جنوب مغربی بولیویا میں اور انڈیز کے بلندیوں میں سیروریکو نامی ایک عمودی پہاڑی چوٹی واقع ہے جس پر دنیا کا سب سے بلند شہر بسا ہوا ہے۔ یہ جگہ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے تو اہم ہے ہی، لیکن اس حوالے اور بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ اس پہاڑی چوٹی پر چاندی کی کانیں واقع ہیں جن میں سے چاندی نکالنے والے کان کن طویل عرصے سے یہاں کام کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔
سیروریکو کا مقامی زبان میں مطلب ہے:’’دولت مند پہاڑ!‘‘ ظاہر ہے اس پہاڑی چوٹی کو یہ نام چاندی کی کانوں کی وجہ سے ہی دیا گیا ہوگا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس پہاڑی چوٹی کو یہ نام اسپینی نو آبادیاتی عہدے داروں نے دیا تھا جو اس دور میں اس خطے پر قابض تھے اور چوں کہ اس پہاڑی سلسلے میں چاندی کی کئی کانیں موجود تھیں جن میں بہت بڑی مقدار چاندی پائی جاتی تھی، اس لیے اسے دولت مند یا دولت کا پہاڑ کہہ کر پکارا گیا۔ اسپینیوں کا تو یہ خیال تھا کہ یہ پورا ہی پہاڑ خام چاندی سے بنا ہوا ہے۔
چاندی اگلنے والی ان کانوں کو کون نظر انداز کرسکتا تھا، لہٰذا ساری دنیا کی نظریں اس جگہ بھی تھیں۔ یہ بہت خوب صورت اور پرفضا مقام ہے، یہاں کی آب و ہوا بہت زبردست اور خوشگوار ہے۔ پھر چوں کہ ہر دور میں دولت مند اور طاقت ور ممالک غریب ملکوں کی دولت ہمیشہ سے نکال کر لے جاتے رہے ہیں اور چوں کہ اس دور میں اسپین اس خطے کا ایک طاقت ور حکم راں تھا، اس لیے اس نے ان پہاڑوں کو تاکا اور یہاں قبضہ کرکے اپنے ڈیرے ایسے جمائے کہ طویل عرصے تک وہ اس خطے کی چاندی کو چٹنی بناکر کھاتا رہا۔ واضح رہے کہ یہ جگہ بولیویا کے شہر Potosí کے قریب پہاڑی مقام پر واقع ہے اور دیکھنے میں بہت ہی دل کش اور حسین ہے۔
پھر 1545ء میں سیروریکو کے دامن میں ایک چھوٹا سا کان کنی کا قصبہ قائم ہوا جس میں اس دور کے قابض اسپینیوں نے تیس لاکھ غریب اور بدحال مقامی افراد کو جبراً کام کام کر نے پر مجبور کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کانوں میں کام کرنے والے ہزاروں لاکھوں افراد مسلسل حادثات کا شکار ہوکر مارے گئے۔ ان کے یہاں اس طرح مرنے کی کئی وجوہ تھیں جن میں سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ ان کان کن مزدوروں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا، پھر چوں کہ یہ لوگ بہت بھوکے اور غریب تھے، اس لیے بھوک کے ہاتھوں بھی مارے گئے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس خطے میں کام کی زیادتی کی وجہ سے اور روٹی نہ ملنے کے باؑعث یہاں طرح طرح کی بیماریاں پھیل گئی تھیں جنہوں نے بھی ان غریب اور مفلوک الحال کان کنوں کی کی جانیں لے لیں۔ یعنی ان کان کنوں کی جانیں مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر گئیں۔ گویا چاندی نکالنے والے یہ محنتی مزدور اس پہاڑی خطے پر اپنی جانیں قربان کرتے رہے۔ وقت کا پہیا اپنی رفتار سے چلتا رہا۔ لگ بھگ پانچ صدیوں کے بعد اسپینی جابر و ظالم حاکموں کے اثرات تو اس جگہ سے کسی حد تک ختم ہوگئے، لیکن پہاڑوں کے اندر گہرے گڑھوں میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بہت کم تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، یہاں آج بھی پرانے حالات ابھی تک ویسے کے ویسے ہی چل رہے ہیں جیسے صدیوں پہلے تھے۔
