Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

ہیلتھ کیئر اور مصنوعی ذہانت

$
0
0

ٹیکنالوجی میں ہونے والی مسلسل پیش رفتوں نے موبائل فون، لیپ ٹاپ ایپس سمیت اس صنعت کی تمام مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے زمین پر لاپٹخی ہیں، مگر صحت کے شعبے میں صورت حال مختلف نظر آتی ہے۔

ٹیکنالوجی نے اس شعبے میں آلات سے لے کر خدمات تک ہر شے کو منہ گا کردیا ہے۔ اس کا ازالہ کرنے کے لیے اب مختلف کمپنیاں مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس ( اے آئی) اور ڈیٹا اور آلات کو باہم مربوط کرکے اس انداز سے استعمال کرنے کے طریقے وضع کررہی ہیں جن سے صحت کی دیکھ بھال اور علاج معالجے پر ہونے والے اخراجات میں نمایاں کمی آئے اور صحت کی سہولیات کے معیار میں اضافہ ہو۔

اگر پانچ سے دس سال کے عرصے میں اس رجحان کے مثبت نتائج سامنے آجاتے ہیں تو پھر کانگریس کو طبی سہولیات اور بیمے کے بڑھتے ہوئے اخراجات پر تشویش ظاہر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ پھر غالباً اس کے بجائے اخراجات میں نمایاں کمی اس کے لیے باعث تشویش امر ثابت ہوگا۔ پھر اوباما دور میں نافذ کیے گئے صحت کے منصوبے کی منسوخی پر بحث معمولی معلوم ہوگی۔

اس منظرنامے پر یقین کرنا مشکل لگ رہا ہوگا؟ تاہم بہت جلد یہ حقیقت بن جائے گا۔ اس کا ایک ثبوت ذیابیطس کے گرد گھومتی سرگرمیاں ہیں، جو دنیا کی سب سے منہگی بیماری ہے۔ امریکا کی دس فی صد آبادی یعنی تین کروڑ افراد کو یہ مرض لاحق ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایک عشرے کے بعد چین میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد امریکا کی کُل آبادی سے بڑھ جائے گی۔ اس مرض کا شکار افراد علاج معالجے پر سالانہ پانچ سے دس ہزار ڈالر خرچ کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں ذیابیطس کی پیچیدگیوں کے باعث ہونے والے دیگر امراض کے علاج پر اس سے کہیں زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔ سینٹرفارڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق صرف امریکا میں ذیابیطس پر سالانہ 245 ارب ڈالرخرچ ہوتے ہیں۔ اس منہگی بیماری کا سستا علاج تلاش کرنے کی کوشش متعدد افراد کررہے ہیں۔ انھی میں سے ایک سیمی لنکینن ہے۔ وہ ایتھلیٹ رہ چکا ہے۔ 2011ء میں اسے ٹائپ ٹو ذیابیطس تشخیص ہوئی۔ کئی لوگوں کی طرح سیمی نے بھی اپنی بیماری کو سمجھنے کے لیے ہر ممکن سعی کی۔

آگہی کی جستجو کے اس سفر میں اس کی ملاقات کیلے فورنیا یونی ورسٹی کے طبی محقق ڈاکٹر اسٹیفن فنی اور جیف وولیک سے ہوئی۔ دونوں محققین کم نشاستے کی حامل خوراک پر دو کتابیں تحریر کرچکے ہیں، نیز اس موضوع پر ان کی کئی تحقیق شایع ہوچکی ہیں کہ کیسے خوراک اور طرز زندگی میں مستقل بنیادوں پر کیا جانے والا تغیرو تبدل کئی مریضوں کو اس مرض سے نجات دلا سکتا ہے۔ تاہم انتہائی مشکل ہونے کے باعث ان کی پیش کردہ تجاویز یا منصوبے پر عمل درآمد بیشتر لوگوں کے لیے آسان نہیں۔ خواہش مند مریض کو قریب قریب ایک ڈاکٹر ہمہ وقت اپنے ساتھ رکھنا ہوگا، جو کہ ہر کسی کے لیے ممکن نہیں۔

