انسانی زندگی میں سیر و تفریح کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ماضی سے تعلق رکھنے والی تہذیبوں کے جب آثار دریافت ہوئے تو ان آثار قدیمہ میں کھیلوں کے لیے مخصوص علاقے یا اسٹیڈیم بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود تھے۔
ان آثار میں نہ صرف کھلاڑیوں کے بارے میں معلومات درج تھیں بل کہ تماش بینوں کی سرگرمیاں بھی دیواروں پر کندہ تھیں، جو اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو دادوتحسین دیتے دکھائی دیتے تھے۔ اس حوالے سے سب سے اہم ’’اولمپک کھیلوں‘‘ کی داستان ہے جو انسان کے ماضی کا قابل فخر حصہ ہے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی ارتقاء کا سفر بھی شروع ہوگیا اور وہ چیزیں جو کبھی جدید یا زمانے کے شانہ بہ شانہ سمجھی جاتی تھیں قصۂ پارینہ بن گئیں اور ان کی جگہ مزید جدید اور زمانے سے ہم آہنگ چیزوں نے حاصل کرلی۔
ایسا ہی کچھ کھیل کے میدانوں میں بھی ہوا اور آج بھی ہورہا ہے اور یہی ہماری تحریر کا موضوع ہے، جس میں کچھ ایسے کھیلوں کے بارے میں معلومات جمع کئی گئی ہیں، جو بدلتے وقت کے ساتھ تیزی سے رائج ہوتے جارہے ہیں۔ تاہم مضمون میں صرف ان اہم کھیلوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو موجودہ عہد میں کھیلے جانے والے مختلف کھیلوں کے باہم ’’امتزاج ‘‘یا ’’اختلاط ‘‘ سے وجود میں آئے ہیں اور جن کے لیے اب عام طور پر ’’مخلوط کھیل‘‘ یا (Hybird Sports) کی اصطلاح رائج ہے۔ مختلف کھیلوں کی مختلف خوبیوں کا یہ خوب صورت مرکب جن کھیلوں میں نظر آتا ہے ان میں سے کچھ کھیل زیرنظر تحریر میں شامل کیے گئے ہیں۔
٭ شطرنج باکسنگ (Chess Boxing):
شطرنج جیسے دماغی کھیل اور باکسنگ جیسے طاقت کے کھیل کا اگر ملاپ دیکھنا ہے تو ’’چیس باکسنگ‘‘ کے ’’رنِگ‘‘ سے بہتر جگہ کوئی نہیں ہے ’’چیس باکسنگ‘‘ کا کھیل فرانس سے تعلق رکھنے والے فن کار اور فلم میکر ’’انکی بلال‘‘ (Enki Bilal)کی تخلیق ہے جنہوں نے 1992میں اپنے ایک سائنسی کامکس ناول Froid Equateurمیں اس کھیل کا تصور پیش کیا تھا۔ تاہم اس تصور کو عملی جامہ نیدرلینڈ کے آرٹسٹ Lepe Rubinghنے 2003 میں پہنایا، جب انہوں نے اپنی سرکردگی میں پہلی مرتبہ چیس باکسنگ کی عالمی چیمپیئن شپ کا انعقاد کیا۔ چیس باکسنگ کے مقابلوں کے حوالے سے جرمنی کا شہر برلن اور برطانیہ کا دارالحکومت لندن قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ لاس اینجلس، ٹوکیو، ایمسٹرڈیم، کلکتہ اور روس کا شہر Krasnoyarskبھی چیس باکسنگ کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان شہروں کے علاوہ ایران اور چین میں بھی یہ کھیل تیزی سے مقبول ہوتا جارہا ہے۔
بنیادی طور پر چیس باکسنگ کے مقابلوں کے لیے کھلاڑی کا دونوں کھیلوں میں ماہر ہونا ضروری ہے مکمل مقابلہ گیارہ رائونڈز پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں چھے رائونڈ تیز شطرنج (Fast Chess) کے ہوتے ہیں ہر رائونڈ کی میعاد چار منٹ ہوتی ہے، جب کہ باکسنگ کے پانچ رائونڈ ہوتے ہیں۔ ہر رائونڈ کا دورانیہ تین منٹ کا ہوتا ہے۔ ہر رائونڈ کے درمیان ایک منٹ کا وقفہ کیا جاتا ہے۔ کھیل کا آغاز شطرنج کے رائونڈ سے ہوتا ہے۔ اس رائونڈ کے بعد ایک منٹ کا وقفہ ہوتا ہے، جس کے بعد باکسنگ کا رائونڈ کھیلا جاتا ہے اسی ترتیب سے گیارہ رائونڈ مکمل کیے جاتے ہیں۔ شطرنج کی بساط رِنگ کے درمیان میں لگائی جاتی ہے اور شطرنج کھیلتے ہوئے دونوں کھلاڑی عوام کے شور سے بچنے کے لیے اپنے کانوں پر ہیڈفون لگاتے ہیں۔
