قلعۂ فراموشی
مصنفہ: فہمیدہ ریاض
صفحات:166، قیمت: 425 روپے
ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی
یہ ناول کیا ہے، ایک بغاوت ہے، کیا کیجیے مصنفہ کے قلم نے اکثر انحراف کی راہ کو جو عزیز رکھا ہے۔ اِس بار انہوں نے دنیا کی معلوم تاریخ کے اولین اشتراکی شخص ’مزدک‘ پر یہ ناول استوار کیا ہے۔ پانچویں صدی عیسوی میں طاقت وَروں نے اپنے تئیں صرف مزدک کو ہی نہیں، بلکہ اس سے جُڑی ہر چیز کو فنا کے گھاٹ اتار دیا، اس لیے تاریخ میں اس کا موہوم تذکرہ بھی منفی رنگ میں ہے، لیکن فہمیدہ ریاض قدیم تاریخی دستاویزات سے کرید کرید کر اس میں سے بہت کچھ جمع کر لائیں اور ڈھائی برس کی عرق ریزی سے اُسی عہد میں سانس لیتی ہوئی ایک بپتا رقم کر ڈالی، جو شہنشاہ وقت کے دربار میں مزدک کے سر قلم ہونے پر منتج ہوتی ہے کہ اُس کا ’’فتنہ‘‘ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ شاہ راہوں سے غلاظت صاف کرنے والے تک اب دوسروں کی ہم سری کا دعویٰ کرنے لگے تھے۔
مزدک کو جس قلعے میں راہی ملک عدم کیا گیا، اسے ’قلعہ ٔ فراموشی‘ قرار دے کر ناول کا عنوان کیا گیا ہے۔ 40 مختصر ابواب میں بٹے ہوئے اس ناول کے آخر میں مشکل الفاظ، اصطلاحات اور ناموں کی ایک فرہنگ بھی دی گئی ہے۔ یہ ناول ملک کی 70 ویں سال گرہ کے حوالے سے ناشر کی سلسلہ وار کتابوں کی اشاعت کا حصہ ہے اور اس کا انتساب پارسیوں کے نام ہے۔
’’اب سب دیکھیں گے‘‘
( ٹیلی ویژن پر پیش کردہ اسٹریٹ ڈراموں کا مجموعہ)
مصنف: خالد معین
زیرِ اہتمام: اردو دنیائے ادب
صفحات:208
قیمت:200
یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور پہلا تجربہ ہے کہ پاکستان میں اسٹریٹ تھیٹر ٹیلی ویژن پر سجا۔ یوں پاکستان میں پہلی مرتبہ کسی ٹی وی چینل پر اسٹریٹ پلیز کی عکاسی کرکے نشر کی گئی اور یہ پلیز لکھنے کا منفرد اعزاز خالدمعین کے حصے میں آیا۔ بلاشبہہ یہ ان کی ایک بڑی کام یابی ہے۔ معروف شاعر، نثرنگار اور صحافی خالد معین کی انہی اسٹریٹ پلیز پر مشتمل یہ کتاب جہاں سماج کے مختلف کرداروں اور واقعات کو ہمارے سامنے رکھتی ہے، وہیں خالد معین نے اپنی کہانیوں اور اس انوکھے تجربے سے متعلق ’اسٹریٹ تھیٹر: چند معروضات اور اندر کا حال‘ کے عنوان سے تفصیل بھی بیان کی ہے۔
اسی مضمون میں خالد معین نے مختلف چینلز سے اپنی وابستگی اور ہم کاروں سے متعلق نہایت دل نشیں پیرائے میں اظہارِخیال کیا ہے۔ یہ کہانیاں معاشرتی مسائل، انسانی رویوں، رہن سہن اور مختلف طبقات سے وابستہ لوگوں کی فکر اور ان کے کردار کی عکاس ہیں۔ یہ تمام وہ کردار ہیں جو ہمارے اردگرد ہی سانس لیتے ہیں اور ان سے ہمارا واسطہ بھی پڑتا ہے۔