لنکینن پیہم کوششوں کے بعد فنی اور وولیک کو بالآخر یہ باور کرانے میں کام یاب ہوگیا کہ ٹیکنالوجی ایک اسمارٹ فون میں ڈاکٹر اور نگراں کو ’ قید‘ کرسکتی ہے جو ہمہ وقت مریض کے ساتھ رہے گا۔ یوں تینوں افراد نے مل کر 2014ء میں Virta Health نامی کمپنی کی بنیاد ڈالی۔ ورٹا ہیلتھ دراصل ایک سوفٹ ویئر ہے۔

ذیابیطس کا مریض اپنے اسمارٹ فون میں موجود اس ایپ میں باقاعدگی سے ڈیٹا یعنی گلوکوز لیول، وزن، بلڈپریشر وغیرہ داخل کرتا ہے۔ اس دوران ایپ مختلف سوالات بھی پوچھتی ہے۔ مصنوعی ذہانت سے لیس یہ ایپ یا سوفٹ ویئر داخل کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر مریض میں ذیابیطس کی صورت حال کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرکے ورٹا کے ڈاکٹروں کی ٹیم کی راہنمائی کرتی ہے۔

ڈاکٹر موصول ہونے والے ڈیٹا کی بنیاد پر اسی وقت، اسی ایپ کے ذریعے مریض کو دوا یا خوراک تبدیل کرنے کی ہدایت کرتے یا پھر کوئی اور مشورہ جیسے کوئی مخصوص ورزش وغیرہ، دیتے ہیں۔ سیمی کے مطابق تمام طبی فیصلے ڈاکٹر ہی کرتے ہیں مگر اس سوفٹ ویئر کی وجہ سے ان فیصلوں کی افادیت دس گنا بڑھ جاتی ہے۔

ڈیٹا بروقت داخل کرتے رہنے اور اس کی روشنی میں ملنے والے مشوروں اور ہدایات پر عمل کرنے کی وجہ سے ذیابیطس پر قابو پانے میں حیران کُن مدد ملتی دیکھی گئی ہے۔ ورٹا ہیلتھ سے مستفید ہونے والے 87 مریضوں نے یا تو انسولین کی خوراک کم کردی یا پھر انھیں اس کے استعمال سے مکمل نجات مل گئی۔

ورٹا نے اے آئی سوفٹ ویئر، اسمارٹ فونز اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ کو باہم مربوط کرکے اپنے ڈاکٹروں کو اس قابل کردیا کہ وہ کلینک یا اسپتال کی نسبت کئی گنا زیادہ مریضوں سے مستقل رابطے میں رہتے ہیں۔ اس نظام کا نتیجہ ذیابیطس کے مؤثر علاج کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے جو مریضوں کو ادویہ، ڈاکٹروں کے دفاتر اور اسپتال کے ہنگامی امداد کے کمروں سے دور رکھنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ذیابیطس کے علاج پر ہونے والے مجموعی اخراجات نمایاں طور پر کم ہوجائیں گے۔

ذیابیطس سے تنہا ورٹا ہیلتھ برسرپیکار نہیں ہے۔ Livongo، ورٹا کے سوفٹ ویئر سے ملتا جُلتا پروگرام ہے مگر اس کا ڈاکٹروں پر انحصار اول الذکر سے کم ہے۔ سوا پانچ کروڑ ڈالر کے سرمائے سے رواں سال مارچ میں قائم ہونے والی کمپنی نے خون میں شکر کی سطح جانچنے والا لاسلکی آلہ بنایا ہے جو ذیابیطس کے مریض کا ڈیٹا اپ لوٹ کرتا ہے۔ اس ڈیٹا کی بنیاد پر اے آئی سوفٹ ویئر مریض کی حالت کا اندازہ کرتے ہوئے اسے مفید مشورے اور معلومات بھیج دیتا ہے۔

ایک اور کمپنی Fractyl نے وسیع تر طبی طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس نے ایک قسم کی مثانے میں سے پیشاب نکالنے کی نلکی (کیتھیٹر) ایجاد کی ہے جو آنتوں میں تغیر لاکر خون میں شکر کی زیادتی کا سبب بننے والے عمل کو اُلٹا دیتی ہے۔ یوں ذیابیطس پر قابو پانے مدد ملتی ہے۔

