صالح اور مصلح
مصنف:ڈاکٹر حافظ محمد زبیر
قیمت:600 روپے،صفحات:650
ناشر:مکتبہ اسلامیہ، غزنی سٹریٹ اردو بازار، لاہور
اصلاح معاشرہ کا شوق رکھنا آسان ہے مگر اس مقصد کے لئے کمر کسنا بہت مشکل ہے کیونکہ اسلامی نقطہ نظر پیش کرنے والوں کو اس جدید دور میں بہت سی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر ڈاکٹر حافظ محمد زبیر جیسی شخصیات ان رکاوٹوں اور مشکلات کو خاطر میں نہیں لاتیں اور بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لانے کے لئے تگ و دو کرتی رہتی ہیں۔
ان کی اسلامی تعلیمات اور اسلامی طرز معاشرت پر بہت گہری نظر ہے، وہ جدید دور کی الجھنوں کو سلجھانے کی بھی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، زیر تبصرہ کتاب اصلاح نفس،اصلاح احوال،اصلاح عبادات، اصلاح خاندان، اصلاح معاشرہ، اصلاح مسلک و تحریک، اصلاح میڈیا و سوشل میڈیا، اصلاح تصوف، اصلاح علماء، تزکیہ اور تصوف اور اخلاق اور رذائل کے عنوانات کے تحت گیارہ ابواب میں تقسیم کی گئی ہے۔ ابواب کے عنوانات سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ مصنف قاری کو کس سمت میں لے جانا چاہتا ہے۔
کتاب کا اہم پہلو یہ ہے کہ جدید دور کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے الجھنوں کو سلجھایا گیا ہے جیسا کہ سوشل میڈیا کے باب میں نیٹ فورمز کے جہادی، فیس بک کا نشہ، سیلفی کا نشہ، فوٹو اور کامیڈی اور شہرت کا نشہ کے عنوان سے دلائل کے ساتھ ایسے نوجوانوں پر تنقید کی گئی ہے جو سوشل میڈیا کا اپنے مخصوص مقاصد کے لئے بے جا استعمال کرتے ہیں، تنقید کے ساتھ ساتھ انھیں راہ راست پر لانے کی کو شش کرتے ہوئے اس کے جائز استعمال پر روشنی ڈالی گئی۔ سیلفی کے بارے میں لکھتے ہیں ’’مباح اور جائز امور میں جو سمجھنے کی بات ہے، وہ یہ ہے کہ ایک تو ان میں غلو نہ ہو اور دوسرا یہ کہ وہ کسی حرام کا ذریعہ نہ بن رہے ہوں، پس ایسی جرات آمیز سیلفی لینا کہ جس سے آپ کی جان جانے کا اندیشہ ہو، بلاشبہ حرام ہو گا،اور سیلفی کا ایسا خمار کہ جو آپ میں نرگیست پیدا کر دے اور آپ اپنے ہی عاشق اور دیوانے بن کر رہ جائیں، تو یہ بھی جائز نہیں ہے۔
اور اگر آپ کو اس بات پر ٹینشن ہو جاتی ہے کہ آپ کی سیلفی کے لائکس کم آئے ہیں، تو آپ سیلفی کے خمار اور نشہ میں مبتلا ہیں۔ ‘‘ نئی نسل کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
روح زندگی
مصنف:طارق جاوید،قیمت: 600 روپے
ملنے کا پتہ: طارق جاوید، انچارج ہیڈماسٹر G.H.S دارا پور، جہلم
زیرنظرکتاب میں ایک انسان کی روحانی غذا کو ایک ہی جگہ اکٹھا کیا گیا ہے۔ آغاز میں بتایا گیا ہے کہ روح کیا ہے، حقیقت روح انسانی کیا ہے؟ حیات انسانی کے پانچ ادوار کون سے ہیں؟ مخلوقات عالم اور زندگی کے مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے ابلیس کا تعارف بھی کرایا گیا ہے۔ دین اور دعوت دین کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ فطرت سے بغاوت اور اس کے انجام کیا ہوتے ہیں ۔ دوسرے باب میں الکتاب، امربالمعروف، توحید، نفاق، ایمان، اخلاقیات کا ذکر کیا گیا ہے اور اسلام کے سنہری اصولوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اس کے بعد سیرت النبی ﷺ پر متعدد ابواب باندھے گئے ہیں۔ نبی مہربانﷺ سے پہلے کیا حالات تھے، آپ ﷺ کی آمد سے کیا اثرات مرتب ہوئے، کتاب میں خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؑؓ کی سوانح حیات بھی شامل ہے، تابعین، تبع تابعین اور بعد میں آنے والے برزگان دین کے تذکرے بھی موجود ہیں۔ کتاب کے آخر میں انسان کے دیگر انسانوں پر حقوق کا بھی ذکر شامل کیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک منفرد کتاب ہے۔امید ہے کہ اسے خوب پذیرائی ملے گی ۔
تھر، پیاس اور پانی
مصنف: ڈاکٹرآصف محمود جاہ
قیمت : 350 روپے
ناشر: علم وعرفان پبلشرز الحمد مارکیٹ،40 ۔ اردوبازار ،لاہور
بعض لوگوں کو دیکھ کر احساس پیدا ہوتاہے کہ ملک کی باگ ڈور انہی لوگوں کے ہاتھوں میں تھمادینی چاہئے، تب ہی ملک و قوم کا بیڑہ پار ہوگا۔ اس کتاب کے فاضل مصنف انہی لوگوں میں شامل ہیں۔ ایک بے چین روح کی طرح خیبر سے کراچی تک گھومتے رہتے ہیں، آفتوں اور مصیبتوں کے مارے ہوؤں کے درد کا چارہ لے کر پہنچ جاتے ہیں۔
ہیں تو کسٹم کے محکمے کے اعلیٰ افسر لیکن اپنی ظاہری و باطنی شخصیت سے افسر کبھی نہیں لگے۔ اپنے شہر میں ہوں یا کسی دوسری جگہ، وہ مسلسل خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ زیرنظر کتاب ان کی خدمت کی ایک جھلک ہے، وہ ایک ایسے علاقے سے متعلق ہے جو مرکز اور سندھ کے حکمرانوں کی غفلت کی نذر ہورہاہے۔ وہاں انسان، پرندے اور مویشی سب مررہے ہیں۔ ایسے میں وہ لوگ بہت غنیمت ہیں جو وسائل اور افراد کی کمی کے باوجود وہاں کے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
’تھر، پیاس اور پانی‘ کے چار حصے ہیں۔ پہلے حصے میں پیاسے تھر کو سیراب کرنے کے لئے تھر کے دور دراز گوٹھوں میں میٹھے کنوئیں بنانے کا ذکر ہے۔ دوسرے حصے میں تھر کے اندر ڈاکٹرصاحب کے ادارے ’ کسٹمز ہیلتھ کئیر سوسائٹی‘ کے جانثار کارکنوں ، مخلصین، محبین اور معاونین کی کاوشوں کا تذکرہ ہے۔علاج اور خدمت کا کاررواں اب بھی تھر کے ریگزاروں میں سرگرداں ہے اور پوری دل جمعی سے تھر کے مکینوں کی خدمت میں مصروف ہے۔ کتاب کے تیسرے حصے میں سندھ میں 2012ء میں ہونے والی طوفانی بارشوں اور سیلاب کے دوران متاثرین کے علاج اور خدمت کا احوال درج ہے۔ چوتھے حصے میں تھر کی صورت حال پر مختلف اخبارات میں لکھے گئے بہترین کالم شامل کئے گئے ہیں۔ پیاسے تھر کو میٹھے کنوؤں سے سیراب کرنے کی یہ داستان عزیمت بہت دلچسپ اور ہمت افزا ہے۔ آپ ضرور پڑھیے گا، بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
سوچ رت
تالیف: گل بخشالوی،صفحات : 128
ناشر:بخشالوی پبلیکیشنز، کھاریاں
