گلی میں مڑتے ہی انہیں عین مکان کے دروازے پر ایک بوڑھا شخص دکھائی دیا۔ شوہر نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا:
’’یہ ہمارے مالک مکان ہیں!‘‘
’’اور ان انجینئر صاحب سے ان کا کیا تعلق؟‘‘ عورت نے فوراً پوچھا۔
’’وہ ان کے بیٹے ہیں۔‘‘ شوہر نے کہا اور پھر دو منزلوں پر مشتمل ایک اور چھوٹے سے گھر کی طرف، جو بالکل انجینئر صاحب کے مکان سے متصل تھا اور اسی طرز پر بنایا گیا تھا، اشارہ کرتے ہوئے بتانے لگا:
’’یہ تمام گھرنئی طرز پر تعمیر کیے گئے ہیں۔‘‘
عورت نے بڑے شوق سے ان گھروں کی رنگارنگ پردوں سے آراستہ کھڑکیوں پر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا: ’’اس کا کرایہ کتنا بتا رہے ہیں؟‘‘
اسی اثنا میں وہ دونوں بزرگ شخص کے قریب پہنچ گئے۔ آدمی نے سلام کیا اور بولا: ’’جناب! ہم آپ کو زحمت دے رہے ہیں۔‘‘ بزرگ نے خوش دلی سے قدم بڑھاتے ہوئے جواب دیا: ’’کوئی بات نہیں، دراصل میرے بیٹے کو کوئی ضروری کام تھا۔ مجھ سے کہنے لگا کہ میں آپ لوگوں کو یہ مکان دکھا دوں… چلیے اندر چلتے ہیں۔‘‘
’’ہم معذرت خواہ ہیں کہ قدرے تاخیر سے پہنچے۔‘‘ آدمی نے ممنونیت سے کہا۔ بزرگ نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے مکان کا دروازہ کھولتے ہوئے جواب دیا: ’’اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے! آئیے تشریف لائیے…‘‘ اس کی کمر خمیدہ تھی اور ضیفی کے باعث وہ چھڑی کی مدد سے لنگڑاتے ہوئے چلتا تھا… دروازہ کھلتے ہی دونوں میاں بیوی اس کے پیچھے پیچھے مکان کے وسطی ہال میں داخل ہوگئے۔ بزرگ شخص دوسری منزل کی طرف جانے والے زینے کے پاس رک گیا اور سیڑھیوں کا سہارا لیتے ہوئے گویا ہوا:
’’ایسا کرتے ہیں کہ اوپر کی منزل سے شروع کرتے ہیں، اس کے بعد نیچے آتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟ ٹھیک رہے گا؟…‘‘
اس نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا۔
’’جیسے آپ مناسب سمجھیں۔‘‘ شوہر نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ بوڑھا آدمی لاٹھی ٹیکتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ دونوں میاں بیوی اس کے پیچھے ہولیے۔ سیڑھیاں سیمنٹ کی بنی ہوئی، قدرے تنگ مگر نئے انداز کی تعمیر شدہ تھیں اور تھوڑا سا بل کھاتی ہوئی دوسری منزل تک جاتی تھیں… اوپر پہنچ کر عورت اور مرد کمروں کی طرف بڑھے۔ وہ شخص مسکراتا ہوا ان کے ہمراہ ہولیا اور بتانے لگا:
