کے بنے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔ حیرت ہے کہ میرے ایک پھوپھی زاد بھائی محمد کو جو سر تا پیر کاشت کاری میں دھنسا رہتا تھا اور جس نے کوئی کتاب پڑھی تھی نہ اسکول کا منہ دیکھا تھا ۔ گیدڑوں ، خرگوشوں ، گھوڑوں ،کتوں اور بلیوں کی بہت سی دلچسپ کہانیاں یاد تھیں جو مجھے بھی آج تک یاد ہیں ۔

میں شروع میں تو محض کہانیاں سننے پر اکتفا کرتا ۔ پھر ذرا ہوش آیا تو پڑھی سنی ہوئی کہانیوں کو ایڈٹ کرنے کا گر آگیا ۔ میں ان سے مناسب ترمیم اور اضافہ کر کے یا دوسرے لفظوں میں نمک مرچ لگا کر انھیں زیادہ دلچسپ ، طویل اور قابل قبول بنا لیتا ۔ ہم عمر لڑکے میری اس صلاحیت پر رشک کرتے ۔‘‘

کتابیں پڑھنے کا جنون

’’خوش قسمتی سے خالہ کے سسرالی رشتہ داروں میں اسکول ٹیچرز بہت تھے ۔ بابا فضل حسین اور چچا محمد عالم دو مختلف دیہات کے اسکولوں میں ہیڈ ماسٹر تھے اور ماسٹر محمد صدیق کے بہنوئی کا نام بھی محمد صدیق تھا جو نسبتاً زیادہ گورے تھے ، ہم انھیں صد یقین کہتے تھے ۔ ماسٹر گورا صدیق بھی اپنے گاؤں کلیاں والا کے مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ اس لئے میری ان سب سکولوں کی لائبریریوں تک رسائی تھی ۔ میرے پڑھنے کی رفتار اور جنون کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسکول سے گھر پہنچتے پہنچتے ایک عام ضخامت کی کتاب ختم کر لیتا اور بعض اوقات پڑھتے پڑھتے کسی گڑھے میں گر جاتا ۔ راستے میں پھٹا ہوا اخبار کا ٹکڑا مل جاتا تو اسے بھی پڑھ ڈالتا ۔ دکاندار اخبار میں لپیٹ کر پکوڑے دیتا تو لگتا دو چٹپٹی چیزیں خریدی ہیں ۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے گھر کی چھت سے کودتے ہوئے مشہور کرکٹر نذر محمد کا بازو ٹوٹنے کی کراری خبر میں نے اسی طرح پڑھی تھی ۔‘‘

’’ مجھے کتابیں اور خصوصاً کہانیاں پڑھنے کا شوق گھر سے ملا مگر اس کی تکمیل شہر میں آکر ہوئی ، جہاں کتابیں آسانی سے مل جاتی تھیں ۔ اسکول اور میونسپل لائبریری میں طرح طرح کے اخبارات اور رسالوں سے تعارف ہوا ۔ آنہ لائبریریوں سے کرائے پر ناول مل جاتے ۔ میں بہت پڑھتا اور بہت کچھ یاد رکھتا تھا ۔ ایک روز خالی پریڈ میں کلاس ٹیچر نے لڑکوں سے کہا کہ جس کسی کو کوئی گیت ، کہانی یا لطیفہ یاد ہو وہ سنائے ۔ کئی ایک لڑکوں نے گیت ، لطیفے اور کہانیاں سنائیں مگر سب نے پنجابی میں ۔ میں نے امیر خسرو کی دو ایک کہانیاں جن میں کھیر پکائی جنت سے اور چرخہ دیا جلا اور سب سے اچھا ڈھول بھلا ، بھئی ڈھول بھلا اردو میں سنائیں ۔ ایک تو میں نے پڑھی ہی اردو میں تھیں دوسرے میرے ساتھ ڈیسک پر ایک اردو سپیکنگ لڑکا بیٹھتا تھا جس کے ساتھ اردو بول بول کر میری زبان صاف ہو گئی تھی ۔ ماسٹر جی میرے اچھی اور دلچسپ کہانیاں سنانے اور وہ بھی اردو میں بہت خوش ہوئے اور شاباش دی ۔‘‘

 پہلی کہانی

ماں جی کے چلے جانے کے بعد میں نے قصے کتابوں میں پناہ لی ۔ وہ جس سال فوت ہوئیں ، اسی سال بچوں کے رسالے میں میری پہلی کہانی کے روپ میں طلوع ہوئیں ۔ میں اس وقت ساتویں جماعت میں تھا اور اسکول کی بزم ادب میں حصہ لیتا اور فقروں میں لفظوں کے بہترین استعمال پر استادوں سے شاباش حاصل کرتا تھا ۔ ایک روز میں نے رسالہ ’ہدایت‘ میں دئیے گئے عنوان ’’ مجھے بہت افسوس ہوا ‘‘ پر ایک بکری کے بارے کہانی لکھ بھیجی جو میں نے خود گھڑی تھی لیکن جب چھپ کر آئی تو اسے پڑھ کر میرے دوستوں اور ہم جماعتوں کو بھی ’’بہت افسوس ہوا‘‘ اور وہ اس من گھڑت واقعہ کو سچ سمجھ کر بکری کی موت پر مجھ سے اظہار افسوس کرتے رہے ۔ تب مجھے محسوس ہوا کہ مجھے اشاعت کے قابل کہانی گھڑنے کا ہنر بھی آتا ہے۔ آپ اسے تخلیقی صلاحیت کا احساس ہونا بھی کہہ سکتے ہیں ۔‘‘

٭٭٭

’’دسویں سے پہلے بانگ درا ، پریم پچیسی ، احمد ندیم قاسمی ، منٹو ، بیدی اور کرشن چندر کے افسانے ، مرزا ادیب کے صحرا نورد کے خطوط ، میاں ایم اسلم ، رشید اختر ندوی ، رئیس احمد جعفری اور نسیم حجازی کے متعدد ناول سردیوں میں کورس کی کتابوں میں چھپا کر اور گرمیوں میں رات کو گھر والوں سے چھپ کر چاند کی روشنی میں کہانیوں اور نظموں کی پوری پوری کتاب ختم ڈالتا … آٹھویں نویں میں مجھے ایسے مضامین اچھے لگتے جن کا تعلق کہانیوں سے بنتا تھا ۔ مثلاً اردو ، انگریزی ، فارسی اور حساب وغیرہ اور ایسے مضامین جن کا تعلق کہانیوں سے نہیں بنتا تھا ، بالکل اچھے نہیں لگتے تھے جیسے ڈرائنگ ، جغرافیہ اور کیمسٹری وغیرہ ۔ اردو کی کتاب میں نہ صرف کہانیاں بلکہ نظمیں بھی ہوتی تھیں مثلاً :

