گزشتہ دنوں وفات پانے والے صاحب طرز ادیب مختارمسعود 50 کی دہائی کے آخری برسوں میں ملتان میں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات تھے، مختار مسعود کا بطور ڈپٹی کمشنر ملتان میں قیام کئی حوالوں سے یادگار حیثیت کا حامل ہے، ان کے قیام ملتان کی سب سے اہم یادگار تو ان کی امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے ہونے والی وہ ملاقات ہے جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’آواز دوست‘‘ میں بھی قدرے تفصیل سے کیا ہے۔
28 جون 1959ء کو ملتان کی نامور شخصیت منشی عبدالرحمن خان کے توسل سے ہونے والی یہ ملاقات ایک ادیب کی ایک خطیب کے اشتیاق دید سے ایک عہد کی نوحہ خوانی تک پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس ملاقات میں منشی عبدالرحمن کی موجودگی بھی تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔
منشی عبدالرحمن ملتان کی وہ نامور شخصیت ہیں جن کا مختار مسعود کے ساتھ گہرا تعلق رہا انہی کے ساتھ مل کر مختار مسعود نے بطور ڈپٹی کمشنر ملتان میں بہت سے ترقیاتی و تاریخی امور انجام دیئے، منشی عبدالرحمن کے ساتھ مل کر ہی انہوں نے جنوری 1960ء میں ملتان میں رائٹرز گلڈ قائم کی جس کے پہلے سیکرٹری منشی عبدالرحمن ہی تھے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ساتھ مختار مسعود کی تاریخی ملاقات کا احوال جو ان کی کتاب ’’آواز دوست‘‘ میں شامل ہے پچاس کی دہائی کے آخری برسوں کی سیاست اور نامور خطیب کی زندگی کے سفر کا ایک اجمالی خاکہ بھی ہے، آئیے دیکھتے ہیں یہ ملاقات کیسے اور کس انداز میں ہوئی۔
’’جب میں ملتان میں تعینات ہوا تو ضلع کے اہم افراد کی ایک فہرست پیش ہوئی، اس میں سرکردہ افراد بھی تھے اور سرکش اشخاص بھی۔ بڑے بڑے ٹوڈی سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے باغی کا نام درج تھا ‘ ایک نام دیکھ کر میں ٹھٹھک گیا‘ یہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام تھا‘ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور اس انجمن کا نام مجلس احرار تھا۔
میں نے اس شخص کا نام جسے بہت سے لوگ امیر شریعت کہتے ہیں ذہن کے ایک گوشے میں محفوظ کر لیا‘ ان دنوں الیکشن کے انتظامات کی مصروفیت تھی‘ چند ماہ گزرے تو الیکشن اور آئین دونوں منسوخ ہو گئے، مصروفیت زیادہ ہو گئی، بنیادی جمہوریت اور زرعی اصلاحات کی پہلی قسط کے ساتھ کئی دوسرے سر کاری اور نیم سرکاری کاموں میں یوں لگا رہا کہ سال گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا‘ کام معمول پر آیا تو یادداشت سے ایک نقطہ ابھرا اور خلش بن گیا‘ شاہ جی سے ملاقات کی خواہش دل میں پیدا ہوئی اور میں نے اس کا اظہار منشی عبدالرحمن خان سے کر دیا۔