شطرنج کے تمام رائونڈ ٹائم کیلکیولیشن کی بنیاد پر کھیلے جاتے ہیں، جس کے دوران گھڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ کھیل کا اختتام باکسنگ کے دوران ناک آئوٹ یا شطرنج کے دوران شہہ مات پر بھی ہوتا ہے، جب کہ مکمل گیارہ رائونڈ کھیلے جانے کی صورت میں کھیل کا فیصلہ مجموعی پوائنٹ اسکورنگ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اگر شطرنج کا مقابلہ برابر ہوجائے تو باکسنگ کے پوائنٹس پر فیصلہ کیا جاتا ہے، لیکن اگر باکسنگ کے پوائنٹس بھی برابر ہوں تو پھر بین الااقوامی قانون کے مطابق کالے مہرے والے کھلاڑی کو فاتح قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کیوں کہ شطرنج میں چال کی ابتدا سفید مہر ے والا کھلاڑی کرتا ہے اور ایک چال پیچھے ہونے کے باوجود کالے مہرے والا کھلاڑی کیوں کہ بازی کو برابر یا ’’ زچ ‘‘ کے مرحلے تک لے آتا ہے، لہٰذا اسے فاتح قرار دے دیا جاتا ہے۔
چیس باکسنگ کے مقابلے میں شرکت کے لیے ضروری ہے کہ کھلاڑی کی عمر 35سال سے کم ہو اور اس نے ملکی سطح کے بیس باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لیا ہو، جب کہ اس کی ریٹنگ شطرنج میں رائج ریٹنگ کے سسٹم ELOکے مطابق 1800 پوائنٹ سے کم نہ ہو۔ واضح رہے کہ اٹھارہ سو پوائنٹ شطرنج میں اوسط معیار کے کھلاڑی کی ریٹنگ سمجھی جاتی ہے۔ شطرنج کا گرینڈ ماسٹر بننے کے لیے عموماً 2700پوائنٹ کی ریٹنگ درکار ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ چیس باکسنگ کے پہلے عالمی چیمپیئنLepe Rubingh تھے۔ انہوں نے 14نومبر2003کو Lepe the Joker کے فرضی نام سے لڑتے ہوئے Luis the Lawyerکو شکست دی تھی۔ اس وقت Lepe Rubingh ’’ورلڈ چیس باکسنگ آرگنائزیشن‘‘(WCBO)کے موجودہ صدر بھی ہیں۔ وہ اس عہدے پر WCBOکے قیام2003 سے فائز ہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں قائم ہونے والی ’’چیس باکسنگ ایسوسی ایشنCBA ‘‘ بھی کافی فعال ہے۔ اس کے صدر برطانیہ کے چیس باکسنگ کے چیمپیئن Tim Woolgarہیں، جب کہ روس کے پچیس سالہ چیس باکسر Nikolay Sazhin موجودہ ورلڈ چیمپیئن ہیں۔ انہوں نے یہ اعزاز مارچ 2012میں برطانیہ کے Andy Costelloکو ہرا کر حاصل کیا تھا۔
٭ فٹ والی (Footvolley):
فٹ بال اور Beach والی بال کے امتزاج پر مشتمل کھیل ’’فٹ والی‘‘ دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہونے والا کھیل بن چکا ہے فٹ بال کے کھیل سے محبت کرنے والو ں کے ملک برازیل میں 1965میں تخلیق کیے گئے۔ اس دل چسپ کھیل کے خالق Octavio Moraesتھے، جو خود ایک بلند پایہ فٹ بالر تھے برازیل کے شہر ’’ریوڈی جینرو‘‘ کےCopachabana ساحل پر فٹ بال کھیلتے ہوئے ان کی ٹیم کے کھلاڑیوں نے جب ہاتھوں کے بجائے پیروں سے فٹ بال کو ’’والی بال‘‘ کے نیٹ کے پار پھینکنے کا مظاہرہ کیا، تو کچھ ہی عرصے بعد یہ عمل ایک کھیل کی شکل اختیار کرگیا۔ ابتدا میں ’’فٹ والی‘‘ کو ’’Pevoley‘‘ کہا جاتا تھا اور ٹیم پانچ کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی تھی تاہم کچھ عرصے بعد اس میں تبدیلی کرتے ہوئے ٹیم دو کھلاڑیوں تک محدود کردی گئی اور اس کے باقاعدہ قوانین مرتب کیے گئے جس کا سب سے اہم قانون یہ تھا کہ کھلاڑی کسی بھی صورت میں گیند کو ہاتھ نہیں لگائیں گے اور جس طرح والی بال میں ہاتھوں سے گیند ایک دوسرے کے حصے میں پھینکی جاتی ہے فٹ والی میں یہ عمل صرف پیروں اور سر سے انجام دیا جائے گا تاہم اس دوران گیند کو سینے پر بھی روکا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کھیل کے دوران والی بال کی گیند کے بجائے فٹ بال کی گیند استعمال کی جاتی ہے ساحل کے کنارے یا انڈور جمنازیم میں ساحلی ریت سے بنائے گئے کورٹ پر کھیلے جانے والے اس کھیل میں جہاں تک پوائنٹس حاصل کرنے کا تعلق ہے تو اس کے لیے والی بال کے مروجہ قوانین کی پیروی کی جاتی ہے ایک گیم پر مشتمل کھیل 18پوائنٹس پر مشتمل ہوتا ہے، جب کہ ’’بیسٹ آف تھری‘‘ کے تین گیمز پر مشتمل میچ کے اولین دو سیٹ 15پوائنٹس اور تیسرا سیٹ 11پوائنٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔ بین الااقوامی میچوں میں نیٹ کی اونچائی سات فٹ دو انچ ہوتی ہے، جب کہ خواتین کے مقابلوں میں نیٹ کی اونچائی چھے فٹ چھے انچ ہوتی ہے ’’فٹ والی‘‘ کا کورٹ 29.5فٹ چوڑا اور 59فٹ لمبا ہوتا ہے جسے دو مساوی حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے تاہم امریکا کی فٹ والی ایسوسی ایشن نے کھیل کو مزید تیز رفتار بنانے کے لیے قوانین میں معمولی سی ترامیم کی ہیں جن میں نمایاں ترمیم میں کورٹ کی لمبائی 57فٹ اور چوڑائی ساڑھے اٹھائیس فٹ کرنا شامل ہے۔
اس وقت برازیل کی فٹبال کی قومی ٹیم کے کئی نامور کھلاڑی فٹ والی کے کھلاڑی کی حیثیت سے بھی شہرت رکھتے ہیں ان کھلاڑیوں میں رونالڈو، رونالڈہینو، روماریووغیرہ شامل ہیں جب کہ آسٹریلیا، اسرائیل، اسپین، برطانیہ، پرتگال، یونان، متحدہ عرب امارات، فرانس، ہالینڈ، تھائی لینڈ، جنوبی افریقہ اور پیراگوائے میں بھی فٹ والی مقبول کھیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ فٹ والی کا ورلڈ چیمپیئن برازیل ہے جس نے ریوڈی جینرو شہر کے ساحل Copacabanaپر نو اور دس مارچ2013 کو منعقد ہونے والے مقابلوں کے فائنل میں پیراگوئے کو شکست دے کر یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔
٭ فٹ بال ٹینس (Football tennis):
فٹ بال اور لان ٹینس کے کھیلوں کو باہم ایک کرکے کھیلے جانے والے ’’فٹ بال ٹینس‘‘ کا آغاز 1920میں ہوا، ابتدا میں Futnet کے نام سے شہرت رکھنے والے اس کھیل کو وسطیٰ یورپ کے علاقے جمہوریہ چیک سے تعلق رکھنے والے مقامی فٹ بال کلب Slavia Pragueکے کھلاڑیوں نے تخلیق کیا تھا، واقعات کے مطابق جب مقامی فٹ بال کلب Slavia Pragueکے کھلاڑیوں نے ٹینس کورٹ میں زمین کو چھوتے جال کے اوپر سے فٹ بال کو اچھال کر پیروں کی مدد سے ایک دوسرے کو پاس دینے کی پریکٹس شروع کی، تو انہیں خیال پیدا ہوا کہ وہ کیوں نہ ایسا کھیل بنائیں جس میں صرف پیروں اور سر کی مدد سے گیند کو اپنی مخالف ٹیم کے حصے میں پھینکا جائے۔
