حیدرآباد دکن کہنے کو جنوبی ہند کی ایک ریاست تھی جو دیگر ہندوستانی ریاستوں کی طرح برطانیہ کی باج گزار اور مطیع و فرماں بردار رہی، مگر اپنی مخصوص حیثیت اور امتیازی خصوصیت کی بنا پر انفرادیت کی حامل تھی۔
آبادی ایک کروڑ چونسٹھ لاکھ، اس کا رقبہ چھیاسی ہزار مربع میل یعنی انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبہ سے بھی زیادہ۔ اس کا سکہ الگ، پرچم الگ، ڈاک اور ریلوے کا نظام، دوسری ریاستوں کے مقابلے میں اسے داخلی طور پر خود مختاری حاصل تھی۔ یہی سبب ہے کہ اپنے عہد کی نابغۂ روزگار شخصیات بھی حیدرآباد دکن کی تعریف و توصیف کرتی نظر آتی ہیں۔
نواب مشتاق احمد خاں، سید سبط حسن، بابائے اردو مولوی عبدالحق، خلیفہ عبدالحکیم، پروفیسر حمید احمد خاں حیدرآباد دکن کی مرفہ الحالی، امن و امان اور تمدنی یک رنگی، وہاں کے انتظام و انصرام اور علمی و ادب کی ترقی اور فروغ میں ریاست کے فرماں روا اور سربراہان کے کردار کی تعریف کرتے ہیں۔ اس ریاست نے ملک بھر کے دینی، علمی اور رفاہی اداروں کی بھرپور مدد کی اور اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے جامعہ عثمانیہ کا قیام اور اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانا ایک عظیم کارنامہ تھا۔
ایک ایسی عمارت جس کے سائے تلے اردو نے قیام کیا اور طلباء کو جدید علوم سے آشنا کیا، لیکن آج یہ زبان نفرت اور تعصب کا سامنا کررہی ہے اور جامعہ عثمانیہ کی عظیم اور پُرشکوہ عمارت رفتگاں کو یاد کرتے ہوئے اپنی بے توقیری پر آنسو بہارہی ہے۔
پروفیسر مولانا مناظر احسن گیلانی کی تالیف ’’امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی‘‘ کا پیش لفظ مولانا کے شاگرد ڈاکٹر حمید اﷲ نے تحریر کیا تھا۔ کتاب کے محاسن بیان کرنے کے علاوہ انھوں نے جامعہ عثمانیہ کے حوالے سے انگریزوں کے کردار کا جائزہ لیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’جامعہ عثمانیہ کوئی پھولوں کی سیج نہ تھی۔ ایک خودمختار ریاست ہونے کے باوجود انگریزی سفارت کار (ریذیڈینٹ) کی مرضی کے بغیر کوئی اہم کام مشکل سے ہوسکتا تھا۔ جدید وضع کی جامعہ اور ذریعۂ تعلیم انگریزی نہ ہو بلکہ اردو ہو، یہ گھریلو حیدرآبادی چیز نہ تھی۔ اس کے اثرات سارے برطانوی ہند کے نظامِ تعلیم پر پڑتے۔ انگریز کیوں کر منظور کرتا کہ اس کی بات کے چلتے انگریزی پر کوئی ٹیڑھی نظر بھی ڈال سکے، لیکن بہرحال انگریز نے اسے منظور بھی کیا تو اس تصور کے ساتھ کہ نظام کے خرچ پر تجربہ کرلیا جائے اور اس کے ناکام ہونے پر برطانوی ہند کے سیاسی شورش کرنے والوں کو بتایا جائے کہ کسی ’’کالی زبان‘‘ میں جدید علوم کی تعلیم نہیں ہوسکتی۔ ریاست کے اعلیٰ حکام میں کچھ انگریزوں کے ’پٹھو‘ تھے جو اس بات پر تلے ہوئے تھے کہ یہ جامعہ قائم نہ ہو اور نہ چلے۔‘‘
اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خاں کے بارے میں سَر مرزا اسمعٰیل نے لکھا ہے کہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کے لیے انھوں نے فوری طور پر تین کروڑ روپے دیے۔ اب سے ایک صدی قبل یہ رقم آج کل کے اربوں روپے کی برابر رہی ہوگی۔
