Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

بُک شیلف

$
0
0

ہمارے مسائل کا حل بحوالہ قرآنی آیات
مصنف: خان آصف
قیمت: 200 روپے
ناشر: القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ چوک اردو بازار، لاہور

جب ہم بچے تھے تو جب بھی کوئی خطرہ محسوس ہوتا تھا، کسی مشکل سے دوچار ہوتے تھے تو فوراً ماں کی گود میں پناہ لے کر محفوظ و مامون ہوجاتے تھے۔ ایسا ہی ہے ناں؟ ماں کی گود کا یہ مکمل تحفظ ایک کائناتی حقیقت ہے۔ اس سے 70 گنا بڑی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے سے محبت ستر ماؤں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنے بندے کو خطرات و مشکلات سے محفوظ بھی اسی درجہ میں کرتا ہے۔ آپ اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ستر مائیں مل کر ایک بچے کو جس قدر تحفظ فراہم کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے اس سے بھی زیادہ حفاظتی انتظام فرماتا ہے۔

ہم میں سے ہر ایک جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوتا ہے اور روحانی عوارض میں بھی۔ ہم دشمنوں اور مخالفین کے حسد کا شکار بھی ہوتے ہیں، ہم میں سے بعض اولاد کی نعمت سے محروم رہتے ہیں، ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے کاروباری ترقی نصیب ہو، سب اپنی حاجات کو پورا ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں، مشکلات کو دور کرنا چاہتے ہیں، ہر ایک چاہتا ہے کہ جھٹ سے قرض کے بوجھ سے آزاد ہو جائے، ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ رزق فراواں میسر ہو، ہر کوئی جان ومال کی سلامتی چاہتاہے، چاہتا ہے کہ ہماری نافرمان اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے۔

مال چوری یا گم ہوجائے تو جلدی مل جائے، بہت سوں کو جھوٹے مقدمات اور ظالم شخص کی قید کا سامنا ہوتا ہے اور بہت سے چاہتے ہیں کہ ان کی شادی ہو جائے۔آج کے دور میں بہت سے والدین بیٹیوں کی شادی کے لئے بہت پریشان ہوتے ہیں ۔ یہ اور اُن جیسے مزید مسائل سے کیسے نجات مل سکتی ہے بھلا! یقیناً اللہ کی پناہ ہی میں سب کچھ ملے گا۔

سوال یہ ہے کہ ان مسائل سے نجات کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے کن الفاظ کے ساتھ پناہ طلب کریں؟ جی ہاں! وہی الفاظ جو خود اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہمیں سکھاتی ہے۔ زیرنظرکتاب اسی اعتبار سے ہمیں رہنمائی کرتی ہے۔ یہ اُن ٹی وی پروگرامات کا مجموعہ ہے جو ایک نجی ٹی وی چینل پر ’ آپ کے مسائل اور ان کا حل‘ کے نام سے نشر ہوتے رہے۔ کتاب میں اسماء الحسنیٰ، سورہ،الفاتحہ، البقرہ، الاخلاص کے فیوض وبرکات کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کیجئے اور اللہ کی پناہ میں محفوظ و مامون زندگی بسر کیجئے۔

بچوں کے حالی
مصنف: ڈاکٹر سید تقی عابدی
قیمت:300 روپے،ناشر: بک کارنر، جہلم پاکستان

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ قدرت جس شخص سے دنیا میں کوئی بہت بڑا کام لیناچاہتی ہے، اسے اکثر بچپن ہی میں ماں یا باپ کی آغوشِ شفقت سے جدا کردیتی ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی پیدا ہوئے تو والدہ ایک ذہنی عارضہ کا شکار ہوگئیں اور بچے کی پرورش کے قابل نہ رہیں، نو برس کے ہوئے تو والد کا انتقال ہوا۔ نتیجتاً ان کی پرورش بڑے بھائی امداد حسین نے کی۔ بھلے وقتوں میں گھر پر ہی تعلیم ہوتی تھی یا بچہ کسی کے ہاں پڑھنے جاتا تھا۔آج کل انگریزی زبان میں اسے ’ہوم سکولنگ‘ کہا جاتا ہے۔ الطاف حسین حالی نے بھی اسی انداز میں پہلے فارسی اور پھر عربی کی تعلیم حاصل کی۔

