قدیم ادوار میں ملتان شہر کی شناخت ہندومت کے اہم ترین مرکز کے طور پر رہی ہے‘ دیو مالائی دور میں یہاں ہندوؤں کے بڑے بڑے دیوتاؤں اور اوتاروں کی آمد نے بھی اس شہر کو ہندو مت کے حوالے سے ایک خاص اہمیت سے ہم کنار کیا۔ خطہ ملتان میں دو ہزار سالہ آریہ اقتدار بھی یہاں ہندو تہذیب کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرنے کا سبب بنا۔ اسی طرح ملتان شہر میں موجود تاریخی مندر بھی یہاں ہندو تہذیب کے حقیقی شکوہ کے مراکز تھے۔ کسی عہد میں ملتان ہندو اکثریت کا ہی شہر ہوا کرتا تھا۔
قیام پاکستان سے پہلے ملتان کے اندرون شہر میں 80 فیصد آبادی ہندوؤں کی تھی، اسی طرح بیرون شہر بھی ہندو بڑی بڑی املاک اور زمینوں کے مالک تھے۔ گو تاریخ کے قریب ترین عہد میں ملتان شہر کی حکومت بہت کم ہندوؤں کے ہاتھ رہی‘ اس کے باوجود ملتان شہر میں ہندو کلچر نمایاں حیثیت کا حامل تھا‘ یوں تو ملتان شہر کے ہر علاقے میں ہندو تہذیب کی نشانیاں موجود تھیں لکنک شہر کے اطراف میں پھیلے وہ علاقے جو دریاؤں اور نہروں سے قریب تھے وہاں ہندو تہذیب کے آثار بہت نمایاں تھے۔ اسی طرح ملتان شہر کا مشرقی علاقہ جو بیرون دہلی گیٹ سے سیتل ماڑی تک پھیلا ہوا ہے ہندو تہذیب و معاشرت کے اتم درشن کا علاقہ تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے مشرقی سمت سے ملتان شہر میں داخل ہوتے ہی ہندو تہذیب کے آثار نمایاں ہو جاتے تھے۔ شہر کی اسی مشرقی سمت میں ہندو تہذیب کا اہم ترین مرکز مندر رام تیرتھ واقع تھا۔
اسی مندر کے شمال مغرب میں ہندوؤں کا وسیع و عریض اور مرکزی شمشان گھاٹ بھی ہوا کرتا تھا۔ ہندو تہذیب کے یہ دونوں اہم ترین مراکز کسی دور میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہی واقع تھے اور ان دونوں کے درمیان دو فرلانگ کا فاصلہ تھا۔ مندر رام تیرتھ اور ملتان کے ہندوؤں کا مرکزی شمشان گھاٹ جو ’’مسوان ناتھ‘‘ کے نام سے معروف تھا‘ دونوں کا ہندوؤں کی اجتماعی معاشرت سے گہرا تعلق تھا۔ ملتانی زبان میں شمشان کے لئے مسوان یا مسان کا لفظ رائج ہے‘ اس لئے اس بستی کو جہاں یہ مسان موجود ہے ’’بستی مسوانہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ مسوان دراصل ملتانی زبان کے لفظ ’’وسمان‘‘ ہی کی ایک شکل ہے جس کے معنی جل کر بجھنے کے ہیں۔ ہندو چونکہ آخری رسومات کے دوران مردوں کو جلاتے ہیں اور جب انسانی جسم کو لگنے والی آگ بجھ جاتی ہے تو راکھ سمیٹی جاتی ہے۔ یوں ’’مسوان‘‘ کا لفظ ہندوؤں کی آخری رسومات کے پورے کلچر کی نمائندگی کرتا ہے۔
ملتانی زبان میں روشنائی کے لئے ’’مس‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے‘ اس کے پس منظر میں بھی دراصل ’’مسوان‘‘ ہی کا لفظ ہے۔ ملتانی لفظ ’’مسوان‘‘ سے کچھ محاورے بھی وجود میں آئے جیسے لوگ کسی کو بدعا دیتے تو کہتے ’’شالا مسوانے ونجیں‘‘ (خدا تمہیں شمشان گھاٹ لے جائے) یا جب لڑائی جھگڑے کا کوئی معاملہ بہت زیادہ پھیل جائے تو کہا جاتا ہے ’’تساں کیہاں مسان گھتی بیٹھے او‘‘ (تم لوگوں نے کیا مرنا ڈال رکھا ہے)۔ ملتان جو ایک طویل عرصہ تک بیرونی حملہ آوری کی زد میں رہا ’’گورستانوں‘‘ کا شہر بھی کہلاتا ہے‘ ایک دور تھا کہ ملتان شہر کے اطراف میں گورستانوں کی بہتات تھی اور یہ گورستان ایک عبرت انگیز نظارہ پیش کرتے تھے۔ شہر کا دفاع کرتے ہوئے ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ ہوتے تھے‘ اس لئے اس شہر میں گورستانوں کے ساتھ ساتھ شمشان گھاٹ بھی بڑی تعداد میں تعمیر کئے گئے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ شمشان گھاٹ زیادہ تر مسلمانوں کے قبرستانوں کے قریب ہی بنائے گئے۔ یوں بھی قیام پاکستان سے پہلے ملتان شہر کے ہر علاقے میں ہندو آباد تھے اور قریباً ہر علاقے میں شمشان گھاٹ بھی بنائے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی دور میں ہندوؤں کا قدیم ترین شمشان گھاٹ قلعہ کہنہ پر ہوا کرتا تھا‘ ملتان میں مسلم حکمرانی کے آغاز میں ہی یہ شمائن گھاٹ ختم کر دیا گیا۔
یہ بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ قدیم عہد میں فصیل کے اندر موجود آبادی میں بھی کوئی نہ کوئی شمشان گھاٹ ضرور رہا ہو گا کیونکہ پرانے دور میں ملتان شہر دریائے راوی کے دو جزیروں کے درمیان آباد تھا‘ اس دور میں بیرونی حملوں کے وقت شہر کے مرکزی دروازوں کو بند کر دیا جاتا تھا اور جنگ میں مرنے والے شہریوں کی آخری رسومات اندرون شہر ہی ادا کی جاتی تھیں چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو۔ ملتان شہر سے باہر برلب چناب ’’مناں بھگت‘‘ کے نام سے ایک استھان قدیم عہد سے موجود ہے‘ یہاں بھی ایک قدیمی شمشان گھاٹ ہوا کرتا تھا‘ اس شمشان گھاٹ کو ایک خاص اہمیت بھی حاصل تھی یہاں شہر کے دور دراز علاقوں سے بھی ہندو اپنے مردے جلانے کے لئے آتے تھے۔ اسی طرح بیرون دہلی گیٹ واقع محلہ آغا پورہ میں بھی ہندوؤں کا ایک شمشان گھاٹ ہوا کرتا تھا‘ اسی طرح لوہا مارکیٹ کے قریب قیام پاکستان سے پہلے ایک مالدار ہندو سیٹھ کلیان داس کا باغ تھا‘ اس باغ کی حدود جہاں ختم ہوتی تھیں وہاں بھی ایک مسوانہ تھا جسے سیٹھ کلیان داس نے ہی بنوایا تھا۔
اب یہ علاقہ سلامت پورہ کے نام سے آباد ہے اور یہاں انصاری برادری بڑی تعداد میں آباد ہے۔ اسی طرح شیدی لعل پل سے چوک شاہ عباس کی طرف جائیں تو پاک مائی قبرستان کے ایک کونے پر جہاں کبھی پیپل اور برگد کے گھنے درخت تھے انہی درختوں کے درمیان بھی ہندوؤں کا ایک شمشان گھاٹ ہوا کرتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ملتان شہر کے اندر اور اطراف میں پھیلے یہ تمام شمشان گھاٹ ختم کر دیئے گئے‘ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں آبادی بڑھتی چلی گئی تو ان کے آثار بھی کم ہوتے چلے گئے۔ ان علاقوں میں آباد لوگوں کو اب علم ہی نہیں کہ یہاں کبھی شمشان گھاٹ ہوا کرتے تھے جہاں ہندو اپنے مردے جلایا کرتے تھے۔
ان چھوٹے مسانوں کے علاوہ ملتان شہر میں ہندوؤں کا ایک مرکزی اور وسیع و عریض شمشان گھاٹ بھی ہوا کرتا تھا جو قدیمی مندر رام تیرتھ کے شمال مغرب میں واقع تھا۔ ملتان کے متمول ہندوؤں اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مالی اعانت سے 1826ء میں تعمیر ہونے والا یہ شمشان گھاٹ ’’مسوان ناتھ‘‘ کے نام سے معروف تھا۔ اس شمشان گھاٹ کی اہمیت اس حوالے سے بھی تھی کہ یہ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ سکھوں کی آخری رسومات کا بھی مرکز تھا۔ اس مرکزی مسوان ناتھ تک رسائی کے دو بڑے راستے تھے‘ ایک راستہ چونگی نمبر 14 سے ممتاز آباد پھاٹک کی طرف آئیں تو دائیں ہاتھ کو احمد آباد سے پہلے ایک راستہ بستی مسوانہ کی طرف جا رہا ہے‘ اسی طرح خونی برج چوک سے کڑی جمنداں (کڑی ارجمند خان) سے ناصر آباد پلی کی طرف آئیں تو بائیں ہاتھ کو قدرے بلندی پر واقع بستی مسوانہ شروع ہو جاتی ہے۔ ملتان شہر میں قدیم عہد سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ گورستان ایسی اونچی جگہوں پر بنائے جاتے ہیں جہاں بارش کا پانی آسانی سے نہ جا سکے یا جہاں کاشتکاری ممکن نہ ہو، اسی رواج کے تحت ہندو بھی اپنے شمشان گھاٹ اونچے مقامات پر بنایا کرتے تھے۔ بستی مسوانہ کا مرکزی شمشان گھاٹ 7 ایکڑ رقبہ پر مشتمل تھا‘ ایک اونچے ٹیلے پر ہی بنایا گیا تھا جو ارد گرد کی آبادی سے قریباً 10 فٹ بلند تھا۔
گول دائرے کی شکل میں بنائی جانے والی اس شمشان گھاٹ کی قدرے بلند عمارت بڑی پرشکوہ دکھائی دیتی تھی۔ موٹی موٹی اور اونچی دیواروں والی اس خوبصورت ترین عمارت کے 6 دروازے تھے جن میں سے ایک دروازہ جو عین اس عمارت کے سامنے تھا جہاں ہندو اپنے مردے جلاتے تھے ختم ہو چکا ہے‘ اب وہاں دیوار بنا دی گئی ہے۔ اسی طرح اس شمشان گھاٹ کے دو دروازے جو مندر تیرتھ رام کی طرف کھلتے تھے وہ بھی بند کر دیئے گئے، اب وہاں نئی تعمیرات ہو چکی، اس مرکزی شمشان گھاٹ کے اندر ہندوؤں کی آخری رسومات سے متعلق بہت سی عمارات بنی ہوئی تھیں مثلاً یہاں ایک مندر‘ دھرم شالا اور ایک گرود وارہ بھی تھا‘ یہ مندر ہندوؤں کی آخری رسومات کا مرکز تھا۔ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ سکھ بھی اپنے مردے اسی شمشان گھاٹ میں جلاتے تھے‘ اس لئے یہ گرودوارہ سکھوں کی آخری رسومات کی ادائی کا مرکز تھا۔ قیام پاکستان کے وقت اس مرکزی شمشان گھاٹ کے اندر موجود تمام عمارات اپنی اصل حالت میں موجود تھیں‘ اس مندر میں جس جگہ بت نصب تھا وہاں ساتھ ہی لوہے کا ایک بہت بڑا بکس زمین میں گڑا ہوا تھا جس میں مندر اور شمشان گھاٹ کیلئے دان ڈالا جاتا تھا۔ اس شمشان گھاٹ کا وہ طویل بارہ دری نما ہال کمرہ اب بھی موجود ہے جہاں ہندو اپنے مردے جلاتے تھے۔
دو‘ دو فٹ کی موٹی دیواروں والا یہ طویل کمرہ انتہائی مضبوطی سے بنایا گیا تھا‘ اس کی چھت میں تین موٹے آہنی سریے بھی دکھائی دیتے ہیں جو ساری عمارت سے گزرتے ہوئے باہر گلی تک آتے ہیں‘ اب اس ہال نما کمرے کی بارہ دریاں ختم کرکے وہاں اینٹوں کی چنائی کر دی گئی ہے اور یہ طویل کمرہ کئی حصوں اور کئی کمروں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ شمشان گھاٹ کے اس وسیع و عریض دائرے میں ایک ایسا ہال نما کمرہ بھی تھا جہاں چتا جلانے کے بعد سوگوار ہندو آ کر بیٹھتے تھے‘ یہ بھی ایک طویل بارہ دری ٹائپ کمرہ ہی تھا جس کے ایک ہی سمت میں چھ دروازے تھے‘ اس ہال نما کمرے کے اندر سنگ مر مر کی سیاہ اور سفید ٹائلوں کا فرش بھی نصب ہے جو اب تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ یہ ہال نما کمرہ اب تنا مکانات میں تبدیل ہو چکا ہے اس عمارت کی چھت بھی تبدیل ہو چکی ہے لیکن دیواریں اور فرش آج بھی اسی طرح موجود ہے‘ یہاں رہائش پذیر افراد نے بتایا جتنی بھی گرمی پڑتی ہو یہ فرش ہمیشہ ٹھنڈا رہتا ہے اور اس کی وجہ سے کمرہ بھی ٹھنڈا رہتا ہے۔ دراصل ملتان کا یہ مرکزی شمشان گھاٹ ملتان کے قدیمی مندر رام تیرتھ کے قریب بنایا گیا تھا اور یہ دونوں عمارات ایک ہی وقت میں بنائی گئیں۔ ان دونوں عمارات کا تعمیری مٹیریل بھی ملتا جلتا ہے اور اس کا اہم ترین ثبوت سیاہ اور سفید سنگ مر مر کا وہ فرش ہے جو مندر رام تیرتھ اور مسوانہ کے ایک کمرے میں نصب ہے۔ ملتان کے اس مرکزی شمشان گھاٹ میں کچھ ایسے کمرے بھی تھے جہاں چتا جلانے کی لکڑیاں اور آخری رسومات سے متعلق دیگر اشیاء رکھی جاتی تھیں۔
