موسموں کے حوالے سے ہر خطے کی اپنی تاریخ‘ ثقافت اور روایات ہوتی ہیں، صدیوں کے عمل سے تشکیل پانے والی یہ روایات کسی بھی خطے کی اجتماعی تہذیب سے ہی پھوٹتی ہیں‘ وہ خطے جہاں گرمی زیادہ پڑتی ہے‘ میں برسات کا موسم ایک بڑے تہذیبی تہوار کی صورت میں سامنے آتا ہے‘ ساون جہاں دیسی تقویم کا مہینہ ہے، وہاں ایک رُت بھی ہے‘ بہار کی مانند ساون بھی خوشیوں اور اُمنگوں کے بر آنے اور اُمیدیاوری کی علامت ہے۔
ساون جو برسات کی سوغات لے کر آتا ہے، ایک طرح سے بہار کا مہینہ ہوتا ہے۔ یوں تو ساون کو برصغیر بھر میں ایک تہوار کی طرح منایا جاتا ہے لیکن ملتان جیسے گرم ترین علاقے میں ساون کا مہینہ ایک خاص تہذیبی سرشاری اور ثقافتی اظہار بھی رکھتا ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد ایران کی بہار نوروز کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ہمارے ہاں بہار کا موسم برسات ہے جو لطف وہاں بہار میں ہوتا ہے ہمارے ہاں برسات میں ہوتا ہے‘ یہاں بلبل کا نغمہ نہیں کوئل کی کوک دلوں پر آفت لاتی ہے‘ جھیلیں موجیں مارتی ہیں‘ دریا کے چڑھاؤ مستیاں دکھاتے چلے جاتے ہیں‘ گل و لالہ اس موسم میں نہیں پھولتا مگر چمپا‘ موتیا‘ رابیل اور کنول وغیرہ کے پھولوں سے عالم مہک جاتا ہے‘ گھنگھور گھٹائیں چھاتی ہیں‘ کبھی مینہ برس رہا ہے‘ کبھی پھوار پڑتی ہے‘ بادل گرجتے ہیں‘ مور بولتے ہیں‘ لوگ باغوں میں جاتے ہیں۔
آموں کی سیر ہو رہی ہے‘ ٹپکا لگا ہوا ہے‘‘۔ یہ تو ملک کے اس حصے کا بیان ہے جہاں چھاجھوں پانی برستا ہے‘ مہینوں جھڑی لگی رہتی ہے‘ دن کو سورج کبھی ایک دو بار بادلوں کی اوٹ سے جھانک لیتا ہے لیکن ملتان‘ مظفر گڑھ‘ ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور میں جہاں بارش بڑی دعاؤں کے بعد ہوتی ہے‘ میں ساون کا مہینہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔
اسی مہینے میں خطے کے خاص تہذیبی عناصر اور اجتماعی سرشاری بھی کھل کر سامنے آتی ہے۔ یہاں ساون کی اہمیت اس لئے بھی بہت زیادہ ہے کہ ساون ہی وہ مہینہ ہے جو اس خطے کے لوگوں کو گرمی سے کسی حد تک نجات دیتا ہے‘ اسی موسم میں بادل آنکھوں میں کاجل لگائے کسی محبوب کی طرح جھومتے ہوئے آتے ہیں اور ٹھنڈی ہوائیں گرمی کے زور کو دور لے جاتی ہیں۔ اپریل سے جاری گرمی کی شدت کو ساون کی آمد ہی کم کرتی ہے‘ ساون ہی وہ موسم ہے جو شدید گرمی میں خنکی کے احساسات سے ہم کنار کرتا ہے۔ اسی لئے یہاں ساون کا انتظار ایسے کیا جاتا ہے جیسے کسی محبوب کا انتظار کیا جاتا ہے کیوں کہ ساون اس خطے کا محبوب ترین موسم ہے‘ یہی وجہ ہے کہ سرائیکی لوک گیتوں‘ کہاوتوں میں ساون کا ذکر پوری منظرنگاری اور تہذیبی رنگا رنگی کے ساتھ سامنے آتا ہے، سرائیکی شاعری کے کلاسیکی عہد سے تعلق رکھنے والے شاعر نوروز کہتے ہیں:
ساون ماہ سہیلا آیا گھلے سرد ہوا دے لُرکے
بجلی چیر بدل دے برقعے اکھ مارے تے مُرکے
سجن سنولے تے ڈینہہ بھلیرے بارش بُرکے بُرکے
نوروزا سکھ تھئے ساتھی ڈکھ رووے تے کُرکے
