(سندھی سے ترجمہ: نوشابہ نوش)
(پاکستان کی علاقائی زبانوں، خاص طور پر سندھی میں، بہت عمدہ ادب تخلیق کیا جارہا ہے۔ آج کی زندگی اور حالات کی تصویر پیش کرتے اس ادب کا بیشتر حصہ زبان کی رکاوٹ کے باعث اردو کے قارئین تک رسائی نہیں حاصل کرپاتا۔ اس صورت حال کے پیش نظر ہم سنڈے میگزین میں اعلیٰ معیار کی سندھی کہانیوں کے ترجمے کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ ان کہانیوں کو نوجوان قلم کار نوشابہ نوش نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔)
صبح مجھے محسوس ہوا کہ جیسے کچھ ہونے والا ہے یا ہوچکا ہے، جب کہ سب کچھ ویسے کا ویسا تھا جیسے ہر صبح ہوتا ہے۔ بچے اسکول کے لیے تیار ہوئے، نیلے، لال بیگ کاندھوں پر لٹکائے، تھرماس کے ساتھ چلے گئے۔
مجھے صبح کی یہ خاموشی کچھ مکینیکل لگی۔ بڑا بھائی ٹوتھ برش کررہا تھا اور بھابھی کچن میں کچھ تَل رہی تھیں کیوں کہ مجھے تیل پر چٹکنے کی آواز اور کچھ خوشبو سی محسوس ہوئی۔ گھر کے باہر روزانہ اسی وقت آنے والا فقیر اور اس کی صدائیں اور اس کے پیچھے سبزی والے کی آواز، وہی لہجہ اسی طرح ہمارے گھر کی صبح ہوا کرتی ہے۔ پہلے بھائی مجھ سے پوچھتا تھا، اب بھابھی سے پوچھ کر سبزی والے سے سبزی لیا کرتا ہے۔ پیاز، ٹماٹر، آلو اور کچھ کچن کا سامان کچن میں رکھ کر پھر نہانے کے لیے جاتا ہے۔ آج سبزی نہیں لی، پیسے نہیں ہوں گے یا ممکن ہے کہ گھر میں سبزی پہلے سے رکھی ہو۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سبزی نہ ہو اور پیسے بھی نہ ہوں اور سبزی لینے کا خیال آیا ہو، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب پیسے زیادہ ہوتے ہیں تو وہ سبزی نہیں خریدتے، پھر مجھے بھیجتے ہیں، مچھلی، گوشت، قیمہ یا سبزی کے لیے جو کہ روزانہ معمول سے مختلف ہوتی ہے یا پھر اگر کوئی مہمان آئے تب بھی وہاں سے نہیں لیتے۔ کوئی آرہا ہے کیا؟
کوئی آئے یا نہ آئے، مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کچھ ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں ایک ہی قسم کا خوف ہے، اگر ہوگا تو نحوست، غصہ اور رونا دھونا ہی لاتا ہے، وہی سوچ میرے اوپر ہر وقت حاوی ہے۔ حقیقت میں ایک کے پیچھے ایک ایسا ہی ہوا ہے جب پھپھو کی بیٹی مرگئی، بھانجی کا بازو ٹوٹ گیا، خالو گیس کے گولے کو جلارہا تھا تو آنکھ میں جلتی ہوئی تیلی لگ گئی تھی۔
اب تو دروازے کی دستک، فون کی گھنٹی، نیچے دھڑ سے سانس اوپر دم نکال دیتی ہے۔ رات سے یہ جملہ پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے،’’نوالے کے اوپر نوالے کھا رہا ہے…‘‘
نوالے کے اوپر نوالے کھائے جارہا ہے…
نوالے کے اوپر نوالے…‘‘
