مراقبے کے اثرات
(گذشتہ سے پیوستہ)
-3وقت کا انتخاب:
یہ تو ایک عام فہم بات ہے کہ مختلف کاموں کے لیے مختلف اوقات مخصوص ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ورزش کے لیے بہترین وقت صبح کا ہے۔ دوپہر کو ورزش نہیں کرنی چاہیے۔
مراقبہ دن یا رات میں کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔ تاہم مناسب ہوگا کہ اس کے لیے صبح سویرے یا رات سونے سے پہلے کا وقت مقرر کرلیا جائے۔ کئی حضرات و خواتین صبح اْٹھ کر فوراً کام کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور ورزش، مراقبہ یا ایسی اور کسی سرگرمی کے لیے وقت نہیں نکال سکتے۔ ایسے حضرات وخواتین دوپہر، شام یا رات میں مراقبہ کرسکتے ہیں۔ مراقبہ کے لیے دن میں حسب سہولت کوئی بھی وقت مقرر کرلیں۔ اس وقت کی پابندی کی جائے۔
مراقبہ کا دورانیہ کیا ہو…؟
مراقبہ کے دورانیہ اور مدت کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس مقصد کے لیے مراقبہ کرنا چاہتے ہیں۔
اسٹریس، ٹینشن، نیند کی کمی یا ٹوٹ ٹوٹ کر نیند آنے کی شکایت، مختلف امراض کی پچیدگیوں سے بچاؤ، قوت مدافعت کی بہتری، جسمانی صحت کی بحالی ، جلد کی صفائی اور جلد کی چمک دمک میں اضافے جیسے مقاصد ہوں یا ذہنی صلاحیتوں میں اضافے، یادداشت کی بہتری، سچے خواب کی صلاحیت بڑھانے، چھٹی حس کی بیداری، وجدان کے ذریعے فہم وفراست اور تخلیقی صلاحیتوں کو فائدہ پہنچانا جیسے مقاصد ہوں یا
کشف والہام اور دیگرروحانی مقاصد ہوں!
ان سب کے لیے مراقبہ کے دورانیے اور مدت کا تعین علیحدہ علیحدہ ہوگا۔
میرے مشاہدات کے مطابق زیادہ تر خواتین وحضرات نے ذہنی سکون، بہتر نیند ، جسمانی صحت کی بہتری، حسن وکشش میں اضافے کے لیے مراقبہ سے استفادہ کرنا چاہا۔ ان مقاصد کے لیے مراقبہ کا دورانیہ روزانہ کم ازکم بیس منٹ ہونا مناسب ہے۔
مدت: ایک اہم سوال یہ ہے کہ مراقبہ کتنے عرصے تک کیا جائے؟
اس کا انحصار مراقبے کے مقصد اور مراقبہ کرنے والے کی اپنی دل چسپی اور استعداد پر ہے۔ یہ مدت چند ہفتے بھی ہوسکتی ہے اور چند ماہ بھی۔ کسی کام کو بطورعلاج کیا جائے تو اس سے اکتاہٹ یا بوریت کا احساس بھی جلد ہی غالب آسکتا ہے لیکن اگر کوئی کام شوق اور جذبے کے ساتھ کیا جائے تو اس کام سے وابستگی میں خوشی اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔ کئی لوگوں نے بطور علاج چند ہفتوں کے لیے مراقبہ شروع کیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے جن مسائل کی وجہ سے مراقبہ شروع کیا تھا وہ مسائل بھی بفضل تعالیٰ حل ہوگئے لیکن مسائل حل ہوجانے کے باوجود انہوں نے مراقبہ جاری رکھا کیوںکہ مراقبہ ان کے لیے ایک وقتی ضرورت سے بڑھ کر ایک جذبے (Passion) کی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔
الگ گھر میں رہنا ہے۔۔۔۔۔
سوال: پانچ ماہ قبل ہم نے اپنے اکلوتے بھائی کی شادی کی۔ ہماری بھابھی نے شادی کے چند دنوں بعد سے ہی رویہ خاصا روکھا پھیکا کرلیا۔ بھائی بھی زیادہ تر چُپ اور اُداس رہنے لگے ہیں۔ بھابھی ہماری والدہ کی بالکل عزت نہیں کرتیں اور لڑنے بھڑنے پر تیار رہتی ہیں۔ ہمارا بھائی جو پڑھا لکھا سمجھ دار شخص ہے ایک اچھی نوکری پر ہے، اپنی بیوی کے آگے بھیگی بلی بنا رہتا ہے۔ اب انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ساس نندوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں انہیں الگ گھر میں رہنا ہے۔ ہمارے والد کا انتقال ہوچکا ہے، اگر بھابھی کے دباؤ میں آکر بھائی نے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کرلیا تو بوڑھی والدہ اور ہم دو غیرشادی شدہ بہنیں اکیلی کس طرح رہیں گے۔
(ف۔ص: لاہور)