(ترجمہ: ساون کا سہانا مہینہ آ گیا ہے‘ ٹھنڈی ہوا خراماں خراماں چل رہی ہے‘ بجلی بادل کا پردہ چیر کر آنکھ مارتی ہے اور مسکراتی ہے‘ دوست قریب ہیں بھلے دن آ گئے‘ بارش رہ رہ کر برستی ہے‘ اے نوروز سکھ ساتھی بن گئے ہیں اور دکھ الگ بیٹھا روتا اور بڑبڑاتا ہے)
سرائیکی خطے میں بارش دعاؤں اور ارداس کے بعد ہوتی ہے‘ لوگ پیاسی آنکھوں سے کبھی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی خشک زمینوں کی طرف…… یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوک گیتوں میں بارش کے منتر اور دعائیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ کیفی جام پوری کے بقول ’’سمیں تحصیل تونسہ کا ایک خاص لوک گیت ہے‘ یہ ایک بارانی علاقہ ہے جہاں بارشیں کم ہوتی ہیں‘ یہاں کی زمین برسوں بوند بوند کو ترستی ہے‘ خشک سالی کے دنوں میں یہاں کی بڑی بوڑھیاں جوان لڑکیوں کو جمع کر کے سمیں گاتی ہیں‘ ان کے خیال میں سمیں سننے کے لئے بادل گھر کر آتے ہیں‘ سمیں کا ایک گیت ملاحظہ ہو:
آسمیں اساں اُڈ چلوں
تھل لہوں وچ جھک
سارا ساتھ سموٹرا
میں پردیسن ہک
(ترجمہ: آسمیں ہم اڑتے اڑتے تھل کے کسی نشیب میں جا اُتریں‘ سارا خاندان ایک جگہ جمع ہے‘ ایک میں ہی پردیسن ہوں)
سمیں کا ایک اور گیت دیکھیے:
چندر اُبھریا در سامنے
اُبھر کرے روشنائی
کھیڈو کھیڈو نینگریں
کھیڈن دی رُت آئی
(ترجمہ: میرے دروازے کے سامنے چاند اُبھر کر روشنی پھیلا رہا ہے‘ نوجوان سہیلیو خوش ہو کر کھیلو کیونکہ کھیلنے کی رُت آئی ہے)
کہا جاتا ہے کہ ایک بار تونسہ کے لوگ حضرت خواجہ سلیمان تونسویؒ کے پاس گئے کہ آپ خدا کے برگزیدہ بندے ہیں‘ دعا کریں تاکہ بارش ہو‘ خواجہ سلیمان تونسویؒ نے لوگوں سے پوچھا کہ اب سے پہلے تونسہ کے لوگ بارش کے لئے کیا کرتے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ سمیں گایا کرتے تھے‘ اس پر خواجہ سلیمان تونسویؒ نے بھی کہا کہ سمیں گاؤ……!! سرائیکی خطے میں ساون بارش کا پیغام لے کر آتا ہے‘ بارش ہوتی ہے تو لوگ مل کر خوشی مناتے ہیں‘ ہر طرف مستیاں بکھر جاتی ہیں اور کوہ سلیمان سے چولستان کے ریگزاروں تک زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ جاتی ہے‘ فطرت کا حسن اور نکھر جاتا ہے اور اس کے مناظر تمام ہوش رُبا کیفیات کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں‘ ان مناظر کی رعنائی اور دل کشی کو خواجہ فریدؒ یوں بیان کرتے ہیں:
آئے مست ڈیہاڑے ساون دے
واہ ساون دے من بھاون دے
بدلے پورب ماڑ ڈکھن دے
کجلے بھورے سوسو ون دے
چارے پاسوں زور پون دے
سارے جوڑ وساون دے
(ترجمہ: ساون کے مست دن آ پہنچے‘ واہ ساون کے دن بھی کیسے دلکش اور دل فریب ہیں‘ پورب‘ ماڑ اور جنوب کی طرف سے سیاہ بھورے اور سو سو رنگ کے بادل گھر کر آتے ہیں‘ چاروں طرف ہواؤں کا زور ہے اور بارش کے سارے اسباب جمع ہیں)
سرائیکی خطے میں ساون کا ذکر اکھانوں‘ ضرب الامثال اور لوک دانش کے عمومی حوالوں میں بھی شامل رہتا ہے‘ سرائیکی خطے میں ساون کو سرما کے آغاز کے حوالے سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ساون کے وسط میں سردی پیدا ہو جاتی ہے‘ یہ اکھان دیکھیے:
ساون آیا‘ سیالا جایا
