Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

چینی چھوڑنے سے دماغ پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟

$
0
0

عام خیال یہ ہی ہے کہ میٹھا زیادہ کھانا آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا لیکن خوراک میں میٹھے کی مقدار بہت کم کرنے سے بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور یہ بہت سی ناخوشگوار علامات کی صورت میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ یہ سن کر حیران رہ جائیں کہ چینی کی کھپت برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں گزشتہ ایک دہائی میں بتدریج کم ہوئی ہے۔

ایسا کئی وجوہات کی بنا پر ہو رہا ہے جیسا کہ لوگوں کے ذائقوں یا طرز زندگی میں تبدیلی اور نشاستہ دار غذا کم کرنے کا رجحان۔ گزشتہ ایک دہائی میں کیٹو خوراک کی مانگ بڑھنے سے یا چینی کے مضر صحت ہونے کے بارے میں زیادہ آگاہی پیدا ہونے کی وجہ سے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔

خوارک میں چینی کی مقدار کم کرنے کے صحت پر واضح طور پر مثبت اثرات پیدا ہوتے ہیں اور کیلوریز کم لینے سے بھی صحت بہتر ہوتی ہے اور اس سے وزن بھی کم ہوتا ہے لیکن لوگ جب چینی کم کھانا شروع کرتے ہیں تو کبھی کبھار اس کے صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ مثلاً سر میں درد رہنا ، تھکن کا احساس اور مزاج میں تلخی پیدا ہونا شامل ہیں، لیکن یہ عارضی ہوتا ہے ۔

ان علامات کی وجوہات کے بارے میں کم علمی پائی جاتی ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ ان علامات کا تعلق چینی زیادہ کھانے سے دماغ کے ردِ عمل سے ہو، جسے ’ بائیولوجی آف ریوراڈ ‘ یا صلے کی بائیولوجی کہا جاتا ہے۔

نشاستہ دار غذا کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، جن میں چینی شامل ہے جو کھانے کی بہت سی چیزوں میں قدرتی طور پر شامل ہوتی ہیں، جیسا کہ پھلوں میں فرکٹوز اور دودھ میں لیکٹوز کی صورت میں۔ کھانے کی چینی جس کو سائنسی اصطلاح میں سوکروز کہا جاتا ہے وہ گنے، چوقندر، میپل سیرپ اور شہید کے بڑے اجزا، گلوکوز اور فرکوٹوز میں شامل ہے۔

چینی خوارک کی بڑے پیمانے پر تیاری عام ہو گئی ہے، سوکروز اور چینی کی دوسری اقسام بھی خوراک میں شامل کی جاتی ہیں تاکہ اسے لذیذ اور ذائقہ دار بنایا جا سکے۔ ذائقہ بہتر کرنے کے علاوہ ایسی غذا کے استعمال سے جس میں چینی کی مقدار زیادہ ہو اس کے گہرے بائیولوجیکل اثرات ذہن پر مرتب ہوتے ہیں۔ یہ اثرات کافی شدید ہوتے ہیں اور یہ بحث ابھی جاری ہے کہ کیا آپ چینی کے عادی ہو جاتے ہیں۔

سوکروز منہ میں چینی کا ذائقہ محسوس کرنے والے اجزا کو متحرک کر دیتا ہے جن کا بالآخر اثر دماغ میں ڈوپامین نامی کیمیا کا اخراج ہوتا ہے۔ ڈوپامین ایک نیوروٹرانسمیٹر ہے جس کے ذریعے دماغ میں پیغام رسانی ہوتی ہے۔ جب عمل شروع ہوتا ہے تو دماغ ڈوپامین خارج کرنا شروع کرتا ہے جس کی وجہ سے اسے ’ ریوارڈ ‘ یا انعامی کیمیکل کہا جاتا ہے۔

ڈوپامین کا یہ انعامی عمل دماغ کے ان حصوں میں ہوتا ہے جو مزے اور انعام سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ انعامی عمل ہمارے رویے پر اثر انداز ہوتا ہے اور ہم وہ کچھ دوبارہ کرنا چاہتے ہیں جس سے ہمارے دماغ میں ڈوپامین خارج ہوتا ہے۔ ڈوپامین کی وجہ سے ہم دوبارہ وہ خوراک کھانا پسند کرتے ہیں یا وہ چیز جو ’ جنک فوڈ ‘ کے زمرے میں بھی آتی ہیں۔

انسانوں اور جانوروں پر تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح چینی سے یہ انعامی عمل متحرک ہو جاتا ہے۔ تیز میٹھا اس عمل کو متحرک کرنے میں کوکین کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ چوہوں پر ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ چینی چاہے وہ خوراک کی صورت میں لی جائے یا اسے انجیکشن کے ذریعے خون میں شامل کیا جائے اس سے یہ انعامی عمل متحرک ہو جاتا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق منہ میں ذائقہ محسوس کرنے کے اجزا سے نہیں ہوتا۔ چوہوں پر ہونے والی تحقیق سے ایسے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں کہ سوکروز کے استعمال سے دماغ میں ڈوپامین متحرک کرنے والے نظام میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور اس سے انسان اور جانوروں کے مزاج اور رویے بھی بدل جاتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ چینی کے استعمال سے ہم پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس ہی وجہ سے یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ جب ہم چینی کا استعمال کرنا شروع کرتے ہیں تو اس کے منفی اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں۔

چینی ترک کرنے کے ان ابتدائی دنوں میں جسمانی اور ذہنی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں جن میں ڈپریشن، پریشانی، بے چینی، ذہنی دباؤ، تھکن، غنودگی اور سر کا درد شامل ہے۔ چینی چھوڑنے سے جسمانی اور ذہنی طور پر ناخوشگوار علامتیں محسوس ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کئی لوگوں کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔

ان علامات کی بنیاد پر وسیع تر تحقیق نہیں ہو سکی ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ اس کا تعلق ذہن کے انعامی جوڑوں سے ہے۔ چینی کی لت لگ جانے کا خیال ابھی متنازع ہے لیکن چوہوں پر تحقیق سے ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ بہت سے دوسرے ایسے اجزا جن کی آپ کو عادت یا لت پڑ جاتی ہے اور ان میں چینی بھی شامل ہے اور اس کو چھوڑنا مختلف اثرات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے مثالاً چینی کھانے کی شدید خواہش، طلب اور طبعیت میں بے چینی کا پیدا ہونا۔

جانوروں پر مزید تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ چینی کی عادت کے اثرات منشیات کے اثرات سے ملتے ہیں جن میں دوبارہ ان کا استعمال شروع کر دینا اور اس کی طلب کا محسوس کیا جانا شامل ہے۔ اس ضمن میں جتنی بھی تحقیق کی گئی ہے وہ جانوروں تک ہی محدود ہے اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ انسانوں میں ہی ایسا ہی ہوتا ہے۔ انسانی دماغ میں موجود انعامی جوڑوں پر انسان میں ہونیوالے ارتقائی عمل سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے اور اس کا امکان موجود ہے کہ دوسرے اجسام میں بھی اس قسم کے انعامی جوڑے موجود ہوں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ چینی چھوڑنے کے بائیولوجیکل اثرات جو جانوروں میں دیکھے گئے ہیں وہ انسانوں میں بھی کسی حد تک نظر آ سکتے ہیں کیونکہ انسانی دماغ میں بھی اس طرح کے انعامی جوڑے ہوتے ہیں۔

خوراک میں جب چینی کی مقدار گھٹائی جاتی ہے تو دماغ میں ڈوپامین کے اخراج میں تیزی سے کمی ہوتی ہے، جس سے دماغ کے مختلف حصوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ جو لوگ اپنی خوراک میں چینی کی مقدار کم کرتے ہیں ان کے ذہن کے کیمیائی توازن پر یقینی طور پر اثر پڑتا ہے اور یہ ہی ان علامات کے پیچھے کار فرما ہوتا ہے۔ ڈوپامین انسانی دماغ میں، قے، غنودگی، بے چینی اور ہارمون کو کنٹرول کرنے میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔

گو کہ چینی کے انسانی دماغ پر ہونے والے اثرات پر تحقیق محدود ہے لیکن ایک تحقیق سے ایسے شواہد ملے ہیں کہ موٹاپے اور کم عمری میں فربا مائل افراد کی خوراک میں چینی کم کرنے سے اس کی طلب شدید ہو جاتی ہے اور دوسری علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔

خوراک میں کسی بھی دوسری تبدیلی کی طرح اسے برقرار رکھنا اہم ہوتا ہے۔ اگر آپ چینی کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے ابتدائی چند ہفتے انتہائی اہم ہوں گے۔ تاہم یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ چینی آپ کی صحت کے لیے مضر ہے لیکن اعتدال کے ساتھ اس کا استعمال اور ورزش صحتمند خوراک کے ساتھ ضروری ہے۔   ( بشکریہ بی بی سی )

The post چینی چھوڑنے سے دماغ پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


اعصابی کمزوری اسباب، علامات اور علاج

$
0
0

اعصابی کمزوری کا مطلب ہے؟ دماغ اور اعصاب کا کمزور ہونا، جس کی وجہ سے جسم اور اس کے اعضا پر ان کا کنٹرول کمزور پڑ جاتا ہے اور طرح طرح کی تکالیف ظاہر ہونے لگتی ہیں۔

پاکستان کی 95 فی صد آبادی دراصل اعصابی کمزوری کا شکار ہے اور ان کی اکثریت روبہ صحت بھی تب ہوتی ہے جب آرام کا وقت اعتدال پر لاتی ہے۔ مثلاً کسی کی قوت حافظہ کمزور ہوتی ہے، لوگ اسے دماغی کمزوری سمجھ کر نت نئی تراکیب اپنانے لگتے ہیں حالانکہ یہ اعصابی کمزوری کا حصہ ہوتا ہے نہ کہ قوت حافظہ کی کمزوری۔ آج کل جو حالات ہیں انھوں نے بھی انسان کے اعصابی نظام کو بہت متاثر کیا ہے۔

اعصابی کمزوری (Nervous Weakness) ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان کا اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے اور اس کی علامات میں انسان کے اعضا درست طریقے سے کام نہیں کرتے۔

عام وجوہات

کثرت جماع ، دماغی کام کا بہت زیادہ کرنا جیسے وکالت ، اس کے علاوہ اسکولوں کے طلبا کو بھی دماغی کام کرنا پڑتا ہے، غم کے اثرات، لمبی بیماری ، حد سے زیادہ جسمانی محنت کرنا اور آرام کم کرنا۔

علامات

جسم کانپنا ، اعضا کو مکمل طور پر ہلا نہ سکنا اور چلنے میں تکلیف جیسے مسائل شامل ہیں۔ مریض کو سونے میں دشواری کے ساتھ جذباتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس بیماری کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہلکی پھلکی ورزش سے بھی چلی جاتی ہے اس لیے انسان کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں ہلکی پھلکی ورزش کو معمول کا حصہ بنا لینا چاہیے۔

اعصاب ہمارے جسم کا ایک انتہائی اہم اور لازمی حصہ ہیں۔ معاشی تفکرات ، بے یقینی کی کیفیت اور ملکی حالات نے ہم سب کو اعصابی مریض بنا دیا ہے۔ اعصاب حرام مغز سے جڑا وہ نظام ہے جو پورے جسم کے تمام تر افعال کو کنٹرول کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

اعصاب ہمارے جسم کی حرکات و سکنات کو منظم کرکے دماغ سے اعضا اور اعضا سے دماغ تک پیغام رسانی کا کام بہ خوبی سر انجام دیتے ہیں۔ اعصاب ڈوری نما ریشے ہیں جو دماغ کو بدن انسانی کے دیگر نظاموں سے ملا کر رکھتے ہیں۔ جب اعصاب میں کمزوری واقع ہو یا ان کی کارکردگی میں نقص آنے لگے تو انسانی بدن بہت سے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔

مجموعی صحت پر اعصابی کمزوری کے اثرات

اعصابی کمزوری سے پورا بدن کمزور ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ نہ صرف عصبی نظام بلکہ انسانی جسم کے تمام تر اعضا دماغ کے حکم کے تابع ہوتے ہیں، وہ اپنے تمام کام دماغ کے حکم دینے سے کرتے ہیں۔ اور بالواسطہ یا بلاواسطہ یہ سب اعصابی نظام سے مربوط بھی ہوتے ہیں۔ یوں جب اعصابی نظام کی کارکردگی میں خلل پیدا ہوتا ہے تو پورا انسانی جسم متاثر ہونے لگتا ہے۔ جسمانی کمزوری پیدا ہو کر سستی و کاہلی پیدا کرتی ہے اور انسان سست اور کاہل ہو جاتا ہے۔ چہرہ بے رونق ہو کر افسردگی سی چھانے لگتی ہے۔ پورے جسم میں درد اور کاندھوں، کمر اور ٹانگوں میں شدید درد رہنے لگتا ہے۔

بھوک کم ہو جانے کی وجہ سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں جاتا اس کی وجہ سے انسان کمزور ہو کر وقت سے پہلے بوڑھا ہو جاتا ہے اور اپنی تکلیف کی وجہ سے موت کی دعا کرنے لگتا ہے۔ طبیعت میں اداسی اور اکتاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا ، بعض اوقات مریض مایوسی اور ناامیدی میں اس قدر گھر جاتا ہے کہ خودکشی کرنے کے بارے میں سوچتا ہے اور بعض اوقات تو ایسا کر بھی لیتا ہے۔

گھبراہٹ(Anxiety)

گھبراہٹ اور خوف سے ہاتھ پاؤں سرد اور ٹھنڈے پسینے بھی بہ کثرت آنے لگتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر عوامل جیسے ضعف دماغ ، خون کی کمی، ذیابیطس، لو بلڈ پریشر یا ہائی بلڈ پریشر، فکر، غم کسی اچانک صدمے سے بھی اعصابی کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ نشہ آور اشیا کا استعمال بھی اعصابی کمزوری کا سبب ہو سکتے ہیں۔

سب سے پہلے اپنے مرض کے اسباب پر غور کریں اور پھر ڈاکٹر کو ایک ایک بات تفصیل سے بتائیں اور اپنی غذا کو متوازن رکھیں، اپنی غذا میں پھل، دودھ، خشک میوہ جات شامل کریں۔ اعصابی کمزوری کی ایک بیماری ملٹیپل اسکلرویسس ہے۔ یہ مرکزی اعصابی نظام کی بیماری ہے جس میں دماغ Spinal Cord اور Optic Nerve شامل ہیں۔ اس بیماری کا زیادہ یا کم ہونا یا علامات ہر مریض کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔

یہ ایک مہلک اور معذور کردینے والی بیماری ہے جس میں مرکزی مدافعتی نظام اعصابی خلیات کی حفاظتی تہہ (Mxelin Sheath) پر حملہ کرتا ہے۔ یہ حفاظتی تہہ ہمارے دماغ کی Spinal Cord اور Optic Nerve پر ہوتی ہے جو سوزش اور نقصان کا باعث بنتا ہے۔

یہ نقصان مریض کے معیار زندگی کو شدید طور پر متاثر کرتا ہے اور ان میں مختلف قسم کی علامات واضح ہوتی ہیں ۔ مثال کے طور پر دھندلا نظر آنا یا عارضی طور پر بصارت کا متاثر ہونا ، جسم کے کسی حصے کا سن ہو جانا یا چھونے پر جھنجھناہٹ محسوس ہونا ، پٹھوں کی کمزوری، درد یا لڑکھڑاہٹ کا شکار ہونا ، چلنے پھرنے میں مشکلات ، سوچنے سمجھنے اور توجہ دینے میں مشکلات، پیشاب روکنے کی کوشش میں مشکلات ، جنسی ناکارکردگی اور مسلسل تھکاوٹ۔

یہ تمام علامات ہر مریض میں نہیں ہوتیں کسی میں کوئی علامات اور کسی میں کوئی علامت ملتی ہے لیکن اگر اس کا علاج نہ کروایا جائے تو یہ بیماری بڑھ کر معذوری کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کا علاج کروانا بہت ضروری ہے کیونکہ علاج اس کے بڑھنے والی علامات کو روک دیتا ہے جس سے بیماری بڑھ کر معذوری کا سبب نہیں بنتی۔

ملٹیپل اسکلر وسس کن لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ کم عمر کے لوگوں میں معذوری کی ایک وجہ ہے یہ اکثر جوان لوگوں پر حملہ کرتی ہے اور لوگوں کی زندگی کے روزمرہ کے معاملات میں مشکلات پیدا کردیتی ہے۔ اس کی تشخیص عام طور پر 20 سال سے 40 سال کی عمر میں ہوتی ہے۔ یہ مردوں کی بہ نسبت عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔

دنیا میں ہر 3000 افراد میں سے کوئی ایک اس بیماری کا شکار ہوتا ہے۔ اس کی علامات جسم اور دماغ کے کسی بھی حصے کو متاثر کرسکتی ہیں، اس سے متاثر90 فی صد مریض تھکاوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا افراد 15 سال کے اندر اندر 50 فی صد چلنے پھرنے میں مشکلات محسوس کرتے ہیں۔

20 فی صد افراد کو آنکھوں سے کم دکھائی دیتا ہے یا پھر بینائی ختم ہو جاتی ہے۔ اور 80 فی صد مثانے کی کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں، عام لوگوں کی بہ نسبت ملٹیپل اسکلروسس کے مریض دو گنا Depression کا شکار ہوتے ہیں۔ اور عام لوگوں کے مقابلے میں اس بیماری کے مریض بے خوابی (یعنی نیند کا نہ آنا) کا شکار ہو جاتے ہیں۔

علامات

جسم کے کسی حصے کا سن ہوجانا، پٹھوں کی کمزوری، جسم میں درد، چلنے پھرنے میں مشکلات، سوچنے یا توجہ دینے میں مشکلات، جنسی ناکارکردگی اور مسلسل تھکاوٹ پائی جاتی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس میں کوئی سی بھی علامات مسلسل رہیں تو ڈاکٹر کو ضرور دکھا کر علاج کروائیں تاکہ معذوری سے بچا جاسکے۔

اقسام

RRMS ( وقفے وقفے سے بار بار ہونے والی قسم ہے یہ سب سے زیادہ عام قسم ہے اور 85 فی صد مریض اس کا شکار ہوتے ہیں، اس میں علامات بار بار آتی اور جاتی رہتی ہیں۔ اس میں علامات وقفے وقفے سے ظاہر ہوتی ہیں ،یہ Relapse ( بیماری یا علامات کا دوبارہ سے ظاہر ہونا ) کہلاتا ہے اور بعض دفعہ مریض مکمل صحت یاب بھی ہو جاتا ہے۔

2۔ Secondary Progressive SPMS اس میں مریض پر پہلے حملہ وقفے وقفے سے ہوتا ہے ، زیادہ تر مریض جن میں ابتدائی علامات RRMS کی طرح پائی جاتی ہیں لیکن آخر میں یہ بہت زیادہ بڑھ کر معذوری پیدا کردیتی ہیں۔

3۔ Primary Progressive MS PPMS یہ وہ قسم ہے جس میں شروع سے ہی علامات میں اضافہ ہوتا ہے یہ اعصابی نظام میں بڑھتی ہوئی خرابی سے ہوتی ہے (جسمانی یا ذہنی معذوری) ہو جاتی ہے۔

اعصابی بیماری کا ہومیوپیتھک علاج:

(1)۔فاسفورس Phosphorous۔

دماغی قوت کو بحال کرنے کے لیے عمدہ دوا ہے اگر مریض کو سٹروک ہوں یا سر میں خون جمع ہو گیا ہو، نازک اندام ، نازک مزاج اور نہایت حساس مریض دماغ تھکا تھکا سا اور یادداشت کمزور، بادل کی گرج چمک سے ڈرنا۔

زنکم میٹ۔ Zincum Metallicum

حافظہ خاصا کمزور اور مریض یا بچہ وہی دہرائے جو اس سے کہا جائے۔ شور و غل ناقابل برداشت، اعضا میں کپکپاہٹ ہو اس کی اہم ترین نشانی یہ ہے کہ مریض کے پاؤں بے چین ہوتے ہیں ہر وقت ہلتے رہتے ہیں۔

3۔بفو۔Bufo۔

پیدائشی طور پر کمزور دماغ بچے جن کو مرگی کے دورے بھی پڑیں۔

4۔فاسفورک ایسڈ۔ Phosphoric Acid

جنسی تجاوزات کی وجہ سے بھی بعض اوقات دماغی اور جسمانی کمزوری ناکام محبت یا بے پناہ غم یا بہت بڑا دھوکہ کھانے کی وجہ سے سوچیں منتشر۔

5۔ میڈورنیم۔ Medoorhinum

حافظہ کمزور ہو جاتا ہے، بچوں کو اپنے اسکول کے کام پر توجہ برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ املا اکثر غلط ہو جاتی ہے لکھتے وقت فقرے میں اہم لفظ لکھنا بھول جاتا ہے۔ نام، شکلیں اور اعداد و شمار یاد نہیں رہتے۔

6۔ لیک کینیم۔Laccaninum

غائب دماغ اور بھلکڑ۔ چیزیں رکھ کر بھول جائے، چیزیں خرید کر اور پیسے دے کر خالی ہاتھ گھر آجائے، گفتگو اور تحریر میں الفاظ چھوڑ دے۔

7۔کالی فاس۔ Kali Phos

اعصاب اور دماغ کے لیے بہترین دوا ہے اس کے مریض نہایت نروس، تھکے تھکے اور افسردہ رہتے ہیں، لوگوں سے کتراتے ہوں، دماغ جیسے بجھا بجھا سا ہو کوئی چیز یاد نہ رہے، گھر سے کسی کام سے جائیں اور راستے میں بھول جائیں کہ کہاں اور کیوں جا رہے ہیں؟ نیند کی کمی، راستہ بھول جانا، رات بھر جاگنا۔

8کارسی توسن۔ Carcinoma

دماغی مسائل کی بہترین دوا ہے اس دوا کا استعمال ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہیں کرنا ہے۔

9۔ کالی برومیٹم۔ Kali Bromatum

جنسی بے اعتدالی کے باعث سوچ ڈسٹرب ہو جائے، دماغ ٹھیک کام نہ کرے، حرکات و سکنات کے توازن میں فرق آجائے، یعنی چال چلن کی خرابی کی وجہ سے چلنے میں لڑکھڑاہٹ محسوس کرے۔

10۔ اناکارڈیم۔ Anacardium

فیصلہ نہ کر پانا، ہر کام کے لیے دو فیصلے سوچنا کہ یہ کیا جائے یا یہ کیا جائے؟

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی دوائیں اعصابی امراض کی ہیں۔

(1)۔ برائیٹا کارب۔ Barytacarb

(2)۔کلکر کارب۔ Calcarea Carb

(3)۔جیلسیمم۔Gelsemum

(5)۔نکس وامیکا۔Nux Vomica

(6)۔ اگنیشیا۔Ignatia

(7)۔ایکونائٹ۔Aconite Napellus

The post اعصابی کمزوری اسباب، علامات اور علاج appeared first on ایکسپریس اردو.

غلطی عورت کی بھی تو ہو سکتی ہے۔۔۔!

$
0
0

آج کل کچھ بھی پڑھیے، سنیے یا دیکھیے۔۔۔ چاہے وہ اخبار ہو یا ٹی وی اور ہمارے مُٹھی میں سما جانے والا موبائل فون، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر جگہ غلطی پر صرف مرد ہی ہوتا ہے،  قتل ہو یا چوری ہو یا اور کسی الزام میں گرفتاری۔۔۔ ہر جگہ بنا سوچے بنا جانچے آنکھیں بند کر کے ’صنفِ قوی‘ کو ہی مطعون کیا جا رہا ہوتا ہے۔

میں یہ بالکل بھی نہیں کہنا چاہ رہی کہ صنفِ نازک پر مختلف مظالم کا باعث بننے والے مرد غلط نہیں ہیں۔۔۔ لیکن آج بس ذرا تھوڑی دیر کو تصویر کے دوسرے رخ کی طرف دیکھنے کی درخواست ہے۔۔۔ ذرا غور  کیجیے گا، تو پتا چلے گا کہ کبھی مرد کے بہ جائے عورت بھی غلط ہوتی اور ہو بھی سکتی ہے۔۔۔ وہ بھی بشری تقاضوں اور انسان ہونے کے ناتے کسی غلطی کی مرتکب ہو سکتی ہے۔ جب ہم یہ سنتے ہیں کہ مرد نے عورت پر ہاتھ اٹھایا تو ہمیں بہت برا لگتا ہے، غصہ آتا ہے، لیکن جب یہی فعل کوئی عورت کرتی ہے، تو ہم اپنے آپ ہی یہ سوچ لیتے ہیں کہ غلطی مرد ہی کی ہوگی۔۔۔ بہت اچھّا کیا عورت نے۔۔۔ شاباش۔۔۔! کوئی یہ نہیں سوچتا کہ غلطی تو عورت کی بھی ہو سکتی ہے۔

جب ہم کسی قطار میں کھڑے ہوئے ہوتے ہیں اور پہلے عورت کو جگہ نہ دی جائے، تو سب مرد کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں اور اگر کوئی مرد جگہ دے دے، تو کوئی بھی اس کو نہیں سراہتا، سب یہی سمجھتے ہیں کہ یہ تو اس کا فرض تھا، اگر کیا تو کون سا احسان کیا۔ مساوات کے ترازو میں تو جب یہ بتایا جا رہا ہے کہ سب برابر ہیں، تو یہ اس کا فرض بالکل بھی نہیں ہوا، بلکہ یہ اس کی اچھائی اورایک قابل تعریف عمل ہے۔

اگر کوئی خاتون بازار میں کھڑی ہو اور کسی چیز کے دام میں کمی بیشی کروا رہی ہو، تو بعض اوقات تو وہ باقاعدہ بدتمیزی کرتی ہوئی بھی پائی جائے گی، تب کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ خاتون ایک مرد سے بدتمیزی کیوں کر رہی ہے۔۔۔ تب وہ بدتمیزی بالکل ’جائز‘ ہوتی ہے اور اگر یہی چیز خدانخواستہ کسی خاتون کے ساتھ کوئی مرد کرتا ہوا پایا جائے، تو وہ جاہل، بدتمیز اور پتا نہیں کیا کیا ہو جاتا ہے۔

ہم ہمیشہ خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں، خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف لکھتے ہیں، لیکن کبھی اس بات پر بھی غور فرمائیے گا کہ جب کوئی پولیس اہل کار کسی خاتون کو جو گاڑی چلا رہی ہو، اس کو روک لے، تو وہ کتنا شور اور بدتمیزی کرتی ہے، لیکن ہاں میں یہ ضرور مانتی ہوں کہ پولیس والے بھی بدتمیزی کرتے ہیں، لیکن میں نے کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہوا دیکھا کہ خاتون اپنی غلطی ہونے کے باوجود پولیس اہل کار سے بدتمیزی کر رہی ہوتی ہے۔

تب کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ یہ عورت بدتمیزی ہے اس کو تمیز نہیں ہے، بلکہ الٹا پولیس والوں کی کم بختی آتی ہے کہ ایک عورت کو ’بلاوجہ‘ کیوں روک لیا۔۔۔؟ اس پولیس والے کے کردار پر باتیں کی جانے لگتی ہیں، کہ یہی ’ٹھرکی‘ ہوگا یا لازمی اسی نے ہی ایک عورت سے بدتمیزی شروع کی ہوگی، جب آپ اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، تب بھی ہمیشہ یہی سننے کو ملتا ہے ’وہ دیکھو لڑکا کتنا ’بدتمیز‘ ہے، مجھے دیکھ رہا ہے۔ لڑکے تو ہوتے ہی ایسے  ہیں، لیکن پھر جب وہی لڑکیاں اس عمل کی مرتکب پائی جاتی ہیں۔

تب وہ صحیح کیسے ہو جاتا ہے۔۔۔؟ تب لڑکیاں خود پر یہ ’کلیہ‘ لاگو نہیں کرتیں اور نہ ہی لڑکوں کی طرف سے ان پر کبھی یہ اعتراض آپ نے سنا ہوگا۔۔۔ اسی طرح جب کوئی لڑکا کسی لڑکی سے دوستی ختم کرتا ہے، تو لڑکی اس کی اتنی برائیاں کرتی ہے، جس پر اس کے حلقے کے لوگ، گھر والے سبھی مل کر اُس لڑکے کو ہی برا بھلا کہنے لگتے ہیں کہ ’سارے لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں۔

وہی غلط اور بدتمیز ہوگا اور جب بالکل ایسے ہی کوئی لڑکی ایسا کرتی ہے، تب بھی لڑکی کو ہی کیوں درست کہا جاتا ہے۔۔۔؟ تب بھی یہی کیوں کہا جاتا ہے کہ بس لڑکا ہی غلط ہوگا، کیوں اس سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ کہیں تمھاری طرف سے تو کوئی غلطی نہیں ہوئی؟ اور پھر کہیں کہیں پر تو یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکے کے گھر والے اتنے سیدھے اور شریف ہوتے ہیں کہ پھر لڑکی کے خاندان والے اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے لگتے ہیں، تب تو سب یہ کہتے ہیں کہ بہت اچھا ہے، اس سے لڑکا قابو میں رہے گا۔۔۔ ’انسان‘ بن کر رہے گا اور وہ لڑکی اُس  بے چارے لڑکے سے پھر چاہے کیسا بھی رویہ رکھے، بدتمیزی کرے، اسے برا بھلا کہے، یہاں تک کہ اگر مارے بھی، تو وہ سب ٹھیک قرار پائے گا اور اگر یہی چیز لڑکا کرے اور کرتا بھی ہے، لیکن اُسے برا کہنے اور سمجھنے والے سب ہوتے ہیں۔

لڑکے کے گھر والے کچھ کریں تو وہ ظالم، گھٹیا اور بہت بُرے اور ’گرے ہوئے‘ ہو جاتے ہیں، جب کہ غلط چیز دونوں صورت میں ہی برابر غلط ہونی چاہیے۔ بنا سچائی جانے ہمارا سماج یہ دُہرا معیار کیوں اختیار کرتا ہے۔۔۔ غلطی ہمارے معاشرے کی ہے، اس نے مرد کو اتنا زیادہ برا بنا دیا ہے کہ بعض اوقات غلطی نہ ہو کے بھی مرد ’غلط‘ ہو جاتا ہے اور عورت کو اتنا اچھا بنا دیا ہے کہ اس کی غلطی ہونے کے باوجود وہ ہم سب کی نظروں میں اچھی ہے، تو کیا یہ چیز اور یہ رویہ غلط نہیں۔۔۔؟

The post غلطی عورت کی بھی تو ہو سکتی ہے۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

وہ کھانے کے تھال اور ’خوان‘ ڈھانپنے والے ’دسترخوان‘۔۔۔

$
0
0

پہلے کی محبتوں اور آج کی محبتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ محبتیں اور خلوص بھی سب ’ڈیجیٹل‘ ہو گیا ہے۔ سہولت اور آسانی کی طلب نے نہ جانے کیوں زندگی مزید بوجھل کر ڈالی ہے۔ آج لاکھوں روپے خرچ کر کے بھی خوشیوں میں وہ مزا نہیں، جو پہلے کی لوازمات سے پاک، سادہ سی زندگی میں ہوا کرتا تھا۔

جب ہم چھوٹے تھے، تو محلے داری اور رشتے داری کے ادب و آداب اور رکھ رکھاؤ عملی طور پر دیکھتے تھے، سیکھتے تھے اور پھر خود بھی ان پر عمل پیرا رہتے تھے۔ خود سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھنے کا سبق گُھٹی میں ڈال کر پلایا جاتا تھا۔ پڑوسی خونی رشتوں کی طرح عزیز اور محترم ہوتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ گھر میں جو بھی پکا ہو، پڑوسیوں کے گھر بہت اہتمام سے ٹرے میں رکھ کر بھیجا جاتا تھا۔

