گزشتہ رُبع صدی میں ہمارا سماجی مزاج اور اجتماعی رویے نمایاں طور پر تبدیل ہوئے ہیں۔ یہ عمل تو یقینا اس سے بہت پہلے شروع ہوا تھا، لیکن اس کے اثرات اور تبدیلی کے خطوط اس عرصے میں واضح ہوئے ہیں۔ یہ تبدیلی اس حد تک غیرمعمولی ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے پینتیس چالیس سال پہلے کی دنیا کا مشاہدہ عقل و شعور کے ساتھ کیا ہے، اُن کے لیے آج کی دنیا اجنبیت کا خاصا سامان رکھتی ہے، اور اس سامان میں رنج و ملال کی فراوانی ہے۔
اس لیے کہ رویوں کی اس تبدیلی میں ایسی ایسی چیزیں ہمارے یہاں راہ پاگئی ہیں جن کا اس سے پہلے اس معاشرے میں تصور بھی محال تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے ہمارے یہاں کوئی فرشتوں کا معاشرہ تھا، اور ہر وقت نور کی فضا قائم رہتی تھی۔ نہیں، اُس معاشرے میں بھی انسان ہی تھے۔ انسان خطا کا پتلا کہلاتا ہے۔ خیر و شر کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اُس معاشرے کے انسان بھی ایسے ہی تھے۔ اُن میں کم زوریاں اور خامیاں بھی تھیں، لیکن وہ خوبیاں بھی لازماً تھیں جن کی بنیاد پر انسانیت کا شرف قائم ہوتا ہے۔
اُس معاشرے کے افراد میں وضع داری، لحاظ، برداشت اور رکھ رکھاؤ کا چلن عام تھا۔ بڑے سے بڑے اختلاف کے باوجود فریقین ایک جگہ اکٹھے ہوسکتے تھے۔ ایک دوسرے کے مؤقف کو سن سکتے تھے۔ ایک دوسرے کو چھوٹ دینے اور گنجائش نکالنے پر آمادہ ہوجاتے تھے۔ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کی خوبیوں سے انکار نہیں کرتے تھے۔ سچائی کو جھٹلانے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے غیاب میں کیڑے نکالنے اور کردار کی نفی سے گریز کرتے تھے۔ یہ باتیں بہت تعلیم یافتہ اور مذہبی لوگوں کی زندگی سے مخصوص نہ تھیں، بلکہ معاشرے کے عام آدمی کے معمولات کا حصہ تھیں۔ پڑھے لکھے اور دین دار لوگ تو اور زیادہ اپنی ذمے داریوں کا خیال رکھتے تھے۔ عام آدمی اور دنیادار قسم کے لوگ بھی اپنے سماجی کردار سے غافل نظر نہیں آتے تھے۔ دین اور دنیا کے مابین ایسا بعد المشرقین نہ تھا جیسا آج دکھائی دیتا ہے۔
آج ہمارے یہاں دین اور دنیا کے سلسلے میں رویہ اِس حد تک بدل چکا ہے کہ دونوں الگ الگ سیاروں کے لوگ نظر آتے ہیں۔ معاشرے کا ایک طبقہ ایسا ہے جو دین و مذہب کے نام تک سے بیزار ہے، نعوذ باللہ۔ اب سے پہلے اور ہمارے معاشرے کے علاوہ بھی دنیا میں کتنے ہی سماج ایسے گزرے ہیں جہاں مذہب، اس کی تعلیم، پیغمبروں اور خدا کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
ایسے ایسے نازک اور باریک سوالات کہ جن کی حدیں کفر و الحاد سے ملی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اوروں کو تو چھوڑیے، خود ہمارے یہاں فلسفے کے لوگوں، عقل پرستوں اور ان سب سے بڑھ کر علم الکلام کے لوگوں نے جو کچھ مناظرے، مناقشے اور تحریریں ریکارڈ پر چھوڑی ہیں، ان میں کفر کا سامان کون سا کم ہے۔ تاہم ایسے خیالات، نظریات اور تصورات کے باوجود یہ سب لوگ بھی اپنے معاشرے میں عزت، عافیت اور سکون کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کے افکار و خیالات سے سخت اختلاف رکھنے والے لوگ بھی ان کی شخصی خوبیوں اور کردار کے حسن کو جھٹلانے اور گزند پہنچانے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ افسوس، آج ایسا نہیں ہے۔
