عناصر اور مظاہر کی اس کائنات میں انسان اور وقت کا گہرا اور لابدی رشتہ ہے۔ وہ رشتہ جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ فلسفیوں، ادیبوں اور شاعروں کے لیے انسان اور وقت کی حقیقت و ماہیت کا سوال بار بار توجہ کا مرکز بنتا آیا ہے۔ دونوں کے باہمی رشتے پر ہر دور اور ہر تہذیب کے بڑے ادیبوں، شاعروں اور اہلِ دانش نے غور کیا ہے، اس کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، اس کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف نظریات کے لوگ مختلف جوابات اور آرا پیش کرتے ہیں۔ کہیں وقت کی بڑائی تسلیم کی گئی ہے اور کہیں آدمی کو بڑا مانا گیا ہے۔ اس طرف والوں کے اپنے جواز ہیں اور اُس طرف والوں کی اپنی دلیلیں۔ تاہم ایک دلیل کا وزن آدمی کے پلڑے کو فیصلہ کُن طور پر جھکاتا ہوا نظر آتا ہے۔ بے شک وقت بڑا ہے، ایک ایسے سمندر کی طرح ہے کہ جس کا دوسرا کنارہ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ یہ زمانوں اور جہانوں کو محیط ہے، لیکن اس کا اثبات انسان کے ہونے سے ممکن ہے۔ گویا انسان نہیں ہے تو وقت بھی نہیں ہے۔
انسان کی حیثیت بے شک اس سمندر میں ایک کشتی سے بڑھ کر نہیں، لیکن یہ کشتی اس بحرِبے کراں کی امڈتی، بپھرتی اور تند موجوں پر سفر کرتی ہے۔ یہ موجیں اِس کشتی کو اچھالتی ہیں، تھپیڑے لگاتی ہیں، ہچکولے دیتی ہیں، سنبھالتی ہیں اور کبھی ڈبو بھی دیتی ہیں۔ یہ سب تو یقیناً ہوتا ہے، لیکن اگر یہ کشتی نہ ہو تو یہ سمندر اور اس کی بلاخیز موجیں سب بے کار ہیں، بے معنی ہیں۔ گویا وہی بات ہے کہ دیکھنے والی آنکھ نہ ہو تو کسی وجود، کسی رنگ، کسی روپ، کسی روشنی اور کسی حُسن کے کوئی معنی نہیں۔ دیکھنے والی آنکھ ہی دراصل کسی وجود کو حقیقت بناتی ہے ورنہ وہ محض ایک خیال ہے۔ گفتگو کے بس اس مرحلے سے مذہب اور فلسفے کے دائرۂ کار کا آغاز ہوتا ہے، یہاں سے Being اور Nothingness یا وجود و عدم کی دقیق بحث شروع ہوتی ہے، جس میں آگے چل کر جبر و قدر کے مسائل در آتے ہیں، لیکن ہم اس بحث میں نہیں پڑتے۔ ہمارے لیے اتنا جان لینا فی الحال بہت ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات میں انسان بے شک ایک معمولی ذرّے سے زیادہ کی اوقات نہیں رکھتا، لیکن یہ طے ہے کہ اگر وہ خود نہ ہو تو اس کائنات کا ہونا اور نہ ہونا دونوں برابر ہیں۔
اب انسان کو دیکھیے تو اس کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ ایک طرف وہ ادیانِ عالم ہیں جو انسان کو اس کائنات کی جملہ مخلوقات میں سب سے افضل و اعلیٰ حیثیت کا حامل بتاتے ہیں اور دوسری طرف وہ فلسفے اور نظریات ہیں جو اُس کی بے مایگی، پژمردگی اور لایعنیت سے بحث کرتے ہیں۔ اُن کی رُو سے تو انسان کو ایک ذرّۂ بے نشاں کہنا بھی گویا دعویٰ کرنے کے مترادف ہے، لیکن ان سب آرا اور خیالات کے مابین وہ مسئلہ اپنی جگہ اہم ہے جس کی طرف غالب نے یہ کہہ کر اشارہ کیا تھا:
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
سو اب یوں ہے کہ ہم انسان کے بغیر یہ دنیا، اس کے مظاہر، اس کی حقیقتیں اور اس کا احوال کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے۔ یہ سب کچھ سمجھنے کے لیے ہمیں ایک میڈیم کی ضرورت ہے اور وہ ہے انسان۔ چنانچہ ہمارے لیے اُس کے بغیر کسی شے کا وجود ہے اور نہ ہی کسی وجود کے کوئی معنی ہیں۔ اس امر کی تصدیق الہامی ادیان خود بھی کرتے ہیں، جن میں ارشادِ باری اس کائنات کی اور انسان کی غایت بتاتا ہے کہ اُس نے انسان کو اور اس دنیا کو اس لیے خلق کیا تاکہ وہ پہچانا جائے۔ انسان کی محکم حیثیت کا یہ سب سے بڑا اعتراف ہے۔ خالق نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے تو یہ کائنات اور اس کی مخلوقات وجود میں آئیں۔ کائنات کی جملہ مخلوقات میں یہ درجۂ شعور انسان کو عطا کیا گیا کہ وہ خالق کو پہچانے اور اس کا اقرار کرے، اور یہ بھی کہ چاہے تو انکار کردے۔ شعور و اختیار کا یہی وہ اختصاص ہے جو انسان کو اس کائنات میں اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرتا ہے۔