اعلیٰ حضرت 1911ء میں تخت نشین ہوئے اور صفاتِ عالی شان کے مطابق خلقِ خدا کی فلاح و بہبود اور ریاستی انتظام و انصرام کے حوالے سے بیش قیمت اور لازوال کارنامے انجام دیے۔ اسی سال ریاست میں تعلیمی فضا سازگار ہونے لگی۔ جامعہ عثمانیہ اور دارالترجمہ کے قیام سے ریاست میں نہ صرف ایک تعلیمی انقلاب رونما ہوا بلکہ زندگی کے دوسرے شعبوں پر بھی اس کے مثبت اور گہرے اثرات نظر آئے۔ 1914ء میں پہلی جنگ عظیم چھڑگئی۔ اس جنگ کے خاتمے سے پہلے ہی 26 اپریل 1917ء کو جامعہ کی تشکیل کے لیے فرمان جاری ہوا۔
اس جامعہ کی بنیاد پڑی اور نام جامعہ عثمانیہ قرار پایا۔ اردو کو ذریعۂ تعلیم بناتے ہوئے جامعہ کے قیام کا مقصد طلبا کے اخلاق کی درستی اور مختلف علمی شعبوں میں اعلیٰ درجہ کی تحقیق کا کام تھا۔ اور ہر درجہ میں انگریزی کی تعلیم لازمی قرار دی گئی۔ اس طرح اردو کو انگریزی زبان کا حریف نہیں حلیف بنا دیا گیا تاکہ جامعہ عثمانیہ کے طلبا انگریزی پر عبور حاصل کرکے جدید علوم کے وسیع سرمایہ سے بہرہ مند ہوسکیں۔ یہ فیصلہ ایک طرح سے انگریزوں کی خوش نودی کا باعث ثابت ہوا۔
انگریزی کو لازمی قرار دینے سے جامعہ عثمانیہ کی ترقی میں تعلیمی انتظامی اور سیاسی اعتبار سے فائدہ ہوا۔ جامعہ کی ڈگریوں کو ہندوستان اور بیرون ہند کی جامعات میں تسلیم کروانے کے لیے انگریزی کو لازمی مضمون قرار دینے کا خوب فائدہ ہوا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد عبدالستار صدیقی اور پرو وائس چانسلر ڈاکٹر میکنزی نے ہر اس ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا جن سے اعلیٰ تعلیم یافتہ طلباء کے مفادات وابستہ تھے۔ مسٹر میکنزی نے انگلستان کی جامعات میں جامعہ عثمانیہ کے طلباء کو داخلہ دلوانے کی راہ ہموار کی۔
اگست 1917ء میں شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ قائم ہوگئے اور اس کے تحت نصابِ تعلیم مرتب ہونے لگا۔
اگست 1919ء میں وہ مبارک دن آیا جب آغا منزل میں قائم جامعہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے ایک جلسہ حبیب الرحمٰن خاں شیروانی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں ملک کے تمام عمائدین شریک ہوئے۔ اکبر حیدری (حیدر نواز جنگ) نے فرمان پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد صدرِ جلسہ حبیب الرحمٰن خاں شیروانی نے تقریر کی۔ انگریزی کے پہلے استاد جامعہ این جی ولنکر نے انگریزی زبان میں تقریر کی۔ اگلے دن انٹرمیڈیٹ سال اول کے درس شروع ہوئے۔ اس دن کو غفران مکان نواب میر محبوب علی خاں، رفعت یار جنگ اول، نواب سالار جنگ اول، علامہ شبلی نعمانی، عمادالملک، مُلا عبدالقیوم، مولوی محمد مرتضیٰ، آرتھر مے ہو کے خواب کی تعبیر کہا گیا۔
دارالترجمہ کے قیام کے ساتھ ہی میٹرک کی کلاسیں شروع کر دی گئیں۔ 1918ء میں میٹرک کا پہلا امتحان ہوا۔ 523 طلباء نے شرکت کی۔ 92 طلباء نے کام یابی حاصل کی۔ اس نتیجہ سے پہلے ناظم تعلیمات سید راس مسعود نے سَر اکبرحیدری کے مشورے سے عثمانیہ یونیورسٹی میں انٹرمیڈیٹ کلاس کے آغاز کی اسکیم تیار کرلی۔
