Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

ایلیا کازان

$
0
0

1950ء کے عشرے میں ہالی وُڈ کی اُس غیرمعمولی اور متأثر کُن شخصیت کی وجہ سے ایک ایسے تنازعے نے جنم لیا، جس نے فلم انڈسٹری میں تہلکہ مچا دیا۔

تقریباً نصف صدی بعد اِسی تنازع کی گونج اس وقت دوبارہ سنائی دی جب 1999ء میں اعزازی آسکر ایوارڈ (لائف ٹائم اچیومنٹ) کے لیے ایک نام پکارا گیا۔ وہ نام ایلیا کازان تھا، جنھوں نے امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کو ہالی وڈ میں اپنے اُن ساتھیوں کے نام بتائے تھے جنھیں وہ کمیونسٹوں کا ہم درد اور امریکا مخالف کارروائیوں میں ملوث سمجھتے تھے۔

کازان کا بیان اُس دور کے فن کاروں کے لیے ایک تلخ اور افسوس ناک حقیقت ثابت ہوا اور ان کی بھرپور مخالفت کی گئی، لیکن کوئی بھی فلم انڈسٹری میں ایلیا کازان کی کام یابیوں کا راستہ نہ روک سکا۔ وہ ہالی وڈ کے ایک عظیم ہدایت کار اور منفرد فلم ساز کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ پرفارمنگ آرٹ اور شوبزنس کی جگمگاتی ہوئی دنیا میں ایلیا کازان قابلِ تقلید ہدایت کار اور ان کی فلمیں نوواردوں کے لیے اس فن میں تخلیقی کمال اور مہارت کی مثال ہیں۔

ایلیا کازان کے والدین یونان کے باشندے تھے جنھوں نے 1913ء میں امریکا ہجرت کی۔ کازان نے 9 ستمبر 1909ء کو استنبول (ترکی) میں آنکھ کھولی۔ امریکا ہجرت کے وقت کازان چار سال کے تھے۔ شوبزنس کی چکاچوند اور فلم نگری کی روشنیوں کا حصّہ بننے والے کازان لڑکپن میں تنہائی پسند، گم گو اور شرمیلے تھے۔ اس کا ذکر انھوں نے ’’امریکا، امریکا‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ اس کتاب میں کازان نے اپنا خاندانی پَس منظر، اپنے خاندان کا ذریعۂ معاش، والدین کا تعارف، امریکا ہجرت کرنے کی وجوہ اور زندگی کے مختلف حالات و واقعات رقم کیے ہیں۔

کازان کے مطابق ان کی والدہ کا گھرانا تجارت پیشہ تھا اور ننھیالی رشتے دار مختلف شکلوں میں روئی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ امریکا پہنچ کر ان کے والد نے قالین کی خریدوفروخت شروع کی اور یہی کاروبار ان کا ذریعۂ معاش رہا۔ والدین کی خواہش تھی کہ کازان خاندانی بزنس سنبھالیں، لیکن انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔ کازان کی یہ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔

امریکا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد والدین نے کازان کو نیویارک کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا جہاں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے  Yale Universityکے شعبۂ فنون میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے ڈراما اور اداکاری کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور اس کے بعد اسٹیج پر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس راستے میں پہلا پڑاؤ نیویارک گروپ تھیٹر تھا۔ یہ 1932ء کی بات ہے۔ وہ اسٹیج پر بحیثیت اداکار کام کرنے لگے۔ آٹھ سال تک اداکاری کو ذریعۂ معاش بنائے رکھا۔ پھر براڈ وے پر اسٹیج ڈراموں کے ہدایت کار کی حیثیت سے کام کیا اور اس میدان سے ہالی وڈ کے لیے اڑان بھری جہاں فلم ڈائریکشن کے میدان میں کازان نے اپنا کمال دکھایا اور نئی جہات متعارف کروائیں۔

ان کا شمار نام وَر فلم سازوں میں ہونے لگا۔ وہ ایسے فلم ساز تھے جو غیرمعروف فن کاروں کی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے سے نہیں گھبرائے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنی فلموں میں نئے چہروں کو بھی آزمایا اور انھیں آگے لائے۔ تاہم اس حوالے سے وہ بہت سوچ بچار کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے تھے۔ کازان سمجھتے تھے کہ کسی بھی فلم کے کام یاب یا فلاپ ہوجانے میں نوّے فی صد عمل دخل اس کی کاسٹ کا ہوتا ہے۔ اسٹیج کے بعد کازان نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ City for Conquest ان کی وہ فلم تھی جو 1940ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اس کے اگلے برس کازان نے Blues in the Night میں پرفارمینس دی اور پھر انھوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں قدم رکھا۔

موشن پکچرز میں نووارد فلم ڈائریکٹر ایلیا کازان ابتدائی دنوں میں دو شارٹ موویز کے لیے کیمرے کے پیچھے کام کرتے نظر آئے۔ 1945ء میں ان کی پہلی فیچر فلم  A Tree Grows in Brooklynکے نام سے پردے پر سجی۔ یہ فلم دو آسکرز کے لیے نام زد کی گئی، لیکن ایک ہی ایوارڈ اپنے نام کرسکی۔ یہ کازان کی بڑی کام یابی تھی۔

