Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

رزق ِ حلال

$
0
0

روز نہیں تو اکثر ہم سب کی ملاقات کِسی نہ کِسی نئے آدمی سے ضرور ہوتی ہے۔ چلتے پھِرتے، آتے جاتے، کِسی آفس یا دکان پر، پبلک ٹرانسپورٹ میں، کِسی محفل میں۔ چند گھنٹوں، چند دِنوں یا چند ہفتوں میں ہم نئے ملاقاتیوں کے نام، چہرے اور اُن سے کی ہوئی باتیں سب ہی بھول جاتے ہیں، مگر کبھی کبھی کِسی خاص بات کی وجہ سے کوئی فرد، کوئی خاص نام یا خاص چہرہ، ذہن میں رہ جاتا ہے۔ اور اُن خاص باتوں، لوگوں، ناموں اور چہروں میں سے ایک دو ایسے بھی ہوتے ہیں جو اوروں سے ذرا ہٹ کے ہوتے ہیں۔

جو بات، جو چیز اوروں سے ذرا ہٹ کے ہوتی ہے اُس کا ذِکر اوروں سے بھی کرنے کو جی چاہتا ہے۔ پانچ سال بعد پاسپورٹ  Renewal  کے لیے پاسپورٹ آفس جانا پڑا۔ بیٹی کو بھی جانا تھا۔ اُس نے پانچ مِنٹ میں Careem  سے کار منگوالی۔ جاتی دفع سوزوکی آلٹو تھی۔ چھوٹی عُمر کا لڑکا چلارہا تھا۔ گاڑی کا مالک بھی وہی تھا۔ ایک کلائی میں لال رنگ کا بینڈ چڑھا یا ہوا تھا۔

پھٹی ہوئی Jeans  پہنی ہوئی تھی۔ گاڑی کا  A.C.  بار بار  Trip ہورہا تھا۔  A.C. چلانے کے باوجود کھڑکیوں کے شیشے نیچے اتارنے پر مجبور تھے۔ گولیمار اور پٹیل پاڑہ کی ٹوٹی پھوٹی سڑک تھی۔ دن کے بارہ بجے کی دھوپ تھی۔ ٹریفک کا شور تھا۔ گرد کا دھواں چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ میٹروبس کے برج کا ادھورا کام، سرکاری بدانتظامی کا چیخ چیخ کر اعلان کررہا تھا۔ شاید رات کے اندھیرے میں کام ہوتا ہو۔ دِن میں تو پورے راستے کہیں بھی کِسی بھی طرح کا کام نہیں ہورہا تھا۔

’’تم نے پھٹی ہوئی  Jeans  کیوں پہنی ہوئی ہے یار!‘‘ حسبِ عادت میری پہلی گیند باؤنسر تھی۔ پہلی گیند اگر باؤنسر ہو تو اچھے اچھے بلّے بار اپنا حفاظتی گارڈ  loose  کر بیٹھتے ہیں۔

’’پھٹی ہوئی نہیں ہے سر!۔ فیشن ہے۔ اسٹائل رکھنا پڑتا ہے۔ یہ نئی  Jeans  ہے۔‘‘ محمد علی نے جواب دیا۔

’’اوہ ! اچھا۔ کہاں تک پڑھا ہے تم نے۔ کب سے گاڑی چلارہے ہو۔‘‘

’’نان میٹرک ہوں سر!۔ آٹھ ماہ ہوگئے ہیں۔ لیاری میں رہائش ہے۔‘‘ دوچار باتیں اور ہوئیں۔ جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ محمد علی زیادہ باتیں کرنے کے موڈ میں نہیں ہے تو بنیادی معلومات لے کر سلسلہ موقوف کردیا۔

پاسپورٹ آفس میں وہ چہل پہل، گہماگہمی، شورشرابا نہیں تھا جو پانچ سال پہلے دِکھائی دیا تھا۔ جگہ جگہ گندگی بھی بہت کم تھی۔ جِن جِن لوگوں سے واسطہ پڑا وہ بھی مہذب اور مکمل راہ نمائی پر آمادہ تھے۔ کمپیوٹرسسٹم ہمارے پہنچنے سے پہلے  Jam  ہوکر ٹھیک ہوچکا تھا اور تصویر اور انگلیوں کے نشانات کے بعد اگلے ڈھائی گھنٹے تک بغیر رُکے چلتا بھی رہا۔ ٹوکن نمبر  64 سے  340  تک کا نمبر روشن ہونے تک ڈھائی گھنٹے لگے۔ پھر دو منٹ میں تصویری رسید پر مُہر لگا کر چھے دن بعد آکر پاسپورٹ لیجانے کا بھی کہہ دیا گیا۔ شام میں فون پر ڈی جی پاسپورٹ کا فون پر میسج بھی آگیا کہ آفس میں آج آپ سے کِسی نے پیسے تو نہیں مانگے یا آپ کو کِسی اور دشواری کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا۔ اور پھر ٹھیک پانچ دِن بعد دوسرا میسج بھی آگیا کہ آپ کا پاسپورٹ پرنٹ ہوکر آگیا ہے۔ مقررہ دی ہوئی تاریخ پر لے جائیں۔