کھانا ڈھانپا ہوا ہونا چاہیے، اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا اور کھانے کو ڈھانپنے کے لیے بڑے اہتمام سے گھروں میں ہی ٹرے اور سینی ڈھانپنے کے لیے ’دسترخوان‘ سلتے تھے، ان پر کشیدہ کاری کی جاتی تھی اور کروشیا سے مہارت دکھائی جاتی تھی۔ گوٹے کناری کے کام کیے ہوئے خوب صورت ٹرے کور شاہی دسترخوان کی یاد دلا دیتے تھے۔

پکوان سادہ ہوتے تھے، تو پڑوسیوں کے گھر دال بھی اس اہتمام سے سجا کر بھیجی جاتی تھی کہ اِسے وصول کرنے والے کو دال میں بھی قورمے کا سواد محسوس ہوتا۔ اس زمانے میں سادہ انداز میں پکی ہوئی دال وہ کمال دکھا جاتی تھی، جو آج ہزاروں کی دیگیں پکا کر بانٹنے پر بھی حاصل نہیں۔

پڑوسیوں کو کچھ بھی بھیجتے ہوئے کسی قسم کی شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ کیا سوچیں گے کہ بس یہ پکا ہے ان کے گھر میں۔ سادہ مگر محبت کی چاشنی سے بھرپور کھانے ذائقہ دے جاتے تھے۔ اس وقت کیوں کہ ہر علاقے میں رہائش پذیر لوگوں کے معاشی حالات کم و بیش ایک جیسے ہی ہوتے تھے، اس لیے جو جیسا ہے، سب کے سامنے ہوتا۔۔۔ دکھ سکھ بھی مشترک ہوتے تھے اور غربت اور امیری بھی۔ دکھاوا دور دور تک نہیں ہوتا تھا۔ باتیں سادہ، جیبیں خالی مگر دل محبتوں سے لبریز ہوتے تھے۔ محبتیں بانٹ کر محبتیں بڑھانے کا اصول بغیر کسی ملاوٹ کے دکھائی دیتا تھا۔

اس وقت ننھے دماغ یہ سمجھنے سے قاصر رہتے تھے کہ کھانے کا ایک بڑا حصہ بانٹنے کے باوجود کھانا سب کو کیسے پورا ہو جاتا تھا۔ بزرگوں کی جانب سے برکت کے تصور کا بیج یہیں سے بویا جاتا تھا، جو ان کی عملی زندگی میں جا کر تناور درخت بن جاتا تھا اور پھر وہ بھی ان طور طریقوں کے امین بن جاتے تھے۔ رشتوں کو بڑے عزت و احترام کے ساتھ اور بڑے سلیقے سے نبھاتے تھے۔

ہماری نانی اور دادی کا فلسفہ یہ ہوتا تھا کہ ہم بھیجیں گے، تو اس میں کچھ اور آ جائے گا اور پھر ہم دوبارہ ان کو کچھ اور بھیج دیں گے، اس سے آپس میں محبتیں بڑھتی ہیں اور اسی بہانے ایک دوسرے کی خیر خیریت بھی مل جاتی ہے۔ یہ ’خوان‘ دینے کے بہانے دروازے پر کھڑے ہو کر گپ شپ کرتی پڑوسنیں محلے بھر کی خیر خبروں کی ترسیل کا ذریعہ بن جاتی تھیں۔

عالمی مسائل سے لے کر خاندانی مسائل تک ایک دوسرے کو سنا کر دل کا بوجھ ہلکا کیا جاتا تھا اور اس طرح اخبار، ریڈیو اور ٹی وی کی کمی پوری ہو جاتی تھی۔ باہمی مشاورت سے بچوں کی پیدائش سے لے کر شادی بیاہ تک کے معاملات طے پا جاتے تھے۔ بچیوں کی شادیاں باہمی طے کر لی جاتی تھیں، یہ میرج بیورو اس زمانے میں کہاں ہوتے تھے۔ دیکھا جائے تو یہ کھانے کے خوان کے اوپر ڈھانپے ہوئے دیدہ زیب ’دسترخوان‘ یا رومال محض کھانا نہیں ڈھانپتے تھے بل کہ ایک دوسرے کے معاملات کی پردہ پوشی کرتے اور عیب بھی بخوبی ڈھانپتے تھے۔ ایک دوسرے کی زندگی آسان کرتے تھے۔

جب ماہِ رمضان نزدیک آتا تو استقبالِ رمضان کی تیاری کے لیے گھر کی خواتین بزرگوں کی ترجیحی فہرست میں یہ والے ’دسترخوان‘  بھی شامل ہوتے تھے۔ سوتی، مخمل اور ویلویٹ کے کپڑوں سے دیدہ زیب ’ٹرے کور‘ تیار کیے جاتے اور ان پر کی جانے والی گوٹا کناری قابلِ دید ہوتی۔ گھر کی خواتین کی ان بظاہر معمولی باتوں کو دی جانے والی یہ خصوصی اہمیت بچوں پر بھی اثر انداز ہوتی تھی اور پڑوسیوں اور رشتے داروں کے حقوق اور حسنِ سلوک سے متعلق ان کی تربیت سازی میں نمایاں کردار ادا کرتی تھی۔

عصر کی نماز کے ساتھ ہی محلے بھر میں افطاری بانٹنے کی ہلچل مچ جایا کرتی تھی۔ لوگ افطاری کے تھال پکڑے پڑوسیوں کے دروازے پر نظر آتے تھے اور ساتھ میں اہتمام سے تیار پرجوش بچوں کی خوشی بھی دیدنی ہوتی تھی۔ تھال کو تھامنے اور بانٹنے کا عمل ان کے لیے مثبت تفریح بن جاتا تھا اور اس طرح عید سے پہلے عید کا مزا آ جاتا تھا۔

بقرعید کے موقع پر قربانی کا گوشت بھی بڑے تھالوں میں رکھ کر انھی ’دسترخوان‘ سے ڈھانپ کر محلے بھر میں بانٹا جاتا تھا، یہ پوری ایک تہذیب تھی، کھانے کا ادب تھا،  پھر شادیوں میں مہندی اور دیگر رسومات کے لیے بھی یہی ’دسترخوان‘ تقریبات میں رنگ بھر دیتے تھے۔ مہندی اور بَری کی چیزیں اور دولھا دلہن کے رشتے داروں کے تحفے تحائف بڑے بڑے تھالوں میں رکھ کر خصوصی طور پر تیار کیے جانے والے انھی ’دسترخوانوں‘ سے ڈھانپ کر نہایت نفاست کے ساتھ پیش کیے جاتے تھے۔

بچوں کے سسرال میں عیدی بھیجی جاتی تھی جو ان تہواروں کو مزید حسین اور رنگا رنگ بنا دیتی تھی۔ اسی طرح دیگر مذہبی محفلوں اور دیگر مواقع پر بھی اسی طرح تبرّکات تقسیم کیے جاتے تھے کہ مجموعی طور پر ایک الگ ہی ماحول بن جاتا تھا۔ آج کل آرڈر پر تیار کردہ گتے کے بنے سجے ہوئے ’ڈبوں‘ ان کا نعم البدل ہیں جن کی مالیت سینکڑوں اور ہزاروں میں ہوتی ہے۔ مشاق کاری گروں کے ہاتھوں سے بنے اس سامان میں محنت کا پسینا تو شامل ہوتا ہے، مگر اپنائیت کی خو بو نہیں۔

وقت بدلا، اقدار بھی بدلیں اور ساتھ دل بھی بدل گئے۔ اب کہاں کے ڈھانپنے والے رومال،’دسترخوان‘ اور ’ٹرے کور‘ اور کہاں کی مینا کاری۔۔۔ گھروں میں نانی اور دادی کے ہاتھوں سے بڑے چاؤ اور محنت سے تیار ’ٹرے کورز‘ کو دیکھے آنکھیں ترس گئیں، سب کچھ جدیدیت کی نذر ہو گیا۔ اب تو بڑی بڑی بیکریوں پر گرما گرم پوری افطاری ہی دیدہ زیب ڈبوں میں پیک ہو کر مل جاتی ہے۔

بس بیکری سے بنی بنائی افطاری خریدی اور باہر کا باہر ہی پڑوسی گھروں میں پہنچا دی جاتی ہے۔ کون سا اہتمام اور کہاں کا اہتمام۔ جدیدیت اور سہولت کے بخار کے ساتھ سب کچھ ہی آسان ہونے کے ساتھ ساتھ مصنوعی بھی ہو کر رہ گیا ہے۔ خلوص و محبت کے تڑکے نہ جانے کہاں رہ گئے۔ محبت و خلوص کی چاشنی کا سواد ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتا۔ سب کچھ مصنوعی سا ہو گیا ہو جیسے۔

گھروں میں ٹیکنالوجی سے دور یہ سلیقہ شعار خواتین خود بہت بڑی آرٹسٹ ہوتی تھیں۔ نہ کوئی کورس نہ کوئی سرٹیفکیٹ، لیکن دیدہ زیب اور خوش نما رنگوں کا انتخاب ہی ان کے اعلی ذوق کی عکاسی کرتا تھا۔

وقت کے ساتھ ترقی کسے اچھی نہیں لگتی، مگر شکوہ اس بات کا ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی متروک رسومات اور طریقوں کے ساتھ جڑی محبتیں بھی تو اب نایاب ہیں۔ ہمارے پرکھوں کے ساتھ، ٹرے کورز کا استعمال  بھی اب کہیں یادوں میں دفن ہو گیا ہے۔

فاسٹ فوڈ کی دلدادہ نوجوان نسل کو شاید اس تحریر میں کوئی دل چسپی محسوس نہ ہو کہ موجودہ وقت میں ٹیکنالوجی کے ساتھ تیزی سے بھاگتے دوڑتے ہوئے اب ان سب باتوں کا خیال کرنا بھی محال ہے۔ لیکن جو لوگ اس دور سے گزر چکے ہیں، وہ اب بھی ان خوب صورت یادوں اور ماضی کی گم گشتہ محبتوں سے توانائی حاصل کرتے ہیں، جو اب اس زمانے میں تقریباً ناپید ہو چکی ہیں۔

ڈیجیٹل ترقی کے ساتھ اب واٹس ایپ، اسنیپ چیٹ، اسکائپ اور میسنجر کا دور ہے۔ ایک دوسرے سے ملنے ملانے کی روایت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ اب لوگ ایک بٹن دباتے ہی دوسرے کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ دنیا جہان کی باتیں ہو جاتی ہیں۔ کچھ لوگ مطمئن بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر جو مزا اپنوں کے گھر جا کر ان سے گلے ملنے میں تھا، کیا وہ مل سکتا ہے؟

آج اپنے گھروں کے مصنوعی ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہوئے، پوری دنیا اپنی ہتھیلی میں سمو کر بھی نہ جانے کیوں ہم سب اندر سے خالی اور تنہا ہیں۔

ٹیکنالوجی اور ترقی کبھی بھی اس گزرے وقت کا نعم البدل نہیں ہو سکتی جب چاندنی راتوں میں نیم کے پیڑ کے نیچے ڈالی گئی چارپائیوں پر بیٹھ کر دوستوں کے ہمراہ سادہ باتوں پر معصوم قہقہے لگائے جاتے تھے۔ لوگ درحقیقت زندگی کو دل سے اور بھرپور جیتے تھے۔

The post وہ کھانے کے تھال اور ’خوان‘ ڈھانپنے والے ’دسترخوان‘۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

چاول کو پکانے سے پہلے بھگونا یا دھونا کیوں ضروری ہے؟

$
0
0

دنیا بھر میں چاول کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ متعدد ایشیائی ممالک میں چاول دن کے ہر کھانے کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ بعض لوگ چاول سے تیار کردہ دودھ کو عام استعمال کے دودھ کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ چاول سے تیار کردہ دیگر اشیاء کی کھپت بھی دنیا بھر میں بڑھ رہی ہے۔

بی بی سی کی سیریز ’ ٹرسٹ می آئی ایم اے ڈاکٹر ‘ میں ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ چاول میں سنکھیا یا آرسنک کی موجودگی کتنا بڑا مسئلہ ہے؟ اور ہمیں غیر محفوظ مقدار سے نجات کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

آرسنک قدرتی طور پر مٹی اور پانی میں پایا جاتا ہے۔ یہ زہریلا ہو سکتا ہے اور یوروپی یونین نے اسے کینسر پیدا کرنے والے عناصر میں پہلے درجے میں شامل کیا ہے۔

چاول میں آرسنک کی کتنی سطح؟

چونکہ آرسنک مٹی اور پانی میں پایا جاتا ہے، اس لیے یہ ممکن ہے کہ اس کی کچھ مقدار فصلوں میں بھی چلی جائے لیکن عام طور پر ہمارے کھانے پینے کی چیزوں میں آرسنک کی سطح اتنی کم ہوتی ہے کہ اس بارے میں پریشان ہونے کی نوبت نہیں آتی لیکن دیگر فصلوں کے مقابلے میں چاول میں آرسنک کی سطح دس سے بیس گنا تک زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاول کی کاشت میں پانی کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس وجہ سے آرسنک کے لیے مٹی سے چاول میں داخل ہو جانا بہت آسان ہو جاتا ہے۔

بیلفاسٹ کی کوئینز یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈی میہارگ نے اس بارے میں برسوں ریسرچ کی ہے۔ انھوں نے ریسرچ اور ٹیسٹنگ کی بنیاد پر بی بی سی کو بتایا کہ ’ باسمتی چاول میں چاول کی دیگر اقسام کے مقابلے میں آرسنک کی سطح کم ہوتی ہے۔ براؤن رائس میں آرسنک زیادہ پایا جاتا ہے۔‘

پروفیسر میہارگ کے بقول ’ آرگینک فصل تیار کرنے سے بھی آرسنک کی سطح پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پینے کے پانی میں جتنے آرسنک کو خطرناک نہیں سمجھا جاتا، رائس مِلک میں اس سے کہیں زیادہ مقدار ہوتی ہے۔‘ ڈاکٹر میہارگ بتاتے ہیں کہ ماضی میں چاول سے بننے والی اشیاء میں جتنا آرسنک ہوتا تھا، اب اس کی اجازت نہیں ہے۔

برطانیہ میں ایسے قانون موجود ہیں جن کے تحت چاول میں آرسنک ایک محدود مقدار سے زیادہ نہیں ہو سکتا ہے۔ سنہ دو ہزار چودہ میں عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کی ادارے نے چاول میں آرسنک کی موجودگی سے متعلق گائیڈلائنز جاری کی تھیں۔ یورپی یونین نے بھی یورپ میں فروخت کی جانے والی اشیاء میں آرسنک کی مقدار کی حد کا تعین کر دیا تھا۔

یورپی یونین نے چھوٹے بچوں کے لیے فروخت کی جانے والی اشیاء میں بھی آرسنک کی مقدار کی حد کا اعلان کیا تھا۔ انڈیا کے شمال مشرقی علاقوں اور مشرقی بنگال جیسی ریاستوں میں آرسنک کی سطح پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ پروفیسر اینڈی میہارگ کا خیال ہے کہ بچوں سمیت وہ افراد جو زیادہ چاول کھاتے ہیں، ان کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

بین الاقوامی اداروں کی کیا رائے ہے؟

اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کی ادارے کا کہنا ہے کہ ’ دنیا کے کچھ علاقوں میں چاول خوراک کا ایک اہم حصہ ہیں اور محفوظ خوراک کی سہولت یقینی بنانے کے لیے اس کی معقول فراہمی بھی اہم ہے۔

آرسنک جیسے زہریلے مادوں کے خوراک میں موجود ہونے سے انسانی جانوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔ اور اسے دور کرنے کے لیے اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔ پالش کیے ہوئے ایک کلو چاول میں زیادہ سے زیادہ 0.2 ملی گرام تک آرسنک کی مقدار کو عام لوگوں کی صحت اور تجارتی نقطہ نظر سے ٹھیک قرار دیا گیا ہے۔‘

چاول کی کتنی مقدار کھانا مناسب ہے؟

یہ ایک مشکل سوال ہے اور اس بارے میں کوئی حتمی جواب دینا فی الحال ممکن نہیں لیکن موجودہ معلومات کی بنیاد پر اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔ آرسنک کی کتنی مقدار ’ خطرے کی حد سے باہر‘ ہے؟

امریکی ادارے فوڈ سٹینڈرڈز ایجینسی کی ایک رپورٹ کے مطابق ستر کلو سے زیادہ وزن والے ایک شخص کے لیے سو گرام چاول کھانا ٹھیک سمجھا جاتا ہے لیکن ان اعداد و شمار کو روزمرہ کی خوراک کے تعین میں شمار نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی دھیان میں رکھنا ہوگا کہ ہماری خوراک میں شامل دیگر اشیاء اور پانی کے ذریعے بھی آرسنک ہمارے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔

چاول سے آرسنک کیسے کم کریں؟

دیگر خوردنی اشیاء کی طرح چاول کا استعمال بھی توازن میں ہونا چاہیے۔ زیادہ تر معاملوں میں چاول کا استعمال موضوع فکر نہیں، لیکن وہ لوگ جو بہت زیادہ مقدار میں چاول کھاتے ہیں یا چاول سے بنی دیگر اشیاء زیادہ کھاتے ہیں ان کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے لیکن اگر آپ رات کو ہی چاول کو بھگو کر رکھ دیں، اگلے دن صاف پانی سے چاول کو اچھی طرح دھونے کے بعد پکائیں، تو اس میں موجود آرسنک کی سطح کو کم کیا جا سکتا ہے۔

چاول پکانے کے دوران بھی چاول کا پانی ایک ابال آنے کے بعد اگر بدل دیا جائے، تو بھی آرسنک کو کم کرنے میں مدد ہوتی ہے۔ اس طریقے سے چاول پکانے سے اس میں موجود آرسنک کو اسی فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔(بشکریہ بی بی سی )

The post چاول کو پکانے سے پہلے بھگونا یا دھونا کیوں ضروری ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

قبض، اسباب، علامات اور علاج

$
0
0

قبض عموماً کسی وجہ سے ہوتا ہے۔ بعد میں یہ خود بہت سی تکالیف کا باعث بن جاتا ہے۔ اسے ’ ام الامراض‘ بھی کہتے ہیں۔

اسے معمولی سمجھ کر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس کی وجہ دریافت کرکے اس وجہ کا علاج کرکے اسے ختم کرنا چاہیے۔ علاوہ ان قبضوں کے جو اینڈی سائٹس، پیری ٹونائی ٹس یا انتڑیوں کی خرابی یا دیگر بیماریوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ تین طرح کی قبض عموماً دیکھنے میں آتی ہیں۔ (1)۔ انتڑیوں میں خشکی کی وجہ سے، (2)۔غذا کی بے احتیاطی کی وجہ سے ،(3)۔ اندرونی یا بیرونی بواسیر کی وجہ سے۔

قبض جسے ’ بیماریوں کی ماں‘ کہا جاتا ہے، میں آج کل ہر چوتھا فرد مبتلا ہے۔ اگر اجابت معمول کے مطابق نہ آئے، تھوڑی تھوڑی ہو یا دوسرے تیسرے روز آئے تو یہ قبض کہلاتا ہے۔ باقاعدہ اجابت نہ ہونے سے طبیعت میں بھاری پن رہتا ہے اور بھوک بھی کم لگتی ہے کیونکہ جب آنتوں میں پہلے سے جگہ موجود نہ ہو تو نئی غذا کا داخل ہونا ممکن نہیں ہوتا ۔

جب غذا اندر نہ جائے تو توانائی میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ عضلات میں کمزوری ہو تو یہ بھی قبض کا باعث ہے ۔ بعض اوقات کچھ پسندیدہ کھانا ملنے پر ضرورت سے زیادہ کھانے سے بھی بدہضمی اور قبض جیسی شکایات ہو جاتی ہیں۔ اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو بیماری شدت اختیار کرسکتی ہے۔

بعض افراد رات کو کھانا نہیں کھاتے اور صبح تک بھوکے رہتے ہیں ، اتنے لمبے وقفے تک اگر جسم میں کچھ نہ جائے تو خون میں مٹھاس کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور پھر غذا کو آگے بڑھانے والا عنصر نہ ہونے کی وجہ سے قبض کی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ بہت سے افراد مرغ مسلم اور تلی ہوئی چٹ پٹی اشیا کھانے کو ترجیح دیتے ہیں جو قبض کا سبب بنتی ہیں۔

کھانا کھانے کے بعد مسلسل بیٹھے رہنے سے بھی قبض و بواسیر کی شکایات پیدا ہو جاتی ہیں۔ قبض کے علاج کے سلسلے میں سب سے اہم چیز غذا ہے۔ قبض کے پرانے مریضوں کو وقت پر کھانا کھانا چاہیے۔

وہ اپنی خوراک میں سبزیوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ اور نہار منہ کم سے کم چار گلاس پانی پئیں۔ آٹا بغیر چھنا استعمال کریں۔ اگر چکی کا آٹا کھائیں تو بہترین ہے۔ بغیر چھنا آٹا قبض اور ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہترین ہے ، اس میں ریشے کے علاوہ وٹامن B پایا جاتا ہے جو عضلات کے لیے مقوی اور جسم میں طاقت کا باعث بنتا ہے۔ قبض کا ایک اہم علاج حاجت کے اوقات کا تعین بھی ہے۔ صبح اٹھ کر کچھ کھانے کے بعد ایک مقررہ وقت پر بیت الخلا جانے سے اس ٹائم کی عادت بن جاتی ہے۔

پھر آہستہ آہستہ اس وقت ہی حاجت ہوتی ہے۔ اگر حاجت نہ ہو تب بھی جائیں تو عادت بن جائے گی مگر کچھ کھا کر جائیں خالی پیٹ نہ جائیں۔ رات کا کھانا ضرور کھائیں رات کو کھانے اور سونے کے درمیان تقریباً 3گھنٹے کا وقفہ ہونا چاہیے اس وقفے کے درمیان بیٹھنا نہیں چاہیے ،کم ازکم 500 سے 600 قدم چلنا چاہیے جس سے آنتوں میں توانائی پیدا ہوتی ہے نتیجتاً اگلے دن اجابت ضرور ہو جاتی ہے۔ نہار منہ شہد کا استعمال کریں اور ہرے پتے والی سبزیاں کھائیں۔

 قبض کی علامات

پاخانہ کرنے میں زور لگانا ، غیر معمولی تاخیر سے اجابت کا ہونا ، حد سے زیادہ گیس کا بننا اور خارج ہونا، کبھی کبھی پیٹ میں درد کا ہونا یا پیٹ کا پھول جانا ، سخت قبض کی وجہ سے خون کا آنا ، چڑچڑا پن ، سردرد کا ہونا ، سخت فضلہ شدید تناؤ یا زور لگانا پڑے اور فضلہ خارج نہ ہو پائے اور یہ محسوس کرنا جیسے آنتیں خالی نہیں ہو پائیں۔

باقاعدہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ بیت الخلا گئے ، فضلہ فوراً خارج ہونا شروع ہوا، اور آپ کو یوں محسوس ہو کہ آپ کی آنتیں پوری خالی ہو چکی ہیں، کوئی 3 مرتبہ بھی جاتا ہے، کوئی ہفتے میں 3 بار بیت الخلا جاتا ہے لیکن اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آنتیں خالی ہوگئی ہیں اور کھانا بھی ٹھیک سے کھایا جا رہا ہے تو یہ قبض نہیں ہے۔

قبض کس وجہ سے ہوتا ہے؟

(1)۔ خوراک میں ناکافی ریشہ دار غذا لینا ، (2)۔دن میں پانی یا کوئی بھی مائع کی چیز جیسے (شربت) وغیرہ کا استعمال کم کرنا ، (3)۔ ناکافی ورزش کرنا ، (4)۔درد کی دوائیں زیادہ کھانا ، (4)۔ بعض خواتین کو حمل کے دوران قبض رہتا ہے، (5)۔پروپیس ایک کمزوری یا اندرونی اعضا کا ٹوٹ جانا جس سے مثانے اور آنتوں کے عمل میں دخل اندازی ہونا۔

فضلے کا ٹھہر جانا، قبض کی وجہ سے جب فضلہ نظام (ہاضمہ کی نالی) میں پھنس کر جمع ہو جاتا ہے تو اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ بیت الخلا میں کتنا ہی زور کیوں نہ لگائیں فضلہ خارج نہیں ہوتا اور تکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بعض دفعہ بلا خواہش کہ فضلہ خارج ہو جاتا ہے یہ ان آنتوں کی وجہ سے ہوتا ہے جو فضلہ کو جمع رکھتی ہیں اور بھر جاتی ہیں۔ لیکن یہ صرف ایک سبب ہو سکتا ہے بعض دفعہ گیس کے زور لگا کر اخراج کرنے سے فضلہ خارج ہو جاتا ہے۔

بواسیر کی بیماری بھی فضلہ خارج کرنے کے لیے زور لگانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ کھنچاؤ (بھاری وزن اٹھانے جیسا ہو سکتا ہے) مقعد کی رگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس سے خون بہنا، ورم اور کھجلی ہو سکتے ہیں۔

مکمل طور پر بھری ہوئی آنتیں آپ کے مثانے میں اکٹھے ہونے والے پیشاب کی مقدار کم کرسکتی ہیں اور اس طرح آپ کو بار بار اور عجلت میں بیت الخلا جانے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اگر قبض کے ساتھ درد ہو، سوزش یا بخار ہو تو ایسے میں آنتوں میں رکاوٹ یا اپینڈکس کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔

قبض کے اسباب

ریشہ دار غذا کی کمی، پانی کم پینا ، حمل، صحت کے دائمی مسائل، خوراک کی بے وقتی، بے وقت سونا ، جاگنا، دیر تک دیر سے ہضم ہونے والی خوراک کا زیادہ استعمال، ورزش کی کمی۔

قبض سے بچنے کی احتیاطی تدابیر

قبض کشا دوا بار بار لینے کے بجائے فائبر سے بھرپور غذا کا استعمال کریں ، پانی زیادہ پئیں، معدے کو کنٹرول کریں، غذا میں دیسی لال آٹا استعمال کریں۔ میدہ اور بیکری کی غذا سے پرہیز کریں۔ نان اور بازاری روٹی کے بجائے گھر کی پکی ہوئی روٹی کھائیں۔ چائے، کافی، کولڈڈرنک کے بجائے قہوہ کو ترجیح دیں ، اجابت جب آئے تو اسے نظر انداز نہ کریں فوراً جائیں۔ کھانے کا وقت متعین کریں، کھانے کو اچھی طرح چبا کر کھائیں۔

ہومیوپیتھک ادویات:

(1)۔نکس وامیکا۔(Nux Vomica) حاجت کا بار بار ہونا لیکن پاخانہ کھل کر نہ آنا۔

(2)۔سلفر۔ (Sulpher)مقعد میں جلن اور تپش کا محسوس ہوتے رہنا۔ قبض کا علاج شروع کرنے سے پہلے اس کی ایک خوراک ضرور لیں۔

(3)۔اوپیم (Opium) ہفتہ ہفتہ بھر پاخانہ کی خواہش کا نہ ہونا اور نہ ہی پیٹ میں درد کا ہونا۔ انتڑیوں کی طرح انسان کا دماغ بھی سویا ہوا ہوتا ہے مریض ہر وقت غنودگی محسوس کرتا ہے۔

(4)۔برائی اونیا۔(Bryonia Alba)اس دوا میں خشکی غضب کی ہوتی ہے۔ منہ سے لے کر مقعد تک تمام راستہ خشک لہٰذا پاخانہ بھی خشکی کی وجہ سے نہیں آتا اور جو آتا ہے وہ خشک اور سخت ہوتا ہے اور رنگت ایسی ہوتی ہے کہ گویا جلا ہوا ہو۔ مریض چڑچڑا اور پیاس زیادہ لگنا اس کی عام علامات ہیں۔

(5)۔ایلومینا۔(Alumina) پاخانہ کی نالی کا مفلوج ہونا۔ خشکی نرم پاخانہ بھی بہت زور لگانے سے ہوتا ہے اور اگر پاخانہ سخت اور خشک ہو تو پھر مفلوجانہ حالت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ بچوں کے قبض کی خاص دوا ہے۔

(6)۔گریفائٹس۔(Graphites) پاخانہ کے ٹکڑے ایک دوسرے کے ساتھ بلغمی جھلیوں سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ پاخانہ کرتے وقت اور بعد میں سخت درد ہوتا ہے۔ عام طور پر موٹے مریض کے لیے بہترین دوا ہے۔

(7)۔پلاٹینا۔سفر کرنے والوں اور ترک وطن کرنے والے اصحاب کی قبض کی دوا ایسا احساس ہوتا ہے کہ مقعد کے اندر پاخانہ لئی کی طرح چپک رہا ہے۔

(8)۔سیلشیا۔(Silicia)مریض بہت زور لگا کر پاخانہ کو باہر دھکیلتا ہے لیکن تھوڑا سا نرم پاخانہ ہونے کے بعد مریض دم لینے کے لیے رکتا ہے تو پاخانہ واپس چلا جاتا ہے۔

(9)۔وریٹرالبم۔(Veratrum Album) اس کے مریض کی بھی پاخانہ کے لیے جدوجہد قابل دید ہے انتڑیاں اوپیم اور برائی اونیا کی طرح ہیں پاخانہ کا کافی جمع ہو جانا اور مریض زور لگائے اتنا زور لگائے کہ پسینہ پسینہ ہو جائے۔

(10)۔سلیکا مارینا(Scillica)۔ ایسی قبض جو کسی دوا سے ٹھیک نہ ہو۔

The post قبض، اسباب، علامات اور علاج appeared first on ایکسپریس اردو.

افغان طالبان کی قیادت تعلیم یافتہ، کنٹرول پورے افغانستان پر ہے، ایکسپریس فورم

$
0
0

 لاہور:  1973 کے بعد افغانستان میں پہلی مرتبہ ایسی حکومت آئی جس کا کنٹرول پورے افغانستان پر ہے لہٰذا خطے میں امن و استحکام ، وسطی ایشیائی ممالک سے گیس معاہدوں پر عملدرآمد اور سب سے بڑھ کر سی پیک منصوبے کی کامیابی کیلیے پاکستان کے پاس یہ سنہری موقع ہے۔

افغان طالبان اب ماضی جیسے نہیں رہے بلکہ ان کی قیادت تعلیم یافتہ ہے جسے عالمی امور و سٹرٹیجک معاملات کا مکمل ادراک ہے اور مغربی ممالک کا تجربہ بھی ، طالبان کی جانب سے کابل میں عام معافی کا اعلان، خواتین کی اقتدار میں شمولیت اور اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی جیسے اقدامات قابل تعریف ہیں ،ان خیالات کا اظہار ماہرین امور خارجہ اور دفاعی تجزیہ نگاروں نے ’’ افغانستان کی موجودہ صورتحال اور خطے پر اس کے اثرات ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا ۔

ماہر امور خارجہ ڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا کہ  خطے میں امن و استحکام ، وسطی ایشیائی ممالک سے گیس معاہدوں پر عملدرآمد اور سب سے بڑھ کر سی پیک منصوبے کی کامیابی کیلئے پاکستان کے پاس سنہری موقع ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف نے کہا کہ افغانیوں نے تین عالمی طاقتوں برطانیہ، روس اور امریکا کو شکست دے کر خود کو منوایا ، آج کے طالبان ماضی جیسے نہیں رہے بلکہ وہ ہر لحاظ سے بہتر چل رہے ہیں، طالبان کی موجودہ قیادت میں پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں، امریکا باز نہیں رہے گا بلکہ وہ افغانستان میں مسائل پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔

ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات ایف سی کالج یونیورسٹی ڈاکٹر زمرد اعوان نے کہا کہ نہ افغانستان پرانا ہے اور نہ ہی طالبان پرانے ہیں، افغان عوام میں تعلیم یافتہ لوگ ہیں جبکہ طالبان قیادت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں اور مغربی ممالک کا تجربہ رکھتے ہیں۔

The post افغان طالبان کی قیادت تعلیم یافتہ، کنٹرول پورے افغانستان پر ہے، ایکسپریس فورم appeared first on ایکسپریس اردو.

