سال گزشتہ ترکی کے صدر طیب اردگان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ترک سیاست بین الاقوامی اور قومی اخبارات میں خوب زیر بحث ہیں مگر بہت کم لوگ ترک سیاست کے تاریخی پس منظر سے واقف ہیں۔ اتفاق سے2016ء میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان سکائیس پیکوٹ معاہدے کو پورے سو سال ہو چکے ہیں۔
اب یہ بات سرکاری طور پر منظر عام پر آ چکی ہے کہ اس معاہدے کے تحت پہلی جنگ عظیم کے خاتمے سے پہلے ہی یہ دونوں ملک سلطنت عثمانیہ کے حصے بخروں پر اتفاق رائے سے بندر بانٹ کر چکے تھے یعنی سلطنت کا زوال 1923ء میں خلافت کے خاتمے کے اعلان سے بہت پہلے ہی طے کیا جا چکا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سن 2008ء میں اسرائیلی حکومت نے جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال پاشا کا مجسمہ موجودہ اسرائیل کے بیئر شیبہ نامی شہر میں پہلی جنگ عظیم میں اتحادی افواج کی یادگار کے ساتھ ایستادہ کرنے کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ مصطفیٰ کمال اور اتحادی افواج جنگ عظیم میں بظاہر ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی حکومت کا جدید ترکی کے بانی سے اس حد تک اظہار وارفتگی کا پس پردہ سبب کیا ہو سکتا ہے؟
ترکوں کے خلاف لارنس آف عریبیا کی عرب بغاوت کا بہت ذکر کیا جاتا ہے مگر زوال کی اس داستان کے اس سے زیادہ دلچسپ حصے تاحال دنیا کے سامنے پوری طرح نہیں آسکے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یورپی طاقتوں کی شروع کی گئی اس جنگ میں جس کا ترکی سے بظاہر کوئی تعلق نہ تھا، عثمانوی ترکی کے علاوہ کسی اور مملکت کے جغرافیہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
تاریخ کے اس اہم ڈرامے میں جسے ہم ’سقوط عثمانیہ‘ کہہ سکتے ہیں، بہت سے سوالات اپنے جواب کے منتظر ہیں۔ آئیے! ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لئے یونان کے ایک شہر ’تھیسالونیکی‘ چلتے ہیں جسے جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ماضی قریب یعنی بیسویں صدی کے اوائل تک یہ سلطنت عثمانیہ کے زیر حکومت تھا جو افریقہ سے یورپ اور وسط ایشیا سے حجاز تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس شہر کا سلطنت عثمانیہ کی شکست و ریخت میں بہت اہم کردار رہا ہے اور اسرائیل کے قیام میں بھی اس شہر نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ نتیجتاً مشرق وسطیٰ کے مستقبل پر بھی اس نے بہت دور رس اثرات ڈالے جنھیں دنیا آج تک بھگت رہی ہے۔
’تھیسالونکی‘ نامی شہر جسے ترکوں نے سلانیک یا سلونیکا کا نام دیا، سکندر اعظم کی بہن تھیسالونیک کے نام پر بسایا گیا۔ یہ یونان کے مقدونیہ نامی خطے کا سب سے بڑا شہر ہے۔ جی ہاں! وہی مقدونیہ جہاں سے سکندر جب اٹھا تو دنیا کو فتح کرتا چلا گیا اور فاتح عالم کہلایا۔
اس شہر کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سکندر اعظم اور اس کے استاد ارسطو کے علاوہ فرانس کے سابق صدر نکولس سا رکوزی کے خاندان کا تعلق بھی اسی شہر سے بتایا جاتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل ترک سلطان عبد الحمید دوئم کو معزول کرنے والیYoung Turks تحریک اسی شہر میں قائم ہوئی اور ترکی کو پہلی جنگ عظیم میں دھکیلنے کا تباہ کن فیصلہ کرنے والے Young Turks کے قائدین انور پاشا، طلعت پاشا اور جمال پاشا کا سیاسی اور عسکری کیرئیر طویل عرصہ اسی شہر سے وابستہ رہا۔ اسی طرح آرمینیائی نسل کشی(Armenian Genocide)میں بھی جس کا الزام حالیہ دنوں میں سلطنت عثمانیہ پر لگایا جا رہا ہے بھی جوان ترک کے دور حکومت میں ہی وقوع پذیر ہوئی اور جمال پاشا اسکا براہ راست ذمہ دار بتایا جاتا ہے۔