یعنی ساون کے آتے ہی سردی پیدا ہو جاتی ہے‘ اسی طرح یہ اکھان بھی ساون کے حوالے سے معروف ہے:
ساون پتر سیالے دا
یعنی ساون سردی کا بیٹا ہوتا ہے‘ ساون ہار سنگھار کا موسم بھی ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے:
ساون اچ کانی وی کجلاپا کھڑدی ہے
یعنی ساون میں کم صورت خواتین بھی اپنی آنکھوں میں کاجل لگاتی ہیں‘ ہار سنگار کرتی ہیں۔ موسموں کے حوالے سے سرائیکی خطے میں ایک ایسا اکھان بھی مروج ہے جس میں لوک دانش کے گہرے رنگ پائے جاتے ہیں:
چیتر وساکھ گُھمے
جیٹھ ہاڑ سُمے
ساون بدرو دھانوے
اسوں کتیں تھولا کھاوے
کول طبیبیں مول نہ جاوے
یعنی انسان کو چیتر اور وساکھ کے مہینوں میں گھومنا چاہیے‘ جیٹھ اور ہاڑ کی گرمی سو کر گزارنی چاہیے جبکہ ساون اور بھادوں دریاوں پر منائے‘ اسوج اور کاتک کے مہینوں میں غذا کم کھانی چاہیے جو یہ سب کچھ کرتا ہے، وہ طبیبوں سے دور رہتا ہے۔
یوں تو سرائیکی خطے میں اور بھی موسمی تہوار منائے جاتے ہیں لیکن ساون کو یہاں ایک خاص تہذیبی اور ثقافتی اظہار کا موسم سمجھا جاتا ہے۔ ملتان چوں کہ ہندومت کا اہم ترین شہر ہے‘ اس لئے یہاں کے ثقافتی مظاہر میں ہندو روایات اور اساطیر کی بھی جھلک دکھائی دیتی ہے‘ اس خطے میں قدیم ایام سے ساون کو باقاعدہ تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے اور ساون کو اجتماعی سطح پر منانے کا نام ’’ساونی‘‘ ہے۔
ساون کے مہینے میں منائی جانے والی ’’ساونی‘‘ کا اپنا ایک تہذیبی اور ثقافتی پس منظر بھی ہے‘ ہندوؤں کے ہاں ساونی جسے شراونی بھی کہا جاتا ہے‘ ایک مذہبی اور ثقافتی سرگرمی ہے جبکہ مسلمانوں کے ہاں ساونی ایک اجتماعی ثقافتی سرگرمی کا نام ہے۔ گو آج ساون اور ساون کے مہینے میں منائی جانے والی ’’ساونی‘‘ محض ایک تہذیبی عنصر کی شکل لئے ہوئے ہے لیکن اس کی تاریخ اور اساطیر پر غور کیا جائے تو ساونی دراصل بارش کے دیوتا کی پوجا، ارداس اور پرارتھنا کا نام ہے۔ ساونی کے موقع پر ہندو مختلف سوانگ رچا کر بارش کے دیوتا کی عبادت کرتے ہیں۔ بارش کی آمد اس خطے میں ایک تہوار کی طرح ہوتی ہے اور اس تہوار کو ’’ساونی‘‘ کہا جاتا ہے‘ ساونی دراصل ساون کی خوشیوں کو مل کر منانے کا نام ہے۔
ایک دور تھا کہ ملتان اور سرائیکی خطے کے لوگ ’’ساونی‘‘ کا بہت بڑی سطح پر اہتمام کیا کرتے تھے‘ اس سلسلہ میں ہر محلہ اور بستی میں کم از کم 50 اور زیادہ سے زیادہ 200 لوگ مل کر ایک تنظیم بنایا کرتے تھے‘ لوگوں کے اس اکٹھ کو مقامی زبان میں ’’مارکا‘‘ کہا جاتا تھا۔ ’’مارکا‘‘ 50 یا زائد لوگوں کا وہ اکٹھ ہوتا ہے جو کسی بھی مشترکہ مقصد کے لئے جمع ہوتا ہے۔ ’’مارکا‘‘ میں شامل لوگ ساونی کی تقریب کے اخراجات کے لئے اپنا حصہ پتی ملایا کرتے تھے۔ ’’مارکا‘‘ کے لوگ ’’ساونی‘‘ کے لئے اشیائے ضروریہ برتن‘ چولہے‘ دریاں‘ ٹینٹ حتیٰ کہ سفر کے لئے اپنے گھوڑے اور تانگے بھی مشترکہ رکھا کرتے تھے۔ ساون کا آغاز ہوتے ہی سرائیکی خطے کے تمام لوگ ایک خاص تہذیبی سرشاری سے ہم کنار ہو جاتے تھے کیونکہ یہ وہ موسم ہے جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے‘ خوشی کا اظہار کرتے اور اپنے ساتھیوں کو لے کر دریا کا رخ کرتے ہیں۔