اب شعور و اختیار کی اسی صلاحیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے معلومہ انسانی تاریخ پر نگاہ کیجیے تو لازم آتا ہے کہ مانا جائے، انسان واقعی بہت غیرمعمولی اور نہایت عجیب مخلوق ہے۔ اس کی صلاحیتوں کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ معجزے بے شک اس کے اختیار میں نہیں ہوتے، لیکن اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ جو کچھ یہ کر گزرتا ہے، وہ اپنی جگہ پر کسی طرح معجزے سے کم بھی نہیں ہوتا۔ اپنی ساری حدود اور قیدوبند کے باوجود انسان وہ کچھ کر دکھاتا ہے جو اس حد تک حیرت افزا ہوتا ہے کہ جیسے کوئی جادو یا جیسے کوئی کرشمہ۔ نگاہ اٹھا کر دیکھیے اور سوچیے کہ آج علم و فکر سے لے کر سیر و سیاحت تک اور سیاست و معیشت سے لے کر سائنس اور ٹیکنولوجی تک کون سا میدان ہے جہاں انسان نے کرشمہ کاری کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ کہکشاؤں کی تسخیر، ایٹم کی ایجاد کے بعد روبوٹ سازی تک آتے آتے وہ بتا رہا ہے کہ اب وہ ’یزداں بکمند آور‘ کے مرحلے تک آپہنچا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آدمی کی بہترین صلاحیتوں کا اظہار اُس کے بدترین حالات میں ہوتا ہے۔ یہ بات محاورتاً ہی نہیں، بلکہ عملاً بھی صد فی صد درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حالات کی خرابی کے شدید دباؤ میں انسان کی وہ صلاحیتیں بھی جاگ اٹھتی ہیں جو عام حالات میں خوابیدہ رہتی ہیں۔ توانائی اور قوت کا ایک خاموش ذخیرہ آدمی کے اندر ہوتا ہے، حالات کا دباؤ اسے متحرک کردیتا ہے اور وہ اسی طرح پھوٹ پڑتا ہے جیسے لاوا۔ یہ بھی ہے کہ تحفظِ ذات کی جبلی خواہش ان حالات میں فطری طور پر کام کرنے لگتی ہے۔ ایسے میں انسان اُن صورتوں اور چیزوں پر بھی غور کرتا ہے جنھیں عام حالات میں وہ قابلِ توجہ ہی نہیں سمجھتا۔ یوں وہ اپنے لیے وہاں بھی راستہ پیدا کرلیتا ہے جہاں اس سے پہلے اُسے بظاہر کوئی راستہ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ دیکھا جائے تو ایک طرح سے یہ وہی تنگ آمد بجنگ آمد کا معاملہ ہے، یعنی جب کوئی اور صورت نہیں بچتی تو پھر آدمی کے لیے اپنے بچاؤ کی صورت نکالنا ناگزیر ہوجاتا ہے، اور وہ یہ راستہ نکال کر ہی رہتا ہے۔
انسانی تاریخ کے اس سے پہلے جتنے بھی تاب ناک ادوار گزرے ہیں، اگر اُن کا آج کی اس نئی زندگی سے موازنہ کیا جائے تو بہ آسانی یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ عہدِحاضر کے انسان کی زندگی میں پہلے دور کے انسان کے مقابلے میں سہولتیں اور آسائشیں بہت زیادہ ہیں۔ ایسا کسی ایک خاص شعبے میں نہیں ہے، بلکہ زندگی کے جس شعبے میں چاہے دیکھ لیجیے، ذرائعِ نقل و حمل، صحت اور تعلیم سے لے کر غذا، علاج اور تفریح تک ہر شعبے میں جو کچھ آج کے انسان کو میسر ہے، ان میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں چند دہائی پہلے کا انسان صرف خواب ہی دیکھ سکتا تھا۔ خواب و خیال کا درجہ رکھنے والی وہ اشیا آج افراط کے ساتھ سماج کی کثیر تعداد کو نہایت آسانی سے میسر ہیں۔ آج آپ اور ہم جس طرح ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں اور ہزاروں میل کا سفر صرف چند گھنٹے میں کسی دشواری کے بغیر جس طرح مزے سے کرلیتے ہیں، پچھلی دنیا میں اڑن کھٹولے کے خواب بھی ایسے نہ تھے۔