جواب: ہمارے خیال میں آپ کی بھابھی خودغرض نہیں بلکہ آپ کے بھائی کی عزت بنائے رکھنے والی خاتون ہیں۔ آپ کے خط کے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے بھائی شدید اعصابی کم زوری میں مبتلا ہیں۔ مناسب ہوگا کہ آپ کے بہنوئی یا کوئی اور سمجھ دار صاحب اس معاملے میں آپ کے بھائی کو اعتماد میں لے کر ان سے بات کریں۔ امید ہے کہ تھوڑی سی نفسیاتی سپورٹ اور چند ہفتوں کے علاج معالجے سے انشاء اﷲ مسئلہ حل ہوجائے گا۔
گھبراہٹ
سوال: میری عمر 37 سال ہے۔ چار بچے ہیں۔ اپنا ذاتی کاروبار ہے۔ میری اہلیہ بہت اچھی ہیں۔ میرا ہر طرح سے خیال رکھتی ہیں۔ کاروبار کی طرف سے بھی الحمدﷲ کوئی پریشانی نہیں۔ ان اطمینان بخش حالات کے باوجود مجھے اکثر شام کے وقت شدید گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس گھبراہٹ کی وجہ ٹینشن ہے۔ مجھے بظاہر کسی بات کی کوئی ٹینشن نہیں ہے۔ ڈاکٹروں نے اعصاب کو پُرسکون کرنے والی مختلف دوائیں تجویز کیں لیکن محض وقتی طور پر افاقہ ہوا ۔
(محمد سلیم۔ کراچی)
جواب: آپ روزانہ صبح اور شام کے وقت اکیس اکیس مرتبہ:
لا الہ الا اللّٰہ الحلیم العظیم لا الہ الا اللّٰہ رب العرش العظیم، تین تین مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیں ۔ صبح اور شام ایک ایک ٹیبل اسپون شہد پییں۔ چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اسمائے الٰہی یاحی یاقیوم کا ورد کریں۔ رات سونے سے قبل اکیس مرتبہ سورۂ یونس (10)کی آیت 62، سات سات مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیں۔
غیرذمے دار بیٹا
سوال: میرا بڑا بیٹا جو ماشاء اﷲ تیس سال کا ہے اسے اپنی کسی ذمہ داری کا ذرا سا بھی احساس نہیں ہے۔ تین سال پہلے میرے شوہر کو بہت سے ملازمین کے ساتھ بینک سے فارغ کردیا گیا تھا۔ انہیں اس واقعے سے شدید صدمہ ہوا۔ اب وہ کسی ملازمت یا کاروبار کی ہمت نہیں کرپاتے۔ میرے چھوٹے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ملازمت کرکے اور ٹیوشن پڑھا کر گھر کی ذمہ داریوں میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں، لیکن اس بیٹے کو دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے یا گھر میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ بعض اوقات اپنی چھوٹی بہنوں پر بھی رعب جھاڑتا ہے ۔
(نام شائع نہ کیا جائے)
جواب: رات میں جب آپ کا بیٹا گہری نیند میں ہو اکیس مرتبہ سورہ بروج (85) کی آخری دو آیات بل ھو قرآن مجید Oفی لوح محفوظ O اول آخر تین تین مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے بیٹے کا تصور کرکے دم کردیں ۔ اسے ذمے داری کا احساس ہونے اور والدین کی فرمانبرداری کی توفیق ملنے کی دعا کریں۔ بیٹا رات کو دیر تک جاگتا ہو تو یہ عمل صبح فجر سے پہلے کرلیں۔
گھر میں آوازیں
سوال: ہمیں اس مکان میں آئے ہوئے ساڑھے تین سال ہوگئے ہیں۔ یہ مکان ہم نے بنا بنایا ہوا خریدا تھا۔ شروع شروع میں تو سب کچھ ٹھیک تھا، لیکن ایک سال گذرنے کے بعد ہمیں مکان کے مشرقی حصے میں کچھ غیرمعمولی پن محسوس ہوا۔ اس طرف جاتے ہوئے وحشت اور بھاری پن کا احساس ہوتا تھا۔ کچھ دنوں بعد اس حصہ سے سب گھر والوں کو آوازیں سنائی دیں، جیسے کوئی شدید اذیت میں کراہ رہا ہو۔ یہ آوازیں زیادہ تر رات میں سنائی دیتی تھیں۔ فوری طور پر مکان تبدیل کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔
(شاہد: کراچی)
جواب: عصرومغرب کے درمیان گیارہ مرتبہ سورہ فلق پڑھ کر پانی پر دم کر کے مکان کے متاثرہ حصے میں چاروں طرف چھڑک دیں۔ اس حصے میں درخت ہوں تو ان کی تراش خراش اس طرح کرادیں کہ ان کی تمام بڑی شاخوں کے پتے اچھی طرح جھڑ جائیں۔ کم از کم اکیس روز تک یہ عمل جاری رکھیں۔ انشاء اﷲ آوازیں سنائی دینا بند ہوجائیں گی۔