’’ساونی‘‘ کی تقریب کے اپنے خاص تقاضے اور رنگ بھی ہوتے ہیں‘ ساونی کے لئے ایسے مقامات کا رخ کیا جاتا ہے جہاں پانی ہو‘ درخت ہوں اور سبزہ ہو۔ قدیم ایام میں ساونی صرف دریا کے کنارے ہی منائی جاتی تھی، جب علاقہ میں نہریں احداث ہوئیں تو لوگ دریا کے کنارے دور جانے کی بجائے قریبی علاقوں میں موجود نہروں پر ساونی منانے لگے۔ مغلیہ دور حکومت اور بعدازاں پٹھانوں اور سکھوں کے عہد میں ملتان شہر باغوں سے گھرا ہوا تھا‘ شہر کے اطراف میں باغ ہی باغ تھے۔ اس دور میں ساونی کی تقاریب یا تو دریائے چناب کے کنارے پر ہوتی تھیں یا اس مقصد کے لئے قریب ترین باغوں اور نہروں کا رخ کیا جاتا تھا‘ ملتان میں ساونی منانے کے اہم ترین مراکز میں سورج میانی‘ سکندری نالہ‘ مناں بھگت گھاٹ‘ باغ لہنگے خان‘ باغ قصائی والا‘ باغ عام خاص‘ باغ عابد خان‘ باغ سیتل داس‘ باغ بیگی‘ پل شوالہ اور شہر کے دیگر باغات تھے۔
ایک دور تھا کہ ملتان کے یہ باغات اپنے ثمردار اشجار اور خوش نوا پرندوں کے دم قدم سے آباد تھے‘ لوگ ساونی منانے کے لئے انہی باغات اور نہروں کا رخ کرتے تھے۔ باغ عابد خان ملتان کے نواح میں ساونی کا ایک اہم ترین مرکز تھا‘ یہ باغ مغلیہ عہد کے آخر میں نواب عابد خان سدوزئی نے لگوایا تھا جس میں مختلف اقسام کے آم کے درخت تھے۔ یہ باغ عین اسی جگہ واقع تھا جہاں اب ملتان کا انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے۔
نواب شجاع خان اور نواب مظفر خان کے عہد میں ساون کے مہینے میں یہاں پر جمعہ اور اتوار کو میلہ لگتا تھا۔ جمعہ کے میلے میں مسلمان کثرت سے شریک ہوتے تھے، یہ میلے دراصل ساونی کے میلے تھے، جہاں موسیقی اور پانی کے کھیلوں سمیت بہت سی تفریحات ہوا کرتی تھیں۔ مسلمانوں کے آئے دن کے اجتماعات سے گھبرا کر سکھ دور میں یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ ملتان کا نالہ ولی محمد جو شہر کے عین وسط سے گزرتا تھا بھی کسی دور میں ساونی کا اہم ترین مرکز تھا‘ یہ نالہ جہاں جہاں سے گزرتا تھا اس کے اطراف باغات اور کھیت ہی کھیت تھے۔
باغ لہنگے خان کے قریب اس نالہ کے خاص دلفریب مناظر تھے‘ جہاں آج کل ملتان کی معروف لانگے خان لائبریری ہے اس کے عقب میں برگد کا ایک بہت بڑا درخت تھا یہی وہ جگہ تھی جہاں ملتان کے ہندو بڑی تعداد میں ساونی منایا کرتے تھے‘ ملتان کے ہندو اپنی مذہبی عبادات اور تفریح کے لئے اس نالے کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ اس نالے کے اردگرد حسین ترین مندروں کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ اس نالے کے کنارے جگہ جگہ گھاٹ بنے ہوئے تھے جہاں شہر کے ہندو اشنان کرتے تھے۔ شہر سے قربت کی وجہ سے ملتان کے مسلمان بھی بڑی تعداد میں اس نہر کے کنارے ساونی مناتے تھے، ملتان میں موسیقی کی محافل بھی زیادہ تر اسی نالے کے کنارے یا مناں بھگت گھاٹ پر ہوا کرتی تھیں‘ شہر کے بے فکرے ساون کے مہینے میں چاندنی راتیں بھی اسی نہر کے کنارے گزارتے تھے…!!