’’ ایک بچہ جس کی ماں کا ہو گیا تھا انتقال ۔ میرے پاس آیا کہیں سے روتا روتا ایک دن‘‘ یا پھر ’’ ایک لڑکی بگھارتی تھی دال۔ دال کرتی تھی یوں عرض احوال ‘‘ اور ’’ گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی۔ پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی ۔‘‘

انگریزی میں بھی کہانیاں اور جیک اور جیل وغیرہ کی نظمیں تھیں اور فارسی کی حکایات تو بہت ہی دلچسپ اور اچھی لگتیں۔‘‘

٭٭٭

’’شروع میں تو لکھنے کا ایک ہی مقصد تھا ۔ اپنے ساتھیوں اور دوستوں میں مقبول ، مختلف اور ممتاز نظر آنا اور رسالے میں اپنا چھپا ہوا نام دیکھ کر خوش ہونا لیکن پھر آہستہ آہستہ اپنے اردگرد کی زندگی میں طرح طرح کے تضادات ، ناانصافیاں ، مظالم دیکھ کر ان معاملات کے اظہار کا وسیلہ بن گئی ۔ایک آؤٹ لیٹ ، ایک دریچہ۔ جو بات منہ پر نہ کہی جا سکتی وہ میں اپنی کہانی میں کہہ لیتا، جس احتجاج کی کھلے عام اجازت نہ ہوتی وہ کہانی کے پردے میں کر لیا جاتا ۔ جن جذبات کا اظہار کسی کے سامنے نہ کیا جا سکتا ، اسے کہانی سمیٹ لیتی ۔ آہستہ آہستہ کہانی ایک ہمراز رفیق اور ہمدرد دوست بنتی چلی گئی۔ اس سے سارے دکھ سکھ کہہ لیتا ۔ عمر اور فکر کی مزید پختگی کے ساتھ لکھنا ایک سماجی ذمہ داری اور فریضہ محسوس ہونے لگا اور اب کہانی لکھنا یا پڑھنا میرے لئے ایسا ہی ہے جیسے سانس لینا ۔ میں نے اپنا بہت کچھ کہانی پر قربان کیا اور اپنا بہت کچھ اس میں منتقل کر دیا ہے ۔‘‘

پہلا افسانہ

’’میٹرک تک آتے آتے پتہ نہیں ابھی میں خود ذہنی طور پر بالغ ہوا تھا کہ نہیں مگر میں نے بالغوں کے لئے نظمیں ، غزلیں اور کہانیاں لکھنا شروع کر دیں ۔ 1955ء میں جب میں میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوا تو ایک افسانہ ’’ کنول‘‘ کے نام سے لکھا اور اپنے دور کے مقبول ترین رسالے’ شمع ‘ لاہور کو ، جس میں اس دور کے سبھی مشہور ادیبوں کے افسانے چھپتے تھے ، بھیج دیا ۔ جب دو چار ہفتے گزر گئے اور پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تو میں شاہ عالمی لاہور میں واقع شمع کے دفتر پہنچ گیا ۔ ایڈیٹر کے کمرے کی چق اٹھائی تو ایک مولانا صبیحہ خانم کی بڑی سی تصویر سامنے رکھے دکھائی دئیے ۔ چپڑاسی مجھے روکنے لگا تو مولانا نے شائد میرے گرمی اور غصے سے تمتاتے چہرے کی طرف دیکھا اور اسے منع کر دیا۔ میں نے افسانے کے بارے میں دریافت کیا تو جواب میں انھوں نے مجھے بیٹھنے کو کہا اور میرے لئے ٹھنڈا پانی منگایا اور نہایت شفقت سے میرا نام اور افسانے کا عنوان پوچھا ۔ پھر نائب مدیر عماد صدیقی کو بلوایا ۔ رسالے کے سرورق پر چھاپنے کے لئے تصویر ان کے حوالے کی اور میرے افسانے کی تلاش کا حکم دیا اور جب تک افسانہ ملتا ، انھوں نے میرے کوائف پوچھ لئے۔ میں نے بتایا کہ گھر والے مجھے انجینئرنگ کا ڈپلومہ کرانا چاہتے ہیں تاکہ جلدی سے با روزگار ہو جاؤں مگر کالج میں داخلہ لینا اور ادب میں ایم اے کرنا چاہتا ہوں ۔ کسی ردی کی ٹوکری سے افسانہ مل گیا ۔ انھوں نے پڑھا ۔ کچھ دیر میری طرف دیکھتے رہے ، پھر بولے ’’ تم نے خود لکھا ہے ؟ ‘‘

میں بھڑک اٹھا ’’کیوں میں خود نہیں لکھ سکتا ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں ۔ میں نے چوری کیا ہے؟‘‘

کہنے لگے : ’’اس میں کرداروں کے نام ہندو کیوں ہیں؟‘‘

میں نے جواب دیا: ’’اس میں ایک بیوی شوہر کے لئے جس قسم کی قربانی دیتی ہے، وہ ایک پتی ورتا، ستی ہو جانے والی ہندو عورت ہی دے سکتی ہے کہ اسے ہی یہ سکھایا گیا ہے۔ دوسرے یہ خیال بھی تھا کہ کوئی مولوی اعتراض نہ کر دے۔‘‘

مولوی کی بات سن کر وہ مسکرائے تو مجھے خیال آیا وہ خود بھی تو مولوی ہیں مگر بات زبان سے نکل چکی تھی ۔ انھوں نے میرے لئے کھانا منگایا اور اصرار کر کے کھلایا ۔ حالانکہ لاہور میں میری دو خالائیں تھیں اور میرا ارادہ بڑی خالہ کے گھر جانے کا تھا ۔ کہنے لگے افسانہ ضرور چھپے گا مگر تم افسانوں کی بجائے ابھی اپنے کیرئیر کی طرف توجہ دو ۔ کالج کے بجائے ٹیکنیکل تعلیم تمھارے لئے بہتر رہے گی ورنہ مجھے دیکھو اتنی لمبی داڑھی اور اداکاراؤں کی تصاویر ۔ باروزگار ہو جاؤ گے تو بی اے ، ایم اے بھی کر لینا ۔ رہی افسانہ نگاری تو اس کے لئے عمر پڑی ہے ۔ وعدہ کرو انجینئرنگ اسکول میں داخلہ ہونے کے بعد مجھے خط لکھ کر اطلاع دو گے ، مجھے اس سے بہت خوشی ہو گی۔

