Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

احمد خان طارق…سرائیکی شاعری کا رومانی و تہذیبی چہرہ

$
0
0

برطانوی دور حکومت میں سرائیکی زبان و ادب پر کام کرنے والے معروف مستشرق مسٹر ایڈورڈ اوبرائن 1881ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’گلاسری آف ملتانی لینگویج‘‘ میں لکھتے ہیں:

ملتانی (سرائیکی) زبان جھونپڑوں سے اٹھتے دھویں اور گندم کے آٹے کی سوندھی سوندھی خوشبو میں لپٹی ہوئی ہے‘ یہ زبان مشرقی ہندوستان کی مصنوعی اور جکڑی ہوئی زبانوں کی نسبت لامحدود طور پر قدرتی اور دلکش ہے جو اپنی خاردار رہگزاروں سے محبت رکھتی ہے‘ اس کی فضائیں اس جادو سے معمور ہیں جو جھاڑیوں میں اُگے پھول پیش کرتے ہیں‘‘۔

سرائیکی شاعری اور زبان کے بارے میں یہ اس مستشرق ادیب اور نقاد کی رائے ہے جس نے پہلی بار اس زبان کے ادب کو تنقیدی نظر سے دیکھا تھا‘ مسٹر اوبرائن کی یہ رائے ظاہر کرتی ہے کہ سرائیکی شاعری کا زمین اور اس کے وسیع لینڈ اسکیپ سے گہرا تعلق ہے‘ زمین سے جنگلی پھولوں کی طرح پھوٹتی سرائیکی شاعری اپنے دامن میں زمین کے سارے رنگ رکھتی ہے۔

مسٹر اوبرائن کی سرائیکی زبان و ادب کے بارے میں یہ رائے سرائیکی شاعری کے اولڈ کلاسیکل دور سے تعلق رکھتی ہے‘ اگر مسٹر اوبرائن خواجہ فرید کی کافیوں میں موجود روہی کے لینڈ اسکیپ اور احمد خان طارق کے ڈوہڑوں میں بیٹ کی اداسی کو دیکھتے تو یقیناً ان کی آنکھیں مزید حیرانی سے ہم کنار ہوتیں۔ گو سرائیکی شاعری کے خمیر میں زمین سے گہری وابستگی کے رنگ ابتداء ہی سے موجود ہیں لیکن خواجہ فرید اور ان کے بعد احمد خان طارق نے تو زمینی لینڈ اسکیپ کو گویا زبان ہی اور دے دی۔

10 فروری 2017ء کو ڈیرہ غازی خان کے قصبے شاہ صدر دین میں انتقال کر جانے والے احمد خان طارق سرائیکی دھرتی کے وہ شاعر تھے جنہوں نے سرائیکی شاعری کو ایک منفرد ذائقے اور حیران کردینے والے لینڈ اسکیپ سے متعارف کرایا۔ احمد خان طارق 25 ستمبر 1924ء کو ڈیرہ غازی خان کے قصبے شاہ صدر دین کی بستی دلیل میں پیدا ہوئے‘ ان کے والد کا نام بخش خان کھوسہ تھا۔ احمد خان طارق نے رسمی تعلیم صرف تین جماعت تک حاصل کی بعد ازاں اپنی ذاتی صلاحیتوں اور فطرت کے مطالعہ نے انہیں ایسی لوک دانش سے مزین کیا کہ اپنے خطے اور تہذیب کی نمائندہ آواز بن کر سامنے آئے۔ احمد خان طارق جن کا اصل نام احمد خان کھوسہ تھا، 1949ء میں استاد نور محمد سائل کے شاگرد ہوئے‘ استاد نور محمد سائل نے ہی انہیں احمد خان طارق کا نام دیا اور اسی نام سے انہوں نے سرائیکی ادب کی دنیا میں لازوال شہرت پائی۔