شادی ہوئی، روزگار ملا، پھر بے روزگار ہوئے لیکن تحصیل علم کا سلسلہ منقطع نہ ہوا، منطق، فلسفہ اور حدیث پڑھا۔ دلی میں تھے، جب شاعری کا شوق چرایا، ایک فارسی غزل لکھ کر مرزا اسداللہ خان غالب کو دکھائی۔ وہ کہنے لگے کہ اگرچہ میں کسی کو شعر کی صلاح نہیں دیا کرتا لیکن تمہاری نسبت میرا یہ خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے۔ پھر نواب شیفتہ اور مومن خان کو بھی کلام دکھاتے رہے۔ پھر وہ وقت آیا جب حالی ایسے ممتاز شاعر بنے جنھوں نے روایتی اور جدید شاعری کی۔

ان کے تمام تر کلام کا مطالعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے بچوں اور نئی نسل کے نوجوانوں میں تعلیم و تربیت کا شوق، محنت اور کوشش کی عادت، شرافت اور انسانیت کی نمو، اخلاق وکردار سازی کے ساتھ ساتھ وقت کی قدر، ہمت و استقلال کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ بزرگوں پر اخلاقی فرض ہے کہ وہ بچوں کی راہنمائی کریں، تاہم اکثر لوگ غفلت برتتے ہیں چنانچہ انھوں نے خود ہی سیدھی سادہ زبان میں میٹھے میٹھے انداز میں ان قدروں کو اپنی نظموں میں ایسا پیش کیا جو فوری دل نشین ہوگئیں۔

زیرنظرکتاب اپنے عنوان ہی سے اپنا آپ ظاہر کر رہی ہے۔آغاز میں ’حالی کی کہانی حالی کی زبانی‘ بیان کی گئی ہے۔ اگلے ابواب میں مولانا کی حیات وشخصیت اور بچوں کی نظموں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پھر بچوں کی نظمیں بھی شامل کردی گئی ہیں۔ اردو شعر و ادب کے مجدد پر بہت کچھ لکھا گیا ہے تاہم’ بچوں کے حالی‘ ایک منفرد پیشکش ہے۔

ارقم نمبر 5 (جریدہ)
مدیر : ڈاکٹر ظفر حسین ظفر،قیمت : 800 روپے
زیرِ اہتمام :بزمِ ارقم، راولا کوٹ، آزاد کشمیر

’’ارقم‘‘ایک علمی و ادبی مجلہ ہے۔ اس کے زیر نظر شمارہ کو ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے مجلسِ ادارت ( ڈاکٹر افتخار شفیع، ڈاکٹر خواجہ زاہد عزیز، ڈاکٹر عبدالکریم، فیاض نقی اور اعجاز نقی )کی مدد اور تعاون سے مرتب کیا ہے۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں اردو زبان و ادب کے استاد، ان کے معاونین نا مور اساتذہ اور نقاد ہیں۔ مجلس مشاورت میں بھی پاک وہند کے نامور اساتذہ کرام اور صحافی شامل ہیں۔

اس وقیع اور علمی مجلہ کے اداریہ میں مدیر نے مغرب کے شکستہ حال خاندانی نظام پر مدلل انداز میں چوٹ کی ہے اور وطنِ عزیز میں جاری دہشت گر د ی کی لہر کا حل فکرِ اقبال کی روشنی میں بتایا ہے۔مجلے کا آغاز سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ایک غیر مطبوعہ اور نادر تحریر بعنوان’’نبی کریمؐ بحیثیت ایک مدبر اور ماہر سیاست‘‘ سے ہوتا ہے۔ مجلے کے دس عنوانات ہیں جن میں سیرت، مشاہیر ، یادِ غالب، کشمیریات، سفرنامہ، تحقیق،آپ بیتی، تبصرہ کتب،’’ارقم‘‘ کے لیے مراسلت اور آخر میں اشاریہ۔ مشاہیر میں یادِ غالب،کیپٹن حسین خاں شہید، پروفیسر محبوب الرحمن (مرحوم) یادیں اور مکتوبات، بابائے پونچھ کرنل محمد خاں اور شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف پر مضامین ہیں۔