وہ لوگ جو مذہب کو نہیں مانتے، آج ان کے یہاں ایک انتہا پسندی نظر آتی ہے۔ وہ دنیا جہاں کی ساری خرابیاں، عیب اور مسائل اُن لوگ میں بتاتے ہیں جو مذہبی رجحانات رکھتے ہیں۔ انھیں اللہ رسول کا نام لینے والا ہر شخص آج طالبان، داعش کا نمائندہ اور دہشت گرد نظر آتا ہے۔ معاشرے کے بگاڑ کی ساری ذمے داری وہ آج ان دین دار لوگوں پر عائد کرتے ہیں۔
دنیا میں امن و سکون کے لیے وہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ایسے سب لوگوں کو تہِ تیغ کردیا جائے، یا کم سے کم ساری زندگی کے لیے جیل میں بھیج دیا جائے۔ دوسری طرف دین داروں کے اپنے مسائل ہیں۔ وہ خود کو حق کا داعی جانتے ہیں اور جو اُن جیسا نہیں ہے، وہ ان کے نزدیک کفر و الحاد کا نمائندہ اور گردن زدنی ہے۔ ان دین داروں کے اپنے فرقہ وارانہ مسائل بھی ہیں۔ غرض یہ کہ آج ہم ایک نہایت پیچیدہ، انتشار کا شکار اور انتہا پسند رویوں سے مغلوب دنیا میں سانس لے رہے ہیں۔ اس دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ انتہا پسندی اور عدم برداشت ہے۔
پہلے دنیا دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم تھی۔ دائیں بازو والے مذہب پسند تھے اور بائیں بازو والے لامذہب، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ مذہب سے لاتعلق تھے۔ تاہم یہ تقسیم دراصل نظری اور عقلی تھی۔ دونوں طرف اپنی اپنی نوعیت کے دلائل تھے۔ وفاداری بشرطِ استواری کا منظر دونوں ہی طرف نظر آتا تھا۔ بحثیں بھی چھڑتی تھیں، اعتراضات بھی کیے جاتے تھے، لیکن ضرورت پڑتی تھی تو اجتماعی ضرورت یا مفاد کے لیے طرفین اکٹھے بھی ہوسکتے تھے۔ آج یہ وضع اور گنجائش نظر نہیں آتی۔ صورتِ حال یکسر بدل چکی ہے۔
آج دائیں طرف تقسیم در تقسیم کا عمل اس حد تک ہوچکا ہے کہ مرکزیت یا وحدت کا تصور ہی باقی نہیں رہا۔ اس تقسیم نے اتنے اور ایسے مسائل پیدا کیے ہیں، جن کا حل ممکن نظر نہیں آتا۔ بائیں بازو والے مذہب کو بے شک نہیں مانتے تھے، لیکن ان کے یہاں بھی ایک اخلاقی نظام تھا اور اُس کی قدروں کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ اُن کی پاس داری کی جاتی تھی۔
آج مادر پدر آزادی کا یہ حال ہے کہ نہ کسی کو قدروں سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی کسی اخلاقی ضابطے کا کوئی لحاظ۔ عدم برداشت کا عالم یہ ہے کہ اختلاف کو ذاتی مخالفت، بلکہ دشمنی سمجھا جاتا ہے اور دشمن کو صفحۂ ہستی سے مٹانا اپنی بقا کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ انتہا پسندی کے ایسے رویے نے آج ہمارے معاشرے میں گھٹن، خوف اور وحشت کو پھیلایا ہے۔ بے حسی، سفاکی اور بربریت کو فروغ دیا ہے۔ چناںچہ ہمارے یہاں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان اپنی بنیادی انسانی حیثیت اور اُس کے حقوق تک سے مکمل طور پر محروم ہوچکا ہے۔ پہلے لوگ زبان پر جان دیتے تھے۔ آن کو مال و متاع اور جاہ و منصب سے بڑھ کر سمجھا جاتا تھا۔ اصولوں پر سمجھوتے یا سودے بازی کا تصور تک حرام خیال کیا جاتا تھا۔ آج یہ باتیں اور لوگ کم یاب نہیں نایاب کے زمرے میں ہیں۔