سیفارڈی یہودیوں کی تنظیم’فاؤنڈیشن فار ایڈوانسمنٹ آف سیفارڈک سٹڈیز اینڈ کلچر ( FASSAC )کی ویب سائٹ کے مطابق یہ شہر 1492ء سے لے کر1943ء تک تقریباً ساڑھے چار سو سال تک یہودی آبادی کا اہم ترین مرکز تھا جس کے بعد دوسری جنگ عظیم میں دوسرے یورپی شہروں کی طرح یہاں کی یہودی آبادی بھی ہولوکوسٹ کے مظالم کا شکار ہوئی۔ ہم نے ذکر کیا کہ اسرائیل کے قیام میں اس شہر کا براہ راست کردار رہا ہے۔
اسرائیل کا قیام ایک عالمی منصوبہ تھا جس کی کڑیاں یونان سے برطانیہ، مصر سے امریکہ اور استنبول سے حجاز تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے اس قوم نے صدیوں تک بھرپور پلاننگ کے ساتھ انتھک جدو جہد کی تھی جبکہ ترک اپنی ناک کے نیچے ہونے والے تماشے سے بے خبر رہے اور عربوں نے لارنس کے اکسانے پر ترکوں کے خلاف بغاوت کر کے خود فلسطین برطانیہ کے حوالے کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ آج ہم اس جدوجہد کے کچھ پہلو سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مضمون کے مندرجات کو سازشی تھیوری سمجھنے والوں کے لئے عرض ہے کہ اس کی تیاری کے لئے سو فیصد یہودی ذرائع سے ہی مدد لی گئی ہے۔
سلونیکا میں یہودی قوم کی آباد کاری
عثمانوی دور حکومت میں یہاں مسلمانوں اور یہودیوں کو بسایا گیا خصوصاً سن 1492 میں ازبیلا اور فرڈی نینڈ کی جانب سے اسپین میں ’الحمرا فرمان ‘جاری ہونے کے بعد یہودیوں کی بہت بڑی تعداد نے سلطنت عثمانیہ میں پناہ لی۔ یہ وہی فرمان تھا جس کے مطابق یہودیوں کو اسپین چھوڑ دینے، عیسائیت قبول کر نے یا آگ میں جل کر مرنے میں سے کسی ایک آپشن کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیاتھا۔
بعدازاں اسپین کے مسلمانوں کے لئے بھی ایسا ہی فرمان جاری کیا گیا۔ یہودی تاریخ کے مطابق ڈھائی لاکھ یہودیوں نے ہسپانیہ چھوڑ دیا جبکہ تقریباً پچاسی ہزار نے عیسائیت قبول کرلی تھی۔ یہود کی اپنی روایات کے مطابق انہیں پناہ ہمیشہ مسلمانوں ہی کے پاس ملی۔ ہسپانیہ چھوڑنے والے یہودیوں کو بھی عثمانوی حکمرانوں نے پناہ دی۔ ان میں سے تقریباً بیس ہزار نے سلونیکا میں سکونت اختیار کی۔
سلونیکا میں یہودی آبادی کی تاریخ
اگرچہ یہودیوں کے دعوؤں کے مطابق وہ قبل مسیح سے سلونیکا میں آباد چلے آ رہے تھے۔ عیسائی مذہب کا دوسرا بڑا رہنما سینٹ پال 50ء میں یہاں آیا۔ اس نے اپنے دو خطوط میں یہاں یہودی موجودگی کا تذکرہ کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے شبات (ہفتہ) کے دن سائناگاگ (یہودی عبادت گاہ) میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے وعظ بھی دیے۔ یہودیوں کو یہاں باقاعدہ بسانے کا مقصد آبادی میں توازن کی سیاسی حکمت عملی بتائی جاتی ہے جس کے تحت یونانی عیسائیوں کو شہر میں غالب آنے سے روکا گیا۔ یہ حکمت عملی عثمانوی حکمرانوں نے اپنے تمام مفتوحہ علاقوں میں اپنائی۔ خصوصاً اس لیے کہ انہیں عیسائیوں کے مقابلے میں یہودیوں پر زیادہ بھروسہ تھا۔ اگرچہ دونوں کی حیثیت اسلامی قوانین کے تحت ذمی کی تھی۔
عثمانویوں کی دریا دلی کے سبب بعد کی صدیوں میں بھی یورپ میں یہود مخالف فسادات (Anti-semitic Pograms) کے با عث یہاں پولینڈ، ہنگری، اٹلی، فرانس روس وغیرہ سے یہودی منتقل ہوتے رہے اور یہ سلطنت اور یورپ کا سب سے بڑا یہودی آبادی والا شہر بن گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے کاروبار اور ثقافت پر بھی یہودیوں کا تسلط مضبوط ہوتا چلا گیا اور اسی بناء پر1537ء میں ایک یہودی شاعری نے اسے اسرائیل کی ماں کا خطاب دیا۔