’’سفرنامہ ‘‘ میں ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر سابق صدر شعبہ تاریخ کراچی یونیورسٹی کا سفر نامہ ’’اذنِ سفر دیا تھا کیوں؟ کے چند صفحات دیے گئے ہیں، جبکہ تحقیق میں ڈاکٹر محمد جاوید کے مضمون ’’سید مودودی بحیثیت نثر نگارمیں‘‘ سید ابوالاعلیٰ کی نثر نگاری کو بہت اچھے انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ یاسر ذی شان صاحب کا مضمون ’’سیالکوٹ میں اقبال کے اساتذہ‘‘ اقبال کے اساتذہ کا مختصر مگر جامع انداز میں تعارف کرواتا ہے۔آپ بیتی، تبصرہ کتب، ارقم کے لیے، مراسلت اور آخر میں اشاریہ مجلے کی اہمیت کو دوچند کر دیتا ہے۔ مضمون کے آخر میں حوالہ جات کا اہتمام بھی کیا گیا ہے، جو تحقیق کا کام کرنے والوں کے لیے علم کے مزید دریچے وا کرتا ہے۔ ’’ارقم‘‘ کا سلسلہ اشاعت یونہی جاری رہا تو یہ علمی دنیا کا ایک نامور اور قابلِ اعتماد مجلہ بن جائے گا ان شاء اللہ۔

عشق کدہ
مصنفہ: نائلہ طارق،قیمت: 500 روپے
ناشر: القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ، چوک اردو بازار، لاہور

اس کائنات میں ہرطرف رنگ ہی رنگ بکھرے ہیں مگر جس طرح رنگ برنگ پھولوں کے درمیان خار بھی موجود ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کائنات کے ان خوبصورت رنگوں میں زندگی کی تلخیاں بھی پوری سچائی کے ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ غم، خوشی، محبت، نفرت، اذیت، آہیں… یہ تمام حقیقتیں ان ہی انسانوں کی زندگی میں دکھائی دیتی ہیں جن کے لئے اس کائنات میں رنگ سجائے گئے ہیں۔ ایک ہجوم سے کرداروں کو چُن چُن کے سامنے لانا مشکل نہیں، مشکل ہے تو ان کے جذبات و احساسات کو زبان دینا۔اس اعتبار سے نائلہ طارق نے یہ طویل کہانیاں لکھتے ہوئے کمال کردکھایا ہے۔

زیرنظرکتاب پانچ طویل کہانیوں کا مجموعہ ہے، ’عشق کدہ‘، ’یارِمن‘، ’نہیں ہو بے وفا مگر‘، ‘محبت خانہ بدوش‘ اور ’ڈیفوڈلز‘۔ ان کہانیوں میںکیاکچھ ہے، یہ تو آپ کو کہانیاں پڑھ کر ہی پتہ چلے گا۔ ہر انسان اپنی زندگی کی کہانی کا ایک مکمل اور مرکزی کردار ہوتا ہے اس حقیقت کے برعکس کہ وہ کتنا مثبت یا منفی ہے۔ان گنت ایسے کردار ہیں جو صفحہ قرطاس پر تحریر ہوکر امر ہوناچاہتے ہیں۔ مصنفہ نے جن کرداروں کو تحریر کیا، انھیں امر ہی توکردیا ہے۔ القریش پبلی کیشنز نے کہانیوں کو جس عمدگی اور اہتمام سے شائع کیا ہے، وہ لائق صد تحسین ہے۔

میرا دل فاختہ دا آہلنا اے
شاعر: ڈاکٹر جواز جعفری
قیمت:300 روپے،صفحات:160
ناشر: فکشن ہاؤس، مزنگ روڈ، لاہور

ممتاز شاعر ڈاکٹر جواز جعفری کا امن اور جنگ کے حوالے سے شعری مجموعہ ’’ میرا دل فاختہ دا آہلنا اے‘‘ اردو زبان میں امن کے موضوع پر سامنے آنے والی ان کی اپنی کتاب ’’ موت کا ہاتھ کلائی پر ہے‘‘ کا پنجابی ترجمہ ہے جو انھوں نے خود کیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے روایتی و غیر روایتی جنگوں ، ایٹمی و جوہری ہتھیاروں، ریاستی و غیر ریاستی فوجوں اور جنگی ذہنیت کی مزاحمت کرتے ہوئے ایک خوشحال، محفوظ، پرامن اور قابل رہائش دنیا کی تعمیر کا خواب دیکھا ہے۔ ڈاکٹر جواز جعفری ایک امن پسند شاعر ہیں، نہ صرف ان کی نظموں کے تراجم دنیا کی بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں بلکہ انھیں دو عالمی ایوارڈز کے علاوہ صدر پاکستان بھی پاکستان میں انسانی حقوق کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نواز چکے ہیں۔