نند کی حکومت
سوال: میرے شوہر کے والدین کا ان کے بچپن ہی میں انتقال ہوگیا۔ بہن بھائیوں کی ذمہ داری ان کی بڑی بہن نے سنبھالی جو کہ اس وقت سترہ سال کی تھیں۔ آپا نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش کی ان سب کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ان کی شادیاں کیں، اس مصروفیت میں انہوں نے خود شادی نہ کی۔ اب جب کہ ان کے تینوں بھائی اچھے عہدوں پر فائز ہیں اور دونوں بہنوں کی شادی ہوچکی ہے، انہوں نے اپنی ملازمت جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان میں کئی خوبیاں ہیں۔ سارے خاندان میں ان کی بہت عزت ہے۔ وہ مجھ سے بھی بہت اچھی طرح پیش آتی ہیں، لیکن ان تمام قربانیوں اور اچھی عادتوں کے باوجود اب مجھے ان سے بیزاری محسوس ہونے لگی ہے کیوںکہ ہمارے گھر میں ان کی حکومت ہے۔ میرے شوہر مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ میرا اچھی طرح خیال رکھتے ہیں۔ میرے میکے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ میں مانتی ہوں کہ آپا نے بڑی قربانیاں دی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ان قربانیوں کا بدلہ بھائیوں کی بیویاں ادا کریں۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے شوہر کی اصلاح ہو اور وہ مجھے اپنی آپا کی مرضی کے تحت رکھنے کے بجائے اپنی بیوی سمجھ کر گھریلو معاملات میں میری رائے کو فوقیت دیں۔
(ع۔ا: راولپنڈی)
جواب: محترمہ ہم سمجھتے ہیں کہ اصلاح کی ضرورت آپ کے شوہر کو نہیں بل کہ آپ کو ہے۔ آپ نے خود لکھا ہے کہ آپ کو اس گھر میں کسی تکلیف یا پابندی کا سامنا نہیں ہے۔ دراصل آپ ’’آپا‘‘ کے سامنے اپنے شوہر کے رویے کو ان کی سعادت مندی اور فرمانبرداری سمجھنے کے بجائے ایک ماتحت کا رویہ سمجھتی ہیں اور خود کو بھی اسی روپ میں دیکھتی ہیں۔ آج آپ ایک کام یاب شخص کی بیوی کہلوا کر خوشی اور فخر محسوس کرتی ہیں لیکن یاد رکھیے کہ آپ کے شوہر آج اس مقام پر اپنی بڑی بہن کی قربانیوں کی وجہ سے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کو بھی اپنی بڑی نند کے ساتھ دلی عزت و احترام سے پیش آنا چاہیے۔ اپنی عزت کروانے کا ایک آسان قاعدہ یہ ہے کہ دوسروں کی خوب عزت کی جائے۔
26 سال
سوال:بہتر روز گار کے لیے میں نے تقریباً 26سال ملک سے باہر گزارے۔ میں سال میں ایک مہینے کے لیے بیوی بچوں کے پاس پاکستان آتا تھا۔ میرے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ اس دوران پاکستان میں دو مکان بھی بنوائے۔ دوسرا مکان میرے بھائی کے پاس ہے۔ میرے دونوں بیٹے انٹر کے بعد آگے پڑھنے پر تیار نہیں۔ انٹر بھی بڑی مشکلوں سے کیا ہے۔ دونوں زیادہ تر وقت بُرے لڑکوں کے ساتھ گھومتے ہیں۔ ایک بیٹی نے محلہ کے ایک نکمے لڑکے کی باتوں میں آکر اس کے ساتھ کورٹ میرج کرلی اور شادی کے تین سال بعد شوہر کی بدسلوکیوں سے تنگ آکر گھر آکر بیٹھ گئی۔ دو چھوٹی بیٹیاں ابھی کالج میں پڑھ رہی ہیں۔ جب میں چھٹیوں پر گھر آتا تھا تو میرے یہ سب بچے میرے سامنے بہت اچھی طرح رہتے تھے۔ چناںچہ میں اپنی بیوی کی شکایتوں کو وہم یا مجھ سے دوری کا گلہ سمجھ کر نظرانداز کرتا رہتا تھا۔
اب میرے پاس تھوڑی بہت جمع پونجی تو ہے لیکن پاکستان میں کوئی اچھی ملازمت نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ دوسرا مکان کرایہ پر دے دوں لیکن میرا بھائی وہ مکان خالی کرنے پر تیار نہیں ہے۔ میں نے اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کی خاطر گھر کا آرام و سکون چھوڑ کر 26 سال صحرا کی خاک چھانی۔ لیکن آج میری بیوی مجھ سے شاکی، اولاد مجھ سے ناراض ہے۔