پانچ گناہوں کے پانچ عذاب

$
0
0

اﷲ تعالیٰ کے محبوب خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے فرمودات عالیہ اصلاح احوال اور نجات آخرت کا ذریعہ ہیں۔ آپ ﷺ نے مختلف مواقع پر اصلاح امت کے لیے ارشادات عالیہ فرمائے۔ درج ذیل حدیث بھی اصلاح امت کے لیے بہترین درس ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت کا مفہوم ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں خیانت ظاہر اور کھلم کھلا ہونے لگتی ہے تو اﷲ تعالیٰ اس قوم کے دل میں اس کے دشمنوں کا خوف اور ڈر ڈال دیتا ہے اور جب کسی قوم میں زنا کاری پھیل جاتی ہے تو اس قوم میں بہ کثرت اموات ہونے لگتی ہیں اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگتی ہے، اُس قوم کی روزی تنگ کر دی جاتی ہے اور جو قوم ناحق فیصلہ کرنے لگتی ہے، اُس قوم میں خون ریزی پھیل جاتی ہے اور جو قوم عہد شکنی اور بدعہدی کرنے لگتی ہے اس قوم پر اس کے دشمن کو غالب و مسلط کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ باب تغیر الناس)

شرح حدیث: جس طرح دواؤں اور غذاؤں میں اﷲ تعالیٰ نے قسم ہا قسم کی تاثیر پیدا فرمائی ہے کہ زہر مار ڈالتا ہے اور تریاق زہر کے اثرات کو زائل کر دیتا ہے۔ بعض غذائیں صحت کو برباد کر دیتی ہیں اور بعض غذائیں تن درستی کو قائم رکھتی ہیں۔ اسی طرح انسان کے قول و افعال میں بھی قدرت نے قسم ہا قسم کی تاثیر رکھ دی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کی بدزبانی دنیا بھر کے انسانوں کو آپ کا دشمن بنا دیتی ہے اور آپ کی خوش خلقی دنیا بھر کو آپ کا دوست بنا دیتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ کسی کو مُکّا دکھائیں تو وہ آپ پر غضب ناک ہو جاتا ہے اور اگر آپ درد مندی اور عاجزی اختیار کیں تو وہ آپ پر  مہربان ہو جاتا ہے ۔

اسی طرح سمجھ لیجیے کہ انسان کے ہر قول و عمل میں قدرت نے قسم ہا قسم کی تاثیر اور اثرات رکھے۔ اچھے اعمال کے اثرات بھی اچھے ہوا کرتے ہیں اور بُرے اعمال اور بُرے اقوال کی تاثیر بھی بُری ہوا کرتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے اس حدیث میں پانچ بُرے اعمال اور ان کی بُری تاثیر کا بیان فرمایا ہے ۔

1: خیانت کی تاثیر یہ ہے کہ جو قوم امانت میں خیانت کرنے لگے گی تو وہ قوم اپنے دشمنوں سے خائف، ڈرپوک اور بزدل ہو جائے گی۔

2: جو قوم زنا کاری کی لعنت میں گرفتار ہو جائے گی تو اس قوم پر مختلف طرح کی بلائیں بیماریاں اور وبائیں آئیں گی اور بہ کثرت لوگ مرنے لگیں گے۔

3: جو قوم ناپ تول میں کمی کرے گی تو اس کا یہ اَثر ہوگا کہ ان کی روزی کی برکت ختم ہو جائے گی وہ عمر بھر روزی کمانے کے لیے در بہ در کی ٹھوکر کھاتے پھریں گے اور ہزاروں لاکھوں کمائیں گے بھی مگر ان کے دل کو چین اور روح کو سکون اور دولت کو قرار نہیں حاصل ہوگا اور کچھ پتا نہیں چلے گا کہ دولت کہاں سے آئی اور کدھر چلی گئی ؟

4: جو قوم ناحق فیصلہ کرنے کی خُوگر ہو جائے گی تو اس گناہ کا یہ اَثر ہوگا کہ اس قوم میں قتل و خون ریزی کی بَلا پھیل جائے گی اور روزانہ دن رات ہر طرف قتل ناحق ہوتے رہیں گے۔

5: جو قوم بد عہدی کی راہ پر چل پڑے گی اس قوم کی عزت و اقبال اور اس کی سلطنت کے جاہ و جلال کا خاتمہ ہو جائے گا اور اس قوم پر اس کے دشمنوں کا غلبہ و اقتدار ہو جائے گا۔

چوں کہ ان گناہوں کی یہی تاثیرات ہیں اور کوئی چیز بھی اپنا خلقی اَثر دکھائے بغیر نہیں رہ سکتی لہٰذا ان گناہوں کے وہی اثرات ہوں گے جو اُوپر بیان کیے گئے ہیں۔ آگ پر اُنگلی رکھ کر لاکھ چلّائیے، اُنگلی ضرور جل جائے گی کیوں کہ آگ کی تاثیر ہی جلا دینا ہے۔

واضح رہے کہ ان گناہوں کا یہ عذاب صرف دنیاوی عذاب ہے جو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے ۔ باقی آخرت کا عذاب اس کے علاوہ اور وہ عذاب جہنّم ہے ۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں ان پانچوں گناہوں سے بچ کر پانچ عذابوں سے محفوظ رہنے کی توفیق دے۔ آمین

The post پانچ گناہوں کے پانچ عذاب appeared first on ایکسپریس اردو.


تربیّت اطفال مگر کیسے۔۔۔۔!

$
0
0

اولاد اﷲ کی ان نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، جس کا شمار کِیا ہی نہیں جاسکتا۔ جو اس نعمت سے محروم ہیں اس کی اہمیت ان سے پوچھی جائے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ خالق کائنات کا کتنا بڑا انعام ہے۔

اولاد سے محرومی صدہا روگ لے کر آتی ہے، جن کا دائرہ جذباتی اور نفسیاتی محرومیوں تک اور کبھی کبھار اپنی زندگی ختم کردینے جیسے سانحے میں بدل جاتا ہے، اسی لیے اولاد جیسے انعام کی قدر کرنا اور اس پر اپنے رب کا شُکر ادا کرنا ہم سب پر لازم ہے۔

جب یہ نعمت ہمیں ملتی ہے تو ہماری ساری زندگی اپنے بچوں کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ اولاد کے ساتھ ہمارے رویّے مختلف ہوتے ہیں، اور یہ اس لیے ہے کہ ہم سب بھی ایک جیسے نہیں ہیں، ہم میں سے ہر ایک کو اﷲ نے مختلف صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، جسمانی، ذہنی اور مالی تفریق بھی ہمیں ایک دوسرے سے مختلف بناتی ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دنیا بھر کی خوشیاں دیں، چاہے انہیں کچھ بھی اور کتنی ہی محنت کرنا پڑے، اور یہ خواہش فطری ہے اس میں کوئی دو رائے اور کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر یہ خواہشات مثبت اور اپنے دائرے کے تعیّن کے ساتھ ہوں تو بچے والدین کی خواہشات کی تکمیل کے ساتھ اچھے مسلم اور اپنے ملک و قوم کی خدمت بھی احسن طریق سے کرسکتے ہیں۔

لیکن ان سب حقائق کے باوجود اکثر والدین میں اپنی اولاد کے معاملے میں دو طرح کی انتہائیں دیکھی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ والدین اپنے بچوں کو بہت زیادہ لاڈ پیار میں رکھتے ہیں اتنا کہ بچے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں، اور یا پھر اتنی سختیاں کرتے ہیں کہ بچے اپنا اعتماد کھو دیتے اور والدین سے دُور ہوجاتے ہیں۔ اولاد کی تربیت میں میانہ روی بہت ضروری ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی اولاد کو دنیا جہاں کی آسائشیں دے دیں، اچھے کپڑے پہنا دیں، اعلیٰ اسکول میں پڑھا دیں یہ کافی ہے اور ہم نے اس طرح ان کا حق ادا کردیا۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے اصل حق ان کا یہ ہے کہ ان کی اچھی تربیّت کی جائے، اچھا انسان اور باعمل مسلمان بنایا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے ۔۔۔ ؟

آپ نے غور کیا ہے کہ ہم سب اس بات سے پریشان ہیں کہ بچے کہنا نہیں سنتے، پہلے کے بچوں میں جو فرماں برداری تھی وہ ذرّا بھر بھی نظر نہیں آتی، ایسا کیوں ہے ۔۔۔ ؟

پہلے لوگ اپنے بچوں کو جتنا وقت دیتے تھے اتنا نہ سہی لیکن پھر بھی وہ انہیں وقت دیتے ہی ہیں۔ لیکن پہلے بچوں کی جائز فرمائشیں بھی اس طرح پوری کی جاتی تھیں کہ انہیں اس کی قدر رہے، آج ان کے منہ سے جو نکلتا ہے اور وہ پورا ہوجاتا ہے۔ پہلے گھروں میں ٹکنے اور رشتے داروں سے ملنے کا رواج تھا آج چاہے کوئی بھی چھٹی کا دن ہو کسی پارک یا ریسٹورنٹ نہیں تو شاپنگ مال کی نذر کرنا فیشن بن گیا ہے۔

اولاد کی خوشی اور ان کی بے جا فرمائشیں پوری کرنے کے لیے والدین جائز ناجائز طریقے سے مال کماتے ہیں، ان کی فرمائشیں غلط طریقے سے پوری کریں گے اور انہیں مشکوک رزق کھلائیں گے تو مسائل تو پیدا ہوں گے۔ بچے اگر گھروں میں ہوں تو ہم انہیں موبائیل اور ٹی وی کی نذر کردیتے ہیں کہ ہمیں ستائیں نہیں اور ہم اپنے کام بہ آسانی کرلیں۔ خود ان کے ساتھ کھیلنا، باتیں کرنا، ان کے مسائل سننا ہمیں مشکل لگنے لگا ہے۔ کیوں کہ ہمیں اپنی مصروفیات و دل چسپیاں زیادہ اہم لگتی ہیں۔

موبائیل نے ہم سے ہمارا وقت چھین لیا ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا ہمارے لیے زیادہ ضروری ہوگیا ہے بہ نسبت اس کے کہ ہم اپنے بچوں کو وقت دیں، انہیں اسلامی اور دیگر سبق آموز کہانیاں سنائیں، ان سے باتیں کریں، انہیں سکھائیں کہ وہ کیسے اچھے انسان اور مسلمان بن سکتے ہیں۔ بہ حیثیت ماں اولاد کی زیادہ تربیّت کی ذمے داری خواتین پر عاید ہوتی ہے اسی لیے ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم واقعی اپنی اولاد کو دائمی نقصان سے بچانے کے لیے اتنی جدوجہد کر رہے ہیں جتنی دنیاوی نقصان سے بچانے کے لیے کرتے ہیں؟

بچوں کے اگر امتحانات میں نمبر کم آئیں یا کسی مضمون میں کم زور ہو تو ہم کتنی تگ و دو کرتے ہیں، کیا یہ تگ و دو ہم اسے اچھا مسلمان بنانے کے لیے کرتے ہیں؟ بچوں کا دماغ سادہ تختی کی طرح ہوتا ہے جو ہم ابتداء میں سکھائیں گے وہ سیکھ لیں گے۔

اسی لیے ہمیں شروع ہی سے انہیں وہ باتیں سکھانا چاہییں جو انہیں اﷲ کے دین اسلام سے قریب کریں، انہیں سبق آموز کہانیاں سنائیں، اپنے ساتھ نماز پڑھائیں اور ان سب کے ساتھ ان کی اسلامی خطوط پر تربیّت کریں۔ اگر ہم نے اپنے فرائض احسن طریق سے ادا نہ کیے تو ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

اﷲ تعالی ہمیں اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

The post تربیّت اطفال مگر کیسے۔۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.

علم اور معلّم کی فضیلت

$
0
0

انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے لیکن اس کے اندر بھی کئی مدارج رکھے گئے ہیں، اور ان تمام مدارج کی بنیاد اساس علم پر ہے جس کی وجہ سے اسے بلند ترین رتبے پر فائز کیا گیا ہے۔

کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فضیلت ہے لیکن جب علم سے اس کا واسطہ پڑا تو کائنات کا اعلیٰ فرد بن گیا۔ علم انسان کے اندر نیکی، تقویٰ، پرہیز گاری، زہد و اطاعت، خوف خدا اور حسن خلق جیسی صفات پیدا کرتا ہے۔

رب تعالیٰ نے جب ظلمت و اندھیروں میں ڈوبی انسانیت کی ہدایت کا فیصلہ کیا تو نبی آخر الزماں سرور کونین محمد مُصطفٰی ﷺ کو معلّم انسانیت بنا کر ابدی صداقت سے تاریکی کو دُور کرنے کے لیے بھیجا اور جہالت کو علم کی روشنی سے منور کیا۔

تاریخ انسانی گواہ ہے کہ معلم انسانیت آقائے دو جہاں ﷺ وہ راہ بر و محسن تھے جنھوں نے میدان جنگ سے گرفتار ہونے والے پڑھے لکھے قیدیوں کی رہائی کی شرط مسلمانوں کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کی رکھ دی۔ قرآن پاک نے انسانیت سے سوال کیا، مفہوم: ذرا بتاؤ! تو سہی کہ بھلا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں۔

اسلام نے علم و حکمت کو خیر کثیر کہا ہے۔ رب تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جسے حکمت عطا کی گئی اسے بہت سی بھلائی عطا کی گئی۔ علم سکھانے والا معلّم ہے۔ اور کائنات کی سب سے عظیم ہستی جناب نبی کریم ﷺ جن کی وجہ سے یہ کائنات معرض وجود میں آئی وہ خود فرما رہے ہیں: ’’بے شک! مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘

استاد کی حیثیت و اہمیت کا اندازہ اسی قول سے لگایا جاسکتا ہے۔ فرض شناس استاد ہی کسی قوم کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ وہ اپنی ذمے داریوں سے بہ احسن عہدہ برا ہو سکیں۔ اساتذہ روحانی والدین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ماں باپ اس دنیا میں لاتے ہیں اور استاد علم و ہنر سکھا کر انسان کو بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جس میں استاد کی عزت و احترام کا یہ عالم تھا کہ شاہوں کی شاہی بھی اساتذہ کے سامنے سرنگوں ہوتی تھی۔ پھر وقت نے کروٹ بدلی انسان نے مادی ترقی کی منازل طے کیں اور اتنی ’’ترقی‘‘ کر لی کہ ہر رشتہ، ہر لحاظ، ہر واسطہ و تعلق کو فراموش کردیا۔ اور استاد کی عزت و احترام بھی کہیں کھو گئی۔ آج استاد کو محض ایک تن خواہ دار ملازم کی حیثیت دی جاتی ہے اور جب اس سوچ کے ساتھ جب علم حاصل کیا جائے تو وہ ایک ڈگری ایک کاغذ کے حصول سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی۔ اور پھر ایسے میں انسانیت کہیں دور تاریکیوں میں بھٹک جاتی ہے۔

معاشرے جرائم کی آماج گاہ بن جاتے ہیں۔ ان رویوں کے ذمے دار کسی حد تک والدین بھی ہیں۔ یہ والدین کا فریضہ ہے کہ وہ استاد کی عزت و تکریم اولاد کو سکھائیں۔ ناصرف اولاد بلکہ معاشرے میں ہر فرد کے ساتھ مودب رویہ اپنانے کی تلقین کریں۔ استاد کے مقام و اہمیت سے روشناس کروائیں۔ غریب و نادار لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا بتائیں۔

اسلام نے جہاں مسلمانوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا ہے وہاں استاد کو بھی معزز و اعلیٰ مرتبہ دیا۔ حضور اکرم ﷺ جب صحابہ کرامؓ کو درس دے رہے ہوتے تھے تو وہ اس قدر خاموش اور مستعد ہو کر بیٹھتے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں اور اگر انھوں نے ذرا سی بھی حرکت کی تو وہ اڑ جائیں گے۔

آپؐ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ اﷲ تعالیٰ، اس کے فرشتے، حتیٰ کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور سمندر میں مچھلیاں بھی اس شخص کے لیے دعا کرتی ہیں جو علم نافع سیکھتا اور سکھاتا ہے۔ علماء و اساتذہ علم کی ترویج اور اس کے فروغ کا وسیلہ ہیں اور ان کی قدر و منزلت کا اندازہ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے ظاہر ہوتا ہے، مفہوم: ’’علماء انبیائؑ کے وارث ہیں۔‘‘ استاد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا کہ معلم کے لیے کائنات کی ہر شے دعائے خیر کرتی ہے۔

ایک دفعہ خلیفہ مامون الرشید کے دونوں بیٹوں کے استاد محترم کو کہیں جانا پڑا۔ وہ اٹھے تو دونوں شہزادے استاد کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیے دوڑ پڑے اور ایک ساتھ وہاں پہنچے اور دونوں نے ایک ایک جوتی سیدھی کرلی۔ خلیفہ مامون کو اس واقعے کی خبر ہوئی تو انھوں نے استاد کو بلا بھیجا اور سوال کیا: آج دنیا میں سب سے معزز انسان کون ہے۔

استاد نے جواب دیا: آپ سے بڑھ کر کون معزز ہو سکتا ہے؟ مامون الرشید نے کہا: ہرگز ایسا نہیں ہے، اصل معزز تو وہ ہے جس کے جوتے سیدھے کرنے کے لیے حکم ران کے بیٹے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہوں اور اسے اپنے لیے باعث فخر سمجھیں۔

سکندر اعظم کو آدھی دنیا کا فاتح کہا جاتا ہے لیکن وہ اپنی کام یابی کو اپنے استاد کی مرہون منت کہتا ہے۔ سکندر اعظم کے یہ الفاظ تاریخ میں رقم ہیں: ’’میرا باپ مجھے زمین پر لایا اور میرے استاد نے مجھے آسمان تک پہنچا دیا۔‘‘ استاد کی تکریم کے بغیر ان سے کسب فیض ممکن نہیں۔ کیوں کہ علم نافع احترام سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ احترام نہ ہو تو کتابیں ازبر کرکے کاغذ کا ٹکڑا (ڈگری) تو لی جاسکتی ہے مگر تربیت و فیض کے نور سے قلب و ذہن کو منور نہیں کیا جاسکتا۔

The post علم اور معلّم کی فضیلت appeared first on ایکسپریس اردو.

قناعت کی برکات و فضائل

$
0
0

قناعت، عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں: ’’جو مل جائے اُس پر راضی رہنا اور اسے ہی اپنی قسمت تصور کرنا۔‘‘

یہ ایک ایسا عمدہ اور نیک وصف ہے، جس کے ذریعے انسان انتہائی مشکل اور کٹھن حالات میں بھی گزارہ کر کے اپنے پروردگار کا قُرب حاصل کرکے خوش و خرم زندگی گزار سکتا ہے۔

ملتا تو انسان کو وہی ہے جو ربِ کائنات نے اُس کی قسمت میں لکھ رکھا ہوتا ہے، تو پھر خواہ مخواہ اپنی قسمت اور مقدر کو کوس کر کڑھ کڑھ کر زندگی گزارنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ انسان قناعت اختیار کرلے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو مل جائے اسے خوشی خوشی دل و جان سے قبول کرکے اسی پر راضی رہے اور اُسی پر اﷲ تعالیٰ کا شُکر ادا کرے۔

آج ہماری زندگی میں خوشیاں کیوں نہیں ہیں؟ راحت و سکون کیوں اُٹھ چکا ہے؟ بے برکتوں اور نحوستوں نے کیوں ڈیرے ڈال رکھے ہیں؟ اسی لیے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی نہیں ہیں! ہم اپنے مقدر پر خوش نہیں ہیں! ہم اپنی قسمت سے نالاں ہیں! حالاں کہ اگر آج ہی ہم زُہد و قناعت اور صبر و شُکر والی زندگی گزارنا شروع کردیں تو یقین جانیے ہماری زندگی میں خوشیاں دوبارہ لوٹ آئیں، رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہونے لگ جائے اور ہمارے معاشی حالات بہتر ہونا شروع ہوجائیں۔

اور پھر مزے کی بات یہ کہ اس کے لیے ہمیں اجتماعی اور عالمی سطح پر نہیں بلکہ صرف انفرادی سطح پر محنت شروع کرنا ہوگی اور ہماری زندگی خود بہ خود خوش حال ہونا شروع ہوجائے گی، ہمارے معاشی حالات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے اور ہم ایک اسلامی معاشرے میں ایک اچھے مسلمان کہلانے کے مستحق ہوجائیں گے۔

اسلام کی شان دار لہلہاتی تاریخ اس قسم کے بے شمار واقعات سے لبریز ہے جس میں مسلمانوں نے انتہائی کسم پرسی اور دگرگوں حالات کے باوجود بڑی خوش حال اور آسودہ زندگی گزاری ہے۔ چناں چہ اصحابِ سیر نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ دوپہر کے وقت سخت دھوپ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ پریشان ہوکر گھر سے چلے، مسجد میں پہنچے ہی تھے کہ حضرت عمر فاروقؓ بھی اسی حالت میں تشریف لے آئے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بیٹھا ہوا دیکھ کر دریافت کیا: تم اس وقت یہاں کہاں ؟ جناب ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: ’’بھوک کی بے تابی نے پریشان کیا۔‘‘ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: واﷲ! اسی چیز نے مجھے بھی مجبور کیا کہ کہیں جاؤں۔ یہ دونوں حضرات یہ گفت گو کر ہی رہے تھے کہ سردار دو عالم نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے۔

ان کو دیکھ کر دریافت فرمایا: تم اس وقت کہاں ؟ انہوں نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ ! بھوک نے پریشان کیا ، جس سے مضطرب ہوکر نکل پڑے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اسی مجبوری سے میں بھی آیا ہوں۔ تینوں حضرات اکٹھے ہوکر حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان پر پہنچے، وہ تشریف نہیں رکھتے تھے، بیوی نے بڑی مسرت و افتخار سے ان حضرات کو بٹھایا۔

حضور اقدس ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’ابو ایوب کہاں گئے ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا: ابھی حاضر ہوتے ہیں، کسی ضرورت سے گئے ہوئے ہیں۔ اتنے میں ابو ایوبؓ بھی حاضر خدمت ہوگئے اور فرط خوشی میں کھجور کا ایک بڑا سا خوشہ توڑ لائے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سارا خوشہ کیوں توڑا ؟ اس میں کچی اور ادھ کچری بھی ٹوٹ گئیں، چھانٹ کر پکی ہوئی توڑ لیتے۔

انہوں نے عرض کیا: اس خیال سے توڑا کہ ہر قسم کی سامنے ہوں جو پسند ہو وہ نوش فرمائیں۔ (بعض مرتبہ پکی ہوئی سے ادھ کچری زیادہ پسند ہوتی ہیں) خوشہ سامنے رکھ کر جلدی سے گئے اور ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور جلدی جلدی کچھ تو ویسے ہی بھون لیا کچھ سالن تیار کرلیا۔

حضور اقدس ﷺ نے ایک روٹی میں تھوڑا سا گوشت رکھ کر ابو ایوبؓ کو دیا کہ یہ حضرت فاطمہؓ کو پہنچا دو، اس کو بھی کئی دن سے کچھ نہیں مل سکا۔ وہ فوراً پہنچا کر آئے، ان حضرات نے بھی سیر ہوکر نوش فرمایا۔ اس کے بعد حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: دیکھو! یہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، روٹی ہے، گوشت ہے، ہر قسم کی کچی اور پکی کھجوریں ہیں۔ یہ فرما کر نبی اکرم ﷺ کی پاک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ارشاد فرمایا: اُس پاک ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے یہی وہ نعمتیں ہیں جن سے قیامت میں سوال ہوگا۔

اسی طرح مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے حضرت ابو حازمؒ  کوبڑے اِصرار سے لکھا کہ آپ کو کچھ ضرورت ہوا کرے تو مجھ سے منگا لیا کریں۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ میں نے اپنی ضرورتیں اپنے آقا کی خدمت میں پیش کردیں۔ اُس نے اُن پر جو کچھ مجھے عطا فرما دیا، میں نے اُس پر قناعت کرلی۔ (فضائل ذکر)

حضورِ اقدس ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ مبارک ہے وہ شخص جس کو حق تعالیٰ شانہ نے اسلام کی دولت سے نوازا ہو، اور صرف ضرورت کے بہ قدر اُس کی روزی ہو اور وہ اُس پر قناعت کرنے والا ہو۔ (بخاری و مسلم) اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ تُو متقی بن جا، سب سے بڑا عبادت کرنے والا ہوجائے گا اور (کم سے کم مقدار پر) قناعت کرنے والا بن جا، تُو سب سے زیادہ شُکر گزار ہوجائے گا۔ اور اپنے بھائی کے لیے بھی اُس چیز کو پسند کر جس کو اپنے لیے پسند کرتا ہے تو کامل مومن بن جائے گا۔

حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو یہ خط لکھا کہ دُنیا میں جتنی روزی مل رہی ہے تم اُس پر راضی رہو اور اسی پر قناعت کرلیا کرو، کیوں کہ رحمٰن نے اپنے بندوں کو کم زیادہ روزی دی ہے۔ اور یوں اﷲ تعالیٰ ہر ایک کو آزمانا چاہتے ہیں کہ جسے روزی زیادہ دی ہے اسے دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ میرا شُکر کیسے ادا کرتا ہے  ؟ اور اﷲ تعالیٰ کا اصل شُکر یہ ہے کہ اُس نے جو دیا ہے اسے وہاں خرچ کرے جہاں وہ چاہتا ہے۔ (کنز العمال)

محمد بن واسعؒ مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ وہ سوکھی روٹی کو پانی میں بھگو کر کھا لیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو اس پر قناعت کرلے وہ کسی کا بھی محتاج نہ ہو۔ ایک حکیم کا ارشاد ہے کہ میں نے سب سے زیادہ غم میں مبتلا رہنے والا حسد کرنے والے کو پایا اور سب سے بہترین زندگی گزارنے والا قناعت کرنے والے کو پایا۔

امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ فقر بہت محمود چیز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ شخص قناعت کرنے والا ہو۔ لوگوں کے پاس جو مال ہیں اُن میں طمع نہ رکھتا ہو۔ اُن کی طرف ذرا بھی التفات نہ کرتا ہو۔ اور نہ مال کے کمانے کی اُس میں حرص ہو۔ اور یہ سب چیزیں جب ہی ہوسکتی ہیں جب کہ آدمی اپنے اخراجات میں نہایت کمی کرنے والا ہو۔

کھانے میں، لباس میں، مکان میں کم سے کم اور مجبوری کے درجہ پر کفایت کرنے والا ہو۔ اور گھٹیا سے گھٹیا چیز پر قناعت کرنے والا ہو۔ اگر کسی چیز کی ضرورت محسوس ہو تو ایک مہینہ کے اندر اندر کی ضرورت کا تو خیال ہو ، اس سے آگے کی کسی چیز کی طرف اپنے خیال اور دھیان کو نہ لگائے۔ اگر اس سے آگے کی سوچ میں پڑجائے گا تو قناعت کی عزت سے محروم حرص و طمع کی ذلت میں پھنس جائے گا۔ اور اس کی وجہ سے بُری عادتیں پیدا ہوجائیں گی۔ مکروہ چیزیں اختیار کرنا پڑجائیں گی۔ اس لیے کہ آدمی بالطبع حریص ہے۔

آنحضرتؐ صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دینؒ کے مندرجہ بالا فرامین و معمولات ِ زندگی کا حاصل اور نچوڑ یہی نکلتا ہے کہ اپنی زندگی میں خوش حالی و آسودگی اور راحت و سکون لانے کا یہی ایک نسخہ ہے کہ آدمی اپنے اندر قناعت کی صفت پیدا کرلے، خواہشاتِ نفسانیہ (حرص و طمع اور بے صبری و ناشکری اور ناحق اپنی قسمت پر رونے) جیسی مذموم صفات ایک ایک کرکے اُس کے دل سے نکلنا شروع ہوجائیں گی اور اُس کی زندگی خوش حالی و فراوانی اور مرفہ الحالی و آسودگی کا گہوارہ بن جائے گی اور اسے اﷲ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کے اندر بھی لذت محسوس ہوگی۔

The post قناعت کی برکات و فضائل appeared first on ایکسپریس اردو.