میں نے وعدہ کر لیا تو وہ کہنے لگے۔ آج تمھیں دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے شرقپور کا محمد امین پھر سے جوان ہو گیا ہے ۔ میں بھی کبھی اسی طرح اعتماد ، غصے اور جوش سے بھرا ، ایک ساتھ دو دو سیڑھیاں پھلانگتا گاؤں سے لاہور کے ایک دفتر میں آیا تھا ۔ مجھے بھی کہانیاں لکھنے کا بہت شوق تھا ۔

یہ شمع ، بانو ، کھلونا اور مکتبہ شمع کے مالک و مدیر مولانا محمد امین شرقپوری تھے ۔ ان کے افسانوں کی ایک کتاب بھی چھپ چکی تھی ۔ میرا ان سے بعد میں بھی رابطہ رہا ۔ ‘‘

ادبی زندگی کا اصل آغاز

’’ اس کے بعد میرے افسانے ماہ نامہ عکس نو لاہور میں شائع ہونے لگے۔ لیکن یہ ابتدائی مشق کا دور تھا ۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میری ادبی زندگی کا اصل آغاز اس افسانے سے ہوا جس کا عنوان ’ کہانی ‘ تھا اور جو میں نے 1957ء میں لکھا مگر یہ 1959ء میں اشفاق احمد صاحب کے خوب صورت رسالے ’’داستان گو ‘‘ میں شائع ہوا تھا ۔ شروع میں شاعری بھی کرتا رہا مگر ناول اور افسانے سے میری دلچسپی زیادہ تھی ۔ ناول لکھنے کے لئے زندگی کے تجربے، ریاضت اور فرصت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اردو کے زیادہ تر ادیبوں کی طرح میں بھی پارٹ ٹائم ادیب تھا اور ملازمت کے دوران میں افسانہ لکھنے کا وقت بھی مشکل سے نکال پاتا تھا ۔ کئی بار ناول لکھنے کی کوشش کی مگر عدیم الفرصتی کی وجہ سے ہر بار یہ کوشش ادھوری رہ گئی ۔‘‘

’’شروع میں تو افسانے کو اختصار کی سہولت کے پیش نظر ہی اختیار کیا مگر پھر محسوس ہونے لگا کہ یہ بہت عمدہ صنف ادب ہے ۔ آپ اس میں ہر طرح کے خیالات اور جذبات کا بھرپور اظہار کر سکتے ہیں ۔ پھر یہ افسانے ساتھ ساتھ ادبی رسائل میں چھپتے رہتے ہیں جس سے قارئین کے علاوہ ادیبوں، شاعروں ، نقادوں اور رسائل و جرائد کے ایڈیٹروں سے مسلسل تعلق قائم رہتا ہے ۔ جب میں نے افسانہ پڑھنا اور پھر لکھنا شروع کیا تو میں سبھی اچھے اور مشہور افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں سے متاثر تھا ۔ میں نے ابتداء میں نسیم حجازی کے سارے ناول پڑھ ڈالے۔ مرزا ادیب کے صحرا نورد کے خطوط اور رومان اور اس عہد تک چھپے ہوئے سارے اردو ناول لیکن جن افسانہ نگاروں کے افسانے میں دل سے پسند کرتا تھا ان میں پریم چند ، احمد ندیم قاسمی ، سعادت حسن منٹو ، راجندر سنگھ بیدی ، عصمت چغتائی ، کرشن چندر اور اشفاق احمد شامل تھے ۔ میرا خیال ہے میں نے ہر ایک سے کچھ نہ کچھ سیکھا ۔ ان کے علاوہ نقوش کے ایک افسانہ نمبر میں آغا بابر کا مشہور افسانہ ’’ گلاب دین چٹھی رساں ‘‘ جو توازن کے عنوان سے شائع ہوا تھا، احمد ندیم قاسمی کا مجرم اور تسنیم سلیم چھتاری اور بہت سے دیگر لوگوں کے افسانے اب تک میرے ذہن میں محفوظ ہیں ۔ اس لئے میرے افسانوں پر سبھی کے اثرات مرتب ہوئے ہوں گے ۔ میں انتظار حسین کے افسانوں کو بھی پسند کرتا ہوں مگر شعوری طور پر میں نے کسی کی تقلید نہیں کی اور نہ ہی کسی سینئر افسانہ نگار کے فکر و اسلوب کے سحر میں گرفتار ہو کر رہ گیا ۔‘‘

اپنے لکھے پر اطمینان

’’میں ہر افسانہ ایک سے زائد بار لکھتا ہوں اور جب تک اس میں مزید بہتر ہونے کی گنجائش ہوتی ہے، اس پر غور کرتا رہتا ہوں ۔ جہاں تک ممکن ہو سکے پڑھنے والوں کو ساتھ لے کر چلتا ہوں ۔ مجھے پڑھنے والوں کا بہت خیال رہتا ہے ۔ میں اکثر بہلا پھسلا کر ان سے اپنی کہانی پڑھوانے میں کامیاب ہو جاتا ہوں اور اس کا اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں ۔ کیونکہ میں کہانی محض اپنے لئے نہیں لکھتا، اپنے پڑھنے والوں کے لئے لکھتا ہوں تاہم پڑھنے والوں سے میری مراد وہی پڑھنے والے ہیں جو افسانے کو افسانہ سمجھ کر پڑھتے ہیں، سچی کہانیاں نہیں ۔‘‘

سوانحی اور تحریری خاکہ

اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور پاکستان ٹیلی ویژن پر خوب مقبولیت حاصل کرنے والے مرحوم منشا یاد پانچ ستمبر 1937ء کو ٹھٹھہ نامی ایک گاؤں میں پیدا ہوئے جو ضلع شیخوپورہ میں واقع ہے ۔ پہلے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا ، پھر ادیب فاضل ۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے اردو اور پنجابی میں ماسٹرز کیے ۔ بی ڈبلیو ڈی بحالیات میں بطور سب انجینئر ملازمت اختیار کی ، بعدازاں اسسٹنٹ انجینئر ، ایگزیکٹو انجینئر ، ڈپٹی ڈائریکٹر ، افسر تعلقات عامہ اور افسر اعلیٰ شکایات رہے ۔

آپ نے اسلام آباد میں حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح اسلام آباد میں لکھنے والوں کی انجمن ، بزم کتاب، رابطہ اور فکشن فورم بھی تنظیمیں قائم کیں ۔ اسلام آباد میں حلقہ اور دیگر ادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے مختلف اخبارات میں کالم نگاری اور رپورٹیں لکھتے رہے ۔

ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں شرکت اور ٹی وی ڈرامے اور سیریز ’’ بندھن ، راہیں، پورے چاند کی رات ، آواز ، کچے پکے رنگ ، ذرا نم ہو تو ، رنگ وفا ، جنون‘‘ اور بہت سے سنگل پلیز لکھے ۔ افسانوں کی بہت سی انتھالوجیز مرتب کیں اور بہت سے افسانوں کے دوسری زبانوں میں تراجم ہوئے۔