پاکستان کے موجودہ تناظر میں علمی و ادبی حلقے اس شعری مجموعے کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ یہ شاعری عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ صرف دہشت گرد آوازوں کو ہی پاکستان کا تعارف نہ سمجھا جائے بلکہ ہماری اصل شناخت ڈاکٹر جواز جعفری جیسی آوازیں ہیں جو اپنے اندر انسانیت کے لیے امن اور محبت کا پیغام رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر جواز جعفری نے ان نظموں کو پنجابی میں ترجمہ کرتے ہوئے ایک نئی تخلیقی شان دی ہے۔ اس مجموعے میں زبان کے حوالے سے پنجاب کے وسیع علاقوں کی نمائندگی موجود ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر جواز جعفری کی دو درجن کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور آجکل وہ ایم اے او کالج لاہور میں چیئرمین شعبہ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

سفرنامہ ناصرخسرو
مترجم : محمد عبدالرزاق کانپوری
قیمت: 1200روپے،ناشر: بک کارنر، جہلم پاکستان


حکیم ناصرخسرو چوتھی صدی ہجری کے شاعر، ادیب، فلسفی، سیاح اور دانش ور تھے، تعلق خراسان سے تھا، آباؤ اجداد مامون الرشید کے زمانے ہی سے خراسان میں رہائش پذیر تھے۔ ناصر خسرو کو صرف ونحو، انشا اور اصول و فنون میں مہارت تامہ تھی۔ علم نجوم، رمل وفلسفہ، منطق، کلام اور بدیع ومعانی پر مکمل دسترس تھی، صحف سماویہ اور کتب سابقہ (تورات، زبور اور انجیل) پر گہری نظر تھی، عربی، فارسی کے علاوہ عبرانی زبان سے خوب شناسائی تھی۔ چنانچہ انھیں علم وفضل، شعروادب، فکروفن میں آفاقی شہرت حاصل ہوئی تو ’مرو‘ کے حکمران چغربک نے مقرب خاص بنا لیا۔ علم وادب اور فلسفہ وحکمت کے میدان میں انھوں نے کئی کتب یادگار چھوڑیں۔

ان میں سے بھی جس کتاب کو خوب مقبولیت ملی وہ ان کا یہی سفرنامہ ہے۔ ان کی حکیمانہ بصیرت، فکر گہرائی و گیرائی، حسنِ خیال، دقتِ مشاہدہ، وسعتِ مطالعہ، طرز ِتحریر اور اسلوبِ بیان نے اس سفرنامے کو ایجاز و جامعیت کا پیرہن پہنادیا۔ وہ جہاں کہیں سے گزرے، دقت نظر سے اشیا و اشخاص اور مقامات کو دیکھا، معاشرتی احوال اور تہذیبی اقدار پر بھرپور توجہ دی۔ جہاں کہیں ٹھہرے وہاں کے لوگوں کے اطوار وکردار اور احوال وآثار کو دیکھا، سمجھا اور مختصر مگر جامع طور پر بیان کیا۔

سات برسوں پر مشتمل سفرنامہ قاری کو خراسان سے عراق عجم، آذربائیجان، آرمینیا، شام، فلسطین کی سیر کراتا ہوا حرمین طیبین میں لے جاتا ہے۔ سب مقامات کی قدم بہ قدم رودادِ سفر دراصل ایک تاریخ ہے جو ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو چکی ہے۔ایک ہزار برس قبل لکھے جانے والے اس سفرنامے کی خصوصیت ہے کہ اس میں مبالغہ آمیزی سے پرہیز کیا گیا ہے، غیرمستند روایات وحکایات کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔

جہاں کہیں حکیم نے کوئی ایسا قصہ بیان کیا جس کی تفصیلات کو وہ ذاتی طور پر قبول نہ کر سکے اور نہ ہی ذاتی مشاہدہ کیا تو اس کی طرف اشارہ کرکے وضاحت کردی کہ لوگوں میں ایسا مشہور تھا، اپنی طرف سے ثقاہت کی سند نہیں دی۔ یہی وہ بنیادی خصوصیت ہے جو اس سفرنامے کو اہلِ علم و صاحب ذوق طبقہ کی توجہ کا مرکز بناتی ہے۔’بک کارنر‘ نے اس ضخیم سفرنامہ کی اشاعت وطباعت کے تمام تقاضوں کو بہترین انداز میں پورا کرکے ایک قابل قدر خدمت سرانجام دی ہے۔

فِکر ِ غامدی ( ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ )
 مصنف: ڈاکٹر حافظ محمد زبیر
 صفحات: 400، قیمت: 400/  روپے
 ناشر: مکتبہ رحمتہ اللعالمین ، لاہور