خالد معین نے بعض کہانیوں میں منظر کی مناسبت سے نظموں کے ٹکڑے اور مختلف اشعار بھی شامل کیے ہیں جو موضوع اور کہانی کے مجموعی تأثر کو بڑھاتے ہیں۔ یہ کہانیاں محض تخیل اور تصور کا نتیجہ نہیں بلکہ مصنف کے گہرے مشاہدے اور بعض تجربات کا عکس ہیں۔ یہ ایسے کردار اور واقعات ہیں جنہیں ہم کسی طور نظرانداز نہیں کرسکتے۔ ’’اب سب دیکھیں گے‘‘ کا دیباچہ زیب اذکار حسین نے لکھا ہے۔ اس سے قبل ہم عصر ادب اور شخصیات پر خالد معین کے مضامین کا مجموعہ ’’رفاقتیں کیا کیا‘‘ شایع ہو چکا ہے جسے اپنے انتخاب اور طرزِتحریر کی وجہ سے بے حد پزیرائی ملی۔ خالد معین اپنے چار شعری مجموعوں بے موسم وحشت، انہماک، پسِ عشق اور ناگہاں پر بھی ادبی حلقوں سے داد سمیٹ چکے ہیں۔
معراج محمد خان
(بائیں بازو کی آخری شمع بھی گُل ہوئی)
مرتب: رشید جمال
صفحات: 134، قیمت:400 روپے
ناشر: لوح ادب پبلی کیشنز، کراچی
ملکی سیاست میں ہمیں شرافت کی ’معراج‘ سابق نگراں وزیراعظم معراج خالد میں دکھائی دیتی ہے، تو شرافت اور جدوجہد کی ’معراج‘ کو ہم بجا طور پر معراج محمد خان کے نام کر سکتے ہیں، جنہوں نے اپنی سیاست کے روز اول سے اپنے نظریات اور اصولوں پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ اپنی جدوجہد میں کبھی اقتدار اور اختیار کو منزل نہ جانا اور ہمیشہ ہی مشکل اور کٹھن راہوں پہ گام زن رہے۔
نصف صدی سے زائد عرصے سماجی مساوات کے لیے جدوجہد کرنے والے اِس انداز میں اس دنیا سے کوچ کیے کہ مرتب انہیں بائیں بازو کی ’آخری شمع‘ کہنے پر مجبور ہوا اور نذیر ناجی کو اب بیتے زمانے کی نظریاتی شناختیں کسی ہیولے کی صورت دکھائی دینے لگیں۔۔۔ معراج محمد خان پر ممتاز صحافی احفاظ الرحمن کے یہ الفاظ صادق آتے ہیں کہ ’ایسی محبت سب کو نصیب نہیں ہوتی!‘ اس کتاب میں معراج محمد خان کی رحلت پر لکھے گئے مختلف مضامین یک جا کیے گئے ہیں، اِس کے علاوہ درجن بھر صفحات ان کی زندگی کے تاریخی اور یادگار مناظر کے لیے مختص ہیں، جس میں سیاسی جدوجہد اور قید وبند سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر اور مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ تصاویر قابل ذکر ہیں، سرورق پہ معراج محمد خان کی جدوجہد کا ایک کٹھن لمحہ تصویر کیا گیا ہے، جب کہ کتاب میں تین انگریزی تحاریر سمیت کُل 25 مضامین جمع کیے گئے ہیں۔
شناخت نامہ
مصنف: اعظم معراج
صفحات: 396، قیمت: 900 روپے
ناشر: معراج پبلی کیشنز، کراچی
اعظم معراج جائیداد اور زمینوں کی خریدوفروخت کے شعبے میں آئے، تو جہاں اس شعبے کی باقاعدہ تعلیم کے حوالے سے کام کیا، وہیں سماج میں مسیحی برادری کے بیگانے پن کو دور کرنے کی خاطر بھی وہ کافی فعال ہیں۔ اس مقصد کے لیے مسیحی طالب علموں سے براہ راست مکالموں کا راستہ اختیار کیا، ان کی ذہن سازی کے لیے کتب فراہم کیں، مایوس کُن نتائج کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری، گویا وہ اپنے نام کے مطابق اپنی جدوجہد کی ’معراج‘ (بلندی) کی طرف گام زن رہے۔