تاہم اس دوران ٹینس کی مانند کھلاڑیوں کو گیند کو ایک ٹپا زمین پر کھانے کے بعد سر یا پیر کی مدد سے مخالف کے کورٹ میں منتقل کرنے کی اجازت ہو (یاد رہے کہ والی بال یا فٹ والی کے کھیل میں گیند کو ٹپے دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تاہم فٹ بال ٹینس میںکھلاڑی کھیل کے دوران والی بال کی مانند ایک دوسرے کو محدود پیمانے پر پاس دے سکتے ہیں) چوں کہ کھیل کے دوران قوانین کے مطابق فٹ بال کی گیند کو استعمال کیا جاتا ہیِ، لہٰذا زمین پر لگے ہوئے نیٹ اور فٹ بال گیند کی مناسبت سے اس کھیل کو ’’فٹ بال ٹینس‘‘ کہا جانے لگا۔ واضح رہے کہ قوانین کے مطابق ٹیمیں بالترتیب ایک، دو یا تین کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہیں، جب کہ کورٹ12میٹر لمبا اور 9میٹر چوڑا ہوتا ہے اور نیٹ کی اونچائی 1.10میٹر ہوتی ہے۔
مکمل تین سیٹ پر مبنی مقابلے میں ہر سیٹ 15پوائنٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ فٹبال ٹینس کے عالمی سطح پر معاملات1987سے ’’انٹرنیشنل فٹبال ٹینس ایسوسی ایشن‘‘ کے ہاتھوں میں ہیں، جسے ’’فیڈریشن آف انٹرنیشنل فٹبال ٹینس ایسوسی ایشن‘‘FIFTA بھی کہا جاتا ہے، جس کے زیراہتمام 1994سے فٹبال ٹینس کی عالمی چیمپیئن شپ کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ ہر دو سال کے بعد منعقد کی جانے والی اس چیمپیئن شپ کا موجودہ عالمی چمپیئن جمہوریہ چیک ہے جس نے2012 کی عالمی چیمپیئن شپ میں سنگل ، ڈبل اور ٹرپل کیٹیگریز میں ہنگری کو شکست دے کر یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔
٭ انسان بہ مقابلہ گھڑ سوار ریس Man versus Horse Marathon:
انسان اور گھوڑوں کا ہمیشہ سے ساتھ رہا ہے، لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ کھیلوں میں ان دونوں کا ساتھ نہ ہو، لیکن اس کھیل میں جسے ’’انسان بہ مقابلہ گھڑ سوار میرا تھون ‘‘ کہا جاتا ہے، انسان اور گھوڑے کے درمیان مقابلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ دوسرے معنوں میں دو کھیلوں یعنی ’’گھڑ سواری‘‘ اور’’ انسان کی دوڑ‘‘ کو باہم ملاکر ایک کھیل بنادیا گیا ہے۔ 1980سے ہر سال منعقد کی جانے والی اس میراتھون دوڑ کی ابتدا برطانوی علاقہ ویلز کے چھوٹے سے قصبےLlanwrtyd Wells سے ہوئی، ابتدا میں مقامی سطح پر شروع ہونے والی یہ دوڑ اب ایک عالمی سطح کا مقابلہ بن چکی ہے، جس میں دنیا بھر کے گھڑ سوار اور ایتھلیٹ حصہ لیتے ہیں۔
کھلاڑیوں اور گھڑ سواروں کو مجموعی طور پر 22 میل کا فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے، جو اولمپک میراتھون سے صرف چار میل کم ہے۔ دریائے Afon Irfon کے ساتھ ساتھ منعقد کی جانے والی اس میراتھون کے دوران حصہ لینے والوں کو اونچے نیچے دشوار گزار پتھریلے راستوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ راستے میں انھیں کانٹے دار جھاڑیاں، کیچڑ، دلدل اور اسی قسم کے دیگر بے شمار دشوار گزار مراحل کا سامنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر کھلاڑی راستہ عبور کرنے سے پہلے ہی ہمت ہار جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ اب تک منعقد کی جانے والی 32 ریسوں میں صرف دو مرتبہ انسان نے گھوڑے کو شکست دی ہے۔ یہ کارنامہ پہلی مرتبہ مقابلوں کی سلور جوبلی کے موقع پر 2004 میںجنوبی لندن کے علاقے بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والے 27سالہ Huw Lobbنے انجام دیا تھا، جب انہوں نے تقریباً ڈھائی منٹ کے فرق سے گھوڑےKay Bee Jayاور اس کے سوار Zoe White کو شکست دی تھی۔