احمد خان طارق نے اپنے ادبی کیریئر میں سرائیکی شاعری کی تمام اصناف میں نہ صرف کام کیا بلکہ اپنی انفرادیت کے رنگ بھی نمایاں کئے۔ یہ الگ بات کہ ادبی دنیا میں ان کی تمام تر شہرت اور انفرادیت ان کی ڈوہڑا گوئی کے حوالے سے تھی‘ احمد خان طارق کی نظم‘ غزل اور ان کی سرائیکی کافی پر ابھی گفتگو کا آغاز ہی نہیں ہوا‘ اب تک ان کے تمام ناقدین نے ان کے فن کو محض ڈوہڑے اور اس میں موجود بیٹ کی ثقافت‘ مونجھ‘ نمانتا اور عجز کے حوالے سے ہی دیکھا ہے۔ گو احمد خان طارق کی ڈوہڑا گوئی ان کے فن کی معراج بنی لیکن دیگر اصناف میں کئے گئے ان کے کام کو بھی نظر تحسین سے دیکھنے کی ضرورت ہے‘ ڈوہڑا جو سرائیکی شاعری کی اہم صنف سخن ہے کیفی جامپوری اپنی کتاب ’’سرائیکی شاعری‘‘ میں ڈوہڑا کی اہمیت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ملتانی زبان کا ہر شاعر ڈوہڑا کہہ کر مشق سخن کا آغاز کرتا ہے‘ برسوں کے رواج اور تسلسل کی بدولت ڈوہڑے کا ایک مزاج اور مخصوص انداز بن چکا ہے‘ جس نے روایت کی شکل اختیار کرلی ہے‘ دیہات کا نوجوان چاندنی رات کی رنگینیوں میں اپنی حسرتوں اور ارمانوں کا اظہار ڈوہڑے میں کرتا ہے‘ پوہ ماگھ کی ٹھٹھرتی راتوں میں رہٹ چلانے والا ڈوہڑا گا کر ہی اپنے سینے کو گرماتا ہے‘ شفق شام کی سرخی پھیلنے سے پہلے چرواہا مویشیوں کے گلے کو واپس لاتے ہوئے سریلی آواز میں ڈوہڑا گانے لگتا ہے تو فضا جھوم اٹھتی ہے‘ مویشیوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے‘ سروں پر پانی کے مٹکے اٹھائے دوشیزاؤں کی چال میں ایک پیارا سا دھیما پن آجاتا ہے۔‘‘

احمد خان طارق کا تعلق دریائے سندھ کے کنارے آباد صدیوں پرانے اس بیٹ اور بیلے سے تھا جہاں دریا کی روانی بعض اوقات آنکھوں میں رکھے خواب تک بہا لے جاتی ہے‘ اپنی شاعری میں اس علاقے کے لینڈ اسکیپ اور تہذیبی رویوں کو انہوں نے جس آفاقی پھیلاؤ کے ساتھ پیش کیا یہ انہی کا خاصہ تھا‘ بعض لوگ احمد خان طارق کی شاعری پر یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ انہوں نے صرف بیٹ کے لینڈ اسکیپ کو پینٹ کیا یا وہ اپنے کینوس کو وسعت نہیں دے سکے‘ اپنے معترضین کو جواب دیتے ہوئے احمد خان طارق نے ایک انٹرویو میں کہا تھا:

’’مجھے پتہ ہے کہ میری شاعری کے بارے میں بہت سے نقادوں کی یہی رائے ہے لیکن یہ بات مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہے‘ میں نے اپنی شاعری میں اور لینڈ اسکیپ بھی پینٹ کئے ہیں‘ لیکن میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی دوسرا شاعر میرے اس منظر نامے میں چند روز گزار لے تو وہ بھی اس کیفیت سے نہیں نکل سکے گا جو بیٹ اور بیلے میں مجھ پر طاری ہو جاتی ہے‘ بیٹ کے ساتھ میرا روحانی تعلق ہے‘ وہ سب کچھ جسے میں اپنے دل میں بسانا چاہتا ہوں وہ صرف بیٹ کے اندر ہے‘ میرے باطن میں بھی ایک بیٹ آباد ہے مجھے اکثر ایسا لگتا ہے کہ میری روح کی تخلیق بھی کہیں دریا کے کنارے ہی ہوئی تھی جہاں بیٹ اور بیلے کے رنگ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود تھے‘‘۔

احمد خان طارق بیٹ کی جس جادوئی فضا کے زندگی بھر اسیر رہے آخر اس بیٹ کی جادوئی فضا کے رنگ کیا ہیں بقول حفیظ خان!

