Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

آسمان سے گری… جنگل میں اٹکی

$
0
0

’’وہ نظارہ میرے ذہن کی تختی پر جامد ہوکر رہ گیا ہے، وہ لمحات وقت کی مسافت پار کرکے میرے ذہن پر نقش ہوچکے ہیں۔

جب میں ہوش میں آئی اور میری آنکھ کھلی تو یہ لانبے لانبے درختوں کے جھنڈ تھے جن کی چوٹیاں آپس میں یوں ملی ہوئی تھیں کہ جیسے کوئی تاج ہو۔ سورج کی کرنیں گھنے پتوں میں سے چھن چھن کر بہ مشکل اپنا راستہ بناتی ہوئی جنگل کے فرش تک پہنچ رہی تھیں اور میرے چہارسو ہر شے سبز رنگ کی ملگجی روشنی میں نہائی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ میں خود کو بے حد تنہا، بے بس اور بے دست و پا محسوس کررہی تھی۔ میری ماں میرے ساتھ والی نشست پر ہی براجمان تھی مگر اب وہاں بھی خالی پن اور خاموشی میرا منہ چڑا رہی تھی۔ مجھ میں اتنی سکت بھی نہ تھی کہ میں کھڑی ہوسکوں یا زیادہ ہل جل کروں۔ میرے کانوں میں میری گھڑی کی ٹک ٹک گونج رہی تھی مگر مجھ میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ ٹائم دیکھ سکوں۔

مجھے بالکل سیدھا دیکھنے میں دقت پیش آرہی تھی۔ جب کچھ حواس بحال ہوئے بلکہ میں نے ارادتاً اپنے حواسوں کو مجتمع کیا اور میرے احساسات بیدار ہونے لگے تو مجھے احساس ہوا کہ میری بائیں آنکھ سوجن کی وجہ سے بند ہوچکی ہے، دائیں آنکھ البتہ کچھ بہتر تھی اور میں ادھ کھلی دائیں آنکھ سے ہی کچھ دیکھنے کے قابل تھی۔ میرا چشمہ بھی کھوگیا تھا مگر کسی نہ کسی طرح میں نے ٹائم دیکھ ہی لیا ۔ یہ صبح کے 9 بجے کا وقت تھا۔ میں خود کو ادھ موا محسوس کررہی تھی اور بیچارگی کی حالت میں بارانی جنگل کے فرش پر ہی لیٹی رہی۔ کچھ دیر بعد میں نے ہمت مجتمع کی اور گھٹنوں کے بل کھڑا ہونے کی کوشش کی مگر مجھے اتنی زور کے چکر آئے کہ میں دوبارہ جنگل کے فرش پر گرگئی۔

میں بار بار کوشش کرتی رہی اور آخر بیٹھنے میں کامیاب ہوگئی۔ میری گردن میں سخت درد ہورہا تھا۔ میں نے ہاتھ سے اپنی ہنسلی کی ہڈی کو چھوا تو پتا چلا کہ وہ ٹوٹ چکی ہے۔ میری بائیں پنڈلی میں ایک گہرا زخم تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے پنڈلی کے گوشت کو کسی کند آلے سے کاٹا گیا ہو مگر حیرت انگیز طور پر اب وہاں سے خون نہیں بہہ رہا تھا۔ میں جانوروں کی طرف ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل جنگل کے فرش پر رینگتی ہوئی چاروں جانب اپنی ماں کو تلاش کرنے لگی، امی! امی! میں نے آوازیں بھی لگائیں مگر جواب میں مجھے صرف جنگل کی آوازیں ہی سنائی دیں‘‘