امریکا میں اس وقت 130 نئی کمپنیاں کسی نہ کسی پہلو سے ذیابیطس پر قابو پانے کی جنگ میں شامل ہیں۔ ان کی کام یابی یا ناکامی سے قطع نظر اس جنگ میں ان کی کوششیں بہت اہمیت کی حامل ہیں کیوں کہ صحت کی دیکھ بھال کے وسائل پر ذیابیطس بے انتہا بھاری بوجھ ہے۔ Livongo کے بانی ہمنت تنیجا کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی ذیابیطس کی مد میں ہونے والے اخراجات میں کم از کم ایک کھرب ڈالر کی بچت کرسکتی ہے۔ اتنی بڑی رقم کی بچت سے امریکی حکومت متعدد نئے منصوبے شروع کرسکتی ہے۔

اگر ذیابیطس کے صرف 20 فی صد مریضوں کو علاج معالجے اور ڈاکٹروں کے کلینکوں کے چکر لگانے سے نجات مل جائے تو اس مد میں بچنے والی کثیر رقم دوسرے امراض میں مبتلا مریضوں کے کام آسکے گی۔ لنکینن کا کہنا ہے کہ اگر ہم صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات محدود کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ذیابیطس جیسے صحت کے تحولی مسائل (میٹابولک ہیلتھ ایشوز) کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ پندرہ سال کے دوران ہیلتھ کیئر کمپنیاں نہ صرف امراض کا علاج کررہی ہوں گی بلکہ آغاز ہی میں ان کی شناخت کرکے اسی مرحلے پر انھیں ختم کردینے کے بھی قابل ہوچکی ہوں گی۔

پچھلے ایک عشرے کے دوران، امریکا میں تمام میڈیکل ریکارڈز ڈیجیٹل ہوکر ایک سوفٹ ویئر میں محفوظ ہوچکے ہیں جو پہلے کاغذات پر ڈاکٹروں کی خوف ناک تحریروں کی صورت میں تھے۔ تاہم ڈیجٹائزیشن کے اس عمل سے ہیلتھ کیئر کے اخراجات کم کرنے میں مدد نہیں ملی بلکہ ان میں اضافہ ہوا ہے، کیوں کہ اس مقصد کے لیے بڑے بڑے کمپیوٹر سسٹمز نصب کیے گئے اور ڈاکٹروں اور طبی ماہرین کو سوفٹ ویئر استعمال کرنے کی تربیت بھی دی گئی۔ امریکا میں 54 فی صد سے زائد مریضوں کا طبی ریکارڈ Epic Systems نامی کمپنی کے پاس محفوظ ہے، مگر اس کمپنی نے طبی ریکارڈ تک رسائی دینے کے لیے جو لائحہ عمل بنایا ہے اس میں ڈاکٹروں اور نرسوں کا وقت بہت ضایع ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کمپنی کا تنقید ہوتی رہتی ہے۔

مریضوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیکل ریکارڈز کا حجم بھی تیزی سے وسیع ہورہا ہے۔ ورٹا اور لیونگو جیسی سہولیات کا استعمال بھی ڈیٹا میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ علاوہ ازیں انٹرنیٹ سی جُڑے آلات چاہے وہ Fitbits ہو یا پھر اس سے منسلک گلوکوز میٹر یا پھر ایپل کے ایئرپوڈز جیسی بایومیٹرک ریڈنگز لینے والی ڈیوائسز ، یہ تمام بھی ڈیٹا یعنی میڈیکل ریکارڈز کے حجم میں اضافہ کررہی ہیں۔ اس میڈیکل ریکارڈ کی بنیاد پر اے آئی سوفٹ ویئر عمومی طور پر امراض اور انفرادی مریضوں کے بارے میں جان کاری حاصل کرکے ٹیکنالوجی کے اطلاق کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔ اے آئی کے نئے اطلاقات ہیلتھ کیئر انڈسٹری کی کایا پلٹ سکتے ہیں۔

Qventus ایک اور نئی کمپنی ہے جو اے آئی کی مدد سے اسپتال میں آن لائن جاری سرگرمیوں کو کھنگالتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کررہی ہے کہ ڈاکٹروں اور نرسوںکے وقت کی بچت کیسے کی جائے تاکہ وہ زیادہ مریضوں کو خدمات فراہم کرسکیں۔ کئی اسپتال اس کمپنی کے سوفٹ ویئر سسٹم سے استفادہ کررہے ہیں۔ ان میں سے فورٹ اسمتھ، آرکنساس میں قائم مرسی ہاسپٹل ہے۔