یہ چاچی نے اپنے بھتیجے کے لیے کہا، جو میڈیکل پاس کرنے کے بعد بے روزگار ہے۔ پرائیویٹ نوکری ایک مہینہ بھی نہیں چلتی ہے۔ مختلف جگہوں پر کلینک کھولا اور بند بھی کردیا۔ وہ رات صرف رات کا کھانا کھانے ہی گھر آتا ہے، پھر بھی اس کے نوالے گنے جاتے ہیں۔
میں بھی چھے مہینوں کے بعد ایم اے پاس کروں گا، رات کو جیب میں سے کاغذات نکالتے وقت دو سگریٹ اور گولیاں گرگئیں۔ گھر آیا پھر واپس گیا، جس گلی سے گزرا تھا وہاں دیکھتا گیا، مجھے کہیں نظر نہیں آئیں، جس جگہ کاغذات نکالے تھے وہاں بھی گیا۔ کچھ نظر نہ آیا۔ پورے بائیس روپے اچھے بھلے میرے پاس تھے جو گئے۔ دُکھ ہوا اور اس دُکھ نے مجھے گھر میں بیٹھنے نہیں دیا۔ پھر اسی جگہ پر آیا۔ پھر خیال آیا کہ شاید میں نے اچھی طرح نہیں ڈھونڈی ہوں گی۔ گولیاں بلسٹر پیکنگ میں تھیں، روشنی پڑنے پر ضرور چمکیں گی۔ وہاں جاکر ماچس کی تیلی جلانے کی کوشش کی، تیلی کو رگڑا، نہیں جل رہی تھی، دوسری بھی بس آگ کے معمولی شعلے کے بعد بجھ گئی۔ آخر کار کوئی تیلی جل نہ سکی تو واپس چلا آیا۔
آج کل لگ رہا ہے کہ میں غیراہم ہوں، اب میری کوئی اہمیت نہیں رہی ہے یا پہلے بھی اہمیت نہیں تھی یا ایسا ہوسکتا ہے کہ اماں تھیں تو اہمیت تھی، اماں کے جانے کے بعد اب میں اپنی اہمیت کم ہوتی محسوس کررہا ہوں، اس گھٹتی ہوئی اہمیت نے وہ سب کچھ مجھے محسوس کروایا۔
جب دوسرے سب اہمیت دیتے ہیں اور میں ان کی اہمیت کو اہم نہیں سمجھتا اور نہ ہی ان کی چاہت کو۔ اور اب ان کی اہمیت ہونے یا نہ ہونے کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا ہوں۔ زندگی کی اہم چیز تو زندگی کی بے ثباتی ہے جب اس پوری زندگی کو ثبات ہے ہی نہیں تو کسی چیز کے اہم ہونے اور نہ ہونے کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔
ہاں اسی طرح کی یا اس سے ملتے جلتے سوال کے جواب میں ڈاکٹر سے پہلے وزٹ پر بات ہوئی تھی۔ ’’جب ثبات ہے ہی نہیں تو اس کے معنی پر سوچنا فضول ہے۔ فضول اور بے معنی کو معنی دینا ہی اصل میں دھوکا دینا اور دھوکا کھانا ہے۔ ایسی بے ثباتی میں غیریقینی حالات میں ڈوبنا، تیرنا اور تیرنا ڈوبنا ہے، ایسی ہی اذیت ناک حالت ہے جس میں سے میں گزر رہا ہوں، جس کو میں نہ سمجھا سکتا ہوں اور نہ ہی کوئی سمجھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر نے گفتگو کا طویل سلسلہ شروع کیا جب وہ بات کررہا تھا تو میں کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ ڈاکٹر کے پاس جانا اور وہاں بیٹھنا۔۔۔ یہ صرف میں بھائی کی خوشی کے لیے کررہا ہوں، جو میرے بارے میں یہ سوچتا ہے کہ اماں کے جانے کا اثر دماغ پر طاری ہے۔