پانچ برس پیشتر صورت حال یکساں مختلف تھی۔ دھکم پیل، افراتفری، بدانتظامی اور چار چکر بھی لگ گئے تھے۔ یہ خوش آئندہ بات ہے کہ کِسی سرکاری محکمے میں بظاہر بہتری نظر آئی ہے۔ کے الیکٹرک اور  PTCL اور واٹر بورڈ اور  KMC کے محکموں کا حال ہمارے سامنے ہے۔  PTCL کے براڈبینڈ  DSL  انٹرنیٹ  Unlimited  پیکیج پر مہینے میں پانچ دِن  out of order  رہتا ہے اور دس دِن  Limited Access  آرہا ہوتا ہے۔

ظاہر ہے فون بھی نہیں چل رہا ہوتا اور  Bill  پورے ماہ کا بھرنا پڑتا ہے۔ عرصہ پانچ سال سے لائن کا پانی نہیں آرہا۔ بورنگ کے پانی پر گزارہ ہے اور  Bill  برابر بھرنا پڑتا ہے۔ گٹر اُبل رہے ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر بیماریاں پھیلا رہے ہوتے ہیں اور  Bills  بھرنے پڑتے ہیں۔ اِن محکموں کے منتظمین اور ملازمین کو شاید اندازہ نہیں کہ اُن کی تنخواہ حلال نہیں ہورہی۔ اور اُس میں سے برکت اُٹھالی گئی ہے۔ حلال کمائی میں بھی ذرا سی حرام کی کمائی شامل ہوجائے تو برکت اور رحمت ختم ہوجاتی ہے اور طرح طرح کے مسائل، پریشانیاں اور بیماریاں حیلے بہانے سے اِنسان کی زندگی میں مشکلات پیدا کرنے لگتی ہیں۔

’’حرام کی کمائی تھی اِس لیے وہ نوکری چھوڑ دی۔‘‘ پاسپورٹ آفس سے واپسی پر  Careem  سروس کی گرے  Mira – Eco  کے مالک و ڈرائیور آصف نے کہا۔

حسبِ عادت واپسی پر بھی گفتگو کا آغاز میں نے کیا تھا۔ ’’گاڑی نئی ہے۔ کتنے کی پڑی‘‘۔ میں نے پوچھا۔

’’ 14کا ماڈل ہے۔ ساڑھے  14  لاکھ کی پڑی۔ ساڑھے تیرہ لاکھ قیمت تھی۔ باقی رجسٹریشن، ٹیکس اور انشورنس کے۔ پچھلے دہ ماہ سے گاڑی چلارہا ہوں۔ آٹھ دِن پہلے یہ گاڑی لی ہے۔‘‘ آصف نے بتایا۔

گاڑی کا  A.C  باہر کی گرمی اور شہر کو   Neautralize کررہا تھا۔ بیک ویو کیمرا لگا ہوا تھا۔ ریورس کے بعد اسکرین پر گانوں کی  list  آگئی تھی۔ اور مدہم آواز میں ریکارڈنگ بج رہی تھی۔

’’جب سے یہ پرائیوٹ ٹرانسپورٹ سروسز شروع ہوئی ہیں۔ سی سی  660  کی گاڑیاں بہت منہگی ہوگئی ہیں۔ لیکن اِس سے سفر کرنے والوں کو بھی فائدہ ہورہا ہے اور بہت سے لوگوں کو روزگار بھی مِل گیا ہے۔‘‘

’’گڈ!۔ کمپنی والے کتنا لیتے ہیں۔ کتنی بچت ہوجاتی ہے۔ ‘‘ میں نے بات آگے بڑھائی۔

’’بچت ہی تو نہیں ہے۔ ابھی آپ کو لینے سے پہلے کسٹمر کو چھوڑا۔  25  روپے کا  Bill  بنا۔ وہ بندہ بھی بہت حیران تھا۔ وہ مجھے  30  روپے دے رہا تھا۔ میں نے نہیں لیے۔ میں نے کہا آپ میری طرف سے چائے پی لیجیے گا۔‘‘ آصف بتا رہا تھا۔ ’’کل  16 گھنٹے گاڑی چلائی۔ اور پتا ہے کتنے پیسے گھر لے کر گیا۔،  322  روپے۔  20فی صد کمپنی کو دینے ہوتے ہیں۔ باقی کا پیٹرول آیا،  3200 میں سے  322  روپے بچے۔ لیکن سکون ہے سر! برکت ہے۔ کوئی  Tension  نہیں۔‘‘

