اب تو بہت کچھ بولا بھی جائے گا، تولا بھی جائے گا، کہا بھی جائے گا، سنا بھی جائے گا، سنایا بھی جائے گا، دیکھا اور دکھایا بھی جائے گا، بیچا اور خریدا بھی جائے گا۔ یعنی وہ سب کچھ کیا جائے گا جو ہوتا ہے۔
اس طرح کے کاموں میں، یوں کہیے کہ میلہ لگ گیا ہے ہر کوئی اپنا اپنا سودا بیچنے آئے گا، اسٹال ہوں گے، ریڑھے چھابڑیاں ہوں گی، طرح طرح کے نعرے اور آوازیں لگائی جائیں گی، طرح طرح کے بازی گر کرتب باز اور مداری اپنا اپنا مجمع لگائیں گے اور ان سب کا نتیجہ بھی ابھی سے معلوم ہے، کہ یہ کوئی پہلا واقعہ تو ہے نہیں، جناح کو بالواسطہ مارا گیا، لیاقت خان کو بھرے جلسے میں گولی ماری گئی، بے نظیر کو ہزاروں آنکھوں کے سامنے نشانہ بنایا گیا اور تو اور پورے پاکستان کو چیر کر دو ٹکڑے کر دیاگیا۔۔۔۔ کوئی پکڑا گیا۔۔۔۔۔ کسی پر فرد جرم عائد ہوئی، کسی کو سزا ملی۔۔۔؟ یہ تو مملکت ناپرسان ہے جہاں سب کچھ ہے، اسلام ہے، جمہوریت ہے، قانون ہے۔
آئین ہے، انتظامیہ ہے، عدلیہ ہے، قانون نافذ کرنے والے اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کرنے والے بڑی بڑی تنخواہوں اور ناموں والے محافظ بھی ہیں، لیکن اگر نہیں ہے تو صرف ’’پرسان‘‘ نہیں ہے۔ ایسے میں پشتو کے ایک شاعر کا بیٹا جو مستقبل کی ابھی ابتدا بھی نہیں کر سکا تھا جان سے گیا بھی تو کیا؟
ایک گھر اجڑا تو کیا، ایک علم و دانش کے ادارے میں انتہائی پڑھے لکھے اور دانا و دانشور سلجھے ہوئے روشن خیال اور مہذب و متمدن لوگوں نے وحشت و بربریت کا ایک عظیم الشان مظاہرہ کیا تو کیا۔۔۔۔ پلک جھپکتے میں چنگیز و ہلاکو کا دور اور افریقہ کے تاریک براعظم وجود میں آگیا تو کیا۔۔۔کیوں کہ اس ’’ناپرسان‘‘ میں کسی سے کوئی باز پرس بھی نہیں ہوتی، آثار ابھی سے ہویدا ہو رہے ہیں کہ اس قصے کا اختتام بھی ویسا ہی ہونے والا ہے کہ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
کہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
شہادتوں اور ثبوتوں کو ’’متنازعہ‘‘ بنانے کی ابتدا بھی ہوچکی ہے، بات کو ادھر اُدھر کے نعروں میں اڑانے کی دوڑ بھی شروع ہو چکی ہے، سیاسی مداری بھی اپنا سامان کھول کر اسٹال اور کیبن لگا چکے ہیں، بازی گر اور سرکس والے بھی ستون اور تمبو گاڑ رہے ہیں، سب سے پہلے تو ملک میں انقلاب برپا کرنے والے اور نئے پاکستان کی تعمیر کا ٹینڈر لینے والے اور انصاف کا بول ستاروں تک بالا کرنے والے کا بیان ملاخطہ فرمائیے، ’’عبدالولی خان یونیورسٹی کا نام مشال خان یونیورسٹی رکھ لیا جائے۔‘‘ گویا پہلے سے طے تھا کہ ولی خان کا نام اڑانے کے لیے ایک شہید کی ضرورت ہے۔
نام تو بہت سارے مقامات پر جناح کے رکھے گئے ہیں، ملک سعد کا پل اور خان رازق تھانہ بھی ہے لیکن اس سے ملک سعد یا بے نظیر یا خان رازق واپس آگئے، چلیے واپس لانا تو انسان کے بس میں نہیں، لیکن یہ تو اس کے بس میں ہے کہ قاتلوں کو سزا دی جائے؟
