قطر کو عرب ریاستوں میں ایک ترقی یافتہ اور روزگار کے لیے بہتر مقام کی حیثیت حاصل رہی ہے لیکن سعودی عرب اور قطر کے درمیان حالیہ تنازعہ تمام متعلقہ حلقوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث بنا ہوا ہے، خاص طور پر قطر کی کاروباری برادری اور معاشی ماہرین صورت حال کو بہت غور سے دیکھ رہے ہیں کیوںکہ تنازعہ شروع ہونے سے قبل قطر کے سعودی عرب، دبئی، متحدہ عرب امارات اور دیگر ملکوں سے بھرپور تجارتی روابط قائم تھے اور معاشی طور پر قطر کو کسی بحران کے سامنے کا خطرہ نہیں تھا۔
تجارت ابتدا سے ہی قطر کا بڑا ذریعہ روزگار اور معاشی ترقی کی وجہ رہا ہے۔ آئیے قطر کی تاریخ کے حوالے سے کچھ واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔
1939 میں دریافت ہونے والے تیل کے ذخائر نے قطر کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس کے علاوہ ماہی گیری بھی قطر کی تجارت کا اہم حصہ ہے۔
1988 میں برطانیہ نے خلیج سے اپنی فوجیں نکالنے کا اعلان کیا اور پھر قطر نے بحرین کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے متحدہ عرب امارات کی شکل میں عرب ریاستوں کے اتحاد کو حتمی شکل دی۔ 3 ستمبر 1971 کو قطر ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے وجود میں آیا اور 1972 میں خلیفہ بن حماد الثانی نے اقتدار سنبھالا۔ 1990 میں جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا تو قطر نے عالمی افواج کو اپنے علاقے میں آنے کی اجازت دی اور کویت کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد میں بھی حصہ لیا۔
معروف ٹی وی چینل الجزیرہ کا بھی 1996 میں قطر سے آغاز ہوا۔ 1999 میں قطر میں ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات سے ملک میں جمہوری نظام کی طرف بڑھنے کا آغاز ہوا۔
عراق کے خلاف عالمی اتحاد کی جنگ کے دور میں قطر امریکا کا خاص اتحادی رہا، امریکی فوجی قطر کے ایئربیس استعمال کرتے رہے اور اس حوالے سے قطر اور امریکا کے تعلقات میں مزید وسعت پیدا ہوئی۔
اپریل 2003 میں قطر کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی۔ جب عوام نے ملک کے نئے آئین کی منظوری دی جس کے تحت 45 رکنی پارلیمنٹ کے قیام کی منظوری دی گئی، اس میں 30 ارکان الیکشن کے ذریعے منتخب کیے جاتے رہے جب کہ باقی امیر قطر کی صوابدید سے رکن پارلیمنٹ بنتے رہے۔
اگست 2003 میں امیر قطر نے ولی عہد کے لیے اپنے چھوٹے صاحب زادے شہزادہ تمیم کو شہزادہ جاسم کی جگہ نام زد کردیا، اس فیصلے نے عرب سیاست پر نظر رکھنے والوں کو حیرت زدہ کردیا تھا۔
فروری 2004 میں چیچنیا کے سابق صدر زیلم خان یاندر بایوف (Zalim Khan Yander Biyev) دوحہ میں اپنی رہائش گاہ پر کیے گئے ایک دھماکے میں ہلاک ہوگئے، اس کارروائی میں ملوث ہونے کے جرم میں قطر نے روس کے 2 باشندوں کو قصور وار ٹھہرایا اور بعدازاں انھیں ملک بدر کردیا۔
جون 2005 میں قطر کا پہلا آئین تحریری شکل میں سامنے آیا جس میں کچھ جمہوری اصلاحات کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ نومبر 2005 میں قطر اور امریکا کے درمیان تقریباً 14 بلین ڈالر کے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے تحت دونوں ملکوں نے مل کر دنیا کے سب سے بڑے ایل این جی پلانٹ کو بنانا تھا۔