ساون اس خطے میں اجتماعی سرشاری کا پیغام لے کر آتا تھا اور ساون کا آغاز ہوتے ہی لوگ ساونی کی تیاری میں لگ جاتے تھے‘ لوگ اپنی تمام اشیائے ضروریہ لے کر ان جگہوں پر پہنچ جاتے تھے اور سارا دن دھما چوکڑی مچائی جاتی تھی، کہیں کھانے تیار ہورہے ہیں‘ کہیں موسیقی کی تانیں اڑائی جارہی ہیں‘ کہیں شہ زوری کے مقابلے ہورہے ہیں‘ ساون کی تیاری کے حوالے سے یتیم جتوئی کہتے ہیں:
وت تھیاں صلاحاں دھاون دیاں
گھن سَے سَے چیزاں کھاون دیاں
کرمل کرساونیاں ساون دیاں
بھر بغل کٹورے تھالڑیاں
ملتان میں ساونی کا ایک اہم ترین مرکز دریائے چناب کا کنارا بھی ہوا کرتا تھا‘ ایک دور تھا کہ ملتان کے لوگ ساون کے مہینے میں جمعہ کو دریائے چناب کا رخ کرتے تھے‘ 80ء کی دہائی تک یہ صورتحال رہی کہ ساون کے دنوں میں دریائے چناب کے دونوں کناروں پر تانگے ہی تانگے نظر آتے تھے‘ ساون کے دنوں میں ملتان کے تمام حلوائی بھی دریائے چناب پر اپنی عارضی دکانیں بنا کر ساونی کی رونقیں دوبالا کرتے تھے‘ معروف سرائیکی شاعر صابر چشتی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’سانونی کے موقع پر کسی ٹولی میں موجود کوئی قصہ گوداستان شروع کرتا تو قریب قریب دیگر ٹولیوں کے لوگ بھی اس کے اردگرد جمع ہو جاتے قصہ کئی گھنٹوں چلتا رہتا، بعض ٹولیاں اپنے ساتھ گانے والے بھی لے کر آتیں، اس موقع پر ساون رت سے جڑے گیت خاص طور پر ’’ساون کی بگڑو‘‘ سنا کر لوگوں کو محظوظ کرتے‘‘ ساونی کے موقع پر جھولا جھولنے اور پانی کے روایتی کھیلوں کے بھی مقابلے ہوتے تھے‘ پانی کے کھیلوں کے مخصوص بول بھی اس موقع پر ایک خاص فضا اور جذباتی ماحول پیدا کرتے تھے۔
پانی کے کھیلوں میں شرکاء کے لئے یہ بات لازمی ہوتی تھی کہ کسی کو تیراکی آئے یا نہ آئے پانی میں ضرور اترنا پڑتا تھا‘ جو لوگ پانی میں اترنے سے گریز کرتے انہیں ساتھی اٹھا کر پانی میں پھینک دیتے تھے‘ یہاں یوں بھی گرمی کے موسم میں دریاؤں‘ نہروں اور کنوؤں پر نہانے کی عام روایت رہی ہے یہاں کے لوگ تیراکی بھی جانتے ہیں‘ اس لئے ساونی کے اجتماعات میں پانی کے کھیل لازمی حصہ ہوتے ہیں‘ ملتان کے علاوہ جنوب پنجاب کے تمام علاقوں میں بھی ساونی منانے کی روایت رہی ہے کوٹ ادو‘ مظفر گڑھ‘ ڈیرہ غازی خان‘ تونسہ‘ جام پور اور بہاولپور ثقافتی لحاظ سے بہت ہی زرخیز علاقے ہیں یہاں کے لوگ اجتماعی ثقافتی سرگرمیوں میں دل و جان سے حصہ لیتے ہیں اسی طرح ساون کی روہی میں بھی اپنی ایک خاص اہمیت اور ثقافت ہے، ساون روہی میں بہار کا موسم ہوتا ہے‘ روہیلے سارا سال ساون کے مہینے کا انتظار کرتے ہیں ارد گرد کے علاقوں میں ہجرت کر جانے والے روہیلے ہی ساون کا آغاز ہوتے ہی روہی میں واپس آجاتے ہیں۔
