’’زندگی لفظوں کی شطرنج ہے۔‘‘ ابنِ صفی نے زندگی کی عملی تفسیر پانچ لفظوں میں بیان کردی تھی۔
یہ سچ ہے کہ ہم زندگی کی بساط پر لفظوں کے مُہرے آگے پیچھے کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہر کام، ہماری ہر بات، ہمارے ہر معاملے میں کام یابی اور ناکامی کا دارومدار لفظوں کے انتخاب اور استعمال پر ہوتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ ہو۔ کوئی بھی قوم، نسل، ملک یا قبیلہ ہو۔ اپنی مخصوص زبان، بولی اور ثقافت رکھتا ہے۔ زبان کاBONDاس قوم اور قبیلے کے تمام افراد کو ایک لڑی میں پروئے رکھتا ہے۔
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُسی فرد سے دِل کی باتیں Share کی جاسکتی ہیں، جو ہماری بولی اور زبان سمجھتا اور جانتا ہو۔ کسی دوسرے ملک یا دوسری بستی میں جہاں کے رہنے والے ہماری زبان نہ جانتے ہوں، وہاں ہم کئی سال رہنے کے باوجود خود کو اجنبی اور اس جگہ کے لوگوں سے لاتعلق ہی سمجھتے ہیں اور جوں ہی ہمیں اُس اجنبی بستی میں اپنا ہم زبان ملتا ہے تو ہم والہانہ وارفتگی سے اُسے جپھیاں ڈالنے لگتے ہیں۔ خواہ وہ ہمارے اپنے علاقے میں ہمارے پڑوس میں ہی رہتا ہو اور اس سے ہماری خاندانی دشمنی ہی کیوں نہ چل رہی ہو۔
زبان کا تعلق دُشمن کو بھی دوست بنا دیتا ہے۔ لیکن دوستی اور دشمنی کے تعلق میں محض ہم زبان ہونے کا رشتہ کام نہیں کرتا۔ ہم، زبان کا کب، کیا اور کیسے استعمال کرتے ہیں، یہ Count کرتا ہے۔ ہم اپنی زبان میں موقع محل کی مناسبت سے کب، کون کون سے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ الفاظ کا ہر وقت چناؤ ہی ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے یا ہمیں ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔
بولے گئے اور لکھے گئے لفظ دُنیا کے ہر خطّے کے ہر انسان کو براہِ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر کرتے ہیں۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ہمارا، ایک دوسرے سے رابطہ، بات چیت، گفتگو یا تحریروں سے رہتا ہے۔ ڈھائی تین سال کی عمر سے بچّے کو بولنا اور پڑھنا سکھایا جاتا ہے، حرف سے لفظ اور الفاظ سے جملوں تک۔ پیار، محبت ، توجہ اور خیال سے بچّے کو ایک ایک لفظ سکھا کر بولنا سکھایا جاتا ہے۔ بچّے کا دماغ، سادہ سلیٹ کی طرح ہوتا ہے۔ وہ جس زبان میں جو الفاظ سنتا ہے، وہ اُس کے دماغ میں محفوظ ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ان الفاظ کی تکرار بچّے کی یادداشت میں ان کی Mirror Copy بناتی چلی جاتی ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے جب بچّہ پہلے اٹک اٹک کر اور پھر، فرفر سنے ہوئے لفظ دہرانا شروع کردیتا ہے۔ اسے اس عمر میں نہ ان لفظوں کے معنی پتا ہوتے ہیں۔ نہ مفہوم۔ آہستہ آہستہ سال بہ سال اس کی Vocabulary میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ اسے لفظوں کے معنی اور مفہوم بھی سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔
اُس سے کہا جاتا ہے اُٹھ جاؤ، وہ اُٹھ جاتا ہے، بیٹھ جاؤ‘ وہ بیٹھ جاتا ہے، ’آنکھیں بند کرو، وہ آنکھیں بند کرلیتا ہے۔اِسی طرح وہ چیزوں کے نام لیتا ہے اور اپنی ضرورت کے تحت پانی، دودھ بسکٹ مانگنا شروع کردیتا ہے۔ جوں جوں حرف شناسی کا عمل بڑھتا ہے۔ لفظ، جملوں کی شکل اور جملے، پیراگراف کی شکل میں ڈھلنے لگتے ہیں۔
دس سال کی عمر تک بچیّ کا دماغ کچا اور پوری طرح Receptive ہوتا ہے۔ اس عمر تک اس کے دماغ کے خلیات ہر اچھی بری بات، ہر سُنی، ہر پڑھی، ہر دیکھی بات اپنے اندر اسٹور کرتے چلے جاتے ہیں۔ پھر18 تا 20 سال کی عمر تک ہمارا دماغ واضح پختہ شکل اختیار کرتا ہے اور باقی ماندہ عمر عام طور پر اسی خاص شکل میں رہتا ہے۔ ماسوائے مخصوص حالات یا مخصوص واقعات یا حادثات کی صورت میں، جب صورت حال، واقعہ یا حادثہ، ماضی کی گذشتہ Learning سے زیادہ بھاری ہو یا زیادہ Effective ہو۔
دس سال کی عمر سے لے کر باقی تمام عمر تک پھر ہمارا دماغ اور ہمارا ذہن الفاظ کا اسیر رہتا ہے۔ ہماری سوچ، ہمارے جذبات، ہمارے رہن سہن کے طور اطوار، ہمارا لباس، ہماری آرائش وزیبائش، ہمارے کھانے پینے اور برتنے کی چیزیں، ہمارے ایک دوسرے کے ساتھ ہر طرح کے ذاتی، کاروباری، سماجی، تعلقات، معاملات، یہاں تک کہ ہماری بھوک پیاس جنسی خواہش اور نیند کا Pattern اور انتہا یہ کہ ہمارے خواب، سب کے سب سیکھے ہوئے، سنے ہوئے، دیکھے ہوئے، پڑھے ہوئے الفاظ کے زیراثر پرورش پاتے ہیں۔
ہماری زندگی کے تمام رنگ اور تمام دائرے لفظوں کی روشنی ہی میں مرتب ہوتے ہیں۔ ہماری محبتیں، ہماری نفرتیں، ہمارے روّیے، ہمارے افعال الفاظ کی گھمن گھیریوں کے مرہون مِنّت ہوتے ہیں۔ ہماری سوچ، لفظوں کی مدد سے پروان چڑھتی ہے۔ ہماری شخصیت، ہماری نفسیات، ہمارا کردار، الفاظ کی اینٹوں سے ترتیب پاتا ہے اوربنتا یا بگڑتا ہے۔
لفظ ہی ہماری زندگی کی تعمیر کرتے ہیں۔ لفظ ہی ہماری زندگی میں تخریب پیدا کرتے ہیں۔ الفاظ کے صحیح چُناؤ سے ہم تحریک پاتے ہیں۔ الفاظ کا نامناسب انتخاب ہماری طاقت وتوانائی کو سلب کردیتا ہے اور ہمیں Detrack کرکے پیچھے کی طرف بھیج دیتا ہے۔
ہر لفظ کی اپنی خاص ماہیت، خاص سائیکی، خاص روح ہوتی ہے۔ ایک خاص طاقت ہوتی ہے، جس سے ہمیں ہزاروں لفظوں کے معنی آتے ہیں اور ہزاروں لفظوں کا مفہوم سمجھ میں آجا تا ہے۔ لیکن اسی صورت میں، جب یہ لفظ ہماری اپنی زبان میں ہوں۔ مگر اپنی ہی زبان کے ایسے ہزاروں مشکل الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں ہمیں جن کے معنی نہیں آتے اور ہمیں ان کے معنی جاننے کے لیے لُغت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اب دیکھیں! اِسی پیراگراف میں کم از کم تین لفظ ایسے ہیں جن کے معنی ذرا مشکل ہیں۔ اور شاید کچھ افراد کو ان کے معنی نہیں آتے ہوں گے ’’ماہیت‘‘،’’لُغت‘‘، ’’رجوع۔‘‘