’’ڈوہڑا گوئی میں احمد خان طارق کا شہرت کے سب سے معتبر سنگھاسن پر براجمان ہونا کوئی امر اتفاقیہ نہیں‘ اس اوج کمال کے پس منظر میں فنی ریاضت سے زیادہ ان کے دانشمندانہ برتاؤ کا دخل ہے کہ جس کے ذریعے انہوں نے اپنے وسیب کے دکھ اور مصائب کو مصور کیا ہے‘ ان کے ہاں محبتوں کے ساگر صرف اپنی لوکائی کیلئے ہلکورے نہیں لے رہے بلکہ انہوں نے اپنے ’’بیٹ‘‘ کو آفاقی سطح پر جگ جہان کا استعارہ بنا دیا ہے احمد خان طارق کی شاعری میں بیٹ صرف سندھ ساگر کے کناروں کے ساتھ ساتھ رواں دلدلی بودو باش کرنے والے حرماں نصیبوں کا مسکن نہیں بلکہ ان تمام خطوں کا بیانیہ ہے کہ جو تہذیبی‘ جغرافیائی‘ معاشی اور سماجی حملہ آوری سے دوچار چلے آتے ہیں۔

انہوں نے یاس اور ناامیدی کو زینہ زینہ اترتی موت سے کہیں ہٹ کر جیتی جاگتی اور رواں دواں زندگی میں تلاش کرتے ہوئے روایتی شاعری کے مضامین بدل کر رکھ دیئے ہیں۔ یہ منصب بھی احمد خان طارق کے نام ہوا کہ اجڑے ہوئے نو آبادیاتی خطے کا بے نوا شاعر کس طرح اپنی انفرادی فہم کو اجتماعیت میں منقلب کرتے ہوئے قوی تر مزاحمت اور مہذب دفاع کا روپ عطاء کرتا ہے‘‘۔

اٹھی سینگی جاگ سیانی تھی نہ اتنی نندر پیاری کر
پئی سارا گھر خیلان تھیا کوئی تھاں دھوانگن بہاری کر

ہن سر ڈوپہر خمارکوں سٹ، بے کار نہ تھی کوئی کاری کر
آئی طارق کالی رات اجھو‘ وٹ ڈیوا جوڑ تیاری کر

احمد خان طارق نے سرائیکی ادب کو آٹھ کتابوں سے نوازا ہے‘ ان کی پہلی کتاب ’’گھروں درتانڑیں‘‘ سے لے کر آخری مجموعہ کلام ’’میں کیا آکھاں‘‘ تک ان کی شاعری ایک ارتقاء سے ہم کنار ہوتی رہی‘ گو ڈوہڑا کے حوالے سے یہ بات تسلیم کی جا چکی ہے کہ احمد خان طارق نے اس متروک ہوتی ہوئی صنف کو ایک نئی زندگی اور نئی تازگی دی لیکن اس کے باوجود ان کا شاعری کی دیگر اصناف میں کیا گیا کام ابھی بھی ناقدین کی توجہ کا منتظر ہے‘ ان کی منفرد لفظیات‘ جادوئی بیانیہ زمین کے رنگوں سے آراستہ شعری تراکیب اور ان کے شعری دروبست پر بھی ابھی گفتگو کا دروا ہونا ہے۔

احمد خان طارق کے فن پر تنقیدی کام کی تشنگی کے باوجود ان کی شاعری کو اپنے وسیب میں عوامی سطح پر بہت زیادہ محبت ملی۔ عوامی سطح پر ہی انہیں ’’ڈوہڑے کا امام‘‘ اور ’’سرائیکی شاعری کا حاتم‘‘ کہا گیا‘ ان کے پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت کے بعد ان کی شاعری کی شہرت ہی نہیں پھیلی بلکہ ان کی شاعری پورے خطے میں ایک سچ کی طرح قائم ہوئی۔ ان کی شاعری نے اس طرح اپنے آپ کو منوایا جیسے کوئی سچ اپنا آپ منوا لیتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ احمد خان طارق کی شاعری کو ہر سطح پر اور ہر طبقے میں قبول کیا گیا۔ پروفیسر شریف اشرف اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’’احمد خان طارق وہ خوش نصیب شاعر ہیں جنہیں اپنی شاعری کے سبب شہرت اور مقبولیت ’’عقیدت اور محبت کے انداز میں حاصل ہوئی۔ کم و بیش بیس سال سے طارق دلوں کی دھڑکن اور جذبوں کی آواز بن کر مونجھی ماندی سرائیکی دھرتی کی بسیط وسعتوں میں دکھ کی انوکھی دھج کے ساتھ موجود ہے‘ محفل ہو کہ میلہ ہو‘ گیت ہو کہ سنگیت ہو‘ جھوک ہو کہ وساخ جہاں جہاں دل والے دلدار کے قصے ہوتے ہیں‘ ہجر و وصال کی حکایتیں ہوتی ہیں‘ حسن و عشق کی کہانیاں سنی جاتی ہیں ۔ طارق ایک قصہ گو اور کہانی کار کی حیثیت سے گہرے دکھ اور گھمبیر اداسی کی علامت بن کر سامنے آتا ہے‘‘۔

