14 اگست 1947ء پاکستانی قوم کے لئے وہ تاریخی دن ہے، جس روز خدائے بزرگ و برتر نے اسے آزادی جیسی عظیم نعمت سے نوازا اور آج تک یہ قوم اس مبارک دن کی خوشی کو بھرپور طریقے سے مناتی آ رہی ہے اور انشاء اللہ مناتی رہے گی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملی بلکہ اس کے لئے لاکھوں مسلمان کا خون پانی کی طرح بہایا گیا۔ ہمارے بڑے بوڑھوں کو اس ارض پاک پر فخر ہے، جس کے لئے انہوں نے اپنا سب کچھ لٹا دیا، لیکن تقسیم کے وقت کی تلخ یادیں آج بھی انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔
لاہور کے بزرگ رہائشی ایم اے لطیف رواں ماہ (اگست) پورے 88 برس کے ہو چکے ہیں۔ وقت کے پہیے نے انہیں بوڑھا ضرور کر دیا ہے، لیکن تقسیم کے وقت اور اس سے پہلے کی میٹھی اور تیکھی یادیں آج بھی ان کے ذہن میں جوان ہیں۔ آزادی کی نعمت پر فخر کرنے والے باباجی نے بھی تقسیم کے وقت اپنی بہن، بہنوئی، ماموں، چچا سمیت خاندان کے 17 افراد کو کھویا ہے، جن کی یاد انہیں آج بھی تڑپا دیتی ہے، آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے، لیکن سلام ہے انہیں کہ وطن کی محبت کے سامنے پہاڑ جیسا غم بھی ان کے پیروں کو ڈگمگا نہیں سکا۔
13 اگست 1929ء کو پٹیالہ میں قانوں گو اللہ بخش کے گھر پیدا ہونے والے ایم اے لطیف کے 6 بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ والدین کا آبائی تعلق سمانا (پٹیالہ) سے تھا، جہاں سے جسٹس منیر اور جسٹس رضوی تھے۔ اپنے علاقہ کی تعلیمی و معاشی صورت حال کے بارے میں بتاتے ہوئے ایم اے لطیف کچھ یوں گویا ہوئے ’’تعلیمی اور معاشی اعتبار سے پٹیالہ ایک آسودہ شہر تھا۔ انبالہ میں ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہونے اور بہت بڑی چھاؤنی رکھنے کے باوجود وہاں انٹر کالج تک نہیں تھا اور سب لوگ پڑھائی کے لئے پٹیالہ کا رخ کرتے تھے، یہاں مہیندرا ڈگری کالج پٹیالہ تھا، جہاں میں نے بھی پڑھائی کی، اسی کالج سے کاظم حسین رضوی، اصغر حسین کاظمی وغیرہ پڑھے ہیں اور یہ سب میرے کلاس فیلوز تھے۔
ایف اے میں میری کمپارٹ آ گئی تو میں نے وہ کالج چھوڑ دیا، شملہ میں میرے بڑے بھائیوں کا کاروبار تھا، میں نے وہاں جا کر داخلہ لے لیا، جہاں میں ابھی پڑھ ہی رہا تھا کہ ہجرت کا وقت آ گیا، بی اے میں نے پاکستان آکر کیا۔ معاشی صورت حال کا بتاؤں تو وہ بھی بہت اچھی تھی، پٹیالہ سٹیٹ کا جو مہاراجہ تھا، وہ آج کل جو بھارتی پنجاب کا وزیراعلی ہے امریندر سنگھ، اس کا دادا تھا، بھوبیندر سنگھ، جس نے وہاں بہت اچھے کام کروائے۔ مہاراجہ بھوبیندر سنگھ مسلمانوں کا پسندیدہ تھا، کیوں کہ وہ مسلمانوں کی صلاحیتوں کا معترف تھا۔ جب وہ بیمار ہوتا تو مسلمانوں سے مسجدوں میں دعائیں کرواتا۔ سٹیٹ کے پانچ اضلاع تھے، جن میں سے چار اضلاع کے ڈپٹی کمشنر مسلمان، آئی جی پولیس مسلمان تھا۔ سکندر حیات خان کے بڑے بھائی لیاقت حیات خان پٹیالہ سٹیٹ کے وزیراعظم تھے۔‘‘