بابائے قوم غیروں کی نظر میں

$
0
0

قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی 72 سالہ زندگی کے دوران تقریباً 44 سال تک ہندوستان کے مسلمانوں کی ترقّی، خوش حالی، سیاسی بالادستی اور آزادی کے لیے جدوجہد کی۔

اس عرصے میں اگرچہ اُن کو بعض مراحل پر اپنے اور غیروں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر ان کی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں اور ناقابلِ تسخیر سیاسی کردار نے 1937 میں یہ بات طے کردی تھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بلاشرکت غیرے وہی قائداعظم ہیں۔

قائداعظم کی ان ہی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے شاعرِ مشرقِ علّامہ اقبال نے جون 1937 میں قائداعظم کے نام ایک خط میں تحریر کیا کہ ’’اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے قوم محفوظ راہ نمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے۔‘‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ کے اس انتہائی نازک موڑ پر جب ہندوستان کے مسلمان اپنی بقا اور سلامتی کی جانب سے بڑی حد تک مایوس ہوچکے تھے۔

قائداعظم محمدعلی جناح نے تدبر، فراست، غیرمتزلزل عزم، سیاسی بصیرت اور بے مثل قائدانہ صفات سے کام لے کر مسلمانوں کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد کردیا اور سات سال کی مختصر مدّت میں مطالبہ پاکستان کی ایسی وکالت کی کہ 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ برِّصغیر میں ایک آزاد مسلم مملکت کے قیام کا وہ دیرینہ خواب جو اسلامیانِ ہند گزشتہ دو صدیوں سے دیکھتے چلے آرہے تھے 14 اگست 1947 کو شرمندۂ تعبیر ہوا۔ اس خواب کی تعبیر ایک فردواحد کی چشمِ کرشمہ ساز کا نتیجہ تھی اور وہ فردِ واحد قائداعظم محمدعلی جناح تھے۔

1948 بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کی زندگی کا آخری سال تھا۔ اگرچہ آپ نے اپنی سیاسی زندگی نہایت سرگرمی اور تن دہی سے گزاری مگر آپ کی زندگی کے آخری دس سال جن میں آپ کو بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر مکمّل آرام کی ضرورت تھی نہایت ہنگامہ خیز سال تھے۔

قیامِ پاکستان کے بعد نومولود ریاست کے مسائل ایسے نہ تھے جن کو قائداعظم نظرانداز کردیتے یا دوسروں پر چھوڑ دیتے، چناںچہ آپ نے ان مسائل کی جانب بھرپور توجّہ دی۔ پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا تعین اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے وہاں کے عوام کے مسائل معلوم کرنا اور پھر ان کے تدارک کے لیے اقدامات، قومی معیشت کا فروغ و استحکام، تعلیمی نظام کو مؤثر بنانا، سرحدوں کا دفاع، آئین ساز اسمبلی، سرکاری مُلازمین اور مسلح افواج کو نہ صرف اُن کے فرائض سے آگاہ کرنا بلکہ اُن کو یہ باور کرانا کہ قوم اُن سے کیا توقعات رکھتی ہے۔

ان تمام اُمور سے قائداعظم نے حتی المقدور عہدہ برآ ہونے کی بھرپور کوشش کی۔ بقول پروفیسرشریف المجاہد ’’تمام حالات و واقعات کا دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ نوزائیدہ قوم اپنی ہنگامہ خیز پیدائش کے فوراً بعد ہی پیش آنے والے تباہ کن اور ہول ناک بحران میں بھی محض اس لیے زندہ سلامت رہی کہ اس دور میں قائداعظم اُمور مملکت کے نگراں تھے۔

پاکستان کے عوام کو اُن پر جو بے پناہ اعتماد تھا، لوگوں کے دلوں میں اُن کے لیے جو زبردست عقیدت و محبّت تھی، قائداعظم نے اُسی کو بروئے کار لاکر اپنی قوم کو درپیش مشکلات و مصائب سے نمٹنے کے لیے حوصلہ عطا کیا۔ اُسے ان تباہیوں، بربادیوں اور ہول ناکیوں کا نئی توانائیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا عزم عطا کیا۔ آزادی نے عوام کے سینوں میں حبّ الوطنی کے جن جذبات کو بھڑکایا تھا اُن کی حدّت اور حرارت اور توانائی کا رُخ تعمیری سرگرمیوں کی سمت موڑ دیا۔

بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی بے مثل قیادت اور سیاسی بصیرت کو نہ صرف مسلمانانِ ہند نے ہمیشہ فخر کی نگاہ سے دیکھا بلکہ دنیا کے تمام راہ نمائوں نے اُن کی شخصیت اور عظمت کردار کو ہمیشہ خراجِ تحسین وعقیدت پیش کیا۔ برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے قائداعظم کے انتقال پر اپنے تعزیتی بیان میں قائداعظم کو دُنیا کے عظیم راہ نمائوں میں نمایاں اور ممتاز قرار دیا اور کہا کہ وہ اپنے مقصد سے گہری وابستگی پر یقین رکھتے تھے اور اسی یقین نے اُن کو حصولِ پاکستان کی صورت میں عظیم کام یابی سے ہم کنار کیا۔

برطانوی پارلیمنٹ کے معروف رکن اور مدبر سراسٹیفورڈ کرپس نے کہا کہ وہ بحیثیت انسان راست بازی اور دیانت داری کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے۔ اُن کے ساتھ گفتگو کرنا متعدد وجوہات کی بنا پر دشوار ترین تھا کیوں کہ وہ اپنے مقصد اور مؤقف پر غیرمتزلزل یقین رکھتے تھے۔ بہت نفیس اور خوش اخلاق تھے۔

اپنے مؤقف کے حق میں دوسروں کو ہم وار کرنا اور دوسروں کے اُٹھائے ہوئے سوالات کا مدّلل جواب دینے کے لیے پوری رات جاگنے کے لیے تیار رہنا اُن کی فطرت ثانیہ تھی۔ وزیرہند سرپیتھک لارنس کا خیال ہے کہ جناح کا نام ایک عظیم قوم کی تشکیل کرنے والے راہ نما کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

امریکا کے صدر ہیری ٹرومین نے قائد کے حوالے سے کہا کہ محمدعلی جناح نہ صرف پاکستان کے خواب کو تعبیر سے ہم کنار کرنے والے بلکہ ایک مملکت کے معمار اور دنیا کی سب سے بڑی (مسلم) قوم کے بابائے قوم تھے۔ اُن کی مقصد سے وابستگی جاں نثاری اور بے مثل قیادت کی یادیں آئندہ آنے والے دنوں میں بھی پاکستان کے عوام کی راہ نمائی کرتی رہیں گی۔

امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ جارج مارشل نے قائداعظم کی خصوصیات گنواتے ہوئے کہا کہ اْن کی راست بازی، دیانت داری، خلوص اور ناقابلِ تسخیر عزم کی اُن کے سیاسی دوست اور دشمن سب ہی قدر کرتے رہے۔ محمدعلی جناح کو تنظیمی اور سیاسی اُمور میں جو مہارت حاصل تھی اس نے اُن کو نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا کے عظیم مدبروں کی صف میں ہمیشہ نمایاں رکھا۔

بمبئی کے وزیراعلیٰ اور قائداعظم کے ذاتی دوست پی جی کھیر نے قائداعظم محمدعلی جناح کو ایک تاریخ ساز شخصیت قرار دیا اور کہا کہ اُن کی قوتِ فیصلہ، خوداعتمادی اور بے مثل سیاسی بصیرت و وکالت نے اُن کو قابلِ رشک راہ نما بنا دیا تھا۔

سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے ہند ایڈون سموئل مانیٹگو نے 1917 میں قائداعظم محمدعلی جناح کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہایت ہوشیار آدمی ہیں اور افسوس کہ اُن کو ان کے اپنے ہی ملک ہندوستان کے اْمور حکومت میں کوئی دخل حاصل نہیں ہے۔

1946-47 میں صوبہ سرحد کے گورنر سر اولف کیرو کا کہنا ہے کہ محمدعلی جناح ایک سیاست داں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اُن کے بارے میں صائب رائے رکھتا ہے۔ اُن کی مکمّل شخصیت قابلِ رشک ہے۔

اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر آئین اسٹیفن نے اپنی کتاب میں قائداعظم کو ایک قوم کا معمار قرار دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل کے مؤرّخ محمدعلی جناح کو بسمارک اور کیور کا ہم پلّہ قرار دیں گے۔

پروفیسر رش بروک ولیمز نے جو لندن ٹائمز کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں بھی شامل تھے قائداعظم کی رحلت پر اُن کے بارے میں اظہارِخیال کرتے ہوئے لکھا کہ وہ ایک عظیم راہ نما تھے۔ ایک ایسے راہ نما جنہوں نے برِّصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں ایک انقلاب برپا کردیا۔

قائداعظم کے انتقال پر سرپیتھک لارنس نے کتنی معنٰی خیز بات کہی تھی کہ ’’گاندھی ایک قاتل کے ہاتھوں مارے گئے لیکن جناح نے پاکستان سے گہری وابستگی اور لگائو کی راہ میں اپنی جان دے دی۔‘‘

لندن ٹائمز نے لکھا، ’’وہ ان لوگوں کے لیے اس قوم کے لیے جو ان کی راہ نمائی میں یہاں تک آئی تھی۔ قائداعظم سے بھی بڑھ کر، سربراہ مملکت سے بھی زیادہ سربلند اور اس اسلامی مملکت کے جس کی بنیاد خود انہوں نے رکھی تھی، معمار سے بھی کچھ زیادہ ہی حیثیت رکھتے تھے۔‘‘

قائداعظم بلاشبہ ہندوستان کی جدید تاریخ کے معمار تھے۔ ایک تاریخ ساز شخصیت۔ ایک ایسی شخصیت جس کی عصرِحاضر میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بقول سروجنی نائیڈو جناح عصرِحاضر کی سب سے سربرآور دہ اور جاذب نظر شخصیت تھے۔ قائداعظم محمدعلی جناح کی شخصیت آج بھی اپنے سیاسی کردار کے آئینہ میں سماجی علوم کے ماہرین کے لیے ایک اہم ترین شخصیت ہے۔ ایک ایسی شخصیت جس کی تفہیم کے بغیر ہندوستان کی جدید تاریخ کا نہ ابلاغ ممکن ہے اور نہ ہی پاکستان کی اُن کے تصوّر کے مطابق ترقّی و خوش حالی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔

قائدا عظم کے آخری ایام
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
محفوظ النبی خاں

“ہماری خواہش ہے کہ جب ہم دوبارہ آئیں تو پاکستان کو اپنے نانا (قائد اعظم محمد علی جناح ؒ) کے وژن کے مطابق ترقی یافتہ دیکھیں۔” ان تاثرات کا اظہار قائد اعظم محمد علی جناح کی صاحب زادی دینا جناح کے صاحب زادے جہانگیر واڈیا نے اس وقت کیا جب انہوں نے اپنی والدہ کے ہمراہ کراچی آمد پر مزار قائد پر حاضری دی تھی۔

محترمہ دینا واڈیا نے اپنے والد کے مقبرے کی عمارت کو عالی شان قرار دیا تھا۔ کراچی میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے والہانہ انداز میں اشرف اور اکبر لیاقت علی خان سے بھی ملاقات کی تھی۔ دینا واڈیا اس سے قبل قائد اعظم کی وفات کے موقع پر کراچی تشریف لائی تھیں۔ اس وقت ممبئی سے انہیں کراچی لانے کے لیے حکومت پاکستان نے خصوصی طیارے کا اہتمام کیا تھا ۔ محترمہ دینا جناح 15اگست1919 کو پیدا ہوئی تھیں جب کہ ان کی والدہ رتن بائی کا یوم پیدائش اور یوم وفات ایک ہی تاریخ29 فروری ہے۔

یہ مضمون قائد اعظم کی برسی پر تحریر کیا جا رہا ہے جس کی مناسبت سے ان کے آخری ایام کا مختصر تذکرہ ضروری ہے۔ اس سلسلے میں قائد اعظم کے ADC بریگیڈیئر (ر) نور حسین کی تحریروں سے استفادہ لازمی ہے۔ ان کے مطابق قائد اعظم 25مئی کو 1948 کو کوئٹہ پہنچے تھے اور بعدازآں 17جون کو بلوچستان کے پُرفضا مقام زیارت منتقل ہوگئے تھے۔

کوئٹہ میں اہم تقریبات میں شرکت کے بعد جن میں پارسی برادری کی جانب سے استقبالیہ بھی شامل تھا، جہاں انہوں نے اپنی تقریر میں بطورخاص حکومتی کارکردگی کی تعریف کی تھی، زیارت میں 13 روز قیام کے بعد وہ کراچی تشریف لائے جہاں انہوں نے یکم جولائی1948 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا اور 4جولائی کو امریکا کے یوم آزادی کے استقبالیہ میں شرکت کی جس کی دعوت انہیں پاکستان میں متعین امریکی سفیر نے خصوصی طور پر دی تھی۔ بعدازآں6جولائی 1948 کو وہ دوبارہ کوئٹہ منتقل ہوگئے۔

اس موقع پر بریگیڈیئر (ر) نور حسین کے مطابق انہوں نے حکومت کی ذمے داریاں وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سپرد کردی تھیں۔ بریگیڈیئر (ر) نور حسین نے مئی سے11ستمبر1948 قائد اعظم کی وفات تک اے ڈی سی کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان کو اپنی ملازمت کے باعث قائداعظم سے جو قرب نصیب ہوا وہ قائداعظم کے معالج کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش سے زیاد ہ ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر بریگیڈیئر (ر) نور حسین کے تاثرات کہیں زیادہ اہم اور مستند ہیں۔ انہوں نے اپنے تاثرات میں ڈاکٹر الٰہی بخش کی لغوگوئی کو طشت ازبام کر دیا ہے۔

ڈاکٹر الٰہی بخش نے زیارت میں قائداعظم کے علاج کے دوران اہم شخصیات سے ملاقاتوں کی داستانوں میں اپنا رنگ بھرنے اور ایک کتابچے کے ذریعے ہوس اقتدار میں مبتلا گروہ کے مفادات کو سہارا دینے کی کوشش کی ہے جب کہ حقیقت اس سے قطعی مختلف ہے۔

اقتدار کی ہوس میں مبتلا اس گروہ میں سے چند شخصیات کا ذکر ضروری ہے۔ پاکستان کی پہلی مرکزی کابینہ میں وزیرخزانہ ملک غلام محمد شروع ہی سے خود کو گورنر جنرل کے منصب پر قائداعظم کا جانشین تصور کرتے تھے اور اس کا ذکر بھی انہوں نے برملا کیا تھا۔ مئی1948 میں جب کہ ابھی قائد اعظم بقید حیات تھے امریکی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی لیفٹیننٹ کرنل نیتھو نیل ریمزے ہاسکوٹ نے واشنگٹن میں اپنی حکومت کو ایک رپورٹ میں تحریر کیا تھا کہ پاکستان کے ذہنی و طبعی طور پر بیمار وزیرخزانہ ملک غلام محمد نے ان سے (ملٹری آقاشی) کہا ہے کہ وہ قائداعظم کے جانشین ہیں۔

امریکی اتاشی نے مضحکہ خیز انداز میں ان کے دعویٰ جانشینی کو وہم یا خودفریبی قرار دیا تھا۔ اسی طرح قیام پاکستان کو تین ہفتے سے بھی کم عرصہ ہوا تھا کہ موصوف نے کراچی میں امریکی ناظم الامور سے کہا تھا کہ پاکستان کی 95 ہزار نفری سوویت یونین (اشتراکی روس) کی مزاحمت کے لیے پوری طرح تیار ہے کیوںکہ پاکستان کی مسلم آبادی اور سوویت یونین کے نظریات میں کوئی مماثلت نہیں۔ ملک غلام محمد کے ان تاثرات کا منصور اکبر کنڈی نے “غلام محمد کی زندگی اور کام “کے عنوان سے اپنے مقالے میں تذکرہ کیا ہے جس کو تحقیق کے بعد خواجہ ضیاء الدین جہانگیر سید نے بھی اپنے موضوع کا حصہ بنایا ہے۔

اقتدار کے لیے غلام محمد کہاں تک جا سکتے تھے اس کا اندازہ محترم فاطمہ جناح سے منسوب”میرا بھائی” کتاب میں بھی کیا گیا ہے، جب وزیرخزانہ نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے شکایتاً کہا تھا کہ14اگست1948 کو یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم لیاقت علی خان کی جانب سے قوم کو مبارکباد کا پیغام ہوائی جہاز کے ذریعے تقسیم کرایا گیا تھا۔

غالباً وہ اس اطلاع کے ذریعے محترمہ فاطمہ جناح کے توسط سے قائداعظم کو یہ باور کروانا چاہتے ہوں گے کہ وزیراعظم کے بجائے ان کا پیغام اس موقع پر قوم تک پہنچنا چاہیے تھا ۔ حالاںکہ غلام محمد یہ بھول گئے تھے کہ قائداعظم کا نشری پیغام نہ صرف ریڈیو پاکستان پر سب سے پہلے اور بھرپور اہمیت کے ساتھ نشر ہوا تھا بلکہ اگلے روز بابائے قوم کا فرمان ملک کے تمام اخبارات میں پہلی شہ سرخی تھا۔ ہوس اقتدار میں مبتلا اس گروہ کے دیگر اراکین جن میں کرنل الٰہی بخش کے ہم زلف مشتاق احمد گورمانی بھی شامل تھے، اپنے آپ کو لیاقت علی خان کی جگہ وزیراعظم دیکھنا چاہتے تھے۔

قائدملت لیاقت علی خان کی شہادت کے نتیجے میں جو لوگ اقتدار میں آئے ان میں مشتاق احمد گورمانی سرفہرست تھے ۔ اس زمانے میں حکومت پاکستان کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی بھی اس گروپ میں شامل تھے جنہوں نے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد قاعدے کے مطابق ایک خاص مدت گزارے بغیر کابینہ میں وزیرخزانہ کا سیاسی عہدہ قبول کیا تھا۔

قائداعظم کی برسی کے موقع پر تحریر کیے جانے والے اس مضمون میں بعض دیگر شخصیات کی یادیں بھی محفوظ کرنا چاہتا ہوں۔ دارالحکومت کراچی کے اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر سید ہاشم رضا کا بیان ہے کہ قائداعظم کی وفات کی شب انہیں پیغام موصول ہوا کہ وزیراعظم نے انہیں گورنرجنرل ہائوس طلب کیا ہے، چناںچہ وہ گورنرجنرل ہائوس پہنچے جہاں لان میں لیاقت علی خان کرسی پر سر پکڑے ہوئے بیٹھے تھے۔ ہاشم رضا نے کچھ توقف کے بعد انہیں متوجہ کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت دو کام بہت ضروری ہیں پہلا گورنر جنرل کے منصب پر قائد کے جانشین کا انتخاب جو کابینہ کرے گی، دوسرا کام ان کے جسد خاکی کی تدفین کا ہے جس کے تمام انتظامات ایڈمنسٹریٹر کراچی کو کرنا ہیں۔ قائداعظم کا مدفن شہر میں کسی بلند جگہ پر ہونا چاہیے۔ چناںچہ سید ہاشم رضا کاسمو پولیٹن کالونی کے مقابل جہاں اس وقت ایک چھوٹی سی پہاڑی کی شکل میں مختصر آبادی تھی، پہنچے۔ یہاں تبادلہ آبادی کے نتیجے میں آنے والے مہاجرین کی جھونپڑیاں آباد تھیں۔

سید ہاشم رضا نے قائداعظم کی تدفین کے لیے ان سے جگہ خالی کرنے کی استدعا کی جس پر انہوں نے فرط محبت سے چند ہی گھنٹوں میں جگہ کو خالی کردیا اور اپنا سازو سامان بھی وہاں سے ہٹالیا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں آج قائداعظم کا مقبرہ واقع ہے۔ قائداعظم کے اصولوں، ایمان، اتحاد، تنظیم کی ترتیب میں اکثر مغالطہ دیکھنے میں آتا ہے، تحریک پاکستان کے ممتاز راہ نما محمود علی کے بموجب حکومت پاکستان کے مونو گرام کے ڈیزائن میں جو قائد کی زندگی میں استعمال ہوا تھا، میں ان اصولوں کی جو ترتیب درج ہے وہی درست ہے ۔ قائداعظم نظم و ضبط کے بہت زیادہ قائل تھے۔

وہ نہ صرف اس پر خود کاربند رہتے بلکہ عوام کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ ماہرامراض قلب سرجن نصیر شیخ ان لوگوں میں شامل تھے جو اعلان آزادی سے چند روز قبل قائداعظم کی دہلی سے ماریپور ایئرپورٹ آمد پر موجود تھے، ان کا بیان ہے کہ ایک جم غفیر قائد کے استقبال کے لیے امڈ آیا تھا اور ایئرپورٹ سے باہر آتے ہی ان کی طرف والہانہ انداز میں بڑھا تھا۔ قائداعظم اپنی چھڑی کے ساتھ، تیزی سے ان کی جانب ڈسپلن، ڈسپلن، ڈسپلن کہتے ہوئے بڑھے یعنی کہ مجمع نظم و ضبط برقرار رکھے۔

قائداعظم نے جہاں مملکت کے دیگر امور میں راہ نمائی کی ہے وہاں ان کے وہ خطبات بھی اہمیت کے حامل ہیں جو انہوں نے غیرملکی سفراء کو ان سے اسناد وصول کرتے ہوئے کیے تھے۔ میری تجویز پر جامعہ کراچی میں انٹرنیشنل ریلینشنز کی استاد پروفیسر نورین نے ان خطبات کو جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے تاکہ انہیں کتابی صورت میں مرتب کردیا جائے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قائداعظم نے فلسطین پر صہیونیت کے غاصبانہ قبضے اور اسرائیل کے قیام پر گہری ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا اور واضح کردیا تھا کہ پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ پورے برصغیر کی اعلیٰ عدالتوں میں قائداعظم نے جو قانونی بحث کی ہے، اس کا ریکارڈ بھی ان عدالتوں کی آرکائیو میں تلاش و مجتمع کرنے کے بعد کتابی شکل میں لایا جا سکتا ہے۔ یہ کام قائد اعظم اکیڈمی یا قانون سے متعلق کوئی محکمہ یا شعبہ کر سکتا ہے۔

The post بابائے قوم غیروں کی نظر میں appeared first on ایکسپریس اردو.

لبنان میں مہنگائی نے ہنگامہ کھڑا کر دیا

$
0
0

وقت کتنا بدل جاتا ہے!ایک زمانے میں لبنان ’’مشرق وسطی کا سوئٹزر لینڈ‘‘کہلاتا تھاآج مگر وہ غربت و بیروزگاری کی الم ناک تصویر بن چکا۔حالت یہ ہے کہ کوئی پارٹی اس پہ حکمرانی کرنے کو تیار نہیں۔

خدا خدا کر کے حال ہی وہاں نئی حکومت بنی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ مملکت کے امیر ترین فرد کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔شاید اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہو کہ وہ اپنی ذاتی دولت بھی معاشی بحران دور کرنے میں کام میں لائے گا۔ مگر دور کے ڈھول سہانے ہی ہوتے ہیں۔فی الحال نئی انتظامیہ کو روٹی کی قیمت کم کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔

پاکستان و بھارت کی طرح دیگر کئی ممالک میں بھی گندم کی روٹی عوام الناس کا من بھاتا کھاجا ہے۔ان ملکوں کی حکومتیں اس عوامی غذا کی قیمت کم سے کم رکھنے کی سعی کرتی ہیں تاکہ عام آدمی خوش اور مطمئن رہے۔جیسے ہی روٹی کی قیمت بڑھے ،عوام بے چین ہو کر حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے لگتے ہیں۔مثلاً پی ٹی آئی دور حکومت میں روٹی کی قیمت بڑھ چکی،اسی لیے لوگوں میں غصّہ بڑھ گیا اور وہ اس پہ تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔

70 روپے کی روٹی

پاکستان میں تو پھر سادہ روٹی دس روپے میں مل جاتی ہے،مشرق وسطی کے ملک،لبنان میں عوام کا بُرا حال ہے۔وہاں بھی گندم کی روٹی خوب کھائی جاتی ہے۔مگر اب وہاں مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ 115گرام کی سادہ روٹی پاکستانی کرنسی میں تقریباً 70 روپے کی ہو چکی ہے۔ یہ قیمت بھی ان نان بائیوں کے ہاں ہے جنھیں لبنانی حکومت سبسڈی دیتی ہے۔

اگر ان کے پاس روٹیاں ختم ہو جائیں تو عوام کو عام ہوٹلوں سے خریدنا پڑتی ہیں۔وہ پھر ایک روٹی ’’80 روپے‘‘میں فروخت کرتے ہیں۔یہ دیکھیے کہ لبنان میں مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اب وہاں ایک غریب کو ایک وقت کی صرف تین سادہ روٹیاں خریدنے کے لیے دو سو روپے سے زیادہ خرچ کرنا پڑتے ہیں۔

بڑھتی مہنگائی،بیروزگاری اور غربت کے باعث مشرق وسطی کے اس تاریخی دیس میں حکمران طبقے کے خلاف عوام کا احتجاج معمول بن چکا۔احتجاج کے دوران شہری ٹائر جلا اور راستے بند کر کے اپنے غم وغصّے کا اظہار کرتے ہیں۔

اور سچ بھی یہی ہے کہ اپنی بدانتطامی اور کرپشن کی وجہ سے لبنان کے حکمران طبقے نے قومی معیشت کو کھوکھلا کر دیا ہے۔آج پاکستان ہی نہیں تمام ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کے لیے لبنان اس امر کی مثال بن چکا کہ ایک ملک زوال پذیر کیسے ہوتا ہے۔آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو ایک ہنستے بستے ملک کو ہنگاموں اور فساد کا مرکز بنا دیتے ہیں۔

امارت سے خانہ جنگی تک

پچاس سال قبل لبنان اچھا خاصا امیر ملک تھا۔اس دیس میں چپے چپے پہ قیمتی آثارقدیمہ پھیلے ہوئے ہیں۔یہاں کئی قدیم تہذیبوں نے جنم لیا۔فطری مناظر سے بھی بھرپور ہے۔عرب مسلمانوں نے اسے فتح کیا تو لبنان میں بھی اسلام کا نور پھیل گیا۔

آنے والی صدیوں میں صلیبی جنگوں کا نشانہ بنا۔ان کی وجہ سے مقامی مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین تناؤ نے جنم لیا۔بیسویں صدی میں مغربی استعمار نے جنگ عظیم اول میں مشرق وسطی پہ قبضہ کیا تو لبنان کو شام سے کاٹ کر الگ مملکت بنا دیا۔مقصد یہ تھا کہ لبنانی عیسائی بھی حکومت کا حصہ بن جائیں حالانکہ مقامی آبادی میں مسلمان زیادہ تھے۔اسی ناانصافی نے دونوں بڑی اقوام کے مابین فساد کا بیج بو دیا۔

مذہبی و نسلی اختلافات کے باوجود ملکی نظام1970ء تک بخوبی چلتا رہا۔ملک میں کثیر تعداد میں سیاح آتے جو آمدن کا بڑا ذریعہ تھے۔بیشتر لبنانی شہری خوشحال اور ترقی یافتہ تھے۔۔1970ء کے بعد اسرائیل،شام اور تنظیم آزادی فلسطین کے مابین تصادم سے لبنان میں جنگ شروع ہو گئی۔وہ 1990ء تک جاری رہی۔جنگوں نے معیشت و معاشرت کو سخت نقصان پہنچایا اور سارا ملکی انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا۔

خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے حکومت کے عہدے مسلم،عیسائی اور دیگر مذہبی ونسلی گروہوں میں تقسیم کر دئیے گئے۔ان گروہوں کے لیڈروں کی ذمے داری تھی کہ وہ مل جل کر لبنان کی تعمیر نو انجام دیتے اور ترقی و خوشحالی کا دور چلا دیتے۔

انھوں نے حکومت کرتے ہوئے یک جہتی اور اتحاد تو دکھایا …مگر صرف اپنے گروہی مفادات پورے کرنے کی خاطر!ملک و قوم کو ترقی دینے کے بجائے ہر مذہبی ونسلی گروہ اپنے مفادات کو ترجٰیح دینے لگا۔سیاست عوام کی خدمت کا نام ہے۔مگر بہت کم حکمران یہ ذمے داری پوری کر پاتے ہیں۔بیشتر حکمران طاقت پاتے ہی عوام کی ضروریات سے بے خبر ہو کر اپنی تصّوارتی دنیا میں رہنے لگتے ہیں۔بعض پہ لالچ و ہوس سوار ہو جاتی ہے اور انھیں پھر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

قرضوں کا انبار

لبنان کا حکمران طبقہ بھی رفتہ رفتہ کرپشن اور بدانتظامی میں ملوث ہو گیا۔ہر گروہ نے اپنے بھائی بندوں کو سرکاری ملازمتیں دیں،چاہے وہ اہل تھے یا نہیں۔یوں اقربا پروری کو فروغ ملا۔کسی وزیر مشیر کا دھیان عوام کے مسائل حل کرنے کی طرف نہیں تھا۔انھیں بس یہ پروا تھی کہ ان کو عیش وعشرت کی زندگی میسّر رہے۔حکمران طبقے کی کرپشن،فضول خرچی اور سرکاری خزانے کو باپ کا مال سمجھنے کی روش کے باعث حکومت کا خرچ بڑھتا چلا گیا۔آخر حکومت قرضے لے کر اپنے اخراجات پورے کرنے لگی۔

قرضوں کی بھرمار نے لبنان کو مقروض ملک بنا دیا۔اس پہ قرض چڑھتا چلا گیا۔مارچ 2021ء تک عدد ’’97.3‘‘ارب ڈالر پہنچ چکا ۔یہ لبنان کی خام قومی آمدن (جی ڈی پی)کا ’’ایک سو ساٹھ ‘‘سے زائد فیصد بنتا ہے۔(واضح رہے،ماہرین معاشیات کے مطابق اس مملکت میں معاشی استحکام رہتا ہے جس کا قرضہ جی ڈی پی کا ساٹھ فیصد یا اس سے کم رہے) لبنانی حکمران طبقہ مستقبل سے بے پروا ہو کے سرکاری خزانہ اپنے اللّے تللّوں میں اڑانے میں مصروف رہا۔آخرکار اکتوبر 2019ء میں عوام کے سینوں میں کئی برس سے دبا غم وغصّہ پھوٹ پڑا اور وہ حکمرانوں کے خلاف پُرتشدد مظاہرے کرنے لگے۔تب سے لبنانی عوام وقتاً فوقتاً احتجاج کرتے رہتے ہیں۔

احتجاجی مظاہروں کا آغاز اس وقت ہوا جب حکومت نے ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی۔اس کا قصّہ یہ ہے کہ سرکاری خزانے میں کم ڈالر رہ گئے۔ وجہ یہ کہ گندم ہو یا پٹرول اور دیگر بہت سی اشیا، لبنان ہر شے باہر سے منگواتا ہے۔اسے ہر ماہ ایک ارب ڈالر درکار ہوتے ہیں تاکہ مطلوبہ سامان خریدا جا سکے۔پہلے تو بینک اور غیرملکی سرمایہ کار ادارے لبنانی حکومت کو قرضے دیتے رہے۔مگر جب وہ سود کی ادائیگی نہ کر سکی تو انھوں نے نئے قرضے دینے بند کر دئیے۔یوں لبنانی حکومت کے پاس زیادہ ڈالر نہیں رہے۔

حکمران طبقے نے مقامی کرنسی مارکیٹ میں ڈالر پھینک پھینک کر لبنانی پاؤنڈ کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں مصنوعی طور پہ بلند کر رکھی تھی۔اسی قسم کا عمل مسلم لیگ ن حکومت نے بھی2013ء تا 2018ء کے دوران انجام دیا تھا۔اس طریقے سے ملکی کرنسی کی قدر ایک جگہ قائم رہتی ہے ۔مگر کرنسی مارکیٹ میں لاتعداد ڈالر پھینکنے پڑتے ہیں تاکہ امریکی کرنسی مطلوبہ مقدار میں دستیاب رہے۔لبنانی حکمرانوں کو جب نئے قرضے نہیں ملنے سے ڈالر بھی نہ ملے تو اس نے کرنسی مارکیٹ میں ڈالر پھینکنا بند کر دئیے۔

اس باعث لبنان میں ڈالر کی شدید قلت نے جنم لیا۔قلت کے باعث خودبخود ڈالر کی قیمت بڑھنے لگی۔چونکہ لبنان میں بیرون ممالک سے کئی اشیا آتی ہیں لہذا ڈالر کی قدر میں اضافے سے وہ زیادہ مہنگی ملنے لگیں۔گویا انھیں خریدنے کے لیے عوام کو مذید لبنانی پاؤنڈ خرچ کرنے پڑے۔یہ عمل ایک ملک میں مہنگائی پیدا کرتا ہے کیونکہ مقامی کرنسی کی قدر گرنے سے کئی چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں۔

2018ء میں پی ٹی آئی حکومت آئی تو اس نے بھی پاکستانی کرنسی مارکیٹ میں ڈالر پھینکنا بند کر دئیے۔یوں ڈالر کی قلت نے قدرتاً اس کی قدر بڑھا دی۔یہ عمل حکومت نے خود انجام دیا تاکہ روپے اور ڈالر کے مابین حقیقی قدر جنم لے سکے۔سابقہ حکومت نے مصنوعی طور پہ اسے منجمند کر رکھا تھا۔ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے دونوں کرنسیوں کے مابین توازن قائم کرنے کی کوششیں نہیں کیں۔اس لیے ڈالر کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی۔اس میں اضافہ اب بھی جاری ہے۔یہی وجہ ہے،پاکستان میں جو شے باہر سے آتی ہے،وہ مسلسل مہنگی ہو رہی ہے،چاہے وہ سوئی ہو یا کار اور ہوائی جہاز۔

نئے ٹیکس

لبنان کی حکومت کو نئے قرضے نہ ملے تو سرکاری خزانے میں رقم نہیں رہی۔اب حکمران طبقے کے اللّے تللّے کیسے پورے ہوتے؟اخراجات پورے کرنے کی خاطر اس نے مختلف ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی۔یوں انھوں نے پھر عوام کو قربانی کا بکرا بنا ڈالا۔عوام مگر سیاست دانوں،بیوروکریسی اور جرنیلوں کی عیاری،لالچ اور کرپشن جان چکے تھے۔

وہ دیکھ رہے تھے کہ حکمران طبقہ تو ان کے دئیے گئے ٹیکسوں کی رقم سے شاہانہ زندگی گذارتا ہے جبکہ وہ محنت مشقت کرنے پہ جُتے اور مسلسل ٹیکس دئیے جا رہے ہیں۔۔اسی لیے انھوں نے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ نامنظور کیا اور حکومت مخالف زبردست احتجاج کرنے لگے۔مظاہرے اسی وقت ختم ہوئے جب حکومت کا بوریا بستر گول ہو گیا۔

لبنان میں پچھلے دو سال کے دوران کئی عارضی وزیراعظم اور وزیر خزانہ آ چکے مگر وہ مہنگائی کی اڑان نہیں روک سکے۔ظاہر ہے،مہنگائی اس وقت ختم ہو گی جب لبنانی کرنسی طاقتور ہو جائے اور اس بات کا امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔بھاری قرضوں کی موجودگی میں ایسا ہونا بہت مشکل ہے۔اسی لیے ڈالر کی قدر مسلسل بڑھ رہی ہے۔اکتوبر 2019ء میں ایک امریکی ڈالر پندرہ سو لبنانی پاؤنڈ میں ملتا تھا۔آج بلیک مارکیٹ میں ’’ 23ہزار ‘‘لبنانی پاؤنڈ کے بدلے ایک ڈالر مل رہا ہے۔اس حقیقت سے اندازہ لگائیے کہ پچھلے دو سال میں لبنانی کرنسی عبرت ناک زوال سے شکار ہو چکی۔یہ پستی حکمران طبقے کی نااہلی اور کرپشن کا نتیجہ ہے۔

یہ درست ہے کہ لبنان کو پچھلے پچاس برس کے دوران کئی جنگیں دیکھنا پڑیں۔پھر شام میں خانہ جنگی ہونے سے دس لاکھ مہاجرین لبنان چلے آئے۔اس سے معیشت پہ دباؤ پڑ گیا۔مگر یہ حقیقت ہے کہ لبنان میں مہنگائی جنم لینے کا ذمے دار حکمران طبقہ ہے جو اپنی ذمے داری درست طریقے سے انجام نہیں دے سکا۔

اس کی بے حسی ملاحظہ فرمائیے کہ اب بھی متفرق سیاسی گروہ ایک دوسرے سے اقتدار کی خاطر نبرد آزما ہیں۔اُدھر بیچارے لبنانی عوام اس امر پہ فکر مند ہیں کہ روٹی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔یہی نہیں اس کا وزن بھی کمی کی طرف مائل ہے۔دراصل جب نانبائی قیمت بڑھا نہ سکیں تو وہ روٹی کا وزن گھٹا دیتے ہیں۔لبنان میں متوسط اور نچلا طبقہ بازار میں دستاب روٹی سے ہی پیٹ بھرتا ہے۔کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے دونوں طبقوں کے ہزارہا مردوزن بیروزگار ہو چکے۔رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کر دی۔ان کے پاس جو بچت تھی ،اس کا بیشتر حصہ کھانے پینے کے اخراجات پر لگ جاتا ہے۔

بقیہ اخراجات کے لیے کم رقم بچتی ہے۔صورت حال سے لبنانی عوام کافی پریشان اور اپنے حکمرانوں سے ناراض ہیں۔اسی لیے آئے دن سڑکوں پہ آ کر احتجاج کرتے ہیں۔لبنان میں سبھی بجلی گھر ڈیزل،تیل یا گیس سے چلتے ہیں۔ملک ہر سال تیس کروڑڈالر کا ایندھن درامد کرتا ہے۔حکومت کنگال ہو چکی،اس باعث بجلی گھروں میں ایندھن نہ ہونے سے لبنان میں بیس بیس گھنٹے بجلی غائب رہنا معمول بن چکا۔خوفناک لوڈ شیڈنگ شہریوں کے لیے ایک اور عذاب بن چکی۔

لبنان کے حالات سے پاکستانی حکمران طبقے اور عوام کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ہمارے قرضے بھی تقریباً چالیس ہزار کھرب روپے تک پہنچ چکے۔یہ جی ڈی پی کا سو فیصد حصہ بنتا ہے۔اگر حکمران سرکاری خزانہ بے دریغ استعمال کرتے رہے تو خدانخواستہ وطن عزیز میں بھی لبنان جیسی صورت حال جنم لے سکتی ہے۔مہنگائی سے عوام پہلے ہی بے حال ہیں۔ان کی تکالیف کا مداوا نہ ہوا تو حکمران طبقے کو کسی بھی قسم کے احتجاج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

The post لبنان میں مہنگائی نے ہنگامہ کھڑا کر دیا appeared first on ایکسپریس اردو.