ملتان شہر کا یہ تاریخی اور مرکزی شمشان گھاٹ ایک ایسی بلند اور وسیع عمارت تھی جو دور ہی سے دکھائی دیتی تھی‘ اس عمارت کے گرد بننے والی گول چار دیواری بھی اس کی انفرادیت کی علامت تھی۔ قیام پاکستان سے پہلے اس مرکزی مسوانہ کے گول دائرے میں 20 کے قریب مکانات بنے ہوئے تھے یہ تمام تعمیرات ہندوؤں کی آخری رسومات سے ہی متعلق تھیں اور ان سب کے دروازے مسوانہ کی اندرونی سمت میں کھلتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اس عمارت میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد آباد ہوئی‘ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے لوگوں کی بے سرو سامانی اور بے گھری ہی وہ پس منظر تھا کہ لوگ سر چھپانے کیلئے سان میں بھی آباد ہو گئے‘ عام حالات میں لوگ شاید اس کا تصور بھی نہ کر پاتے۔ یہاں آباد ہونے والے خاندانوں نے بعدازاں اس وسیع و عریض عمارت میں اپنی ضرورت اور مرضی کے مطابق تبدیلیاں کر لیں اور اس شمشان گھاٹ کے بڑے بڑے کمروں کو تقسیم کرکے اپنی رہائش گاہیں بنا لیں۔
اس مرکزی شمشان گھاٹ کے اس جگہ تعمیر ہونے کا پس منظر دراصل مندر رام تیرتھ کی قربت ہے‘ مندر رام تیرتھ جو ملتان میں ہندو دیوتا شری رام چندر جی کی اس اساطیری آمد کی یادگار کے طور پر بنایا گیا تھا اور ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق اس کے مقدس تالاب کے بارے میں رام چندر جی نے خود ’’بر‘‘ دیا تھا کہ جو اس تالاب میں اشنان کرے گا، اسے تیرتھ اشنان کا پھل ملے گا۔ اس لئے مندر رام تیرتھ کا تالاب جو ملتان کے ہندوؤں میں ’’گنگا‘‘ کے نام سے معروف تھا بہت سی ہندو عبادات کا مرکز تھا‘ شمشان گھاٹ میں آنے والے ھندو اپنی مذہبی روایات کے مطابق مندر رام تیرتھ کے تالاب میں ہی اشنان کرکے گھروں کو جاتے تھے۔ اس مرکزی شمشان گھاٹ کی غیر معمولی عمارت کے ساتھ ساتھ اس کے دروازے بھی ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں‘ اس کا مرکزی دروازہ جس کا دیوہیکل پھاٹک اب ختم ہو چکا ہے خاص ملتانی طرز تعمیر کا شاہکار ہے جس پر رنگین نقاشی اب بھی اپنے قدیم رنگوں کے ساتھ چھب دکھاتی ہے ‘ یہ دروازہ ھندو طرز تعمیر کے بجائے ملتان کے مقامی انداز تعمیر کی نمائندگی کرتا ہے‘ قیام پاکستان سے پہلے جب اس علاقہ میں مندر رام تیرتھ اور مسوانہ کے علاوہ کوئی بڑی عمارت نہ تھی تو مندر رام تیرتھ پر کھڑے ہو کر مسوانہ اور مسوانہ سے مندر رام تیرتھ صاف دکھائی دیتا تھا‘ قیام پاکستان کے بعد اس علاقہ میں آبادی کی بے ہنگم بڑھوتری نے ان دو عمارات کے درمیان بہت سا فاصلہ پیدا کر دیا ہے۔ ہندوؤں کے اس مرکزی ششمان گھاٹ کے قریب ہی سے کسی دور میں نالہ ولی محمد بھی گزرتا تھا، ناصر آباد پلی بھی دراصل نالہ ولی محمد کی ہی یادگار ہے۔
1866ء میں جب ملتان میں ریلوے لائن بچھانے کا آغاز ہوا تو یہ ٹریک بھی بستی مسوانہ کی دائیں طرف سے ہی گزارا گیا‘ ایک دور تھا کہ اس شمشان گھاٹ کی عمارت ٹرین میں بیٹھے ہوئے صاف دکھائی دیتی تھی۔ ملتان کا یہ مرکزی شمشان گھاٹ ملتان میں سکھ گورنر دیوان ساون مل کے عہد میں تعمیر کیا گیا، مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1821ء میں دیوان ساون مل کو ملتان کا گورنر مقرر کیا تو اس نے ملتان میں موجود ہندوؤں کے اہم ترین مندروں کی تعمیر و مرمت کے لیے خصوصی مالی اعانت کی، دیوان ساون مل نے اپنے دور میں تالابسورج کنڈ، نالی ولی محمد پر پل شوالہ، تالاب بدھلہ سنت، مندر رام تیرتھ اور دیگر ہندو عبادت گاہوں کی تعمیر و مرمت میں خصوصی تعاون کیا۔ شہر کے جس علاقے میں یہ شمشان گھاٹ واقع ہے‘ اس کے قریب قریب مسلمانوں کے بھی کئی قبرستان موجود ہیں جن میں قبرستان احمد آباد، قبرستان پیر جماعتی اور قبرستان پیر عمر شامل ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے اس شمشان گھاٹ کے قریب اہم ترین عمارت برطانوی دور میں قائم ہونے والا ملتان کا پہلا ٹی بی ہسپتال تھا جو چونگی نمبر14 پر تھا‘ اب اس عمارت میں گرلز کالج قائم ہو چکا ہے‘ اس طرح بستی مسوانہ مںب نچلی ذات کے چند ھندوئوں اور مسلمانوں کے بھی گھر تھے‘ ساتھ ہی واقع بستی باغ بیریاں اور بستی گھڑے بھن میں بھی چند گھروں کی آبادی تھی‘ اس لئے اس دور میں یہ علاقہ شہر سے باہر کا علاقہ تصور کیا جاتا تھا۔ ہندو چونکہ بد روحوں اور بھوت پریت پر یقین رکھتے ہیں‘ اس لئے یہاں کے ھندوئوں میں یہ کہاوت وجود میں آئی:
شہر وسدے دیوتے
باہر وسدے بھوت
یعنی شہروں میں دیوتا رہتے ہیں اور ویرانوں میں بھوت‘ قیام پاکستان کے بعد ھندوستان کے مختلف شہروں سے جو لوگ یہاں آ کر آباد ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ جب ہم لوگ یہاں آباد ہوئے تو شروع شروع میں بہت سے محیرالعقول واقعات کا سامنا کرنا پڑا‘ ایسا لگتا تھا کہ شمشان گھاٹ کسی اوپری مخلوق کا مسکن ہے جو یہاں انسانی آبادی کو پسند نہیں کرتی لیکن آہستہ آہستہ یہ صورتحال ختم ہو گئی اور شمشان گھاٹ کا وسیع و عریض احاطہ وقت کے ساتھ ساتھ آباد ہوتا چلا گیا۔ ملتان کا یہ مرکزی شمشان گھاٹ ایسے علاقے میں تعمیر کیا گیا تھا جو شہر سے باہر ایک ویران علاقہ تھا، یہاں اس دور میں دور دور تک آبادی نہیں تھی صرف انہی علاقوں میں آبادی تھی جہاں ہندوئوں کی آخری رسومات سے متعلق عمارات تعمیر کی گئی تھیں، اس علاقے میں مسوانہ، بستی گھڑے بھن اور گئو شالہ وہ تین مقامات تھے جو قیام پاکستان کے بعد ہندوئوں کی متروکہ املاک کی صورت موجود تھے۔
ان مقامات پر قیام پاکستان کے بعد حصار سے ہجرت کر کے آنے والے ڈوگر خاندان کے لوگ آباد ہوئے، 1985ء تک یہ علاقہ ہندو وقف املاک بورڈ کے ہی زیر انتظام تھا، 1985ء میں ہونے والے ایک سروے کے بعد اس علاقے میں بستی رام تیرتھ، بستی مسوانہ، بستی گھڑے بھن اور گئو شالہ کو کچی آبادی قرار دے دیا گیا، اب یہ تمام علاقے ایک طرح سے نجی ملکیت میں آگئے ہیں، بستی مسوانہ جو موضع جمعہ خالصہ (جمع خالص) میں آتی ہے اب قریباً 200 گھروں کی بستی ہے اور آج بھی بستی مسوانہ ہی کہلاتی ہے اب اس بستی میں شمشان گھاٹ کی وہی تعمیرات باقی ہیں جن میں آباد لوگ وسائل کی کمی کی وجہ سے نئی تعمیرات نہیں کرا سکے وگرنہ یہاں کی بہت سی پرانی عمارات کی جگہ نئی عمارات تعمیر ہو چکی ہیں۔ قیام پاکستان کے اس مقام پر آباد ہونے والے لوگوں نے نئے سرے سے زندگی آغاز کی، ویسے تو یہ عمارت زندگی کے اختتام اور موت کی رسومات سے متعلق تھی لیکن یہاں آباد لوگوں نے قیام پاکستان کے بعد اس جگہ کو زندگی کے نئے احساس سے ہمکنار کیا، جہاں کبھی موت کے سائے سرسراتے تھے‘ اب وہاں زندگی اپنے پورے احساس کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔
ہندوؤں کی آخری رسومات