’’ہیو لاب‘‘ نے یہ فاصلہ دو گھنٹے پانچ منٹ اور انیس سیکنڈ میں طے کیا تھا۔ دوسری مرتبہ یہ کارنامہ جرمنی کے Florian Holzingerنے 2007 میں انجام دیا تھا۔ انہوں نے اس کام یابی کے لیے دو گھنٹے بیس منٹ اور تیس سیکنڈ کا وقت لیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مقابلے میں دوسرے نمبر پر گھوڑے کے بجائے برطانوی ایتھلیٹ John Parkinsonآئے تھے۔ وہ فاتح ایتھلیٹ سے ایک منٹ بعد پہنچے تھے، جب کہ گیارہ منٹ بعد گھڑسوارGeoffrey Allen نے یہ فاصلہ اپنے گھوڑی ’’لوسی‘‘ پر طے کیا تھا۔ واضح رہے کہ 2012 میں منعقد کی جانے والی اس میراتھون میں دنیا بھر سے پچاس سے زاید گھڑ سواروں اور پانچ سو ایتھلیٹس نے حصہ لیا تھا۔
٭ ’’سیپاک ٹکرا‘‘ یا ’’کک والی بال‘‘ (Sepak Takraw):
’’والی بال‘‘ اور ’’فٹ والی‘‘ کے امتزاج پر مبنی یہ کھیل جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا مقبول کھیل ہے۔ اگرچہ اس کھیل کو عالمی سطح پر مقبولیت ملے زیادہ عرصہ نہیں ہوا، تاہم کھیل کی ابتدا پندرہویں صدی سے جُڑی ہوئی ہے ملائی زبان کے دو لفظ Sepakاور Takrawسے بنا ہوا یہ کھیل تین تین کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ ’’کک والی بال‘‘ کے نام سے بھی پہچانے جانے والا یہ کھیل عموماً اِن ڈور کھیلا جاتا ہے۔ ’’سیپاک ٹکرا‘‘ کی ’’انٹرنیشنل سیپاک ٹکرا فیڈریشن‘‘(ISTAF)کے زیراہتمام ہر سال تھائی لینڈ میں تھالی لینڈ کے بادشاہ کے نام سے‘‘ کنگز کپ عالمی چیمپیئن شپ‘‘ منعقد کی جاتی ہے، جب کہ ’’سیپاک ٹکرا ‘‘ ایشین گیمز اور جنوب مشرقی ایشیائی گیمز کا بھی مقبول حصہ ہے۔
اس کے علاوہ 2011 میں پہلی مرتبہ سیپاک ٹکرا کا ’’ISTAFورلڈ کپ‘‘ ملائیشیا میں منعقد کیا گیا، جس میں مردوں اور عورتوں کے مقابلوں میں تھائی لینڈ نے ورلڈ چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ واضح رہے کہ سیپاک ٹکرا کے کورٹ کی لمبائی 13.4میٹر اور چوڑائی 6.1میٹر ہوتی ہے، جب کہ نیٹ زمین سے 1.52میٹر اونچا ہوتا ہے۔ دونوں ٹیموں کے کورٹ میں سروس کروانے کا دائرہ بھی ہوتا ہے۔ سیپاک ٹکرا کھیل کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں استعمال کی جانے والی گیند بید کی چھال سے بنائی جاتی ہے، جس میں فٹ بال کے برعکس نہ صرف 12سوراخ ہوتے ہیں، بل کہ اس کی بنُت بھی بیس جوڑوں کی شکل میں کی جاتی ہے۔ کھیل کا مکمل سیٹ 15پوائنٹ پر مشتمل ہوتا ہے اور عموماً بیسٹ آف فائیو پر مشتمل ہوتا ہے۔
جہاں تک کھیلنے کے طریقۂ کار کا تعلق ہے تو کھلاڑیوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ کھیل کے دوران صرف پیر، سر اور سینہ استعمال کرسکتے ہیں، جب کہ گیند کو ہاتھ لگانے پر مخالف ٹیم کو پوائنٹ حاصل ہوجاتا ہے۔ کھیل کا آغاز والی بال کی طرح سروس سے ہوتا ہے، مگر سروس کورٹ کے اندر سے کی جاتی ہے۔ اس نوعیت کے دوسرے کھیلوں کے برعکس ’’سیپاک ٹکرا‘‘ کے کھلاڑیوں کا قلابازی کھانے میں ماہر ہونا نہایت ضروری ہے اور یہ انداز تماشائیوں میں بھی نہایت مقبول ہے۔