یہودیوں کو صنعتی مراعات
ہسپانیہ سے آئے ہوئے یہودیوں نے جو سیفارڈی کہلاتے تھے ،اون سے کپڑا بننے کے فن کو یہاں درآمد کیا۔ یہ فن مسلم ہسپانیہ میں بہت ترقی یافتہ تھا۔ اگرچہ وہاں کے مقابلے میں یہاں کا اون کم تر معیار کا تھا۔ انہوں نے یہاں کپڑا سازی کی صنعتیں قائم کرنا شروع کیں۔ رفتہ رفتہ یہ صنعت سلونیکا کی یہودی برادری کی شناخت بن گئی۔ 1515ء کے بعد عثمانوی حکومت کی گرم کپڑے سے متعلق تمام ضروریات خصوصاً فوجی یونیفارم کا ٹھیکہ سلونیکا کی یہودی برادری کو ملنے لگا۔ بعد ازاں سلطان سلیم دوئم نے نہ صرف جزیہ بھی کپڑوں کی شکل میں وصول کرنے کی اجازت دے دی بلکہ سلطان کی طرف سے یہ فرمان بھی جاری کیا گیا کہ تمام دیہاتوں میں چرواہے اور مویشی پالنے والے یہودیوں کو ہی اون فروخت کرنے کے پابند ہوں گے۔ یہ ایک بہت بھاری مراعت تھی کیونکہ اس کی وجہ سے یہودیوں کو اون مارکیٹ سے کم ریٹ پر میسر ہوتا اور اسی طرح تمام سلطنت میں کپڑا سازی کی صنعت پر ان کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔
سیفارڈی یہودیوں کی تنظیم FASSAC کی ویب سائٹ کے مطابق یہودی عثمانوی دربار میں ابتدا ہی سے طبیب کی حیثیت سے وابستہ رہے۔ ہسپانیہ سے آئے ہوئے یہ یہودی پڑھے لکھے بھی تھے اور ایک سے زیادہ زبانیں بھی جانتے تھے اور ان کا یورپ کی یہودی برادری سے رابطہ بھی تھا۔ اس طرح ان کا کردار شروع ہی سے بین الاقوامی رہا۔ ان طبیبوں کا اثر و رسوخ اتنا بڑھا کہ متعدد یورپی ممالک میں انہیں عثمانوی سفیر کی حیثیت سے بھی بھیجا جانے لگا، بعد ازاں انہیں فوج میں بھی شمولیت کی اجازت مل گئی۔ تاہم عیسائیوں کو اس کی اجازت بہت دیر سے ملی۔ یاد رہے یہ وہ وقت تھا جب یورپ میں یہودیوں کو انتہائی حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور ان کی زندگی گھیٹوز تک محدود تھی۔
شباتی زیوی اور خفیہ یہودی کمیونٹی کا قیام
یہودی لٹریچر کے مطابق مسلم ہسپانیہ کے بعد ان کی تاریخ کا سنہرا ترین دور یہی تھا۔ وہ یہاں خوشحالی اور آزادی کی زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے عالمی یہودی برادری میں ہلچل مچا دی۔ یہود کی تاریخ پر متعدد کتب کے یہودی مصنف رافیل مینفریڈ لیھمین (Manfred Raphael Lehmann) کے مطابق 1655ء میں موجودہ ترکی کے علاقے سمرنا ازمیر کے ایک یہودی عالم شباتی زیوی(Shabbati Zevi) نے یہودی قوم کے مسیحا ہونے کا دعویٰ کر دیا جس کا یہودی اپنے مذہبی عقائد کے مطابق بہت عرصہ سے انتظار کر رہے تھے۔ اس کا پیغام یروشلم سے سویڈن تک تمام یہودی قوم میں پھیل گیا ، یہودی پورے یورپ سے اپنے اثاثے بیچ کر سمرنا پہنچنے لگے تاکہ وہ مسیحا کے ساتھ یروشلم جا سکیں۔
ایک اور یہودی مورخ اور شباتی زیوی کی زندگی پر کتاب لکھنے والے گرشوم شولم کے مطابق آرتھوڈوکس یہودی علما کے لئے یہ ایک فتنہ تھا جس سے نمٹنے کے لئے انہوں نے ترک سلطان کی مدد چاہی جس نے ابتدا میں تو سمرنا سے آئے ہوئے بعض یہودی ربیوں کی درخواست پر اسے قید کرا دیا، بعد میں اسے اپنے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا۔
اس موقع پر یہودی برادری خیال کر رہی تھی کہ مسیحا سلطان کا تاج اتار کر اپنے سر پر رکھ لے گا اور یروشلم کو آزاد کرائے گا، وہ یہ دیکھ کے ہکا بکا رہ گئی کہ سلطان کے سامنے ان کے مسیحا نے اسلام قبول کر لیا۔ تقریباً 300 خاندانوں نے اپنے مسیحا کے ساتھ اسلام قبول کیا اور سلونیکا میں آباد ہوگئے۔ یاد رہے کہ سلطنت میں اس وقت بڑی تعداد میں یہودی اور عیسائی مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ اس لئے یہ کوئی جبری مذہب کی تبدیلی کا واقعہ نہیں تھا۔