روہی میں جب بارش ہوتی ہے تو ہر سو خوشیاں اور ہریالی پھیل جاتی ہے‘ روہی کے لوگ خوشی سے جھوم اُٹھتے ہیں اور کہتے ہیں ’’روہی وس پئی اے‘‘ یعنی روہی میں ساون کی برسات ہو گئی ہے‘ ایسے میں لوگ اپنے دوردراز کے رشتہ داروں کو روہی آنے کی دعوت دیتے ہیں کہ برسات روہی میں بہار لے کر آ گئی ہے‘ جب روہی میں ہر سو ساون کے رنگ بکھرے ہوتے ہیں تو روہیلے کہتے ہیں ’’روہی وُٹھی پئی اے‘‘ یعنی روہی میں بہار آ گئی ہے۔ سرائیکی خطے میں ساون کی رونقیں اب پہلے جیسی نہیں رہیں نہ تو شہروں میں باغات رہے نہ ثقافتی سطح پر لوگ اب آپس میں جڑت رکھتے ہیں‘ وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اپنی ثقافت اور فطرت سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں ایسے میں یتیم جتوئی کا یہ شعر یاد آتا ہے:
یاری نہ لاونی تھئی‘ لوکی کھلاونی تھئی
مد ساونی گزر گئی، ہک ڈینہہ نہ ساونی تھئی
شراونی سے ساونی تک!!
ہندومت میں ساون کوتہوار کے طور پر منانے کی قدیم روایت
ملتان ہندو مت کا قدیم ترین مرکز ہے‘ اس شہر کی تہذیبی اور تاریخی روایات میں ہندو تہذیب اور اساطیر کے اثرات بھی پائے جاتے ہیں‘ ہندو سال کو صرف تین موسموں‘ گرمی‘ سردی اور برسات میں تقسیم کرتے ہیں۔ ہندو بکرمی تقویم میں دیسی مہینوں کے تمام نام دیوتاؤں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں‘ ہندو مت کے مطابق بنیادی طور پر اندر دیوتا طوفان‘ بارش اور دریاؤں کا دیوتا کہلاتا ہے‘ ساون بھی اندر دیوتا کا ہی ایک نام ہے‘ ساون کا پرانا ویدک نام پرجنیا ہے‘ پرجنیا ہی وہ دیوتا ہے جو زمین پر بارش کا تحفہ بھیجتا ہے‘ رفعت عباس کہتے ہیں:
جا پرجنیا گھوٹ سجن دے بارش گھن کر جا
ہندو مت کے مطابق پرجنیا ہی زمین کی زرخیزی کا بھی دیوتا ہے۔ ساون اور ساونی منانے کی روایت پر غور کیا جائے اس کے پس منظر میں بھی ہندو روایات ہی نظر آتی ہیں کیونکہ موسموں کو تہوار کے طور پر منانے کی روایت ہندو مت میں قدیم ایام سے چلی آرہی ہے۔ ہندی میں ساون کو ’’شراون‘‘ کہا جاتا ہے‘ شراون سے ہی شراونی کا لفظ نکلا جو ساون میں منایا جانے والا ایک ہندو تہوار ہے‘ اس لئے یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ’’ساونی‘‘ دراصل شراونی کی ہی ایک شکل ہے۔ ساون دیسی تقویم کا پانچواں مہینہ ہے‘ ہندو مت میں ساون کو ایک مقدس حیثیت حاصل ہے‘ ساون کے مہینے میں ہندو ہر سوموار کو شو دیوتا کے نام اور ہر منگل کو پاروتی دیوی کے لئے برت رکھتے ہیں‘ اس مہینے میں ہندو اپنے بہت سے مذہبی تہوار بھی مناتے ہیں جن میں شراونی میلہ‘ رکھشا بندھن‘ نارالی پورنیما‘ کرشن جنم اشٹمی‘ ہریالی تیج اور دیگر تہوار شامل ہیں۔