ستمبر 2007 میں قطر اور دبئی لندن اسٹاک مارکیٹ کے بڑے شیئر ہولڈر بن گئے تھے، اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کی ترقی میں روز افزوں اضافہ دیکھا گیا۔
دسمبر 2012 میں قطر نے 2002 میں ہونے والے ورلڈ کپ فٹبال ٹورنامنٹ کی میزبانی کا اعزاز حاصل کیا لیکن اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں، اگر معاملات نہ سنبھلے تو عین ممکن ہے کہ قطر سے یہ میزبانی واپس لے لی جائے۔
جنوری 2012 میں افغان طالبان نے اعلان کیا کہ وہ قطر میں اپنا سیاسی دفتر کھولیں گے، اس کے بعد افغانستان میں امن کے حوالے سے مذاکرات کے کئی ادوار قطر میں ہوئے۔
جون 2013 میں شیخ تمیم بن حماد الثانی نے امیر قطر کا منصب سنبھالا، شیخ تمیم کی قیادت میں قطر کی ترقی کا سفر جاری رہا اور اسے بریک گذشتہ جون میں اس وقت لگا جب سعودی عرب سے قطر کا تنازعہ شروع ہوا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گلوبل پیس انڈیکس نے قطر کو دنیا کے 30 پرامن ترین ممالک میں شامل کیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ قطری حکم راں عالمی دباؤ کا کس طرح سامنا کرتے ہیں؟ کس طرح تمام الزامات کے داغ دھوتے ہیں؟ اور مخالفین کی شرائط کو مان کر یا مانے بغیر تنازعے کا پرامن حل نکالنے میں کام یاب ہوتے ہیں؟
قطر کے حوالے سے کچھ اور حقائق دیکھتے ہیں جو سیاسی معاملات سے ہٹ کر ہیں مگر قارئین کے لیے دل چسپ ضرور ہوں گے۔
تقریباً ڈھائی کروڑ (2.5 Million) کی آبادی والے اس ملک میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے بہت کم ہے، چند سال قبل کے اعدادوشمار کے مطابق خواتین کی مجموعی تعداد 7 لاکھ ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق اچھے روزگار کی پیشکش اور کام کرنے کے بہترین مواقع وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد نے قطر کا رخ کیا، اسی وجہ سے ملک کی آبادی کا تناسب بھی بدل گیا۔
قطر میں یوں تو دولت کی کمی نہیں لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ برطانیہ میں بھی قطری باشندوں نے بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے، جائیدادیں خریدی ہیں، کاروبار شروع کیے ہیں۔
دوحہ کے حماد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پروازوں کا رش رہتا ہے، ہزاروں لوگ روزانہ دنیا کے مختلف علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔ یہاں موجود 23 فٹ اونچا ٹیڈی بیئر بھی قطر کی ایک پہچان ہے۔ قطری حکام کے مطابق اتنے بڑے ٹیڈی بیئر کو ایئرپورٹ ٹرمینل میں رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک تو لوگ اپنی پریشانیاں یا تکالیف کو کچھ دیر کے لیے بھول جائیں یا تھوڑی دیر کے لیے اپنے بچپن کو یاد کریں۔
قطر کے حوالے سے یہ تھوڑے سے اعداد و شمار قارئین کے لیے اس لیے پیش کیے گئے ہیں تاکہ انھیں اندازہ ہو کہ اس وقت جنگ کے دہانے پر پہنچا ہوا ملک کوئی عام ریاست نہیں ہے، اس کی معاشی حیثیت اور عالمی روابط بہت مضبوط ہیں اور قطری حکم رانوں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ عالمی تنازعات اور بیرونی دباؤ کو برداشت کرسکیں۔
The post قطر؛ جنگ کے خطرے سے دوچار ملک کے بارے میں کچھ اہم حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.