ممکن ہے، نئی نسل کے لوگوں کے لیے یہ سب باتیں کسی خیالی دنیا کا نقشہ ابھارتی ہوں۔ خیر، انھیں کیا الزام دیجیے۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا ہی نہیں، اس کے لیے عین الیقین کے مرحلے تک وہ بھلا کیسے آسکتے ہیں۔ تاہم یہ بات ہم انھیں بتانا ضرور چاہتے ہیں، بلکہ ہمیں ضرور بالضرور بتانا چاہیے کہ ہماری عمر کے لوگ اپنے اطراف کی اس دنیا سے اگر اجنبیت محسوس کرتے ہیں، یا اس کے ساتھ ’مس فٹ‘ نظر آتے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے جو دنیا دیکھی اور برتی تھی، وہ اس سے بالکل مختلف تھی۔ اتنی مختلف کہ دونوں میں مماثلت ڈھونڈنا تو کجا، بلکہ صاف صاف مغائرت کا رشتہ نظر آتا ہے۔
یہ مغائرت اتنی شدید اور گہری ہے کہ یہ سمجھانا ممکن نہیں کہ محض چار دہائیوں کے عرصے میں اس معاشرے کی ایسی کایا کلپ ہوئی ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔ کچھ ایسا ہی ہوا ہے جیسے کوئی آپ سے کہے کہ کل جن درختوں کی شاخوں پر سیب کی فصل مہکتی تھی، آج اُن پر سیل فون اُگ آئے ہیں۔ یا کوئی آپ سے کہے کہ میرے پرسنل کمپیوٹر نے کل ایک لیپ ٹاپ کو جنم دیا ہے۔ لاحول ولا قوۃ کے سوا آپ اور کیا کہیں گے۔ یقین جانیے، یہ دنیا ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کچھ اسی طرح بدلی ہے۔
ہماری عمر کے لوگ عجیب مشکل سے دوچار ہیں۔ ہمیں جو زبان آتی تھی، آج اُس کے الفاظ کے معانی گم ہوچکے ہیں۔ جن رنگوں سے ہمارے مزاج کی تشکیل ہوئی تھی، اُن پر سیاہی پھر گئی ہے۔ جو رویے ہماری فطرتِ ثانیہ بن گئے تھے، آج وہ حنوط کی گئی لاشوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ اصول و فکر کے جن سانچوں میں ہمارا کردار ڈھالا گیا تھا، آج وہ کوڑے دان بن گئے ہیں۔ اصحابِ کہف کا ماجرا یہ تھا کہ وہ نیند سے بیدار ہوئے تو وقت اور سکۂ زر بدل چکا تھا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ نیند تو کیا، ہمیں پلکیں جھپکنے کی مہلت نہیں ملی اور ہمارے زمانے اغوا کرلیے گئے اور ہماری نسلیں رہن رکھ دی گئیں۔ وقت ہم پر آسیب بن کر ٹھہر گیا ہے۔ ہمارا ضمیر جاگتا ہے، مگر آواز سو گئی ہے۔ ہمارے اعصاب میں ارتعاش ہے، لیکن جان ساکت ہوگئی ہے۔ ہم ایک اجتماع ہیں، لیکن ہم ایک دوسرے سے صدیوں کے فاصلے پر ہیں۔ ہمارے پاس راحت کا سامان بڑھتا چلا جاتا ہے، لیکن ہماری روح جاں کنی کے اضطراب میں ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے، کیا واقعی ایسا ہے۔ جی ہاں، بالکل ایسا ہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ خود بتائیے کہ پھر ہم سے ہمارے بچے اتنے دور کیسے ہوتے، ہمارے اور اُن کے درمیان اتنا فاصلہ کیسے آسکتا تھا کہ ہم اپنی اولاد کے حال سے بے خبر ہوجاتے۔ اتنے بے خبر کہ ہماری میڈیکل کالج میں پڑھنی والی بیٹیاں اور انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کی اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرنے والے بیٹے دہشت گردوں کے آلۂ کار بن جائیں اور ہمیں احساس تک نہ ہو۔ اولاد تو ماں باپ کے جسم کی اور ان کی روح کی توسیع ہوتی ہے۔ اُس کی طرف گرم ہوا بھی بڑھے تو ماں باپ کو پہلے اندازہ ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کیسے ہوا کہ ہمارے بچے داعش اور انصار الشریعہ کے لیے کام کرنے لگے اور ہم اُن سے غافل رہے۔
صرف اس لیے کہ کپڑے، جوتے، موبائل، گھڑی اور کمپیوٹر دلا کر، تعلیمی ادارے کی فیس ادا کرکے اور گاڑی دے کر ہم نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارے بچوں کی سب ضرورتیں پوری ہوگئیں اور ہم نے اپنا فرض ادا کردیا۔ ہم نے یہ کیوں نہ سوچا کہ یہ سب اشیا اُن کی مادّی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہیں، لیکن اُن کی روحانی ضرورتیں بھی تو ہوں گی، ہمیں اُن کو بھی تو دیکھنا، سمجھنا اور پورا کرنا چاہیے۔ ہم نے یہ سمجھنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی کہ ہمارے بچے اپنے بارے میں، اپنے آس پاس کے لوگوں کے بارے میں اور اس دنیا کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ وہ اپنے باہر کے منظر کو اپنے اندر کی فضا سے کس طرح جوڑتے ہیں اور کس زاویے پر جوڑتے ہیں؟ ہمیں یہ خیال بھلا کیوں نہیں گزرا کہ ہمارے بچے علم و عمل کے جس دھارے کا حصہ ہیں، اُن کے دل و دماغ میں اس کی تعبیر کس طرح ہورہی ہے۔
یہ خیالات، سوالات اور یہ باتیں آخر اَن ہونی تھوڑی تھیں کہ ہمارے سان گمان میں نہ ہوتیں۔ ہم وقت گزار کے اور زندگی برت کے یہاں تک آئے تھے۔ یہ سب ہمارے شعور کے دائرے سے باہر کیسے رہ گیا؟ آخر ہمارے بڑوں نے بھی تو ہماری تربیت کی تھی۔ وقت، حالات اور زمانے کا ادراک کرایا تھا۔ رشتے سمجھائے تھے، جینا سکھایا تھا۔ سو، جو کچھ ہمیں دیا گیا تھا، وہ ہم ڈھنگ سے آگے منتقل کیوں نہ کرسکے؟ ہوائیں ہمیشہ سے رُخ بدلتی آئی ہیں، وقت چاہے فرد پر گزرے یا قوم پر، اس کی سب سے بڑی حقیقت تغیر ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو ہوا کے رُخ اور وقت کی موج کے آگے بے سہارا کیوں چھوڑ دیا؟ سوالوں کا ایک سلسلہ ہے کہ پورا استغاثہ ہے۔ ہمارا ذہن الجھا ہوا ہے۔ خیالات اور احساسات میں بہت اُتھل پتھل ہے۔ اندر ایک شور مچا ہوا ہے۔ کس کس مسئلے کا سامنا کیا جائے؟ کس کس سوال کا جواب دیا جائے؟ ویسے اب کوئی جواز اور کوئی جواب ہمارے پاس ہے ہی کب؟ ندامت اعصاب شل کیے دیتی ہے۔ احساسِ زیاں روح کو گھایل کیے جاتا ہے۔ خاموشی جائے پناہ ہے کہ پھانسی گھاٹ۔
ہم نے یہ ملک نظریاتی بنیاد پر حاصل کیا تھا۔ ہم ایمان کے اور آزادی کے ساتھ جینا چاہتے۔ روح اور جسم کو اکائی بنا کر زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ ایک سچی، باوقار اور بامعنی زندگی جو آئندہ نسلوں کو تابندگی اور پائندگی کی ضمانت دیتی ہے۔ ایسا مگر ہو نہیں سکا۔ اس لیے کہ ہم کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں کا جھولا جھلانے والے سیاست دانوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئے۔