مرحوم منشا یاد کی ادبی تصانیف( ناول اور افسانوں کے مجموعے) میں ’ بند مٹھی میں جگنو ، ماس اور مٹی ، خلا اندر خلا ، وقت سمندر ، وگدا پانی ، انھاں کھوہ ، ٹاواں ٹاواں تارا ، درخت آدمی ، دور کی آواز ، تماشا ، خواب سرائے ، ایک کنکر ٹھہرے پانی میں ، منشائیے ، راہیں ، شامل ہیں ۔

آپ کے افسانوں کو دیگر کئی لوگوں نے بھی جمع کر کے شائع کرایا ، ان میں ’ منشا یاد کے تیس افسانے ‘ ( خاور نقوی ) ، منشا یاد کے بہترین افسانے ( امجد اسلام امجد ) ، تماشا اینڈ ادر سٹوریز ( انگریزی تراجم ) ، سلیکٹیڈ شارٹ سٹوریز آف منشا یاد ، منشا یاد کے منتخب افسانے (طاہر اسلم گورا ) ، شہر افسانہ (خود منتخب کردہ منشا یاد ) ، منشا یاد کے منتخب افسانے ( ڈاکٹر اقبال آفاقی) ، محمد منشا یاد شخصیت اور فن ( اسلم سراج الدین ) ، میں اپنے افسانوں میں تمھیں ملوں گا ( خود منتخب کردہ منشا یاد ) ایک سو گیارہ افسانے بھی شامل ہیں ۔

علاوہ ازیں آپ کے کئی افسانوں کا انگریزی ، عربی ، ترکی ، فارسی ، ہندی ، پنجابی اور کناڈا زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔

دس سال قبل پندرہ اکتوبر کو آپ کا انتقال ہوا ۔

The post کہانی اور میں appeared first on ایکسپریس اردو.

کوئی استاد نہیں ملا تو تحقیق کا راستہ اختیار کیا، محمد علی زاہد

$
0
0

اسلامی تہذیب میں فن خطاطی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ قرآن مجید کی برکت سے کئی صدیوں پر محیط اس فن کی آب و تاب ماند نہیں پڑی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نئی بلندیوں سے روشناس ہو رہا ہے۔

اللہ کے کلام سے زیادہ سچا، موثر اور طاقتور پیغام اس دنیا میں نہیں؛ جب لکھنے والا پاکیزگی کے احساس کے ساتھ، خالق کائنات کی ودیعت کردہ حس جمالیات سے کام لیتے ہوئے، اسے لکھتا ہے تو معجزہ فن تخلیق ہوتا ہے اور یہ نور ہدایت آنکھوں سے انسان کے قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔

یہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اگلے وقتوں میں نیک حکمران ایسے خطاط کے سامنے دونوں ہاتھوں سے دوات اٹھا کر بیٹھتے اور اپنے اس عمل کو دنیا و آخرت میں سرفرازی کا ذریعہ جانتے تھے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ وطن عزیز میں محمد علی زاہد، ایک ایسے خطاط ہیں، جنہیں فن خطاطی کی نسبت سے اسلامی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

 

بالخصوص ترکی، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ملائشیا، ایران اور الجزائر میں ان کے فن کے مداح موجود ہیں۔ حال ہی میں ترکی میں منعقد ہونے والے ’البرکہ عالمی مقابلہ خطاطی‘ میں انہیں ’خط ثلث جلی‘ کے زمرے میں اول انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی ملکی اور بین الاقوامی مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن خطاطی کے تعلق سے ایک مکالمے کی تفصیل نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: اپنے ابتدائی حالات زندگی کے متعلق کچھ بتائیں؟
محمد علی زاہد: فیصل آباد میں جڑانوالہ روڈ پر ایک گائوں ’’محمد والا‘‘ واقع ہے، 1963ء میں اسی گائوں میں پیدا ہوا۔ ایک بھائی مجھ سے بڑا اور دو چھوٹے ہیں۔ اس وقت گائوں میں پڑھائی کا ماحول ہی نہیں تھا، ہماری بہت بڑی فیملی تھی، ہم گائوں کی ایک سائیڈ پر ہوتے اور سکول دوسری طرف تھا۔ گھر سے نکلتے تو راستے میں رشتہ داروں کے بچے روک لیتے، ہم ان کے ساتھ سارا دن کھیلتے رہتے اور چھٹی کے وقت گھر واپس آ جاتے۔ ہم نے تو اپنے بچوں کے لیے ڈیوٹی دی ہے، صبح بچوں کو سکول چھوڑ آنا اور پھر واپس لانا، وہاں تو ایسا کچھ نہیں تھا، والدین کو کوئی پروا نہیں تھی۔

اس طرح کھیل کود میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ خط، بچپن سے اچھا تھا اور ہمارے دور میں اساتذہ کا خط بھی اچھا ہوتا، سکولوں میں تختی لکھی جاتی۔ شوق اتنا زیادہ تھا کہ دن رات لکھتا رہتا یا ڈرائنگ کرتا۔ گھر والے بھی تنگ تھے کہ کوئی اور کام نہیں کرتا، آمدنی بھی کچھ نہیں، ظاہر ہے گائوں میں تو خطاطی سے آمدنی نہیں ہو سکتی۔ والدہ حوصلہ افزائی کرتیں، میرے ساتھ بیٹھ کر بتاتیں کہ ایسے لکھو، یہ رنگ لگائو، وغیرہ۔ انہوں نے ہی مشورہ دیا کہ بیٹا آپ یہی کام کر لو، اس کا آپ کو شوق ہے۔ پھر میں فیصل آباد چلا گیا اور ایک اخبار میں بطور کاتب کام کرنے لگا۔

ایکسپریس: خطاطی سیکھنے کا خیال کب آیا؟
محمد علی زاہد: اخبار میں کام شروع کیا تو پتا چلا کہ خطاطی ایک الگ فن ہے۔ میرے ساتھ کام کرنے والوں نے کہا کہ آپ کو جتنا شوق ہے، آپ لاہور چلے جائیں، وہاں زیادہ اچھے خوش نویس ہیں۔ میں لاہور آ کر کچھ لوگوں سے ملا، انہوں نے میرا کام دیکھ کر کہا کہ آپ تو پہلے سے سیکھے ہوئے لگتے ہیں، کم از کم دو سال آپ نے کسی بڑے استاد کے پاس لگائے ہیں۔ میں نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ 1986ء کی بات ہے۔ اسی سال حافظ محمد یوسف سدیدی، جو سب خطاطوں کے استاد تھے۔