مجلس احرار کو غیرقانونی قرار دیئے ہوئے 6 سال ہو چکے تھے، جماعت اپنے انجام کو پہنچی تو گویا جلسہ برخاست ہو گیا، نعرے گم، لیڈر اوجھل، جلوس منتشر، ایک دور تھا کہ ختم ہو گیا اور اس کی صرف دو یادگاریں رہ گئیں۔ مجلس کی فروگزاشتیں اور میر مجلس کی خطابت ۔ شاہ جی ملتان میں گوشہ نشین ہو گئے۔ ان کی تقریریں کچھ قانون وقت نے بند کر دیں اور کچھ اس قانون قدرت نے جو ہر بوڑھے آدمی پر لاگو ہوتا ہے ۔
شاہ جی کی تقریروں کا بڑا چرچا تھا، سننے والوں کا بیان ہے کہ عشاء سے فجر ہو جاتی مگر طبیعت سیر نہ ہوتی ۔ خوش الحان اور خوش بیان تھے، عربی، فارسی، اردو اور پنجابی محاورے پر قادر تھے ۔ قرأت، نثر، نظم، لطیفہ، ہجو اور تشنیع کو حسب ضرورت استعمال کرتے تھے۔ احتیاط کا دامن اکثر ہاتھ سے چھوٹ جاتا اور کبھی کبھی اسے دانستہ اپنے ہاتھ سے ہی چاک کر دیتے اور اس بات کی بھی پرواہ نہ کرتے کہ یہ کام برسرعام ہو رہا ہے یا برسر منبر ۔
شاہ جی اپنے زمانے کے سب سے معروف و مشہور مقرر تھے، عوام نے انہیں سر آنکھوں پر رکھا اور خواص نے ہمیشہ ان سے خم کھایا، میں نے ان کی تقریر کبھی نہیں سنی مگر اس کی تعریف اکثر سنتا رہتا تھا اور سوچتا تھا کہ وہ خطابت کس پائے کی ہو گی جسے محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد اور بہادریارجنگ کا زمانہ ملا، پھر بھی وہ سب پر بھاری رہی ۔ محمد علی جوہر علی گڑھ اور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ تھے، ابوالکلام آزاد الہلال نکالتے اور امام الہند کہلاتے تھے، محمد بہادر خان نواب اور جاگیردار تھے۔ شاہ جی کے پاس کیا رکھا تھا، پٹنہ میں داغ یتیمی، بنارس میں ورق کوٹنے کی مشقت اور امرتسر میں ایک چھوٹی سی مسجد کی امامت، اس کے باوجود شاہ جی کو جس نے سُنا اس نے یہی کہا:
چہ جادوئیست ندا نم بطرز گفتارش
کہ باز بستہ زبان سخن طرازاں را
(فیضی)
عرصہ ہوا میں نے شاہ جی کو ایک بار کراچی میں سننے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ مجھے یہ فکر تھا کہ جلسہ رات گئے ختم ہوا تو واپسی کی بس نہیں ملے گی ۔ اتنے میں ضابطہ فوجداری حرکت میں آیا، جلسہ منسوخ ہو گیا اور شاہ جی غالباً پکڑے گئے، بے بسی کی جگہ محرومی نے لے لی ۔
یہ اوائل ملازمت کی بات ہے جب شاہ جی کے بولنے اور ہمارے سننے کے دن تیزی سے ختم ہو رہے تھے، خطابت کی راہ میں پیری حائل ہونے لگی اور سماعت کی راہ میں ملازمت کے آداب اور ضابطے حائل ہونے لگے ۔ آج اگر تقریر نہ سنی تو کل کیسے سن سکیں گے ۔ جب ہم اس نظام کا حصہ بن چکے ہوں گے جہاں حسن انتظام کا معیار یہ ہے کہ کسی مخالف کی تقریر نہ ہونے پائے ۔ تقریر کا جواب تقریر سے دینے میں محنت صرف ہوتی ہے اور یہ اس سے کہیں زیادہ آسان ہے کہ گول باغ اور موچی گیٹ میں پانی چھوڑ دیا جائے۔
شاہ جی کی تقریر سے محروم رہا تو تقریب بہر ملاقات نکال لی۔ یہ ملاقات منشی عبدالرحمن خان کے ذمہ تھی ، انہوں نے شاہ جی سے بات کی تو وہ ٹال گئے، کہنے لگے کہ میں ساری عمر انتظامیہ سے لڑتا آیا ہوں، ڈپٹی کمشنر اگر بلانا چاہے تو وارنٹ گرفتاری نکالے، منشی صاحب نے مجھ سے ذکر کیا تو میں نے کہا دیکھیے ہوئی نہ احراریوں والی بات، یہ ان کی مرضی کہ وہ عہدے کو انتظامیہ کی علامت جانتے ہیں اور انتظامیہ کو ہر حال میں قابل ملامت سمجھتے ہیں، مگر یہ کہاں کی بالغ نظری ہے کہ عہدے اور عہدہ دار کے فرق سے بھی انکار کردیا جائے۔