نارالی پورنیما مچھیروں کا تہوار ہے جو پورے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے‘ اسی طرح شراونی میلہ میں شو دیوتا کی سالانہ پوجا ہوتی ہے‘ ہندو ساون کے مہینے میں دودھ اور پھل خیرات کرتے ہیں‘ برہمن اس مہینے میں مذہبی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں‘ ہندو ساون میں آنے والی وباؤں سے بچاؤ کے لئے خصوصی پوجا بھی کرتے ہیں‘ ہندو روایات کے مطابق ساون جسمانی طاقت کے اظہار کا بھی اہم ترین موسم ہے‘ ہندوؤں کے ہاں ساونی کے موقع میں دریا میں نہانے اور پانی کی پوجا کے مخصوص گیت بھی رائج ہیں، ساونی کے موقع پر ہندوؤں کے ہاں پانی کی پوجا کے مخصوص بول بھی بولے جاتے ہیں۔
ملتان میں ساون کی قدرتی و ثقافتی سوغاتیں
سرائیکی خطے میں ساون کا مہینہ بہت سی تہذیبی سرگرمیاں لے کر آتا ہے‘ ساون قدرتی نبانات کی نشوونما اور بہار کا موسم ہوتا ہے۔ ساون کی پہلی بارش ہوتے ہی زمین خود رو سبزے سے بھر جاتی ہے۔ درختوں کے پتے بارش کے پانی سے دھل کر صاف شفاف ہو جاتے ہیں جن پر خوش گلو پرندے آ کر گیت گاتے ہیں۔ باغوں میں کوئل کوکتی ہے یہ نظارے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
سرائیکی خطے میں ساون کنول کے پھولوں کے کھلنے کا بھی موسم ہوتا ہے۔ ایک دور تھا کہ ملتان کے نواح میں ایسے بہت سارے ’’ڈھنڈ‘‘ تھے جہاں بڑی تعداد میں کنول کے پھول کھلا کرتے تھے۔ ’’ڈھنڈ‘‘ پانی کے اس ذخیرے کو کہتے ہیں جو سیلاب کی صورت میں دریا سے باہر نکل کر کسی نشیبی جگہ میں جمع ہو جائے اور دوبارہ دریا میں نہ جا سکے۔ ملتان کے نواح اور دریائے چناب کے قریب قریب 80 کی دہائی تک بہت زیادہ ’’ڈھنڈ‘‘ ہوا کرتے تھے‘ جہاں ساون کا آغاز ہوتے ہی کنول کے نیلے‘ پیلے‘ گلابی اور سفید پھول اپنی بہار دکھاتے تھے۔ دریائے چناب کے دونوں کناروں کے علاوہ اس طرح کے ڈھنڈ تونسہ‘ پل قنبر‘ دائرہ دین پناہ‘ کوٹ ادو‘ غازی گھاٹ‘ خان گڑھ‘ روہیلانوالی‘ شہر سلطان اور علی پور کے علاقے میں بھی موجود ہیں اور یہاں آج بھی بڑی تعداد میں کنول کے پھول کھلتے ہیں۔ ملتان میں ساون کا آغاز ہوتے ہی گلی محلوں میں کنول کے پھول بھی دکھائی دیتے تھے۔