کہاں ہیں لیاقت علی خان، بے نظیر، ملک سعد، خان رازق کے قاتل اور ان کو کسی نے کیا سزا دی، آرمی پبلک اسکول کے معصوم شہیدوں کے نام بھی اسکولوں پر چسپاں کیے ہوئے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ قاتلوں کو سزا ملی ہو اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ بے گناہ معصوموں کے قتل و قتال کا یہ سلسلہ رکا یا کچھ کم ہوا اور کم کیوں ہو گا اور رکے گا کیوں۔۔۔ کہ بہت بڑے بڑے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اعلیٰ عہدے داروں سے بھی ’’پرسان‘‘ نہیں ہے، مملکت ’’ناپرسان‘‘ جو ہے اور پرسان کرے بھی کون؟ کہ حمام میں سب ننگے ہیں۔
ایک چور دوسرے کو کیوں پکڑے یا روکے، جہاں ہر عہدہ سیاسی ہے اور ہر سیاسی عہدہ دار ہے، یونیورسٹی کا نام چلیے عبدالولی خان کا نام آپ کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے، بدل دیجیے، مشال خان یونی ورسٹی رکھ دیجیے لیکن پہلے اس یونی ورسٹی سے یہ تو پوچھ لیجیے کہ اسے قتل کیوں کیا گیا؟ اس لیے کہ جیسا کہ کچھ لیڈروں کے بیانات سے پتا چلتا ہے کہ ’’قاتل‘‘ تو ایک طرح سے قابل تحسین ہیں بل کہ شاید ان کو انعام مل بھی چکا ہو اور ایوارڈز کے لیے بھی نامزد ہو جائیں کہ انہوں نے کس کمال اور ہنرمندی سے یونی ورسٹی کو ایک ایسا شہید فراہم کیا جو ولی خان کی دھجیاں اڑا سکتا ہے۔ یہ تو خیر تقریباً ہوا ہی سمجھ لیجیے شہید بھی مل گیا یا حاصل کر لیا گیا، یونی ورسٹی کا نام بھی بدل جائے گا اور عبدالولی خان کے پرخچے بھی اڑ جائیں گے، کیوں کہ بیان بازیوں کے ماہرین بھی موجود ہیں کسی بھی وقت کوئی بھی دیگ چڑھا سکتے ہیں اور پرائے گھر کی آگ تو تاپ سکتے ہیں۔
سگریٹ جلا سکتے ہیں یا انگاروں پر اپنی ہانڈی چڑھاکر کسی بھی قسم کی کھچڑی پکا سکتے ہیں، لیکن فی الحال تو ایک بہت ہی گھناؤنا، دردناک، الم ناک بل کہ پاکستان اور اسلام کو رسوائے عالم کرنے کا ناقابل معافی جرم ہوا ہے، اس کے ذمے داروں کو تو پکڑ کر سزا دیں، چلیے اس واقعے کو ہم ایک ’’بے دماغ ہجوم‘‘ کا جذباتی اور اضطراری حادثہ قرار دے لیتے ہیں۔
حالاں کہ ’’ہجوم‘‘ واقعی ’’بے سر‘‘ اور بے سوچ ہوتا ہے، لیکن ہجوم خودبخود متحرک ہونے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا، کوئی آواز کوئی نعرہ کوئی انگلی کوئی اشارہ ہی ہجوم کو متحرک کر سکتا ہے۔ اس دیوانگی کا کوئی سبب کوئی مبتلا اور کوئی ’’اگنیشن کی‘‘ ہوتی ہے وہی تلاش کریں۔۔۔؟ لیکن ہمارے خیال میں اس چابی اس جڑ اور اس انگلی تک شاید کبھی بات پہنچے کیوں کہ ناپرسان کی یہ روایت ہے۔۔۔۔ یہاں جرم کی بو تو ہوتی ہے لیکن ’’آدم‘‘ کبھی نہیں دِکھتا، کیوں کہ اس کا کوئی نہ کوئی تعلق، رشتہ اور سمبندھ کسی نہ کسی پارٹی سے تو ہو گا اور ہر پارٹی میں کچھ اور ہو نہ ہو ’’کیمو فلاجنگ‘‘ کا انتظام بھرپور ہوتا ہے۔ ہم بھی اسی خطے کے باسی ہیں بل کہ اس سارے قصے یا ڈرامے کے کرداروں میں سے اکثر کو جڑوں تک جانتے ہیں اور اخبارات اور میڈیا کے پس پردہ جو کچھ ہو رہا ہے جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اور کچھ نہیں دکھائی دے رہا ہے۔
