Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

بموں کی ماں، بموں کا باپ

$
0
0

والدین یعنی ماں اور باپ کسی بھی شخص کی زندگی میں انمول دولت کی حیثیت رکھتے ہیں، ماں باپ کی شفقت، محبت، خلوص اور اپنے بچوں کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ ہی اس رشتے کو سب سے اہم اور قیمتی رشتہ بناتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے عالمی طاقتوں کا جنھوں نے ہر ایک کے لیے گوشہ عافیت سمجھے جانے والے رشتوں کو اس طرح استعمال کیا کہ تصویر ہی بدل گئی۔

احوال یہ ہے کہ روس اور امریکا نے اپنے سب سے خطرناک، جدید اور سب سے زیادہ تباہی پھیلانے والے بموں کو ’’ماں‘‘ اور ’’باپ‘‘ کے ناموں سے منسوب کردیا ہے، امریکا نے انتہائی جدید بم ’’بموں کی ماں‘‘ بنایا اور حال ہی میں افغانستان میں داعش کے خلاف اسے استعمال کیا تو دوسری طرف یہ خبریں سامنے آئی ہیں کہ روس کے پاس بھی ’’بموں کا باپ‘‘ موجود ہے، جو ’’بموں کی ماں‘‘ کے مقابلے میں زیادہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاسکتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں قارئین کے لیے ’’بموں کی ماں‘‘ اور ’’بموں کے باپ‘‘ کے حوالے سے کچھ مختصر معلومات پیش کی جا رہی ہیں جو یقینی طور پر پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہوں گی۔

امریکا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کا تیار کردہ بم ’’بموں کی ماں‘‘ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہلاکت اور تباہی پھیلاسکتا ہے۔ امریکی فوج نے اس بم کا پہلا باقاعدہ استعمال 13 اپریل 2017 کو افغانستان کے علاقے میں کیا، ننگرہار صوبے کے ضلع آچن (Achin) میں داعش کے جنگجوؤں کے خلاف اس غیر جوہری بم نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی، تقریباً 100 کے قریب داعش شدت پسند اس دھماکے میں ہلاک کیے گئے، دوسری جانب ’’بموں کی ماں‘‘ کے حملے کے اثرات افغانستان سے ملحق پاکستانی سرحدی علاقوں میں بھی محسوس کیے گئے، جہاں زمین میں تھرتھراہٹ سے کئی مکانات اور دیگر عمارتیں لرز کر رہ گئیں۔

اس بم کا سائنسی نام GBU-43/B Massive Ordnance Air Blast یعنی MOAB ہے، عام لفظوں میں MOABکو “Mother of All Bombs” بھی کہا جاتا ہے۔ امریکی ایئرفورس کی البرٹ ایل ویمورٹ جونیئر (Albert L Weimorts Jr) کی ریسرچ لیبارٹری میں تیار کردہ اس بم کو امریکی ہتھیاروں کے ذخیرے میں سب سے مہلک، خطرناک اور سب سے زیادہ تباہ کن ہتھیار کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ امریکا کی البرٹ ریسرچ لیبارٹری میں کام کرنے والے ایک سابق عہدے دار نے اس حوالے سے بتایا کہ 2017 سے قبل MOAB کو کبھی کسی جنگ میں یا مخالفین کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا کیوںکہ اس سے تباہی پھیلنے کی شدت دیگر بموں اور میزائلوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

عسکری حکام اور دفاعی تجزیہ کاروں کی رائے میں ’’بموں کی ماں‘‘ اور امریکا کے ’’ڈیزی کٹر‘‘ Daisy Cutter بموں میں کچھ نہ کچھ مماثلت پائی جاتی ہے۔ تاہم ڈیزی کٹر کے مقابلے میں MOAB زیادہ خطرناک ہے۔ امریکی فوج نے ڈیزی کٹر ویتنام اور 2003 کی جنگ کے دوران عراق میں استعمال کیا اور بقول امریکی فوج کے انھیں بہت زیادہ کام یابیاں بھی ملیں۔