ان کا انتقال ہو گیا۔ سعودی عرب میں ان کا ایکسیڈینٹ ہوا اوردو سال بعد وہ چل بسے۔ مجھے لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ خالد جاوید یوسفی کے پاس اسلام آباد چلے جائیں جو حافظ یوسف سدیدی کے بہترین شاگرد بلکہ جانشین ہیں۔ میری خوش قسمتی کہ وہاں سے ایک نیا اخبار نکلا اور میں وہاں چلا گیا۔ میں نے استاد صاحب سے باقاعدہ سیکھنا شروع کیا، تب مجھے پتا چلا کہ خطاطی ایسے سیکھی جاتی ہے،اس کی تختیاں ہوتی ہیں، وہ کرنی پڑتی ہیں۔ ان سے سیکھا اور ساتھ کام بھی کرتا رہا۔ ان سے میں نے خط نستعلیق سیکھا جو پاکستان میں رائج تھا۔

ایکسپریس: آپ کے فنی سفر میں اہم موڑ کون سا تھا؟
محمد علی زاہد: 1989ء میں میرے استاد صاحب ایک کانفرنس میں شرکت کرنے عراق گئے، پاکستان سے کچھ دوسرے خطاط بھی ان کے ہمراہ تھے۔ استاد صاحب نے واپس آ کر بتایا کہ وہ ہمیں خطاط نہیں سمجھتے اور یہ بھی کہا کہ یہ بات درست ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آخری دن وہاں کے اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ فلاں ملک کے اتنے ایوارڈ ہیں، فلاں کے اتنے، اور جہاں تک پاکستان کا ذکر ہے وہ نہ ہی کیا جائے تو اچھا ہے۔ استاد صاحب تھوڑے مایوس ہوئے، اس بات کو صرف انہوں نے محسوس کیا۔ پھر انھوں نے مجھے کہا کہ آپ اس طرف آئیں اور آپ ہم پاکستانیوں کاکام نہ دیکھیں، آپ صرف ترکوں کا کام دیکھیں۔

ترک کئی صدیوں سے خطاطی میں معیار کا درجہ رکھتے ہیں اور انہوں نے ہر طرح کے خط کو بہت خوبصورتی سے لکھا ہے۔ پوری دنیا میں کسی خطاط کو ترک تھوڑا سا تسلیم کر لیں تو وہ خطاط ہے، ورنہ وہ خطاط نہیں۔ اس وقت انٹرنیٹ کا دور تھا نہ ہی اتنی کتابیں میسر تھیں۔ کہیں سے مشکل سے کچھ صفحات یا ایک آدھ فوٹو کاپی ملتی، تو اسی کو دیکھ دیکھ کر میں نے کوشش کی۔ 1991ء میں پہلی دفعہ ترکی کام بھجوایا اور مجھے تیسرا انعام ملا۔ میرے نزدیک یہ بڑی کامیابی تھی۔ کیونکہ ترکی میں پانچ سال میں ایک خط سکھاتے ہیں۔

اس کے بعد استاد باقاعدہ اجازت دیتے ہیں کہ یہ سیکھ گیا ہے، یہاں رہ کر میں نے دو تین سال میں اتنی قابلیت پیدا کی کہ پوری دنیا میں پہلی دفعہ پاکستان کو تیسرا انعام ملا۔ اس وقت بڑی خوشی اور حیرت کی بات تھی۔ اب بھی لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے یہ سب کہاں سے سیکھا، کیونکہ پاکستان میں تو کوئی سکھانے والا نہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ کتاب سے سیکھا تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کوئی استاد نہیں ملا تو میں نے تحقیق کا راستہ اختیار کیا۔ تحقیق سے تو کئی چھپی ہوئی باتیں بھی سامنے آ جاتی ہیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ترکوں کا میرے بارے میں کہنا ہے کہ یہ برصغیر کا پہلا خطاط ہے۔ یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے اور اس خطے پر بھی۔ پہلے یہ خطوط سکھانے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی لکھنے والا، اللہ پاک نے مجھے عطا کیا ہے تو اب میں نے لوگوں کو سکھانا شروع کیا ہے۔ ترکی میں تیسرا انعام جیتنے سے حوصلہ ملا، آہستہ آہستہ دوسرے ملکوں سے رابطے ہونا شروع ہوئے۔ پھر میں نے پاکستان اور دیگر ممالک میں کئی کامیابیاں حاصل کیں۔

ایکسپریس: خطاطی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کتنی محنت کرنا پڑتی ہے؟
محمد علی زاہد: بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دن رات لگے رہیں تب جا کے آدمی کچھ لکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ میرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ میرا ذریعہ معاش بھی یہی تھا تو ساتھ کمرشل کام بھی کرنا پڑتا تھا۔ کمرشل کام آرٹ میں شمار نہیں ہوتا۔ پھر مجھے یہاں کے لکھنے والوں سے فاصلہ بھی اختیار کرنا پڑا، کیونکہ یہ جو کچھ بتاتے اس سے بہتری تو کیا آتی، الٹا کام خراب ہوتا تھا۔ دراصل ان کو اخبار کے لیے لکھنے کی عادت تھی۔ اب اخبار میں تو اتنا وقت نہیں ہوتا، ہیڈ لائن سب سے آخر میں آتی، وہ پانچ منٹ میں لکھنی ہوتی تو پانچ منٹ میں آرٹ تو تخلیق نہیں ہوتا۔ یہاں لوگ سمجھتے تھے کہ فن پارے بھی اتنی ہی جلدی میں لکھے جاتے ہیں۔ اب میں کچھ کہہ نہیں سکتا کہ مجھے ان چیزوں کا کیسے پتا چلا کہ ایسے نہیں ہوتا۔

پہلے آپ ایک عبارت منتخب کرتے ہیں، پھر اس کو کئی مرتبہ لکھتے ہیں، اس کی کمپوزیشن درست کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ اخبار میں اس کا وقت نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ درستی کرنے کو عیب سمجھتے کہ اس کو لکھنا نہیں آتا۔ پھر جس چیز سے مجھے بہت مدد ملی وہ انٹرنیٹ کی سہولت تھی، پہلے ترک خود بھی اپنے فن کے رموز چھپاتے تھے لیکن انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ علم ہر طرف پھیل گیا۔ پرانے اساتذہ کے خط، ان کی مشقیں اور قالب (کمپوزیشنز) سب عام ہو گئے، تب پتا چلا کہ فن پارہ تخلیق کرنے میں کتنا زیادہ وقت لگتا ہے۔

خطاطی کے ایک مستند استاد، جو ڈیڑھ دو سو سال پہلے ہو گزرے ہیں، ان کے بارے میں یہی سنا ہے کہ وہ ایک فن پارہ مکمل کرنے میں دو سال لگاتے تھے۔ اس سے پہلے کام دیتے ہی نہیں تھے۔ وہ مسلسل کام نہیں کرتے تھے، بلکہ وقفے وقفے سے اپنے کام پر نظرثانی کرتے رہتے۔ ایک ہی نشست میں کوئی فن پارہ تیار نہیں ہو سکتا۔