یہ افراد جنہوں نے اسلام قبول کیا، جیوش انسائیکلوپیڈیا کے مضمون Crypto Jews کے مطابق اسلام اور یہودیت کے درمیان ایک فرقہ بن گئے اور’ دونیما ‘کہلائے۔ یہ افراد عام لوگوں کے درمیان اسلام پر ہی عمل پیرا رہتے لیکن اندر سے یہودی مذہب پر عمل پیرا رہے، انہوں نے عبادت کے لیے اپنی الگ مسجدیں بنائیں جہاں یہ شروع میں عبرانی زبان ہی میں عبادت کیا کرتے۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے بچوں کے نام بھی مسلمانوں جیسے رکھے اور انہیں اسلام کی تعلیم بھی دلائی۔ یہ آپس ہی میں شادیاں کرتے اورکبھی مسلمان معاشرے میں ملے جلے نہیں ، بعدازاں انہوں نے سماجی طور پر دوبارہ سلونیکا کے یہودیوں کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے جن کا ان کے ساتھ رویہ ہمدردانہ تھا۔ یہودی ذرائع انہیں خفیہ یہودی قرار دیتے ہیں۔
’دونیما ‘نامی اس خفیہ یہودی کمیونٹی نے سلطنت عثمانیہ کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ یہ کمیونٹی دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر سلونیکا کی سماجی ثقافتی اور کاروباری منظر نامے پر حاوی رہی اور کچھ مزید یہودی بھی بظاہر اسلام قبول کرکے اس کا حصہ بنتے رہے۔ سرکاری طور پر( عثمانوی ریکارڈ کے مطابق) یہ مسلمان ہی شمار کیے جاتے۔ ان میں سے کچھ افراد حج بھی کرتے تھے، سلونیکا میں یہودی اکثریت کی وجہ سے شبات کے دن کاروبار موقوف رہتا مگر دونیما کام بھی کرتے اور کھانا بھی پکاتے۔ ان میں دولت مند تاجر بھی تھے اور بینکرز بھی متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے بھی تھے اور دانشمند، علماء، صحافی اور قانون دان بھی۔ انیسویں صدی تک یہ ’دونیما ‘اسلامی معاشرے میں بھی نفوذ کر گئے۔ ہر دونیما کے دو نام ہوتے ایک یہودی اوردوسرا ترکی۔
جوان ترک Young Turks انیسویں صدی کے آخر( 1886) میں سلونیکا میں ’کمیٹی آف یونین اینڈ پروگریس‘ کے نام سے ایک تحریک وجود میں آئی جو بظاہر سلطنت عثمانیہ میں اصلاح پسند تحریکوں کا ایک گروپ تھی۔ یہ تحریک عرفِ عام میں ’’جواں ترک‘‘ یا Young Turksکہلائی۔ جواں ترک تحریک کے متعدد عہدیددار انقلاب سے پہلے اور بعد باقاعدہ سلطنت عثمانیہ کے تنخواہ یافتہ تھے اور انکی خفیہ میٹنگز فری میسن لاجز میں ہوتیں۔ ان میں متعدد فرانس کے تعلیم یافتہ بھی تھے۔ ان کی دو ابتدائی کانفرنسز پیرس ہی میں منعقد ہوئیں۔ ان کا نعرہ تھا :آئین کی بالادستی، مذہب کو سیاست سے الگ کرنا اور ترک قومیت کے علاوہ ترکی میں مغربی طرز کی اصلاحات متعارف کرانا۔ مختصراً ترکی کو ماڈرنائز کر نا یا جدیدیت سے متعارف کرانا۔
جوان ترک انقلاب
1908ء میں سلونیکا ہی کو ہیڈکوارٹر بنا کر فوجی بغاوت کے ذریعے جواں ترک انقلاب کے ذریعہ یہ تنظیم مملکت کے سیاہ و سفید پر حاوی ہو گئی. بعد ازان سلطان کو معزول کر کہ اسکے نو عمر بیٹے کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔ Shattering Empires: The Clash and Collapse of the Ottoman and Russian Empires کے مصنف مائیکل اے رینولڈ کے مطابق سلطنت عثمانیہ کی تحلیل دراصل Young Turks یعنی جوان ترک انقلاب ہی سے شروع ہوئی۔اس کا مقصد بظاہر آئین کی بالادستی اور سلطنت میں اصلاحات متعارف کرانا تھا لیکن اس تحریک کے قائدین کے فیصلوں نے سلطنت کو ٹکرے ٹکڑے کر دیا۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی پریس کی چھپی ہوئی کتاب The Donme: Jewish Converts, Muslim Revolutionaries, and Secular Turks کے مطابق اس تحریک میں سلونیکا کے ’دونیما‘، یہودی، معروف خفیہ تنظیم ’فری میسن‘ کے ارکان کے علاوہ کمیونسٹ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ قارئین کی آسانی کے لیے ہم مختصراً بتائیں کہ ’فری میسن ‘ایک عالمی تنظیم ہے اور یہودی برادری کا اس پر غیر معمولی تسلط بتایا جاتا ہے۔ یہ دنیا میں بڑی بڑی سازشوں اور خفیہ تبدیلیوں کا درپردہ سبب رہی ہے۔