ہندو روایات کے مطابق جب کسی پر جاں کنی کی حالت طاری ہوتی ہے تو اسے گوبر ملی زمین پر چت لٹا دیتے ہیں اور اس کا سر منڈوا دیتے ہیں‘ جان نکلنے سے پہلے گؤ درشن بھی ضروری کرائے جاتے ہیں‘ پھر میت کو غسل دیا جاتا ہے‘ برہمن منتر پڑھتے ہیں‘ اس دوران غریبوں کو دان بھی دیا جاتا ہے‘ پھر میت کو گائے کا گوبر ملی زمین پر گھاس ڈال کر لٹا دیا جاتا ہے اور اس کا سر شمال کی طرف اور پاؤں جنوب کی طرف کر دیئے جاتے ہیں‘ پھر اس کے منہ میں گنگا جل چواتے ہیں بعض لوگ سونے کے ذرے بھی میت کے منہ میں رکھ دیتے ہیں‘ سینے پر تلسی کے پتے رکھ دیئے جاتے ہیں‘ ماتھے پر دریائے گنگا کے کنارے کی مٹی کا تلک لگاتے ہیں۔ مرد ہے توسفید کفن‘ عورت ہے تو سرخ کفن لپیٹا جاتا ہے‘ گنگا کا پانی تھوڑی سی مقدار میں مردے پر چھڑکا جاتا ہے تب اسے لکڑیوں کی ارتھی پر لٹا دیتے ہیں پھر 4 لوگ آگے بڑھتے ہیں اور ارتھی کو شمشان کی طرف لے جاتے ہیں‘ متوفی کے بیٹے موجود ہوں تو سب سے پہلے وہی کندھا دیتے ہیں‘ راستے میں لوگ کندھا بدلتے رہتے ہیں‘ آگے بڑھتے ہوئے لوگ رام نام ست ہے‘ ست گراں دی مت ہے‘‘ کا بلند آواز میں ورد کرتے رہتے ہیں۔ شمشان گھاٹ سے 50 گز پہلے ارتھی روک لی جاتی ہے اور ’’گھڑے بھن‘‘ کی رسم ادا کی جاتی ہے۔
مرنے والے کا بڑا بیٹا کچا گھڑا ہاتھ میں لئے ارتھی کے گرد تین چکر لگاتا ہے اور ہر چکر میں زمین پر پانی چھڑکتا ہے‘ تیسرے چکر کے آخر میں سر کی طرف گھڑا نیچے پھینک کر توڑتا ہے‘ اس کے بعد ارتھی کو شمشان گھاٹ کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ شمشان گھاٹ کی طرف ہندو ایک جلوس کی صورت میں آتے ہیں‘ اگر چتا کسی عمر رسیدہ آدمی کی ہے تو ارتھی کے ساتھ بینڈ باجے بھی بجائے جاتے ہیں۔ عموماً چلاس کی لکڑی سے تیار کردہ چتا پر مردوں کو جلایا جاتا ہے لیکن امیر ہندوؤں کی چتا میں چندن اور اگر کی لکڑیاں بھی جلائی جاتی ہیں۔ ہندو روایات کے مطابق مرنے والے کا سب سے بڑا بیٹا (بعض روایات میں سب سے چھوٹا بیٹا) اور قریبی عزیز سر‘ داڑھی اور مونچھیں منڈوا دیتے ہیں‘ اسے ’’بھدرا‘‘ کہا جاتا ہے۔
آخری رسومات کے وقت مرنے والے کے بڑے بیٹے کو اہمیت دی جاتی ہے‘ چتا کو بھی وہی آگ دکھاتا ہے‘ چتا جلانے کے چوتھے روز ہڈیاں سمیٹ کر بڑا بیٹا ہردوار جاتا ہے اور انہیں گنگا میں بہا دیتا ہے‘ یہاں قریبی دریائے میں راکھ بہا دیتی جاتی ہے‘ تیجے کے دن باپ کی پگڑی بڑے بیٹے کو پہنائی جاتی ہے‘ بقیہ رسوم 10 ویں اور 11 ویں دن ادا کی جاتی ہیں۔ 6 سال سے کم عمر میں مر جانے والے بچے کو ہندو عموماً کسی درخت کے نیچے دفنا دیتے ہیں اور اس کی قبر پر پانی کا چھوٹا سا کٹورا رکھ دیتے ہیں‘ اگر مرنے والے بچے کی عمر 5 سال سے کم لیکن 6 ماہ سے زائد ہے تو اس کی نعش کو دریا کے حوالے کر دیا جاتا ہے بشرطیکہ دریا زیادہ دور نہ ہو‘ 6 سال سے زائد عمر کے بچوں کی چتا جلائی جاتی ہے۔
شمشان گھاٹ کی دیواروں پر نصب الواح کی کہانی
ملتان کا یہ مرکزی شمشان گھاٹ 1826ء میں تعمیر کیا گیا تھا، اس تاریخی عمارت پر مضمون کی تیاری کے دوران ہم نے کئی بار یہاں کا دورہ کیا لیکن اس کی دیواروں پر نصب ہمیں کوئی ایسی سنگی لوح نہ مل سکی جس پر اس کا درست سن تعمیر رقم ہو اس کے باوجود مسوانہ کی دیواروں پر نصب ہمیں کچھ ایسی الواح ضرور ملیں جو اس کی تعمیر کے سال اور ان الواح کو نصب کرانے والے لوگوں کے نام سامنے لاتی ہیں، ہندی رسم الخط میں تحریر یہ الواح ہم نے مختلف لوگوں سے پڑھوائیں تو یہ بات سامنے آئی کہ دراصل یہ الواح ’’ایصال ثواب‘‘ اور اپنے اپنے مرحومین کی یادگار کے طور پر نصب کی گئی تھیں، مثلاً مسوانہ سے ملنے والی ایک لوح پر ہندی اور انگلش میں بھگوان داس اور ہیرا نند لکھا ہوا تھا اور ساتھ ہی 1826ء کا سن بھی درج تھا، مسوانہ کا وہ حصہ جہاں ہندو اپنے مردے جلاتے تھے کے قریب ہی ایک دروازہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اس دروازے کے اندرونی حصہ پر ایک سنگی لوح پر کچھ اس طرح کی تحریر کندہ ہے :
