انسان شر اور شعور کا ایک ایسا منفرد اور بے مثل مرکب ہے کہ پوری کائنات میں اس پائے کا کوئی دوسرا نہیں۔ خالقِ کائنات نے اس کو زمین پر اپنے نائب ہونے کے اعزاز سے بھی نوازا ہے۔ جب تک یہ’’ شعور‘‘ کی چادر میں لپٹا رہتا ہے تب تک اشرف المخلوقات کے بلند وبالا مقام پر فائز رہتا ہے لیکن یہ جونہی شر کی ’’لپیٹ ‘‘میں آتا ہے تو اَسفل سافلین کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرتا ہے۔
قوانینِ فطرت کی پابندی انسان کے لیے حصولِ معراج کا باعث ہوتی ہے جبکہ فطری اصولوں سے رو گردانی اس کی ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہے۔ مادی ارتقاء جس رفتار سے بڑھ رہا ہے، اخلاقی اقدار کا زوال اس سے کئی گنا تیزی سے ظہور پذیر ہو رہا ہے۔ امن کی جگہ بدامنی،سکون کے بدلے بے سکونی،محبت کے عوض نفرت اور خلوص و چاہت کے نام پر ہوس و دھوکہ دہی کا بازار گرم ہے۔ ایک طرف پر سکون نیند کے لیے انسان خواب آور گولیوں کے استعمال پر مجبور ہے تو دوسری طرف سانسوں کی مالا بحال رکھنے کے لیے بھی ادویات کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
ایک مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے نام پربے شمار بیماریوں کو دعوت دی جارہی ہے۔ جسے ہم عروج خیال کیے ہوئے ہیں کہیں یہ ترقیِ معکوس تو نہیں؟ جسے ہم ضیاء سمجھے ہوئے ہیں وہ کہیںظلمت کا پرتو تو نہیں ہے؟ آئیڈیل معاشی ماحول کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں روزگار کے بہترین مواقع مو جود ہوں ، مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی بالکل بھی نہ ہو، مسائل اور وسائل میں توازن ہو اور ریاست اپنے باسیوں کے حقوق کا بہتر ادراک رکھتے ہوئے معاشی رواداری کا مظاہرہ کرے۔
علاوہ ازیں اگر ہم چند کام انفرادی طور پر کرنے والے بن جائیں تو کافی حد تک معاشی اور معاشرتی مسائل سے چھٹکارا حاصل کر نے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔اپنے دستیاب وسائل کے مطابق اپنے اخراجات کا تخمینہ لگائیں، غیر ضروری مہنگی خور و نوش کی اشیاء کی خریداری ترک کر کے مہنگائی ختم کرنے کا طریقہ بنائیں۔ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اپنی’’ اوقات‘‘ میں رہنے کا وطیرہ اپنائیں۔ نواع واقسام کے کھانے پکانے کی بجائے سادہ طرزِ زندگی،سادہ خوراک اور ایک وقت میں ایک ڈش کا طرزِ عمل اپنائیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں میانہ روی کے سدا بہار فارمولے پر عمل پیرا ہوں اور اپنی چادر دیکھ کر اپنے پاؤں پھیلانے والے مقولے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں تو ہم لاتعداد معاشی اور معاشرتی الجھنوں سے محفوظ ہو جائیں گے۔
اپنے رب سے رجوع کریں…سبب اختیار کرو وہ وسیلہ مہیا کردے گا… ماہرین کے مطابق خواہش اور کوشش کے بعد دعا کو اپنا ہتھیار بناؤ اور دعا اس اسلوب سے مانگو کہ ہر دعا کے فی الفور قبول ہونے کا یقین بھی دل میں پختہ ہو۔ جب بھی دعا مانگو اتنے وثوق سے مانگو کہ ہاتھ گرنے سے پہلے ہی دعا استجاب کے مقام پر پہنچ جائے۔ دعا کے آغاز اور اختتام پر حضرت محمدﷺ پر درود شریف ضرور پڑھیں۔ استغفارکی کثرت کریں۔ جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، حسد، بخل، ریا کاری، کینہ پروری، حرام اور بے ایمانی سے مکمل بچنے کی کوشش کریں۔
حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی رزق میں برکت اور کثرت کا باعث بنتی ہے۔ فی زمانہ دعاؤں کے بے اثر ہونے کی وجہ ہمارا اکلِ حلال اور صدقِ مقال کا نہ ہونا بھی ہے۔ اپنے گناہوں پر ندامت اور نیکیوں پر مداومت کا عہد کریں۔ ایسے افراد جو تنگئی رزق، تنگ دستی اور مالی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں وہ نماز فجر یا نمازِ عشا ء کے بعد مکمل توجہ اور یکسوئی کے ساتھ اسمِ الٰہی ’’یَا مْغنیِ‘‘ 1100 بار ورد کریں۔
اسی طرح اسمِ الٰہی ’’یا رَزاقْ‘‘ کا 1000 بار روزانہ پڑھنا بھی کشائشِ رزق کے لیے بہترین فوائد کا حامل ہے۔ اسمِ الٰہی ’’یَا وَھَابْ‘‘کو بھی 1400 بار متواتر پڑھنا معاشی مسائل سے نجات دلانے میں کمال ثمرات رکھتا ہے۔ ایسے لوگ جو حاسدین اور مخالفین کی ریشہ دوانیوں سے پریشان ہیں وہ اسمِ الٰہی ’’یَا مْقیتْ‘‘ کا بکثرت ورد کرنا شروع کردیں، بفضلِ خدا ہر قسم کے شر سے محفوظ ہو جائیں گے۔ ماہرین کے مطابق اسمِ اعظم کا ورد یا وظیفہ زندگی بھر کے لیے ہیلپ لائن ثابت ہوتا ہے۔ نام کے اعداد کے مطابق اپنا اسمِ اعظم دریافت کریں۔ اسمِ اعظم کا ذکر کرنے میں دو اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ عددِ صغیر ،عددِ کبیر جس کے مطابق ہم اپنا معمول ترتیب دیں گے۔
اسما ء الحسنیٰ سے مشکلات کے حل کا ایک دوسرا طریقہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے معروف 99 ناموں کے اوصاف بھی مختلف ہیں۔ مثلاََ یا رزاق کا مطلب ہے رزق دینے والا، یامغنی کے معنی ہیں غنی کرنے والا ،یَا حَفیظْ حفاظت کرنے والا، یوں ہم اللہ کے ناموں میں سے کسی ایک نام کو اپنی حاجت اور ضرورت کے مطابق کسی صاحبِ علم کی رہنمائی میں منتخب کر کے اس کا ورد شروع کردیں تو چند ایام کے بعد ہی حالات کا رخ بدلنا شروع ہو جائے گا۔ دھیان رہے کہ کسی متقی اور اللہ والے سے اجازت لے کر پڑھنے سے اس کے ثمرات بہت جلد ہی ملنا شروع ہو جایا کرتے ہیں۔
The post صحت؛ دنیاوی مسائل کا روحانی حل appeared first on ایکسپریس اردو.