الفاظ کی صحیح روح اور طاقت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں ان کے معنی اور مفہوم پتا ہونا چاہییں اور پھر یہ علم ہونا چاہیے کہ ہمیں اپنی گفتگو میں، اپنی باتوں اور تحریروں میں کب کس لمحے کون سا لفظ استعمال کرنا ہے۔ کب، کون کون سے الفاظ استعمال کرنے سے ہماری بات چیت اور گفتگو زیادہ موثر اور زیادہ متحرک ثابت ہوسکتی ہے۔ کون کون سے الفاظ مخاطب کی نفسیات پر کیسا اثر ڈال سکتے ہیں یا ڈالتے ہیں۔ اپنی باتوں میں کون کون سے الفاظ سے گریز کرنا ہے۔ ایسے لفظ جو سننے والوں کو ناگوار گزریں یا ان کے لیے ناپسندیدہ ہوں۔
سوچے سمجھے بِنا جو بات کی جاتی ہے، اس میں اکثر اوقات ایسے لفظ، ایسے جُملے شامل ہوجاتے ہینَ جو سامع کا دل دُکھا دیتے ہیں یا اسے پسند نہیں آتے۔ اسی لیے دنیا کے ہر مذہب، ہر تہذیب، ہر قوم، ہر نسل کے دانا اور بزرگ یہی کہتے آئے ہیں کہ ’’پہلے تولو، پھر بولو‘‘۔ اور یہ کہ ’’جوں جوں دانائی بڑھتی ہے، گفتگو کم ہوتی جاتی ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’جو زیادہ بولتا ہے وہ اپنے راز کھولتا ہے۔ اور جو اپنے راز کھولتا ہے وہ اپنے ارادوں میں ناکام ہوتا ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’تلوار کا گھاؤ بھر سکتا ہے، زبان کا گھاؤ نہیں بھرسکتا۔‘‘ اور اسی نوعیت کی ہزاروں حکمت و فراست سے بھرپور باتیں۔ ان سب باتوں میں ایک نکتہ مشترک ملے گا۔ ہماری زندگی، شخصیت، نفسیات کو توانائی و تازگی پہنچانے کا۔ ہمارے کردار کو مضبوط اور مثبت بنانے کا۔ ہماری روح ، ہمارے دل، ہمارے ذہن کو طاقت ور بنانے اور متحرک، ہشاش بشاش رکھنے کا اور ہمیں اپنی کم زوریوں پر قابو پانے اور ناکامیوں سے دامن بچاکر کام یابیوں کے راستے پر چلنے کے گُر سکھانے کا۔
بڑے بوڑھے بزرگ دانش ور اپنے اپنے زمانوں میں اپنی اپنی زبانوں میں، آنے والے تمام زمانوں اور تمام نسلوں کے لیے بہترین زندگی گزارنے اور کام یابیوں کی منازل طے کرنے کے لیے جو اصول مرتب کرگئے، وہ تمام کے تمام بھرپور روح اور Dynamic سائیکی سے لبریز الفاظ پر مشتمل ہیں۔ ایک ایک لفظ، اس طرح ایک دوسرے سے مربوط ہے کہ ایک لفظ کو بھی الگ کرنے سے پوری لڑی بکھر جاتی ہے۔
الفاظ کے انتخاب کا حُسن توازن اُن کے Impact کو بڑھاتا ہے اور سننے اور پڑھنے والوں کے ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہاں تک کہ بولنے اور لکھنے والے بھی اپنے کہے اور لکھے لفظوں کی جادوئی تاثیر سے نہیں بچ پاتے اور جلد یا بدیر اپنی ہی باتوں کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں۔
اسی لیے کہا گیا ہے ’’ بُرانہ بولو، بر انہ سنو، بُرا نہ دیکھو۔‘‘ ہم جو بولتے، جو سنتے، جو دیکھتے ہیں، آہستہ آہستہ انہی باتوں اور چیزوں کے رنگ میں رنگتے چلے جاتے ہیں۔ ہر وہ بات جو ہمارے ذہن کو جِلادیتی ہے اور قلب میں گداز پیدا کرتی ہے، ہماری شخصیت کے نکھار میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور ہمیں اعتدال اور توازن سے قدم بہ قدم، زینہ بہ زینہ کام یابی و کام رانی کی سیڑھیاں چڑھنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔
لیکن ہم تن وتنہا کبھی بھی، کسی بھی طرح کی کامیابی نہیں حاصل کرسکتے۔ ہمیں زندگی کے ہر قدم پر ہمیشہ اپنی طرح کے اِنسانوں کی مدد اور تعاون درکار ہوتا ہے۔ یہ مدد اور تعاون اُسی وقت ہمارے لیے Effective ہوتا ہے، جب ہم اپنے تعلقات اور معاملات، رشتوں اور رابطوں میں متناسب، مضبوط، مثبت اور متحرک لفظوں کے Concret کی بنیادیں رکھتے ہیں۔
کھوکھلے، بودے اور روح اور سچائی سے خالی لفظ وقت گزاری اور دِل بہلانے کے لیے تو چل جاتے ہیں، لیکن ان کے مستقل استعمال کی بنیاد پر کبھی بھی، کسی بھی طرح کے تعلق اور رابطے میں جان نہیں پیدا ہوپاتی۔ ہمارے دماغ کے Receptive Cells انہیں اپنے اندر Store نہیں کرپاتے اور ہمارے ذہن کا قدرتی Filter System اس طرح کے لفظوں کو باہر دھکیلتا رہتا ہے۔
ہر انسان فرشتہ صفت دنیا میں پیدا ہوتا ہے اور فطرتاً معصوم ہوتا ہے۔ والدین، بہن بھائیوں، رشتہ داروں، اُستادوں، محلّہ داروں اور ہم عُمر ساتھیوں کے رویّے اور باتیں اور کچھ سالوں بعد کارٹونز، فلموں، ڈراموں اور کتابوں کے کرداروں کے ڈائیلاگ ہمارے ذہن اور ہماری سوچ کو خاص شکل میں بدلنا شروع کردیتے ہیں۔
ہمارے اطراف کا ماحول اگر اچھا ہوتا ہے اور ہم شروع سے اچھی باتیں سنتے اور اچھے رویّے دیکھتے آتے ہیں تو شعور سنبھالنے کے ساتھ ہم لاشعوری طور پر زندگی کے اچھے راستوں پر چلنا شروع کردیتے ہیں، لیکن اگر ہم نے بچپن سے ہی بُری زبان اور گالی گلوچ سنا ہو اور اپنے بڑوں کو ہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھا ہو اور ہمارے چاروں طرف ہر چھوٹا بڑا اپنی اپنی زبان کے تیروں بھالوں اور تلواروں سے ہر کسی کو مجروح کرتا ہوا ملا ہو تو بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کے بار بار کے سُنے ہوئے منفی الفاظ اور برتے ہوئے کسیلے رویّے ہمارے دل و دماغ میں ہمیشہ کے لیے پیوست ہوجاتے ہیں اور ہم اپنے آپ اور اپنے ماحول کو بدلنے کے بجائے، سنوارنے کی بجائے معاشرے کے اُسی اُلٹے گھومنے والے منفی Cycle کا حصّہ بن جاتے ہیں، جو لفظوں اور رویّوں کی اصل حقیقت اور طاقت کو جانے اور اپنائے بِنا لوگوں کی اکثریت پر مشتمل ہوتا ہے۔
ہمارا خود شکستہ رویّہ Self Destructive Behaviour منفی اور تخریبی الفاظ اور ناشائستہ رویّوں کے بیچ رہنے اور مستقل رہے چلے جانے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ رویّہ ہمارے راستے کی دیوار بن جاتا ہے۔ ہم کو بسا اوقات اپنا یہ ماحول، اپنا یہ رویّہ، اپنا رہن سہن خود اچھا نہیں لگتا۔ ہمیں اسے بدلنا چاہتے ہیں۔ ہم خود کو بھی بدلنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس طرح رہنے سے گھِن بھی آتی ہے۔ ہمیں ان سب باتوں سے نفرت بھی ہوتی ہے۔ ان سب باتوں اور رویّوں کی وجہ سے ہم ناآسودہ اور ناخوش بھی رہتے ہیں، مگر کچھ بھی اچھا نہیں ہوپاتا۔ ہماری ہر کوشش رائیگاں جاتی ہے۔ ہم کو لہو کے بیل کی طرح ایک Routine Life گزارتے رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اور ان سب باتوں کے پیچھے، پسِ پردہ ہماری اور ہم سے Related لوگوں کی باتیں ہوتی ہیں۔ لوگوں کی باتوں کے ڈائنامائیٹ کے بارود کی طرح کے الفاظ ہوتے ہیں، جو ہماری ہر خواہش، ہر سوچ، ہر جذبے، ہر کوشش کو پل بھر میں جلا کر راکھ کا ڈھیر کردیتے ہیں۔اور ہم ہر ایسے لمحے کے بعد تنہائی میں اور یا پھر یاروں دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر مایوسی، ناامیدی اور ناشکری کی باتیں کرکے اپنا غم غلط کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ حالات واقعات اور ناسازگار ماحول اور معاشرتی خرابیوں کا شکوہ کرنے لگتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ قدرت کو بھی موردِالزام ٹھہراکر شکایتوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
یہ سب اور اس طرح کی دیگر منفی باتیں خواہ ہماری زبان پر آئیں یا ہمارے دل میں رہیں یا ہماری سوچ کو مجروح، مشتعل اور مضطرب کرتی رہیں۔ یہ باتیں درحقیقت انگاروں کی طرح جلادینے والے منفی الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہیں، جِن کی زد میں آکر ہماری فطری معصومیت اور فرشتہ صفتی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے منہ موڑ لیتی ہے۔
لفظ تریاق بھی ہوتے ہیں۔ لفظ زہریلے بھی ہوتے ہیں۔ لفظوں کا مرہم دِل کے زخموں کو Heal کرتا ہے اور لفظوں کا زہر ہماری روح اور سوچ کے اندر اُتر کر ہماری اپنی زبانوں اور رویّوں کو گنجلک اور کثیف کردیتا ہے۔ لفظ پاکیزہ بھی ہوتے ہیں۔ لفظ زہرآلود بھی ہوتے ہیں۔ ہر دو صورت، لفظوں کی طاقت سے کوئی بھی منہ نہیں موڑ سکتا۔ نہ اِس حقیقت کے اعتراف میں کسی کو انکار ہوسکتا ہے۔
لفظوں کی طاقت مثبت بھی ہوتی ہے اور منفی بھی۔ دنیا کا سب سے طاقت ور منفی لفظ ’’No‘‘ ’’نہیں‘‘ ہے۔ اور سب سے طاقتور مثبت لفظ ’’Yes‘‘ ’’ہاں‘‘ ہے۔
اگر ہماری پرورش، تعلیم، تربیت، Learning، Grooming، Training میں ’’نہیں‘‘ کا استعمال بے تحاشہ ہوا ہے تو ہماری بنیاد میں تمام لفظوں اور ان لفظوں سے وابستہ تمام جذبوں، سوچوں، باتوں اور روّیوں میں لامحالہ الفاظ کی منفی طاقت کے اثرات نمایاں ہوں گے۔ شعور اور گیان کی سطح پر پہنچنے کے باوجود اگر ہم اپنے دِل اور دماغ کے اندر پیوست ’’نہیں‘‘ کو باہر نکال کر نہیں پھینکیں گے اور اس بات کی حقیقت کو نہیں سمجھیں گے، نہیں مانیں گے کہ ’’Never Say Never Again‘‘
’’پھر کبھی نہیں، نہیں، نہیں کہنا‘‘ تو ہم تمام عُمر منفی الفاظ اور الفاظ کی منفی طاقت کے سَحر سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔
ہم اپنے بچپن اور لڑکپن کی ابتدائی پرورش اور تعلیم و تربیت اور گھر کے ماحول اور اپنے بڑوں کے روّیوں اور سلوک کے ذمے دار ہرگز نہیں۔
لیکن اگر ہم علم، شعور، فہم اور ادراک کے ایسے Level پر آچکے ہیں کہ اس طویل، خشک اور سنجیدہ مضمون کے موجودہ حصّے کو پڑھ رہے ہیں تو یقین کیجیے کہ ہمارے اندر واقعی خود کو بدلنے اور منفی الفاظ اور منفی روّیوں کی زنجیروں سے آزاد ہونے کی خواہش بیدار ہورہی ہے، بیدار ہوچکی ہے۔