تقسیم ہند سے قبل پٹیالہ میں مذہبی رواداری کے متعلق لب کشائی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’’پٹیالہ میں سکھوں اور مسلمانوں کے تعلقات بہت اچھے تھے، آپ یہ دیکھ لیں کہ اگر کالج میں کبھی کوئی فساد ہوتا تو سکھ اور مسلمان ایک طرف جبکہ ہندو دوسری طرف ہوتے۔ سکھ بڑی اچھی اور سادہ قوم تھی، یہاں میں آپ کو ایک بات بتاؤں کہ اس وقت بھی یہ کہہ کر ان سے مذاق کیا جاتا تھا کہ سکھوں کو 12 بجے کے بعد عقل آتی ہے۔ پٹیالہ میں دوپہر 12بجے باقاعدہ توپ چلائی جاتی تھی، ہم کالج میں ہوتے تھے تو ہم مذاق کیا کرتے تھے کہ ’’آ گئی، آ گئی‘‘ یعنی سکھوں کو عقل آ گئی۔ تو ہم سب اس کو انجوائے کرتے تھے۔‘‘
تو پھر سکھوں نے مسلمانوں کے ساتھ اتنا ظلم کیوں کیا؟ بولے’’دیکھیں! سچی بات یہ ہے کہ تقسیم کے وقت صرف سکھ ہی ظالم نہیں تھے، پاکستان میں گوجرانوالہ اور پنڈی میں سکھوں پر بڑا ظلم ہوا اور جب پاکستان سے سکھوں کی نعشیں وہاں پہنچیں اور کچھ لٹے پٹے سکھ اور ہندو بھی وہاں پہنچے تو انہوں نے وہاں موجود دیگر سکھوں اور ہندوؤںکو اپنے ساتھ ملایا اور اس وقت کے مہاراجہ یادویندرا سنگھ کے پاس گئے کہ وہاں مسلمانوں نے ہمارے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے، ہم نے بدلہ لینا ہے، پہلے تو مہاراجہ نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا، کیوں کہ سکھ مسلمان وہاں کئی دہائیوں سے اکٹھے رہتے آ رہے تھے، لیکن جب وہ بہت مجبور ہو گیا تو اس نے کہا کہ تمھارے پاس چوبیس گھنٹے ہیں جو کرنا چاہتے ہو کر لو، لیکن اس کے بعد کچھ نہیں کیا جائے گا، تو یوں انہوں نے چوبیس گھنٹوں میں تقریباً 15ہزار مسلمانوں کو قتل کیا۔ اس وقت میں اپنے تین بھائیوں اور ان کی فیملیز کے ساتھ شملہ میں تھا، لیکن میری باقی ساری فیملی پٹیالہ میں تھی۔ چوبیس گھنٹے کی اس قتل و غارت گری میں میری بہن، بہنوئی، چچا، ماموں سمیت خاندان کے 17 افراد شہید ہو گئے(یہ بات کرتے ہوئے بابا جی خاموش ہو گئے اور ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
ان کی آنکھوں میں اس وقت جو بے بسی اور دکھ تھا، اسے دیکھ کر راقم بھی چند لمحے تک ان سے اگلا سوال نہیں کر سکا)، مسلمانوں کے لئے جس گھر کو کیمپ کا درجہ دیا گیا وہ میرے بہنوئی کے بڑے بھائی کا تھا، اور اس کے ارد گرد سکھوں نے مورچے بنا رکھے تھے۔ میرے بہنوئی کے بڑے بھائی تو زندہ پاکستان آ گئے، لیکن ان کی والدہ، تین بہنیں، بھائی، بھابھی یعنی میری بہن سمیت متعدد لوگوں کو سکھوں نے گولی مار دی۔ جب سکھوں نے ان لوگوں کو مار ڈالا تو یہ کہہ کر چلے گئے کہ ’’پہلے ان کو رو لو باقیوں کو پھر ماریں گے‘‘میرے بہنوئی پٹیالہ میں مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ لہذا میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ادھر سے جو لوگ گئے انہوں نے وہاں جا کر آگ لگائی۔‘‘