کنول کے پھول جس ڈال پر کھلے ہوتے ہیں اسے ایک خاص انداز سے خم دے کر ہار بھی بنائے جاتے تھے اور ان میں کنول کے پھول کو پرو دیا جاتا تھا جو چھوٹی بچیاں اپنے گلے میں ڈال کر ساونی کی تقاریب میں شریک ہوتی تھیں۔ کنول کے پودے کھڑے پانی میں پیدا ہوتے ہیں اس پودے کے اوپر تو پھول کھلا ہوتا ہے جب یہ پھول خشک ہو کر بکھر جاتا ہے تو اس کے نیچے سے ایک ڈوڈا ابھر آتا ہے جسے کول ڈوڈا‘ کنول ڈوڈا یا کال ڈوڈا کہتے ہیں۔ ملتانی زبان میں اس ڈوڈے کو ’’پبن ٹکی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے اوپر کی سبز جھلی اتار دی جائے تو اس کے اندر ایک خاص ترتیب سے سبز رنگ کی پھلیاں لگی ہوتی ہیں جنہیں نکال کر چھیلا جائے تو اندر سے بادام کی طرح کی سفیدی گری نکل آتی ہے۔
یہ قدرتی طور پر پیدا ہونے والی انتہائی مقوی سوغات ہوتی ہے جسے ملتان کے لوگ بڑی رغبت سے کھایا کرتے تھے۔ ساون کا آغاز ہوتے ہی ’’پبن ٹکی‘‘ ایک سوغات کی طرح مارکیٹ میں آتی تھی۔ ایک دور تھا کہ ملتان میں سبزی کی ہر دکان پر ’’کول ڈوڈے‘‘ ضرور فروخت ہوتے تھے، لوگ گلیوں اور محلوں میں چھابڑی پر کول ڈوڈے فروخت کرتے تھے۔ کنول کے پھول جو گندے پانی کی سطح پر چراغوں کی طرح دمک رہے ہوتے ہیں کی پانی میں موجود جڑ بھی بطور سبزی پکائی جاتی ہے اس جڑ کو ’’بھی‘‘ کہا جاتا ہے یوں تو ’’بھی‘‘ سارا سال ہی مارکیٹ میں رہتی ہے لیکن ساون کے مہینے میں تازہ ’’بھی‘‘ مارکیٹ میں آتی ہے۔ ملتان میں ’’بھی‘‘ کو بطور سالن پکانے کے ساتھ ساتھ چنوں کے ساتھ بھی رغبت کے ساتھ کھایا جاتا ہے‘ کچھ علاقوں میں ’’بھی‘‘ کے پکوڑے بھی بنائے جاتے ہیں۔
ساون کے موسم میں ملتان کی دو سوغاتیں آم اور کھجور بھی ہیں‘ ساون شروع ہوتے ہی ملتان کے علاقہ کا آم اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ ملتان کے لوگ ساون کے مہینے میں آم زیادہ رغبت سے کھاتے ہیں بطور خاص چونسا آم ساون میں ہی تیار ہوتا ہے۔ پہلے زمانوں میں لوگ آم کے ٹوکرے بارش کے پانی میں رکھ چھوڑتے تھے اور پھر ٹھنڈے ہونے پر انہیں کھایا کرتے تھے۔ ساونی کی ہر تقریب بھی آم کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی۔ ساونی پر جاتے ہوئے بھی لوگ ٹوکریوں میں آم لے جاتے تھے۔
اسی طرح ساون میں آم کے ساتھ ساتھ ملتان کے نواح میں لگی کھجوریں بھی موسمی سوغات کے طور پر مارکیٹ میں آتی ہیں۔ ملتان کے علاقے شیرشاہ سے کچی کجھوریں جنہیں ’’شیر شاہ کے ڈوکے‘‘ کہا جاتا ہے‘ بھی ساون کی بہار کے ساتھ ہی مارکیٹ میں آتی ہیں۔ ساون کے مہینے میں کچھ روایتی پکوان بھی اس خطے قدیم ایام سے چلے آرہے ہیں ۔ ساون میں چونکہ انسانی جسم میں رطوبت زیادہ پیدا ہو جاتی ہے، اس لئے لوگ ساون میں چاول کی بنی ہوئی اشیاء زیادہ استعمال کرتے ہیں جس میں ’’چلڑا‘‘ چاول کی روٹی اور امرسے جنہیں اردو میں اندرسے کہا جاتا ہے بطور خاص بنائے جاتے تھے۔
The post ساونی؛ سرائیکی خطے میں ساون کی اجتماعی ثقافتی سرگرمی appeared first on ایکسپریس اردو.