گزرتے وقت نے ان بے چارے نادار اور پسے ہوئے لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑا اور نہ ہی ان کی قسمتوں میں کوئی تبدیلی پیدا کی۔ اس خطے میں آج بھی صورت حال اتنی ہی سنگین ہے کہ درجنوں افراد اور نوجوان لڑکے ان سرنگوں کے اندر اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں، یا تو اندر واقع سرنگیں کسی بھی وجہ سے ڈھے جاتی ہیں یا پھر غار بغیر کسی وجہ کے بھی اپنے وجود کھودیتے ہیں۔ ان حادثات میں اکثر کان کن مزدور کانوں کے اندر ہی دب کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ چوں کہ اس پہاڑی سلسلے میں صدیوں سے کان کنی جاری و ساری ہے، اس لیے ان پہاڑوں کو گویا حالات نے مکمل طور پر چھید ڈالا ہے اور ان میں جگہ جگہ ایسے سوراخ بن گئے ہیں جو اب کبھی بھرے نہیں جاسکیں گے اور جس کی وجہ سے یہ پہاڑ اور پہاڑی سلسلے بہت کم زور ہوگئے ہیں۔ ممکن ہے یہ بعد میں اتنے زیادہ کم زور ہوجائیں کہ کسی بھی وقت اپنی جگہ چھوڑدیں اور نیچے گرجائیں، فی الوقت یہ بہت بری اور خستہ حالت میں ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسپینی بادشاہت کے دور میں ان پہاڑی سلسلوں کی بلندیاں پہلے ہی چند سو میٹر تک کم ہوگئی تھیں، اس کی وجہ ان علاقوں میں ہونے والی بہت زیادہ یا شدید کان کنی تھی۔ شاہی کارندے ان کانوں سے چاندی نکلوانے کے لیے مقامی مزدوروں پر بہت ظلم کیا کرتے تھے اور انہیں دن رات کام کرنے پر مجبور کرتے تھے جس کے نتیجے میں وہ چاندی کی گاڑیاں بھربھر کر اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور کسی کی ہمت نہیں تھی کہ انہیں روکتا یا چیلینج کرتا۔
معروف تاریخ داں Eduardo Galeano کے مطابق سولھویں صدی سے سیروریکو میں اندازاً آٹھ ملین افراد ہلاک ہوچکے ہیں، لیکن ناقدین ان اعدادوشمار کو صحیح نہیں مانتے، ان کا خیال ہے کہ انہیں بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔ ویسے یہ سچ ہے کہ اس علاقے میں رہنے والے بالخصوص چاندی کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی بڑی تعداد پہلے بہت زیادہ تھی، مگر بعد کے زمانوں میں ان کی تعداد یکایک بہت زیادہ گھٹ گئی۔ خیال ہے کہ ان کی بہت بڑی تعداد چاندی کی کانوں میں حادثوں کا شکار ہوکر اپنی جانوں سے گئی تھی۔ کچھ تاریخ داں یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس خطے میں جب بیماریوں نے ڈیرے ڈالے تب بھی بہت سے کان کن اور ان کے گھروالے ہلاک ہوئے تھے۔