زیر تبصرہ کتاب یونیورسٹی آف سرگودھا کے اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ علوم اسلامیہ ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جن میں معروف سکالر علامہ جاوید احمد غامدی کے فکرو فلسفہ کو موضوع بنایا گیا ہے اور ان پر نقد و جرح کی گئی ہے۔ علامہ جاوید احمد غامدی عہد ِ موجود کے ان دینی سکالرز میں نمایاں ہیں جن کے اصول و نظریات اور فہم دین کے حوالے سے ایک بڑے طبقے کو اعتراضات و تحفظات ہیں۔ پاکستان میں ان کے ’’ باغیانہ ‘‘ اندازِ فکر پر بعض حلقوں نے شدید اختلافات ظاہر کیے اور کچھ انتہا پسندوں نے تو انہیں باقاعدہ ’’ خطرناک نتائج ‘‘ کی دھمکیاں بھی دیں۔

چنانچہ اس ’’ گھٹن زدہ ‘‘ ماحول میں انہوں نے جب محسوس کیا کہ اس مملکت خدادادِ پاکستان میں ان کے نظریات کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہے اور وہ اس کے رد عمل کے طور پر کسی بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتے ہیں تو انہوں نے وطن ِ مولوف کو خیر آباد کہنے ہی میں عافیت جانی۔ اور اب کئی برس سے بیرون ملک مقیم ہیں او ر وہیں پر ’’ خدمت ِ دیں ‘‘ کا کام انجام دے رہے ہیں۔ علامہ جاوید احمد غامدی کے نظریات اور فکر وفلسفہ پر اگرچہ متعدد افراد نے نقدو جرح کی ہے لیکن بیشتر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان میں زیادہ تر ’’ طعن و تشنیع اور تضحیک و استہزا ء ‘‘ پر مبنی ہیں۔ اصولی یا منطق اور استدلال کے ساتھ تنقید کا حق ادا نہیں کیا گیا۔ چنانچہ اس قسم کی تنقید کو غامدی صاحب کے حلقہ کے سکالرز نے مسترد کردیا ہے۔

تاہم اس کتاب کے مصنف کا دعویٰ ہے کہ انہوںنے جناب غامدی ہی کے اسلوب ِ تنقید اور اصولوں کی روشنی میں ان کی تحریروں کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد یہ مضامین لکھے ہیں۔ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان مضامین میں علامہ صاحب کی ذات کو موضوع نہیں بنایا گیا بلکہ ان کے افکارو نظریات کو ہد ف تنقید بنایا گیا ہے اور ’’ اصولی اور فکری ‘‘ سطح پر مستند حوالوں اور استدلال کے ساتھ غامدی صاحب کے نظریات کا ابطال کیا گیا ہے۔ ان اصولوں سے بحث کی گئی ہے جن پر علامہ غامدی کے مجتہددانہ نظریات کی اساس ہے۔

اس اعتبار سے یہ کتاب عام قاری سے زیادہ اہل ِ علم کے لیے زیادہ موزوں ہے۔کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے ان میں دین کے منتقل اور حجت ہونے کا بنیادی ذریعہ اجماع یا خبر واحد؟، جاوید احمد غامدی صاحب کا تصورِ قرآن، اصول ِ تفسیر، تصورِ سنت، تصورِ فطرت، تصورِ خیروشر اور حلال وحرام، تصورِکتاب اور مکاتیب کے عنوانات کے تحت شائع کیے گئے ہیں۔ ہر باب میں پوری تفصیل کے ساتھ موضوع پر بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب حقیقت میں ان چند کتابوں میں سے ایک ہے جو سنجیدہ مطالعہ کا تقاضا کرتی ہے۔

آج جبکہ دین کے حوالے سے مختلف حلقوں کی طرف سے نئی نئی تعبیریں سامنے آرہی ہیں، دین مخالف قوتیں خاص طور پر دین کی اصلی شکل کو مسخ کرنے میں مصروف ہیں ایسے میں اس قسم کے مباحث کو علمی و تحقیقی سطح پر زیر غور لانا، کسی انتشارِ فکری سے بچتے ہوئے ہر قسم کے تعصب سے بالا تر ہوکر محض حقائق تک رسائی حاصل کرنے کے لیے انہیں نتیجہ خیز بنانا ضروری بن جاتا ہے۔اس کتاب میں جن موضوعات اور اصولوں پر بحث کی گئی ہے انہیں حتمی یا حرف ِ آخر نہیں سمجھ لینا چاہئے۔ تاہم ان کی روشنی میںنہ صرف علامہ جاوید احمد غامدی کے نظریات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ ان سے غورو فکر کی مزید راہیں کھولنے میںبھی مدد لی جاسکتی ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>