٭ سلم بال (Slamball):
باسکٹ بال، امریکن فٹ بال، آئس ہاکی اور جمناسٹک کے ملاپ سے تخلیق کیا گیا کھیل ’’سلم بال‘‘ نہایت مہارت کا متقاضی ہے۔ زمین پر لگے ہوئے اسپرنگ بورڈ پر اچھلتے ہوئے گیند کو باسکٹ کرنا ہی اس کھیل کے کھلاڑیوں کا اصل کارنامہ ہے۔ باسکٹ بال کے برعکس سلم بال میں دونوں ٹیموں کے باسکٹ نیٹ کے سامنے چارچار اسپرنگ بورڈ لگے ہوتے ہیں، جن پر کھلاڑی پندرہ سے بیس فٹ کی بلندی تک ہوا میں اچھلتا ہے اور نیٹ میں گیند ڈال کر پوائنٹ حاصل کرتا ہے۔ ہر اسپرنگ بورڈ کا سائز 7X14فٹ ہوتا ہے، جب کہ کورٹ کا مجموعی رقبہ 100X62فٹ ہوتا ہے۔ کورٹ کے چاروں طرف آئس ہاکی کے کورٹ کی مانند آٹھ فٹ بلند مضبوط شیشے کی دیوار بھی ہوتی ہے۔
2002 میں لاس اینجلس کے ایک گودام میں تفریح کے لیے شروع کیے جانے والے اس کھیل کے تخلیق کار Mason Gordonاور Mike Tollinتھے، جنہیں یہ خیال ویڈیو گیمز دیکھ کر آیا۔ واضح رہے کہ سلم بال کی ٹیم چار کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے، جب کہ متبادل کھلاڑی کھیل روکے بغیر ہی کھیل میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ وہ کھلاڑی جو نیٹ کے نیچے ہوتا ہے اسے Stopperکہتے ہیں۔ مخالف ٹیم پر حملہ کرنے والے کھلاڑی کو Gunner اور درمیان میں رہتے ہوئے گیم پلان کرنے والے کو Handlerکہا جاتا ہے۔ کھیل کا دورانیہ پانچ پانچ منٹ کے چار رائونڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس دوران جو ٹیم زیادہ مرتبہ بال باسکٹ میں نیٹ کرکے پوائنٹ حاصل کرتی ہے، فاتح قرار پاتی ہے۔ میچ کو دو ریفری کنٹرول کرتے ہیں۔ سلم بال کا کھیل امریکا، آسٹریلیا، چین اور پرتگال میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ تاہم سلم بال کے ابھی تک ملکی سطح پر مقابلے شروع نہیں ہوئے ہیں، البتہ امریکا میں کھیلے جانے والے سلم بال کے مختلف سیزنز میں باسکٹ بال کے قومی سطح کے کھلاڑیوں کی شرکت کے بعد امید ہوچلی ہے کہ جلد ہی سلم بال کے بین الااقوامی سطح کے مقابلے منعقد کیے جائیں گے۔ اس حوالے سے ’’ملٹی نیشنل سلم بال ایتھیلٹک ایسوسی ایشن(MSAA)‘‘ بھی قائم کی جاچکی ہے۔ شائقین کی تعداد کے لحاظ سے سلم بال مخلوط کھیلوں میں صف اول میں شمار کیا جاتا ہے۔
٭ فٹ گولف (Foot Golf):
گولف کورس کے سبزہ زار پر کھیلا جانے والا کھیل ’’فٹ گولف ‘‘یورپ میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ انفرادی سطح پر کھیلے جانے والے اس کھیل کے تقریباً تمام قوانین گولف کے جیسے ہی ہیں۔ تاہم کھلاڑی گیند کو ہٹ گولف اسٹک کے بجائے اپنے پیر سے لگاتا ہے، گیند کی جگہ فٹ بال استعمال کی جاتی ہے اور فٹ بال کی مناسب سے ’’ہول‘‘ ہوتے ہیں ۔ گولف ہی کی مانند کم سے کم شاٹ میں گیند ہول میں ڈالنے والا فاتح قرار پاتا ہے۔ کھیل کے دوران ہر وہ رکاوٹیں بھی موجود ہوتی ہیں جو گولف کھیلتے ہوئے کھلاڑیوں کے سامنے آتی ہیں۔
فٹ گولف کا عالمی سطح کا ادارہ ’’فیڈریشن فار انٹرنیشنل فٹ گولف(FIFG)‘‘ کہلاتا ہے۔ 2009 میں تشکیل پانے والے اس ادارے کے رکن ممالک کی تعداد 14ہے۔ FIFG کے زیراہتمام جون 2012 میں فٹ گولف کے عالمی کپ کا انعقاد ہوچکا ہے۔ ہنگری کے شہر بڈاپسٹ میں ہونے والے اس عالمی کپ میں آٹھ ممالک کے 80 سے زاید کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی، جن میں ہنگری ہی سے تعلق رکھنے والے Bela Lengyelنے فٹ گولف کے اولین عالمی چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