اس دور میں طرح طرح کی نامعلوم بیماریوں نے یہاں کے رہنے والوں کو جس طرح ان کی زندگیوں سے محروم کیا، اس کی مثال نہیں ملتی، لیکن یہ سچ ہے کہ اس پہاڑ نے اس جگہ سے انسانی جانوں کا بہت بڑا خراج وصول کیا اور اس کے اطراف کی آبادیاں بھی بڑے پیمانے نامعلوم بیماریوں یا نامعلوم وجوہ کی بنا پر موت کے منہ میں چلی گئیں۔
لیکن صحیح اعداد و شمار ابھی تک نہیں مل سکے، نہ تو یہ معلوم ہوسکا کہ اصل میں کتنے افراد چاندی کی کانوں میں کام کرتے ہوئے حادثات کا شکار ہوکر مرے اور نہ یہ پتا چل سکا کہ کتنے افراد اس خطے کی وبائی بیماریوں کی لپیٹ میں آکر اپنی جانوں سے گئے، لیکن یہ سچ ہے کہ سیروریکو کا یہ پہاڑی خطہ اور قصبہ شروع سے ہی انسانی جانیں ہڑپ کرتا چلا آرہا ہے۔ کبھی اس کی ہلاکت خیزی بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی اور کبھی کم ہوجاتی تھی، لیکن یہ بڑی بے دردی سے انسانی جانیں لیتا رہا اور اپنی ازلی پیاس بجھاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں کچھ لوگوں نے اس پہاڑ کو ’’آدم خور پہاڑ‘‘ بھی کہہ کر پکارنا شروع کردیا تھا، کیوں کہ اس نے ہر دور اور ہر زمانے میں بڑی سنگ دلی سے انسانی جانیں لی تھیں بلکہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس کی سنگینی کسی بھی طرح کم ہوکر نہیں دے رہی۔
اس خطے میں ویسے تو بہت سی وبائی بیماریاں پھیلتی رہی ہیں، لیکن جس بیماری نے سب سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار، وہ silicosis تھی۔ یہ پھیپھڑوں کا ایک مرض ہے جو دھول مٹی میں سانس لینے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس بیماری کی لپیٹ میں آنے والا فرد مشکل سے ہی بچ پاتا ہے اور عموماً اس بیماری کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ دور جدید میں ہمارے کان کنوں کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈرل کی نوک سے پانی کا ایک ننھا منا سا فوارہ منسلک کردیا گیا، اس سے مسلسل پانی نکلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے کان کن دھول مٹی سے بچا رہتا ہے اور یہ ڈسٹ اس کے منہ یا حلق میں نہیں جاپاتی۔ لیکن سیروریکو میں ایسا کوئی حفاظتی اقدام نہیں کیا گیا تھا۔
وہاں کام کرنے والا مزدور یا کان کن کام کے دوران ڈرل سے نکلنے والی دھول کو مسلسل پھانکتے رہے۔ یہ دھول مٹی ایک بار پھیپھڑوں کے اندر جاکر بیٹھ جائے تو مذکورہ مزدور کے پھیپھڑے اور ان کے ٹشوز برونکائٹس، بخار، سینے کی تکلیف، وزن میں کمی اور کم زوری جیسی علامت میں مبتلا ہوکر آخرکار موت پر جاکر منتج ہوتے ہیں۔ ایسے بہت کم لوگ ہی چالیس سال کی عمر تک پہنچ پاتے ہیں۔ بیواؤں کی مقامی ایسوسی ایشن کے مطابق یہاں ہر اوسطاً ماہ 14خواتین بیوہ ہوجاتی ہیں۔
آج چاندی کی یہ کانیں اتنی مقدار میں چاندی پیدا نہیں کرتیں جتنی اٹھارھویں صدی میں پیدا کرتی تھیں۔ اس وقت کے بعد سے یہ خطہ معاشی اور اقتصادی زوال کی طرف گام زن ہوگیا ہے۔
