جولائی کے وسط سے ناجائزریاست اسرائیل کی فورسز اور مقبوضہ فلسطین کے باشندوں کے درمیان جھڑپوں اور مظاہروں کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔کشیدگی میں اُس وقت اضافہ ہوا جب مشرقی بیت المقدس(یروشلم) کے پرانے شہر میں اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈکو بند کردیا۔ یہ بندش 1969ء کے بعد پہلی بار ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ ماہ رواں کے وسط میں ہونے والی اس بندش سے پہلے اسرائیلی فورسز اور فلسطینیوں کے درمیان مسلح جھڑپ ہوئی تھی۔14 جولائی ، جمعۃ المبارک کے روز ہونے والے اس واقعہ میں دو اسرائیلی پولیس اہلکار ہلاک جبکہ تین فلسطینی شہید ہوئے۔ چنانچہ اسرائیلی فورسز نے اسی روز مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ کو نماز جمعہ کے لئے بند کردیا۔ اگلے اتوار کے روز نئے انتظامی قواعد و ضوابط کے ساتھ مسجد کا کمپاؤنڈکھول دیا، اب میٹل ڈیٹیکٹرز نصب کئے گئے تھے جبکہ ہال کے داخلی دروازوں پر نصب کیمروں کی تعداد میں بھی اضافہ کردیا گیا۔ فلسطینیوں نے نئے انتظامات کی واپسی تک مسجد کے کمپاؤنڈ میں داخل ہونے سے انکار کردیا ہے۔ وہ ایک ہفتہ سے زائد عرصہ تک احتجاجاً مسجد کے صحن ہی میں نماز ادا کرتے رہے۔ان کا موقف تھا کہ اسرائیل مسجد پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لئے پیش قدمی کررہا ہے۔
اگلے جمعۃ المبارک(21جولائی) کوہزاروں کی تعداد میں فلسطینی مسجد اقصیٰ کے ’باب الاسباط‘ کے باہر جمع ہوئے۔یہ پرانے شہر کی طرف سے داخل ہونے کا راستہ ہے۔یہ سب فلسطینی پُرامن تھے اور مسجد پر اسرائیلی فورسز کے قبضے کے خلاف احتجاج کررہے تھے لیکن فورسز نے ان پر دھاوا بول دیا۔نتیجتاً سینکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے۔بعدازاں مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے میں چار فلسطینوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ان میں سے ایک فلسطینی ایک یہودی کی نفرت کا نشانہ بنا۔
مسجد اقصیٰ کا کمپاؤنڈ کیوں اس قدر زیادہ اہم ہے؟
چاندی سے مزین گنبد کے نیچے یہ 35ایکڑ کا کمپاؤنڈہے۔ مسلمان اسے ’الحرم الشریف‘ جبکہ یہودی Temple Mount کا نام دیتے ہیں۔مسجد کا کمپاؤنڈ مقبوضہ بیت المقدس کے پرانے شہر سے متصل ہے۔اسے اقوام متحدہ کا ادارہ ’یونیسکو‘ عالمی ورثہ قرار دے چکا ہے۔یہ تینوں ابراہیمی مذاہب اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے لئے اہم ہے۔1967میں جب سے اسرائیل نے پرانے شہر سمیت مشرقی بیت المقدس ، مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کیا، ہر کوئی مقدس سرزمین کے اس ٹکڑے کو حاصل کرنے کے کوشش میں ہے۔ اگرچہ یہاں لڑائی کے واقعات ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام سے بھی پہلے سے ہورہے ہیں۔
سن1947ء میں اقوام متحدہ نے تاریخی علاقے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کا منصوبہ بنایا۔ان دنوں یہ علاقہ برطانیہ کے کنٹرول میں تھا۔ایک حصہ یہودیوں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا جن کی بڑی تعداد یورپ سے آئے تھے اور دوسرا حصہ فلسطینیوں کو دیاجاناتھا۔یہودیوں کو علاقے کا 55فیصد حصہ دیاگیا جبکہ فلسطینیوں سے کہاگیا کہ وہ باقی ماندہ 45 فیصد پر اپنی ریاست قائم کرلیں۔ مشرقی بیت المقدس جہاں مسجد اقصیٰ کا کمپاؤنڈ واقع ہے، اقوام متحدہ کے زیرانتظام ہے۔ اسے یہ خاص مقام و مرتبہ تینوں بڑے مذاہب کے لئے اہم ہونے کے باعث ملا۔