اس کا انجام بھی ہمیں ابھی سے نظر آرہا ہے، اندازہ اس سے بخوبی لگایاجا سکتا ہے کہ ادھر مشال خان کو ایک نہیں دو مرتبہ قتل کیا گیا ہے۔ ایک تو یونی ورسٹی میں۔۔۔ اور دوسری مرتبہ اس وقت جب مقامی دین داروں نے بغیر کسی ثبوت یا شہادت کی دلیل کے اسے مرتد قرار دے کر جنازے سے مسجد کے اس لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے روکا جو اس کا نہیں عوام اور مسلمانوں کا تھا، وہ تو خدا بھلا کرے چند سرپھرے پختون نوجوانوں کا۔۔۔ اور اس پر اور ایسے ہی معاملات پر ہمیں پختونوں کی ’’جہالت‘‘ پر پیار آجاتا ہے کہ وہ ’’مُلا‘‘ کی بات ایک معقول حد تک تو مانتے ہیں، لیکن جب بات پشتون روایات اور غیرت کی آجاتی ہے تو انکار کر دیتے ہیں۔ چناں چہ کسی نہ کسی حد تک جنازے میں سات آٹھ صف بن گئے حالاں کہ اس وقت تک انٹرنیٹ اور موبائلوں کے ذریعے تمام چھوٹے بڑے دینی اور دنیاوی ’’دکانداروں‘‘ کو خبر ہو چکی تھی، لیکن انہیں مشال خان سے کیا۔
ان کے والدین سے کیا ان کو عبدالولی خان کو بعد از مرگ سزا دینے کے لیے شہید چاہیے تھا اور وہ مل گیا، بیانات کی کاغذ کشتیاں چلانے کے لیے بارش کا پانی چاہیے تھا اور وہ بہہ رہا ہے، لیکن اس سارے قصے میں جو سب سے زیادہ دردناک، الم ناک، تشویش ناک اور شرم ناک پہلو ہے۔ اس کی طرف کسی کا دھیان پتا نہیں کیوں جا نہیں رہا ہے یا اپنی دکان داریوں میں اتنے مصروف ہیں کہ دھیان دے ہی نہیں رہے ہیں، اور وہ نہایت ہی دکھی کردینے والا پہلو یہ ہے کہ اس واقعے سے نہ صرف پاکستان کی حکومت، پاکستان کے نظام، پاکستان میں انسانی تحفظ اور تمام قانون نافذ کرنے والے، چلانے والے اور بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کے وجود پر ایک بہت بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے اور ان باتوں پر بھی جو پاکستان کا سیاسی، قانونی اور عوامی ’’ابلاغیہ‘‘ دن رات اس کی مدح سرائیاں کر رہا ہے۔ اس واقعے نے یہ مکمل طور پر ثابت کردیا ہے کہ اس ملک میں نہ کوئی حکومت ہے۔
نہ حکومت کے ادارے ہیں، نہ بشری حقوق ہیں نہ آئین ہے، نہ دستور ہے اور انسانیت تو سرے سے ہی موجود نہیں۔۔۔ باقی سب کچھ جھوٹ اور مایا جال ہے اور اگر ہے تو صرف وہی قبل مسیح کا دور ہے، جس میں ہر کوئی ایک جتھا بناکر سب کچھ کر سکتا تھا، پرامن آبادیوں کو لوٹ سکتا تھا، لوٹ مار کر کے مال غنیمت قرار دے کر لے جا سکتا تھا، گھروں کو تہس نہس کرسکتا تھا، آگ لگا سکتا تھا اور باسیوں کے ساتھ کچھ بھی کرسکتا تھا، تھوڑا سا فرق البتہ یہ ہے کہ اس زمانے کے جتھے اپنی حفاظت کے ذمہ دار خود ہوتے ہیں، لیکن آج کے ایسے جتھوں اور ہجوم کی حفاظت قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اہل کار کرتے ہیں، دراصل بنیادی طور پر یہ نادر و نایاب اور بے حد کام یاب طریقہ واردات ایجاد کردہ بھی سیاسی حکومتوں، سیاسی پارٹیوں اور ان کے زیرسایہ پلنے والے اداروں کی ایجاد کردہ ہے، کہ وہ کم بخت انگریز جو نظام انصاف یہاں چھوڑ گئے ہیں۔
اس میں قتل بہرحال قتل ہوتا ہے اور قتل بغیر قاتل کے تو ہوتا نہیں اور قاتل کو سزا دینا حکومت کا اولین فرض ہے، اس خطے میں جہاں انگریز رہے ہیں اور جاتے جاتے اپنا نظام چھوڑ گئے ہیں۔ اب جب وہ نظام یہاں کے ’’آزادوں‘‘ کے ہاتھ آیا تو یہ انگریز اور امریکن تو نہیں ہیں کہ اپنی ’’ایجادات‘‘ کرتے پھریں لیکن یہ تو کر سکتے ہیں کہ موجود ایجادات کو ماڈی فائی کرسکیں۔ چناں چہ قتل کی سزا ختم تو نہیں کر سکتے تھے لیکن غیرموثر کرنا تو ان کے ہاتھ میں تھا، فرد کے ذریعے قتل کا سلسلہ اب ہجوم اور انبوہ کے ذریعے شروع ہو گیا، جہاں تک ہماری معلومات ہیں یہ بے داغ اور فول پروف قتل کا سلسلہ بھارتی فلموں کے ذریعے اتنا مشہور کیا گیا اتنا پھیلایا گیا اور اتنا مقبول بنایا گیا کہ حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں نے اسے تقریباً اپنا منشور بنالیا۔