حقیقت میں مجھے دو باتیں تنگ کررہی ہیں۔ ایک تو نیند نہیں آتی، اگر سوتا بھی ہوں تو لگتا ہے میں نے نیند نہیں لی بالکل نہیں سویا۔ دوسری بات مجھے یہ تنگ کرنے لگی ہے کہ آنکھوں کے گرد دائرے ہیں، ان میں بھی دائرے ہیں۔ دائروں کے اندر اور دائرے نکلتے جارہے ہیں جیسے کہ پانی میں پتھر گرنے سے ایک ارتعاش پیدا ہوتا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح گول دائرے، سفید تو کبھی کالے ہیں۔ دوڑتے رہتے ہیں، دوڑتے رہتے ہیں۔
اور پھر دن میں آوازیں، سائلنسرز پھٹے ہوئے ہیں، کالے رکشاؤں اور گاڑیوں کے شور کے ساتھ لوگوں کی بھی آوازیں جو مسلسل بول رہے ہیں، چپ نہیں ہوتے اتنے رش اور شور کی وجہ سے درخت پر پرندہ تک نظر نہیں آتا۔ رات کے سکون میں بھی ایک اذیت ہے، خوف ہے، نہ جانے کس بات کا ڈر ہے، ایک بار نہیں اکثر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اماں نے دور سے آواز دی ہو اور باورچی خانے میں چلی گئی ہوں اور میں باورچی خانے سے برتنوں کی آواز بھی سنتا ہوں۔ ایک دفعہ اٹھ کر باورچی خانے میں بھی چلا گیا اور پیچھے سے بھائی آگیا۔
’’کیا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں!‘‘
’’پھر اس طرح کیوں اٹھ کر آئے؟‘‘
’’ویسے ہی!‘‘
’’کچھ چاہیے؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’کچھ بھی…؟‘‘
’’نہیں!‘‘
اور اس وقت کچھ بھی نہ تھا صرف دماغ ادھر کا ادھر ہوگیا تھا۔ آنکھوں کے آگے ایک نقطے سے کالے کالے گول دائرے نکل رہے ہیں اور گول دائروں میں دائرے ہیں… دائرے…!
اصل میں میرے بھائی کو یہ وہم ہے کہ میں نارمل نہیں ہوں، جب کہ کمزوری کے علاوہ کوئی ایبنارملیٹی نہیں ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے میں بہت باتیں کرلیا کرتا تھا اور آج کل چپ رہنے لگا ہوں۔ خاموش رہنے کی اصل وجہ تھکاوٹ ہے۔ آنکھیں، کان، پاؤں، سب تھک چکے ہیں۔ رات کے وقت سچی بات تو یہ ہے کہ نیند آنکھوں میں نہیں ہوتی۔ صرف لیٹا ہوا ہوتا ہوں تو بھائی سر پر آکر کھڑا ہوجاتا ہے، ایک بار دوسری بار…پھر تیسری بار…بار بار آکر میرے سر پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھار تو اس طرح سے سر پر کھڑا ہوتا اور جھکتا ہے کہ اس کی سانس کی آواز تک سنائی دیتی ہے۔
وہ صرف یہ جاننا چاہتا ہے کہ میں نیند میں ہوں یا نہیں۔ مجھے سوتا ہوا سمجھ کر اطمینان سے چلا جاتا ہے۔ آج کل تو میں یہ محسوس کرنے لگا ہوں کہ وہ مجھ سے تنگ آچکا ہے۔ اگر تنگ نہیں آیا تو جلد ہی تنگ آجائے گا۔ بہرحال اگر تنگ نہ ہوا ہوتا تو اتنا خیال کیسے رکھتا۔ پہلے ہم دونوں ایک ہی کمرے میں ہوتے تھے۔ بھائی کی شادی کے بعد میں اب لاؤنج میں آگیا ہوں، ایسا نہ ہو کہ آگے بھی لاؤنج میں بھی میرے لیے جگہ نہ ہو۔۔۔۔۔ پھر …
’’پھر کہاں جاؤں گا؟‘‘