’’بموں کی ماں‘‘MOAB کو بڑے جنگی مال بردار طیارے یعنی سی ون تھرٹی کی طرز کے جہاز سے ہدف کی جانب لے جایا جاتا ہے اور پھر پیراشوٹ کے ہدف کی جانب چھوڑا جاتا ہے، جس کے بعد بم آہستہ آہستہ خودکار نظام کے تحت اپنے ہدف کو نشانہ بناتا ہے۔ MOAB کا استعمال ان مقامات کے لیے زیادہ سودمند ہے جہاں فوجی دستوں کا زمینی راستوں سے پہنچنا بے حد مشکل ہو یا جہاں دشمن نے پہاڑوں کے اندر غاروں میں اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہوں جن کو ڈھونڈنا آسان نہ ہو۔

امریکی فوج نے ’’بموں کی ماں‘‘ کو پہلی بار 11 مارچ 2003 کو فلوریڈا کے ایگلن ایئرفورس بیس میں متعارف کرایا اور وہیں اس کا تجربہ کیا گیا جب کہ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ 21 نومبر 2003 کو دوبارہ MOAB کی آزمائش کی گئی اور دفاعی ماہرین نے اسے امریکی اسلحہ خانے میں ایک بہت اہم اور بڑا اضافہ قرار دیا تھا۔ ایک لاکھ 70 ہزار ڈالر مالیت کے اس ایک بم کی تیاری سے امریکی فوج کے پاس دشمن کو نفسیاتی طور پر دباؤ میں لانے کا بڑا ذریعہ میسر آگیا ہے۔ ابھی یہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ امریکا نے اب تک کتنے MOAB تیار کرلیے ہیں اور کتنے تکمیل کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔

امریکا کی جانب سے تیار کردہ ’’بموں کی ماں‘‘ MOAB کے مقابلے روس نے ’’بموں کا باپ‘‘ یعنی (FOAB) تیار کر رکھا ہے، اس حوالے سے روسی حکام اور دیگر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ’’بموں کے باپ‘‘ کے مقابلے میں ابھی تک دنیا میں کوئی ہتھیار نہیں بنا۔ ’’بموں کی ماں‘‘ کتنی بھی زیادہ تباہی پھیلائے لیکن ’’بموں کے باپ‘‘ کے مقابلے میں اس کی تباہی اور ہلاکت خیزی کی کوئی اہمیت نہیں۔ روسی فوج نے 2007 میں (FOAB) کا تجربہ کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کے حوالے سے روسی فوجی حکام کا دعویٰ ہے کہ ہمارا تیار کیا گیا بم یعنی ’’فادر آف آل بومبس‘‘ کی طاقت، تباہی پھیلانے کی صلاحیت ’’بموں کی ماں‘‘ کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ میں آنے والی رپورٹوں کے مطابق بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ روس کا ’’بموں کا باپ‘‘ دنیا بھر میں تمام غیرجوہری ہتھیاروں میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ مہلک ہے۔ روسی فوجی حکام کے مطابق ’’بموں کا باپ‘‘ گوکہ سائز میں ’’بموں کی ماں‘‘ کے مقابلے میں چھوٹا ہے لیکن اس کی تباہی کی شدت MOAB کے مقابلے میں تصور سے کہیں زیادہ ہے۔ ’’بموں کی ماں‘‘ اور ’’بموں کے باپ‘‘ میں کتنا فرق ہے، کون کتنا زیادہ تباہ کن ہے اور اس کی وجوہ کیا ہیں؟ اور کیوں ان بموں کو دنیا کے سب سے خطرناک غیر جوہری بم کہا جا رہا ہے۔ ان سوالات تک پہنچنے کے لیے ایک مختصر چارٹ میں دونوں بموں کی مختصر تفصیلات دیکھیں:

میڈیا رپورٹس کے مطابق ننگرہار میں داعش کے خلاف استعمال کیے جانے والے غیرجوہری بم کا وزن تقریباً 9800 کلوگرام تھا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم نے داعش کی سرنگوں اور غاروں کے نظام کو ٹارگٹ کیا جنھیں جنگجو اپنی کارروائیاں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کے لیے استعمال کرتے تھے اور وہ ہمارے لیے مسلسل خطرہ بنے ہوئے تھے۔