یہ دروازہ بھولا رام مونگیا نے اپنی لاگت سے بہن چینی بائی ودوا بھائی چمنا رام گوروارا کے سورگواس کے بعد بنوایا، 20 پھاگن
اسی طرح یہاں ایک دروازے پر رقم ہے:
سورگ واسی لدھا رام سپتر لالہ آسانند کامبیری کی یادگار
اسی طرح ایک سنگی لوح پر ہندی اور گورمکھی میں ’’اوم‘‘ کا لفظ لکھا ہوا ہے اس لوح کو نصب کرانے والے:
جیتارام ولد بھائی لال چند گوگیا 1826ء اسی طرح یہاں ایک گرمکھی لوح بھی نصب ہے جس پر اونکار یعنی رب الواحد لکھا ہوا ہے، مسوانہ سے ملنے والی ایک لوح ایسی بھی ہے جس کے کچھ الفاظ وقت کی گرد میں چھپ گئے ہیں پر ملتانی زبان میں لکھا ہے:
’’ودوا ستنام داس دی یاد وچ‘‘۔
بستی مسوانہ سے بستی ’’گھڑے بھن‘‘ تک
ہندوؤں کی آخری رسومات کے حوالے سے ایک مرحلہ گھڑے توڑنا بھی ہوتا تھا‘ جب ھندو مرنے والے کی ارتھی لے کر نکلتے ہیں تو ایک خاص مقام پر آ کر گھڑے توڑے جاتے ہیں‘ اس رسم کے لئے شمشان گھاٹ سے ایک خاص فاصلے پر ’’غالباً 50گز‘‘ ایک مقام متعین کیا جاتا ہے اور وہاں ایک عمارت بھی اس رسم کے لئے بنائی جاتی ہے‘ ملتان میں ’’گھڑے بھن‘‘ کی رسم میں بھی ملتانی ثقافت کے خاص رنگ نظرآتے ہیں۔ بستی مسوانہ سے ملتان شہر کی طرف آئیں تو 50 گز کے فاصلے پر ایک علاقہ ’’بستی گھڑے بھن‘‘ کے نام سے معروف ہے‘ اس علاقہ کی بھی ہندؤوں کی آخری رسومات کے کلچر کے حوالے سے ایک خاص اہمیت ہے۔
ہندو روایات کے مطابق جب لوگ ارتھی لے کر گھر سے نکلتے ہیں تو مرنے والے کے بڑے بیٹے نے ایک گھڑا اٹھا رکھا ہوتا ہے اور شمشان گھاٹ سے ایک خاص فاصلے پر ارتھی کے گرد تین چکر لگا کر سر کی طرف یہ گھڑا توڑ دیا جاتا ہے۔ ملتان میں بستی مسوانہ کے ساتھ ہی ’’بستی گھڑے بھن‘‘ کا واقع ہونا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے یہ تمام علاقہ ہندو اکثریت اور تہذیب کا علاقہ تھا‘ اس بستی میں ایک خاص عمارت ’’گھڑے بھن‘‘ کی رسم کی ادائی کے لیے بنائی گئی تھی۔ ہندو کلچر میں گھڑے توڑنے کی اس رسم سے ملتانی زبان میں ایک کہاوت وجود میں آئی کہ ’’میں تیکوں گھڑے بھن تئیں نہ چھڑیساں‘‘ اس کہاوت کے پس منظر میں دو طرح کی آراء نظر آتی ہیں جن میں سے ایک ساتھ سنگت اور وفا کی روایت ہے‘ یہ دراصل عورت کی وفا ہے کہ میں تمہارا ساتھ زندگی کی آخری سانس کے بعد بھی دوں گی۔ گھڑے بھن دراصل وہ مقام ہے جہاں کسی انسان کے حوالے سے وابستگی اور تعلق کی آخری رسم ادا کی جاتی ہے۔