ہجرت کے سفر کی بابت پوچھنے پر باباجی کا کہنا تھا ’’میں نے جیسے پہلے بتایا کہ میں اس وقت شملہ میں تھا، میری عمر اس وقت 17 برس تھی، تو وہاں ایک کیمپ لگایا گیا، جہاں ہم بھی چلے گئے اور وہاں سے ٹرین کے ذریعے پاکستان۔ لیکن اس کیمپ پر جاٹ رجمنٹ (ہندو) نے خود حملہ کروا دیا اور ہماری آنکھوں کے سامنے کچھ خواتین کو وہاں سے اغوا کر لیا گیا جبکہ ہم بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے رہے کہ ہم کچھ کر نہیں پا رہے تھے۔
تو پھر جب ہم گاڑی میں سوار ہوئے تو ہماری حفاظت کی ذمہ داری آسام رائفلز کو سونپی گئی، جس پر لوگوں نے کہا کہ یہ بھی ہندو ہیں، جو ہمیں قتل کروا دیں گے، لیکن اس کے کمانڈر نے کہا No, they are just like machines, if I ask them fire, they will fire پھر ہوا بھی ایسا ہی، ٹرین جہاں بھی ٹھہرتی وہ لوگ ہتھیار لے کر باہر کھڑے ہو جاتے۔ تو جب ہم اٹاری پہنچے تو پتہ چلا کہ اِدھر ٹریینیں exchange ہوتی تھیں، ادھر سے ایک ٹرین جائے گی اور پھر دوسری طرف سے آئے گی۔ اچھا اس وقت یہ معاملہ بھی تھا کہ پوری ٹرین کے سوار اگر قتل کر دیئے گئے تو دوسری طرف سے بھی سب کو مار کر بھیجا جاتا تھا، اگر ٹرین صیحح سلامت آئی تو پھر یہاں سے بھی ویسے ہی جائے گی۔ تو ہماری ٹرین اٹاری جا کر کھڑی ہو گئی، کیوں کہ دوسری طرف سے ٹرین ابھی تک پہنچی نہیں تھی۔ اٹاری پر کیمپ بھی لگے ہوئے تھے، لوگ غصے میں بھی تھے اور نعرے بازی کی جا رہی تھی، لیکن آسام رائفلز نے مورچے لگا کر ہماری حفاظت کی اور کسی کو قریب نہیں آنے دیا۔ تو یوں ہم پاک سرزمین پر پہنچ گئے، جہاں جو مناظر میں نے دیکھے وہ آج تک بھلا نہیں پایا کہ کیسے لوگ زمین کو چوم رہے تھے۔‘‘
باقی خاندان کا کیا بنا؟ بولے ’’میں اپنے تین بھائیوں کے ساتھ لاہور پہنچ گیا، لیکن میرے والدین اور باقی بہن بھائی ابھی وہیں تھے۔ ہم جب یہاں پہنچ گئے تو روز اسٹیشن پر جاتے تاکہ اپنے گھر والوں کا پتہ کر سکیں۔ پھر چند روز بعد میرے بہنوئی کے بڑے بھائی جب لاہور پہنچے تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے خاندان کے 17 افراد شہید ہو چکے ہیں، لیکن میرے والدین اور دیگر بہن بھائی سلامت ہیں۔ بعدازاں میرے دیگر گھر والے بھی خیریت سے پہنچ گئے۔ میرے والد بتاتے تھے کہ چوبیس گھنٹے کی قتل و غارت گری کے بعد کسی نے ہمیں کچھ نہیں کہا، فوج والے ہمیں خود باحفاظت کیمپوں میں چھوڑ کر آئے۔‘‘ تحریک آزادی کے وقت بھی سکھوں اور ہندوؤں سے آپ کے تعلقات اچھے رہے؟ کہا ’’ سکھوں سے تو ٹھیک ہی رہے، لیکن ہندوؤں سے پہلے بھی اچھے نہیں تھے، اس وقت کیا اچھے ہونے تھے۔ آپ یہ دیکھ لیں کہ تقسیم سے قبل بھی پٹیالے میں سال میں ایک بار ہندو مسلم فساد ضرور ہوتا تھا۔ محرم کے موقع پر جلوس نکالے جاتے تھے، جس میں نعرے بازی بھی ہوتی تھی تو اس کے کچھ ہی روز بعد ہندو مسلم فساد ہو جاتا تھا، جس کے بعد علاقہ میں کرفیو لگ جاتا تھا۔‘‘
