اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کا بدترین شکار ہونے والے دس ممالک کی فہرست میں پاکستان دو دہائیوں سے موجود ہے۔ صرف اس کے نمبر بدلتے رہتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی قدرتی آفات کو بڑھاوا دیتی ہے اور سیلاب، کم دورانیے کی تیز بارشیں، برفانی اور سمندری طوفان اور خشک سالی پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کی معیشت پر بدترین اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے نتیجے میں وہی لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو پہلے ہی غربت کے ہاتھوں بدحال ہوتے ہیں۔
ان آفات میں نہ صرف جانی نقصان ہوتا ہے بلکہ یہ لوگ اپنے گھر، مال واسباب اور فصلوں تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایسے ہی متاثرین تک رسائی اور ان کے نقصان کا ازالہ کرنے کی غرض سے حکومت پاکستان نے پہلا انشورنس فریم ورک تیار کیا ہے، تاکہ ان غریب لوگوں کو ان کے نقصان کے ازالے کے لیے انشورنس کی سہولت مل سکے۔ یہ فریم ورک حکومت کے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (NDMA) اور لیڈ پاکستان LEADPakistan)) کے پروگرام (CDKN) Network Climate & Development knowlegdeکے تحت مشترکہ طور پر تشکیل دیا گیا ہے۔
آفات کے خط
رات کو کم کرنے، فوری کارروائی اور بحالی کے حوالے سے حکمت عملی اور پروگراموں کے نفاذ کے لیے تعاون اور انہیں سہل بنانے کے لیے مرکزی اور راہ نما ادارے کی حیثیت سے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ مزید اقدامات کے طور پر صوبائی، علاقائی اور ضلعی سطح پر بھی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز قائم کی گئی ہیں۔
این ڈی ایم اے آفات سے نمٹنے کی صلاحیت میں بہتری کے لیے مختلف منصوبوں، حکمت عملیوں اور پروگراموں کی تیاری کے حوالے سے قومی و صوبائی سطح پر تیکنیکی مدد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ صلاحیت و مہارت میں اضافے کے لیے بھی مختلف پروگراموں پرکام کر رہی ہے۔
لیڈ پاکستان کے سی ای او علی توقیر شیخ کے مطابق موجودہ انشورنس فریم ورک تھرپارکر، پونچھ، چارسدہ، راولپنڈی اور زیارت کے اضلاع کے تحقیقی نتائج پر مبنی ہے۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ پچھلی تین دہائیوں میں پاکستان کو قدرتی آفات سے 35 ارب ڈالر کا مجموعی نقصان پہنچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت قدرتی آفات سے متاثرہ لوگوں کو محفوظ بنانے کے لیے بہت پُرعزم ہے۔ ڈیزاسٹررسک انشورنس فریم ورک غیرمحفوظ افراد کو سستی اور قابل رسائی انشورنس مہیا کرنے کا جدید طریقہ ہے جو کہ غیرمحفوظ علاقوں میں آفات کے نتیجے میں ہونے والے عوام الناس کے نقصانات کا ازالہ کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے مستقبل میں قدرتی آفات سے مکمل طور پر نبرد آزما ہونے کی غرض سے جو جامع انشورنس فریم ورک متعارف کروایا ہے اس کا مقصد متاثر ہونے والی قومی معیشت اور مختلف کمیونٹی کو ہونے والے نقصانات کی فوری تلافی ہے۔ اس حوالے سے غیرملکی انشورنس کمپنیاں، ملکی انشورنس کمپنیوں کے ساتھ مل کر ان قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان پر یک مشت معاوضے کی ادائیگی کے لیے معاونت فراہم کریں گی۔ اس انشورنس کی سہولت سے دیہاتی اور شہری افراد یکساں مستفید ہوں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت صرف ان افراد کا پریمیم ادا کرے گی جو غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہیں، پریمیم کی ادائیگی کے لیے زکوٰاۃ فنڈ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مختص کردہ فنڈز کو بھی استعمال کیا جاسکے گا۔ اس حوالے سے ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ قدرتی آفات کا شکار ان لوگوں کی بحالی کے لیے تیار کی جانے والی انشورنس کی سہولت کے حوالے سے ایشیائی ترقیاتی بینک نے 200 ملین ڈالر کی امداد منظور کی ہے۔ اس کے علاوہ آفت زدہ علاقوں میں کام کرنے والے اداروں کی مہارت اور صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے بھی 1 ملین ڈالرز مختص کیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے آسٹریلیا کی حکومت نے پہلے ہی3.3 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے جس کا انتظام ایشیائی ترقیاتی بینک ہی کے پاس ہے۔ بینک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس خطیر رقم سے نیشنل ڈیزاسٹررسک مینجمنٹ فنڈ (NDRMF) کی مدد سے متاثرہ علاقوں میں مالیاتی حوالے سے صورت حال بہتر ہوسکے گی اور متاثرہ افراد کی بحالی کا دائرہ کار بھی وسیع ہوگا۔NDRMF ایک انشورنس ایگریمنٹ کی تیاری پر بھی کام کررہا ہے تاکہ اس حوالے سے مارکیٹ پیدا کی جاسکے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (NDMA) سے وابستہ احمد کمال کا اس انشورنس فریم ورک کے حوالے سے کہنا تھا کہ ابھی یہ فریم ورک ہے، اس کے پائلٹ پروجیکٹ کے بعد ہی صورت حال سامنے آ ئے گی۔ اگرچہ یہ بہت اچھا اقدام ہے اور اس کے پائلٹ کے بعد اس کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں Fund Management Risk National یعنی (NRMF) قائم کیا گیا ہے۔ اس میں ایک حصہ انشورنس کا ہے۔
پائلٹ پروجیکٹ کے لیے اس فنڈ سے پیسہ لیا جاسکتا ہے۔ اس فریم ورک کے حوالے سے ضروری ہے کہ لوگوں میں شعورو آگہی پیدا کی جائے۔ اس فریم ورک کے متعلق لوگوں کو زیادہ سے زیادہ آگاہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ضلعی اور تحصیل کی سطح پر موجود اداروں کی صلاحیتوں اور استعداد کار میں اضافہ کیا جائے تبھی آفات سے بہ حسن و خوبی نمٹا جاسکے گا۔
گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس نامی ادارے نے پاکستان کو قدرتی آفات کا بدترین شکار ممالک میں شامل کیا ہے۔ خصوصاً 1995 سے 2014 ، ان انیس سالوں کے درمیان ملک شدید ترین آفات کا شکار رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی ان شدید آفات کا نتیجہ بھاری جانی، مالی نقصان کی صورت میں نکلتا ہے اور معیشت پر بھی برے اثرات رونما ہوتے ہیں۔ یہ حادثات لوگوں کے ذرائع روزگار کو تباہ کرکے انہیں مزید بدحال بناتے ہیں۔ اس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر ہجرت کی شکل میں نکلتا ہے۔ ان علاقوں سے کاروبار اور تجارت ختم ہوجاتی ہیں اور مارکیٹ غیر مستحکم ہوجاتی ہیں۔
صرف سیلابوں کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو 1.2 ڈالرز سے 1.8بلین ڈالرز کا نقصان ہوا تھا جو GDP کا 0.5 سے0.8 فی صد بنتا ہے۔
دو ہزار دس کے بدترین سیلاب کے بعد ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے مشترکہ طور پر سروے کیا تھے، جسے Assessment Damage And Need (DNA) بھی کہتے ہیں۔ اس کے مطابق صرف تعمیرات کی مد میں حکومت اور لوگوں کی ذاتی املاک کا نقصان 854 بلین روپے تھا۔ اس نقصان کے عوض شاید ہی کہیں انشورنس کی مد میں کوئی امداد فراہم کی گئی ہو۔ صورت حال کی ابتری کو دیکھتے ہوئے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ انشورنس کی اس سہولت کے مثبت نتائج نکلیں گے اور متاثرہ لوگوں کی بحالی کا عمل آسان ہوجائے گا۔
انشورنس کا شعبہ پاکستان جیسے ترقی پزیر اور آفات کا شکار ممالک میں موثر ثابت ہوسکتا ہے، کئی ممالک میں یہ شعبہ خاندان اور کاروباری سطح پر کلائمیٹ چینج سے ہم آہنگی کے لیے اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اس وقت نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز انشورنس کمپنیوں کے ساتھ کام کررہی ہیں، تاکہ گھر اور کاروبار کی بحالی اور انشورنس کے حوالے سے وسیع امکانات تلاش کرسکیں۔ فصلوں پر انشورنس کی سہولت کا تجربہ 2008 میں خریف کی فصل میں کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ اور نیشنل بینک کے درمیان ایک معاہدہ تشکیل پایا تھا، تاکہ قدرتی آفات کے نتیجے میں کسانوں کو انشورنس کی سہولت مہیا ہو اور وہ آسان زرعی قرضہ بھی لے سکیں۔
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ موسموں کے تغیر سے بارشوں کی مقدار اور دریاؤں میں پانی کے بہائو میں کمی بلاشبہہ لاکھوں لوگوں پر اثرانداز ہوگی اور پانی کی کمی کی وجہ سے ہی ایشیا کے کچھ ایسے حصوں جو خاص طور پر کم پانی والے یا خشک علاقے ہیں، وہاں کشیدگی پیدا ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ سائنس دانوں کا مزید کہنا ہے کہ آبی وسائل کی بدانتظامی یقینا خشک سالی اور موجودہ کشیدگی میں اضافہ کرے گی۔ بدلتے موسموں کے اثرات یا کلائمیٹ چینج کچھ علاقوں جیسے بھارتی پنجاب، راجستھان اور ہریانہ ریاست میں آب پاشی اور دیگر ضروریات کے لیے زیرزمین پانی کے ناپائے دار یا غیردانش مندانہ استعمال کو مزید پیچیدہ کرسکتا ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں جنوبی ایشیا میں پانی کے فراہمی کے نظام کے لیے بھی ایک چیلینج ثابت ہوں گی اور زراعت اور لائیو اسٹاک پر اس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت سے علاقے اشیائے خورونوش کی کمی یا غذائی قلت کا سامنا کرسکتے ہیں، جب کہ جنوبی ایشیا میں پہلے ہی غذائی قلت کا شکار لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ بڑھتا ہوا درجۂ حرارت چاول کی پیداوار میں کمی کرسکتا ہے، کیوںکہ گرم موسم میں چاول کی فصل کو پکنے کے لیے کم وقت ملے گا۔