شعر اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچانے کا خوبصورت انداز ہے۔ کیونکہ جتنے لطیف پیرائے میں شعر کے ذریعے اپنے احساسات سے دوسروں کو آگاہ کیا جا سکتا ہے یہ خوبی نثر میں نہیں بلکہ نثر خوبصورت ہو تو اس کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ نثر میں شاعری کی گئی ہے۔سوچ رت میں منتخب شعراء کرام کی غزلیں شامل کی گئی ہیںجس کا اہتمام کھاریاں کی ادبی تنظیم قلم قافلہ نے کیا ہے۔
گل بخشالوی کہتے ہیں’’ قلم قافلہ کے زیر اہتمام ان شعراء کا کلام شائع کیا گیا ہے جو بہت کچھ کہتے ہیں لیکن ان کی تخلیقات ذاتی ڈائریوں تک محدود ہیں،ایسے میں کئی ایک ادب دوست ایسے تخلیق کاروں کی تخلیقات منظر ادب پر لا کر آنے والے کل کے ادب دوستوں کیلئے محفوظ کر رہے ہیں‘‘۔ غزلوں کا انتخاب بہت خوب ہے جیسے’’ اہل دل اب عہد رفتہ کی نشانی ہو گئے۔۔۔۔۔۔ خواب سارے دیدہء تر کی کہانی ہو گئے۔‘‘ زیر تبصرہ کتاب غزلوں کے انتخاب میں خوبصورت اضافہ ہے۔
نیلی آگ
مصنف: محمد افضال ندیم
صفحات:100،قیمت:250 روپے
ناشر: محمد خورشید چشم وطن ریلوے روڈ گوجر خان
زندگی بے شمار واقعات اور مشاہدات کا مجموعہ ہے، جن میں سے کچھ بہت سے پہلو لئے ہوتے ہیں۔ یہی مشاہدات اور واقعات ایک لکھاری کو انھیں قرطاس پر اتارنے پر مجبور کرتے ہیں۔ افسانہ ادب کی ایک ایسی صنف ہے جو کسی واقعے یا مشاہدے کے ایک پہلو کو پکڑ کر اسے ایسے انداز میں قاری کے سامنے پیش کرتی ہے جس سے معاشرے کے تلخ حقائق سامنے آ جاتے ہیں۔
مصنف نے بڑے خوبصورت انداز میں زندگی کے ایسے تلخ پہلووں کو پیش کیا ہے۔ ان کی تحریر کی روانی قاری کو کہیں ٹھہرنے نہیں دیتی اور وہ کسی تیز رو ندی میں بہنے کے انداز میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور ہر افسانہ اسے غورو فکر کی نئی راہوں پر لے جاتا ہے۔
پہلے افسانے ’’ شبا، شبران ، شیکسپیئر‘‘ کو ہی لے لیں جس میں ایک لائق اور قابل استاد عادل زندگی کے ایک موڑ پر جب اپنے کم پڑھے لکھے اور نالائق دوست شبران عرف شبا سے ٹکراتا ہے تو اس کی دولت مندی اور بیٹے سے انگریزی میں بات کرتے دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے جبکہ اس سے قبل اس کے خیال میں شبا کہیں مزدوری کر رہا تھا، جس سے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی ترقی کی وجہ اپنی نالائقی کے باوجود اساتذہ اور بزرگوں کا ادب کرنا ہے، جس کی وجہ سے اللہ نے اسے آگے بڑھنے کے مواقع دیئے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
محبت بے ثمر اب بھی نہیں ہے
شاعر: پروفیسر صابر حسین شکیب وجدانی
صفحات: 251، قیمت: 500/ روپے
ناشر: مکتبہ وجدانیہ، ساہیوال
پروفیسر صابر حسین شکیب وجدانی کہنہ مشق شاعر ہیں ۔اب تک ان کی متعدد کتب زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ جن میں نظم و نثر دونوں قسم کی کتب شامل ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جس میں شاعری میں بقول شاعر ’’ان کی ہر رنگ کی غزلیں شامل ہیں۔ روائتی حسن و عشق، اس کے جدید رنگ، غمِ دنیا، فکر ِ عقبیٰ، ہجرو وصال، تصوف، عرفان ایسے سنجیدہ مضامین کے علاوہ طنز ومزاح ‘‘ پر مبنی کلام بھی باافراط موجود ہے۔ جس سے ہر عمر اور ہر ذوق کے لوگ استفادہ کرسکتے ہیں۔