’’اس منزل میں دو کمرے ہیں۔ ہاں، نیچے کی منزل میں تین ہیں۔ تمام کمرے روشن، ٹھنڈے اور ہوادار ہیں۔ یہ کھلی فضا کا گھر ہے۔ سورج کی روشنی یہاں براہ راست پڑتی ہے۔ میرے بیٹے نے انگلستان میں تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ سورج کی روشنی کی قدرو قیمت جانتا ہے… البتہ ہم سورج کے قدر شناس نہیں!… انگریز تو اس قدرتی روشنی کے ایک ایک ذرے پر جان دیتے ہیں۔‘‘
وہ دونوں جواب میں محض سر ہلا کر رہ گئے۔
عورت کمرے کی دیواری الماریوں کے اندر سر ڈالے معائنے میں مصروف ہوگئی۔
آدمی دیواروں پر بنے نمی کے بادلوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کچھ بڑبڑانے لگا۔ اس کے ہونٹ کچھ کہنے کو ہلے ہی تھے کہ اچانک سائرن کی ایک تیز آواز بلند ہوئی۔ ضیعف آدمی فوراً وضاحت کرنے لگا:
’’یہ شہر کا شور شرابا ہے… اوپر کی منزل کے کمروں کا رخ شہر کی طرف ہے۔ کھڑکیاں کھول کر آپ پورے شہر کا نظارہ کرسکتے ہیں۔ یہاں راتیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔ میرے بیٹے کا تو کہنا ہے کہ رات کے وقت شہر میں روشنی کی بارش ہونے لگتی ہے… آبادی سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ اس جگہ ہر طرف پہاڑی ٹیلے اور ڈھلوانیں تھیں… ہائے ہائے، کیا درے اور پہاڑیاں تھیں اور سورج کی کیسی روشنی برستی تھی… لوگ یہاں پیڑ لگانے کے لیے مرتے تھے!‘‘
عورت بات کو بڑھاتے ہوئے کہنے لگی: ’’اب تو ہر طرف عمارتیں ہی نظر آرہی ہیں۔‘‘ وہ آدمی بھی بولا: ’’اس زمانے میں زمینیں بہت سستی تھیں… جب ہم یہاں آئے تو یہ سارا علاقہ اجاڑ بیابان تھا۔ یہ جگہ آبادی سے چند فرسنگ فاصلے پر تھی اور چاروں طرف سناٹا تھا… میں جب یہاں آیا تو میں نے کنواں کھودا اور اس میں سے پانی نکال کر بہت سے درخت کاشت کیے… وہ اس طرف ابھی تک گہرا کنواں موجود ہے…‘‘
بوڑھے شخص نے نئی عمارتوں کے عقب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا اور پھر بات کو جاری رکھتے ہوئے بولا:
’’اب بھی یہ کنواں پانی دیتا ہے… میرا بیٹا تو اس کا پانی فروخت بھی کرتا رہا ہے۔‘‘
عورت مکان دیکھنے میں مصروف رہی۔ اس کی آنکھیں کمروں کے سامنے کی خوب صورت بالکنی کو دیکھ کر چمک اٹھیں۔ مرد نے بھی اسے دیکھ کر اطمینان سے سرہلایا۔ بوڑھا آدمی بدستور کہہ رہا تھا:
’’چند سال پہلے تک، یہاں ہم سب درختوں کے سایے میں رہتے تھے۔ کیا زمانہ تھا!