اس میں، میں مشتاق احمد یوسفی کی مثال دیتا ہوں۔ وہ کوئی تحریر لکھ کر پانچ، دس سال کے لیے رکھ دیتے۔ پھر نظر ڈالتے تو ایسے لگتا جیسے کسی اور کا لکھا ہوا پڑھ رہے ہیں اور اس میں ان کو غلطیاں نظر آنے لگتیں۔ تو خطاطی میں بھی ایسے ہی ہے، لکھتے ہیں تو دو چار مہینے بعد اس میں تھوڑی تھوڑی خرابی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس طرح میں نے کچھ کاموں کی اصلاح کی تو ان کی شکل ہی کچھ اور ہو گئی۔ اب تو کچھ صحت کے مسائل ہو گئے، لیکن جوانی میں کام کے وقت کا کوئی حساب نہیں ہوتا تھا۔ کام کا موڈ ہو تو دن رات گزرنے کا پتا نہیں چلتا تھا۔

ایکسپریس: خطاطی میں جدید ٹولز اور سافٹ ویئرز کے استعمال کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
محمد علی زاہد: ایک خطاط اور آرٹسٹ کے لیے یہ بہت فائدہ مند ہیں کیونکہ مشق کا عمل آپ وہاں کرسکتے ہیں۔ پہلے آپ کاغذ پر کرتے تھے تو لاتعداد کاغذ ضائع ہوتے۔ جو خطاط نہیں، وہ جب سافٹ ویئر کی مدد سے لکھتا ہے تو اس کی نالایقی عیاں ہو جاتی ہے۔ مطلب جو خاکہ آپ کے ذہن میں ہے، اس کو حتمی شکل دینے کا سفر آپ کمپیوٹر پر کر لیتے ہیں، پھر آپ اسے ہاتھ سے لکھتے ہیں۔ اصل اہمیت اوریجنل ہاتھ سے لکھے کام کی ہے۔ تو کمپیوٹر خطاط کو مدد تو ضرورکرتا ہے، لیکن یہ کسی کو خطاط بنا نہیں سکتا۔

ایکسپریس: پاکستان میں فن خطاطی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
محمد علی زاہد: ویسے تو پاکستان میں بہت سے خطاطوں کے نام لیے جاتے ہیں، لیکن میری رائے ان کے کام کے بارے میں اچھی نہیں۔ میرے دادا استاد حافظ یوسف سدیدی مرحوم کو بھی عمر کے آخری مرحلے میں احساس ہو گیا تھا کہ ہم پاکستانیوں کو فن خطاطی کا نہیں پتا۔ دراصل وہ سعودی عرب گئے ہی اس لیے تھے کہ پھر وہ ترکی جائیں گے اور وہاں جو اس وقت بڑے خطاط موجود ہیں، ان سے سیکھیں گے۔ پاکستان میں ’’فن خطاطی‘‘ کا آغاز اب ہوا ہے اور یہ فن بڑی آہستگی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں انڈونیشیا، ملائشیا اور الجزائر میں یہ فن تیزی سے پروان چڑھا ہے، ان کے نوجوانوں نے انٹرنیٹ کی سہولت سے زیادہ استفادہ کیا اور بہت کم وقت میں عالمی معیار کے مطابق خود کو تیار کر رہے ہیں۔

پاکستان میں مجھے کئی ایوارڈ ملے، لیکن یہاں کے لوگوں سے میری بنی نہیں۔ لوگوں کی سوچ اتنی محدود ہے کہ مجھے کوفت ہوتی تھی۔ میں نے سوچا کہ ان سے ملتا رہا تو یہ مجھ پر بھی اثر ڈال دیں گے، چنانچہ میں نے ان سے ملنا چھوڑ دیا۔ اس پر یہ مجھے متکبر، مغرور سمجھنے لگے کہ وہ تو کسی سے ملتے ہی نہیں۔ میں کسی سے کیا ملوں جب ہماری سوچ ہی نہیں ملتی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں فلاں خط ہمارا نہیں، ترکوں یا عراقیوں کا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں وہ مسلمان ہیں اور ہم بھی مسلمان ہیں اور جو آدمی اچھا کام کرتا ہے وہ ہمارا ہے۔ میں نے تو سب خط لکھے ہیں۔ ہم کیوں کہیں کہ وہ الگ ہیں۔ ترک اصل فنکار ہیں، فنکار بغض نہیں رکھتا، وہ اچھے کام کی داد دیئے بنا رہ نہیں سکتا۔ اس سوچ سے مسلمانوں میں یکجہتی پیدا ہو گی اور فن خطاطی کو مزید عروج ملے گا۔

ایکسپریس: خطاطی کے فروغ کے لیے حکومت کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟
محمد علی زاہد: مجھے ڈر ہے کہ پھر ایسے لوگ آگے آ جائیں گے جنہیں اس فن کا علم نہیں۔ حکومتی اداروں میں قابل آدمی کو کم ہی برداشت نہیں کیا جاتا۔ وہاں تعلقات زیادہ چلتے ہیں۔ حکومتی آرٹسٹ اور اوریجنل آرٹسٹ الگ الگ ہوتے ہیں۔ حقیقی فنکار تو حکومت کے پاس نہیں جاتے کہ ہماری مدد کرو۔

حکومت اس فن کو سپورٹ کرنا چاہتی ہے تو وہ باصلاحیت نوجوانوں کو تلاش کرے جو آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جو پچاس سال سے زیادہ عمر کے ہیں، وہ اس میں اب کچھ نہیں کر سکتے۔ نوجوان خود بھی دلچسپی لیں، آج کل تو آن لائن سیکھنے کی بھی سہولت ہے تو ان کو چاہیے کہ وہ ترکوں اور عراقیوں سے براہ راست سیکھیں۔ میں نے بھی اپنی طرف سے ان نوجوانوں پر کام شروع کیا، جو پڑھے لکھے ہیں اور انہیں شوق بھی ہے۔ اس وقت آٹھ، دس نوجوان ہیں جو مجھ سے سیکھ رہے ہیں، ان کے بھی وہی معاشی مسائل ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور تک میں میرے شاگرد ہیں۔