اس حملے کی تصدیق داعش نے بھی کی اور اپنے جنگجوؤں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی تصدیق بھی کی۔ دوسری جانب افغان لیڈروں نے امریکی حملے کا خیرمقدم کیا اور ’’بموں کی ماں‘‘ کے استعمال کو داعش کے خطرے کے خلاف بڑی اہم کارروائی قرار دیا۔

مقامی افغان عمائدین کا کہنا ہے کہ اس غیرجوہری بم نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی لیکن ہم اس سے خوش ہیں کیوںکہ اس سے شہریوں کا کوئی نقصان نہیں ہوا، صرف داعش کو نشانہ بنایا گیا۔ دوسری جانب سابق افغان صدر حامد کرزئی اور پاکستان میں افغان سفیر نے امریکی حملے کی سخت مذمت کی ہے اور اسے ایک غلط پالیسی قرار دیا ہے۔ افغان حکومت کے بعض اہلکاروں نے بھی ’’بموں کی ماں‘‘ کے اس حملے پر تحفظات کا اظہار اس طرح کیا کہ ہمیں امریکی حکام نے نہیں بتایا تھا کہ یہ بم اتنے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاسکتا ہے۔

دوسری طرف بعض سیاسی تجزیہ کاروں اور دفاعی ماہرین نے ننگرہار میں داعش کے خلاف غیر جوہری بم کے حملے کو امریکا کے دیگر مخالفین کے لیے ایک پیغام سے تعبیر کیا ہے۔ واشنگٹن میں کام کرنے والے انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تجزیہ نگار تیمور شاران(Timor Sharan) کا کہنا ہے کہ امریکا نے اپنے مخالفین خاص طور پر روس اور شمالی کوریا کو باور کرادیا ہے کہ وہ کسی کے خلاف بھی کسی بھی قسم کی کارروائی کرسکتا ہے۔

عالمی حالات دو واقعات کی روشنی میں اور دنیا بھر میں جاری قتل وغارت گری کی سنگین صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ امریکا اور روس جیسی عالمی طاقتیں جو دنیا بھر میں ہر مسئلے اور تنازعے میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہتی ہیں کہ وہ ہتھیار سازی اور خطرناک اسلحے کی خرید و فروخت کے کاروبار کو لپیٹ دیں، اپنی ہتھیاروں کی دکانیں بند کردیں اور اپنے اثر و رسوخ، تعلقات اور عالمی حیثیت کو عالمی امن کے قیام کے لیے استعمال کریں۔

اس وقت ہر سمت سے یہی آواز اٹھ رہی ہے کہ ’’بموں کی ماں‘‘ اور ’’بموں کے باپ‘‘ کو متعارف کرا کے اس پر فخر کرنے کے بجائے ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے ذریعے دنیا بھر پر تمام بچوں کے ماں باپ خوش اور مطمئن ہیں اور انھیں اپنے بچوں کی سیکیوریٹی کے حوالے سے کسی قسم کے اندیشے نہ ہوں۔ دنیا بھر میں حالات ویسے ہی جنگی کیفیت کے ہیں، ایسے میں نت نئے ہتھیار بنانا اور انھیں متعارف کرانا تخریب کاروں اور دہشت گردوں کو ترغیب دینے کے مترادف ہے۔

کتنا اچھا ہو کہ دنیا بھر میں ’’بموں کی ماں‘‘ اور ’’بموں کا باپ‘‘ مستقل طور پر ختم کردیا جائے اور ان کی جگہ ’’ترقی و خوش حالی کی ماں‘‘ اور ’’ترقی و خوش حالی کے باپ‘‘ کو سامنے لایا جائے، یہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے عالمی طاقتوں کو اپنی ’’میں‘‘ ختم کرنا ہوگی۔

The post بموں کی ماں، بموں کا باپ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>