ہم باغ بانی کرتے تھے۔ میں نے ہر طرح کے درخت بڑی تعداد میں اگائے۔ پھولوں والے پودے بھی کاشت کیے… میرا بیٹا جب انگلستان سے آیا تو اس نے سارے درختوں کو گرا دیا اور باغ کو برباد کرکے رکھ دیا۔ اس کی جگہ یہ چھوٹے چھوٹے مکان بنا ڈالے…‘‘
آدمی کہنے لگا: ’’عقل مندی کی، اس زمانے میں ان مکانوں کی آمدنی باغ داری سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘ عورت نے پوچھا: ’’کیا آپ کی باغ سے کافی کمائی ہوجاتی تھی؟‘‘
بزرگ نے جواب دیا:
’’ہاں، میں اپنے باغ سے اپنا خرچہ نکال لیتا تھا۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ مجھے آمدنی کی فکر نہیں تھی۔ میں تو زیادہ تر مصروف رہنے کے لیے باغ داری کرتا تھا۔ میرا بیٹا جب واپس آیا، تو اس نے کہا کہ اس کام سے کچھ حاصل نہیں ہے۔ اسی وقت اس نے تمام درخت گرادیئے۔ ساری جگہ صاف کروا دی اور دو سال کے اندر اندر یہ چھوٹے چھوٹے مکان کھڑے کردیئے۔‘‘ آدمی نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا:
’’یہاں باغ کی جگہ پر کتنے فلیٹ تعمیر ہوئے ہیں؟‘‘
’’بارہ فلیٹ! باغ خاصا بڑا تھا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ آدمی نے جواباً سر ہلایا اور بڑے حقیقت پسندانہ لہجے میں کہنے لگا:
’’میرے خیال میں تو بہت عقل مندی کی ہے۔ اب باغ داری میں کون سی آمدن ہے؟‘‘
عورت بھی جلدی سے بولی:
’’خاص طور پر اس وقت کہ جب آپ کی باغ سے زیادہ کمائی بھی نہ ہوتی ہو۔‘‘
بزرگ نے جیسے ان کی باتیں سنی ہی نہیں، وہ سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے بتارہا تھا:
’’میں نے ہر قسم کے درخت اگائے ہیں… شاہ بلوط، دردار، بید اور بہت سے آرایشی اور زینتی درخت… پھلوں کے درخت بھی میرے باغ میں تھے۔ چیری، فالسہ، سیب، ناشپاتی، آپ تو جانتے ہیں کہ یہاں صرف سیاہ ریشے کے درخت ہی پیدا ہوسکتے ہیں۔ میں گل کاری بھی کرتا تھا…‘‘
عورت نے پوچھا: ’’کیا آپ اپنے درختوں کے پھل فروخت بھی کرتے تھے؟‘‘ جس پر بزرگ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا:
’’زیادہ نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کسی پھل کی بازار تک پہنچنے کی نوبت ہی نہ آتی تھی۔ میری بیٹیاں اور نواسے نواسیاں آتے تھے، کھاتے تھے اور ساتھ بھی لے جاتے تھے۔
میری پانچ بیٹیاں اور بارہ نواسے نواسیاں ہیں۔ بیٹا صرف ایک یہی ہے۔‘‘
’’ماشاء اللہ! خدا سلامت کھے!‘‘ عورت بڑے رسان سے بولی۔
بوڑھا آدمی اپنے سفید بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے جیسے خیال کی وادی میں جاپہنچا اور بڑے خواب ناک انداز میں بتانے لگا:
’’جب یہاں بچے آتے تھے، تو آپ نہیں جانتے کہ وہ کس قدر لطف اٹھاتے تھے۔ ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے دوڑتے تھے۔ کبھی درختوں کے پیچھے آنکھ مچولی کھیلتے تھے، ہر طرف ان کا شور و غل ہوتا تھا، بے چارے! اپنے گھروں میں تو کھیل نہیں سکتے تھے۔ ذرا سا بھاگتے تھے تو دیواریں راستہ روک لیتی ہیں، آج کل کے گھر تو گھر ہیں ہی نہیں، گھونسلے ہیں، چیونٹیوں کے بل ہیں۔ ذرا بھی ہوادار نہیں ہیں، نہ ہی ان میں گنجائش ہے۔ بڑا افسوس ہوتا ہے ایسے گھر دیکھ کر، ننھے معصوم بچوں کو کھیلنے کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں ملتی۔‘‘