زیادہ سے زیادہ مسئلہ اب مجرم کو اکسانے اور انگشت دینے کا ہے سو اس میں جیسا کہ ہر کام میں ہمیں بھارت یا ساری دنیا پر برتری حاصل ہے وہ ہے مذہب کا انتہائی موثر، بہت جلد گرمانے والا اور جنت کے جنوں کا پیدا کرنے والا صرف ایک ہی نعرہ اور پھر سب کچھ خودبخود ہوتا چلا جاتا ہے اور اگر یہ بھی مسلسل بتایا جاتا رہے کہ ’’جہاد‘‘ سے سارے گناہ دھل جاتے ہیں تو چور اُچکے، چرسی، افیونی، شرابی، ڈاکو، اجرتی قتل، ملاوٹیے، منشیات فروش، بردہ فروش، ماں بہن فروش سب کے سب ایک دم ’’مجاہد‘‘ بن جاتے ہیں۔
مسلمانوں کو گدھے کتے کا گوشت کھلانے والا بھی دین پر غیرت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، بل کہ زیادہ تر یہ بھی ہوتا ہے کہ راہ چلتے لوگ بھی سوچے سمجھے بغیر تھوڑا بہت جہاد کرلیتے ہیں، کافی عرصے کی بات ہے قصہ خوانی میں ایک شخص کو لوگ پیٹ رہے تھے اور چور چور کہہ کر راہ چلتے لوگ بھی ایک دو لاتیں جما دیتے تھے ہمارے ساتھ اپنا ایک رشتہ دار جارہا تھا وہ بھی اچانک دوڑ کر پہنچا اور پٹنے والے کو ایک لات جمائی، پوچھا یہ کیا؟ بولا لوگ مارہے ہیں تو کچھ نہ کچھ تو اس نے کیا ہی ہو گا، کئی روز بعد اس پٹنے والے شخص سے ہماری ملاقات ہوئی، ماجرا پوچھنے پر اس نے بتایا کہ دکان دار سے شیو بکس خریدتے ہوئے قیمت پر تکرار ہوئی اس نے گالی دی تو میں نے اسے گریبان سے پکڑ کر ایک دو مکے مارے اس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ چور ہے چور ہے، سارے دکان دار مجھ پر پل پڑے اور میرا حشر نشرکر دیا۔ چوں کہ پاکستان کی تو ابتدا ہی دین سے ہوئی ہے۔
اس لیے یہاں دینی کارڈ سے بڑا کوئی کارڈ نہیں ہے، خود ہمارے ساتھ ہو گزرا ہے کچھ لوگوں کے اکسانے پر الیکشن میں کھڑے ہو گئے، شعر و ادب کے حوالے سے اچھی خاصی مقبولیت بھی تھی اور اپنا پورا گاؤں بھی ساتھ تھا، لیکن بالکل خلاف توقع ہار گئے، صبرشکر کر کے بیٹھ گئے کوئی سال بھر بعد ایک شخص ہم سے ملنے آیا جس کا تعلق اس علاقے سے تھا جہاں ہم بری طرح ہارے تھے۔
اس شخص نے ہم سے معافی مانگی بل کہ پیروں پر جھک گیا، بولا میں تمہارا بڑا گناہگار ہوں ایک طرح میں نے ہی تمہیں ہرایا ہے، دراصل وہ شخص ایک اچھے خاصے دینی گھرانے کا پیر زادہ تھا بولا تمہارے حریف نے مجھے یقین دلایا تھا کہ تم پکے قادیانی ہو اور میں نے یہ بات سارے حلقے میں پھیلائی، لیکن میں نے تمہاری چند نعتیں سنی ہیں اور مضامین وغیرہ بھی پڑھ لیے ہیں اور لوگوں سے بھی پتا چلا ہے کہ میں نے تم پر اتنا غلط الزام لگا کر پھیلایا، یہ بہت بڑا بل کہ تشویش ناک معاملہ ہے۔
اس معاملے میں ساری ذمہ داری ان علماء اور دینی لیڈروں پر آجاتی ہے کہ دین کو یوں مذموم اور نہایت چھوٹے مفادات کے لیے استعمال کر کے اسلام کے پاک اور روشن چہرے پر کالک نہ ملیں، بل کہ ایسا کرنے والوں کو اسلام کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا جائے۔
The post مشال خان کا قتل appeared first on ایکسپریس اردو.