’’کہاں جاؤں گا؟‘‘
’’کہاں؟‘‘
تھک گیا ہوں، تھکا ہوا بھی نہیں کہنا چاہیے، بھاری ہوگیا ہوں، اپنا آپ اتنا بھاری کہ چارپائی پر کروٹ لینا مشکل ہوگیا ہے۔ آنکھوں سے اپنے پیروں کو دیکھ رہا ہوں تو دِکھنے میں وہی ہیں لیکن وزن بڑھ گیا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھوں، لیکن ٹانگ اٹھا ہی نہیں سکتا۔ تھکاوٹ توڑنے کے لیے انگلیاں چٹخانا چاہتا ہوں، پاؤں تھکے ہوئے ہیں، جب کہ آج میں دو کلو میٹر تک بھی پیدل نہیں چلا ہوں، لیکن ایسا لگ رہا ہے جیسے ہزاروں کلو میٹر گھوم کر آیا ہوں۔ سوچا کہ باغ میں جاؤں، لیکن باغ میں بھی تو کچھ نیا نہیں ہوگا، ہر درخت اپنی جگہ پر ہوگا، کسی نے جگہ بدلی نہیں ہوگی، اس باغ میں بہت بڑا درخت ہی اصل میں بہت بڑا آسرا ہے۔
میرے بھتیجے اس درخت کی آخری سوکھی ٹہنی پر بیٹھے پرندے کو دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں، حیران ہونے کا سبب وہ سمجھا نہیں سکتے یا پھر میں ان کو سمجھ نہیں پاتا اور ہر دفعہ ان کا اصرار کہ چل کر۔۔۔۔ وہاں اس درخت کے پاس جاکر۔۔۔ کھڑے ہوکر اوردیکھیں۔ باغ میں چلتے ہیں تو پہلے کہتا ہوں کہ ’’ان کو سلام کرو۔‘‘
’’کس کو؟‘‘
’’اس کو!‘‘
’’درخت کو؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیوںکہ یہ میرے دادے کا دادا ہے۔‘‘
وہ ہنستے ہیں، ’’درخت کب سے دادا ہوگیا؟‘‘
مجھے وہ منظر کبھی نہیں بھولتا جب ننھیال میں نانی تنہا بڑے صحن میں گرپڑیں تو میری ماں بہت روئی، ایسا لگ رہا تھا کہ نانی کا انتقال ہوگیا ہو!
مجھے اتنا ہی دکھ بہنوں کی شادی پر ہوا تھا، جس نے بہت رلایا، شادی نہیں بلکہ ایک چارپائی خالی ہورہی تھی۔
ایک چارپائی خالی۔
دوسری بھی چارپائی خالی۔
اور ان دونوں چارپائیوں پر اس کے بعد بھابھیاں آگئیں، لیکن اس کے باوجود یہ چارپائیاں جیسے خالی ہی تھیں۔ بہت پہلے ہم بھائی بہن ساتھ چارپائیوں پر بیٹھا کرتے۔ سردی کے موسم کی راتیں ہوتیں تو آگ جلاکر ہم اس کے ارد گرد بیٹھا کرتے، کھانا کھاتے، اماں کا ہانڈی سے سالن نکال کر سب کو بانٹنا، اس پر ہمارا ایک دوسرے سے لڑنا، منانا۔ زندگی کو پھر واپس پیچھے نہیں لے جاسکتے سب کچھ چھنتا جارہا ہے، سب کچھ … سب کچھ جارہا ہے۔
نہ بابا اور
نہ ماں رہی،
نہ بہنیں۔
نہ وہ باتیں، گپ شپ۔ چارپائیاں اب بھی ویسی ہی ہیں، اسی سائز کی بلکہ بڑھی ہیں، چارپائیاں بڑھنے سے کام بھی بڑھ گئے ہیں۔ ہر ایک مصروف ہے۔ اپنے کمرے میں یا کمرے میں بند ہے۔ یہ بے امنی، بے امنی نہیں ہے بلکہ ڈائن ہے جو میرے نوالے گنتی ہے۔
میرے لیے یہ بہتر ہے کہ میں ان سب کے مسئلوں کے حل کرنے میں مصروف ہوجاؤں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کو میری ضرورت ہی نہ ہو، اگر ضرورت ہو بھی تو ان کے کام کرنے کی حد تک ضرورت ہو۔