تھیوڈر ہرزل اور یہودی ریاست کا تصور
انیسویں صدی کے اواخر میں ویانا کے ایک یہودی صحافی تھیوڈر ہرذل نے ’’یہودی ریاست‘‘ (The Jewish state) نامی کتابچہ تحریر کیا جس میں یورپ کے یہود مخالف فسادات کے پس منظر میں یہودی قوم کے لیے ایک علیحدہ ریاست کے قیام کو ضروری قرار دیا۔ تھیوڈر ہرذل تین مرتبہ استنبول آیا۔ آخری دفعہ1901ء میں اس کی ملاقات سلطان عبدالحمید سے ممکن ہوئی۔ متعدد ذرائع کے مطابق ہرزل نے سلطان کو فلسطین کے بدلے سلطنت عثمانیہ کا سارا قرضہ یہودی بینکرز کے ذریعہ ادا کرنے کی پیشکش کی جسے سلطان نے مسترد کر دیا۔ اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ کے ایک مضمون How Herzl Sold Armenians کے مطابق آرمینیائی نسل کشی میں بھی ہرزل کا براہ راست کردار رہا ہے لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔
عثمانوی سلطنت اور بیرونی قرضہ
یاد رہے کہ یورپ کا مرد بیمار کہلانے والا ملک ترکی 1850ء تک یورپ کا واحد ملک تھا جسے کبھی قرضہ کے لیے بیرونی دنیا سے رابطہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ جبکہ یورپ کی تمام نو آبادیاتی طاقتیں پندرھویں اور سولہویں صدی ہی سے یہودی بینکرز کی قرض خواہ تھیں لیکن کریمیا کی جنگ اور بعد کی دوسری مہمات کے دوران انیسویں صدی کے اواخر میں عثمانوی سلطنت قرض دار ہو گئی اور یورپی طاقتوں کو اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا موقع مل گیا۔ یہودی بڑی تعداد میں اس وقت محل میں اور حکومت میں بڑے بڑے عہدوں پر کام کر رہے تھے۔ ایک مغربی مصنف کے بقول یروشلم یہود کے حوالے کرنے سے انکار کی قیمت سلطان کو اپنی پوری سلطنت دے کر ادا کرنا پڑی۔
جوان ترک تحریک اور جدید ترک
نظریہ کا بانی ایمونوئل کاریسو
The Donme نامی کتاب ہی کے مطابق بیشتر جوان ترک رہنماؤں کے پاس اطالوی شہریت بھی موجود تھی اور اٹلی کے فری میسن لاجز سے بھی ان کا تعلق تھا۔ سلونیکا کے فری میسن لاج کا گرینڈ ماسٹر ایک یہودی وکیل اور جواں ترک کا سرگرم کارکن ایمونوئل کاریسو Emmanuel Carrasso کو مقرر کیا گیا۔ یہ ان تین افراد میں شامل تھا جنہوں نے اپریل 1909ء میں سلطان عبدالحمید کو محل میں ان کی معزولی کے احکامات سنائے۔
ایمونوئل کاریسو اور پان ترک ازم کا نظریہ
ہم دوبارہ یاد دلا دیں کہ سلطنت عثمانیہ سولہویں صدی سے بیسویں صدی تک تین بر اعظموں پر پھیلی ہوئے مختلف زبانیں بولنے والی مختلف مذہبی عقائد سے وابستہ بے شمار نسلی گروہوں پر کامیابی سے حکومت کرتی رہی۔ ایمونوئل کاریسو کو ترک قومیت کے نظریہ کا بانی کہا جاتا ہے جس نے ایک ایسے موقع پر جب سلطنت عثمانیہ میں ترکی کے علاوہ عربی، البانوی، یونانی، آرمینائی اور کرد باشندہ اور مختلف زبانوں کو بولنے والے افراد لاکھوں کی تعداد میں موجود تھے، پان ترک ازم یعنی متحدہ ترک قومیت کا نعرہ لگایا۔ اس نعرے نے مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے عربی بولنے والوں کے علاوہ دیگر قومیتوں کے افراد کو بھی استنبول کی مرکزی حکومت سے متنفر کیا۔
لارنس آف عربیہ