1949 ء میں ان کی ایک فلم  Pinkyمنظرِ عام پر آئی جو متنازع ٹھیری۔ اس کا موضوع امریکا میں نسل پرستی تھا۔ یہ فلم تین آسکر ایوارڈز کے لیے نام زد ہوئی، مگر کوئی ایوارڈ نہ جیت سکی۔ پرفارمنگ آرٹ کے فروغ اور اس شعبے میں ٹیلنٹ کو متعارف کرانے کی غرض سے کازان نے 1947ء میں ایکٹرز اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی۔ اس پلیٹ فارم سے انھوں نے اداکاری اور فلم سازی کی تربیت دینے کا سلسلہ شروع کیا۔

انھیں اپنے وقت کے مشہور اداکار اور فلم سازوں Robert Lewis اور Cheryl Crawford کا تعاون حاصل تھا۔ 1951ء میں کازان نے ایکٹرز اسٹوڈیو سے الگ ہو گئے اور اب پوری توجہ فلم ڈائریکشن پر مرکوز کردی۔ اسی سال ان کی فلم A  Streetcar Named Desire  سامنے آئی۔ یہ فلم بارہ آسکر کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے چار اس کا مقدر بنے۔ 1954ء میں  On the Waterfrontنمائش کے لیے پیش کی گئی جس کے ہدایت کار کازان تھے۔

اگلے ہی برس یعنی 1955ء میں East of Eden فلمی پردے پر سجی۔ اسے ناقدین اور شائقین دونوں ہی کی توجہ حاصل ہوئی۔ اسے چار زمروں میں آسکر کے لیے نام زد کیا گیا، مگر یہ ایک ہی ایوارڈ جیت سکی۔ اپنے فلمی کیریر میں کازان نے بیسٹ ڈائریکٹر کے دو آسکر اور لائف ٹائم اکیڈمی ایوارڈ اپنے نام کیا۔ اس کے علاوہ بھی انھیں مختلف فلمی اعزازات سے نوازا گیا۔ انھوں نے چار گولڈن گلوب اور تین ٹونی ایوارڈز سمیٹے۔ فلم ورلڈ کے لیے خدمات پر اہم اور قابلِ ذکر اعزازات کے علاوہ بھی کازان کو شوبزنس کے مختلف اداروں اور تنظیموں نے ایوارڈز دے کر ان کے فن اور صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔

کازان کی زیادہ تر فلمیں سماجی موضوعات اور ایسے نظریات اور سوچ کی عکاس ہیں جن کا کازان کی ذاتی زندگی پر اثر پڑا۔ انھوں نے اپنی فلموں میں امریکا کے سماجی اور خاندانی مسائل کو نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا ہے۔ اس کی ایک مثال Gentleman’s Agreement ہے۔ یہ فلم اپنے موضوع کے اعتبار سے متنازعہ تھی، لیکن حیرت انگیز طور پر شائقین نے اسے نہ صرف پسند کیا بلکہ ان کی اس کاوش کو بہت سراہا گیا۔1947ء میں پردے پر سجنے والی اس فلم کا موضوع امریکی معاشرے میں یہودیوں کے لیے جذبۂ نفرت اور تعصب تھا۔

اس فلم کا مرکزی کردار ایک صحافی ہے جو اپنی نیوز اسٹوری کے لیے نیویارک آتا ہے اور یہاں لوگوں کے درمیان خود کو یہودی ظاہر کرتا ہے۔ یہ کردار ہالی وڈ کے معروف اداکار گریگوری پیک نے ادا کیا تھا۔ یہ کردار امریکیوں کے یہودیوں کے ساتھ نفرت آمیز سلوک اور ان سے تعصب کو قلم بند کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ عام میل جول کے دوران اپنی جعلی شناخت عام کرتا ہے اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ کازان کی یہ فلم آٹھ آسکرز کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے تین اپنے نام کرسکی۔ انہی میں ایک بہترین ڈائریکٹر کا آسکر بھی تھا جو کازان لے اڑے۔ یہ ان کا پہلا آسکر تھا۔

1951ء میں A Streetcar Named Desire منظرِ عام پر آئی۔ یہ فلم ایک اسٹیج پلے سے ماخوذ تھی۔ اس کا مرکزی کردار ایک ایسی عورت ہے جو زندگی سے تھک جاتی ہے۔ ایک دن اُسے اپنا آبائی گھر بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔ وہ ٹرین کے ذریعے دور دراز علاقے میں رہائش پزیر اپنی بہن کے گھر پہنچتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے حالات بھی کچھ اچھے نہیں ہیں، وہ ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں گزر بسر کررہی ہے جس کے فقط دو کمرے ہیں۔ وہ ایک مرتبہ پھر مشکل حالات اور حوادث کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ اس فلم نے باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا۔