(نام شائع نہ کریں)
جواب: گھر سے آپ کی مسلسل غیرحاضری اور اولاد سے دوری کی وجہ سے بچوں کی تربیت اور ان کی شخصیت کی تعمیر کا عمل شدید متاثر ہوا ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس تکلیف دہ صورت حال سے مثبت طور پر عہدہ برا ہونے کے لیے آپ کو راست فکر عطا ہو۔ جس قدر ہوسکے اپنے بچوں کو وقت دیجیے۔ انہیں اپنی بات سمجھانے کے بجائے فی الوقت ان کی بات سنیے۔ ان کی شخصیت کے موجودہ ڈھب اور ان کے اندازفکر کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ انہیں کسی طرح یہ احساس دلائیے کہ اولاد کی فلاح و خوشی آپ کی سوچ و فکر کا محور ہے۔ اپنی اہلیہ کی بھی خوب دل جوئی کیجیے۔ وہ ایک عظیم عورت ہیں جنہوں نے 26 سال تک شوہر سے دور رہ کر اولاد کی پرورش کی ذمہ داریاں تنہا نبھانے کی پوری کوشش کی۔ ان کی اس قربانی کا خوش دلی سے اعتراف کیجیے۔
صبح شام 101 مرتبہ اسمائے الہٰی یااﷲ۔ یارحمن۔ یارحیم O اول آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر دم کر کے ہاتھ دعا کی طرح چہرے پر پھیر لیں اور اس کے بعد گھریلو مسائل کے حل کے لیے دعا کریں۔ یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔
ڈر خوف
سوال: چند سال پہلے محلے کے دو لڑکوں سے میرا جھگڑا ہوگیا۔ اُنہوں نے ہاتھاپائی کے بعد سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ زیادتی انہی لوگوں کی تھی اور وہ اب تک دل میں دشمنی لیے گھوم رہے ہیں۔ اب میری شادی ہوچکی ہے۔ ماشاء اﷲ ایک بیٹی ہے۔ اب مجھے ان لوگوں کی طرف سے کافی ڈر خوف محسوس ہوتا ہے، جب بھی محلے میں اُن سے سامنا ہوتا ہے تو طرح طرح کے اندیشے دل میں آنے لگتے ہیں کوئی دعا بتائیں کہ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں سے حفاظت فرمائے اور دل کو تقویت ہو۔
(سہیل:لاہور)
جواب: صبح شام اول آخر گیارہ گیارہ بار درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیں اﷲ تعالیٰ سے حفاظت و پناہ طلب کریں۔ چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یامومن، یاسلام کا ورد کرتے رہیں۔ حسبِ استطاعت کچھ صدقہ بھی کردیں۔
مستقل ملازمت نہیں ملتی۔۔۔۔
سوال: میرے بیٹے نے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کی ہے۔ آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہ شعبہ آج کل کتنی اہمیت کا حامل اور کس قدر پُرکشش ہے۔ لیکن میرے بیٹے کو اس فیلڈ میں متواتر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ گذشتہ چھے سالوں میں پانچ جگہ ملازمت کرچکا ہے۔ کچھ عرصہ بعد یا تو اس کی کمپنی اپنا کاروبار سمیٹ لیتی ہے یا اس کو بغیر کسی وجہ کے ملازمت سے جواب مل جاتا ہے۔ میر ے بیٹے کے باقی تمام ساتھی ماشاء اﷲ اچھی جگہوں پر ہیں لیکن اس کے ساتھ پتا نہیں کیا مشکل ہے۔
(مسز سعید: ملتان)
جواب: عشاء کی نماز کے بعد 101 مرتبہ سورہ بقرہ کی آیت 148 اول آخر گیارہ گیارہ بار درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے بیٹے کے لیے دعا کریں۔ یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔ بیٹے سے کہیں کہ چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ کے اسماء یاحی یا قیوم کا ورد کرتا رہے اور ہر جمعرات کو اپنے ہاتھ سے حسب استطاعت خیرات کردیا کرے۔
خط بھیجنے کے لیے پتا ہے۔
’’روشن راستہ‘‘ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
پی او بکس 2213 ،کراچی۔74600
ای میل: dr.waqarazeemi@gmail.com
فون نمبر: 021-36685469
The post روشن راستہ appeared first on ایکسپریس اردو.