’’میرا نام جولیان کوئیپکی ہے۔ میں پیرو (Peru) کے شہر لائما میںپلی بڑھی اور پھر 14 برس کی عمر میں پیرو کے بارانی جنگلات میں اپنے والدین ماریہ اور ہینز کے پاس چلی گئی جنہوں نے وہاں ’’جنگلی حیات کے باہمی توازن‘‘ کے مطالعے کا سینٹر قائم کیا ہوا تھا۔ دو سال میں وہاں والدین کے ساتھ رہی اور اسی دوران مجھے جنگل اور جنگلی حیات کو قریب سے دیکھنے کاموقع ملا اور میں نے وہاں جنگل کے متعلق وہ کچھ سیکھا جس سے میں پہلے نابلد تھی۔ مجھے اس وقت احساس بھی نہیں تھا کہ قدرت مجھے یہ سب کچھ کس لیے سکھا رہی ہے جو بعدازاں میری زندگی بچانے میں کلیدی کردار کا حامل ہو گا۔ 16 برس کی عمر میں، میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے واپس لائما آگئی۔

میری والدہ کبھی میرے پاس رہتی اور کبھی ہم والد کو ملنے کی غرض سے ان کے پاس چلے جاتے۔ دسمبر 1971ء میں ہم کو کرسمس کی چھٹیاں گزارنے کیلئے والد کے پاس جانا تھا۔ امی جلد جانا چاہتی تھیں مگر میری ’’گریجوایشن تقریب‘‘ کی وجہ سے ہم نے 24 دسمبر کوجانے کا پروگرام فائنل کیا۔ میری والدہ کو ہوائی سفر پسند نہیں تھا۔ وہ پرندوں کے متعلق علوم کی ماہر تھیں (Ornithologist) اور انہیں اس بات پر اعتراض تھا کہ جہاز ایک مصنوعی پرندہ ہے اور اس میں سفر کرنا فطرت کے منافی عمل ہے۔ ہم 24 دسمبر 1971ء کی صبح ایئرپورٹ پہنچے تو وہاں بہت رش تھا کیونکہ موسم کی خرابی کی وجہ سے گزشتہ روز کی پروازیں منسوخ ہوگئی تھیں۔ میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ میری والدہ کے ساتھ یہ میرا آخری سفر ہے اور یہ سفر میری زندگی پر انمٹ نقوش کندہ کرنے والا ہے۔‘‘

تقریباً 11 بجے ہم سب جہاز میں سوار ہوگئے۔ ہم تقریباً آخر والی نشستوں پر براجمان ہوئے۔ میں عادتاً کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئی تاکہ باہر کے نظاوں سے بھی لطف اندوز ہوسکوں۔ سفر کا پہلا آدھا گھنٹہ پرسکون گزرا۔ ناشتہ میں سینڈوچ، کافی اور کولڈ ڈرنکس سے ہماری تواضع کی گئی۔ جب ایئرہوسٹس نے بچی کھچی اشیاء کو سمیٹنا شروع کیا تو جہاز ایک ہوائی طوفان  میں داخل ہوگیا۔ دن کی روشنی گھپ اندھیرے میں بدل گئی، جہاز کے چاروںاطراف گھنے سیاہ بادل، طوفان بادوباراں اور آسمانی بجلی کی کڑک نے مسافروں کے دل دہلا دیئے۔ میری ماں مصنوعی انداز میں گویا ہوئی ’’میرے خیال میں سب ٹھیک ہوجائے گا ۔‘‘ سیٹوں کے اوپر موجود مقفل درازوں میں سے اشیا باہر گرنے لگیں، سینڈوچ کے برتن ہوا میں اڑ اڑ کر ادھر اُدھر گرنے لگے، کافی اور کولڈ ڈرنکس مسافروں کے چہروں اور کپڑوں پر الٹ گئے اور ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔ اچانک کھڑکی سے باہر جہاز کے دائیں پَر پر مجھے ایک خوفناک دھماکہ اور آگ دکھائی دی۔ پتا نہیں یہ بجلی کی کڑک تھی یا کچھ اور، بہرحال اس کے بعد جہاز نوک کے بل زمین کی طرف گرنے لگا۔ میری نظر سیٹوںکے درمیان موجود راستے سے ہوتی ہوئی سیدھی کاک پٹ پر پڑ رہی تھی۔