دوسرا یہ کہ شمشان گھاٹ سے 50 گز کے فاصلے پر گھڑے توڑنا تمام تر وابستگیوں کا ختم ہو جانا ہے کیونکہ اس کے بعد مرنے والے کو نذر آتش کرنا رہ جاتا ہے۔ ملتانی ثقافت میں ’’میں تیکوں گھڑے بھن تئیں نہ چھڑیساں‘‘ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ میں نے تم سے جو قول باندھا ہے اسے آخری وقت تک نہیں توڑوں گا۔ شمشان گھاٹ میں چتا جلانے کے بعد جب ہندو گھروں کو لوٹتے ہیں تو بھی ’’گھڑے بھن‘‘ کے مقام پر گھڑے توڑے جاتے ہیں‘ اس طرح ہندوؤں کے ہاں آخری رسومات کے موقع پر مٹی کے گھڑوں کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے۔ ’’گڑھے بھن‘‘ کے مقام پر جو خاص عمارت اس مقصد کے لیے تعمیر کی جاتی تھی، اس کی چھت کے چاروں کونوں پر بھی سیمنٹ سے گھڑے بنائے جاتے تھے۔ اس عمارت کی چھت پر دور ہی سے دکھائی دینے والے یہ گھڑے دراصل ایک خاص علامتی انداز لیے ہوئے تھے، اس عمارت کے اندر اور باہر بڑی تعداد میں پانی سے بھرے ہوئے گھڑے رکھے رہتے تھے۔
ملتان کا یہ علاقہ جہاں بستی مسوانہ واقع ہے‘ یہاں قیام پاکستان سے پہلے بہت ساری ’’آویاں‘ بھی موجود تھیں۔ ’’آوی‘‘ ملتانی زبان میں مٹی کے برتن پکانے والی بھٹی کو کہا جاتا ہے۔ خونی برج سے چونگی نمبر 14 کی طرف آتے ہوئے بھی ایک بہت بڑی منڈی آوی ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح بستی مسوانہ اور بستی گھڑے بھن کے علاقہ میں بھی بہت سی آویاں تھیں‘ بستی مسوانہ کا جنوبی علاقہ جہاں اب پیرعمر قبرستان ہے بھی ’’آویوں‘‘ کا ہی علاقہ تھا‘ اس جگہ کا پرانا نام بھی ’’چاہ آوی والا‘‘ ہے۔ ملتانی ثقافت میں ہندو تو اپنی آخری رسومات کیلئے گھڑے اور مٹی کی کجیاں استعمال کرتے ہی تھے لیکن ملتان شہر اور نواحی دیہات میں مسلمان بھی قبریں بناتے ہوئے گھڑے رکھا کرتے تھے‘ دراصل ایک خاص انداز کی قبر بناتے ہوئے تدفین کے بعد پہلے قبر کا منہ اُلٹے گھڑوں سے بند کیا جاتا تھا‘ اس مقصد کیلئے 6 سے 8 گھڑے استعمال ہوتے تھے‘ اب یہ رواج ختم ہو چکا ہے لیکن ملتان کے قدیم ترین قبرستان پاک مائی میں وہ پرانی قبریں جن کے دہانے بارشوں سے کھل جاتے ہیں میں الٹے گھڑے پڑے دکھائی دیتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بستی مسوانہ میں آباد ہونے والے لوگوں نے بتایا کہ ’’جب وہ لوگ یہاں آئے تو مسوانہ کے اندر بڑی تعداد میں انسانی ہڈیاں‘ مٹی کی کجیاں اور چراغ پڑے ہوئے تھے، آج بھی اس شمشان گھاٹ کے احاطہ میں جب بھی کھدائی کی جاتی ہے تو دو تین فٹ کے بعد بڑی تعداد میں مٹی کی کجیاں اور چراغ برآمد ہوتے ہیں‘‘۔
ہندوؤں کی آخری رسومات میں مرنے والے کی باقیات کو چوتھے روز ایک مٹی کی کجیا میں ڈال کر ہر دوار گنگا میں بہانے کیلئے بھیجا جاتا ہے لیکن ملتان میں یہ رسم بھی مختلف انداز لئے ہوئے ہے‘ ہندوؤں کی روایات کے مطابق دریاؤں کے پانی کو ایک مقدس حیثیت حاصل رہی ہے‘ ملتان کے مقامی ہندوؤں میں دریا پوجا کی روایت بہت راسخ تھی‘ دریا پوجا عموماً اتوار کے دن ہوتی ہے‘ ملتان کے ہندو دریائے چناب کے پانی کو بہت مقدس خیال کرتے تھے‘ قیام پاکستان سے پہلے دریائے چناب پر پانی کی پوجا کے مختلف تہوار بھی منائے جاتے تھے‘ ملتان کے ہندوؤں کے ہاں اپنے مردوں کی راکھ ہر دوار لے جانے کی روایت بہت کم رہی ہے۔ امیر کبیر ہندو ضرور ہردوار جایا کرتے تھے لیکن یہاں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جو اپنے مردوں کی راکھ دریائے چناب میں بہایا کرتی تھی‘ اس مقصد کیلئے دریائے چناب کے کنارے پر آباد ایک مقامی بستی ’’گاگرکچور‘‘ کے نام سے معروف چلی آ رہی ہے‘ اسی مقام پر ہندو اپنے مردوں کی راکھ پانی میں بہایا کرتے تھے‘ اس بستی کو مقامی طور پر گاگریں بھی کہا جاتا ہے۔ دراصل گاگرکچور کا لفظ بھی گھڑے توڑنے کے ہی معانی رکھتا ہے۔
The post بستی مسوانہ۔۔۔۔ جہاں ملتان کے ہندوؤں کا مرکزی شمشان گھاٹ تھا appeared first on ایکسپریس اردو.