زیرتبصرہ کتاب بھی اسی جدوجہد کا ثمر ہے، جس کے ابتدائی 179 صفحات میں انہوں نے تحریک پاکستان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مسیحیوں کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ سائمن کمیشن، نہرو رپورٹ، اور قرارداد پاکستان سے لے کر مغربی پنجاب کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے مسیحیوں کے ووٹوں کے حوالے سے اہم مواد کتاب کا حصہ ہے، ساتھ ہی تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے نمایاں مسیحیوں پر بھی مضامین شامل ہیں۔ کتاب کے اگلے صفحات میں مسلح افواج میں موجود نمایاں مسیحیوں کا تذکرہ شامل کیا گیا ہے۔
بحری، بری اور فضائی دستوں اور دہشت گردی اور دشمنوں کے خلاف مختلف محاذوں پر اپنی جانیں دینے والے مسیحیوں کے حوالے سے معلومات دی گئی ہیں۔ کتاب کا یہ حصہ دراصل ان کی گزشتہ کتاب ’سبز وسفید ہلالی پرچم کے محافظ و شہدا‘ پر مشتمل ہے، جس میں تین سال کی عرق ریزی کے بعد اضافے کیے گئے ہیں، مصنف کا دعویٰ ہے کہ دفاع پاکستان کے حوالے سے 90 سے 95 فی صد تک مسیحیوں کی معلومات اس کتاب میں شامل ہوگئی ہیں۔
روڈ ٹو موہن جو دڑو
مصنف: ناہید سلطان مرزا
صفحات:371، قیمت: 750 روپے
پیش کش: رائل بک کمپنی
تاریخی ناول نگاری کی راہی ناہید سلطان کا یہ تیسرا ناول ہے، اس سے پہلے ’دشت خواب کے مسافر‘ عراق، جب کہ ’آنکھیں آہن پوش‘ ایران کے پس منظر میں تھا۔ زیرتبصرہ ناول کے لیے انہوں نے 1920ء میں دریافت ہونے والے سندھ کے مدفون شہر ’موہن جو دڑو‘ کا چناؤ کیا۔
اس ناول میں قدیم تہذیب کی آواز سنائی دیتی ہے، کہیں یہ شہر بابل ونینوا اور مصری تہذیب سے لے کر وہ طوفان نوح کے حوالے سے گویا ہوتا ہے، تو کہیں وہ خود کو ’مُردوں کا ٹیلا‘ کہنے پر شکوہ کرتا ہے اور کہیں اس کی آہ وبکا نمایاں ہوتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ دنیا میں بہت برے حالات بیتے، مگر مجھ جیسا دکھ کسی کے حصے میں نہیں آیا۔ ناول میں کہیں سوال اٹھتے ہیں کہ آخر اس قدیم شہر نے کس کے خطرے کی وجہ سے اونچی دیوار قائم کی تھی؟ ناول میں یہاں کے حقیقی باشندوں کی پرچھائیں بھی دکھائی دیتی ہے، وہ کردار جن کی خبر ریت سے برآمد ہونے والی مختلف چیزوں سے ملی، وہ جیتے جاگتے در آتے ہیں۔ اس ناول کی اٹھان 1980ء سے شروع ہو کر آج کے زمانے تک پھیلتی چلی جاتی ہے۔
ممتاز ادیب و دانش وَر شکیل عادل زادہ اسے ایک مکمل ناول اور اہم دستاویز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس طرح کی کاوشوں میں بعض اوقات پس منظر اور کہانی کے تقاضوں میں توازن رکھنا مشکل ہوتا ہے، لیکن اس ناول میں وہ پُرلطف کہانی کو حقائق سے مرصع پاتے ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری کہتے ہیں کہ یہ ناول عام معنوں میں تاریخی ناول نہیں، بلکہ تاریخی شعور کا ناول ہے۔ یہ ناول ایک معاصر میں قسط وار شایع ہوچکا ہے، لیکن کتابی شکل دینے کے لیے تفصیلاً اس کے مندرجات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مختلف عنوانات تلے بٹے ہوئے ناول میں فہرست کی کمی محسوس ہوتی ہے، امید ہے آیندہ اشاعت میں اسے دور کر لیا جائے گا۔
آتش زیرپا
مصنف: اصغرخان
صفحات:320، قیمت: 600 روپے
ناشر: رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی
جو بھی دیکھا وہ کر دیا تحریر
کیا کریں ہم سے شاعری نہ ہوئی
یہ اصغرخان کے کلام کی اشاعت ثانی کا تذکرہ ہے، اس مجموعے کے ابتدائی 64 صفحات 13 مشاہیر کے تبصروں اور آرا کے علاوہ مصنف کے دو تعارفی مضامین پر مشتمل ہے، بیش تر حصہ غزلیات پر محیط ہے، جب کہ کچھ نظمیں، گیت اور نظمیہ نثر بھی شامل کی گئی ہے، آخر میں کچھ کلام ’ہائیکو نما‘ اور ’متفرقات‘ کے عنوان تلے بھی استوار ہے۔
پہلا تبصرہ ممتاز شاعر جون ایلیا کا ہے کہ ’شاعری سے ان کا سروکار ایک سچا سروکار ہے اور یہ کوئی سرسری بات ہر گز نہیں۔ معراج جامی رقم طراز ہیں کہ ’خان صاحب کی نثر بھی ان کی شاعری کی طرح بارہ مسالے کی چاٹ ہے۔‘ اصغرخان کی شاعری کے موضوعات ہجر ووصل کے روایتی موضوعات کے ساتھ ساتھ حق گوئی اور سچائی پر جمے رہنے پر بھی اُکساتے ہیں؎
راہ زن کو نہ رہ نما کہنا
حبس کو مت کبھی ہوا کہنا
کتاب کے فلیپ کے علاوہ پچھلے سرورق پر بھی مصنف کی تصویر کے ساتھ ان کے مختلف اشعار کندہ کیے گئے ہیں۔
جستہ برجستہ
مصنف: منصور الظفر داؤد
صفحات: 161، قیمت: درج نہیں
ناشر: ماجد پرنٹر، کراچی
یہ کتاب مشاہدات، تجربات، احساسات اور خیالات کا مجموعہ ہے، جس میں یک سطری خیالات اور چند سطری بہت سی تحاریر استوار ہیں۔ کہیں اداسی ہے، تو کہیں ہلکے پھلکے چٹکلے۔ کہیں گہرا طنز اور درد دہے، تو کہیں زندگی کے تلخ وترش تجربات، جن پر مصنف کی ذات، فکر اور زوایہ حاوی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ سِکھوں پر لطیفے بنتے ہیں، لیکن کبھی کسی سکھ کو بھکاری نہ دیکھا ہوگا، وہ یادوں کو پیتل کے برتن سے تشبیہہ دیتے ہیں کہ مانجھتے رہیں، تو چمکتی رہتی ہیں نہیں تو کائی جم جاتی ہے۔
مصنف کی زندگی کے پرسوز واقعات، محرومیاں اور کام یابیاں بھی مذکور ہیں۔ بچپن اور بیتے دنوں کی باتیں اور ملنے، بچھڑنے والوں کا بیان ہے، تو کہیں سماجی رویوں، رشتوں اور مختلف موضوعات پر بیان دکھائی دیتا ہے، تو کہیں ان کے ذاتی خیالات چھوٹی چھوٹی سرخیوں تلے ڈھلے دکھائی دیتے ہیں۔ بے حسی کے معنی تب منکشف ہوئے، جب دسمبر 1986ء میں اورنگی ٹاؤن کراچی میں بھیانک خوں ریزی میں 50 جانیں تلف ہوئیں، لیکن ان کے ساتھی نے اس کے بہ جائے سمیتا پاٹل کے آنجہانی ہونے کی خبر کو اہمیت دی۔ کتاب کو ساتھ ہی مختلف تصاویر اور خاکوں سے بھی آراستہ کیا گیا ہے۔ طویل چیزیں پڑھنے میں دقت محسوس کرنے والے قارئین یا تنگیٔ وقت کا شکوہ کرنے والوں کے لیے یہ کتاب خاص تحفہ ہے۔
زندہ کتابیں
’’زندہ کتابیں‘‘کے زیرعنوان پیپربیک کتابی سلسلے کے تحت شایع ہونے والی ان نایاب کتابوں کو راشد اشرف نے مرتب کیا ہے اور ان کے ناشر بزم تخلیقِ ادب، کراچی ہیں۔
بزم داغ (یادداشتیں)
مصنف: سید رفیق مارہروی،صفحات:224، قیمت:300روپے