سطح سمندر میں اضافہ بھی کئی ایشیائی ساحلی علاقوں کے لیے خطرہ ہے اور نشیبی علاقوں کے زیرآب آنے کی صور ت میں چاولوں کے پیداواری علاقوں میں بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کئی ممالک کا ایک بڑا ذریعہ روزگار اور غذا میں پروٹین کے حصول کا بڑا ذریعہ ماہی گیری بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے منفی طور پر متاثر ہوسکتی ہے۔ خاص طور پر جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں اس کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ بدلتے موسموں میں تغیرات اور ان قدرتی آفات سے متاثرہ لوگوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آفات کے حوالے سے ایک موثر انشورنس کی صنعت بہت جلد اپنی جگہ بنالے گی۔
پاکستان کے لیے بڑے خطرات کیا ہیں:
• موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بیماریاں پھیلتی ہیں۔ جو ملیریا، ہیضہ، پیچش اور گندے پانی سے پیدا ہونے والے دیگر امراض کا باعث بنتی ہیں۔
• گلیشیئرز کے پگھلاؤ سے دریائے سندھ اور ہمارے مشرقی دریاؤں میں تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
• بین السرحدی واقعات مثلاً بھارت میں تیز سیلاب، جو نچلے آبی علاقے میں واقع پاکستان کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔
• طویل عرصے تک بارش میں کمی جو طویل المیعاد خشک سالی کا نتیجہ بنتی ہے۔
• ہمارے ساحلوں پر بڑے پیمانے پر تباہی جو سطح سمندر میں اضافے، آندھی، طوفان اور سونامی وغیرہ کا باعث بن سکتی ہے۔
• وسیع علاقے میں ریت کے طوفان، بجلی کا گرنا اور ژالہ باری، جن سے امدادی کارروائیوں میں مشکل پیش آئے۔
قدرتی آفات
• زلزلے
• سیلاب
• سونامی
• برفانی تودوں کا پھسلنا
• زمینی تودوں کا پھسلنا
• آندھی ، طوفان
• گلیشیائی جھیلوں سے اخراج کے نتیجے میں سیلاب (GLOF)
• خشک سالی
• دریاؤں کی فرسودگی
• کیڑوں کا فصلوں پرحملہ
• وبائی امراض
غیر قدرتی آفات
• ذرائع نقل و حمل کے حادثات
• تیل بہہ جانا
• شہری آتش زدگی
• شہری تنازعات
• بین الاقوامی سطح پر نقل مکانی
• حادثات
موافقت کے مراکز کی ضرورت کیوںکہ:
• ملک کے آٹھوں زرعی ماحولیاتی خطوں میں خطرات کی نوعیت مختلف اور بہت زیادہ ہے
• 20 کروڑ آبادی کے ساتھ، جو 2035ء تک دو گنی ہونے کی توقع ہے، موسمی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنا ایک مہنگا معاملہ ہے۔
ان تبدیلیوں سے ہم آہنگی ، موافق تیکنیک اور جدید مہارت کی بنیادی معلومات کے بغیر ناممکن ہے۔
• موافق حکمت عملی
• آفات سے نمٹنے کی تفصیلی منصوبہ بندی اور نقشہ سازی۔
زیادہ خطرات کے حامل علاقے مثلاً پہاڑ، دریائے سندھ کا ڈیلٹا، بلوچستان، اور سیلاب کے خطرے سے دوچار زیریں علاقوں میں فوری بحالی کے اقدامات کی صلاحیت میں بہتری۔
• بروقت خبردار کرنے کے نظام کی تنصیب اور موسمیاتی خدمات میں بہتری۔
• طبعی بنیادی ڈھانچے اور تعمیراتی ضابطوں پر نظرثانی
• موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے (خطرناک علاقوں میں زندگی اور املاک کی) بیمہ کی سہولت کا تعارف۔
• موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر وجوہات کے تحت آنے والی آفات سے نمٹنے کے لیے ضلع و تحصیل کی سطح پر شہری دفاع جیسے اداروں کی صلاحیت میں اضافہ۔
• موسمیاتی آفات فنڈ کا قیام۔
• کم ، درمیانے اور زیادہ خطرے کی حامل موسمی آفات، مثلا گلیشیائی جھیلوں سے ابلنے والے سیلاب ) LOF (کے لیے نمونہ جاتی خاکے کی تشکیل ، ادارہ جاتی ڈھانچے کی تعمیر ، ضروری ساز و سامان کی خریداری اور قومی سطح پر آفات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافے کے لیے اگلے 10 سالوں میں 5 ارب امریکی ڈالرز سے زائد سرمائے کی ضرورت ہوگی۔
The post قدرتی آفات کے شکار لوگوں کے لیے انشورنس فریم ورک! appeared first on ایکسپریس اردو.