مجھے حیرت ہورہی تھی۔  16گھنٹے کی مزدوری کی اُجرت  322  روپے اور اُس پر اللہ کے شکر کے کلمات۔ ایسے لوگ آج کل کہاں دِکھتے ہیں۔

’’تو ساتھ میں کہیں جاب نہیں کررہے؟۔ پہلے کیا کرتے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’پہلے ایک فارما کمپنی کا ایریا مینیجر تھا اور ایریا بھی کون سا، ڈیفنس کلفٹن کا، ڈاکٹرز کو صِرف فون کرنا ہوتا تھا۔ اتنے اچھے تعلقات بن گئے تھے۔ مگر سر! چھوڑنی پڑی جاب۔ حرام کی کمائی ہے اُس میں۔ ڈاکٹرز کو خریدنا پڑتا ہے۔ مزہ نہیں تھا۔  50  ہزار ملتے تھے، مگر بچتا کچھ نہیں تھا۔ مجھے نئی مہران زیرو میٹر بھی مِلنے والی تھی۔ پروموشن بھی ہونے والی تھی۔ تنخواہ بھی  50  سے  75  ہوجانی تھی، مگر غلط ہورہا تھا سب کچھ۔ چھوڑدی جاب۔ اب آپ پیچھے دیکھیں۔ سیٹ کَورز کی بیک میں۔  CVs بھری ہوئی ہیں۔ روزانہ8-10 C.V.  ڈالتا ہوں۔ جب قسمت میں ہوگی تو مِل جائے گی جاب۔ مگر ایک فارما کی جاب نہیں کرنی۔ دوسری بینک کی جاب نہیں کرنی۔ دونوں میں بڑی کمائی ہے۔ مگر دونوں کی کمائی حلال نہیں ہے۔‘‘

آصف مجھے کِسی اور دنیا کا نوجوان لگ رہا تھا۔ اِس عُمر کے لاتعداد نوجوانوں سے ملاقات تھی اور ہوتی رہتی تھی، مگر حلال و حرام کے اتنے واضح فرق کے ساتھ کوئی نوجوان تو کیا میری عُمر کے لوگ بھی زندگی نہیں گزار پارہے ہیں۔ سب، سب چلتا ہے، کی فلاسفی کے تحت جی رہے ہیں۔ کچھ کے نزدیک شراب حرام ہے۔ کچھ کے خیال میں زِنا خلاف شریعت ہے، مگر زیادہ تر لوگ پیسوں اور کاروبار کے حوالے سے ہر غلط کو بھی  Justify  کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

میرے سامنے آصف نے بھی ایک جھوٹ بولا، لیکن اُسے اِس طرح  Justify  کیا کہ میں ماننے پر مجبور ہوگیا۔

’’کل میرا نکاح ہے اور آج میں گاڑی چلا رہا ہوں۔ منگیتر نے ابھی فون پر جل کر مجھے کہا کہ آپ تو کل عصر کے وقت نکاح پر ہی آئیے گا۔ کل بھی گاڑی چلاتے رہیے گا اور میں ایسا ہی کروں گا۔ کل بھی۔‘‘

ابھی آصف یہ سب بتا ہی رہا تھا کہ اُس کی منگیتر کا فون دوبارہ آگیا۔ وہ چار پانچ منٹ تک اُس سے باتیں کرتا رہا۔

’’میں ابھی کسٹمر کے ساتھ ہوں۔ اُن کو کئی جگہ جانا ہے۔ ابھی یہاں جارہا ہوں۔ پھر وہاں اور پھر وہاں۔ میں ابھی نہیں آسکتا تمہارے پاس۔‘‘ منگیتر نے ناراض ہو کر فون بند کردیا تو میں نے پوچھا۔

’’یار! جھوٹ کیوں بولا!۔ ہم نے تو اور کہیں نہیں جانا۔ تم ہمیں دس منٹ میں چھوڑ کر جاسکتے ہو اپنی منگیتر کے پاس۔‘‘

’’سر جی! اُس کو پارلر جانا ہے اور ملینیم بھی جانا ہے سوٹ واپس کرنے۔ وہ ابھی میری منگیتر ہے۔ ہا ں کل نکاح کے بعد پھر جب کبھی وہ کہیں بھی جانے لیجانے کا بولے گی تو میں لے کے جاؤں گا۔ ابھی وہ غیر محرم ہے۔ اور غیر محرم کے ساتھ گھومنا صحیح نہیں۔ اور جھوٹ اِس لیے بولا کہ وہ میری جان کو آجاتی کہ فارغ ہو پھر بھی نہیں آرہے ہو۔ اب کم از کم اگلے دوچار گھنٹے تک وہ فون پر تنگ نہیں کرے گی اور میں سکون سے  Rides  پِک کرسکوں گا۔‘‘ آصف نے نہایت سکون سے کہا۔