قائد اعظمؒ یا تحریک آزادی کے کسی اور بڑے رہنما سے ملاقات ہوئی؟ کا جواب کچھ یوں دیا ’’ جب شملہ کانفرنس ہوئی تو اس وقت میں وہیں پر تھا۔ میرے بھائیوں کا ہوٹل سپلائی کا کاروبار تھا اور قائداعظمؒ شملہ میں جس ہوٹل میں قیام کرتے تھے، اس کی سپلائی بھی ہمارے پاس تھی، ایک روز میں نے خواہش کا اظہار کیا کہ قائداعظمؒ آئے ہوئے ہیں تو میں ان کو سلام کرنا چاہتا ہوں، مال سپلائی کرنے والے بندے نے کہا کہ یہ ہے تو بہت مشکل لیکن آپ میرے ساتھ چلیں شائد کوئی موقع مل ہی جائے، میں اس بندے کے ساتھ چلا گیا، انہوں نے مجھے باہر ہی کھڑا کیا اور خود اندر چلے گئے، تھوڑی دیر انہوں نے آکر بتایا کہ قائداعظمؒ کے سیکرٹری نے مصروفیات زیادہ ہونے کے باعث ان سے ملاقات کا وقت دینے سے انکار کر دیا ہے، میں مایوس ہو کر لوٹ آیا، لیکن دل میں قائداعظمؒ کو دیکھنے اور ان سے ہاتھ ملانے کی تڑپ مزید بڑھ گئی۔ یہ بات تو مجھے بھی معلوم تھی کہ ایک دو روز بعد شملہ کانفرنس ہونے والی ہے، جس وجہ سے وہ بہت زیادہ مصروف تھے۔
انہی دنوں میرے دوست کاظمی صاحب نے مجھ سے رابط کیا کہ شملہ کانفرنس ہونے والی ہے اور ہم نے قائداعظمؒ کا استقبال کرنا ہے، جس کے لئے لوگوں کو اکٹھے کرو، میں نے شملہ کالج میں موجود پانچ دس مسلم طلبہ اور کچھ محلے سے لڑکوں کو اکٹھا کیا جبکہ دوسری طرف کاظمی صاحب نے کچھ بندے اکٹھے کیے اور یوں ہم نے تقریباً 50 بندوں کو اکٹھا کر لیا اور قائداعظمؒ کے استقبال کے لئے وہاں پہنچ گئے، تو جو قائداعظمؒ کو دیکھنے کی میری خواہش تھی، وہ اللہ تعالی نے پوری کر دی، میں نے صرف دو میٹر سے قائداعظمؒ کو دیکھا، انہیں سلام بھی کیا، جس کا انہوں نے خندہ پیشانی سے جواب دیا۔
وہ جب میرے پاس سے گزرے تو اس وقت سائیکل رکشہ پر تھے۔جی ہاں کیوں کہ شملہ پنجاب، حکومت ہند اور جی ایج کیو کا ہیڈکوارٹر تھا، جہاں اوپر کسی کو گاڑی لے جانے کی اجازت نہیں تھی، سوائے چار بندوں کے اور وہ تھے، کمانڈر انچیف انڈیا، وائسرائے ہند، وزیراعلی پنجاب اور گورنر پنجاب، ان کے علاوہ کوئی بندہ وہاں گاڑی نہیں لے جا سکتا تھا۔ لہذا قائداعظمؒ اور گاندھی وغیرہ سب رکشہ میں ہوتے تھے۔ قائداعظمؒ جب ہمارے پاس سے گزرے تو ہم نے بڑے جوش و خروش سے نعرے لگائے’’ واحد لیڈر زندہ باد‘‘۔ تو یوں ہم نے اپنی طرف سے تحریک آزادی میں بھی حصہ ڈالنے کی کوششں کی۔‘‘
پاکستان بننا کیوں ضروری تھا؟ کے سوال پر جواب دیا ’’پٹیالہ سٹیٹ کے علاوہ مسلمان اقتصادی طور پر بڑی پستی میں تھے، انہیں وہ آزادی نہیں تھی، جو وہاں موجود ہندوؤں اور سکھوں کو حاصل تھی۔ ملازمتوں میں مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہندو بنیے نے ہمیشہ مسلمان سے بغض رکھا اور مسلمان کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کی۔ دہائیوں سے اکٹھے رہنے کے باوجود مسلمان اپنی شناخت کو ترس رہے تھے، اگرچہ وہاں انگریز راج تھا، لیکن پھر بھی مسلمانوں کو وہ حقوق حاصل نہیں تھے، جو ہندؤں یا سکھوں کو حاصل تھے۔ لہذا اس وقت کے مسلمانوں کے بڑوں نے آزادی کا ایک خواب دیکھا، جس کو حقیقت بنانے کے لئے لاکھوں مسلمانوں کو قربانی دینا پڑی، لیکن اس پر ہمیں کوئی رنج یا پچھتاوا نہیں۔‘‘