آسکر کا میلہ سجا تو یہ مووی بارہ مختلف زمروں میں آسکر کے لیے آگے نظر آئی۔ یہ فلم چار ایوارڈ اپنے نام کرسکی۔ بہترین ہدایت کار کے طور پر کازان کا نام بھی جیوری کے سامنے رکھا گیا تھا، مگر وہ اس ایوارڈ سے محروم رہے۔ 1954ء جرم کے میدان کی ایک کہانی On the Waterfront کے عنوان سے فلمی پردے پر سجی اور ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ کازان نے بہترین ہدایت کار کا آسکر اپنے نام کر لیا۔

اس کہانی کا محور ڈاک یارڈ مافیا اور مزدور تھے۔ مافیا کے خلاف مزدوروں کی مزاحمت کی اس کہانی کو سنیما کے ناقدین اور شائقین دونوں نے پسند کیا۔ یہ فلم بھی 12 آسکرز کے لیے نام زد کی گئی تھی جن میں سے 8 اس کے حصّے میں آئے۔ کازان کی ایک اور کام یابی ’ایسٹ آف ایڈن‘ نامی فلم تھی جو 1955ء میں بڑے پردے پر پیش کی گئی۔ اس میں انھوں نے ایک نووارد جیمز ڈین کو آزمایا تھا۔ اس فلم کو چار مختلف زمروں میں اکیڈمی ایوارڈ کے لیے آگے کیا گیا جن میں سے ایک اس کا مقدر بنا تھا۔

ہالی وڈ کے اس عظیم فلم ساز نے 1999ء میں لائف ٹائم اچیومنٹ آسکر وصول کیا تو نصف صدی پرانا تنازع گویا دوبارہ زندہ ہو گیا۔ حاضرین ان کے استقبال اور پزیرائی کے معاملے پر تذبذب کا شکار اور منقسم نظر آئے۔ امریکی کانگریس میں اپنے ساتھی فن کاروں کے خلاف بیان اور ہالی وڈ پر اس کے اثرات سے واقف حاضرین نے تالیاں بجانے کے بجائے خاموشی اختیار کی اور منتظمین کو اس حوالے سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

دراصل اس زمانے میں امریکا میں کمیونسٹوں پر کچھ ایسا شک کیا جارہا تھا جس طرح آج کل دنیا بھر میں مسلمانوں پر کیا جارہا ہے۔ شک اور تعصب کی اسی فضا میں کازان نے کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے چند نام رکھے تھے اور ان کے مطابق وہ لوگ کمیونسٹوں کے ہم درد تھے۔ کازان کے اس عمل سے اُس دور میں فلم انڈسٹری کے چند بڑے ناموں کی شہرت اور ساکھ کو زبردست دھچکا لگا تھا۔ اس کے باوجود کازان کو اپنے دور کا باکمال فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے۔

کازان نے چار ناول بھی لکھے جن میں سے دو ان کی ذاتی زندگی کی روداد ہیں۔ انہی کہانیوں کو بعد میں انھوں نے فلم پردے پر بھی پیش کیا۔  The Arrangementکازان کی ایک بیسٹ سیلر کتاب ثابت ہوئی۔ یہ بھی اس فلم ساز کی زندگی کے واقعات اور خاندان کی کہانی تھی۔ 1969ء میں کازان نے اس پر فلم بھی بنائی۔ اسی طرح امریکا، امریکا کے نام سے ان کی خود نوشت سامنے آئی تھی اور یہ بھی مقبول ترین کتاب مانی جاتی ہے۔

1963ء میں کازان نے اسی کتاب کو فلم کی صورت میں شائقین کے سامنے رکھا۔ یہ بھی چار اکیڈمی ایوارڈز کے لیے نام زد ہوئی اور ایک آسکر اپنے نام کرلیا۔ 1988ء میں ایلیا کازان، اے لائف نامی کتاب منظرِعام پر لائے۔ یہ بھی ان کی ایک خود نوشت تھی۔ 1932ء میں ڈراما اور اداکاری کی تعلیم اور تربیت حاصل کرنے کے بعد کازان نے اسٹیج ڈراموں کی ہدایت کار کے طور پر جس سفر کا آغاز کیا تھا وہ ہر بدلتے سال کے ساتھ کام یابیاں اپنے نام کرتا چلا گیا۔

ایک انٹرویو میں کازان نے بتایا کہ انھوں نے اپنے دو ساتھی فن کاروں کے کہنے پر فلم ڈائریکشن کی طرف جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ اسٹیج سے وابستگی کے زمانے کی بات ہے جب کازان کو لی اسٹرس برگ اور ہیرالڈ کلرمین جیسے قابل اور باصلاحیت فن کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

کازان کے بقول وہ ان کے بہترین دوست بھی ثابت ہوئے۔ انھوں نے کازان کو فلم ڈائریکٹر کے طور پر قسمت آزمانے کا مشورہ اور ہر موقع پر ان کی ہمّت بڑھائی۔ کازان نے تین شادیاں کی تھیں۔ تینوں بیویوں کا انتقال کازان کی زندگی میں ہوا تھا۔ زندگی کی 94 بہاریں دیکھنے والے کازان 2003ء میں ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

The post ایلیا کازان appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>