ایکسپریس: کچھ اپنے کام کے بارے میں بتائیں؟
محمد علی زاہد: میں مزدور خطاط ہوں، میں نے اپنی روزی روٹی بھی پوری کرنی تھی اور اپنے شوق کو بھی پورا کیا۔ کمرشل کام اتنا کیا کہ مجھے اب یاد ہی نہیں۔ شارجہ میوزیم والوں نے میرا کام خریدا، وہاں کچھ دوسرے لوگوں نے بھی میرا کام خریدا ۔پھر مجھے چار قرآن مجید لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی، جن میں سے ایک سعودی عرب میں شائع ہوا۔ پانچویں مرتبہ بھی لکھا لیکن شراکت داروں میں اختلاف کی وجہ سے شائع نہیں ہوسکا۔ دوسرا اہم کام، جس سے میری مدد بھی ہوئی اور شوق بھی پورا ہوا۔ کوئی اٹھارہ سال پہلے علامہ اقبال کی بیٹی اور نواسے میاں اقبال نے مجھ سے رابطہ کیا۔

تب سے اب تک علامہ صاحب کی شاعری پہ کام کیا ہے، اس میں میرا شوق بھی پورا ہوا، مالی مسائل بھی کم ہوئے۔ میں ہر مہینے دو یا تین فن پارے مکمل کرتا، اس وقت پانچ چھے سو کے قریب فن پارے ہیں۔ اس میں میاں اقبال اس حد تک انوالو تھے کہ وہ مجھے کاغذ، روشنائی، ایک ایک چیز بہت معیاری دیتے۔ ہم نے زیادہ تر کام سونے کے پانی سے کیا، اور یہ فن پارے ان کے گھر میں یا دبستان اقبال کے نام سے ایک ادارے میں موجود ہیں۔ یہ بہت بڑا کام ہے، لیکن یہاں کسی کو نہیں پتا۔ میں جب اپنے کام کی طرف دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں یار میں نے بہت کام کیا ہے، جب یہ دیکھتا ہوں کہ ابھی کام کرنے والا کتنا ہے تو پھر خیال آتا ہے ابھی تو میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ کام تو ابھی سارا کرنا ہے۔ پہلے تو معاش کے مسئلے میں پھنسا رہا، بچوں کو تعلیم دلوانا اور ان کی تربیت کرنا، میرا ایک بیٹا اور بیٹی ہے۔

اب بچے ماشاء اللہ پڑھ لکھ گئے ہیں۔ بیٹا ترکی (استنبول) میں ہوتا ہے۔ اب مجھے لگتا ہے انشاء اللہ کام کرنے کا موقع ملے گا، لیکن کچھ صحت کے مسائل ہیں۔ اس طرف سے اللہ کرم کرے۔ میری خواہش ہے کہ جیسے ترکوں کا خطاطی میں ایک نام ہے، ویسے ہی پاکستان کا نام بھی ہو، وہاں آپ گن نہیں سکتے، اتنے خطاط ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک، یہاں بھی میں چاہتا ہوں کہ ایسا ہی ہو۔

’یہاں لوگوں نے خط نستعلیق کو خراب کیا‘
ہمارے ہاں خط نستعلیق لکھا جاتا ہے، لوگوں نے اس کو بھی خراب کر دیا ہے۔ کیونکہ یہ اخبارات کی سرخیاں لکھتے تھے تو اس میں جگہ کی پابندی ہوتی تھی، اس جگہ میں آپ نے الفاظ اور حروف کو گھسیڑنا ہوتا تھا، اس سے خط اور کمپوزیشن خراب ہو گئی، لیکن یہ اسی خوش فہمی میں رہے کہ ہم استاد ہیں۔ پھر یہ اصلاح کو بھی خامی سمجھتے تھے۔ عراق ہمیشہ سے علوم و فنون کا گڑھ رہا ہے۔ نستعلیق خط بھی وہیں سے پیدا ہوا۔ یہ آٹھویں صدی ہجری میں میر علی تبریزی نے ایجاد کیا۔ اس میں بھی حضرت علیؓ کا کردار ہے، کیونکہ میر علی تبریزی کچھ نیا کرنا چاہتے تھے۔

حضرت علی ؓ ان کو خواب میں نظر آئے اور فرمایا کہ یہ جو آبی پرندے ہیں ان پر غور کرو۔ وہ ندی کنارے جاتے اور ان کا مشاہدہ کرتے رہتے۔ وہاں سے انہوں نے نستعلیق خط اخذ کیا۔ پرانے دو خط تھے، ایک نسخ اور دوسرا تعلیق۔ نسخ قرآن پاک کے لیے مخصوص تھا اور تعلیق ایک آرائشی خط تھا۔ تو انہوں نے دو خطوں کو ملایا، آبی پرندوں سے جو اخذ کیا اس کو بھی شامل کیا، تو یہ نستعلیق بن گیا۔ اس کا پہلے نام نسخ و تعلیق تھا، جو کثرت استعمال سے نستعلیق بن گیا۔

’خط ثلث میں اسم جلالہ لکھنا مشکل فن ہے‘
خط ثلث، انسانی جسمانی ساخت سے اخذ کیا گیا ہے۔ انسانی جسم کے تین حصے ہیں، سر، دھڑ اور ٹانگیں۔ سب سے اہم حصہ سر ہے، جس میں حرکت اور جان زیادہ ہوتی ہے، یہ ثلث ہے، دوسرے کم اہم حصوں کو ثلثین کہتے ہیں جن میں حرکت کم ہے، تو یہ انسانی جسم سے اخذ کیا گیا ہے۔ اسی طرح جسم کے اعضاء کے بھی عام طور پر تین حصے ہوتے ہیں۔ انسان کے جذبات، احساسات اور اس کی سوچ، اس کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔ یہ خط اچھا بھی اس لیے لگتا ہے کیونکہ انسان فطرتاً خود پسند ہے۔

بزرگ کہتے ہیں کہ انسان نے بھگوان کو بھی اپنی شکل پہ بنایا ہے۔ اس خط میں حروف و الفاظ ایسے ہی اکٹھے ہوتے ہیں، جیسے ایک گھر کی فیملی ہوتی ہے۔ اس میں ایک بزرگ ہوتا ہے جس کا احترام زیادہ ہے، بھائی ہوتے ہیں، جو ہم پلہ ہیں۔ پھر اس میں بچے ہوتے ہیں، تو سارے اسی طرح کے معاملات ہیں۔ بزرگ کو آپ نمایاں، اچھی جگہ پر بٹھاتے ہیں، بچوں کو آپ گود میں بٹھا لیتے ہیں، بغل میں لے لیتے ہیں، نیچے بٹھا لیتے ہیں۔ تو یہ ساری بات خط ثلث میں موجود ہے۔ اس میں جہاں اسم جلالہ، یعنی اللہ تعالیٰ کا نام آ جائے گا، اور حضور ﷺ کا نام آئے گا، وہ سب سے اوپر لکھا جائے گا۔