انگریزی سے واقف، اردو میں لیکچر دینے کی صلاحیت رکھنے والے لائق اساتذہ کا کُل ہند سطح پر انتخاب اور پرکشش تنخواہوں پر تقرری کا مشورہ اعلیٰ حضرت کو دیا گیا۔ پہلے مرحلے پر ایک پرنسپل اور 18اساتذہ کی تقرری کی منظوری حاصل کی گئی۔ 18 اگست 1919ء کو عثمانیہ یونیورسٹی کالج کا افتتاح معین امیر جامعہ محمد حبیب الرحمٰن خاں شیروانی خطبۂ افتتاحیہ سے ہوا۔ محمد حبیب الرحمٰن خاں شیروانی جن کو اعلیٰ حضرت نے صدر یار جنگ کا خطاب دیا تھا، خطبہ پڑھا۔
’’یہ بہت مشکل کام تھا اور ہے، لیکن اعلیٰ حضرت کی شاہانہ سرپرستی اور توجہ، سرکارِ عالی کے محکمۂ تعلیم کی جاں فشانی اور ارکانِ دارالترجمہ کی محنت اور عرق ریزی نے اس دشوار گزار مرحلہ کو اس قدر آسان کردیا کہ آج ہمارا پہلا قافلہ بخیرو خوبی جادہ پیما ہوتا ہے۔‘‘
دوسری تمام وجوہات کے علاوہ نصاب میں انگریزی کی لازمی شمولیت جامعہ عثمانیہ کی ترقی اور اردو میں تعلیم کے تجربہ کی کام یابی کی ضمانت ثابت ہوئی۔ عمائدین اور ماہر اساتذہ نے مل کر اسے کام یاب بنایا اور قریب تین عشرے اردو ذریعہ تعلیم کے کام یاب عشرے تھے۔ دکن اور بیرون دکن ان عشروں کی ساکھ اور دھاک بیٹھی۔ اس دور کے ادبی، علمی رسالوں کو دیکھا جائے تو ایک نشاط کی کیفیت ان میں ملتی ہے۔ جامعہ عثمانیہ کے مجلے پڑھیں تو ایک خواب کی دنیا محسوس ہوتی ہے۔
سقوط حیدرآباد کے بعد اس زبان کو جو اردو کہلاتی تھی زیر کرنے کے حربے اختیار کیے گئے، ہزاروں علمی نسخوں کو نذرِ آتش کردیا گیا۔ جامعہ عثمانیہ کے لوگو (علامتی نشان) سے وہ نشانات کھرچ دیے جن سے اس کی اصل شناخت ہوتی تھی۔ جامعہ عثمانیہ کی عمارتیں وہی ہیں، لیکن اس کی روح اردو، ان عمارتوں میں اب نہیں۔ 1948ء میں سقوط حیدرآباد کے بعد حکم رانوں کی اردو دشمن پالیسی کا شکار ہوگئی اور ذریعۂ تعلیم اردو سے انگریزی کردیا گیا۔
26 اپریل2017ء کو حیدرآباد دکن میں جامعہ عثمانیہ کا صد سالہ جشن منایا گیا۔ بھارت کے صدر پرنب مکرجی نے اس موقع پر ایک بے روح پیغام دیا اور حیدرآباد پہنچ کر تقریبات میں حصہ لیا۔ تلنگانہ کے وزیراعلیٰ نے ان تقریبات کا اہتمام کیا تھا۔ حیدرآباد میں صد سالہ تقریب سے پہلے ریاست کی عظیم اور تاریخی درس گاہ کا ’لوگو‘ بحال کرنے کا مطالبہ زوروں پر تھا جو دراصل اس کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
یوں تو متحدہ آندھرا پردیش کے آندھرائی حکم رانوں نے ’لوگو‘ تبدیل کیا تھا، لیکن چندر شیکھر راؤ جو نظام دکن اور ان کے کارناموں کے معترف ہیں، ان کے لیے تاریخی لوگو کی بحالی کا مطالبہ پورا کروانا ایک چیلینج تھا۔ چیف منسٹر نے نواب میر عثمان علی خاں کی رعایا پروری اور ان کے کارناموں کا ایک سے زائد مرتبہ اسمبلی اور اس کے باہر تذکرہ کیا، حتیٰ کہ ان کے مزار پر حاضری دی اور خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کی زبان نظام کے کارناموں کا تذکرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتی، لیکن جب سرکاری سطح پر صد سالہ جشن منایا گیا تو وہ اس اہم تاریخی حیثیت سے محروم رہا۔ عثمانین اور اہل علم و فن کا مطالبہ تھاکہ عثمانیہ یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب میں بانی یونیورسٹی نواب میر عثمان علی خاں کو حقیقی معنوں میں خراج پیش کرنے کے لیے تاریخی لوگو بحال کیا جائے جو پورا نہ کیا گیا۔ اب اس میں عربی الفاظ کی جگہ ہندی اور تلگو میں تحریر شامل ہے جب کہ لوگو میں صرف عثمانیہ کا ’’ع‘‘ باقی رکھا گیا ہے۔n