جی ہاں! اب ہم ’’نہیں‘‘ سے ’’ہاں‘‘ کی دنیا میں قدم رکھنے جارہے ہیں۔ مثبت الفاظ اور الفاظ کی مثبت طاقت کو اپنانے جارہے ہیں، کیوںکہ ہم پڑھ رہے ہیں۔ لفظوں کے معنوں، لفظوں کی سائیکی سے اپنی سائیکی کو Align کررہے ہیں۔ لفظوں کی مثبت اور منفی طاقت سے واقف ہورہے ہیں۔
یہ آگہی ہمیں منفی لفظوں، منفی باتوں، منفی روّیوں کے چنگل سے پیچھا چھڑانے میں مدد دیتی ہے اور ہمارے ذہن اور اعصاب کو طاقت دیتی ہے۔ مطالعہ اور مطالعے کی عادت وہ ہتھیار ہے جو از خود ہمارے ذہن کی زمین میں اُگنے والے منفی الفاظ اور منفی روّیوں اور منفی سوچوں کی کانٹ چھانٹ کرتا رہتا ہے، خودکار طریقے سے۔
مطالعے کی عادت ہمارے دل، دماغ اور روح کی تمام کیاریوں، تمام کھلواریوں، تمام کھلیانوں اور کھیتوں میں خودکار نظام کے تحت مثبت الفاظ اور الفاظ کی مثبت طاقت کے بیجوں کی مستقل آبیاری کرتی رہتی ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے جب ہم Productivity اور Positivity کے اُس مقام پر آجاتے ہیں۔ جہاں سے ہمارے تمام معاملات اور تعلقات میں سُدھار آجاتا ہے اور ہمارے تمام کام خوش اسلوبی اور آسانی سے ہونے لگتے ہیں اور ہم کو اپنے Goals ، اپنے Aims، اپنے Objectives میں کام یابی ملنا شروع ہوجاتی ہے۔
دنیا کا کون سا ایسا فرد ہوگا جو کام یاب نہیں ہونا چاہتا۔ ہم سب زندگی کے ہر ہر مقام پر اپنے ہر کام میں کام یاب ہونا چاہتے ہیں، لیکن کام یابی کے حصول کے لیے ہمیں لفظوں کی شطرنج سیکھنی ہوگی۔ کب کس لفظ کے مُہرے کو آگے بڑھانا ہے۔ کب کِس لفظ کو بساط سے اٹھانا ہے۔ بادشاہ کو بچانے کے لیے اپنے کون کون سے لفظوں کے مہروں کی قربانی دینی ہے۔
آگے بڑھنے کے لیے، اپنے راستے کی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے، اپنے مقصد کو پانے کے لیے کون کون سے منفی لفظوں کا مہروں کو پیٹنا ہے اور اپنے مثبت لفظوں کی چال سے کس طرح اپنے اندر چُھپے ہوئے اپنے سب سے بڑے دشمن کو شہہ مات دینی ہے۔اب تو آپ جان گئے ہوں گے۔ ہمارا سب سے بڑا دُشمن ہمارے اندر ہی موجود ہو تا ہے۔ ’’No‘‘ کی شکل میں۔ ’’نہیں‘‘ کی صورت میں۔
پڑھتے رہیے اور پڑھتے رہیے۔ ’’نہیں‘‘ کے مُہرے آہستہ آہستہ پٹتے رہیں گے۔ ’’ہاں‘‘ کے مُہرے آگے بڑھتے رہیں گے۔ تاوقتے کہ مات نہ ہوجائے۔ یہ ہم پر ہے کہ آخری بازی کون جیتتا ہے۔ ہماری ’’ہاں‘‘ یا ہماری ’’نہیں۔‘‘
سارا کھیل ہی لفظوں کا ہے۔ پہلی بازی سے آخری چال تک۔ نیکی بدی، دِن رات، روشنی تاریکی کی طرح لفظوں کے سفید و سیاہ مُہرے اپنی مثبت اور منفی چالوں کے ساتھ ہمارے اند اور ہمارے باہر، ہمیں مضبوط یا کم زور بنارہے ہیں۔ شاطر کھلاڑیوں کو علم ہوتا ہے کہ کب کون سی چال چلنی ہے اور اناڑی سوچتے رہ جاتے ہیں۔ ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ میں اُلجھے رہتے ہیں اور بازی ہار جاتے ہیں۔
The post لفظ بھی ہیں شطرنج؛ ہر مُہرہ سوچ سمجھ کے چلنا ہوگا appeared first on ایکسپریس اردو.