ادھر برطانیہ کی طرف سے لارنس آف عریبیا کو عرب علاقوں میں بغاوت برپا کرنے کے لیے مقرر کیا گیا۔ ادھر جواں ترک حکومت نے جان بوجھ کر ایسے اقدامات کرنا شروع کیے کہ عربی بولنے والے اور دیگر قومیتوں مثلاً البانوی النسل افراد میں قومیت اور زبان کی بنیاد پر مایوسی پھیلی، مثلاً البانیہ میں مفتیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ عربی زبان کو لازم قرار دیں۔ البانیہ میں اگرچہ مسلمان بڑی تعداد میں موجود تھے مگر وہاں البانوی زبان ہی بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ دمشق میں جمال پاشا نے بڑی تعداد میں عرب قوم پرستوں کو پھانسی پر چڑھایا۔ آرمینیا کے عیسائیوں سے بھی بہت سختی سے نمٹا گیا جس کے با عث اس خطے میں روس کی دخل اندازی ممکن ہوئی۔ اس انقلابی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اسی طرح کے اقدامات سے سلطنت عثمانیہ کے تمام خطوں میں بے چینی پھیلانے کی کوشش کی۔
جوان ترک انقلاب کے کچھ مہینوں بعد اکتوبر 1908ء میں آسٹریا ہنگری نے بوسنیا ہرزیگووینیا پر قبضہ کر لیا اور بلغاریہ نے سلطنت عثمانیہ سے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔ 1912ء میں اٹلی نے لیبیا اور الجیریا کے جزائر پر قبضہ کر لیا اور جواں ترک حکومت کے فوجی رہنما انور پاشا بغیر مزاحمت کے لیبیا اٹلی کے حوالے کرکے خود استنبول چلے آئے جہاں انہیں ان کی شاندار خدمات پر ترقی دیدی گئی۔اس سے قبل وہ جرمنی میں ترکی کے سفیر تھے اور جرمنوں کو عثمانوی فوج اور بحریہ کی تنظیم نو کی دعوت دے چکے تھے۔ اگرچہ لیبیا میں اٹلی کے نو آبادیاتی قبضہ کے خلاف مقامی مزاحمت جاری رہی۔ لیبیائی مزاحمتی لیڈر عمر مختار کی جدوجہد پر مبنی فلم Lion of Desert اسی مقامی مزاحمت کے پس منظر میں بنی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سلطنت عثمانیہ بھی استنبول سے لیبیا اور شمالی افریقہ کے دوسرے خطوں پر حکومت کرتی رہی لیکن لیبیا کی عربی بولنے والے مسلمانوں نے اسے کبھی نو آبادیاتی طاقت نہیں سمجھا۔ پچھلی پانچ صدیوں میں سلطنت عثمانیہ نے کتنے ہی ایسے علاقوں پر حکومت کی جو استنبول سے ہزاروں میل کے فاصلے پر تھے اور جہاں ترکی نہیں بولی جاتی تھی مگر اب صورتحال مختلف تھی۔ ایمونوئل کاریسو کا تخلیق کردہ پان ترک ازم کا نظریہ سلطنت عثمانیہ کے کونے کونے میں بے چینی پھیلا رہا تھا۔
سن 1912-13ء میں جوان ترک کے زیر حکومت ترکی نے جنگ بلقان اول و دوئم کے نتیجے میں اپنے تمام یورپی علاقے کھو دیے اور تقریباً بغیر مزاحمت کے مذاکرات کی میز پر ان سے دست برداری کے معاہدے پر دستخط کر دیے۔ مذاکرات کی میز پرمقدونیہ کو یونان بلغاریہ اور سربیا میں تقسیم کر دیا گیا۔ سلونیکا یونان کے حصے میں آیا اور البانیہ کی آزادی کو یورپی دباؤ کے تحت تسلیم کر لیا گیا جب کہ وہاں علیحدگی کی کوئی قابل ذکر جدوجہد موجود نہ تھی۔ البانیہ میں ایک جرمن شہزادے کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔
سلونیکا سے اٹھنے والے اس انقلاب کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ تیزی کے ساتھ بکھرنا شروع ہو گیا۔ ترکی اور یونان کی حکومتوں کے درمیان یونانی اور مسلمان شہریوں کا جو تبادلہ عمل میں آیا اس میں سلونیکا کی دونیما آبادی (جس کا سرکاری ریکارڈ میں مسلمان کے طور پر اندراج تھا) استنبول، انقرہ اور دیگر شہروں میں منتقل ہوگئی تاہم یہاں سے سلونیکا کی یہودی برادری کا زوال شروع ہو گیا۔ 1917ء میں ایک آگ کے نتیجے میں یہاں کے پچاس ہزار یہودیوں کو اسرائیل اور دیگر مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔ 1923ء میں یونان نے یہاں ایک لاکھ عیسائیوں کو بسایا جس سے سلونیکا کی یہودی برادری کی حیثیت تقریباً ختم ہو گئی اور ان کے مستقبل پر آخری ٹھپہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کی فوجوں نے لگایا۔ یہودی ذرائع کے مطابق تقریباً تمام یہودی آبادی کو جرمنی اور پولینڈ میں واقع جنگی کیمپوں میں ہولوکوسٹ کا نشانہ بنا دیا گیا، سلونیکا کے صرف دو سے چار فیصد یہودی اس انجام سے بچ سکے۔
پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کی شکست
جنگ عظیم اول کے دوران سلونیکا نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے اتحادی افواج کے آپریشنز میں بیس کیمپ کا کردار ادا کیا۔ 1908 ء سے 1918ء تک سلطنت عثمانیہ پر جواں ترک تحریک کے تین پاشاؤں کی حکومت رہی۔ طلعت پاشا وزیر داخلہ، انور پاشا وزیر جنگ اور احمد جمال پاشا وزیر بحریہ۔ یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ جنگ عظیم اول کے دورانیہ میں سلطنت کے اہم ترین فیصلہ ان کے ذریعے صادر کیے گئے۔ ان میں انور پاشا لیبیا اور بلقان کی جنگ میں ناکامی ا ور احمد جمال پاشا سوئز اور عرب بغاوت کی ناکامی اور آرمینیائی نسل کشی کا ذمہ داررہا جبکہ طلعت پاشا جرمنی سے اتحاد کا ذمہ دار قرارپایا۔ یہ تینوں ترکی کو جنگ عظیم میں دھکیلنے کے بھی براہ راست ذمہ دار تھے جس نے سلطنت کی عسکری قوت کو بری طرح تباہ کرکے رکھ دیا اور بالآخر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کی شرکت
جنگ عظیم کی ابتداء میں ترکی نے غیر جانبداری کا اعلان کر دیا تھا مگر ترک بحریہ میں شامل جرمن آفیسرز نے اچانک ترک جہازوں سے روس کی بندرگاہوں پر بمباری کر دی۔ یہ جہاز ترک بحریہ کو ماڈرنائز کرنے کے لیے جرمنی ہی سے خریدے گئے تھے اور ان پر اسٹاف جرمن ہی تھا۔ ماڈرنائزیشن کے بجائے زبردستی ترکی کو جنگ عظیم میں دھکیل کر لے گئے۔ اگرچہ ترکی نے اس واقعہ کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے اتحادیوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس حملہ میں ترکی کا کوئی کردار نہیں مگر فرانس برطانیہ اور اٹلی پر مشتمل اتحاد نے اسے جنگ عظیم میں ترکی کی شمولیت کا اعلان گردانا۔
جنگ عظیم کے دوران فلسطین کی یہودی بستیوں سے بھی سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانیہ کے لیے جاسوسی کے واقعات منظر عام پر آئے۔ جیوش ورچوئل لائبریری کی ویب سائٹ کے مطابق Nili Spy Ring نامی جاسوسی کے نیٹ ورک کے کچھ ارکان جن میں کم از کم ایک لڑکی شامل تھی، جنگ عظیم اول کے دوران فلسطین کی یہودی بستی Zikhron Yakov سے برطانیہ کو عثمانوی فوجوں کی لوکیشن کی اطلاع دیتے ہوے پکڑے گئے۔ یاد رہے Zikhron Yakov بھی ایڈمنڈ روتھشلڈز ہی کی سرمایہ کاری سے قائم کردہ یہودی بستی تھی۔
یہ واقعہ اس لئے بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ سارا نامی صیہونی جاسوس لڑکی نے گرفتاری سے بچنے کے لئے اپنے حلق میں گولی مار کر خود کشی کر لی تھی۔ آج اس جاسوسی نیٹورک کے ممبر مملکت اسرائیل کے ہیرو شمار ہوتے ہیں جنکی زندگی پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں. یاد رہے یہ یورپ سے آئے ہوئے لاکھوں اشکنازی یہودیوں میں شامل تھے جو ایک منصوبے کے تحت انیسویں صدی کے اواخر سے پہلی جنگ عظیم تک فلسطین میں منتقل ہوے۔ تھیوڈور ہرزل کے یہودی ریاست کے منصوبے کے بعد سے یورپ کے متمول یہودی بڑے پیمانے پر فلسطین میں زمینیں خرید کر جدید سہولیات سے آراستہ یہودی بستیاں بسا رہے تھے۔ لیکن عثمانوی حکام کے کانوں پر جوں تک نہ رینگ رہے تھی نہ ہی جنگ عظیم کے بعد فلسطین پر برطانوی قبضے اور بالفور ڈکلریشن کے اعلان تک فلسطینیوں کو اس منصوبے کی بھنک ملی۔