وہ سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگا۔ اس بار عورت اور مرد آگے تھے اور بزرگ شخص ان دونوں کے پیچھے اپنی چھڑی کی مدد سے آہستہ آہستہ نیچے آرہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ لگاتار اپنے باغ اور اپنے ہاتھوں بوئے ہوئے درختوں کے بارے میں باتیں کیے جا رہا تھا۔
نیچے آکر آدمی نے جلدی سے کمروں کا چکر لگا کر ان کی گنجائش کا اندازہ لگایا۔ وہ زیر لب کچھ حساب کتاب بھی کرنے لگا۔ عورت نے باورچی خانے کا رخ کیا اور دیواری الماریوں کو خواہ مخواہ کھولنے اور بند کرنے لگی۔ بوڑھا آدمی بس ان کے پیچھے پیچھے چھڑی کے سہارے ٹہلتا رہا اور مکان کے بجائے اپنے باغ ہی کی تعریف میں مصروف رہا:
’’میرا خیال تھا کہ شمال کے جنگل سے میپل اور گل ابریشم لاؤں گا…‘‘
اب دونوں میاں بیوی غیر شعوری طور پر آہستہ آہستہ اس سے دور ہٹنے لگے۔ وہ مکان کے صحن کی طرف بڑھے، احاطہ خاصا چھوٹا تھا لیکن مکمل طور پر دیدہ زیب اور خوش رنگ چمکیلی ٹائلوں سے مزین ہونے کے باعث بہت متاثر کن تھا۔ بوڑھا آدمی یہاں جگہ جگہ رکتا رہا اور اپنے ڈنڈے سے ٹائلوں پر چوٹ مارتے ہوئے بتانے لگا:
’’عین اس جگہ پر… ہاں، بالکل یہاں، کیسا بڑا ایک چیری کا درخت تھا، اور شاہ بلوط کی جگہ یہاں تھی، اللہ اللہ! کس قدر پھیلے ہوئے درخت تھے! کیسے سایہ دارتھے! دیکھ کر مزا آجاتا تھا۔ جو دیکھتا تھا دنگ رہ جاتا تھا!!…‘‘
اب دونوں نے اس کی طرف مطلق دھیان نہ دیا اور آپس میں ہی کھسر پھسر کرتے رہے۔ عورت باتھ روم کی طرف بڑھی اور مرد نے احاطے کے طول و عرض کا جائزہ لیا۔ وہ مکان کے اس حصے کو بھی بڑے حسابی انداز میں پرکھتا رہا۔ اس کے ہونٹوں میں بارہا ہلکی سی جنبش پیدا ہوئی جیسے وہ مکان کے بارے میں کچھ معلومات جاننا چاہتا ہو۔
بوڑھا آدمی ہانپتا کانپتا ان کے ساتھ ہی پھرتا رہا۔ اس کے عصا کی صحن کی ٹائلوں سے ٹکرانے کی آواز خالی مکان میں مسلسل گونج رہی تھی لیکن اب وہ خود خاموش ہوچکا تھا۔ اچانک اس نے اپنے قدموں کے نیچے کی ٹائلوں کو گھورنا شروع کردیا۔ آدمی نے فوراً اس جگہ کا جائزہ لیا۔ غور سے دیکھا تو اینٹوں کی درز کے درمیان سے ایک ننھی سی کونپل اور کچھ سبزہ نظر آرہا تھا۔ بزرگ نے لاٹھی کو اپنے وجود سے الگ کرکے زمین پر گرا دیا اور بے تابانہ اس چھوٹے سے شگوفے کے سامنے گھنٹے ٹیک کر بیٹھ گیا۔ اس نے معصوم سی کونپل کو اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں لے لیا اور بے چینی سے اس کا معائنہ کرنے لگا۔ پھر اس کی درد بھری آواز فضا میں گونجی:
’’گل ابریشم!… اس کی کونپل، ذرا دیکھیے، دیکھیے…‘‘