اسی طرح پچاس باون ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں جس طرح ہم ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں سہولت سے بیٹھتے ہیں، پہلے خس کی ٹٹیاں لگوانے اور مورچھل جھلانے والے غلاموں کے آقا اور وسیع و عریض دنیا پر حکومت کرنے والے بادشاہ بھی اس آسائش کا تصور نہیں کرسکتے تھے۔ علاج معالجے کا پہلے یہ عالم تھا کہ خون میں شامل ہوجانے والا فاسد مادّہ جسم سے نکلوانے کے لیے جونکیں لگائیں جاتی تھیں جو گھنٹوں پہروں انسان کا خون چوستی رہتی تھیں۔ آج یہ کام دوائیں اتنی سرعت اور سہولت سے کرتی ہیں کہ پہلے جس کا تصور بھی محال تھا۔ تیمور جیسے فاتح سالار اور بادشاہ کی ٹانگ میں لنگ اس لیے آگیا تھا کہ اُسے علاج کی یہ سہولت فراہم نہ تھی جو آج آپ کو اور ہم سب کو بڑی آسانی سے میسر ہے۔ رسل و رسائل کی سہولت کو دیکھ لیجیے۔ ہزاروں میل دور کی دنیا میں ایک واقعہ ہوتا ہے اور چند ہی منٹ بعد آپ اسے تفصیلات کے ساتھ جان لیتے ہیں۔ پہلے لوگ سفر پر روانہ ہوتے تھے تو ہفتوں میں خیر خبر خط کے ذریعے ملتی تھی۔ آج ہم اور آپ ہمہ وقت ساری دنیا سے رابطے میں اور یہ رابطہ آپ کی متحرک تصویر کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیسا انقلاب آیا ہے، جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھما دی ہو۔ سو سوا سو برس پہلے کی دنیا کا کوئی شخص اگر اس دنیا میں کسی طور آجائے تو آج کے انسان کی زندگی کے مظاہر پر اس کے لیے یقین کرنا محال ہوگا۔ وہ کہے گا کہ یہ سارا تماشا محض خواب ہے۔
آپ اور ہم ایسا نہیں کہتے، بلکہ مانتے ہیں کہ یہ سب سچ ہے۔ اگر واقعی سچ ہے جو کہ ہے تو پھر لازمی بات ہے کہ ان سب نعمتوں، سہولتوں اور آسائشوں کے ساتھ زندگی گزارنے والا انسان بہت خوش قسمت تصور کیا جانا چاہیے۔ یقینا اُسے خود بھی اپنی خوش قسمتی کا احساس ہوگا اور وہ اس پر نازاں بھی ہوگا۔ کیوں نہ ہو کہ جب اُس کے پرکھوں کے دیکھے ہوئے کیا کیا خواب اس کی روز مرہ زندگی کی حقیقت بن گئے ہیں۔ بس یہی پہلو غور طلب ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ کیا واقعی آج کا انسان اپنی زندگی اور اس کی صورتِ حال سے خوش ہے۔ یہ کیا؟ ہماری آنکھوں کے آگے تو کوئی اور ہی منظر ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کا انسان زیادہ پریشان ہے۔ وہ مسلسل اداس رہتا ہے۔ تنہائی کا احساس اس کے اندر دیمک کی طرح اتر گیا ہے۔
خوف کے سائے ہر وقت اس کے سر پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ ایک وحشت ہے کہ تواتر کے ساتھ اُس کی جان کو لگی رہتی ہے۔ ایک اضمحلال ہے کہ مسلسل اُس کی ہمت اور حوصلے کو اندر ہی اندر پیے چلا جارہا ہے۔ رنج کی ایک آکاس بیل ہے کہ اُس کے وجود سے لپٹی ہوئی پھیلتی چلی جاتی ہے۔ اس کی روح بے یقینی کے پہاڑ تلے دبی جارہی ہے۔ اجنبی آوازوں، واہموں اور وسوسوں نے اسے پژمردہ کردیا ہے، اُسے کھانے کو کیا کیا میسر ہے، لیکن طبیعت جیسے کسی طرح کھانے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس بھی ہوجاتا ہے، یہ کہ کھاتا ہے، کھائے چلا جاتا ہے، لیکن بھوک مٹتی ہی نہیں۔ جسم میں توانائی کا احساس ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تادیر اور پُرسکون ماحول کی نیند کے باوجود یوں محسوس کرتا ہے کہ جیسے سویا ہی نہیں یا گھڑی بھر کے بعد ہی کچی نیند سے جاگ اٹھا ہے۔ طبیعت میں بشاشت ہے نہ ہی دل میں امنگ۔ ایک مسلسل تھکن اور بیزاری کا نام ہے گویا زندگی۔ آخر کیوں؟