میڈے سر دے والی وارث ہو، تساں والیاں کوں میں کیا آکھاں
میڈے سیئت وی اللہ والے ہن، اللہ والیاں کوں میں کیا آکھاں

کن والیاں تیڈا پچھدیاں ہن، کن والیاں کوں میں کیا آکھاں
توں طارق دھنولا چاتی گئیں، لسی والیاں کوں میں کیا آکھاں

احمد خان طارق کو عوامی سطح پر تو جو محبوبیت‘ عقیدت اور محبت ملی وہ آج تک کسی دوسرے شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔ سرائیکی خطے میں احمد خان طارق کی محبوبیت کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ انہیں ان کے تمام ہم عصر شعراء نے بھی خراج تحسین پیش کیا‘ ان کی شاعری پر گفتگو کی‘ مضامین تحریر کئے‘ دسمبر 2015ء میں محبوب تابش کی ادارت میں شائع ہونے والے سرائیکی ادبی جریدے ’’وسوں ویہڑے‘‘ کا ’’احمد خان طارق نمبر‘‘ بھی شائع کیا گیا جس میں احمد خان طارق کے فن و شخصیت کا بھرپور انداز میں احاطہ کیا گیا۔ آخر میں احمد خان طارق کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے خطے کے اہم ترین لکھاریوں کی وہ آراء پیش کی جا رہی ہیں جن میں احمد خان طارق کو بڑی محبت اور عقیدت سے دیکھا گیا ہے۔

رفعت عباس
احمد خان طارق نے اس خطے کو حوصلہ اور طاقت دی ہے۔ انہوں نے اس وسیب کو گھمبیر اداسی اور موت سے باہر نکالا ہے‘ آدمی کو حوصلے اور طاقت سے ہمکنار کرنے والے لوگ کبھی کبھی اور کسی کسی جگہ پر ہی پیدا ہوتے ہیں‘ وہ ماں باپ کی طرح چھاؤں تراشتے ہیں‘ لوریاں، گیت اور کہانیاں دیتے ہیں‘ ساتھ مل بیٹھنے کیلئے باغوں میں بنچ بناتے ہیں‘ وہ موت کے کنارے پر محبت کی کشتیاں لنگرانداز کرتے ہیں‘ اس طرح کے حوصلہ عطاء کرنیوالے لوگ اگر کسی وسوں میں پیدا ہو جائیں تو وہی خطہ آگے بڑھتا ہے۔

حفیظ خان
احمد خان طارق نے بیٹ کے واسیوں کے دریائے سندھ کے ساتھ رومانس کو نئی جہتوں سے آشنا کیا ہے‘ بیٹ جہاں پر سکون بودوباش سے عبارت ہے وہاں طغیانیوں کے عالم میں بربادیوں کے ابواب رقم کرتا ہوا انہیں ہجرت آشنا کرتا ہے‘ یوں وسیبیوں کی زندگانی سپت سندھو کے مزاج کے مطابق تغیرات سے ہمکنار ہوتی رہتی ہے۔ احمد خان طارق کے بارے میں بجاطور پر کہا جاتا ہے کہ اس دلدلی بیٹ کی فسوں کاریوں کو ان سے زیادہ مؤثر انداز میں کسی اور شاعر نے مصور نہیں کیا‘ میرے لئے یہ امر حیرت کا باعث ہے کہ سرائیکی زبان کے معروف ترین ڈوہڑا گو شاعر دریاؤں کے بیٹ خاص طور پر دریائے سندھ کے اس پار آباد رہے ہیں۔