ملک آدھا ہوگیا، لیکن ہمارے یہاں خواب بیچنے کا کاروبار ایسا چمکا کہ ہم حقیقتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا تک بھول گئے۔ پھر ہمارے یہاں مذہب بھی بکنے لگا، بلکہ سچ پوچھیے تو سب بڑی جنسِ بازار بن گیا۔ اس گرم بازاری کے زمانے میں ہم نے یقین بیچا، ایمان بیچا، عقائد بیچے، زمین بیچی، ضمیر بیچا، یہاں تک کہ اپنے بچے بیچنے اور آئندہ نسلوں کو اٹھا کر گروی رکھ دیا۔ یہ سب کچھ ہمارے یہاں اللہ رسول کے نام پر ہوا۔ دیانت کے نام پر دھوکے کا کاروبار، سچ کے نام پر جھوٹ کا کاروبار، دین کے نام پر دنیا کا کاروبار۔ ظاہر ہے، پھر تو اس کا یہی نتیجہ نکلتا تھا کہ ہمارے بچے دہشت گردوں کے آلۂ کار بنیں۔ وہ جنھیں ہم دنیا کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر شان سے جینا سکھانا چاہیں، وہ ہماری ہی صفوں کو کچلنے کی مہم کا حصہ بنیں۔ جنھیں ہم اپنی طاقت بنانا چاہیں وہی ہمارے پرخچے اڑانے والوں کے ساتھ جا کھڑے ہوں۔ جنھیں ہم اپنی سربلندی کا نشان بنانا چاہیں وہی ہمیں تنگ و تاریک گڑھوں میں دفن کرنے کا سامان کرنے لگیں۔
گفتگو تو اس پر بھی ہونی چاہیے کہ حالات کے یہاں تک آنے میں سیاست دانوں کا، اشرافیہ کا، محافظوں کا، مدارس کا، مذہبی جماعتوں کا، تعلیمی اداروں کا، ماں باپ کا، خاندان کا، سماجی نظام کا کس کس کا کتنا کردار رہا ہے، اور یہ گفتگو کھل کر ہونی چاہیے، جرأت اور سچائی کے ساتھ۔ ہاں، یہ کام الزام تراشی کے کھیل کے طور پر نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا مقصد حقائق کو سمجھانا اور اپنی ذمے داری، اپنے جرم کا اعتراف ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو ہماری آنکھیں اب بھی نہیں کھلیں گی، اور اگر اب نہ کھلیں تو پھر شاید کبھی نہیں کھلیں گی۔ ابھی اِکا دُکا واقعات منظرِ عام پر آئے ہیں، لیکن انھیں سرسری نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ اس زخم کو پورا کرید کر صاف کرنا چاہیے۔ معلوم نہیں کہ یہ زہر ہمارے اجتماعی وجود میں کہاں تک سرایت کرگیا ہے۔ اگر اب پوری طرح روک تھام نہ ہوئی تو پھر خاکم بدہن شاید اس کا دوبارہ تو موقع بھی نہ آئے۔
زندہ اور سربلند وہ قومیں رہتی ہیں جن کے افراد اور ادارے اپنی اپنی ذمے داریوں کو سمجھتے اور جاں فشانی سے نبھاتے ہیں۔ جن کی نسلِ نو کو اُن کی تہذیب، روایات اور اقدار کا شعور منتقل کرنے کا کام ماں باپ، خاندان، اساتذہ، تعلیمی ادارے اور سماجی نظام سب اپنی اپنی سطح پر تن دہی سے کرتے ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم نے بہت غفلت برتی ہے، اپنی ذمے داریوں سے، اپنے کاموں سے اور اپنی نسلِ نو سے سراسر غفلت برتی ہے۔ اے گردشِ ایام! لیکن بس اب اور نہیں۔ تیرا پہیا گھوم رہا ہے، لیکن ہم اب روندے جانے پر تیار نہیں ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو تیرے گھاٹ اتارنے پر اب راضی نہیں ہیں۔
نہیں، ہرگز نہیں!
The post دریچہ : اے گردشِ ایام! appeared first on ایکسپریس اردو.