( اس مضمون کے لیے بدر شکیب (مرحوم) کی تالیف ’سرگزشتِ جامعہ عثمانیہ‘ سے استفادہ کیا گیا ہے)
جامعہ عثمانیہ اور طالبات
’’میں نے وہاں چھے برس گزارے لیکن کسی طالبہ کو سواری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے نہ دیکھا، کسی لڑکی کو کبھی ’’بس اسٹاپ‘‘ پر پریشان کھڑا ہوا نہ پایا۔ موجودہ دور میں شاید یہ انکشاف باعثِ حیرت ہو کہ جامعہ عثمانیہ کی تعمیر کے بعد ریلوے لائن کو میلوں تک خم کر کے جامعہ کے قدموں میں ڈال دیا گیا تھا تاکہ طلبا حصولِ علم کے لیے بہ آسانی منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔ بسیں ہمیشہ طلبا کی راہوں میں ’دیدہ و دل فرشِ راہ‘ کیے کھڑی رہا کرتیں۔ طالبات کے لیے خصوصی انتظام یہ تھاکہ ان کی بسیں زنانہ کالج کے احاطے سے چلتیں اور یونیورسٹی سے واپسی پر طالبات کو وہیں واپس پہنچایا کرتیں۔ یہی نہیں بلکہ ہر ہر شعبے میں ایم اے اور ایم ایس سی کرنے والی طالبات کے ساتھ ایک ایک خادمہ ہوتی جو ان کے ساتھ ہی بس میں سفر کرتی اور دن بھر اپنے متعلقہ شعبے میں طالبات کے ساتھ بیٹھی رہا کرتی تاکہ طالبات کو اپنی کسی ضرورت کے لیے خود باہر نہ جانا پڑے۔ جامعہ کی تمام جماعتوں میں پردے کا خاص انتظام تھا۔ سائنس کے ہر ہر شعبے میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ تجربہ گاہ تھی۔
طالبات کی آمدورفت کے لیے جامعہ کی عمارت میں دروازے اور راستے تک الگ الگ تھے۔ ان کے لیے لائبریری کے اوقات بھی مخصوص تھے۔ غرض کہ مادر جامعہ نے اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ’’تربیت اور ان کے ناموس کے تحفظ ‘‘ میں بھی کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا اور ان تمام سہولتوں کے باوجود فیسیں برائے نام تھیں۔ اساتذہ کی تنخواہیں البتہ اتنی زیادہ تھیں کہ وہ فکر معاش سے بے نیاز ہوکر سکون کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھیں، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جامعہ کا مقصد علم کی خدمت تھا۔
تجارت نہیں۔ غریب اور ذہین طلبا خصوصاً طالبات کو وظائف دیے جاتے تھے۔ وہاں فیسوں میں رعایت پانا بہت آسان تھا لیکن امتحان میں رعایت حاصل کرنا بہت مشکل۔ وہاں علم کی روشنی عام تھی لیکن تعلیم کی بنیادیں جامعہ عثمانیہ کی پُرشکوہ عمارت کے آثار کی طرح گہری اور مضبوط تھیں۔ وہاں داخلہ پانا آسان تھا لیکن کام یاب ہوکر نکلنا مشکل کہ امتحانات پوری دیانت اور خلوص کے ساتھ ہوتے۔ جامعہ عثمانیہ نے کبھی اس کی پروا نہ کی کہ امتحان میں پاس ہونے والے طلبا و طالبات کا ’’فیصد‘‘ کیا ہے بلکہ ہمیشہ یہ بات پیش نظر رہی کہ سند یافتہ طلبا کی تعلیمی استعداد کیا ہے۔
(وحیدہ نسیم کے مضمون سے چند سطور)
نظام حیدرآباد دکن میر عثمان علی خاں کا جامعہ عثمانیہ کے قیام سے متعلق جاری کردہ حُکم