٭ پولو کروس (Polocrosse):
دنیا بھر میں مقبول کھیل پولو اور براعظم امریکا میں کھیلے جانے والے کھیل Lacrosseکے باہم امتزاج سے بنا ’’پولو کروس‘‘ مخلوط کھیلوں میں ایک منفرد کھیل بن چکا ہے۔ واضح رہے کہ Lacrosseایک ایسا کھیل ہے جس میں دو ٹیمیں ایک دوسرے پر گول کرتی ہیں، تاہم اس کے لیے کھلاڑیوں کے ہاتھ میں ایک ایسی اسٹک ہوتی ہے جس کے سرے پر تھیلی نما جال لگا ہوتا ہے اور اس جال ہی کے ذریعے سے کھلاڑی گیند پکڑ کر ایک دوسرے کو پاس دیتے ہوئے گول کرتے ہیں اور جہاں تک پولو کا تعلق ہے تو سب کو علم ہے کہ یہ گھوڑے پر بیٹھ کر اسٹک کی مدد سے گول کرنے کا کھیل ہے۔ تاہم پولو کروس میں استعمال ہونے والی چھڑی Lacrosseکی چھڑی کی مانند ہوتی ہے اور گھوڑے پر سوار کھلاڑی اسی جال میں گیند پھنسا کر یا ایک دوسرے کو پاس دیتے ہوئے چکر پورا کرتے ہیں اور گول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں کہا جاسکتا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں بیڈمنٹن کے ریکٹ جیسی چھڑی ہوتی ہے، جس پر ڈھیلا جال بندھا ہوتا ہے۔
قوانین کے مطابق دونوں ٹیموں میں چھے چھے کھلاڑی ہوتے ہیں گیند عموماً ربر کی بنی ہوتی ہے، جس کا قطر چار انچ تک ہوتا ہے۔ میدان کا مجموعی رقبہ 60X160 میٹر پر مشتمل ہوتا ہے۔ کھیل مجموعی طور پر چھے چکروں پر مشتمل ہوتا ہے، تاہم اس دوران کھلاڑی پولو کی مانند گھوڑے تبدیل نہیں کرسکتے۔ جدید پولو کروس کی ابتدا دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک ماہر حیوانیات آسٹریلوی جوڑے مسٹر اینڈ مسزEdward Hirstنے کی تھی۔ ان دونوں نے ہی اس کھیل کے قوانین مرتب کیے جو آج ہمیں پولو کروس کھیل کی شکل میں تیزی سے مقبول ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ’’انٹرنیشنل پولو کروس کونسل‘‘ کے زیراہتمام اب تک پولو کروس کے تین عالمی کپ منعقد ہوچکے ہیں۔ 2003 اور2007میں آسٹریلیا اور2011میں جنوبی افریقہ نے عالمی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ اگلا ’’پولو کروس ورلڈ کپ‘‘ جنوبی افریقہ میں 2015 میں منعقد ہوگا۔
٭ انٹرنیشنل رولز فٹبال (International rules football):
فٹ بال اور آئرلینڈ میں کھیلی جانے والی روایتی Gaelic Football کے کھیلوں کو ملا کر تخلیق کیا گیا یہ کھیل 145میٹر لمبے اور 90میٹر چوڑے میدان میں کھیلا جاتاہے، جس میں پندرہ کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیموں کو دو لمبے اور دو چھوٹے گول پوسٹ کے درمیان گیند ڈال کر ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنی ہوتی ہے۔ اس دوران کھلاڑی ہاتھوں اور پیروں کی مدد سے گیند کو آگے دھکیلتے ہوئے بڑھتے ہیں اور پوائنٹ حاصل کرتے ہیں۔ پوائنٹ بالترتیب چھے، تین اور ایک پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کھلاڑی کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوڑتے ہوئے گیند کو ہر 10میٹر یا چھے قدموں کے بعد زمین پر ٹپا دے۔