آدمی بزرگ کو پریشان دیکھ کر اس کے قریب آگیا۔ بوڑھے کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور ہونٹوں پر ایک خوشگوار مسکراہٹ تھی۔ وہ کہہ رہا تھا:
’’اس کے ریشے زمین کے اندر تک چلے گئے ہیں… حال آں کہ ابھی یہ صرف ننھی سی کونپل ہے… دیکھیے…‘‘
اس نے گل ابریشم کے شگوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا:
’’کس قدر خشک ہورہی ہے۔ میں ذرا تھوڑا سا پانی لاکر اس پر چھڑکتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اپنی لاٹھی کے سہارے لنگڑاتا ہوا قدرے تیزی سے اندر کی طرف چل دیا۔ میاں بیوی بھی پیچھے آئے اور لاؤنج سے ہوتے ہوئے اکٹھے باورچی خانے کی طرف بڑھے۔ پھر انہوں نے دوبارہ بالائی منزل کا رخ کیا۔ بالکنی سے نیچے جھانکتے ہوئے انہوں نے بزرگ آدمی کی طرف دیکھا جو ابھی تک احاطے میں پانی کا برتن لیے ننھے شگوفے کے پاس دوزانو بیٹھا تھا اور لوہے کے ٹکڑے سے اس کے اردگرد کی ٹائلوں کو ٹھونک بجا کر دیکھ رہا تھا۔ غروب آفتاب کی ہلکی ہلکی اور اڑی اڑی سی سرد روشنی میں اس کے سفید بال چمک رہے تھے۔
دونوں میاں بیوی نے اوپر کے کمروں پر دوبارہ نظر ڈالی، الماریوں کا معائنہ کیا… پھر وہ سیڑھیاں اترنے لگے۔ نیچے آکر مرد نے لاؤنج میں ہی آواز لگائی: ’’معاف کیجئے گا جناب!… سنیے!!… اب ہمیں اجازت ہے؟‘‘ لیکن بوڑھا آدمی اپنے کام میں اس قدر منہمک تھا کہ اس نے آواز نہ سنی۔ وہ لوہے کے ٹکڑے سے ٹائلوں پر مسلسل ضربیں لگا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مرد آہستگی سے صحن کی طرف چل دیا اور اس کے سرہانے آکھڑا ہوا۔ بزرگ ننھی کونپل کے اردگرد کی نئی اور چمکیلی ٹائلوں کو توڑ چکا تھا اور ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو اس جگہ سے ہٹا رہا تھا۔ اس نے دوبارہ بوڑھے آدمی سے مخاطب ہوکر کہا:
’’اچھا جناب، اب اجازت! ہم نے آپ کا خاصا وقت لیا۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔‘‘ اس نے سر اٹھایا۔ وہ بہت الجھا ہوا تھا اور بدحواسی کے عالم میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا:
’’جی!… جی کیا کہا؟‘‘
آدمی دوبارہ بولا: ’’جناب! ہم نے آپ کو خاصی زحمت دی ہے۔ اب ہم اجازت چاہتے ہیں…‘‘ بزرگ نے بوکھلائے ہوئے کہا:
’’ہاں ہاں… اچھا… جی … ٹھیک ہے!‘‘
اور پھر سر نیچے ڈال کر ٹوٹی ہوئی اینٹوں کے ٹکڑوں کو فرش سے باہر نکالنے میں مشغول ہوگیا۔ بالآخر آدمی نے پہل کرتے ہوئے کہا: ’’خدا حافظ!‘‘ اور اس کے بعد پلٹ کر احاطے سے ہوتا ہوا وسطی ہال میں آگیا۔ اس کی بیوی جو گلی سے منسلک دروازے کے قریب ہی کھڑی تھی، اسے دیکھتے ہی تیزی سے بولی:
’’آپ نے اس سے بات کرلی؟… بھئی مجھے تو یہ گھر بے حد پسند آیا ہے۔ اتنی جگہ پھرے ہیں لیکن ایک بھی اس معیار کا مکان نظر نہیں آیا…‘‘ آدمی نے کوئی جواب نہ دیا اور مکان سے باہر گلی میں آکر کہنے لگا:
’’میرے خیال میں اس کے بیٹے سے ملنا پڑے گا!!‘‘
The post ہرے بھرے اشجار! appeared first on ایکسپریس اردو.