اسرائیل کے قیام کے بعد پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔اس کے نتیجے میں اسرائیل نے 78فیصد علاقے پر قبضہ کرلیا، مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور غزہ مصری اور اردنی کنٹرول میں آگئے۔ دوسری عرب اسرائیل جنگ (1967ء)کے نتیجے میں اسرائیل نے باقی ماندہ فلسطین کے مزید کئی علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔اس میں مشرقی بیت المقدس، پرانا شہر اور الاقصیٰ بھی شامل تھے۔ مشرقی بیت المقدس اور پرانے شہر پر اسرائیلی قبضہ متعدد بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے جن کے مطابق قابض قوت کو مقبوضہ علاقے میں خودمختاری نہیں مل سکتی۔
جوں جوں سال گزرتے رہے، اسرائیلی حکومت قدیم شہر اور مشرقی بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا حصہ بنانے کے لئے آگے سے آگے بڑھتی رہی۔1980ء میں اسرائیل نے ایک قانون پاس کیا،جس میں بیت المقدس کو مکمل طور پر اسرائیل کا دارالحکومت قراردیدیاگیا۔ یہ بھی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی تھی۔ آج دنیا میں کوئی بھی ملک بیت المقدس کو اسرائیل کی ملکیت تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی وہ اس کاجغرافیہ تبدیل کرنے کی اسرائیلی کوششوں کو جائز قراردیتا ہے۔
بیت المقدس شہر میں مقیم فلسطینیوں کی تعداد قریباً چار لاکھ ہے۔وہ یہاں پیدا ہوئے ہیں لیکن انھیں یہاں کی شہریت حاصل نہیں ہے۔انھیں صرف یہاں رہنے کی اجازت ہے۔حالانکہ وہ زمانہ قدیم سے نسل در نسل یہاں آباد ہیں۔دوسری طرف جو یہودی یہاں پیدا ہوئے ہیں، انھیں فوراً شہریت مل جاتی ہے۔سن1967ء سے اسرائیل مختلف انداز سے فلسطینیوں کو یہاں سے نکل جانے پر مجبور کرتا رہا ہے۔ ان کے لئے طرح طرح کی مشکلات کھڑی کرتا رہا ہے۔اسی طرح وہ مشرقی بیت المقدس میں کم ازکم 12یہودی بستیاں بسا چکا ہے جہاں کم ازکم دولاکھ یہودیوں کو آباد کیا گیا ہے۔دوسری طرف اگر فلسطینی گھر تعمیر کریں تو انھیں مسمار کردیا جاتا ہے۔
مسجد اقصیٰ کی مذہبی اہمیت
مسلمانوں کے لئے مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ تیسرا سب سے مقدس مقام ہے۔یہاں سے ہی رسول اکرم ﷺ آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔یہودی کہتے ہیں کہ یہاں ہیکل سلیمانی تھا۔ دوسری طرف اسرائیل کے رِبّیوں(یہودی علما) کا ادارہ یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے اور وہاں عبادت کرنے سے منع کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں مقدس ترین’سینا گوچ‘(بنیادی پتھر) ہے جس پر پاؤں رکھنے سے اس کا تقدس پامال ہوتا ہے۔ جو ایسا کرتا ہے ، وہ عذاب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
مسجد کے کمپاؤنڈکی مغربی دیوار کو یہودی ’دیوار گریہ‘ کہتے ہیں۔ان کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دوہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے۔یہودی روایات کے مطابق دیوار گریہ کی تعمیرحضرت داؤد علیہ السلام نے کی تھی۔موجودہ دیوار گریہ اسی دیوار کی بنیادوں پر قائم کی گئی تھی۔ یادرہے کہ مسلمان اسے ’دیوار براق‘ کہتے ہیں۔شب معراج میں براق یہاں آکر رکی تھی۔