اقبال ‘ مشاہیر عالم اور علاقائی وابستگی

$
0
0

تقریباً پانچ سال قبل کی بات ہے جب ریڈیو پاکستان لاہور سے علامہ اقبال کے فلسفہ اور شاعری پر مبنی پروگرام ’’آہنگ اقبال‘‘ کا آغاز بطور میزبان کیا تو اقبال کے سرسری تعارف سے بڑھ کر تنقیدی اور غیر جانبدارانہ مطالعہ کا موقع ملا۔

پاکستان کے قومی شاعر اور تصور پاکستان کے خالق کی حیثیت سے تو علامہ اقبال کی اہمیت اور تکریم مسلمہ ہے اور یہ حیثیت ایک طرح سے ہمیں قومی مشاہیر کو زیادہ گہرائی سے جاننے کے حوالے سے سُست اور بے خبر بھی بناتی ہے، لیکن ایک پیشہ وارانہ ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کے تقاضے بہت مختلف ہوتے ہیں۔

اس مقصد کے لئے لاتعداد موضوعات، اقبال شناسی پر مشتمل کُتب اور تاریخی حوالے، حقائق اور دلائل زیر بحث آئے جس کے باعث نہ صرف یہ کہ اقبال ؒ کی شخصیت کے کئی نئے گوشے وا ہوئے بلکہ اقبال ؒ کے حوالے سے روایتی مفروضوں سے ہٹ کر کچھ نئی جہتیں آشکار ہوئیں۔

یہ پروگرام ریڈیو پاکستان کی تاریخ کا پہلا پروگرام ثابت ہوا جس نے 350 اقساط مکمل کیں اور سات سو گھنٹے پر محیط نشریات اقبالیات کے حوالے سے سامعین تک پہنچائیں۔ ملک کے بہترین سکالرز اور فلسفہ اقبال سے جڑے اصحاب علم پروگرام کا حصہ بنتے رہے۔ ان اسکالرز میں ڈاکٹر شفیق عجمی، ڈاکٹر کامران، ڈاکٹر رفعت حسن، علی اصغر عباس اور دیگر اساتذہ شامل ہیں۔

وطن عزیز میں اقبال شناسی کی روایت برصغیر کی تقسیم سے پہلے کے زمانے سے موجود ہے اور فلسفہ اقبال پر ان گنت کتب اور لٹریچر بھی موجود ہے جن کا ذکر ایک الگ تحریر کا متقاضی ہے، تاہم اس تحریر کا بنیادی نکتہ مختلف مشاہیر عالم کے بارے میں اقبال کی رائے اور با لخصوص پاکستان کی مختلف جغرافیائی اکائیوں یعنی صوبائی سطح پر اقبال کے حوالے سے پائی جانے والی آراء ہیں۔

ایک رائے دائیں بازو سے منسلک لوگوں کی ہے جو اقبال کو محبت و عقیدت کی بنیاد پر مذہبی حوالے سے اعلیٰ مسند پر بٹھاتے ہیں جبکہ دوسری طرف بائیں بازو سے منسلک لوگ جو اقبال پر تنقید کرتے ہوئے اپنی رائے میں اقبال کو ایک ایسا ریاستی شاعر قرار دیتے ہیں جس کے فلسفے سے ریاست اور انتہا پسندوں کو اپنے مقاصد کے لئے ایندھن ملا اور دیگر محروم طبقات کو نقصان ہوا۔ تاہم ایک اور بڑا اہم نکتہ ملکی نسلی‘ گروہی اور لسانی تناظر میں ہے جو کہ پاکستانی سیاست میں قومی بالادستی کی لڑائی اور چھوٹی قوموں اور پنجاب کے مابین سیاسی اور نسلی تعصب میں اقبال کے حوالے سے ہے۔

اسی بنیاد پر کئی سوالات اٹھائے گئے یا اٹھائے جاتے ہیں، چوں کہ میرا تعلق ایک چھوٹے صوبے بلوچستان سے ہے تو کم از کم یہاں کے حوالے سے آنکھوں دیکھا حال بیان کرسکتا ہوں کہ عملی طور پر یہاں ایک مخصوص فکری طبقے کی اقبال سے وابستگی عوامی سطح پر ویسی نہیں جیسے ملک کے دیگر حصوں میں ہے، اور اسی فکر کے حامل لوگ ملک کے جس حصے میں بھی ہیں اقبال پر بے جا تنقید میں لگے رہتے ہیں۔

گو کہ اقبال شناسی کی عالمی، ایشیائی روایت بھی موجود ہے، این میری شمل، ڈاکٹر علی شریعتی اور کئی ترک اقبال شناس اقبال کو عالمی مفکر قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ خطبہ آلہ آباد اور تقسیم ہند کے باوجود ہندوستان میں اقبال شناسی کی مضبوط روایت موجود ہے لیکن پاکستان میں پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں بوجوہ دیگر ایسا پراپیگنڈہ زیادہ شدت سے موجود ہے کہ اقبال ؒ عملی طور پر پنجاب کے شاعر ہیں، حالانکہ یہ تاثر سرے سے ہی غلط اور بے بنیاد ہے کیونکہ کسی علمی شخصیت کی عظمت کی پہلی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہو۔

اقبال کی پنجاب کے مقابلے میں دیگر صوبوں میں نسبتاً کم موجودگی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ممکن ہے یہ بھی وجہ ہو کہ کلام اقبال کے پشتو، سندھی اور بلوچی میں تراجم کی کمی ہے۔ ایک وجہ حکومتی عدم دلچسپی بھی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کلام اقبال کے علاقائی زبانوں میں تراجم ہوئے ہی نہیں۔ بلوچستان سے لے کر خیبرپختونخوا تک مقامی زبانوں میں کلام اقبال ؒ کے تراجم کئے گئے ہیں لیکن بڑے پیمانے پر سندھی، بلوچی اور پشتون دانشور اور عام آدمی سیاسی اور نسلی وجوہات کی بنیاد پر اقبال سے نا دانستہ صرف نظر کرتے ہیں۔

اس لاتعلقی میں بنیادی عنصر شاید مکمل آگہی کا فقدان ہو اور یہ فقدان اقبال کے حوالے سے پایا جانے والا عام تاثر ہے۔ اس تاریخی حقیقت سے اختلاف ممکن نہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اداروں میں پنجاب کی بالادستی کو سیاسی مقاصد کے لئے منفی پراپیگنڈہ کا موضوع بنایا گیا اور یہ تاثر بنانے کی کوشش کی گئی کہ پنجاب دیگر قوموں کے حقوق غصب کرتا ہے، شاید یہی تاثر چھوٹے صوبوں میں فلسفہ اقبال یا کلام اقبال کے نہ پنپنے کا محرک ہو۔

دو سوال یا نکات عمومی طور پر ان صوبوں میں اقبال سے متعلق پائے جاتے ہیں:

1۔ اقبال پنجاب کے (پنجاب سے تعلق رکھنے والے) شاعر ہیں اور شاید وہ اسی پنجابی فلسفہ کے حامی ہیں جو قیام پاکستان سے اب تک ریاستی سطح پر اپنایا گیا۔

2۔ اقبال ریاستی شاعر ہیں اور انکا فلسفہ ہر اس ریاستی ایجنڈے کی تکمیل میں مدد کرتا ہے جو دوسری قوموں کے لئے ناقابل قبول ہے۔ لمبی تہمید سے ہٹ کر ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اقبال کے ہاں پنجاب اور پنجابیت اسی طرح پائی جاتی ہے جس طرح سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں عوامی سطح پر سوچا جاتا ہے۔؟

اقبال ؒ نسلی اعتبار سے کشمیری برہمن تھے۔ ان کے آباء و اجداد مسلمان ہونے کے بعد پنجاب سیالکوٹ میں صدیوں قبل منتقل ہوئے یہیں بُود و باش اختیار کی اور مختلف مراحل طے کئے، اقبال بسلسلہ تعلیم پہلے لاہور پھر لندن اور جرمنی اور پھر دوبارہ لاہور میں مستقل سکونت پذیر ہوئے۔ پنجابی زبان اور دھرتی کو اپنا کے اقبال لاہوری کہلائے۔ ان کا رہن سہن، زبان، لباس پنجابی رہا۔ یہاں تک کہ اقبال کے کشمیری پس منظر پر آہستہ آہستہ پنجاب کی پہچان غالب آ گئی۔ اس عظیم فلسفی کے آباء و اجداد کا مسکن پنجاب ہی ٹھہرا اور آج اگر مقبول تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال کو سرزمین پنجاب (سیالکوٹ) کا فرزند اور فخر ہی سمجھا جاتا ہے۔

پروگرام ’آہنگ اقبال‘ کے دوران تحقیق اور علمی جستجو میں بہت سے سوالات سامنے آتے رہے۔ کچھ کے تسلی بخش جواب ملے، کچھ میں تشنگی باقی رہی۔ کچھ سوالات سرکاری نشریات کی مجبوری کی وجہ سے اٹھائے نہ جا سکے۔ ان میں ایک سوال یہ تھا کہ علامہ اقبال جس دھرتی میں پیدا ہوئے وہاں بلھے شاہؒ، وارث شاہ، میاں محمد بخش ؒ، سلطان باہوؒ جیسی عظیم ہستیاں پیدا ہوئی ہیں۔

جنہوں نے پنجابی شاعری میں اعلی مقامات دریافت کئے۔ پنجابی شاعری کا بڑا اثاثہ صوفی کلام ہے تاہم روایتی شاعری کی بھی بات کی جائے تو اقبال نے اپنی مادری زبان پنجابی میں شاعری کیوں نہیں کی؟ اس کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں۔ اسباب کی کھوج پر مزید تحقیق حیران کُن نتائج سامنے لاتی ہے۔ عام بول چال میں دن رات پنجابی میں گُفت و شُنید کرنے والے اقبال ؒ نے ایک نظم یا غزل تو کیا ایک شعر بھی پنجابی زبان میں نہیں کہا اور نہ ہی کوئی نثر پنجابی میں لکھی ہے۔

ناقدین اقبال ؒ اور اقبال ؒ کے چاہنے والے اس نکتے پر کہیں کہیں متفق نظر آتے ہیں کہ چوں کہ اقبال ؒ آگاہ تھے کہ پنجابی شاعری پہلے ہی اتنے عظیم اور بڑے ناموں سے مزین ہے اس لیے آج کا کوئی بھی شاعر اس مقام کو چھو نہیں سکتا جو صوفی شعرا بنا گئے ہیں۔

ممکن ہے اقبال نے اس سوچ کے تناظر میں پنجابی شاعری نہ کی ہو لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اقبال کے بعد بیسویں صدی کے ایک اور بڑے نظریاتی شاعر فیض احمد فیض جو پنجابی ہی تھے اور اقبال کے شہر سیالکوٹ ہی میں پیدا ہوئے نیز اقبال کی طرح انہوں نے بھی اظہار کا ذریعہ اردو اور فارسی کو بنایا، فیض بھی برصغیر کے بڑے شعراء میں شمار ہوئے، انہوں نے بھی کم از کم اپنی مادری زبان میں کچھ نظمیں لکھیں ایک نظم ’’ربا سچیا‘‘ تو معرکتہ الارا پنجابی نظم ہے۔

دیکھا جائے تو فیض بھی اقبال ؒ کی طرح غیر روایتی شاعری کے سرخیل رہے۔ گو کہ دونوں کا آہنگ اور نظریاتی ارتقا مختلف رہا اگر اقبال ؒ نے اپنے عہد کے مظلوم مسلمانوں کے لئے آواز بلند کی تو فیض نے اپنے دور کے پسے ہوئے طبقات کی تصویر کشی کی۔ سو فیض کے ہاں بھی باقاعدہ نہیں تو ایک آدھ پنجابی نظم کا سراغ ملتا ہے۔ تاہم اس دلیل کو مان بھی لیا جائے کہ اقبال کا پنجابی شاعری نہ کرنا بڑے پنجابی شعرا کی موجودگی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پروگرام کے موضوعاتی تنوع کے تناظر میں مزید علمی پیش قدمی نے اس دلیل کو بالخصوص اقبال کے تناظر میں مزید سوچنے پر مجبور کیا۔

’’اقبال کے ہیروز‘‘ یا اقبال کا مرد مومن یا مرد حق و حر کا فلسفہ : عمومی طور پر کوئی بھی عالمی مفکر اور نظریہ دان جب اپنے آئیڈیل یا ہیروز ڈھونڈتا ہے تو وہ اپنی اولین سرزمین پر بھی معیار کا وہ پیمانہ ضرور لاگو کرتا ہے جو کہ دیگر اقوام کے ہیروز میں پائے جانے والی خوبیوں کے لئے کرتا ہے۔

جیسے جیسے اس تحقیق میں کلام اقبال اور فلسفہ اقبال سے رہنمائی سامنے آتی گئی اس تاثر کو مزید تقویت ملی کہ اقبال کا پنجابی میں شاعری نہ کرنا محض کوئی شاعرانہ عذر نہیں۔ بنیادی طور پر اقبال کا ہیرو ایک اجتماعی خوبی رکھتا ہے اور وہ ہے خودی، اقبال کا پرکھنے کا پیمانہ خودی ہے، جس کی بنیاد پر وہ مختلف مذاہب، اقوام اور جغرافیہ کے عظیم سپہ سالاروں کو اپنا ہیرو یا اعلیٰ انسان قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے اقبال کی شاعری اور فلسفے کے پیمانے پر مختلف زبانوں اور کلچرز سے تعلق رکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جبکہ تقابلی جائزہ لیا جائے تو اقبال ؒ کی فہرست میں ان کی اپنی سرزمین پنجاب سے کتنے دانشور، سپہ سالار، باغی، سیاستدان اور مفکر جگہ بنا سکے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔

اقبال کا پنجابی میں شاعری نہ کرنا ایک ذاتی فیصلہ ہوسکتا ہے تاہم اپنی فہرست میں اپنے ہیروز کے طور پر سرزمین پنجاب کی شخصیات کو نہ شامل کرنا اس بحث کو مزید گہرائی کی طرف لے جاتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں ان کا ہیرو افغان محمود غزنوی اور افغان شہاب الدین غوری تو ہے، ان کا ذکر بھی کلام اقبال میں ملتا ہے لیکن پنجابی سرزمین کے ہیروز دُلا بھٹی، رائے احمد خان کھرل اور بھگت سنگھ کا ذکر نہیں ملتا۔ ہمیں شیکسپیئر کا ذکر ملتا ہے ،اس عظیم شاعر کی مدح میں نظم کے آخری مصرعے کچھ یوں ہیں!

تجھ کو جب دیدۂ دیدار طلب نے ڈھونڈ
تابِ خورشید میں ‘ خورشید کو پنہا دیکھا
چشم عالم سے تو ہستی رہی مستور تری
اور عالم کو تیری آنکھ نے عریاں دیکھا
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
راز داں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا

اور پھر کارل مارکس کے بارے میں ایک جگہ اقبال فرماتے ہیں!

وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب
نسیت پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب

روس کے اشترا کی انقلاب کے بانی لینن کی اقبال بارگاہ خداوندی میں وکالت کرتے ہیں۔ ان کی ایک نظم ’ لینن خدا کے حضور میں‘ ان کی کتاب ’بال جبریل‘ میں موجود ہے۔اس نظم کے کچھ اشعار یہا ں دئیے جا رہے ہیں۔

اے انفس و آفاق میں پیدا تری آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
ظاہر میں تجارت ہے ‘ حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
یہ علم‘ یہ حکمت‘ یہ تدبیر ‘ یہ حکومت
پیتے ہیں لہو‘ دیتے ہیں تعلیم مساوات
بے کاری و عریانی و مے خواری افلاس
کیا کم ہے فرنگی مدنیت کے فتوحات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کی سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات

پختون سرزمین کے خوشحال خان خٹک کو اقبال اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ مغل، ترک، عرب بھی کلام اقبال میں جابجا ملتے ہیں، جرمن فلاسفر نطشے، اسپین کی تاریخ اور پھرتیرتھ رام بھرتری ہری کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اہل فارس کے حافظ اور فردوسی کو بھی نمایاں جگہ ملتی ہے، بلکہ اقبال نے تو اپنا بیشتر کلام ہی فارسی میں لکھا اور اتنا عمدہ کہا کہ آج بھی ایران میں فارسی گرائمر کے طور پر ’’سبق اقبال‘‘ پڑھایا جاتا ہے، لیکن جس خطے (پنجاب) میں وہ موجود ہیں اس کی تاریخ کا ذکر تو دور کی بات اس جغرافیے کا سرسری حوالہ بھی بہت کم ملتا ہے۔

ایسا تو ہرگز نہیں ہے کہ اقبال جیسا عمدہ مطالعہ کا حامل مفکر جو کہ اس دور میں انگلستان میں بھی چھپنے والی کوئی کتاب پہلے ہی ہفتے لاہور منگوا کر نذر مطالعہ کردیتا تھا وہ سرزمین پنجاب سے تعلق رکھنے والی علمی، جری اور مزاحمتی شخصیات سے لاعلم ہو‘ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ اقبال اپنے ہم زبانوں کو اس معیار پر پورا اترتا نہیں دیکھتے۔؟ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ علامہ نے عموماً انہیں شخصیات کو اہمیت دی ہے جنہوں نے اپنی جد و جہد کا بنیادی عنوان محض نسل یا ایک محدود علاقائی پہچان کے بجائے انسانیت یا پوری ملت اسلامیہ کو بنایا۔

اقبال کے کلام میں واحد نظم جو انہوں نے پنجابی مسلمانوں کے نام لکھی جس میں اقبال پنجابی مسلمان سے مخاطب ہوئے اگر اس نظم کی بھی تشریح کی جائے تو یہ نکتہ واضح ہے کہ اقبال کا اس نظم (پنجابی مسلمان) میں اہلیان پنجاب سے مخاطب ہونا بلوچ، افغان، ترک اور عرب مسلمانوں سے کافی مختلف ہے اور اس کا تناظر بھی مختلف ہے۔

بالخصوص کلام اقبال میں ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت‘‘ کا تقابلی جائزہ پنجابی مسلمان کے نام نظم سے کیا جائے تو اقبال بلوچ قوم کو جس طرح دیکھتے ہیں بادی النظر میں وہ پنجابی مسلمان کو اُس حوالے سے نہیں دیکھتے، بظاہر اقبال دیگر اقوام کے مقابلے میں پنجابی قوم کے اجتماعی شعور اور بصیرت کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں اور عقیدت کے ضعیف معیارات اور علمی و منطقی معاملات کے عدم توازن کا حوالہ دیتے ہیں۔

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبعیت
کر لے کہیں منزل تو گذرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مُریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اُترتا ہے بہت جلد
(پنجابی مسلمان، ضربِ کلیم)

یوں تو اقبال کے کلام میں مغلوں کا تذکرہ بھی بڑا محدود سا ملتا ہے۔ اورنگزیب کے حوالے سے اقبال کی ہمدردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حکیم الامت اقبال ؒ دلی سے بخارا اور کابل سے سمر قند، پھر ہسپانیہ تک نظر رکھتے ہوں مگر اپنی جنم بھومی سے منسلک حوالے کے مفصل یا سرسری ذکر سے وہ گاہے بگاہے دامن بچاتے نظر آتے ہیں۔

اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ اقبال تو پنجاب میں نظر آتے ہیں، لیکن پنجاب اقبال میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اسی مایوسی کا اظہار اقبال نے اپنی اس نظم میں بھی کیا۔ ایسا نہیں ہے کہ اقبال کی شاعری میں کسی پنجابی کردار کا قطعی ذکر نہیں ملتا۔ بابا گرو نانک کو اقبال نے ضرور ایک نظم کی صورت میں اپنے کلام میں جگہ دی مگر اس نظم میں بابا گرو نانک کی نسلی توصیف کے بجائے روحانی اور شخصی صفات کا احاطہ کیا گیا جیسا کہ اس نظم میں اقبال کہتے ہیں۔

(نانک)
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
آہ! بدقسمت رہے آواز حق سے بے خبر
غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
آشکار اُس نے کیا جو زندگی کا راز تھا
ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا
شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی
بارش رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی
آہ! شُودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں
بُت کدہ پھر بعد مُدت کے مگر روش ہوا
نور ابراہیمؑ سے آذر کا گھر روشن ہوا
پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے

اس کلام میں بھی بابا نانک کا ذکر جغرافیائی سے زیادہ آفاقی فکر کے معنوں میں ملتا ہے۔ اقبال پشتون شاعر اور رہنما خوشحال خان خٹک سے بہت متاثر رہے اور اقبال نے برملا اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ خوشحال نے پشتون قوم کا عَلم مغلوں کے خلاف بطور مزاحمت بلند رکھا۔ خوشحال اقبال کے فلسفہ خودی پر پورے اُترتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ خوشحال کے پشتو اشعار کو اقبال نے اخذ کرکے اپنی شاعری میں جگہ دی

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پے جو ڈالتے ہیں کمند

اقبال نے اپنے آباء و اجداد کے سابقہ خطے کا حق بھی ادا کیا، اشارہ کشمیر کی طرف ہے۔ اقبال نے ’مُلا زادہ ضیغم لولابی‘ کے عنوان سمیت کئی نظمیں اہل کشمیر کی نذر کردیں جن میں کشمیر اور کشمیری قوم کے جذبہ حریت کو اُجاگر کیا گیا مگر اپنی موجودہ جنم بھومی، زبان اور خطہ پنجاب کے نام ایک تنقیدی نظم ہی ملتی ہے۔ ان سوالات سے کئی صاحبان علم اختلاف کا حق استعمال کریں مگر اختلاف ہی نئی راہیں متعین کرتا ہے، سو یہ اس نکتے کے طور پر محض مثبت بحث کا آغاز ہے اور کچھ مقصود نہیں ہے۔ دیگر صوبوں میں جو حوالہ اقبال کا نسلی طور پر بطور پنجابی پایا جاتا ہے وہ کلام اقبال سے یکسر مختلف ہے۔

اقبال سے نظریاتی اختلاف ممکن ہے اور یہ ناقدانہ روایات موجود بھی ہے، تاہم بطور پنجابی، اقبال کی اپنی زمین اور زبان سے وابستگی کا وہ عمومی تاثر یقینی طور پر مختلف ہے جو سالہا سال سے سندھ، خبیرپختونخوا اور بلوچستان میں اقبال بطور پنجابی یا پنجابی ریاستی شخصیت پھیلا ہوا ہے۔

یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اقبال نے کسی قوم، نسل یا زبان سے تعصب یا اجتناب روا رکھا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اسلامی فکر کو دنیا کے تمام مسائل کا حل قرار دینے کے باوجود اُن عالمی شخصیات کے اوصاف کو غیر جانبداری کے ساتھ بیان کیا ہے جن کے فکر و فلسفہ اور عملی کار ہائے نمایاں نے دنیا کو متاثر کیا۔ لیکن اقبال کے ہاں پنجابیت ہمیں اُس طرح نظر نہیں آتی جس کی توقع کی جا سکتی تھی۔

ایک علمی اور فکری دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اقبال کے ہاں سیاسی بیداری، علمی بلندی اور حمیت کا معیار یا میرٹ ہی وہ آئیڈیل ہے جو خودی سے آشنا ہو۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا اقبال کو اہل پنجاب اس معیار پر پورے اترتے نظر نہیں آئے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اقبال کے آئیڈیلز کی فہرست میں بابا گرونانک کے علاوہ کسی اور پنجابی کو ہیرو کا درجہ نہیں ملتا تو یہ تو کوئی تعصب یا الزام نہیں بلکہ ایک تاریخی نکتہ ہے۔

بلاشبہ تحریک پاکستان اور تکمیل پاکستان میں پنجاب کی قربانیوں اور جدوجہد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس وقت کے پنجابی مفکروں کے قد پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔ قرار داد پاکستان منظور ہونے کے بعد قائد اعظمؒ نے اپنی تقریر کا آغاز ہی علامہ اقبال کے ذکر سے کیا اور کہا کہ آج اقبال زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ ہم نے اُن کے تصور کو حقیقت بنانے کے کام کا آغاز کر دیا ہے۔

پنجاب کے عوام کو جد وجہد پاکستان میں پوری طرح سے شامل کرنے کا مقصد قائد اعظم کے نزدیک ہمیشہ اہم ترین ترجیحات میں شامل رہا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب کی برسر اقتدار قیادت ہمیشہ انگریزوں اور کانگریس کے ساتھ ساز باز پر آمادہ نظر آئی۔ پاکستان بننے کے بعد جس طرح پنجاب کی فکری اور سیاسی بلوغت پر زوال آیا اور جس طرح کا فلسفہ طاقت پنجاب میں پروان چڑھا اور یہ طاقت مخصوص طبقات کی بالادستی کی صورت میں سامنے آئی۔ اس تبدیلی نے کئی مسائل پیدا کئے۔

یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ پنجاب کی سیاسی اشرافیہ کی نفسیات تیزی سے اقدار سے اقتدار کے حصول کی طرف منتقل ہوئی۔ اور جیسا کہ ہوا کرتا ہے اس کے اثرات نیچے عوام کو منتقل ہوئے۔ یہ بھی نکتہ جواب طلب ہے کہ وطن عزیز میں جب بھی جمہوری اداروں پر شب خون مار کر کوئی بھی آمر برسراقتدار آیا تو اس کو سب سے زیادہ پنجاب ہی سے تائید ملی۔

اقبال کو پنجاب کی حدود میں قید کرنا ایک جذباتی کوشش تو ہوسکتی ہے مگر منطقی نہیں۔ معاشی، عددی، سیاسی اور سیکیورٹی میں برتری کے حامل صوبے کے شاعر اقبال نے بطور پنجابی مفکر، پنجابی میں شاعری کیوں نہیں کی اور پنجاب کی شخصیات ان کی فہرست میں زیادہ کیوں نہیں ہیں اس کا جواب تو شاید اُنہوں نے خود اپنی نظم میں دے دیا ہے تاہم یہ بحث بھی الگ سے ہوسکتی ہے کہ اقبال کا مرد مومن، مرد کوہستان، مرد صحرائی، جغرافیائی حدود و قیود سے آزاد اور مبرا ہے لیکن ساتھ ساتھ دھرتی سے محبت اور تعلق کسی بھی آفاقی مفکر کا فطری حق ہوتا ہے جو وہ ادا کرتا ہے۔

ایک تناظر میں دیکھیں تو عمومی توقع یہ ہوتی ہے کہ اقبال محض مسلم تشخص کے رہنما نہ رہیں بلکہ پنجاب کی سرزمین کو پہچان بنائیں لیکن اقبال ؒ اگر عظیم ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ آفاقی پہچان کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی لئے جب ہم بطور پنجابی مفکر اقبال کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو شاید کچھ خاطر خواہ نظر نہیں آتا۔

اقبال کی شاعری میں پنجابی سورمائوں کے نظر انداز ہونے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟ کیا وجوہات وہی تو نہیں جو اقبال اپنی نظم میں بیان کرچکے؟ بہتر جواب اہل علم و دانش ہی تلاش کرسکتے ہیں، تاہم اگر اقبال کی پنجابی مسلمان کے نام نظم کو موجودہ حالات کے تناظر میں پنجاب میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور عقیدت کے نام پر عدم توازن کے پس منظر میں پڑھا جائے تو صورتحال کافی حد تک واضح ہوجاتی ہے۔ اقبال کے حوالے سے سندھ، بلوچستان سمیت دیگر اقوام میں جانے والے اس تاثر کی نفی کی جاسکتی ہے کہ اقبال بنیادی طور پر پنجابی فکر اور جغرافیے کو OWN کرتے ہیں یا اقبال کا جھکائو پنجاب کی طرف رہا ہے جبکہ خود اہل پنجاب دل و جان سے اقبال کو نہ صرف OWN کرتے ہیں بلکہ انہیں چاہنے والوں کی بڑی تعداد بھی پنجاب میں ہے۔

یہاں یہ نکتہ بھی حوالے کے طور پر اس مضمون میں شامل کرنا چاہوں گا کہ اقبال کے ہاں تو پنجاب پرستی اور پنجابی شاعری کا فقدان دکھائی دیتا ہے تاہم پنجاب میں پاکستان کی دیگر زبانوں کی طرح کلام اقبال کے منتخب حصوں کے پنجابی تراجم مختلف ادوار میں کئے گئے اور اقبال کو پنجابی زبان سے جوڑے رکھنے کی شعوری کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ان تراجم کے حوالے سے معروف شاعر اور مترجم اسیر عابد کا کام قابل ذکر ہے جنہوں نے مجموعہ کلام ’’بال جبریل‘‘ کا ’’اُڈاری‘‘ کے نام سے پنجابی ترجمہ کیا اور اس ترجمے کو کافی سراہا گیا، علامہ اقبال کی چند منتخب نظموں کا پنجابی ترجمہ ڈاکٹر احسان اکبر نے کیا۔

اس کے علاوہ اقبالیات کے حوالے سے پنجابی زبان میں ایک اہم کام معروف پنجابی شاعر اور دانشور شریف کنجاہی کا بھی ہے جنہوں نے خطبات اقبال کا پنجابی ترجمہ بخوبی کیا اور اسی فصاحت وبلاغت کو برقرار رکھا جو خطبات اقبال کا خاصہ ہے، اس کے علاوہ یعقوب آسی اور ڈاکٹر فقیر نے بھی اقبال کی چند نظموں کو ترجمے کی صورت میں پنجابی میں ڈھالا۔ جسے اس حوالے سے عمدہ کام کہا جاسکتا ہے۔ دیگر کئی نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

اقبال اور کلام اقبال سے محبت ، عام پنجابی سے لیکر پنجابی سیاستدانوں، پنجابی جری جوانوں اور پھر پنجابی شاعروں، دانشوروں‘ تحقیق دانوں تک کے دلوں میں موجزن رہی ہے اور شاید اس حقیقت سے قطع نظر کے اقبال پنجاب اور پنجابیت سے بالاتر رہے پنجاب کے باسی نظریہ پاکستان اور فلسفہ اقبال کے لازم و ملزوم ہونے کے باعث علامہ کی فکر اور ان کی شخصیت کے روحانی فیض کے ساتھ مستقبل میں بھی جڑی رہے گی۔

The post اقبال ‘ مشاہیر عالم اور علاقائی وابستگی appeared first on ایکسپریس اردو.

بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم بحران کا شکارکیوں؟

$
0
0

دنیا میں کسی بھی قوم و ملک کی ترقی کے لیے تعلیم کی اتنی ہی اہمیت ہے جیسے گھپ اندھیر ے میں روشنی کی اہمیت ہو، تعلیم کو آج دنیا بھر میں پرائمری، سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن کے اعتبار سے تین درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

اگرچہ اِن تینوں درجات کی اہمیت کسی طرح ایک دوسرے سے کم نہیں مگر آج کی دنیا میں ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کی درجہ بندی کے لیے بنیادی پیمانوں میں سے اہم ترین پیمانہ ہائر ایجوکیشن یعنی اعلیٰ تعلیم کا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی ملک میں یونیورسٹیوں، اعلیٰ تعلیمی اداروں کا معیار کیسا اور تعداد کتنی ہے، انٹر نیشنل ایسوسی ایشن آف یونیورسٹیز کے ورلڈ وائڈ ڈیٹابیس فار ہائر ایجوکیشن کے مطابق اِس وقت دنیا میں یونیورسٹیوں کی تعداد 18ہزار 6 سو 50 سے کچھ زیادہ ہے۔

دنیا بھر کی اِن یونیورسٹیوں میں سے 11 فیصد یعنی 2038 جامعات امریکہ میں ہیں۔ دوسرے نمبر پر میکسیکو ہے جہاںدنیا کی9% یونیورسٹیاں ہیں۔ 7% کے ساتھ فلپائن تیسرے نمبر چین چوتھے اور بھارت پانچویں نمبر پر ہے۔ امریکہ معیار کے اعتبار سے بھی ہائر ایجوکیشن میں سر فہرست ہے۔ World University Rankingورلڈ یونیورسٹی رینکنگ2021 ۔2022 کے مطابق دنیا میں ٹاپ 100 یو نیورسٹیوں سے51 یونیورسٹیاں امریکہ میں 10 یونیورسٹیوں کے ساتھ برطانیہ دوسرے نمبر پر ہے۔

جاپان اور جرمنی چھ چھ یونیورسٹیوں کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر، سویزر لینڈ پانچ یونیورسٹیوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر، نیدرلینڈ 4 یونیورسٹیوں کے ساتھ چھٹے نمبر پر، چین تین یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتویں نمبر پر، جنوبی کوریا، سوئڈن، اسرائیل اور آسٹریلیا کی دو دو یونیورسٹیاں ڈنمارک اورناروے، تائیوان اور سنگاپور کی ایک ایک یونیورسٹی دنیا کی پہلی 100 یونیورسیٹوں میں شامل تھیں، ورلڈ بنک کے مطابق اس وقت دنیا کی 18650 یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات کی مجموعی تعداد 20 کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ تعداد 1998 ء میں 8 کروڑ 90 لاکھ تھی۔

دنیا بھر کی بڑی اور معیار ی یونیورسیٹوں کی پالیسی یہ رہی ہے کہ اِن میں ایم ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے داخلے 17 سال سے 23 سال کے نوجوانوں کو اولیت کی بنیاد پر دئیے جاتے ہیں ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے بعد یہ ریسرچ اسکالرز اپنے اپنے شعبوں میں ریسرچ کی بنیادوں پر ایجادات اوردریافتیںکرتے ہیں پھر آج کے دور میں خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں 95 فیصد سے زیادہ افراد سائنس اور ٹیکنالوجی میں اور باقی سوشل سائنسز کے شعبوں میں پی ایچ ڈی کرتے ہیں اور لٹریچر کے شعبوں میں اِن ترقی یافتہ ملکوں میںاب خال خال ہی پی ایچ ڈی کی جاتی ہے۔

جب یہ نوجوان 25 یا 26 سال میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر کے ریسرچ اسکالرز بن جاتے ہیں تو پینسٹھ ستر سال کی عمر تک اِن کے پاس بھرپور زندگی کے اوسطاً 45 سال ہوتے ہیں اور اس عرصے میں میدان ِ علم کے یہ اسکالرز مصروف عمل رہ کر اپنے ملک و قوم کی اور عموماً دنیا بھر کی انسانیت کی بھرپور خدمت کرتے ہیں، پھر امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ترقی یافتہ ملکوں کی کچھ یونیورسٹیاں ایسی بھی ہیں۔

جن کے سالانہ بجٹ پاکستان جیسے ملکوں کے بجٹ کے تقریباً برابر ہیں اور تعریف کی بات یہ ہے کہ اَن یونیورسیٹوں کو یہ بجٹ حکومت فراہم نہیں کرتی بلکہ یو نیورسٹیوں میں ہونے والی ریسرچ کی بنیاد پر ہونے والی دریافتیں اور ایجادات پیٹنڈ یعنی رجسٹرڈ ہوتی ہیں اور اِن کو کمپنیاں کروڑوں، اربوں ڈالر کے عوض خریدتی ہیں۔

یوں ایسی یونیورسیٹوں کے پاس اپنے سالانہ بجٹ کو خرچ کرنے کے بعد بھی بہت بڑے فنڈز ریسرچ کے لیے بچ جاتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ نامی ادارے کی جا نب سے جاری کردہ انٹرنیشنل ریسرچ رپورٹ کے مطابق کسی بھی ملک میں یونیورسٹیوں کی تعداد کو دگنا کرنے سے اُس ملک کے سالانہ جی ڈی پی اور فی کس سالانہ آمدنی میں 4 فیصد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

یو ایس سینسز (شماریاتی ) بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹابیس کے مطابق 2018ء میں دنیا بھر میں 17 سے 23 سال تک کی عمر کے گروپ کی کل تعداد 82 کروڑ 66 لاکھ 81 ہزار سے زیادہ تھی جب کہ اس تعداد میں سے 20 کروڑ نوجوان ہی یونیورسٹوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جو اس عمر کے گروپ کا صرف 24 فیصد تھے اور اس 24 فیصد میں سے 80 فیصد کا تعلق ترقی یافتہ ملکوں سے ہے یعنی ترقی یافتہ ملکوں میں یونیورسٹیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے اور معیارکے اعتبار سے بھی اِن کی یونیورسٹیاں ٹاپ پر ہیں یہاں نوجوان اسکالرز کی تعداد بھی ہمارے مقابلے میں 80 فیصد زیادہ ہے درج بالااعداد و شمار سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک ابھی اِن ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں کتنے پیچھے ہیں۔

یہ درست ہے کہ علم اور تحقیق کے لحاظ سے مسلمانوں کا ماضی بہت تابناک رہا ہے مسلمانوں نے یونان اور روم کے علمی ذخیرے کو عربی میں تراجم کر کے استفادہ بھی کیا اور پھر اس میں مزید اضافہ بھی کیا۔ بارویں اور تیرویں صدی عیسوی اِس اعتبار سے بہت اہم رہی، تاریخی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اس دور میں تین ذہین و فطین شخصیات ایک ہی جامعہ میں زیر تعلیم رہیں۔

اِ ن میں سلجوق سلطنت کے بادشاہ ملک شاہ اوّل کا وزیر اعظم نظام الملک طوسی، فارسی رباعی کا مشہور شاعر، فلکیات اور علم نجوم کا ماہر اور ریاضی دان عمر خیام اور ذہین مگر شیطانی عقل کا مالک حسن بن صبا شامل تھے اور اِن تین دوستوں نے آپس میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ز ندگی میں جس کو بھی اچھا اور اعلیٰ مقام ملا وہ دوسرے کی مدد کرے گا، جب نظام الملک طوسی اُس زمانے کی ایک بڑی اور مضبوط سلجوقی سلطنت کا وزیراعظم بنا تو یہ بہت ہی غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل تھا۔

اُسے اُس زمانے میں علم و تحقیق کی اہمیت کا اندازہ تھا، ایک بار سلجوقی بادشاہ ملک شاہ اوّل نے اُسے لاکھوں اشرفیاں دیں کہ سلطنت کے مضبوط دفاع کے لیے نا قابلِ تسخیر قلعے تعمیر کئے جائیں۔ نظام الملک طوسی نے ساری رقوم سے اعلیٰ تعلیمی ادارے تعمیر کروا دئیے تو درباریوں نے بادشاہ کے کان بھرے کہ وزیراعظم رقم خرد برد کر گیا ہے۔ بادشاہ نے طوسی سے کہا کہ مجھے تعمیر شدہ قلعے دکھاؤ تو وزیر اعظم نظام الملک طوسی نے وہ عظیم درس گاہیں دکھائیں جہاں ہزاروں اسکا لرز زیر تعلیم تھے اور کہا کہ یہ وہ قلعے ہیں جن سے نکلنے والی فوج کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکے گی۔

اس پر علم دوست بادشاہ بہت خوش ہوا۔ نظام الملک طوسی کے باقی دودوستوں میں سے عمر خیام طوسی کے پاس آیا تو اُس نے خیام کی خاصی مدد کی مگرخیام مئے نوش تھا اس لیے بعد میں ساری دولت عیاشی میں اڑا دی، حسن بن صبا، دنیا پر حاکمیت کے شیطانی خواب دیکھتا تھا۔

اُس نے نظام ا لملک طوسی کی میزبانی کا لطف تو اٹھایا مگر اُسے بتا دیا کہ وہ اُس کا خواب پورا نہیں کر سکتا، اس کے بعد اُس بدبخت نے فارس کے قلعہ الموت پر قبضہ کر کے باطنی فرقے کی بنیاد پر نہ صرف ایک جنت بنائی بلکہ اُس نے ہی خودکش حملوں کی بنیاد ڈالی اور اپنے پیروکاروں سے خودکش حملے کروا کر اُس عہد کے جیّد علما ِدین کوقتل کروایا۔ حسن بن صبا کا خاتمہ 1129 ء میں ہوا ۔ یہ وہ دور ہے جب یورپ تاریک دور سے گزر رہا تھا۔

تقریباً اسی دور میں یعنی 1095ء سے 1251ء تک فلسطین اور بیت المقدس کے لیے یورپ نے صلیبی جنگیں لڑیں اور اِن ہی صلیبی جنگوں کی بدولت یورپ میں تحریک احیائے علوم کا آغاز ہوا ۔ 1258 ء میں چنگیز خان کے پو تے ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کر کے یہاں کی عظیم یونیورسٹیوں کو نذرِ آتش کر دیا، لائبریریوں کو جلا کر کتابوں کو دریا میں پھینک دیا، پھر1492 ء میں اسپین میں عیسائی ملکہ ازابیلا اور بادشاہ فرننڈس نے اسپین کی مکمل فتح کے بعد مسلمانوں کا قتل عام کر کے اسپین سے مسلمانوں کا مکمل خاتمہ کر دیا۔

اسی سال ملکہ ازابیلا کی مالی معاونت سے کرسٹوفرکولمبس نے امریکہ دریافت کیا، اس واقعے کے ٹھیک 420 سال بعد جنگ، عظیم اوّل میں جرمنی کے ساتھ ترکی کی خلافت ِعثمانیہ کو 1918 ء میں شکست ہوئی اور اس کے بعد سے 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے ازابیلا کی مالی معاونت سے کرسٹوفرکولمبس نے امریکہ دریافت کیا۔

اس واقعے کے ٹھیک 420 سال بعد جنگ، عظیم اوّل میں جرمنی کے ساتھ ترکی کی خلافت ِعثمانیہ کو 1918 ء میں شکست ہوئی اور اس کے بعد سے 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام اور اقوامِ متحدہ کے قیام تک آج کی دنیا کے 57 اسلامی ممالک میں سے صرف تین اسلامی ممالک افغانستان ، ترکی اور سعودی عرب ہی آزاد ملک کہلاتے تھے اور صرف ترکی میں جدید تعلیم کی جانب کسی حد تک توجہ دی جا رہی تھی، لیکن پاکستان کی خوش قستمی کہ بر صغیر کی جنگ آزادی 1857 ہی میں دو قومی نظریے کے حق میں پہلی آواز بلند کر نے والے عظیم رہنما ماہر تعلیم سماجی مصلح سر سید احمد خان جیسی شخصیت ہمیں ملی جس نے نظام الملک طوسی کی طرح یہ بھانپ لیا تھا کہ آزادی، ترقی اور خوشحالی کی جدوجہد اور جنگ کے لیے بنیاد ی ہتھیار علم ہی ہے۔

کو ئٹہ میں بلوچستان کے سر سید تعمیر ِ نو ٹرسٹ کے سابق سیکرٹری و پرنسپل تعمیر نو کالج پروفیسر فضل حق میر مرحوم نے تعمیر نو کالج کی پیشانی پر یہ احادیث نبویﷺ لکھوائیں ( عقل میرے دین کی بنیاد۔ علم میرا ہتھیار ہے ) مگر بد قسمتی سے آزادی کے بعد اور خصوصاً قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہم نے تعلیم کے شعبے کی جانب وہ توجہ نہیں دی جس کی ہمیں ضرورت تھی۔ بلوچستان جو ملک کے رقبے کا 43% ہے ا س کو تو تقریباً نظر انداز کردیا گیا۔

1947 ء تک پورے بلوچستان میں کو ئی کالج نہیں تھا البتہ کوئٹہ میں آج کے ڈگری سائنس کالج کو جو اُس زمانے میں گورنمنٹ سنڈے من اسکول تھا، 1947 ء ہی میں ہائر سیکنڈری اسکول کا درجہ دیا گیا تھا اور یہاں اسکو ل کے ٹیچرز ہی بارہ جماعتوں تک پڑھاتے تھے۔ 1948 ء میں اس کو کالج کا درجہ دیا گیا اور یہ بلوچستان کا پہلا کالج بنا اور پھرجب 1970 ء میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا تو یہاں پہلی یو نیو رسٹی ’’بلوچستان یونیورسٹی‘‘ قائم ہوئی جس کے پہلے چانسلر صوبے کے پہلے گورنر لیفٹیننٹ جنرل ریاض حسین اور پہلے وائس چانسلر جسٹس دراب پٹیل تھے۔ آج بلوچستان یونیورسٹی کو پچاس سال ہو گئے ہیں۔

اب جہاں تک تعلق پاکستان میں ہائر ایجو کیشن کا ہے تو پاکستان دنیا میں یونیورسٹیوں کی تعداد کے اعتبار سے 20 ویں نمبر پر ہے اور معیار تعلیم کے لحاظ سے پاکستان کی صرف ایک یونیورسٹی دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں شامل ہے، 2002ء سے قبل تک مرکزی سطح پر یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا ادارہ تھا جس کو 2002 ء میں ہائر ایجوکشن کمیشن بنا دیا گیا اور ملک میں پہلی مرتبہ ہائر ایجوکیشن پر بھرپور توجہ دی گئی، 2002 ء تک ہمارے ہاں یونیو رسیٹوں کی تعداد صرف 74 تھی اور بلو چستان میںاکلوتی یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی تھی۔

جولائی 2018 ء تک پاکستان میں یو نیورسیٹوں کی تعداد 189 ہو گئی جس کی تفصیل یوں ہے، پنجاب میں سرکاری جامعات 35، نجی یونیورسٹیاں 26 کل 61 جامعات، سندھ میں 23 سرکاری 32 نجی کل55 یو نیورسٹیاں، خیبر پختونخوا میں 25 سرکاری 10 نجی کل 35 جامعات، بلوچستان 7 سرکاری اور ایک نجی کل 8 یونیورسٹیاں، گلگت بلتستان 2 سرکاری یونیورسٹیاں، آزاد جموں وکشمیر 5 سرکاری اور 2 نجی یونیورسٹیاں یعنی کل 7 جامعات ہیں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 15 سرکاری اور 6 نجی یونیورسٹیاں ہیں یعنی کل 21 جامعات ہیں ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ویب سائٹ بازیافت یکم جولائی2018 ء کے مطابق درج بالا یونیورسٹیوں کی کل تعداد 189 ہے۔

اسی طرح پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹکس2016 ء ۔2017 ء وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے مطابق پا کستان کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات کی تعداد 1192535 تھی اور نجی یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات کی تعداد 270744 تھی اور یوں کل تعداد 1463279 تھی۔ اِن اعداد وشمار میں اُس وقت بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات کی کل تعداد 27464 تھی جو اب 29600 ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی قومی تعلیمی پالیسی برائے 2017 ء تا 2025 ء میں بھی ملک میں ہائر ایجوکیشن کے لیے عمر کا گروپ 17 سال تا 23 سال ہے۔ یوں اِ س وقت ملک میں17 سال سے23 سال تک کی عمروں کے تقریباً 1 کروڑ 90 لاکھ نوجوان ہیں اور اس میں سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد تقریباً11 لاکھ ہے۔

پاکستان کی سطح پر ایک کروڑ 90 لاکھ میں سے صرف تقریباً 15 لاکھ یونیورسٹیوں میں ہیں جب کہ بلو چستان کے17 سے23 سال کے 11 لاکھ نوجوانوں میں سے صرف تقریباً 30 ہزار نوجوان یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں جو کل کا تین فیصد سے بھی کم ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ 2002 ء میں بلو چستان کی یونیورسٹیوں میں اسٹوڈنٹس کی کل تعداد صرف 3700 تھی جو اب 29600 ہو چکی ہے۔

اس دوران ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بلوچستان کی یونیورسٹیوں کو کل 32 ارب روپے دیئے یعنی سالانہ بلوچستان کی 7 سرکاری یونیورسیٹوں کو1 ارب 68 کروڑ روپے دئیے گئے اور بلوچستان کی سات یونیورسٹیوں میں یہ رقم سالا نہ فی یونیورسٹی 23کروڑ 43 لاکھ روپے بنتی ہے جو ایچ ای سی کی جانب سے گذشتہ 19 برسوں میں دی گئی۔

آئین کی18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کے حوالے سے تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر صوبائی سبجیکٹ ہے، یوں اس کے بعد بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو اپنے سالانہ بجٹوں سے بھی ہائر ایجوکیشن کے اعتبار سے یونیورسیٹوں کو بھی فنڈ ز فراہم کرنے پڑے اور خصوصاً بلوچستان یونیورسٹی جو ایک طویل عرصے تک صوبے کی اکلوتی یو نیورسٹی رہی عرصے سے مالی بحران کا شکار ہے، اس کے لیے تھوڑی بہت رقوم یا فنڈز صوبائی حکومت نے بھی فراہم کئے، اس وقت بلوچستان ڈیویلپمنٹ پروفائل کے مطا بق ہائر ایجوکیشن پر صوبے میں انفراسٹکچر پر 13 ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں، اِن میں سے 2.45 ارب روپے ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ پرخرچ کئے گئے ہیں۔

بلوچستان چونکہ رقبے کے اعتبار سے بہت وسیع ہے اور ملک کے کل رقبے کا تقریباً 43 فیصد ہے جب کہ آبادی کے لحاظ سے یہ ملک کی کل آبادی کا صرف 6% ہے، اس آبادی کا تقریباً 60% صوبے کے اندرون اور دور دراز علاقوں میں آباد ہے اس لیے صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ بلوچستان کی سات سرکاری یونیورسٹیوں کے زیادہ سے زیادہ کیمپس بلوچستان میں ضلعی سطح پر کھولے جائیں، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی صوبے میں خواتین کی واحد یونیورسٹی ہے۔

اس کے کیمپس ضلع نوشکی، پشین، خضدار، لسبیلہ ، وڈہ اور ڈیرہ مراد جمالی میں ہیں۔ یو نیورسٹی آف بلوچستان کے کیمپس خاران ، مستونگ اور پشین میں قائم کئے گئے ہیں۔ تربت یونیورسٹی کا کیمپس حال ہی میں گوادر میں قائم کیا گیا ہے، واضح رہے کہ بلوچستان کی سات سرکاری یونیورسٹیوں میں تین یونیورسٹیاں نمبر1 یونیورسٹی آف بلوچستان یا بلوچستان یونیورسٹی نمبر2 ’’بیوٹمز‘‘ بلوچستان یونیورسٹی آف انفامیشن ٹیکنالوجی انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسسز اور سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ میں واقع ہیں۔

جب کہ تربت یونیورسٹی کیچ تربت میں، لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر مینجمنٹ میرین سائنسسز اوتھل میں، یونیورسٹی آف لو رالائی ، لورالائی میں ، انجینئر نگ یونیورسٹی خضدار میں اور بولان میڈیکل کالج کوئٹہ بھی میڈیکل یو نیو رسٹی کے مراحل طے کر رہا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر بلوچستان کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لیے مالی وسائل فراہم کئے گئے ہیں۔ 922 ملین روپے 2300 ایسے طلبا و طالبات کے لیے رکھے گئے ہیں جو ایم ایس اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کے مختلف شعبوں میں بلوچستان کی یونیورسٹیاں اِس وقت akistan Education and Reseach Network Pکی بنیاد پر ایچ ای سی، آئی ٹی کے ذریعے دیگر یونیورسیٹوں سے منسلک ہے ۔

بلو چستان کی سات سرکاری اور ایک نجی یو نیورسٹی میں زیادہ تر ایم ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی تک کی تعلیم فراہم کی جا رہی ہے لیکن یہ تمام یونیورسٹیاں اس وقت نہ صرف خود بی ایس چار سالہ کورس کی بنیاد پر ڈگری فراہم کر رہی ہیں بلکہ اس کے ساتھ بلوچستان کے 45 سرکاری ڈگری کالجوں میں بھی چار سالہ بی ایس ڈگری کورس شروع کیا ہے اور کورس کے بعد امتحان اور ڈگری کا اجرا بلوچستان کی یونیورسٹیاں ہی کرتی ہیں ۔ واضح رہے کہ یہ تعلیمی اصلاحات پورے ملک کی طرح چند برس قبل بلوچستان میں بھی شروع ہوئیں جن کے تحت صوبے کے ہائی اسکولوں کو ہائر سیکنڈری اسکول بنانا شروع کیا گیا۔

جہاں دس جماعتوں کی بجائے اب بارہ جماعتوں یعنی انٹرمیڈیٹ تک تعلیم فراہم کی جا رہی ہے اور اِن کے سرٹیفکیٹ کی سطح کے امتحانات انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ بلوچستان لیتا ہے اور کالجوں کی سطح پر بی ایس چار سالہ ڈگری کورس شروع کیا گیا ہے جس کے ڈگری کے امتحانات یونیورسٹی لیتی ہے۔

اس سے قبل ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح بلوچستان میں بھی ہائی اسکولوں میں میٹرک تک انٹر کالجوں میں ایف اے، ایف ایس سی دو سالہ سرٹیفکیٹ کورس پڑھائے جا رہے تھے اور ڈگری کالجوں میں بی اے ، بی ایس سی کے دو سالہ ڈگری کورس ہوتے تھے اور اس کے امتحان کے بعد گریجویشن کی ڈگری یونیورسٹی دیتی تھی، مگر اب ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان کے ڈگری کالجوں میں بھی بی اے بی ایس سی کی بجائے ، بی ایس کے چار سالہ کورسز شروع کئے گئے ہیں۔

یہ تبدیلی جو بڑی اہم تعلیمی ا صلا حات کے بعد پاکستان میں نافذ العمل ہے اور پورے ملک ہی میںاس نئے تعلیمی نظام پر زور و شور سے عملدرآمد ہو رہا ہے مگر بلوچستان جو پہلے ہی تعلیمی اعتبار سے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کم یا پیچھے تھا اس کو تعلیمی میدان میں اپنے محدود وسائل کے ساتھ اس بڑے چیلنج کا سامنا اُس وقت ہوا جب ساتھ ہی کرونا، خشک سالی اور ٹڈی دل کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا مگر اس کے باوجود 2018 ء سے2021 ء تک کے اِن تین برسوں میں صوبائی حکومت نے 45 کالجوں کو 1970 ملین روپے کی لاگت سے اپ گریڈ کرتے ہوئے بی ایس کے چار سالہ کورسزکے لیے ڈگری کالجوں کا درجہ دے دیا، اسی طرح 37 کالجوں میں غیر موجود سہولتوں کو پورا کرنے کے لیے 3331 ملین روپے خرچ کئے گئے۔

صوبائی حکومت نے کالجوں کی سطح پر بھی خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کر نے کی غرض سے صوبے کے گرلز کالجوں کے لیے 200 ملین روپے کی لاگت سے 33 بسیں خریدی ہیں پھر اِن تین برسوں میں ہی صوبائی حکومت نے بلوچستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں627 اعلیٰ تعلیم یا فتہ افراد کو خصوصاً درس و تدریس کے شعبے میں ملازمتیں فراہم کی ہیں ۔ یہ سارے اقدامات اس لیے کئے گئے ہیں تاکہ بلوچستان میں خواتین کو بھی اعلیٰ تعلیم کے تمام شعبوں میں مردوں کے برابر لایا جائے۔

مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ صوبہ اب بھی نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے اداروں یعنی ڈگری کالجوں اور یونیورسٹوں کی مطلوبہ تعداد کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے بلکہ اس سے زیادہ مسائل خصوصاً سرکاری ڈگری کالجوں میں ہیں ، جہاں تمام شعبوں میں بی ایس چار سالہ کورسز کا نصاب پڑھانے کے لیے ماہر اساتذہ کی بہت قلت ہے۔ اگرچہ 2002 سے کوئٹہ میں بلوچستان اکیڈمی فار کالج ٹیچر جیسا ادارہ کام کر رہا ہے جس کی ڈائریکٹر اِس وقت شبانہ سلطان ہیں۔

یہ اکیڈمی صوبے بھر کے کالجوں کے لیکچرارز اور پروفیسروںکو خصوصاً نئی تعلیمی اصلاحات کے مطابق بی ایس کے چار سالہ ڈگر ی کورسز کو پڑھانے کی تربیت بھی فراہم کر رہی ہے، مگر حقیقتاً اس ادارے کے وسائل اس چیلنج کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں، اس وقت صوبے میں ڈگری کالجوں کی تعداد 45 ہو چکی ہے جب کہ اب بھی 50 کے قریب انٹرمیڈیٹ کالج موجود ہیں جن کو جلد ہی اپ گریڈ کرتے ہوئے ڈگری کالجوں کا درجہ دینا ہے، پھر جہاں تک تعلق صوبے کے 45 سرکاری ڈگری کالجوں کا ہے تو اِن میں بھی بدقسمتی سے بی ایس کے چار سالہ کورسسز تک کی تدریس کا معیار نہایت کم اور کمزور ہے۔

95 فیصد کالجوں میں بی ایس کورسسز کو پڑھانے کے لے مطلوبہ استعدادکار اور تعلیمی قابلیت کے حامل اساتذہ نہیں یعنی اِن 45 ڈگری کالجوں میں جو لیکچرار، اسسٹنٹ پرو فیسرز ،ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اُن میں سے بہت کم ایم فل، ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے حامل ہیں اور جو ایم فل، ایم ایس اور پی ایچ ڈی ہیں اِ ن کی اکثریت کا علم جدید تقاضوں کے مقابلے میں پرانا ہے۔ بد قسمتی سے ایسی ہی صورتحال ذرا کم شدت کے ساتھ صوبے کی سرکاری یونیورسٹیوں میں ایم فل ، ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے تدریسی عمل میں پیش آرہی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس صورتحال میں بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے مالی وسائل بھی بہت کم ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت بلوچستان یونیورسٹی اور بلوچستان اکیڈمی فار کالج ٹیچرز جیسے اداروں کی مالی حالت ہے، جہاں تک تعلق بلوچستان کی صوبائی حکومت کا ہے تو وہ اپنے مالی وسائل کے مطابق ہائر ایجوکیشن کو بھی مالی معاونت فراہم کر ر ہی ہے لیکن ہائر ایجوکیشن کے اداروں کے مالی مسائل پوری طرح حل کرنا صوبائی حکومت کے بس میں نہیں ہے جو فی الحال خود بھی خود انحصار نہیں ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان سی پیک کے منصوبوں پر تعمیروترقی کی رفتار تیز ہو گئی ہے اور امید ہے کہ کئی بڑے منصوبے آئند ہ دو تین سال میں مکمل ہو جا ئیں گے او ر باقی بھی 2030 ء تک مکمل ہو جائیں گے جن کے لیے ہزاروں ڈگری ہولڈرز نوجوانوں کی ضرورت ہو گی اور بلوچستان ہی کے نوجوان اِن منصوبوں میں ملازمتوں کی بنیادوں پر شامل ہوں گے، اس کے لیے ضروری ہے کہ سی پیک کے تحت مستقبل قریب میں ہائر ایجوکیشن کے مختلف شعبوں کی بنیاد پر مطلوبہ قابلیت اور اہلیت کی افرادی قوت کا تخمینہ لگاتے ہوئے۔

سی پیک کے ترقیاتی منصوبوں کی رقوم میں سے چین کی جانب سے گرانٹ کی صورت بلوچستان کے ہائرایجوکیشن کے اداروں کی مالی معاونت کی جائے، دوسری جانب یہ بھی ضروری ہے کہ بلوچستان کے محکمہ تعلیم (کالجز ہائراینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن) بلوچستان اکیڈمی فارکالج ٹیچرز اور بلوچستان کی تمام سرکاری یونیورسیٹوں کے درمیان بہترین رابطے میں ہوں ۔