اور یہ انکشاف بہت ڈرادیتا ہے کہ میں اہم نہیں ہوں۔
مجھے یہ سب پہلے محسوس ہوجاتا تو بہتر تھا، جب کہ اب کچھ بھی بہتر نہیں اور اگر بہتر ہوتا تو بھی امکانی بہتر ہوتا، امکانی بہتر ہونے کی عمر کتنی ہوتی، ایک سگریٹ کے کش جتنی ہی؟ یہ ایک لمبا طویل سفر ہے، اَن جانے پن کا جس کو میں نے جان لیا ہے۔ اماں، میں تھک گیا ہوں…اماں… تھک گیا ہوں…تھک گیا ہوں…
تھکاوٹ کے احساس نے مجھے بے انتہا تھکادیا ہے، بے حس کردیا ہے۔
آج بھائی نے کہا، ’’ڈاکٹر کے پاس چلیںگے۔‘‘
’’جی۔‘‘
’’طبیعت اب کچھ بہتر محسوس کر رہے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’نیند آتی ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’بار بار کیوں اٹھتے ہو پھر؟‘‘
’’گولیاں خون خشک کردیتی ہیں، پانی زیادہ پی رہا ہوں، پیشاب زیادہ آنے لگا ہے۔‘‘
’’تو پھر ڈاکٹر کو یہ سب کچھ ضرور بتانا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
کلینک تک پیدل چل کر جانا بھی ایک عذاب ہے۔ پورے روڈ پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کوئی گاڑی آکر مجھے ٹکر ماردے گی۔ اور میں گر پڑوں گا۔ بہت احتیاط سے چلنا پڑ رہا ہے۔
اب ہم کلینک میں بیٹھے ہیں۔ بھائی اپنی سوچوں میں گم ہے۔ وہ ایک ہی جگہ دیکھ رہا ہے اور میں دیوار کو دیکھتا ہوں۔ پوری دیوار پر آنکھیں بنی ہوئی ہیں، کھلی ہوئی آنکھیں، بند آنکھیں، آدھی بند، آدھی کھلی ہوئی، ایک کھلی، ایک بند، اصل میں غور کیا تو وہاں آنکھیں نہیں تھیں لیکن انتظار گاہ میں بیٹھے لوگوں نے نام اور پتے کے ساتھ شعر بھی لکھ دیے تھے، جب کہ ان کمروں میں بیٹھے لوگوں کی آنکھیں اسی طرح بند، آدھی بند، آدھی کھلی ہوئی۔ وہاں ایک لڑکی جس کی عمر سولہ سترہ سال کے قریب ہوگی، دو بوڑھے بزرگ مردوں کے بیچ میں بیٹھی ہے۔ آنکھیں نہیں جھپکارہی۔ ایک بوڑھے سے کہہ رہی ہے، ’’مجھ سے شادی کروگے؟…ہاں… شادی کروگے؟‘‘
ان دونوں بوڑھوں میں سے ایک بوڑھے کی آنکھ سے پانی بہہ رہا ہے۔ دوسرا بوڑھا دُکھ اور شرم کے ملتے جلتے احساس میں ہے۔ مجھے ان دونوں بوڑھوں کے چہرے عذاب دے ر ہیں۔ میں اس عذاب کو دیکھنا یا سہنا نہیں چاہتا۔ سامنے کاؤنٹر کے پیچھے ریسپشنسٹ صرف ٹی وی کی طرف نظریں جماکر بیٹھی ہے۔ وہ صرف ایک ہی کام سرانجام دیتی نظر آرہی ہے، مریض کو اندر بھیجنا، آواز دینا، یا وہ مریض سے پیسے لے کر، گِن کر ٹی وی پر پھر سے نظریں جمادیتی ہے۔ میری نظر اس کی آنکھوں سے ہو کر ٹیبل کے نیچے اس کے گورے پیروں تک چلی گئیں۔ میں حیران رہ گیا، بالکل گورے کنول جیسیٍ پاؤں۔ ان پیروں کو دیکھ کر مجھے سمیرہ کے پیر یاد آگئے۔ سمیرہ جیسے پیر تھے۔ سمیرہ کے پاؤں دیکھ کر ایک طوفان سا اٹھا، جس نے ہلاکر رکھ دیا۔ سمیرہ نہیں تھی، سُندر تھی، سکون تھی، شانتی تھی، نمرتا تھی، مانگ نہیں تھی، دودھاری تلوار تھی۔ بہت تیز بول رہی تھی،