ماضی کا چاندی برسانے والا یہ پہاڑ بعد میں Potosí شہر کے آباد ہونے کا باعث بنا اور یہ شہر ماضی کے اسپینی اور نیو ورلڈ آرڈر کے دور کا سب سے بڑا اور ترقی یافتہ شہر قرار پایا۔ 1800کے بعد چاندی کی ان کانوں کا ذخیرہ کم ہوتا چلا گیا اور اس کی جگہ ٹین اس کی بنیادی پروڈکٹ بن گیا جس سے وقتی طور پر معاشی ترقی کی رفتار بھی سست ہوگئی۔ اس کے باوجود آج بھی اس پہاڑ میں چاندی کی کان کنی ہورہی ہے اور یہ بوسیدہ ہوتا ہوا پہاڑ اب بھی اپنی کوکھ سے مسلسل چاندی پیدا کررہا ہے۔ چوں کہ ماضی قدیم میں ان کانوں میں کام کرنے کے حالات بہت ناقص تھے اور پھر حفاظتی آلات و اوزار بھی میسر نہیں تھے، اس لیے ان کانوں کے مزدور مسلسل مضر صحت دھول مٹی پھانکتے رہتے تھے، اس لیے زیادہ تر کان کن سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے اور ان کی عمر کی حد بھی کم ہوکر 40سال تک رہ گئی۔ اس کے باوجود یہ پہاڑ آج بھی اس شہر کی اور اقتصادیات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس شہر کے کم و بیش 15,000 کان کن اور مزدور ان چاندی کی کانوں میں کام کررہے ہیں۔
اس خطے میں صدیوں سے ہونے والی طویل کان کنی کی وجہ سے پہاڑ کی چوٹی پر 2011میں ایک سنک ہول نمودار ہو جسے الٹرا لائٹ سیمنٹ سے بھرنا پڑا، لیکن یہ چوٹی کی طرف سے ہر سال چند سینٹی میٹر نیچے دھنس رہا ہے۔ پھر 2014میں یونیسکو نے اپنی خطرے سے دوچار مقامات والی فہرست میں سیروریکو اورPotosí کا اضافہ بھی کرلیا۔ یونیسکو نے دنیا بھر کو بتایا کہ جن کانوں میں غیرمنظم انداز سے کان کنی کی جارہی ہے، ان کے دنیا سے معدوم ہونے کا خطرہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔
The Cerro Rico de Potosí mine اس وقت دنیا بھر میں اور بولیویا میں چاندی کی سب سے بڑی کان ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق اس کان میں 1.76ارب اونس کے چاندی کے ذخائر ہیں اور اس میں 540ملین ٹن ٹین کے ذخائر بھی موجود ہیں۔
آج بھی یہ کان چاندی اگل رہی ہے، لیکن ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ سیکڑوں ہزاروں برس کی کان کنی نے اس کان کو اس حد تک کھوکھلا اور غیرمستحکم کردیا ہے کہ اگر اس پر فوری اور ہنگامی توجہ نہ دی گئی تو یہ کان کسی بھی وقت ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجائے گی۔
یہاں کے قدیم مکینوں کا کہنا ہے کہ چاندی کی ان کانوں نے ہی اس بدحال علاقے کو ایک شاہی شہر میں بدلا تھا ورنہ اسپینیوں کی آمد سے پہلے تو یہ ویران تھا، اسپینیوں نے جب یہاں اپنے قدم جمائے تو اسے شاہی شہر کہنا شروع کردیا کیوں کہ ان لوگوں کے بقول یہ ان کے لیے کسی بھی طرح میڈرڈ سے کم نہیں تھا، بلکہ وہ سبھی اسے میڈرڈ ثانی کہہ کر پکارتے تھے۔ حالاں کہ جب نوآبادیاتی دور سے یہاں چاندی کے اثرات کم ہوئے ہیں، اس وقت سے یہ اب اجڑا اجڑا سا نظر آنے لگا ہے، اس کے باوجود آج بھی یہاں شان دار گرجا گھر بھی دکھائے دیتے ہیں تو دولت و امارت کا اظہار کرتے مینشن بھی نظر آتے ہیں اور یہ سب اس شہر کی ماضی کی شان کو ظاہر کرتے ہیں۔