Qventus کی خدمات حاصل کرنے کے بعد اسپتال نے انھی وسائل میں رہتے ہوئے ایک سال کے دوران تین ہزار زیادہ مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کیں۔ اس طرح مریضوں کی تعداد 18 فی صد بڑھ گئی۔ یہاں ٹیکنالوجی نے طبی خدمات کی رسد بڑھانے میں کردار ادا کیا اور ہیلتھ کیئر پر آنے والے اخراجات گھٹانے میں بھی معاون ہوئی۔

اے آئی ڈاکٹروں کے کام کو بھی کسی حد تک خودکار بنانے لگی ہے۔ آئی بی ایم کا سوال و جواب کا کمپیوٹر نظام ’واٹسن‘ دنیا کا بہترین تشخیص کار بننے کی راہ پر گام زن ہے۔ اس کا سوفٹ ویئر مریضوں کی معلومات اور ہر سال شایع ہونے والی ہزاروں لاکھوں طبی تحقیق کا موازنہ کرتے ہوئے تشخیصی عمل انجام دیتا ہے۔ واٹسن اپنی یادداشت میں تازہ ترین خبریں بھی محفوظ کرتا ہے، مثلاً کس خطے میں کون سی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ یہ معلومات حالیہ دنوں میں اس خطے کا سفر کرنے والے افراد میں مرض کی تشخیص کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔

واٹسن مریض سے مختلف سوالات پوچھتے ہوئے مرض کا تعین کرتا ہے۔ آئی بی ایم کے اس نظام کی آزمائش کئی بڑے اسپتالوں میں کی جارہی ہے۔ تاہم ٹیکنالوجی میں ہونے والی روزافزوں پیش رفت کی بنیاد پر امید کی جارہی ہے کہ ایک روز واٹسن یا اس سے ملتا جلتا سسٹم ہر فرد اسمارٹ فون وغیرہ کے ذریعے استعمال کرسکے گا۔ واٹسن کے طرز پر امیزون نے ’ ڈاکٹر اے آئی‘ لانچ کیا ہے۔ اس سے اپنا طبی مسئلہ بیان کیا جائے تو یہ سوالات پوچھنا شروع کردیتا ہے، اور کچھ دیر کے بعد ممکنہ مرض یا کیفیت کا تعین کردیتا ہے۔

شعبۂ طب میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے کردار کے ساتھ مختلف کمپنیاں اب جینیات پر مبنی نئی اقسام کی ادویہ تیار کررہی ہیں۔ سولہ سال پہلے ہیومن جینوم پروجیکٹ اور ماہر جینیات کریگ وینٹر کی قائم کردہ کمپنی سیلیرا جینومیکس نے انسانی جینوم کا نقشہ ترتیب دینے میں کام یابی حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وینٹر کا کہنا تھا کہ اس کا پروجیکٹ سپرکمپیوٹر پر بیس ہزار گھنٹے صرف کرنے کے بعد مکمل ہوا تھا۔

رواں برس ایک کمپنی کلر جینومکس ڈھائی سو ڈالر میں ایک ٹیسٹ کررہی ہے جس میں انسانی جسم کے تمام جینز کی سیکونسنگ یا سلسلہ بندی کی جاسکتی ہے۔ اس کمپنی کا مقصد جینیاتی سلسلہ بندی کو اتنا ارزاں کردینا ہے کہ پیدا ہونے والے ہر بچے کا یہ ٹیسٹ ممکن ہوجائے اور پیدائش کے ساتھ ہی یہ معلوم ہوجائے کہ زندگی میں اسے کون کون سی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

مندرجہ بالا کے علاوہ بھی کئی کمپنیاں ہیلتھ کیئر کے مختلف پہلوؤں کو ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ کررہی ہیں۔ چناں چہ یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ بہت جلد ہیلتھ کیئر ٹیکنالوجی کی وسعت کے ساتھ صحت کی دیکھ بھال سہل تر اور ارزاں ہوجائے گی۔

The post ہیلتھ کیئر اور مصنوعی ذہانت appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>