’’کوئی بھی اگر کسی پر اختیار رکھتا ہے تو اپنی موت مرتا ہے، جب کہ اختیار پر اختیار رکھنا حقیقت میں دوسرے کو بے اختیار کرنا ہے، اور بے اختیار کو اختیار نہیں رہتا تو پھر کوئی کسی سے کیوں ملے؟‘‘
میں نے اس کے گورے پاؤں کو دیکھا جو سینڈل کی کالی پٹیوں میں مسکرارہے تھے، سینڈل سے نکلتی ہوئی ٹک ٹک اور میرے دل کی دھک دھک دونوں میں کوئی ردھم نہ رہا۔ صحرا، بیابان، پیاس، میں بے اختیار۔۔۔۔۔ وہ اپنے اختیار پر چلی گئی۔
میں ریسپشنسٹ کے پاؤں سے نظریں ہٹاکر کلینک کے دروازے سے باہر دیکھ رہا ہوں جہاں سے اب ٹریفک کم گزرہی ہے اور لوگوں کی آمدورفت بھی کم ہوگئی ہے۔ میری نظریں روڈ سے دور ایک لال بلڈنگ کے نیچے رکھے جھولے پر پڑتی ہیں، جہاں آدھا اندھیرا اور آدھی روشنی ہے، جب کہ جھولا سفید رنگ میں رنگا ہے، اسی وجہ سے جھولے کو اچھی طرح دیکھ سکتا ہوں۔ اخبار میں پڑھتا رہتا ہوں، ’’کسی مجبوری کی وجہ سے بچہ ہوجائے تو اسے مار کر دوسرا گناہ نہ کریں۔‘‘
ماں نے کس مجبوری کے تحت پیٹ میں رکھا اور پھر کس مجبوری میں اسے جھولے میں پھینک دیا، اس جھولے میں سے نکلا ہوا بچہ جب بڑا ہوگا تو سوسائٹی اس کے باپ کا نام اور ماں کے بارے میں پوچھے گی۔ یہ پوچھ گچھ اس کی زندگی عذاب کردے گی۔ آخر میں وہ اس کے جواب میں ہی مرے گا اور جیے گا۔ جیے گا اور مرے گا۔ کیا زیادتی اس کی پیدا کرنے والی ماں کے ساتھ ہوئی یا اس سے کسی اور نے کی؟‘‘
’’نہ عورت نے مرد سے زیادتی کی ہوگی اور نہ مرد نے عورت سے زیادتی کی ہوگی، دونوں کی ملی جُلی سازش ہوگی۔ جب جھولے میں پڑا بچہ بڑا ہوگا تو سمجھ جائے گا۔‘‘
اسی طرح جھولے میں پلا ہوا بچہ میرا ایک دوست بھی تھا۔ میرے ساتھ پڑھتا تھا۔ جب بڑا ہوا تو باپ کا نام سننے کے بعد لوگ ہنستے تھے، جیسے چٹکیاں بھر رہے ہوں۔ ماں جو اسے آدھی رات کو دائی کے پاس چھوڑ کر چلی گئی، ہمیشہ کے لیے گم ہوگئی۔
میرے اس دوست کے حساب کی کاپی میں لکھا تھا،’’اے میری ماں، جنت بھی، جب بھی، جس حالت میں بھی مجھ سے ملو تو مجھے چٹکی بھرنا… کیوںکہ تمہارا بوسہ مجھے ناسور کردے گا۔‘‘
اور پھر میرا وہ دوست جس نے پڑھائی چھوڑدی اور دکان میں بیٹھ گیا، پھر نہیں ملا۔ اگر ملا بھی تو غیروں کی طرح۔ بیل بجی۔ ریسپشنسٹ نے میرا نام لیا، دروازے سے نظریں ہٹائیں تو وہاں سے ایک تھکا ہارا سپاہی شرٹ پینٹ سے باہر نکالے ٹوپی شولڈر پر لٹکائے بیڑی پیتے ہوئے گزرتا نظر آیا۔