صوبائی محکمہ ( کالجز ہائر اینڈ ٹیکنکل ایجوکیشن) صوبے کے ہائر ایجوکیشن کے تمام دیگر اداروں میں موجود تمام ایم فل، ایم یس، اور پی ایچ ڈی کے حامل افراد کی فہرست ترتیب دیں اور پھر ماہرین پر مشتمل ایک ہائرایجوکیشن کونسل بنا کر ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ اور پروفیسروں کی مدد سے بلو چستان کے 45 ڈگری کالجوں میں مختلف شعبوں میں جاری بی ایس چار سالہ ڈگر ی کورسسز کے لیے سیکنڈ ٹائم کی بنیاد پر اساتذہ کو ہنگامی بنیادوں پر ٹریننگ دیں۔

یہ کونسل یہ بھی تحقیق کرے کہ صوبے میں ہمیں ہائر ایجوکیشن کے مطلوبہ اہداف حاصل کر نے کے لیے یونیورسٹیوں اور ڈگری کالجوں کے لیے کتنی تعداد میں اورکن کن شعبوں میں پی ایچ ڈی کے حامل افراد کی ضرورت ہے۔

بلوچستان میں پی ٹی آئی نے جوانسال آغا ظہور شاہ کو حال ہی میںگورنر تعینا ت کیا ہے جو صوبے کی تمام یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہیں وہ بھی سی پیک کے چینی اعلیٰ حکام کو اس پر قائل کریں کہ وہ بلوچستان میں ہا ئر ایجو کیشن کے اِن مطلوبہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بلوچستان کی تمام یونیورسٹیوں اور صوبے کے45 ڈگری کالجوں کی مالی معاونت کریں۔

واضح رہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال خان کی بھی یہ کوشش ہے کہ صوبے میں جلد ازجد ہائر ایجوکیشن کو فروغ حاصل ہو۔ وزیر اعلیٰ نے صوبے بھر میں ہائر ایجوکیشن سے متعلق طلبا و طالبات میں گذشتہ تین برسوں میں 500 ملین روپے کے 8200 لیپ ٹاپ مفت تقسیم کئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

طلباو طالبات کے لیے گذشتہ تین برسوں میں 2755 ملین روپے کی لاگت سے31 نئے کالج بھی تعمیر کر وائے ہیں ، طالبات میں ہائر ایجوکیشن کے آسان حصول کے لیے صوبے کے مختلف اضلاع میں گرلز ہاسٹل بھی تعمیر کئے ہیں، خوش قسمتی سے صوبے کی پہلی جامعہ، یعنی بلوچستان یو نیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمن ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ میں پی ایچ ڈی ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کے شعبے میں کام کا ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں ۔

پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمن طویل عرصے تک قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد جیسی اہم ترین یونیورسٹی میں بطو ر رجسٹرار بھی کا م کر چکے ہیں، یوں وہ بھی صوبے کی ہائر ایجوکیشن کے مسائل کو حل کر نے میں اہم کر دار ادا کر سکتے ہیں ۔

The post بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم بحران کا شکارکیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


 معرکہ طلاس

$
0
0

تانگ خانوادے (Dynasty Tang ) کے چینی بادشاہ شوانگ –زونگ (Xuanzong)کے سامنے ایک عجیب سفیر کھڑا تھا۔اس کی عجیب بات یہ تھی کہ اس نے چینی بادشاہ کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا جو کہ چینی بادشاہوں کے دربار کی روایت تھی۔ تانگ خاندان کی شاہی تاریخ اس واقعے کو یوں بیان کرتی ہے :

“کائی –یوان ( 713-762 ء– Yuan Kai) کے دور میں ایک اور سفیر خوب صورت گھوڑوں اور شان دار لگاموں کے تحائف کے ساتھ دوبارہ بھیجا گیا۔ دربار میں پیشی کے موقع پر اس نے بادشاہ کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔

محل کے افسران اس کو مارنے کے لیے لپکے مگر وزیراعظم چانگ-شو (Shu Chang ) نے کہا کہ یہ روایات کا فرق ہے اور کسی کا اپنی روایت کی پیروی کرنا ایک جرم نہیں کہلا سکتا، چناںچہ بادشاہ نے اس کو معاف کردیا۔ جب سفیر رخصت ہونے لگا تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے ملک میں صرف اﷲ کے سامنے جھکتے ہیں کسی بادشاہ کے لیے نہیں۔ ”

چینی بادشاہ کی خدمت میں بھیجا گیا یہ سفیر جس کے اس عمل کی بازگشت کو تین صدیوں بعد کی چینی تاریخ نے بھی محفوظ کرلیا، فاتح وسط ایشیا اور عظیم اموی مسلمان جنرل قتیبہ بن مسلمؒ کا بھیجا ہوا تھا۔ جو ماورالنہر کو فتح کرنے کے بعد طارم طاس کی وادی (موجودہ سنکیانگ کا ایک حصہ ) میں چینی عمل داری کے شہر کاشغر پر بھی قبضہ کرچکے تھے۔

طبری اور ابن الاثیر اس سفارت کی پوری داستان سناتے ہیں۔ قتیبہ جب کاشغر کو فتح کرچکے تو چینی بادشاہ نے ان کی خدمت میں وفد بھیجا کہ اپنا کوئی آدمی ہمارے ہاں بھیجو۔ اس سے ہم تمہارے اور تمہارے وطن کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

قتیبہؒ نے اس خواہش کی تکمیل کے لیے کم و بیش آٹھ افراد کا ایک گروہ تیار کیا جن کا سردار ہبیرہ بن سمرج نامی ایک شخص تھا۔ اس کو حکم تھا کہ چینی بادشاہ کو مکمل طور پر واضح کردیا جائے کہ ہمارے سردار قتیبہ بن مسلمؒ نے قسم کھالی ہے کہ ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک تمہاری سلطنت میں قدم نہ رکھ لوں اور تمہارے شہزادوں کو غلام نہ بنالوں یا جزیہ نہ وصول کرلوں۔ ان سفراء کو سفر کے لیے شان دار گھوڑے و لباس بھی عطا کیے گئے۔

چینی بادشاہ عظمت و رعب کے اس شان دار مظاہرے سے کتنا متاثر ہوا جو اس دربار میں مسلسل تین دن ان سفراء نے دکھایا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، مگر یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہے کہ قبیلہ باہلی کے اس اموی فاتح وسط ایشیا کی عظیم الشان فتوحات کی خبر ان سفراء سے پہلے ہی شاہ چین کے کانوں سے ٹکرا چکی ہوگی۔

وہ سغد، تبت، طخارستان اور ترکستان کے طول و عرض سے بھیجے گئے ان سفیروں سے ناآشنا نہ تھا جو بڑی دیر سے اس عرب قوت کے مقابلے پر اس سے مدد طلب کررہے تھے جو توحید کا پرچم اٹھائے ایران و شام کی سلطنتوں کو روندنے کے بعد ماورالنہر کے علاقے میں گھس آئی تھی۔ اس نے سفیروں کو جو کے چینی دارالحکومت میں تین دن گزار چکے تھے اور اس کی وسعت اور لشکروں کی کثرت کا مشاہدہ بھی کرچکے تھے یہ جواب دیا:

“اپنے سردار کے پاس واپس چلے جاؤ اور کہو کہ ہمارے علاقے سے واپس چلا جائے، کیوںکہ میں اس کے حریصانہ خیالات اور اس کی فوج کی قلت تعداد سے واقف ہوں۔ اگر واپس نہ ہوگا تو ایسی زبردست فوج مقابلے کے لیے بھیجوں گا جو تمہیں اور اسے سب کو تباہ کرڈالے گی۔ ”

مگر ہبیرہ بھی کچی گولیاں نہ کھیلا تھا، اس نے کہا “اے بادشاہ! بھلا آپ یہ کیا فرماتے ہیں۔ ایسے شخص کو فوج کی کیا کمی ہوسکتی ہے جس کے لشکر کا اگلا حصہ آپ کے علاقہ میں ہے اور اور پچھلا حصہ ملک شام میں ہے! اس پر آپ حریص ہونے کا الزام کیسے لگا سکتے ہیں جو کہ دنیا کو لات مار کر آپ کے خلاف جہاد کرنے آیا ہے! حالاںکہ اسے سب کچھ میسر تھا۔ آپ نے ہمیں قتل کرنے کی دھمکی دی ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے ہم ذرا بھی خوف زدہ ہوں۔ ہماری زندگی ایک خاص معینہ مدت تک کے لیے ہے، جب وہ پوری ہوگی ہم مرجائیں گے اور موت کا سب سے بہترین طریقہ خدا کی راہ میں شہادت ہے۔ نہ ہم اس سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی اسے برا سمجھتے ہیں۔”

ہبیرہ کا یہ حتمی اور بے خوف انداز شاید چینی بادشاہ کے دل پر اثر کرگیا۔ اس نے پوچھا کس بات سے تمہارا سردار خوش ہوسکتا ہے؟ ہبیرہ نے کہا کہ انہوں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک وہ تمہارے علاقے میں قدم نہیں رکھ لیں گئے، تمہارے رؤساء کو غلام بنا کر ان پر مہر نہ لگادیں گے اور جزیہ وصول نہ کرلیں گے، یہاں سے نہیں ٹلیں گے۔

چینی بادشاہ نے فوراً مخصوص چینی ذہانت و حکمت کا استعمال کیا، جس کے لیے وہ پوری دنیا میں مشہور تھے۔ کہنے لگا کہ اچھا ہم ان کی یہ قسم پوری کردیتے ہیں۔ اپنے علاقے کی مٹی بھیج دیتے ہیں تاکہ وہ اس پر قدم رکھ لے، اپنے کچھ شہزادے بھیج دیتے ہیں، ان پر مہر غلامی ثبت کردے اور اس قدر زروجواہر دے دیتے ہیں جس سے وہ خوش ہوجائے گا۔ بادشاہ نے اپنے ملک کی مٹی، چار شہزادے اور سونا وجوہرات بطور جزیہ بھیجے۔ قتیبہ نے مٹی پر پاؤں رکھا ، شہزادوں پر مہر لگائی اور جزیہ وصول کرکے اپنی قسم کو پورا کیا اور چین کی طرف مزید پیش قدمی سے رکے رہے۔

چین کے ساتھ ایک فیصلہ کن معرکہ قدرت نے چند اور دہائیوں کے لیے ملتوی کردیا تھا۔ یہ سفارت جس کا حتمی زمانہ متعین کرنا ممکن نہیں 710 ء سے لے کر 713 ء اور اسلامی تاریخ کے مطابق 90 ھ سے لے کر 92 ھ کے لگ بھگ بھیجی گئی۔

قتیبہ بن مسلمؒ اس واقعے کے محض ایک سال بعد اس سیاست کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر گئے جس کے ہاتھوں کئی عظیم مسلم فاتحین کا خون ہے، اگر وہ زندہ رہتے تو کیا پورے چین کو بھی فتح کرلیتے اس کا جواب دینا مشکل ہے۔ مگر یہ کہنا چنداں دشوار نہیں کہ ان کے پاس اس سے بہتر لشکر موجود تھا جس کی مدد سے منگولوں نے کچھ صدیوں بعد چین کو فتح کرلیا تھا۔ ان کی موت کے ساتھ ہی وسط ایشیا میں مسلم اقتدار بھی خطرے میں پڑ گیا گوکہ نصر بن سیار جیسے فاتحین اس کو کسی نہ کسی طرح برقرار رکھنے میں کام یاب رہے۔

عین اسی وقت چینی سلطنت بھی جو تانگ خانوادے کے اقتدار تلے اپنی پرانی شان و شوکت بحال کرنے کے لیے کوشاں تھی، جو اس کو ہان خانوادے (Dynasty Han) کے دور میں پانچ یا چھ صدیاں قبل حاصل ہوئی تھی، جب ان کے عظیم فوجی جنرل پان –چاؤ ( Chao – Pan) نے چین کی سرحدیں سمرقند تک وسیع کردی تھیں اور پورا طارم طاس ان کے قبضے میں تھا۔ چینی بادشاہ کو ایک ہی خطرہ لاحق نہ تھا، تبتی اقوام بہت طاقت پکڑ چکی تھیں اور وہ طارم طاس (موجودہ سنکیانگ) کے علاقے میں دست اندازی کررہی تھیں، جو شاہراہ ریشم کے لیے ریڑھ کی ہڈی رکھتا تھا اور شاہراہ ریشم چین کے لیے رگوں میں دوڑنے والے خون کی مانند تھی، جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

ابھی وہ تبت اور ترکوں کی طرف سے امڈ آنے والے خطرات سے نمٹ ہی رہے تھے کہ دنیا میں ایک نئی سپرپاور کا ظہور ہوگیا۔ صحرائے عرب سے بادیہ نشنیوں کے گروہ در گروہ نکلے اور انہوں نے حضرت عمرؓ اور بعدازآں حضرت عثمانؓ کے دور تک دنیا کی دو عظیم سلطنتوں کو تہہ و بالا کردیا۔ ایران کی سلطنت ساسان 637 ء تک فتح ہوچکی تھی اور 638 ء میں اس کا اثر چین تک آ پہنچا۔

جب مفرور ایرانی بادشاہ یزدگرد نے چینی دربار میں مدد کی درخواست کے ساتھ ایک سفارت روانہ کی۔ کوئی مدد روانہ کی گئی کہ نہیں اس کے بارے میں چینی تاریخ خاموش ہے مگر یزدگرد کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا فیروز مسلمانوں کے سامنے سے راہ فرار اختیار کرتا ہوا پہلے باختریہ (طخارستان موجودہ افغانستان) پہنچا اور وہاں سے پھر چینی بادشاہ کی خدمت میں مدد کے لیے درخواست کی، مگر بادشاہ کاؤ-سانگ ( Tsung Kao) فاصلے کی وجہ سے مدد کرنے سے قاصر رہا۔

661 ء میں درخواست پھر پیش ہوئی اس بار مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا اور ایک چینی جنرل کو فیروز کی مدد کرنے کے لیے بھیجا گیا تاکہ وہ اس کو ایران کے گورنر جنرل کے طور پر دوبارہ تعینات کردے، مگر یہ منصوبہ ادھورا ہی رہا اور 670-673 ء میں فیروز پناہ کی تلاش میں خود چین پہنچ گیا، جہاں اس کو ایک فوجی دستے کا سربراہ بنا دیا گیا اور ایک آتش کدہ تعمیر کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔

678 ء میں فیروز کو دوبارہ تخت ایران پر بٹھانے کے لیے ایک فوج کی ہم راہی میں روانہ کیا گیا، مگر چینی جنرل طارم طاس میں واقع سلطنت کوچ (kingdom of kucha) سے آگے تک پیش قدمی کی جرأت نہ کرسکا اور فیروز کو وہاں سے اکیلا ہی آگے بڑھنا پڑا اور طخارستان کے علاقے میں 20 سال بھٹکنے کے بعد 708 ء کے لگ بھگ وہ دوبارہ چینی دربار میں پناہ کی تلاش میں جا پہنچا اور پھر وہیں اس کو مو ت آئی (یزدگرد کے بیٹے کی یہ داستان چینی تواریخ میں بیان ہوئی ہے جو ان واقعات کے سیکڑوں سال بعد لکھی گئیں اور ان میں آپس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔

بعض کے مطابق یہ واقعات فیروز کے نہیں بلکہ اس کے بیٹے نارسز کے ہیں )۔ چین کے پاس پہلی سفارت کا تذکرہ 651 ء میں حضرت عثمانؓ کے دور کا بیان کیا جاتا ہے جس کی تفصیلات کا علم نہیں۔ اس کے بعد بنو امیہ کے دور میں بھی چند سفارتوں کا ذکر ملتا ہے مگر ان کے متعلق درست بات یہ ہے کہ کسی خلیفہ کی طرف سے نہ بھیجی گئی تھیں بلکہ مختلف مسلمان تاجر تھے جو کہ براستہ خشکی اور سمندر چین میں بغرض تجارت پہنچے اور رواج کے مطابق بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے۔ 652 ء تک مسلمان پورے خراسان سمیت ریاست بلخ پر بھی قبضہ کرچکے تھے۔

کچھ عرصے کے لیے مسلمانوں کی اندرونی خانہ جنگی نے ہر محاذ پر ان کی پیش قدمی کو روک دیا۔ آٹھویں صدی عیسوی کی شروعات میں (705 ء ) قتیبہ بن مسلمؒ کی قیادت میں ماورالنہر کی فتوحات کا شان دار سلسلہ شروع ہوا۔ قتیبہ کو حجاج بن یوسف نے خراسان کا گورنر مقرر کرکے بھیجا تھا۔ 705 ء میں قتیبہ نے طخارستان کے خلاف فوج کشی کی جس کے حکم راں مغربی ترک خانانیت کی ہی ایک شاخ تھے۔

ان کو مطیع کرنے کے بعد قتیبہ نے خوارزم اور سغد کے درمیان جھگڑوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے معاملات میں دخل اندازی شروع کردی اور 706 ء سے لے کر 709 ء تک بخارا کے خلاف اپنی عظیم مہم مکمل کرلی۔ بخارا مسلمانوں کے مقابلے پر شکست تسلیم کرگیا اور قتیبہ نے اس کے تخت پر تخذادہ نامی ایک مقامی حکم راں کو ہی نام زد کردیا۔

بخارا کی شکست نے سمرقند کے ترخان کو بھی قتیبہ سے صلح پر مجبور کردیا۔ اہل سمرقند نے اس صلح کو حکم راں کی بزدلی پر معمول کرتے ہوئے اس کو تخت سے اتار کر اخشید غورک نامی بندے کو تخت پر بٹھا دیا، مگر قتیبہ بجلی کی طرح لپکا اور سمرقند کے لمبے محاصرے اور تاشقند و فرغانہ کے ترک لشکروں کو شکست دینے کے بعد جو کہ سمرقند کی مدد کے لیے آئے تھے۔

اس کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔ بخارا نے 707 ء اور سمرقند نے 712 ء میں مشرقی ترک خانانیت کے خاقان کو مدد کے لیے درخواستیں بھیجی تھیں اور ہربار ترک خاقان نے اپنے مشہور زمانہ جنرل اور بھتیجے کلتگین کی قیادت میں فوجیں بھیجیں، جن کو قتیبہ نے 707 ء میں بخارا اور مرو کے درمیان کسی مقام پر عبرت ناک شکست دی، لیکن 712 ء میں یہ پورے سغد پر قبضے میں کام یاب رہیں۔ صرف سمرقند کا شہر مسلمانوں کے پاس رہ گیا۔

713 ء میں قتیبہ پھر غراتے شیر کی مانند حملہ آور ہوا اور ان ترکوں کو سغد کے علاقے سے نکال دیا گیا۔ قتیبہ نے غورک کو ایک ماتحت بادشاہ کے طور پر سمرقند میں برقرار رکھا مگر شہر میں ایک فوجی چھاؤنی بھی قائم کردی۔ 713 ء میں ہی اس نے تاشقند جو اس زمانے میں شاش کے نام سے مشہور تھا، اس کے مقابلے پر فوجیں بھیجیں اور خود براستہ خجند، فرغانہ کی طرف روانہ ہوا۔ اسی سال یا اگلے سال وہ تاشقند میں تھا اور یہاں سے اس کی فوجیں پیش قدمی کرتی ہوئی طارم طاس میں چین کے سرحدی شہر کاشغر تک جا پہنچیں اور یہی وہ اہم سفارت تھی جو کہ چینی بادشاہ کی فرمائش پر مسلمان سپہ سالار قیتبہ بن مسلمؒ کی طرف سے بھیجی گئی۔

چین کو مغربی ترک خانانیت اور تبت کے حملوں کا بھی سامنا تھا، پچھلے 30 سالوں سے ان کا اقتدار عورتوں کے ہاتھوں میں تھا اور اقتدار کی گمبھیر کشمکش چل رہی تھی، جس کی وجہ سے وہ عسکری محاذ پر کوئی قابل قدر پالیسی بنانے سے قاصر رہے اور وہ ہر محاذ پر سیاست کا سہارا لے رہے تھے۔

قتیبہ کے حملوں پر بھی ان کا جواب ان کے اندرونی سیاسی انتشار کی نشان دہی تھی۔ مگر 712 ء میں نئے حکم راں شوانگ –زونگ کے برسراقتدار آتے ہی ان کی آنکھوں میں کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کرنے کا خواب لہرانے لگا تھا۔ شوانگ –زونگ پرعزم بادشاہ تھا۔ فرغانہ کے جس بادشاہ کو قتیبہ کے سامنے 712 ء میں راہ فرار اختیار کرنی پڑی تھی۔

اس نے طارم طاس میں ریاست کوچہ میں پناہ لی اور وہ چینی شہنشاہ سے باربار مدد کی درخواست کررہا تھا۔ 715 ء میں قتیبہ کے قتل کے ساتھ ہی مسلم اقتدار ماورالنہر میں کم زور پڑنے لگا تھا، جس کا فائدہ اٹھا کر اس کو دوبارہ فرغانہ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔ خطے میں طاقت کی بدلتی صورت حال کو دیکھ کر بخارا کا شہنشاہ تخذادہ جسے عربوں نے تخت پر بٹھایا تھا، وہ بھی چینی بادشاہ سے مدد اور مداخلت کی درخواست کررہا تھا، تاکہ عربوں کے اثرونفوذ سے چھٹکارا پا سکے۔

سمرقند کا حکم راں بھی جو کہ عرب بالادستی کو قبول کرنے پر مجبور تھا ایسی ہی خفیہ درخواستیں چینی بادشاہ کی خدمت میں ارسال کررہا تھا۔ اور طخارستان کا ترک حکمراں جس کا لقب یبغو تھا، وہ بھی چینی بادشاہ کی مدد کا طالب تھا۔ ان تمام درخواستوں کے باوجود چینی حکم راں اپنی اندرونی سیاست اور ان گنت بیرونی محاذوں کی وجہ سے خلافت بنوامیہ سے ٹکر مول لینے پر تیار نہ ہوا۔ امدادی درخواستوں کے جواب میں محض تحفے و تحائف اور نئے القابات روانہ کیے گئے۔ چین کی فوجی مدد نہ آئی، لیکن ایک ترک سردار “سو-لو” جو کہ ترکوں کے ترگش خانوادے کا خاقان تھا۔

اس نے ان خطوں کے بھیجنے والوں کی بھرپور مدد کی اور عرب اقتدار کے خلاف 728 ء میں بخارا میں عظیم بغاوت پھوٹ پڑی اور 730 ء میں سمرقند کے بادشاہ نے بھی ترگش خاقان کی مدد سے بغاوت کردی، جس کو عربوں نے 737 ء میں دوبارہ فتح کیا۔ لیکن چین اس کے باوجود ان جھگڑوں سے تبتی اور مشرقی خاقانیت کے مسئلوں کی وجہ سے دور ہی رہا۔

737 ء میں چینی فوج نے تبتیوں کو کوکو –نور ( Nor Koko ) کے پاس عبرت ناک شکست دی اور 746 ء میں چینی جنرل وانگ –چنگ – سو ( Tsu Chung Wang) کی قیادت میں ایک بار پھر اسی طرح کی شکست کا اعادہ ہوا۔ تبت کے ساتھ وجہ تنازعہ شی –پو – چنگ (shi pu cheng) کا قلعہ تھا جو کہ چین نے تبت سے چھینا تھا اور پھر یہ دوبارہ تبت کے قبضے میں چلا گیا۔ یہاں تک کہ 749 ء میں دوبارہ چین کے قبضے میں آگیا۔ تبت کی دوسری طرف تبتی جنگجو کوہ پامیر میں چین کی باج گذار چھوٹی ریاستوں گلگت (پاکستان) بلتستان اور واخان کو نشانہ بنارہے تھے۔

شاہراہ ریشم کا وہ علاقہ جو کہ چین کو ہندوستان کے ساتھ جوڑتا تھا، وہ انہی ریاستوں سے ہوکر گزرتا تھا۔ کشمیر کا بدھ مہاراجا چندرا پدا اور مکتا پدا (سنسکرت نام) بھی چین کے قابل اعتماد اتحادی تھے اور تبت کے ان حملوں کے خلاف اس کے شریک کار۔ تبت کے جنگ جوؤں نے اس کے باوجود گلگت پر قبضہ کرلیا اور چین کو طارم طاس کی ریاست کوچہ سے شاہی جنرل کاؤ –شین –چی ( kao sien-chih ) کی قیادت میں ایک لشکر بھیجنا پڑا۔ جنرل کاؤ کی قومیت کورین تھی۔

اس نے حیرت انگیز طریقے سے کوہ پامیر کے بلندو بالا پہاڑی سلسلے کو عبور کیا اور گلگت میں گھس کر تبت کے وفادار بادشاہ کو تخت سے اتار دیا۔ 749 ء میں طخارستان کے بدھسٹ ترک یبغو “سری منگلا”نے بھی جو کہ قندوز کا فرماںروا تھا، چینی بادشاہ کو ان تبتی گروہوں کے خلاف مدد کے لیے پکارا جو گلگت اور کشمیر کے درمیانی راستوں کو کاٹ رہے تھے۔

چینی جنرل کاؤ نے ایک بار پھر کوہ پامیر کو عبور کرکے750 ء میں ان تبتی جنگ جوؤں کو عبرت ناک سبق سکھایا۔ کاؤ کے ان کارناموں کی شہرت پورے وسط ایشیا میں پھیل گئی اور چین کا اقتدار پھر سے مستحکم ہوگیا۔ اب وہ طارم طاس، وادی ایلی، اسیق کول کے مالک تھے، تاشقند ان کا باج گذار تھا اور طخارستان ان کے زیرعافیت تھا اور سلطنت کوچہ میں بیٹھ کر جنرل کاؤ ان علاقوں کا نظام سنبھالتا تھا۔

مغربی سمت میں طلاس (موجودہ قازقستان جس کا نام قازقستان اور کرغیزستان کی سرحد پر بہنے والے دریائے طلاس کی نسبت سے ہے) کا شہر ان کے اور عباسی خلافت کے درمیان سرحد کی حیثیت اختیار کرگیا۔ مگر یہ سب کچھ ایک دم بکھر کر رہ گیا۔

تاشقند کا ترک فرماںروا جو کہ چینی سلطنت کو مسلسل خراج ادا کررہا تھا، اس کے باوجود جنرل کاؤ نے 750 ء میں اس پر غیرذمے داری کا الزام لگا کر اس کا سر قلم کردیا اور اس کے خزانے پر قبضہ کرلیا۔ اس کا یہ عمل ایک بغاوت کو جنم دینے کا سبب بن گیا۔ مقتول بادشاہ کے بیٹے نے قرلوق ترکوں سے مدد کی درخواست کی جو کہ ایغوروں کے ساتھ مل کر مشرقی ترک خاقانیت کو سنبھال چکے تھے۔ ایسی ہی ایک مدد کی درخواست اس نے سغد میں مقیم اسلامی فوجوں کے سربراہ زیاد ابن صالح کو بھی بھیجی جو نئی عباسی خلافت کے ماتحت تھا، جس کو قیام پذیر ہوئے ابھی صرف ایک سال ہی ہوا تھا۔ ابن الاثیر اس جھگڑے کی تفصیل فراہم کرتے ہیں:

113″ہجری میں اخشید فرغانہ اور الشاش (تاشقند) کے بادشاہ کے درمیان ایک جھگڑا پھوٹ پڑا۔ اخشید نے شاہ چین سے مدد طلب کی جس نے ایک لاکھ فوج کے ساتھ اس کی مدد کی۔ انہوں نے تاشقند کے بادشاہ کا محاصرہ کرلیا۔ تاشقند کے بادشاہ نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس بات کی اطلاع ابومسلم خراسانی (خراسان کا پہلا عباسی گورنر) تک بھی پہنچ گئی اور اس نے زیاد بن صالح کو ان کے مقابلے کے لیے بھیجا۔”

فرغانہ اور تاشقند کے درمیان سرحدی جھگڑا بڑا پرانا تھا۔ فرغانہ کے بادشاہ نے جس کا لقب اخشید تھا۔ چین سے مدد طلب کی اور مسلمان مورخین کے مطابق ایک لاکھ فوج اس کی مدد کے لیے روانہ کی گئی۔ چینی سلطنت بالآخر خلافت سے ٹکرانے کے لیے تیار تھی۔ چینی مورخین کے مطابق چینی فوج کی تعداد 30 ہزار تھی، جس کے مقابلے پر 2 لاکھ مسلمان فوج تھی۔ دونوں افواج کا بیشتر حصہ گھڑسواروں پر مشتمل تھا۔ چینی فوج کو زرہ پوش گھڑسواروں کی مدد بھی حاصل تھی اور قرلوق قبیلہ جو کہ ان کا اتحادی تھا وہ بھی چین کی طرف سے جنگ میں شریک تھا۔ امام ذہبیؒ مسلم فوج کے متعلق یہ تفصیل فراہم کرتے ہیں:

“یعقوب الفوصی نے ہمیں بتایا کہ 134 ھ میں چین کے حکم راں کی طرف سے ایک عظیم نقل و حرکت کا آغاز ہوا۔ زیاد بن صالح اس وقت سمرقند میں تھا، یہ خبر اس کو ملی کہ چین ایک لاکھ فوج کے ساتھ پیش قدمی کررہا ہے اور ترک دستوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

زیاد بن صالح نے اس کی اطلاع مرو میں ابو مسلم خراسانی کو بھیج دی اور اپنے فوجی دستوں کو تیار کرنے لگا۔ ابو مسلم بھی مرو میں اپنے فوجی دستوں کو تیار کرنے لگا اور طخارستان سے خالد بن ابراہیم بھی اپنی فوجی دستوں کو لے کر آگے بڑھا۔ خراسان کا فوجی دستہ شوال 134 ھ میں سمرقند پہنچا جس کے ساتھ 10 ہزار فوج تھی۔ زیاد بن صالح اس مشترکہ فوج کی قیادت سنبھالے روانہ ہوا اور الشاش کے دریا (سردریا) کو عبور کرگیا۔

چینی فوج پہلے ہی پیش قدمی کرچکی تھی اور سعد بن حمید کی فوج کو گھیرے میں لیا ہوا تھا مگر زیاد کی فوجوں کی خبر پاکر وہ فرار ہوگئے۔ چین کی پہاڑیوں کے فرماںروا (جنرل کاؤ مراد ہے ) نے تلاخ کے قصبے پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ زیاد اس کی طرف بڑھا، فوجی ترتیب یہ تھی کہ اس نے تیراندازوں کو اگلی صف میں متعین کیا، نیزہ بردار ان کے پیچھے تھے اور ان کے پیچھے گھڑسوار فوج اور سب سے آخر میں پیادہ فوج۔ دونوں فوجوں میں وحشیانہ ٹکراؤ شروع ہوا ور رات تک لڑائی ہوتی رہی۔”

ابن الاثیر کا کہنا ہے کہ “دونوں فوجوں کا ٹکراؤ دریائے طلاس پر ہوا۔ “معرکے کی زیادہ تفصیلات میسر نہیں۔ چینی مورخین کے مطابق لڑائی پانچ دن چلتی رہی۔ مسلم مورخین دنوں کی حتمی تعداد نہیں بتاتے مگر دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جنرل کاؤ اور اس کی چینی فوج کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ وہ ہزاروں مقتولین میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگے۔

چینی مورخین شکست کی وجہ ان قرلوق ترکوں کو بتاتے ہیں جو کہ دوران جنگ چینی فوج کو چھوڑ کر کسی وجہ سے مسلم فوج کے ساتھ مل گئے اور چینی فوج کے پہلو پر حملہ کردیا، لیکن یہ بیان اتنا مستند نہیں۔ قرلوق نے غداری کی تھی یا نہیں؟ اس کا حتمی جواب ملنا مشکل ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہر مغلوب فوج کی طرح چینیوں نے یہ کہانی اپنی عبرت ناک شکست کو چھپانے کے لیے بنائی ہو۔