اگر مجھے ان کی سیاست سے کوئی واسطہ نہیں تو انہیں میری ملازمت سے کیا غرض، ایک نوجوان دور حاضر کے عظیم خطیب سے ملنے کا خواہشمند ہے‘ اور بوڑھا خطیب اس کے اشتیاق کا حال پوچھتا ہی نہیں، بس اتنا سن کر کہ وہ سرکاری ملازم ہے اسے فوراً رد کردیتا ہے۔
رہا حفظ مراتب کا سوال تو میں نے پہلے ہی شاہ جی سے حاضری کی اجازت چاہی تھی، سلام نہیں بھیجا تھا۔ پیغام بر (منشی عبدالرحمٰن خان) نے یہ باتیں سنیں اور الٹے پاؤں واپس لوٹ گیا، اگلے ہی روز سید عطاء اللہ شاہ بخاری میرے یہاں مہمان بن کر تشریف لے آئے، میں نے موٹر کار کا دروازہ کھولا، پہلے ایک پھڑکتا ہوا فارسی شعر برآمد ہوا اور اس کے پیچھے شعر پڑھنے والا اترا۔ ڈھیلا ڈھالا کھدر کا کرتا‘ سبز چارخانہ تہہ بند‘ دیسی جوتی دراز قد اور درازریش‘ کشادہ جبیں اور خندہ رو۔
شاہ جی نے ایک ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا دوسرے سے کچھ بوجھ اپنے عصا پر ڈالا، کمر ذرا سی خم ہوئی اور وہ آہستہ آہستہ برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ کر گیلری سے ہوتے ہوئے ہال کمرے میں داخل ہوئے، وہ کمرے کے دوسرے سرے تک چلتے گئے اور وہاں پہنچ کر ایک صوفے پر بیٹھ گئے‘ جوتی اتاری اور پالتی مار لی۔ میں نے انہیں اوپر سے نیچے تک دیکھا اور ان کی پرانی تصویروں کو یاد کیا، دونوں میں تھوڑی سی مشابہت ضرور ہے مگر مناسبت کوئی نہیں‘ کہاں وہ لحیم شحیم گیسو دراز اور عصا بردار جسے دیکھ کر دیو جانس کلبی، برنارڈشا، ٹیگور اور ٹالسٹائی یاد آتے تھے اور کہاں یہ ستا ہوا بے وزن ڈھانچا جو میرے سامنے بیٹھا ہے۔
میں نے شاہ جی سے اپنے اشتیاق کا قصہ بیان کیا، ان کی تقریر کبھی نہیں سنی مگر اس کی تعریف اتنی سنی ہے کہ زبان خلق پر ایمان لے آیا ہوں، جس نے ان کی تقریر سنی اور پسند کی اس کے لئے علم حاضر اور جس نے کبھی نہ سنی مگر اوروں سے زیادہ متاثر ہوا اس کے لئے ایمان بالغیب، شاہ جی نے میری بات کا اعتبار اور میرے جذبات کا احترام کیا، وہ ذرا سی دیر میں یوں گھل مل گئے گویا میری نیاز مندی کو ایک زمانہ بیت چکا ہو ۔
جب گفتگو شروع ہوئی تو ان کی بیماری اور کمزوری کے پیش نظر میں نے اسے طول دینے سے احتراز کیا مگر جب باتیں ختم ہوئیں تو شام ہو چکی تھی اور شاہ جی کو آئے ہوئے تین گھنٹے گزر چکے تھے ۔ گفتگو کا سلسلہ لمحہ بھر کے لئے منقطع نہ ہوا اور اس میں میرا حصہ اس قدر تھا جتنا ایک میزبان اور سامع کا ہونا چاہئے ۔ منشی (عبدالرحمٰن خان) صاحب محض سننے اور سر دھننے کے قائل نہیں ان کا اصول ہے کہ اچھا انسان اچھی کتاب اور اچھی گفتگو جہاں میسر آئے اس میں دوسروں کو بھی شریک کرو، ان سے تنہا فائدہ اٹھانا کم ظرفی کی دلیل ہے، ملاقات شروع ہوئی تو منشی صاحب مسکرا رہے تھے، گفتگو شروع ہوئی تو وہ سنبھل کر بیٹھ گئے پھر کاغذ نکالا اور یاد داشت لکھنے میں مشغول ہوگئے۔