کتاب میں غزلیں، نظمیں، قطعات وغیرہ شامل ہیں۔ یہ مجموعی طور پر عام روائتی قسم کی شاعری ہے جس میں سادہ پیرائے میں مذکورہ موضوعات کو اشعار کی صورت میں اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔ بعض اشعار میں جدید یت کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے لیکن زیادہ تر وہی پرانا شعری اسلوب ہے جو ہم نصف صدی سے قبل کے شعرا میں دیکھتے چلے آرہے ہیں۔
ابوالبیان ظہوراحمد فاتح کی منشورِ ِ نظم
مصنف شبیر ناقد
صفحات: 224، قیمت: 500 روپے
ناشر: اردو سخن ڈاٹ کام چوک اعظم
شبیر ناقد کی یہ کتاب بزرگ شاعر اور استاد ابوالبیان ظہور احمد فاتح کی شاعری کے حوالے سے تحریرکی گئی ہے ۔جس میں ان کے فن ِشاعری ، اس کے مختلف پہلووں اور محاسن کا احاطہ کیاگیاہے۔کتاب کاانتساب بھی ’’ آموزگارِ ادب ابوالبیان ظہوراحمد فاتح ‘‘ ہی کے نام منظوم انداز میں ہے ۔کتاب میں شامل اہم مضامین کے عنوانات اس طرح ہیں ۔
ابوالبیان ظہور احمد فاتح کی حمد نگاری، نعت نگاری، شاعری ، اصلاحی خدوخال ، ملی احساسات، ان کی قومی شاعری، ان کے پیرائیہ شعر میں عمرانی ادرکات،ان کے فلسفیانہ تصورات ، آشوب ِ عصر ، ان کا طلسماتی اندازِ فکرو نظر وغیرہ وغیرہ ۔ان موضوعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کتاب میں حضرت ظہوراحمد فاتح کی شاعری کے تمام پہلووں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے جو ان کی شاعری میں پائے جاتے اور ان کی قادرالکلامی پردلالت کرتے ہیں مقام ِ حیرت ہے کہ اس قدر عظیم شاعر اور ہمہ جہت شخصیت ہونے کے باوجود عامتہ الناس خصوصاً اردو ادب کے طالبعلم کوان کے بارے میں کماحقہ آگاہی حاصل نہیں کرسکے اس کی وجہ شائد ان کی درویش منش طبیعت بھی ہوسکتی ہے ۔
شبیر ناقد بہرحال ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس گوہر تابدار کو عوام الناس کے سامنے لانے کی سعی کی ۔کتاب کا سرورق اور طباعت و گٹ اپ بھی معیار ی ہے ۔
مرے ہم سفر، مرے پیش رو
مصنف: خالق آرزوؔ
صفحات: 160 ،قیمت : 400/ روپے
ناشر: الاشراق ، گنپت روڈ ، لاہور
خالق آرزوؔ کی پہچان اور شہرت ادبی حلقوں میں ایک شاعر کے طور پر ہے ۔تاہم وہ نثر میں بھی یکساں مہارت رکھتے ہیں۔الفاظ کا استعمال بڑے نپے تلے انداز میں کرتے ہیں ان کے پاس وافرذخیرہ الفاظ ہے تحریر میں چاشنی ہے ۔زیر تبصرہ کتاب ’’ مرے ہمسفر ، مرے پیش رو‘‘ اس عہد کے ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے جن کے ساتھ مصنف کی ملاقات رہی ، یا ادبی حوالے سے تعلق رہا ۔کتاب میں ڈاکٹر صغرا صدف، نسیم سحر، ضیا ء شہزاد اور ڈاکٹر افتخار شفیع کی تصنیف اور صاحب ِ تصنیف کے بارے میں آراء بھی شامل ہیں ۔