خیال رہے کہ ایسا آپ اور ہم یا کسی ایک مخصوص سماج کے لوگ ہی محسوس نہیں کررہے۔ اب یہ ایک عالمی سطح کی مسلمہ سچائی ہے۔ اس کا اعتراف واشگاف الفاظ میں کیا جارہا ہے۔ اس عہدِجدید کے انسان کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے ادارے کہتے ہیں کہ انسانی رویوں میں آج بیزاری اور تھکن سب سے نمایاں ہیں اور یہ کیفیت اُسے لایعنیت کے گہرے احساس سے دوچار کرتی ہے۔ اس کا سبب وہ ڈپریشن کو بتاتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں ڈپریشن کا تناسب پریشان کن حد تک تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ وہ افراد اور ادارے جو اس مسئلے پر تحقیق کرتے ہیں، وہ اس کے روز افزوں تناسب کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے کہ گہرے ڈپریشن میں انسان میں خودکشی کا رجحان پیدا ہوتا اور تیزی سے بڑھتا ہے۔ ظاہر ہے، یہ پریشانی اور خوف کی بات ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ ہول ناک بات یہ ہے کہ ڈپریشن کی اس کیفیت میں انسان اپنے لیے ہی نہیں دوسروں کے لیے بھی ضرر رساں ہوجاتا ہے۔ ڈپریشن کا شکار ہونے والے بعض افراد خودکشی کے بجائے یا خودکشی سے پہلے اپنے آس پاس کے لوگوں کو نقصان پہنچانے کی ذہنی رَو کا شکار ہوتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں یورپ اور امریکا میں ایسے درجنوں واقعات ہوچکے ہیں کہ ایک شخص نے بھرے بازار میں نہتے انسانوں پر گولیاں برسانی شروع کردیں، یا کسی اسکول، کالج یا یونی ورسٹی یا ایسے ہی کسی اور ادارے میں گھس کر معصوم اور بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بعد ازاں خود کو بھی ختم کرلیا، یا پھر سیکیوریٹی کے اداروں کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں مارا گیا۔ تحقیقاتی رپورٹس نے بعد میں اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ یہ عمل ایکیوٹ ڈپریشن میں کیا گیا تھا۔
خود کو نقصان پہنچانے اور خودکشی کے واقعات تو اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اس تناسب کو دیکھتے ہوئے اس شعبے کے ماہرین اور معالجین کا خیال ہے کہ اگر اس مسئلے پر قابو نہ پایا جاسکا تو محض ڈیڑھ دہائی کے عرصے میں یورپ کی لگ بھگ ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی اس کا شکار ہو رہے گی۔ اس قبیل کے جائزے اور اعداد و شمار عام افراد یا ذیلی اداروں کے مرتب کردہ نہیں ہیں، بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسے بین الاقوامی ادارے ان حالات کی نشان دہی کررہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اور پہلو پر بالخصوص تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، وہ یہ کہ ڈپریشن کا فروغ سماج کے پس ماندہ، اوسط اور اعلیٰ، یعنی تینوں طبقات میں ہو رہا ہے۔
تعلیم یافتہ اور خوش حال زندگی گزارنے والے افراد بھی اس مرض کا شکار ہورہے ہیں، بلکہ ان میں یہ تناسب پس ماندہ طبقے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اعلیٰ طبقے کے افراد جنھیں زندگی کی تمام سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ علاج کی بھی ہر ممکن آسانی فراہم ہے، وہ بھی دیکھتے ہی دیکھتے ڈپریشن کی اس سطح پر پہنچ جاتے ہیں جہاں انھیں خودکشی کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی مثالوں کو دیکھا جائے تو ان افراد کا تعلق اداکاری کے شعبے، کاروباری طبقے اور مسلح افواج سے نسبتاً زیادہ ہے۔ ابھی چند روز پہلے خبر آئی ہے کہ معروف اداکار جیکی چن کی جواں سال بیٹی نے بھی خودکشی کی کوشش کی ہے۔ وہ زندگی جو بظاہر نعمتوں، آسائشوں اور سہولتوں سے معمور نظر آتی ہے، ڈپریشن کے جراثیم اس میں بھی سرایت کرجاتے ہیں اور ویسے ہی نتائج پیدا کرتے ہیں جو اس کے مقابلے میں ناآسودہ زندگی میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس مسئلے نے ماہرین اور معالجین کو فکر مند کیا ہوا ہے۔
(جاری ہے)
The post عہدِ جدید اور انسانی احساس کی صورت گری appeared first on ایکسپریس اردو.