طارق اسماعیل احمدانی
اگر بادی النظر میں دیکھا جائے انہوں نے (احمد خان طارق) نے ڈوہڑے کو وقار اور احترام بخشا ہے‘ عشق کے عامیانہ بیانیے سے ڈوہڑے کی جان چھڑا دی اور ڈوہڑے میں اپنی شناخت کی‘ شعوری کوشش بھی کی ہے‘ ان کی شاعری کا بڑا موضوع ماں دھرتی اس کے دریا‘ دریا کا کنارا اور اس کے متعلقات ہیں۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ دریا اور بیٹ ان کی شاعری کا مرکز و محور ہے‘ ان کے اسی رویے سے رومانیت پسندی کا اشارہ ملتا ہے اور ناسٹلجیا بھی ان کی شاعری کا اہم عنصر ہے۔

ڈاکٹر نجیب حیدر ملغانی
سائیں احمد خان طارق کی شاعری سچ اور حسن کا ادراک ہے جو جذبات کے بے ساختہ اظہار اور دلیل کی جھنجھٹ سے باہر نکل کر قبول کرنے سے ممکن ہوتا ہے۔ سرائیکی وسیب کی گود میں کھیلنے والے دریاؤں‘ نہروں نے ایک ایسا سکھ بھی اس دھرتی کے مزاج میں شامل کر دیا ہے کہ استحصال کی صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی اس دھرتی کے باسی آج بھی دھرتی کے مزاج جیسے ہی ہیں۔

خلیل بخاری
سرائیکی شاعری میں ڈوہڑا ایک قدیم صنف رہی ہے‘ حسینی ڈوہڑے کے ساتھ تو سرائیکی شناخت وابستہ ہے‘ سرائیکی ذاکر دلی اور لکھنؤ میں حسینی ڈوہڑے کی مجلس پڑھتے تھے‘ یہ میر‘ دبیر اور انیس سے بھی پہلے کا دور ہے۔ ڈوہڑا اپنی ہیئت کے اعتبار سے دکھ درد اور غم کا اظہار کرتا ہے‘ سرائیکی وسیب میں خواجہ فرید کے بعد سب سے زیادہ احمد خان طارق کو گایا گیا۔ احمد خان طارق کا ڈوہڑا بھرپور اثرپذیری اور معنویت سے لبریز ہے کہ کوئی بھی گلوکار اپنی گائیکی میں اس کے استعمال کے بغیر نامکمل ہے۔

مجاہد جتوئی
سرائیکی ادب کا ہر قاری اس بات پر متفق ہے کہ جو طارق سائیں نے ڈوہڑے کی صنف کو نیا وقار اور اعتبار دیا ہے، آج ڈوہڑا جس مقام پر نظر آتا ہے اس میں طارق سائیں کا حصہ سب سے زیادہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ڈوہڑے کے علاوہ کسی دوسری صنف میں طارق صاحب کا قلم رواں نہیں‘ غزل اور گیت میں بھی ان کے ہاں عمومی سادگی‘ بیان کا دھیماپن‘ نزاکت‘ جدت خیال‘ تشبیہات اور محاورے کا برمحل استعمال ایک لطف پیدا کرتا ہے۔

پروفیسر محمد خان ملغانی
طارق کی شاعری سرائیکی شاعری میں بہت بڑا اضافہ ہے‘ بیٹ کے لینڈاسکیپ اور وہاں کے باسیوں کے درمیان استعمال ہونیوالی لسانی تراکیب‘ الفاظ اور محاوروں (مثال کے طور پر جھوک‘ بھانے‘ بھان‘ سالہیں‘ چھپر‘ کیہل‘ موہانے‘ ٹوکرے بدھنے‘ مال منجھیں‘ کٹیاں‘ کلے‘ مٹی دا گھبکار‘ پاراوار جھرجنگل) طارق سائیں کی شاعری کی اپنی ہی نویکلی لسانیات ہے جسے آج تک کسی دوسرے سرائیکی شاعر نے اپنے کلام کا حصہ نہیں بنایا۔

The post احمد خان طارق… سرائیکی شاعری کا رومانی و تہذیبی چہرہ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>