ابن الاثیر کا کہنا ہے کہ “جنگ میں 50 ہزار چینی فوجی مارے گئے اور 20 ہزار کو قیدی بنا لیا گیا۔ ” امام ذہبیؒ فوجی نقصان کے بارے میں نہیں بتلاتے ان کا کہنا ہے کہ “لڑائی سارا دن چلتی رہی۔ یہاں تک کے غروب آفتاب کے وقت اﷲ نے چینیوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ راہ فرار اختیار کرگئے۔ ” جنگ کی شدت اور نقصان کے بارے میں اگر ان بیانات کو قبول کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جنگ کئی دن چلی ہوگی۔ جنرل کاؤ بہت کم فوجیوں کے ساتھ اپنی جان بچانے میں کام یاب ہوا اور چین کا اقتدار وسط ایشیا کی سیاست سے اگلے ایک ہزار سال تک موقوف ہوگیا۔

مسلمان فوج نے بھی اس عظیم فتح کے باوجود طارم طاس کے علاقے میں مزید پیش قدمی نہ کی۔ رسد کی لائن بہت لمبی ہوچکی تھی اور طارم طاس کے صحرا کو عبور کرکے آگے جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔ جو چینی قیدی پکڑ کر مسلم سرزمین پر لائے گئے ان میں ڈو –ہوان ( Huan Du) نامی ایک قیدی بھی تھا، جس کو دس سال مسلم سرزمینوں پر بِتانے پڑے۔ 762 ء میں چین واپسی پر اس نے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب لکھی جس کے چند اجزاء چین کی شاہی تاریخی دستاویزات کا حصہ بن گئے۔ وہ آج سے 1300 سال پہلے کے اسلام اور اسلامی معاشرے کا نقشہ یوں کھینچتا ہے:

” ان کے دارالحکومت کا ایک اور نام کوفہ ہے۔ عربوں کا امیر مومن (امیر المومنین مراد ہے) کہلاتا ہے اور وہ اس مقام پر مقیم ہے۔ اس علاقے کے مرد و عورت بہت خوب صورت اور لمبے قد کے ہیں۔ ان کے کپڑے دیدہ زیب اور اجلے ہوتے ہیں اور ان کا طریق ہائے زندگی بہت ہی شان دار ہے۔ جب ایک عورت کو باہر جانا ہوتا ہے تو چاہے وہ بڑے خاندان کی ہو یا چھوٹے کی اس کو اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانپنا ہوتا ہے۔ وہ ہر روز پانچ دفعہ عبادت بجا لاتے ہیں۔ وہ گوشت کھاتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور جانوروں کو ذبح کرتے ہیں (یعنی جھٹکا نہیں کرتے )۔ وہ اپنی کمروں کے اردگرد چاندی کی پٹی باندھتے ہیں جس سے خنجر لٹک رہے ہوتے ہیں۔ وہ شراب نہیں پیتے اور نہ موسیقی سنتے ہیں۔ جب وہ آپس میں اکھٹے ہوتے ہیں تو جھگڑتے نہیں۔ ان کے ہاں ایک بہت بڑی عمارت بھی ہے جس میں ہزاروں افراد سما سکتے ہیں۔

ہر ساتویں دن ان کا بادشاہ مذہبی رسوم سرانجام دینے کے لیے باہر آتا ہے (نماز جمعہ کا خطبہ) وہ ایک بلند منبر پر چڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ “زندگی بہت دشوار ہے اور نیکی کا راستہ آسان نہیں ہے، بدکاری (زنا اور فحاشی) گناہ ہے، لوگوں کو باتوں کے ذریعے دھوکا دینا چوری یا ڈکیتی کا کم از کم درجہ ہے، اپنے مفاد کے لیے دوسرے کو برباد کرنا، غریبوں کو دھوکا دینا اور مجبوروں کو ستانا، ان سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہے۔ جو لوگ میدان جہاد میں اﷲ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہ جنت میں جاتے ہیں۔

ﷲ کے دشمنوں سے قتال کرو تم جنت میں جاؤ گے۔ ان کی پوری سرزمین بدل چکی ہے ہر کوئی (شریعت کی پابندی ) ایسے کرتا ہے جیسے دریا اپنے کناروں سے باہر نہیں آتا۔ شریعت کا نفاذ انتہائی نرمی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور مردوں کو عزت و احترام کے ساتھ دفنایا جاتا ہے۔ چاہے چھوٹا شہر ہو یا بڑا اس ملک کے لوگ دنیا کی ہر نعمت رکھتے ہیں۔ ان کا ملک دنیا کا مرکز ہے جہاں ہر طرح کی اشیاء بہ افراط اور سستے داموں مل جاتی ہیں۔ موتی و جواہرات اور روپیوں سے ان کی دکانیں بھری ہوئی ہیں اور اونٹوں، گھوڑوں، خچروں پر مال لدا ہوا آتا اور ان جانوروں کی کثرت سے گلیاں و بازار بھرے ہوئے ہیں۔”

کچھ مغربی مورخین و محققین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسی جنگ میں جو چینی ہاتھ آئے انہوں نے مسلم سرزمینوں پر کاغذ بنانا سکھایا مگر یہ دعویٰ اتنا درست نہیں۔ عرب اس سے پہلے ہی کاغذ کا استعمال کررہے تھے اور اسے بنانے کے طریق کار سے بھی آگاہ تھے۔ اس جنگ نے پورے وسط ایشیا پر اسلامی جوش جہاد کو ایک بار پھر غالب کردیا اور وہ ریاستیں جو یہ سمجھ رہی تھیں کہ چین اسلامی خلافت کے خلاف ان کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے سکتا ہے ان کی امیدیں خاک میں مل گئیں اور وسط ایشیا میں اسلام کا فروغ اور زور پکڑ گیا۔

چینی جنرل کاؤ 755 ء میں اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے دوبارہ فوجی تیاری کررہی رہا تھا کہ خود چینی سلطنت میں عظیم الشان بغاوت پھوٹ پڑی جس کو کچلنے کے لیے چین کو طارم طاس کے علاقے سے بھی فوجیں نکالنی پڑیں۔ جنرل کاؤ معہ ایک اور فوجی جنرل کے چین کے بادشاہ کے من پسند خواجہ سرا کے غیض و غضب کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ عظیم روسی مورخ بار تھولڈ کے مطابق”معرکہ طلاس نے ہمیشہ کے لیے فیصلہ کردیا کہ وسط ایشیا میں کس تہذیب کا غلبہ رہے گا اسلامی تہذیب کا کہ چینی تہذیب کا۔”

(اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل تاریخی مآخذ سے مدد لی گئی ہے “کامل ابن الاثیر حصہ اول اور دوئم مطبوعہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن اردو ترجمہ “۔ تاریخ طبری حصہ پنجم مطبوعہ نفیس اکیڈیمی اردو ترجمہ “تاریخ اسلام از امام ذہبی۔

” Arab conquest of Central Asia by Edward Gibbon ”

“On the knowledge of Ancient Chinese of the Arabs and Arabian colonies by E.Brestschneider, MD”

“The First Chinese travel record on the Arab world Published by Shah Faisal research institute Saudia”

“Seeing Islam as other saw it by Robert Holyand

اس کے علاوہ یہ نئی آنے والی کتاب “خانہ بدوش” کا بھی ایک حصہ ہے جو کہ وسط ایشیا میں مسلمانوں، ہنوں، ترکوں اور چینیوں میں برپا ہونے والی کشمکش کا حال بیان کرتی ہے۔

The post  معرکہ طلاس appeared first on ایکسپریس اردو.

ماحولیاتی آلودگی اورحکومتی اقدامات

$
0
0

 لاہور: محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے مون سون کے آخری دنوں میں بارشوں کا زیادہ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے، ماضی میں ستمبرکے مہینے میں حالیہ بارشوں سے کہیں زیادہ ریکارڈ کی گئی ہیں، اس ماحولیاتی تبدیلی کی بڑی وجوہات فضائی آلودگی ہے، بلین ٹری منصوبے، یوروفیول کے استعمال اوردیگرحکومتی اقدامات کے نتیجے میں آلودگی کو مزید بڑھنے سے روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کی بڑی وجوہات میں درختوں اورجنگلات کی بے تحاشا کٹائی، فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی شرح، آبادی میں اضافہ، انڈسٹری اورگاڑیوں کا دھواں، ایئرکنڈیشنر اور ریفریجریٹرز سے خارج ہونے والی گیسوں کا اخراج ہیں۔

محکمہ موسمیات کے اعدادوشمارکے مطابق اگست رواں سال کا چوتھا گرم ترین مہینہ تھا۔اس مہینے میں زیادہ سے درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ کم سے کم 26 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، اوسط درجہ حرات 30 اعشاریہ چار ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈکیاگیا۔ ستمبرمیں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 35 جبکہ کم سے کم 24 ڈگری سینٹی گریڈ رہا ہے۔ مون سون سیزن میں ستمبر کے مہینے کے دوران ابتک اوسط 73 ملی میٹربارش ریکارڈ کی جاچکی ہے۔ ماہرین کے مطابق آئندہ سال 2022 میں لاہور میں اگست میں درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ 37 اعشاریہ 7 جبکہ کم سے کم 26 اعشاریہ ایک اوراوسط 29 اعشاریہ 7 ڈگری سینٹی گریڈ رہنے کا امکان ہے۔

محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈائریکٹر نسیم الرحمان نے بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلی نے ناصرف پاکستان بلکہ پوری دنیاکومتاثرکیا ہے اوریہ ایک گلوبل ایشوبن چکا ہے۔ ہم اگرپاکستان کی بات کریں تویہاں ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں بلین ٹری منصوبہ، اینٹوں کے بھٹوں کی زگ زیگ میتھالوجی پر منتقلی، یورو5 فیول کا استعمال، ائیرکنڈینشنر اور ریفریجریٹرزمیں سی ایف سی ٹیکنالوجی کااستعمال ہے۔ اسی طرح گاڑیوں میں یورواسٹینڈرڈ انجن استعمال ہورہے ہیں جس سے سے گاڑیوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں کے اثرات بتدریج کم ہورہے ہیں۔ بڑی گاڑیوں میں یوروفیول کا استعمال ایسے ہی ہے جیسے چھوٹی گاڑیوں میں سی این جی استعمال کی جارہی ہے.

نسیم الرحمان کہتے ہیں پاکستان سمیت دنیابھرمیں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لئے جواقدامات اٹھائے جارہے ہیں ان کے نتیجے میں اوزون کی سطح میں جوسوراخ پیداہورہے تھے وہ واپس بھرناشروع ہوگئے ہیں لیکن یہ مکمل ہونے میں کئی سال لگیں گے۔ انہوں نے بتایا اس وقت پاکستان میں سی ایف سی ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے لیکن 2040 تک ہم نے ایچ سی ایف سی ٹیکنالوجی کولازمی طورپرلاگوکرنا ہے۔ آنیوالے دس ،پندرہ برسوں میں ماحول میں بہتری آئے گی.

ماہرماحولیات ڈاکٹر نعیم مرتضٰی کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیاں نوشتہ دیوار ہیں جس سے دنیا کا کوئی ملک انکار نہیں کرسکتا۔ آج 2021 میں فضاء میں کاربن کی شدت تقریبا 419 پارٹس فی ملین تک جاچکی ہے ،یہ شدت تاریخ میں 300-350 سے زیادہ نہیں تھی ۔اس وقت زمین کا درجہ حرارت ایک سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ اگر ہم آسان الفاظ میں سمجھنا چاہیں تو حالیہ کچھ عرصہ میں امریکا، آسٹریلیا اور ترکی کے جنگلات میں لگنے والی آگ، بحراوقیانوس اور چین میں آنے والے سیلاب اور پچھلے سال پاکستان بھارت میں ٹڈیوں کا حملہ انہیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے ثبوت ہیں اور اس کے نقصانات ہم دیکھ رہے ہیں۔

ڈاکٹر نعیم مرتضٰی نے بتایا ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اس وقت دنیا ایک ہنگامی صورتحال سے دوچار ہے اس سے نمٹنے کے لئے تمام ممالک چاہے ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا پڑے گی۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں سے ایک ہے، 1994 سے پاکستان میں کاربن کا اخراج 123 فیصد تک بڑھا ہے اور گرین گیسوں کے اخراج میں ہر سال مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اگر پاکستان نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے ہنگامی اقدامات نہ کئے تو 2030 تک زندگی گزارنے کے لئے ناقابل برداشت ہوجائے گا۔ پاکستان کو گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی کرنے کے پروگراموں پہ توجہ دینے کے ساتھ ان پہ عملدرآمد کی بھی اشد ضرورت ہے۔ حکومت ایسے اقدامات اٹھا رہی کہ 2030 تک گرین گیسوں کے اخراج میں 20فیصد تک کمی لائی جائے۔ ملک میں 25 فیصد تک جنگلات میں اضافے سے 40 فیصد تک کاربن کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کے سماجی و معاشی حالات پر مجموعی طور پہ ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات دیکھتے ہوئے عوامی سطح پہ آگاہی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم سب نے ملکر ماحولیاتی تبدیلی کے ماحول اور معیشت پہ اثرات کو سمجھنا ہے اسی طرح پاکستان ان مشکل ماحولیاتی حالات پر قابو پا سکتا ہے اور پائیدار مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے۔

The post ماحولیاتی آلودگی اورحکومتی اقدامات appeared first on ایکسپریس اردو.

شی جن پھنگ چینی عوام کے خوابوں کو تعبیر دے رہے ہیں

$
0
0

بیجنگ: چینی روایتی تہوار وسطِ خزاں کا تہوار آرہا ہے۔ اس تہوار کے موقع پر جیسے چاند پورا ہو جاتا ہے، چاند کے آہستہ آہستہ مکمل ہونے کی طرح چینی عوام کے خواب بھی مکمل ہو رہے ہیں۔

کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے قیام کی 100 ویں سالگرہ کے سال کے موقع پر چین میں جامع اعتدال پسند معاشرے کی تکمیل ہو چکی ہے۔ یہ سال چین کے چودہویں پنچ سالہ منصوبے کے آغاز کا سال بھی ہے۔ یہ سال ماضی اور مستقبل کا سنگم ہے اور چینی قوم کے اپنے خواب کے حصول کی راہ میں ایک اہم سنگ میل کا سال بھی ہے۔

یکم جولائی 2021 کو کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے قیام کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر، چینی صدر مملکت شی جن پھنگ نے سی پی سی اور عوام کی جانب سے پوری دنیا کے سامنے اعلان کیا: ’’سی پی سی اور تمام نسلی گروہوں کے لوگوں کی مسلسل جدوجہد کے ذریعے، ہم نے اپنا پہلا صد سالہ ہدف حاصل کر لیا ہے اور چین کی سر زمین پر ایک جامع اعتدال پسند معاشرے کی تعمیر کی ہے۔‘‘

شی جن پھنگ نے مرکزی حکومت کے غربت کے خاتمے کے کام پر 7 مرتبہ سمپوزیم کی صدارت کی ہے اور غربت کے خاتمے کے کام پر 50 سے زائد مقامی تحقیقات کی ہیں جبکہ 14 انتہائی غریب علاقوں کا سفر کیا ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 18 ویں قومی کانگریس کے بعد سے، شی جن پھنگ نے ہمیشہ چین کی ایئرو اسپیس انڈسٹری کی ترقی کو بہت اہمیت دی ہے اور کئی مواقع پر اہم ہدایات جاری کی ہیں تاکہ چین کی ایئرو اسپیس انڈسٹری کو مسلسل چوٹی پر چڑھنے اور نئی بلندیوں تک پہنچانے کےلیے رہنمائی کی جائے۔

ایک صدی کے اولمپک خواب نے چینی قوم کی جدوجہد، خوشحالی اور ترقی کا مشاہدہ کیا ہے۔ 2021 میں پہلے اندرون ملک دورے میں، شی جن پھنگ سرمائی اولمپکس کے انعقاد کے مقامات پر آئے تاکہ تیاریوں کی پیش رفت اور آپریشنل گارنٹی کے بارے میں جان سکیں، جس سے چین کے اعتماد اور عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ چینی قوم سرمائی اولمپکس کی تیاریوں کو مسلسل آگے بڑھائے گی اور اپنے ہر وعدے کی تکمیل کرے گی۔

The post شی جن پھنگ چینی عوام کے خوابوں کو تعبیر دے رہے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ناگہانی حادثات سے تحفظ

$
0
0

ہماری رہائش یا قیام وہ مقام ہوتا ہے، جہاں ہم سب سے زیادہ سکون محسوس کرتے ہیں، جہاں ہر چیز ہماری خواہش اور ضرورت کے مطابق ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے گھر کے حوالے سے ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں.

گھر کے مسائل اور ضروریات کو پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ گھر محفوظ اور بہترین رہے، بعض اوقات کوئی غلطی یا بھول کسی حادثے کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ اس کے لیے بطور خاص گھر کے سب افرا کو خیال رکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ ایسی کسی بھی ناگہانی سے بچا جاسکے۔

کبھی کبھی بظاہر چھوٹے سے نظر آنے والے حادثات جان لیوا اور عمر بھر کی معذوری کا باعث بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے احتیاط بہت ضروری ہے۔ اگر ذرا سی احتیاط کی جائے، تو بہت سے حادثات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ جیسے باورچی خانے کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہاں سے ہوا کا گزر ہو، کوئی روشن دان یا کھڑکی موجود ہو جہاں سے تازہ ہوا آئے اور باورچی خانے کا سینک کم ہوسکے اور خدانخواستہ کبھی گیس کھلی رہ جائے یا لیک ہو تو گیس جمع ہو کر کسی ناخوش گوار حادثے کا سبب نہ بنے۔

خواتین خانہ کو دھیان رکھنا چاہیے کہ چولھے وغیرہ کے پاس کبھی کوئی آگ پکڑنے والی چیز کپڑا یا پلاسٹک وغیرہ ہر گز نہ رکھیں۔ باورچی خانے میں  ایپرن ضرور استعمال کریں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے کپڑے اور بالخصوص دوپٹہ وغیرہ بہت زیادہ سنبھال کر رکھیں۔ ایپرن آپ کو چولھے سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ گرم تیل اور سالن کی اڑنے والی چھینٹوں سے بھی بچائے گا، بلکہ ابلتا ہوا دودھ، چائے، کافی یا گرم پانی کی بھاپ سے بھی محفوظ رکھے گا۔ بھانپ سے بھی جلا ہوا اچھی خاصی تکلیف کا سبب بن سکتا ہے۔

ایک اور چیز جو قدرے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے، وہ ہے کوئی بھی آتش گیر شے، جیسے پیٹرول، مٹی کا تیل، پرفیوم، کوئی بھی بیٹری، کولڈ ڈرنک کے ڈبے، انسیکٹ کلر اور ہر طرح کے اسپرے وغیرہ۔  ان اشیا کو ہمیشہ چولھے سے دور رکھنا چاہیے، ورنہ پریشانی بڑھ سکتی ہے۔

کبھی گرم تیل کی کڑاھی یا برتن میں اگر آگ بھڑک اٹھے، تو ہر گز پانی نہ ڈالیں، اس سے گرم تیل چھلکنے سے جلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے بہ جائے برتن پر ڈھکنا ڈھک دیں۔ آکسیجن نہ ملنے سے آگ خود بہ خود بجھ جائے گی۔ ہمیشہ مناسب روشنی میں کھانا بنائیں، تاکہ کسی بھی صورت میں خود کو محفوظ رکھ سکیں یا بہتر تدبیر کرسکیں۔

باورچی خانے کی صفائی اور غیر ضروری اشیا کو تلف کر کے بھی حشرات الارض اور دیگر کیڑے مکوڑوں کی مدافعت ممکن ہے، مگر جب چولھا بند ہو، تبھی کسی انسداد کیڑے مکوڑوں کی دوا چھڑکیں اور چولھا جلانے سے پہلے اسپرے کو باورچی خانے سے دور کہیں محفوظ جگہ پر رکھ دیں۔

باورچی خانے میں کھانا بناتے وقت یا بعد میں کھانے کے برتن کو ہمیشہ ڈھک کر رکھیں، تاکہ کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رہے۔ اس ضمن میں غفلت برتنا جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ کوشش کیجیے کہ کھانا بناتے ہوئے بار بار فریج نہ کھولیں، بہت دیر باورچی خانے میں رہنے سے کر آپ کے جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور فریج کھلنے سے ایک دم ٹھنڈ کا جھونکا ملتا ہے۔ درجہ حرارت کی یہ تبدیلی آپ کو بیمار کر سکتی ہے، یہاں تک کہ اسے فالج کا پیش خیمہ بھی کہا جاتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ کھانا بنانے سے پہلے آپ اپنی مطلوبہ تمام اشیا حسب ضرورت فریج اور فریزر سے باہر نکال لیں۔

باورچی خانے میں کام کرنے کے دوران کبھی پانی اور تیل گھی جیسی اشیا تھوڑی بہت گر جاتی ہیں۔ جس سے پھسلنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس لیے جلد از جلد انہیں صاف کر لیں۔ واش روم کی صفائی کے لیے اکثر تیزاب، کیمیکل، کیڑے مار ادویات، بلیچ اور فینائل جیسی چیزیں رکھی ہوتی ہیں۔ ایک تو انھیں کبھی ایسی کولڈ ڈرنک کی بوتل میں نہ رکھیں، جنہیں چھوٹے بچے کولڈ ڈرنک سمجھ کر پینے کے لیے متوجہ ہوں۔ دوسرا انہیں ایسی الماری میں رکھیں جو  لاک کیے جا سکیں اور مناسب اونچائی پر ہوں۔ اگر زیادہ اوپر رکھیں گی، تو اتارتے ہوئے آپ پر بوتل لڑھک کر گرنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

ایک بہت زیادہ رونما ہونے والا حادثہ واش روم میں پھسلنے کی وجہ سے ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہر سال سیکڑوں لوگ اپنے کولہے یا کمر کی چوٹ کی وجہ سے معذور ہو جاتے ہیں۔ بہت سی اموات بھی اسی بنا پر ہوتی ہیں۔ اس لیے اپنے واش روم کو ہمیشہ خشک رکھنے کی کوشش کریں۔ نہانے کے بعد فوراً وائپر سے پانی سُوت دیں۔ ساتھ ہی کوئی ربڑ کا پائیدان ڈال دیں اور اگر آپ کے گھر میں کوئی بزرگ ہیں، جنہیں سہارے کی ضرورت ہو، تو واش روم کی دیوار پر ان کے لیے ایک پائپ یا ہینڈل نصب کرا دیں۔

شیونگ ریزر اور بلیڈ کو مناسب اور محفوظ جگہ  پر رکھیں اور بچوں کی پہنچ سے دور ہو چھوٹے بچوں کو باتھ ٹب میں ہمیشہ اپنی نگرانی میں نہلائیں۔ نہلانے کے بعد ٹب کو خالی کر دیں اور کبھی بھرا ہوا نہ چھوڑیں۔ واش روم میں ایسا اسٹول رکھیں جس کے پائے متوازن اور مضبوط ہوں اور تھوڑے کھردرے ہوں، تاکہ وہ پھسلے نہیں۔ اسی طرح باورچی خانے میں چھُریاں وغیرہ کو بھی محفوظ مقام پر رکھنا چاہیے، تاکہ چھوٹے بچوں کی دست رس سے دور رہیں۔

برقی آلات کے تار، پلگ اور بجلی کے سوئچ بورڈز کو ہر صورت محفوظ بنائیں۔ خراب ہوں تو فوراً تبدیل کرالیں۔ گھر میں بچھا ہوا قالین پھسل رہا ہو تو اسے چپکالیں، کنارے اس طرح مڑ رہے ہوں جس سے پیر رپٹ جانے کا خدشہ ہو تو اسے فوری طور پر فرش سے چسپاں کریں۔ اپنے گھر کے فرنیچر اور سامان کو اس طرح سجائیں کہ وہ راستے میں نہ آئیں اور کسی کے پیروں میں ٹھوکر نہ لگے۔ الماریوں یا اونچی جگہوں پر ایسا سامان نہ رکھیں، جن کے لڑھکنے سے گر کر کسی کو چوٹ لگنے کا اندیشہ ہو۔

اگر آپ کے گھر کی سیڑھیوں کا فرش چکنا ہے، تو ان پر کارپٹ ڈال کر اسے محفوظ بنائیں اور ساتھ ہی ایک گرل کی ریلنگ لگوالیں، تاکہ اسے پکڑ کر بہ آسانی چڑھا اور اترا جا سکے۔ اکثر لوگ سردیوں میں گیس ہیٹر کا استعمال کرتے ہیں، سونے سے پہلے ایسے ہیٹرز کو بند کر دینا چاہیے۔ خدا نخواستہ رات کے کسی پہر  آگ بند ہونے سے گیس کمرے میں بھر جاتی ہے اور دَم گھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

اگر آپ کا فرش بہت زیادہ پھسلن والا ہے تو ربر کی ایسی کھردری جوتیاں پہنیں، جن کی وجہ سے آپ پھسلنے سے محفوظ رہ سکیں۔ اگر ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ذہن میں رکھیں تو ہم بہت سے حادثوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

The post ناگہانی حادثات سے تحفظ appeared first on ایکسپریس اردو.

تادیر تازہ رہیں غذائیں۔۔۔

$
0
0

منہ زور منہگائی میں محدود وسائل سے گھر چلانا بلاشبہ ایک فن ہے۔

خواتین خانہ کی کوشش ہوتی ہے کہ آمدنی تو بڑھ نہیں رہی، اس لیے گھر کے اخرا جات کو ہی کچھ کم کیا جا سکے، اس لیے وہ مختلف گھریلو اشیا کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

بہت سے ٹوٹکے اپناتی ہیں، جس سے اپنے گھریلو سامان اور کھانے پینے کی اشیا کو محفوظ رکھا جا سکے۔ اس حوالے سے کچھ کارآمد باتیں پیش خدمت ہیں، جن سے استفادہ کر کے بہت سے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔

٭ لہسن و پیاز اور آلو

پیاز، لہسن اور آلو کو محفوظ کر نے کے لیے کاغذکے بڑے بھورے لفا فے میں علاحدہ علاحدہ رکھیں اور اوپر کی جا نب ایک چھو ٹا سوراخ کر دیں اور کسی خشک اور کم روشنی والی جگہ پر رکھیں، جہاں ہوا کا گزر ہو، لیکن نمی نہ ہو۔

دوسرا طریقہ بہت پرانا، لیکن اب بھی سود مند ہے کہ آپ کسی بڑی جالی دار ٹوکری یا چھیکے میں پیاز یا لہسن بھر کر لٹکا دیں اس کے لیے بھی وہی شرائط ہیں کہ جگہ ہوا دار، نمی سے دور اور کم روشنی والی ہو۔ آلو کو ہمیشہ پیاز اور لہسن سے علیحدہ رکھیں، ورنہ دونوں چیزوں کے خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ کوشش کریں آلو، پیاز اور لہسن تینوں علیحدہ علیحدہ بیگ یا ٹوکری میں رکھیں۔

٭ ٹماٹر، لیموں اور ادرک وغیرہ

بہت سی خواتین موسم میں سستا ہو نے پر بڑی مقدار میں لیموں اور ٹماٹر محفوظ کرنا چاہتی ہیں۔ اس کے لیے آپ لیموں کا اچاراور ٹماٹر کی چٹنی بنا سکتی ہیں۔ ان کا رس نکال کر اور ٹماٹر کا آمیزہ بنا کر برف کے چھوٹے ٹکڑوں کی شکل میں جما سکتی ہیں اور اگر آپ کے پاس بڑا فریزر ہے، تو آپ فریزر میں رکھنے سے پہلے ثابت لیموں یا ٹماٹر پر ہلکے سے موم کی تہ چڑھا کر بھی اس کی تازگی کو محفوظ کر سکتی ہیں۔

جب ضرورت پڑے، ہلکے گرم پانی میں چند منٹ کے لیے ڈال دیں، موم پگھل کر نکل جائے گا اور آپ کو سارا سال تازہ لیموں اور ٹماٹر مل سکیں گے۔ ادرک، ہری مرچ  ہرا دھنیا، پودینا اور ساگ وغیرہ کو محفوظ رکھنے کے لیے بڑے کا غذی لفا فے میں الگ الگ لپیٹ کر فرج میں رکھ دیں۔ اس طرح یہ کئی دن تک محفوط رہیں گے۔

٭ مسالے، بیسن اور میدہ

مسالا جات، بیسن اور میدے جیسی چیزوں کو ہمیشہ ہوا بند ڈبے میں رکھیں۔ یہ سیلن سے جلد خراب ہوتے ہیں۔ ان ڈبوں کو جس الماری میں رکھ رہی ہیں۔ اس الماری میں سلیکون کی چھوٹی تھیلیاں ڈال دیں۔ تاکہ وہ نمی کو اپنے اندر جذب کر لے اور مسالے وغیرہ  محفوظ رہ سکیں۔

کھا نے پینے کی ہر چیز کو کسی ڈبے یا بو تل میں نکال کر رکھیں، جنھیں ڈھکنے سے بند کیا جا سکے۔ اس طرح بہت سے کیڑوں اور حشرات الارض سے حفاظت رہے گی، تھیلیوں میں جلد کیڑے یا سرسری پڑ جاتی ہے۔ فریزر میں منجمد چیزیں جب باہر نکال لیں، تو کوشش کریں کہ دوبارہ نہ رکھنا پڑے۔ بار بار فریزر سے نکالنے اور جمانے میں اس کھانے کی غذائیت ختم ہو جا تی ہے۔ فریج میں کوئی بھی پھل، سبزی، گوشت اور انڈے وغیرہ رکھنے سے پہلے ہمیشہ دھو کر خشک کرلیں، ورنہ ان پر موجود جراثیم دیگر کھا نے کی چیزوں میں شا مل ہونے کا اندیشہ ہے۔

باورچی خانے یا کھانے پینے کی چیزیں رکھنے کی جگہ پر کبھی بھی اخبار نہ بچھایئں، بلکہ خاکی کاغذ استعمال کریں، کیوں کہ  اخبار کی روشنا ئی سے کیڑے جلد متوجہ ہوتے ہیں۔

٭ چاول، دالیں اور اناج

چاول، گندم، دالیں  یا دیگر اناج محفوظ کرنا چاہیں، تو ان کی بوریوں کو خشک اور ہوا دار جگہ پر رکھیں، جن پر ہلکی پھلکی دھوپ بھی لگتی رہے، ان بوریوں میں نمی نہیں جانی چاہیے، لونگیں، تیز پات کے پتے اور ہلدی کی ڈلیاں بوریوں میں ڈال دینے سے بھی یہ اناج کیڑے سے محفوظ ہو جا تے ہیں۔

٭ نمکو ، بسکٹ اور دیگر خشک چیزیں

عموماً لوگ مہما نوں کی تواضع یا شام کی چا ئے کے لیے جو خشک لوازمات استعمال کرتے ہیں، ان میں سے کچھ حصہ بچ جاتا ہے، جو بعد میں سیل کر ذائقے سے اتر جاتا ہے۔ اسے محفوظ کر نے کے لیے اسے کسی ہوا بند تھیلی اور پھر ہوابند جار میں خشک جگہ پر رکھیں۔ جہاں نمی سے محفوظ رہ سکے۔ اس کے خستہ پن کو بڑھانے کے لیے ہر بار استعمال سے پہلے اوون میں گرم بھی کیا جا سکتا ہے۔

٭ مٹر  اور کھویا

مٹر محفوظ رکھنے کے لیے اسے چھیل کر دھو کر کچا یا ہلکا سا ابال کے پانی خشک کر یں اور ہوا بند چھوٹی چھوٹی تھیلوں کے پیکٹ بنا لیں اور فریز کر لیں اور اپنی ضرورت کے مطا بق پیکٹ نکال کر استعمال کریں، جب کہ کھوئے کو زیادہ عرصے تک محفوظ کرنے کے لیے اس میں چینی شامل کر کے فریز کرنا چاہیے۔ اس طرح اس کی تازگی زیادہ دن برقرار رہتی ہے۔

The post تادیر تازہ رہیں غذائیں۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>