جنگ عظیم کے دوران عثمانوی فوج کو لاتعداد محاذوں پر بلاوجہ اپنی قوت برباد کرنا پڑی جس سے نہ صرف فوج تباہ ہو گئی بلکہ ترک قوم بھاری قرضے تلے دب گئی۔ سات اکتوبر 1918ء کو ترکی کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر جواں ترک حکومت نے استعفیٰ دیدیا۔ اگرچہ ہر محاذ پر ترک فوج ناکام نہیں تھی تاہم 30 اکتوبر 1918ء کو مدروس معاہدے پر دستخط کر دیے گئے جس کے تحت سلطنت عثمانیہ نے ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر برطانیہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ معاہدے کے مطابق سلطنت عثمانیہ حجاز (مکہ اور مدینہ) یمن، شام، میسوپوٹامیہ (عراق) ٹریبولیٹانیہ اور سائرنیشیا (موجودہ لیبیا) سے دست بردار ہوگئی۔ اتحادیوں نے آبنائے باسفورس کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
باتوم (موجود جارجیا) بھی اتحادیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ اناطولیہ کے چھ آرمینیائی صوبے سے بھی سلطنت کو ہاتھ دھونے پڑے جو بعد ازاں روس کی عمل داری میں چلے گئے۔ اس کے علاوہ سلطنت عثمانیہ کے تمام اسٹرٹیجک خطوں کو اتحادی فوج کے اختیار میں دیدیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ترک فوج کو ڈی موبلائز کر دیاگیا، تمام ترکی بندرگاہیں، ریلوے اور اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل خطے اب اتحادی افواج کے استعمال کے لیے دستیاب تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ معاہدے پر دستخط کے پانچ دن بعد یہ’’ باہمت‘‘ جوان ترک طلعت پاشا انور پاشا اور جمال پاشا ایک جرمن آبدوز میں بیٹھ کر ترک فوج کو کسمپرسی کے عالم میں چھوڑ کر جرمنی فرار ہوگئے۔ ترک قوم ان کے اس طرح فرار پر ہکا بکا رہ گئی۔
اتاترک: جواں ترک کا ایک اہم لیڈر
اس کے بعد کمال اتا ترک کا کھیل شروع ہوتا ہے جو ’جوان ترک‘ ہی کا ایک اہم لیڈر تھا۔ نہ معلوم اسباب کے باعث مغرب اور اسکے پیچھے مسلم دنیا بھی اسے ایک عظیم لیڈر کے طور پر پراجیکٹ کرتی رہی ہے اور یہ اسرائیل کی آنکھ کا بھی تارا ہے۔ اس کا ثبوت اسرائیل کے شہر بیئر شیبہ میں نصب اس کا مجسمہ ہے۔ سن1908ء میں سلونیکا کے جوان ترک انقلاب کے ذریعہ سلطنت کی تحلیل کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا1920ء میں معاہدہ سیوآرز اور1923ء میں معاہدہ لوزآ ن میں اس کی تکمیل کر کے خلافت کے خاتمے پر مکمل مہر ثبت کر دی گئی۔
یہ بات واضح ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے بغیر اسرائیل کا قیام ممکن نہ تھا۔ ترکی کو جنگ میں دھکیل کر فلسطین کا قبضہ برطانیہ کو دلایا گیا جس سے اسرائیل کے قیام کی بھی راہ ہموار ہوئی اور عربوں کی تیل کی دولت پر تسلط رکھنا بھی مغرب کے لئے آسان ہو گیا۔ برطانیہ نے 1917ء میں بالفور ڈکلیریشن کا اعلان کیا۔ ایک اور دلچسپ بات یہ کہ جنگ کے نتیجے میں جرمنی (جس کا الساس اور لورین نامی حصہ کچھ عرصے کے لئے فرانس کی ملکیت رہا) کو چھوڑ کرکسی اور مملکت کی حدود میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی مگر تین براعظموں پر پھیلی ہوئی سلطنت عثمانیہ کو لاتعداد حصوں میں منقسم کر کے بالآخر خلافت کو ختم کر دیا گیا۔ حالانکہ جنگ کا اصل تھیٹر بظاہر یورپ تھا مگر ہمارے لئے جو بات غور و فکر کے لائق ہے وہ یہ کہ جن ترکوں اور عربوں کی ناک کے نیچے یہ منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ رہے تھے، وہ اتنے عرصے چین کی نیند کیوں سوتے رہے؟
The post سلطنتِ عثمانیہ کی شکست و ریخت کی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.