یہ کتاب 1956ء میں لکھنؤ سے منصۂ شہود پر آئی۔ یہ دراصل مولوی افتخار عالم اور مولانا احسن مارہروی کے لکھے گئے روزنامچوں سے ماخوذ ہے، جس میں نواب مرزا خان المعروف داغ دہلوی کے حوالے سے یادداشتیں جمع کی گئی ہیں۔ رفیق مارہروی کے بقول ’کتاب گو مختصر ہے، لیکن بعض ایسے متنوع بیانات وحالات پر حاوی ہے کہ ان کے ملاحظے کے بعد حضرت داغ کی پوری زندگی سامنے آجاتی ہے۔‘‘ اس کی ازسرنو ترتیب واشاعت کا سہرا راشد اشرف کے سر ہے، جو اس سے پہلے سیکڑوں نایاب کتب کے عکس نیٹ پر مشتہر کر چکے ہیں۔
اب بہ عنوان ’زندہ کتابیں: پیپر بیک کتابی سلسلہ‘ پر مستعدی سے جتے ہوئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب اسی سلسلے کی پہلی کتاب ہے۔ نیاز فتح پوری اس کتاب کے ’افتتاحیہ‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’اگر یہ یادداشتیں منظر عام پر نہ آتیں، تو شاید ہم کبھی ان حالات سے واقف نہ ہو سکتے، جن کا علم داغ اور داغ کی شاعری سمجھنے کے لیے ایک مورخ ونقاد دونوں کے لیے ضروری ہے۔‘‘ ازسرنو اشاعت سے نہ صرف یہ نایاب کتاب آج کے قاری کی دستِ رس میں آئی، بلکہ اس کے اختتام میں داغ پر لکھا گیا نوح ناروی کا خاکہ اور تمکین کاظمی کا مضمون بھی باذوق قارئین تک پہنچا۔ تاہم اس قدر قیمتی کتابوں کی تعداد اشاعت بھی 500 سے گھٹ کر 300 تک ہو جانا ایک المیے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
لندن سے آداب عرضاور دیس سے باہر
مصنف: آغا محمد اشرف،صفحات: 315، قیمت: 400 روپے
یہ دراصل 1944ء میں شایع ہونے والی دو کتابیں ہیں، جو بالترتیب 19 اور 20 مضامین پر مشتمل ہیں۔ سلسلہ وار ’زندہ کتابیں‘ میں اس کی ترتیب دوم اور سوم ہے۔ اِن کتابوں کے مصنف آغا محمد اشرف، مولانا محمد حسین آزاد کے پوتے ہیں، آغا اشرف حیران کُن حافظے کا عالَم یہ تھا کہ خطبے اور مجالس مع عربی ایک بار سن کر گھر آکر لفظ بہ لفظ دُہرایا کرتے۔ 1935ء میں ہندوستان میں ریڈیو شروع ہوا، تو پروگرام ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ بی بی سی اردو سے وابستہ ہوئے، تو مشہور زمانہ پروگرام ’سیربین‘ کی داغ بیل ڈالی، یہ نام بھی انہی کا دیا ہوا ہے۔ 1940ء میں بی بی سی اردو سے ’لندن سے آداب عرض‘ شروع کیا، دوسری جنگ عظیم کے سائے میں رقم یہ تحاریر مصنف کے الفاظ میں یہ دعویٰ ہر گز نہیں کہ اس جنگ کی تاریخ ہیں، لیکن وہ انہیں ایک جنگی پرچہ نویس کی ڈائری کا درجہ دیتے ہوئے اپنی رائے کے غلط ہونے کا امکان باقی رکھتے ہیں کہ اس کا تعین مستقبل کا مورخ کرے گا۔
ایک بار زیڈ اے بخاری ریڈیو پر ان سے مِٹی کے بہ جائے مَٹی ادا کرنے پر مُصر ہوئے، تو آغا اشرف استعفا دے آئے۔ کتاب میں جہاں یہ واقعہ رقم ہے، اس سے دو صفحہ پیشتر دو جگہ لفظ منبر کو ’ممبر‘ لکھا ہوا دیکھنا خاصا گراں گزرتا ہے۔ دوسری کتاب ’دیس سے باہر‘ کے مضامین میں ولایت کے رنگ ڈھنگ اور دیسی فکر کا سمبندھ بہت خوب ہے۔ کہیں دیسی وبدیسی شخصیات کا تذکرہ ہے، تو کہیں یادداشتوں کا سلسلہ ہے، جس پر ایک صداکار کے تجربات اور اُردو کے حوالے بھی در آتے ہیں۔ پوری کتاب میں بہت سے مضامین کے آخر میں تاریخ نشر بھی درج کی گئی ہے۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.