اندر ڈاکٹر پہلے سے کھڑا تھا۔ ہاتھ میں ہاتھ دیا، ہاتھ ملاتے وقت بہت گرم جوشی تھی، ممکن ہے کہ وہ اپنے ہر مریض کے ساتھ اسی گرم جوشی سے ملتا ہو۔ مسکراتے ہوئے ڈاکٹر نے کہا:
’’بیٹھیے‘‘
میں بیٹھا۔
’’کیسے ہیں آپ؟‘‘
’’ٹھیک۔‘‘
’’دوائیں کھائیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کوئی فرق؟‘‘
’’نہیں، بس گولیوں کی وجہ سے منہ خشک رہتا ہے، پیاس زیادہ لگتی ہے، پیشاب زیادہ بڑھنے لگا ہے۔ سونے کی کوشش کرتا ہوں لیکن نیند نہیں آتی، دماغ بھاری رہتا ہے، آنکھیں بند کرتا ہوں تو سفید اور کالے رنگ کے گول دائرے نظر آتے ہیں، دائروں میں سے دائرے نکل رہے ہوتے ہیں اور چلتے رہتے ہیں۔ مسلسل اور بند نہیں ہوتے، رکتے نہیں ہیں۔
’’اور سوچتے کیا ہیں؟‘‘
’’سوچتا کچھ نہیں ہوں۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’پھر بھی؟‘‘
’’لگتا ہے بھائی اور بھابھی تنگ آچکے ہیں، بھابھی نفرت کرنے لگی ہے۔ میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ بھابھی بھائی کو ورغلارہی ہے، محسوس ہورہا ہے کہ میری اب اہمیت نہیں رہی ہے۔ ممکن ہے کہ مجھے گھر سے نکال دیں اور میں بے گھر ہوجاؤں۔‘‘
ڈاکٹر اٹھ کھڑا ہوا۔
’’کچھ نہیں ہے، کچھ بھی نہیں ہے، کوئی غیراہم نہیں ہوجاتا اہمیت ہر ایک کی ہے۔‘‘
اس نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر سوفے پر اپنے ساتھ بٹھایا، کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا، ’’یار، علاج میں، تمہیں وہی گولیاں دوں گا جو کچھ وقت تمہیں آرام دیں گی، نیند بھی آئے گی، لیکن علاج تمہارا صرف تمہارے پاس ہے…ہمت کرو… ہمت کرو، اصل میں حالات حالات کو تبدیل نہیں کرتے، وقت اور حالات ارادوں کے تابع ہوتے ہیں، نہ کہ ارادہ وقت اور حالتوں کا غلام۔ میں بہت غریب تھا۔ مجھے میرے باپ نے محنت مزدوری کرکے پڑھایا لکھایا، آج میں پروفیسر ہوں، ڈاکٹر ہوں، ایک مہینہ ہی ہوا ہے کہ میں نے نیا بنگلہ بنوایا ہے۔ اب جب میں اپنے اس بڑے عالی شان بنگلے میں رہتا ہوں تو سوچتا ہوں، بابا اس گھر کو دیکھ کر کتنا خوش ہوتا، اس بنگلے میں کشادہ کمرے، باتھ روم، لان۔ مجھے مزہ نہیں آرہا ہے۔ اچھی طرح سو نہیں سکتا۔ مجھے بھی اپنا باپ یاد آرہا ہے۔
مجھے وحشت سی ہونے لگی ہے، رونا آتا ہے۔ مجھے اپنا باپ اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس کی بھنگ پینے کی عادت سے سخت نفرت تھی۔ ڈاکٹر کی آواز بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے، آنکھیں اور ناک ٹشو پیپر سے صاف کرنے کے بعد کہنے لگا، بابا ہوتا… سارا گھر دیکھتا۔
گھومتا…
ایک بار سوتا تو سہی…صرف ایک بار میرے گھر میں بھنگ ہی پی لیتا…
صرف ایک بار…
صرف ایک بار…
The post دائرے، دائرے، سفید کالے دائرے appeared first on ایکسپریس اردو.