جنہوں نے انہیں ’’ نئے تنقید نگار ‘‘ کے طورپر لیا ہے۔لیکن کتاب میں شامل مضامین کے مطالعہ سے لگتاہے کہ کوئی ایک مضمون بھی ’’ خالص تنقید ‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا۔یہ مضامین یا تاثراتی تحریریں ہیں جنہیں مصنف نے بھی بجا طورپر تاثراتی قراردیا ہے۔ ان میں ایک خاتون شاعرہ کا انٹرویو بھی شامل ہے ۔بہر حال اس بحث سے ہٹ کر کتاب میں شامل مضامین چونکہ ہمارے عہد کے اہل قلم کی شخصیت اور فن کے بارے میں ہیں اس لیے قاری کے لیے ان کے اندر ایک دلچسپی کا عنصر بھی موجود ہے۔اس لحاظ سے اسے ایک اچھی کاوش قراردیا جاسکتا ہے ۔
زندگی کی رہگزر پر
مصنف:جمیل یوسف
صفحات: 412، قیمت : 650/ روپے
ناشر:دوست پبلی کیشنز ، اسلام آباد
زیر تبصرہ کتاب معروف شاعر جمیل یوسف کی سوانح حیات ہے جس میں انہوںنے اپنے ابتدائی ایام ِ زیست سے لے کر نصف صدی سے زائد عرصہ کے حالات و واقعات بڑے دل نشیں انداز میں سپرد ِ قلم کیے ہیں،یہ محض آب بیتی ہی نہیں ہے وطن عزیز کے بعض اہم چشم دید اور چشم کشا واقعات اور اس کی تاریخ کے حوالے سے بھی ایک دستاویز ہے جس میں حیرتیں بھی ہیں اور واقعات ِ عبرت بھی ۔معروف دانش ور اور استاد ڈاکٹر خورشید رضوی رقم طراز ہیں کہ ’’ جمیل صاحب کی شخصیت ایک شمشیر ِ بے نیام ہے ، دوٹوک اور واضح ۔ وہ پاسبانِ عقل سے جب چاہیں رخصت لے سکتے ہیں ۔
ان کی طبیعت کی اساس ، جو اسلام پر پختہ ایمان اور پاکستان سے غیر مشروط محبت پر استوار ہے ، عالم بے خودی میں بھی متزلزل نہیں ہوتی ۔یہ دونوں پہلو اور وطن عزیز کی تاریخ کے بعض نانوشتہ اوراق آپ کو اس آپ بیتی میں جابجا نظر آئیں گے ۔ آپ اسے پڑھتے ہوئے زیر ِ لب مسکرابھی سکتے ہیں ، بے اختیار قہقہہ بھی لگا سکتے ہیں ، آبدیدہ بھی ہوسکتے ہیں اور سوچ میں بھی ڈوب سکتے ہیں ‘‘۔کتا ب اور صاحب ِ کتاب کے بارے میں یہ ایساجامع تبصرہ ہے کہ جس کے بعد مزید کسی تبصرے کی گنجائش نہیں محسوس ہوتی ۔کتاب صوری اور معنوی ہر دو انداز سے معیاری اور قابلِ مطالعہ ہے ۔
روح دی روہی (سرائیکی مجموعہ )
شاعر: شبیر ناقد
صفحات: 144 ،قیمت: 400/ روپے
ناشر: اردو سخن ڈاٹ کام ، چوک اعظم ،لیہ
شبیر ناقد اردو اور سرائیکی کے شاعر اورادیب ہیں ۔نثر کے ساتھ ساتھ نظم (شاعری) میں بھی رواں ہیں اور دونوں اصناف ِ سخن میں اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں ۔اب تک ان کے چھ شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔’’ روْح دی روہی ‘‘ ان کی سرائیکی شاعری کا مجموعہ ہے جس میں ان کی حمد ، نعت ، غزلیں اور نظمیں شامل ہیں ۔ابوالبیان ظہور احمد فاتح ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ شبیر ناقد منفرد اور مختلف سوچ رکھنے والا قلم کار ہے ۔ادب کی شائستگی اور شستگی کو ہمیشہ مد ِ نظر رکھتاہے۔تشبیہہ ، استعارہ ، تلمیح ، ترکیب اورمحاورے کا اپنے کلام میں فطری اہتمام کرتا ہے اس کے اشعار پڑھتے اور سنتے ہوئے کیف محسوس ہوتا اور مزا آتاہے‘‘۔سرائیکی شاعری میں شاعری کی ایک صنف ڈوہڑا بھی ہے۔اور شبیر ناقد نے ڈوہڑے بھی لکھے ہیں ۔سرائیکی پڑھنے والوں کے لیے شاعری کی یہ ایک اچھی کتاب ہے ۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.