پٹیالہ میں کیا کچھ تھا اور یہاں آ کر کیا ملا؟ بولے ’’وہاں ہماری زرعی زمین تھی، کچا لیکن بہت اچھا گھر تھا، معاشی حالت بھی ٹھیک تھی۔ یہاں آکر میرے بھائیوں نے سوچا کہ شملہ میں جو ہوٹل سپلائی والا ہمارا کام ہے، ہم وہی کریں گے، اس مقصد کے لئے مجھے مری بھجوایا گیا، جہاں میں نے ایک دکان لینی تھی، جس میں اس وقت اسد عمر اور زبیر عمر کے تایا مختار عمر نے میری مدد کی، کیوں کہ وہ میرے دوست تھے۔ مختار عمر تقسیم سے قبل شملہ پوسٹ آفس میں پوسٹ ماسٹر تھے، اچھا وہ مجھے مری لے گئے، جہاں ہم نے پتہ کیا تو مجھے پانج بیڈ رومز پر مشتمل ایک گھر مل گیا، میں نے اپنے گھروالوں کو خط لکھا کر وہاں بلایا لیکن انہوں نے کہا تم واپس آجاؤ ہم سب اکٹھے کہیں اور جا رہے ہیں۔ پھر میں ملتان، خانیوال اور جہانیاں میں کئی برس سیکرٹری مارکیٹ کمیٹی رہا۔‘‘
ہندوستان کے مسلمان کیسی ریاست چاہتے تھے؟ کا جواب دیا ’’ پہلے تو میں آپ کو یہ بات بتا دوں کہ پاکستان کے قیام کا مطالبہ چند افراد کا نہیں بلکہ ہندوستان میں بسنے والے تمام مسلمانوں کا تھا۔ دوسرا جہاں تک بات ہے کیسی ریاست تو اس ضمن میں، میں آپ کو صرف ایک واقعہ سناتا ہوں کہ جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو اس وقت ہمارے کالج میں تحریک آزادی کے رہنما عطاء اللہ جہانیاں آئے، جنہوں نے وہاں تقریر کرتے ہوئے پاکستان کے قیام کے مقاصد کو بیان کیا تو مجھ سمیت دیگر مسلمان طلباء کو تو چھوڑیں وہاں موجود سکھوں نے بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا دیا، یعنی عطاء اللہ جہانیاں نے پاکستان کا ایسا نقشہ پیش کیا کہ سکھ بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے پر مجبور ہو گئے۔
تو مسلمانوں کی تو ایک ہی خواہش اور مطالبہ تھا کہ پاکستان بننا چاہیے۔‘‘ جیسا سوچا تھا ویسا ہی اس ملک کو پایا؟ کہا ’’ ابھی تک ویسا نہیں؟ لیکن امید پر دنیا قائم ہے؟‘‘ پٹیالہ کی گلیاں، کالج اور دوستوں وغیرہ کی کبھی یاد آنے کے سوال پر باباجی نے کہا ’’بالکل بہت یاد آتی ہے۔ پٹیالہ میں میرے سکول کے ہیڈماسٹر اور دیگر استاد آج بھی ناموں کے ساتھ مجھے اچھی طرح یاد ہیں، آج بھی ان گلیوں اور جگہوں کو دیکھنے کو دل کرتا ہے، لیکن افسوس اب ایسا ممکن نہیں رہا، ایک بار پروگرام بھی بنا لیکن پھر کسی مجبوری نے آن گھیرا۔ دوست بہت یاد آتے ہیں، پہلے پہل ان سے تھوڑی بہت خط و کتابت بھی ہو جاتی تھی، لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ سب ختم ہو گیا۔‘‘
The post ’’پہلے ان کا ماتم کر لو، باقیوں کو پھر آکر ماریں گے‘‘، ایم اے لطیف appeared first on ایکسپریس اردو.