سن1967ء میںاردن اور اسرائیل کے مابین معاہدہ طے پایا کہ مسلمانوں کا ادارہ ’وقف‘ مسجد اقصیٰ کا اندرونی نظام سنبھالے گا جبکہ اسرائیل بیرونی سیکورٹی کی ذمہ داریاں ادا کرے گا۔غیرمسلم یہاں مخصوص اوقات میں آسکتے ہیں لیکن یہاں عبادت نہیں کریں گے۔تاہم اب بعض یہودی تنظیمیںمسجد اقصیٰ میں یہودیوں کے داخلے پر پابندی کی اسرائیلی پالیسی کو چیلنج کررہی ہیں۔ یہ تنظیمیں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی عملبردار ہیں، اسرائیلی حکومت کے بعض عہدیدار انھیں فنڈز بھی فراہم کرتے ہیں حالانکہ حکومت یہاں سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی باتیں کرتی ہے۔
آجکل اسرائیلی فورسز فلسطینی علاقوں میں آکر بسنے والے یہودیوںکو مسجد اقصیٰ میں داخلے کی اجازت دے رہی ہیں، بعض گروہ سینکڑوں یہودیوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو اسرائیلی فورسز کی مکمل حفاظت میں یہاں آتے ہیں۔فلسطینی خوفزدہ ہیں کہ اسرائیل مسجداقصیٰ کے مکمل کنٹرول کی طرف بڑھ رہا ہے۔سن1990ء میں ایک یہودی تنظیم نے اعلان کیا تھاکہ وہ قبۃ الصخرہ میں ہیکل سلیمانی کا سنگ بنیاد رکھے گی۔اس کے نتیجے میں فسادات کی ایک بڑی لہر پیدا ہوئی جس میں اسرائیلی پولیس نے 20فلسطینیوں کو شہید کردیا تھا۔
سن2000ء میں اسرائیلی سیاست دان ایریل شیرون 1000 پولیس اہلکاروں کے ساتھ مقدس مقام میں داخل ہوا۔یہ ایک اشتعال انگیز اقدام تھا۔ حالانکہ ان دنوںامریکی امن کوششوں کے نتیجے میں اُس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود باراک اور فلسطینی رہنما یاسر عرفات اس سوال کا جواب تلاش کررہے تھے کہ مقبوضہ بیت المقدس کو کیسے فریقین کے درمیان تقسیم کیاجائے۔
شیرون کے مسجد اقصیٰ میں داخلے سے دوسری تحریک انتفاضہ شروع ہوگئی جس میں کم ازکم 3000فلسطینی شہید ہوگئے۔گزشتہ مئی میں صہیونی ریاست کیمشرقی بیت المقدس پرقبضہ کو 50سال مکمل ہوئے، اس پر اسرائیلی کابینہ کا اجلاس مسجد اقصیٰ کے نیچے تعمیر سرنگوں میں منعقد ہوا۔یوں اسرائیل نے مسلمانوں کو ایک واضح پیغام دیا کہ وہ بیت المقدس کا مکمل کنٹرول حاصل کرے گا۔ یہ بھی ایک اشتعال انگیزی تھی۔
اسرائیل ایک عرصہ سے مختلف انداز میں مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے روکتا رہا ہے۔اس نے 2000ء کی دہائی میں ایک دیوار بھی تعمیر کی تھی تاکہ فلسطینیوں کومغربی کنارے سے اسرائیل میں داخل ہونے سے روکا جائے۔مغربی کنارے کے 30لاکھ فلسطینیوں میں سے صرف ایک مخصوص عمر تک کے لوگوں کو نمازجمعہ کی ادائیگی کے لئے مقبوضہ بیت المقدس کی طرف جانے کی اجازت ہے۔ان سے کم عمر کے لوگوں کو وہاں جانے کے لئے اسرائیلی حکام سے پرمٹ لینا پڑتا ہے ، تاہم اسے حاصل کرنا ناممکن کی حد تک مشکل کام ہے۔ یہ پابندیاں مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس کے درمیان چیک پوائنٹس پر اکثر اوقات گاڑیوں کی طویل قطاروں اور سخت کشیدگی کا باعث بن جاتی ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس میں نماز کی ادائیگی کے لئے جانے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ میٹل ڈیٹیکٹرز سمیت اسرائیلی حکام کے نئے انتظامات کو اس مقدس مقام پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہاہے۔ اسی طرح یہ مذہبی عبادات کی آزادی سلب کرنے کا ایک اقدام بھی ہے۔عبادات کی آزادی کوبین الاقوامی قانون کے مطابق تحفظ حاصل ہے۔ فلسطینی صدر محمودعباس نے کہا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں حالیہ کشیدگی کے باعث قلسطینی قیادت نے اسرائیل سے ہرقسم کے تعلقات معطل کردئیے ہیں۔انھوں نے کہا ہے کہ اسرائیل جب تک نئے حفاظتی اقدامات واپس نہیں لیتا، تعلقات بحال نہیں ہوں گے۔
حالیہ کشیدگی گزشتہ دوبرسوں سے مسجد اقصیٰ کے نزدیک کشیدگی بار بار پیدا ہوجاتی ہے۔سن2015ء میں ایک یہودی تہوارکے موقع پر سینکڑوں یہودی مسجد میں گھس گئے، نتیجتاً جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ایک سال پہلے یہودی سیاحوں نے رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں بھی مسجداقصیٰ میں گھسنے کی کوشش کی، یہ حرکت روایات کے بالکل برعکس تھی۔کشیدگی کے زیادہ تر واقعات محض اس لئے رونما ہوئے کہ اسرائیلی آبادکارمسجد کے اندر اپنی عبادت کرنے پر بضد تھے۔حالیہ دو ہفتوں کے دوران اسرائیلی فورسز نے نئی پابندیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں پرسیدھی گولیاں چلائیں،آنسو گیس پھینکی اور سٹیل کی گولیاں بھی استعمال کیں۔یادرہے کہ اسرائیلی حکام نے 50سال سے کم عمر فلسطینیوں کے مسجد اقصیٰ میں داخلہ پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ احتجاج کے بعد اسرائیل نے پولیس اور بارڈر سیکورٹی یونٹ کے 3000اہلکاروں کو مسجد کے اردگرد متعین کیاہوا ہے۔
’الاقصیٰ‘ فلسطین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے تاہم یہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تنازعہ کی بڑی علامت ہے۔اگرچہ مسجد مسلمانوں کے لئے خاص طور پر اہم ہے تاہم فلسطینی عیسائی بھی اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات کے خلاف احتجاج میں مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔فلسطینی وزیرخارجہ کی سابقہ قانونی مشیر یریٰ جلاجل کا کہنا ہے :’’ حرم الشریف کے مسئلہ سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کوکس قدر ناانصافی اور جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ غصہ اور مزاحمت مسلسل تیز ہورہی ہے‘‘۔
مسجد اقصیٰ میں ہونے والے حالیہ واقعات کے نتیجے میں احتجاج کا دائرہ مغربی کنارے اور غزہ تک پھیل گیا ہے۔فلسطینیوں پر پابندیوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے جبکہ یہودی تنظیمیں اپنے کارکنوں کو مسجد میں عبادت کرنے کے لئے مسلسل بلا رہی ہیں۔بعض فلسطینی خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کو تقسیم کرنے والا ہے۔ مسجد کا انتظام چلانے والے’وقف‘ کی طرف سے موقف سامنے آیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے نئے اقدامات کی واپسی میں جس قدر تاخیر ہوگی، حالات اسی قدر سنگین ہوں گے۔
The post مسجد اقصیٰ پر بھی قبضہ کرنے کی اسرائیلی کوششیں appeared first on ایکسپریس اردو.