اس کے اوپر کوئی لفظ نہیں آئے گا۔ پھر اللہ کے نام کو ایک خاص شکل دی گئی ہے، جو خطاطی کے اصولوں سے ہٹ کر ہے۔ اس لیے کہ آدمی تو اللہ تعالیٰ کے اصولوں کا پابند ہے، لیکن خدا کسی چیز کا پابند نہیں۔ تو اسی طرح ہم بھی اسم جلالہ لکھتے ہوئے خطاطی کے اصولوں کے پابند نہیں، اور یہ اس کی وحدانیت کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن خط ثلث میں اسم جلالہ لکھنا اتنا مشکل ہے کہ میری اب تک ساری زندگی میں کوئی دن ایسا نہیں کہ میں نے اس کی باریکی پر غور نہ کیا ہو، پھر بھی کبھی لکھا جاتا ہے اور کبھی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس وقت جتنے بھی ترک نوجوان ہیں، وہ اس کا حق نہیں ادا کر رہے، وہ اس طرح نہیں لکھ سکتے جیسے پہلے اساتذہ لکھ گئے ہیں۔

اسلامی فن خطاطی کا پس منظر
خطاطی ایک بہت بڑا علم ہے، اسے جاننے کے لیے بہت سے دوسرے علوم کو تھوڑا بہت جاننا ضروری ہے، ظاہر ہے عبور تو نہیں ہوتا۔ کسی بھی شعبے کا آدمی صرف اپنے شعبے تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ اسے دوسری چیزوں کا بھی کچھ نہ کچھ علم ہوتا ہے۔ ابتدا میں مسلمان معاشرے میں مصوری کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی، قدرت نے ہر شخص میں ایک مصور رکھا ہوا ہے، تو وہ شوق مسلمانوں میں فن خطاطی نے پورا کیا۔ اس میں مصوری ، شاعری، علم صرف و نحو، نقاشی، فن تعمیر، جیومیٹری اور بہت سے فنون شامل ہیں۔ اصل میں یہ خط عراق سے شروع ہوئے۔ مسلمانوں نے بھی ان سے سیکھا۔ صحابہ ؓ جو لکھتے تھے وہ کتابت کی حیثیت رکھتا تھا، بے شک وہ ہمارے لیے خطاطی سے زیادہ متبرک ہے۔

اسلامی فن خطاطی کا باقاعدہ آغاز عباسی دورمیں ابن مقلۃ سے ہوا۔ ابن مقلۃ نے اس وقت رائج علوم حاصل کیے، وہ اتنے قابل تھے کہ تین عباسی خلفاء کے وزیر رہے۔ انہوں نے پانچ نئے خط ایجاد کیے اور پھر ان کے اصول بھی وضع کیے، تو میں سمجھتا ہوں اسلامی خطاطی کا آغاز یہاں سے ہوا۔ وہ فن عراق میں ادھر ادھر چلتا رہا، پھر ایک وقت آیا کہ اس کو ترک اپنے پاس لے گئے اور مختلف خطوں میں اپنی مہارت کو انتہا پر پہنچا دیا۔ ان میں خط ثلث کو خطوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ پھر نسخ ہے، جو قرآن پاک کے لیے مخصوص ہے، کیونکہ یہ باریک اور تیزی سے لکھا جاتا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک خطاط نے دس ، بارہ یا اس سے زیادہ قرآن مجید بھی لکھے، پہلے کوئی مشکل سے ایک آدھ لکھ پاتا تھا۔ ایک خطاط کے لیے روایت پر چلنا ضروری ہے، جو روایت پر نہیں چلتا، وہ روایت بنتا ہی نہیں۔ اس روایت کے اندر رہتے ہوئے ہی فنکار وہ کمال دکھاتا ہے، جس کو اہل نظر سمجھتے اور اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اسلامی خطاطی اتنا بڑا فن ہے کہ غیر مسلم بھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جن ممالک پر انہوں نے قبضہ کیا، وہاں بھی اس کے آثار نہیں مٹائے۔

’اب بھی بادشاہ فن کی سرپرستی کر رہے ہیں ‘
اب پہلے والا دور لوٹ آیا ہے۔ پہلے بادشاہ خطاط رکھتے اور ان کے سامنے روشنائی پکڑ کر بیٹھتے۔ یہ وہ دور تھا جس میں روشنائی کی تیاری کا بھی خاص طریقہ تھا، کئی مہینے لگ جاتے۔ جبکہ کاغذ کی تیاری کا مرحلہ تو کئی برسوں میں مکمل ہوتا۔ بادشاہوں کی سرپرستی کا وہ دور واپس آ گیا ہے۔ اب شارجہ میں جو حاکم ہیں، وہ ہر رمضان میں تیس خطاطوں کو بلاتے ہیں، اور ان سے ایک ایک پارہ لکھواتے ہیں۔ پھر ان کی اپنے محل میں دعوت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے ہیں۔

اس وقت بھی جو ترک ہیں، انہوں نے اپنے سارے خطاطوں کو ایک بڑا مکان دیا اور ایک وظیفہ مقرر کیا ہوا ہے۔ ایران میں تو ہزاروں کی تعداد میں خطاط ہیں جو حکومت سے وظیفہ لیتے ہیں۔ حکومت انہیں یہ بھی نہیں کہتی کہ ہمیں مہینے کے بعد اتنا کام دو، وہ کہتے ہیں آپ اپنا اپنا کام کرو۔

محمد علی زاہد
وُہ اِنکسارِ مجّسم، بہت شفیق و خلیق
ہمارے عہد کا اِک خوشنویِس خوش توفیق
کریں گے اہلِ نظر میری بات کی تصدیق
وُہ اعتبارِ خطِ ثلث و نسخ و نستعلیق
کچھ اِس ہُنر سے وہ نقطے مِلائے جاتا ہے
کہ جگنوئوں کے ستارے بنائے جاتا ہے
بتا رہی ہیں یہ پیوند کاریاں اُس کی
ریاضِ پیہم و شب زندہ داریاں اُس کی
روایتوں میں یہ جدّت شعاریاں اُس کی
بہشتِ چشم ہیں گوہر نگاریاں اُس کی
وہ حرف حرف کی زیبائِشوں کا ماہر ہے
عُروسِ لفظ کی آرائِشوں کا ماہر ہے
ہے ضَوفگن سِرقرطاس موتیوں کی قطار
ہر ایک سطر تناسب میں ایک شالامار
مہک رہی ہے دبستانِ یوسفی کی بہار
اگرچہ عُمر میں چھوٹا مگر بڑا فنکار
خفی کی ہو کہ ہو خطِ جَلی کی خطّاطی
کمالِ فن ہے محمد علی کی خطّاطی
(انور مسعود)

The post کوئی استاد نہیں ملا تو تحقیق کا راستہ اختیار کیا، محمد علی زاہد appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4713 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>