آج بھی اس پہاڑ کے گہرے گڑھوں میں زندگی بہت کم بدلی ہے، یہاں آج بھی ماضی پوری طرح جلوہ گر دکھائی دیتا ہے۔ لگ بھگ 16000کان کن اپنے آباو اجداد کی طرح آج بھی کلہاڑیاں، کدالیں، پھاؤڑے لیے کام میں مصروف نظر آتے ہیں۔ وہ اور ان کے بیٹے اور اہل خاندان اپنا خون پسینہ بہاتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنی پیٹھوں پر پتھر اور چٹانوں کے ٹکڑے لادے اوپر جاتے اور واپس آتے نظر آتے ہیں۔ یہاں قدیم دور کی ریل کاریں بھی ہیں، جو 19ویں صدی میں یہاں لائی گئی تھیں۔ کان کنوں کے ہیڈلیمپس کے ساتھ کسی بھی طرح کی روشنی کا انتظام نہیں ہے اور نہ ہی ان کی کمر پر آکسیجن کے سلنڈر بندھے ہوئے ہیں اور نہ کسی طرح کے حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں اور نہ ایسے قواعد و ضوابط لاگو کیے گئے ہیں۔
ولبر مارینو نامی ایک مزدور بھی یہاں چاندی کی کان میں کام کرتا ہے۔ اس کی عمر اکتالیس سال ہے، وہ قمیص سے محروم یہاں کام کرتا ہے، اس کا پورا جسم پسینے میں شرابور دکھائی دیتا ہے۔ چاندی کی کانوں میں کام کرنے والے دوسرے مزدوروں اور کان کنوں کی طرح وہ بھی اس پہاڑ کو ’’آدم خور پہاڑ‘‘ کہہ کر پکارتا ہے اور کہتا ہے کہ اس پہاڑ نے ہمارے بے شمار لوگوں کو کھالیا اور نہ جانے مزید کتنے لوگوں کو کھائے گا۔
ولبر مارینو کا کہنا ہے:’’یہاں ہمارے لیے یا ہمارے بچوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، ہاں ہمارے مالکان کے لیے یہاں بہت کچھ ہے۔ ہم تو گدھے گھوڑوں اور غلاموں کی طرح دن رات ان کانوں میں کام کرتے رہتے ہیں اور بس! ہمیں ادھر ادھر کا کوئی ہوش نہیں ہوتا۔‘‘
یہاں جو لوگ ان کان کنوں اور مزدوروں کے انچارج ہیں، وہ زیادہ مزے میں ہیں۔ انہیں متعدد مراعات بھی ملی ہوئی ہیں۔
ساتورینو سونکا نامی مزدور کی عمر 58برس ہے۔ وہ سیروریکو کی چاندی کی کانوں میں عرصہ دراز سے چاندی کی دھول مٹی پھانک رہا ہے اور انہی پہاڑوں میں جی رہا ہے۔ اس وقت وہ بہت بیمار ہے، چوں کہ وہ پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا ہوچکا ہے، اس لیے اس کا سانس لینا بھی دوبھر ہوگیا ہے۔ وہ بولیویا کے پوٹوسی پبلک ہاسپٹل میں زیرعلاج ہے۔
اس خطے کے کان کن مزدوروں نے شکوہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان چاندی کی کانوں سے نکلنے والی چاندی کا بہت بڑا حصہ ان کانوں کے منیجرز کے حصے میں آتا ہے۔ ان کے خوب مزے ہیں، دوسروں کی خون پسینے کی کمائی ان کی جیبوں میں جارہی ہے اور برائے نام اجرت کان کنوں کو مل رہی ہے اور وہ بے چارے صبر شکرکرکے اسی پر گذارہ کررہے ہیں۔ حکومت کسی بھی چیز پر توجہ نہیں دیتی اور نہ اسے کان کنوں کے مسائل سے کوئی دل چسپی ہے۔ وہ تو آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور ’’جیسا چل رہا ہے چلنے دو‘‘ کی پالیسی پر عمل کررہی ہے۔
The post سیروریکو؛ چاندی کی کانوں والا پہاڑ جو انسانوں کو مسلسل کھارہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.