مجموعی طور پر کھیل کا دورانیہ 72منٹ ہوتا ہے جو 18منٹ کے چار ہاف پر مشتمل ہوتا ہے۔ مار دھاڑ اور دھینگا مشتی سے بھرپور اس کھیل کا اولین بین الااقوامی مقابلہ 1967میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کی مقامی ٹیموں کے درمیان منعقد ہوا تھا۔ تماشائیوں کی تعداد کے لحاظ سے ’’انٹرنیشنل رولز فٹ بال‘‘ مخلوط کھیلوں میںسب سے زیادہ دیکھا جانے والا کھیل ہے، جس کا موجودہ عالمی چیمپیئن آئرلینڈ ہے۔ انٹرنیشنل رولز فٹبال کے معاملات چلانے کی ذمہ داری ’’آسٹریلین فٹبال لیگ کمیشن‘‘ کی ہے، جس کے تحت تیرہ ممالک کی انٹرنیشنل رولز فٹبال کی گورننگ باڈیز کام کرتی ہیں۔
٭ کورف بال (Korfball):
گیند کو ساڑھے گیارہ فٹ کی بلندی پر باسکٹ کرنے والا یہ کھیل ہالینڈ کے ایک اسکول ٹیچر Nico Broekhuysenنے 1902میں تخلیق کیا تھا۔ نیٹ بال اور باسکٹ بال کے امتزاج پر مبنی اس کھیل کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں شامل ٹیم کے آٹھ کھلاڑیوں میں سے چار خواتین اور چار مرد ہوتے ہیں اور کھیل کے دوران گیند کو باسکٹ بال کی مانند ٹپے نہیں دیے جاتے۔ ہالینڈ، تائیوان اور بیلجیئم کے علاوہ تقریباً 54 ممالک میں کھیلے جانے والے کورف بال کا کورٹ 20X40میٹر پر محیط ہوتا ہے۔ تیس تیس منٹ کے دو ہاف پر مشتمل اس کھیل کی گیند کا قطر فٹ بال جتنا ہوتا ہے۔
’’انٹرنیشنل کورف بال فیڈریشن‘‘(IKF) کے زیراہتمام 1978سے ہر سال عالمی چیمپیئن شپ منعقد کی جارہی ہے۔ موجودہ عالمی چیمپیئن ہالینڈ ہے جس نے یہ اعزاز چین میں2011میں حاصل کیا تھا۔ واضح رہے کہ ہالینڈ کے پاس یہ اعزاز گذشتہ پانچ سال سے ہے۔
٭شنتی ہرلنگ (Shinty–Hurling):
’’شنتی ہرلنگ‘‘ اگرچہ دو کھیلوں ’’شنتی‘‘ اور ’’ہرلنگ‘‘ کا امتزاج ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ دنیا کا واحد کھیل ہے جس میں باہم کھیلنے والی ٹیمیں دو علیحدہ علیحدہ کھیل ’’شنتی‘‘ اور ’’ہرلنگ‘‘ کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہیں، جب کہ کھیل کے قوانین، گرائونڈ کا رقبہ اور گول یا پوائنٹ حاصل کرنے کے طریقہ کار ایک تیسرے کھیل ’’انٹرنیشنل رولز فٹبال‘‘ جیسے ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ’’شنتی‘‘ فیلڈ ہاکی سے ملتا جلتا کھیل ہے، جس میں کھلاڑی ہاکی کی مانند اسٹک استعمال کرتا ہے۔
تاہم فیلڈ ہاکی کے برعکس اپنی ہاکی یا شنتی کی دونوں جانب سے گیند کو چھو سکتا ہے جب کہ ’’ہرلنگ‘‘ میں کھلاڑی ایک ایسی چھڑی یا اسٹک استعمال کرتا ہے، جس کا ایک سرا گولائی میں چپٹا ہوتا ہے اور وہ اس چپٹے سرے کی مدد سے گیند کوزمین سے چمچے کی مانند اٹھا کر ہوا میں اچھالتے ہوئے اپنے کھلاڑی کو پاس دے سکتا ہے یا گول کرسکتا ہے۔ یہ دونوں کھیل اسکاٹ لینڈ، آئرلینڈ، برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں شوق سے کھیلے اور دیکھے جاتے ہیں۔ پینتیس منٹ کے دو ہاف پر مشتمل اس کھیل میں ہر ٹیم چودہ کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ پہلے ہاف میں ’’شنتی‘‘ کی مخصوص گیند اور دوسرے ہاف میں ’’ہرلنگ‘‘ کی گیند استعمال کی جاتی ہے۔ تاریخی طور پر اس کھیل کے ابتدائی میچ کا ثبوت 1896میں گلاسگو اور ڈبلن شہر کی ٹیموں کے مابین کھیلے جانے والے میچ سے ملتا ہے۔