’’مجھے بھی عرض داشت اور یادداشت کی مصرحہ رائے سے اتفاق ہے کہ ممالکِ محروسہ کے لیے ایک ایسی یونیورسٹی قائم کی جائے جس میں جدید و قدیم مشرقی و مغربی علوم و فنون کا امتزاج اس طور سے کیا جائے کہ موجودہ نظامِ تعلیم کے نقائص دور ہوکر جسمی و دماغی و روحانی تعلیم کے قدیم و جدید طریقوں کی خوبیوں سے پورا فائدہ حاصل ہوسکے اور جس میں علم پھیلانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ایک طرف طلبا کے اخلاق کی درستی کی نگرانی ہو اور دوسری طرف تمام علمی شعبوں میں اعلیٰ درجہ کی تحقیق کا کام بھی جاری رہے۔
اس یونیورسٹی کا اصل اصول یہ ہونا چاہیے کہ اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ ہماری زبان اردو قرار دیا جائے مگر انگریزی زبان کی تعلیم بھی ہر طالب علم پر لازمی گردانی جائے۔ لہٰذا بہت خوشی کے ساتھ اجازت دیتا ہوں کہ میری تخت نشینی کی یادگار میں حسبِ مذکور اصول محولۂ عرض داشت کے مواقف ممالکِ محروسہ کے لیے حیدرآباد میں یونیورسٹی قائم کرنے کی کارروائی شروع کی جائے۔ اس یونیورسٹی کا نام (عثمانیہ یونیورسٹی) حیدرآباد ہوگا اور ہر اہم و اصولی امر کی نسبت جو اس کارروائی میں پیدا ہو صراحت کرکے میری منظوری وقتاً فوقتاً حاصل کی جاتی رہے۔ (4 رجب المرجب 1335ھ پنجشنبہ)
سقوطِ دکن کے بعد جامعہ اور اردو زبان !
آصف جاہی خاندان کے آخری فرماں روا میر عثمان علی خاں (آصف سابع) کے دور میں ریاست حیدرآباد نے تمام شعبہ ہائے حیات میں زبردست ترقی کی۔ تعلیم کے فروغ میں غیرمعمولی دل چسپی کا مظاہرہ کیا اور شاہی خزانے سے بے دریغ رقم خرچ کی۔ ان کے عہد میں ریاست کے مدارس اور کالجوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ آصف جاہی خاندان نے ریاست میں علم و فنون کے ساتھ عوام کی اخلاقی اور ذہنی تربیت کے لیے انتظامات کیے تھے۔ ریاست میں علما اور باکمال شخصیات کو اکٹھا کیا گیا اور شاہانِ آصفیہ نے ان کی قدر افزائی میں کوئی کمی کوتاہی نہ کی۔ سقوط حیدرآباد کے بعد جو حکومت وجود میں آئی اس کے کرتا دھرتا اردو کے لیے دل میں کوئی نرم گوشہ نہ رکھتے تھے، اسے دفاتر سے نکالنے کی مہم شروع ہوئی۔
جامعہ عثمانیہ کے ساتھ اکثر تعلیمی اداروں سے اردو کو ختم کیا گیا۔ جو زبان تین دہائیوں تک آرٹس، سائنس، قانون، طب اور انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ بنی ہوئی تھی، اسے ختم کر دیا گیا۔ سوال یہ تھاکہ کونسی زبان ہندوستان کی قومی زبان ہوگی؟ مجلس دستور ساز میں یہ موضوع زیربحث تھا۔ تاہم برسر اقتدار طبقہ جلد اردو سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ چناںچہ ایک درمیانی صورت نکالی گئی۔ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے ہندوستانی کو ذریعۂ تعلیم بنانے کے لیے اقدامات اور نصابی کتابوں کی تیاری وغیرہ کے معاملات پر غوروخوص کیا۔
1948ء کے بعد سے ڈیڑھ دو سال تک جامعہ میں غیریقینی حالات رہے، ذریعۂ تعلیم کے حوالے سے مختلف کمیٹیاں بنتی رہیں جو نئی نئی تجاویز پیش کرتی تھیں۔ اساتذہ پریشان تھے اور اردو کے ساتھ ان کا مستقبل بھی ڈول رہا تھا۔ آخر کار تجربات اور اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم قرار پایا اور یہ جامعہ انفرادیت سے محروم ہوگئی۔
The post 100 برس کی جامعہ عثمانیہ اپنی بے توقیری پر آنسو بہا رہی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.