چائے دو تین بار آئی مگر یوں دبے پاؤں کہ گفتگو میں کوئی خلل نہ پڑا، ان تین گھنٹوں میں شاہ جی نے آیات، احادیث اشعار اور چٹکلوں سے ایک جادو جگائے رکھا، میں ان کی خطابت کا راز جاننا چاہتا تھا مگر کامیاب نہ ہوسکا، موضوع اتنی تیزی سے بدلتے رہے کہ خطابت پر جم کر بات نہ ہو سکی، گفتگو شاہ جی کی صحت سے شروع ہوئی اور توکل سے ہوتی ہوئی سیرت تک پہنچی، وہاں سے تاریخ کا ذکر آگیا اور اس میں مختلف تحریکیں شامل ہوگئیں، ہر تحریک کے ساتھ اس سے وابستہ افراد کا جائزہ شروع ہوگیا اور بات ایک پورا چکر لگا کر شاہ جی کی ذات پر واپس آگئی، اس مرحلے پر شاہ جی نے واپس جانے کی اجازت چاہی، ملاقات ختم ہونے والی تھی۔
اس وقت شاہ جی جوتیاں اتارے صوفے پر اکڑوں بیٹھے تھے۔ ابھی وہ پیر نیچے اتاریں گے، چڑھی ہوئی آستین بھی نیچے اترے گی، گلے کا بٹن بند ہوگا، پان کی ڈبیہ جیب میں ڈالی جائے گی اور پھر عصا کا سہارا لے کر اٹھیں گے جو تمام عرصہ ان کے ہاتھ میں رہا تھا ۔ میں نے کہا اجازت ہو تو چند سوال پوچھ لوں، اجازت ملی تو میں نے دو سوالوں سے تمہید باندھی اور جواب ملنے پر تیسرا سوال داغ دیا ۔
اس سوال و جواب کے دو سال بعد میں نے منشی صاحب کو خط لکھا کہ اپنی تحریری یادداشت مجھے بھیج دیں، منشی صاحب نے بہت ڈھونڈا مگر ایک مختصر ورق کے سوا کچھ بھی نہ مل،ا وہ گفتگو جسے میں نے محفوظ سمجھا تھا اس کے الفاظ گم ہوگئے، اگرچہ اس کا حاصل حافظے میں محفوظ ہے اور اس کا تاثر دل پر نقش ہے۔ یہ بات 28 جون 1959ء کی ہے۔ دو تین برس بعد میں اور منشی عبدالرحمٰن خان ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گئے، شاہ جی زندہ تھے تو اپنے سامعین کو کبھی بنجر زمین کبھی صحرا اور کبھی قبریں کہہ کر پکارتے تھے، آج ہم ان کے سرہانے خاموش کھڑے تھے‘‘۔
مختار مسعود نے ملتان میں تاریخی
نوعیت کے ترقیاتی کام کرائے
نامور ادیب مختار مسعود جو ملتان میں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات تھے عوامی فلاح کے کاموں کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے، ان کے یہاں قیام اور کام کو منشی عبدالرحمن نے اپنی کتاب ’’ناقابل فراموش شخصیات‘‘ میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے، منشی عبدالرحمن خان کی یہ اہم ترین کتاب ان کے صاحبزادے نذیر احمد خان کے توسط سے ہمیں میسر آئی، منشی صاحب اس کتاب کے صفحہ 222 پر مسٹر مختار مسعود کے عنوان سے رقم طراز ہیں کہ:
’’1928ء سے 1978ء تک کے پچاس سالوں میں ملتان میں کئی ڈپٹی کمشنر آئے اور گئے ان میں کالے بھی تھے اور گورے بھی، دیسی بھی تھے اور بدیسی بھی، کچہری میں رہنے کی وجہ سے میرا کم و بیش سب سے واسطہ رہا اور میں ہمیشہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ ان میں کتنی انسانیت ہے اور کتنی افسریت کچہری کی پچاس سالہ زندگی میں، میں نے جن کو افسر سےزیادہ انسان پایا، ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اور جن کے حسن اخلاق سے متاثر ہوا ان میں سرفہرست مسٹر جسٹس ایس اے رحمن چیف جسٹس پاکستان مسٹر بیدی (سکھ) سیشن جج اور مسٹر مختار مسعود ڈپٹی کمشنر تھے ۔ اول الذکر دو حضرات کا تعلق عدلیہ سے تھا اور آخر الذکر کا انتظامیہ سے۔ مسٹر مختار مسعود کا شمار ترقی پسند حکام میں ہوتا تھا۔
ادبی لحاظ سے نہیں حاکمانہ انداز سے۔ جس زمانے میں وہ ملتان میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہو کر آئے وہ مارشل لاء کا زمانہ تھا اور انہیں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات حاصل تھے۔ ان غیر معمولی اختیارات سے انہوں نے ملتان کو حسین بنانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔ وہ حاکمانہ چار دیواری پھلانگ کر قدیم بادشاہوں کی طرح باہر نکل کر عوامی تکالیف کا کھوج لگاتے اور انہیں بلا تاخیر دور کرنے کے لیے سپند آسا بے قرار ہو جاتے۔ میں نے ان کی اس خوبی کو دیکھ کر رفاہی کاموں کی ایک طویل فہرست بنا کر ان کو بھیج دی، اس کے دوسرے یا تیسرے دن یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ ضلع کچہری اور سول ہسپتال میں عوام کے پینے کے لیے پانی کی سبیلیں بن رہی تھیں اور دیگر کام شروع تھا ۔
ان کے عہد ڈپٹی کمشنری میں لاریوں کا اڈا عین شہر کے وسط میں اس جگہ واقع تھا جہاں اس وقت شاہین مارکیٹ ہے، اس اڈہ کی بدولت آئے دن مہلک حادثات ہوتے رہتے تھے۔ ٹرانسپورٹروں نے چونکہ انتظامیہ کے افسران سے دولت کی پینگیں بڑھا رکھی تھیں، اس لیے وہ عوامی تکالیف پر زرکشی کو ترجیح دینے کے عادی تھے۔
مسٹر مختار مسعود نے ہر قسم کے دبائو اور لالچ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پہلی فرصت میں اہل شہر کی یہ تکلیف دور کرنے کی طرف توجہ مبذول کی اور اپنے مارشلائی اختیارات کو کام میں لا کر اس اڈے کو اٹھا کر شہر سے باہر پھینک دیا اور یہاں شاہین مارکیٹ قائم کر دی جو اس وقت اہم کاروباری مرکز کا کام دے رہی ہے۔
اسی شاہین مارکیٹ کے قریب چند سرمایہ داروں نے بلدیہ کی اراضی پر قبضہ کر کے خانہ بدوشوں کی طرح چھپروں کے اندر موبل آئل وغیرہ کی بڑی بڑی دکانیں لگا رکھی تھیں جن سے ایک تو ہر وقت آگ لگنے کا کھٹکا لگا رہتا تھا دوسرے یہ شہر کے حسن پر ایک کلنک کے ٹیکہ کا کام دے رہی تھیں۔
مسٹر مختار مسعود نے سرمایہ داروں کا یہ اڈا بھی فی الفور ختم کرا کر یہاں ایک دوسری کمرشل مارکیٹ بنوا دی جس سے صرف عوام کو ہی فائدہ نہ ہوا بلکہ بازار اور مارکیٹ کھلی ہو گئی۔ اسی علاقے میں پرانی سبزی منڈی واقع تھی جو شہر کے گنجان حصہ کے وسط میں ہونے کے علاوہ شہری ضروریات کے لیے بہت تنگ تھی اور اس کا ٹریفک پر بہت برا اثر پڑ رہا تھا۔