مجھے حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا، لیکن وہ زیادہ دیر تک نہیں رہ سکا، کیوںکہ سفر کے اختتام تک آصف مجھے اپنی کہانی کے کچھ اور باب سُناکر حیرت پروف کرچکا تھا۔

فارما کمپنی میں جاب سے پہلے آصف نے چار پانچ سال تک شارجہ میں  Odd jobs  کی تھیں۔ تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور سب سے لاڈلا۔ ’’شارجہ جانے سے پہلے تک میں امّی کے ساتھ ہی سویا کرتا تھا اور کبھی بھی اکیلا کراچی سے باہر نہیں نکلا تھا۔ والد صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد فیملی سپورٹ کے لیے پہلی بار شہر و مُلک سے ہجرت کی۔ تن تنہا۔ عمان، دوحہ اور آخر میں شارجہ۔ کال سینٹر پر آخری جاب۔ کئی نوکریوں کے بعد۔ پھر والد صاحب کی بیماری کا فون آگیا۔ عین اُس وقت جب میری کال سنٹر پر بھی پروموشن ہونے والی تھی۔ میرے محنت اور کام کو دیکھ کر، لیکن میں ون وے ٹکٹ کٹا کر واپس آگیا۔ کراچی ایئرپورٹ پر والد صاحب گلے مِلے، اور وہیں کھڑے کھڑے انہوں نے پاسپورٹ لے کر پھاڑ دیا اور کہا کہ ہمیں تمہارے پیسے نہیں چاہییں، تم چاہیے ہو۔ اُسی لمحے میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب کبھی کہیں نہیں جانا۔ جو نصیب میں ہوگا۔ اُسے یہیں والدین کو دعاؤں کے سائے میں ڈھونڈ لوں گا۔

وہاں بڑی لڑکیاں میرے پیچھے پڑیں شادی کے لیے۔ بڑے بڑے گھروں والی۔ مگر دِل کو کوئی بھی سمجھ نہ آئی، مجھے بڑے دِل والی لڑکی چاہیے تھی اور یہ اب جِس سے کل میرا نکاح ہے۔ بڑے دِل والی ہے۔ دیالو ہے۔ میری طرح۔ زندگی بھر کے ساتھ میں حسب نسب پیسہ نہیں دیکھنا چاہیے۔ ذہنی مطابقت ضروری ہوتی ہے۔‘‘

باتوں باتوں میں ہم گھر پہنچ چکے تھے۔ اُترنے سے پہلے میں نے حسبِ عادت آصف سے اجازت لی۔ ’’یار! تم پر کالم لکھنا ہے۔ جب چَھپ جائے گا تو تمہیں بتادوں گا۔ تم پڑھ لینا۔ نام بدل دیا جائے گا۔ اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو۔‘‘

آصف نے اپنا فون نمبر دیتے ہوئے کہا۔ ’’ بالکل اصلی نام سے لکھیں۔ مجھے خوش ہوگی۔‘‘

مجھے پہلی بار ایسا نوجوان ملا تھا، جِس نے اپنے اصلی نام سے اپنے بارے میں لکِھنے کی اجازت دی تھی۔ ان گنت بار ان گنت لوگوں سے اجازت لے کر اُن کے حوالے سے مضامین و کالم لکھے، مگر ہر بار ایک نے نام بدل دینے کا ضرور کہا اور اُن دوستوں، کرم فرماؤں کی فہرست تو علیحدہ ہے جو اپنی انا کے حصار میں اِس بُری طرح گرفتار ہیں کہ اُنہوں نے میری تحریروں میں اپنے تذکروں پر مجھ سے دیرینہ تعلقات اور دوستی کے رشتے تک کو ختم کردیا۔ بہت کم لوگ ہی اپنے اندر کے سچ کو اپنی روح کے آئینے میں دیکھنے کی ہمّت رکھتے ہیں۔

میں آصف کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اُسے حلال کے راستے پر چلنے کی اور ہمّت عطا کرے اور اُس کی زندگی کو آسانیوں، اور اپنی رحمت اور برکت سے بھرپور کردے۔ میں اپنے ساتھ آپ سب کے لیے بھی یہی دُعا مانگوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کے حرام سے بچا کے رکھے اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا کرے، ’’آمین‘‘

The post رزق ِ حلال appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>