اس عوامی تکلیف کو رفع کرنے کے لیے انہوں نے ملتان میں نئی سبزی منڈی بنوائی۔ حسین آگاہی کے قریب دسہرا گرائونڈ شہر کی خوشنمائی پر ایک بدنما داغ کی حیثیت اختیار کر گیا تھا جس پر ایک بااثر طبقہ قابض تھا، ڈپٹی کمشنر نے ان کے اثر و رسوخ کو خاطر میں نہ لا کر وہاں ایک خوبصورت عثمانیہ مارکیٹ بنوا دی۔
ملتان کی تاریخی عید گاہ کسی ڈھکی چھپی جگہ پر واقع نہیں بلکہ ایل ایم کیو کی شاہراہ پر واقع ہے جو اس شاہراہ سے ہر گزرنے والے کو دعوت نظارہ دیتی رہتی ہے مگر کسی ڈپٹی کمشنر کو اس کی توسیع کی توفیق نصیب نہ ہوئی، اگر یہ توفیق نصیب ہوتی تو ایک ’’ترقی پسند‘‘ ڈپٹی کمشنر کو جس نے اس تاریخی مسجد کی مرمت کرانے کے علاوہ اس میں توسیع کرا کے اہل شہر کی بہت بڑی ضرورت پوری کرا دی اور نہایت خوبصورت انداز میں عید گاہ کے سابقہ رقبے جتنا مزید رقبہ اس میں شامل کر کے اس کو پہلے سے دو گنا کر دیا اور اس کے گنبدوں اور دیواروں کی مرمت و مینا کاری کرا کے اس کے حسن کو دوبالا کر دیا‘‘۔
صدر ایوب خان کا جلسہ اور مختار مسعود کی جادو بیانی
منشی عبدالرحمن خان کی کتاب ’’ناقابل فراموش شخصیات‘‘ میں صدر ایوب خان کے ملتان میں منعقدہ ایک جلسہ کا دلچسپ احوال بھی درج ہے، منشی صاحب اپنی مذکورہ کتاب کے صفحہ 226 پر لکھتے ہیں:
’’فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے عنان حکومت سنبھالنے کے بعد بذریعہ مارشل لاء اپنے لیے فضاء سازگار کر کے ملک گیر دورہ شروع کیا وہ 17 دسمبر 1959ء کو ملتان آئے مجلس سوال و جواب سے فارغ ہوتے ہی عوام سے خطاب کرنے کے لیے قاسم باغ سٹیڈیم پہنچے جہاں مسٹر مختار مسعود ڈپٹی کمشنر ملتان نے پہلے سے عوام کو چشم براہ کر رکھا تھا، صدر مملکت نے آتے ہی چاروں طرف نظر دوڑائی جب انہیں کہیں بھی تل دھرنے کو جگہ نظر نہ آئی تو ان کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور انہوں نے نہایت خوش آئند موڈ میں تقریر شروع کی، ان کی تقریر کے دوران سٹیڈیم کے عین وسط سے ایک نعرہ بلند ہوا اور ایک شخص ہاتھ میں کاغذ لیے صدر مملکت کی طرف دوڑا، پولیس نے چیلوں کی طرح اسے اچک لیا۔
صدر نے تقریر بند کر دی اور مسٹر مختار مسعود جو چستی و پھرتی میں اپنا جواب نہ رکھتے تھے سٹیج سے عقاب کی طرح اس شخص پر جھپٹے اور اپنی جادو بیانی سے چٹکی بجاتے اس کے جوش کو ہوش میں لا کر بڑے ڈرامائی انداز میں سٹیج پر واپس آکر ششدر و متحیر حاضرین کو بتلایا کہ یہ شخص صدر محترم کی اپنے غریب خانہ پر دعوت کرنا چاہتا ہے صاحب صدر نے اس کی دعوت اس شرط پر قبول کر لی ہے کہ جلسہ کے حاضرین کی دعوت کا بھی انتظام ہو جو صبح سے میرے لیے یہاں جمع ہیں، اس پر سٹیڈیم قہقہوں سے گونج اٹھا قہقہوں کا سیلاب رکتے ہی صدر نے اپنی تقریر مکمل کی اور ملتان کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا جلسہ بخیرو خوبی ختم ہوا۔
The post مختار مسعود؛ ایک نوجوان دور حاضر کے عظیم خطیب سے ملنے کا خواہشمند ہے appeared first on ایکسپریس اردو.