مجھے اپنے بدن میں بھی جہاز کی خوفناک گڑگڑاہٹ محسوس ہورہی تھی۔ میرے کانوں میں اپنی ماں کے آخری الفاظ ٹکرائے۔ بہت ٹھنڈے اور پر سکون انداز میں انہوں نے کہا ’’لو جی…  سب ختم‘‘۔ ہم بہت تیزی سے زمین کی جانب گر رہے تھے۔ اچانک جہاز کے انجنوں کاشور ختم ہوگیا۔ میری والدہ میری ساتھ والی سیٹ سے غائب ہوچکی تھیں اور اب میں جہاز میں بھی نہیں تھی۔ تقریباً دس ہزار فٹ کی بلندی سے گرتے ہوئے سیٹ بیلٹ کے ذریعے میں اپنی سیٹ سے اتنے زور سے بندھی ہوئی تھی کہ میرا سانس اٹک رہا تھا۔ جہاز تباہ ہوچکا تھا اور پھر میں بے ہوش ہوگئی۔ جب ہوش آیا تو میں ابھی زمین کی جانب گر رہی تھی اور نیچے پیرو کا بارانی جنگل نظر آرہا تھا جو لمحہ بہ لمحہ نزدیک آرہا تھا۔

دوبارہ بے ہوش ہونے سے قبل مجھے یہ سب کچھ خواب محسوس ہورہا تھا۔ جب مجھے دوبارہ ہوش آیا تو میں بارانی جنگل کے فرش پر پڑی ہوئی تھی۔ میری سیٹ بیلٹ کھل چکی تھی۔ میں رینگ کر سیٹ کے پیچھے چھپ گئی۔ میں پانی اور گارے میں لت پت ہوچکی تھی۔ مجھ میں ہلنے کی سکت بھی نہ تھی۔ خوف اور مایوسی میںگھری پتہ نہیں میں کب سوگئی یا بے ہوش ہوگئی۔ دوسری صبح میری آنکھ کھلی تو وقت کی مسافت پار کرکے میرے ذہن پر نقش ہوجانے والے لمحات میرے سامنے تھے۔‘‘

’’لانبے درخت، پراسرار سائے، بارش کے پانی کی ٹپ ٹپ، بارانی جنگل کی بو، جھینگروں، مکوڑوں، جنگلی مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور دیگر جانوروں کی ہیبت ناک آوازیں، اگر میں پہلی دفعہ جنگل میں آئی ہوتی تو شاید یہ سب کچھ میرا دل دہلانے کیلئے کافی ہوتا مگر چونکہ میں نے والدین کے ہمراہ جنگل میں کافی وقت گزارا تھا اور انہوں نے مجھے جنگل کے متعلق تمام حقائق سے آگاہ کیا تھا اس لیے میں نسبتاً کم خوفزدہ تھی۔ اچانک مجھے شدید پیاس کا احساس ہوا تو میں نے پتوں پر رکے ہوئے بارش کے قطروں کو چاٹ چاٹ کر اپنی پیاس کم کی۔ میں نے سیٹ کے اردگرد ہی رہتے ہوئے جنگل کا چکر لگایا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ جنگل میں راستہ بھول جانا بہت آسان ہوتا ہے مگر مجھے تباہ شدہ جہاز کا ملبہ کہیں نظر نہ آیا۔ ہاں مجھے میٹھی ٹافیوں کا ایک بکس ملا جس میں سے میں نے ایک کھائی اور باقی سنبھال لیں۔

اچانک مجھے آسمان پر ایک جہاز کے انجن کی آواز سنائی دی۔ میں نے اوپر دیکھا مگر گھنے درختوں کی وجہ سے آسمان نظر نہیں آرہا تھا اور جہاز والوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کا کوئی اور طریقہ میری سمجھ میں نہ آیا۔ یہ میری بے بسی و لاچاری کی انتہا تھی۔ جلد ہی جہاز کی آواز دور ہوتی ہوتی معدوم ہوگئی۔ قریب ہی مجھے ایک ندی کے بہنے کی آواز آئی اور میری کچھ ہمت بندھ گئی کہ شاید یہ ندی میری بقا کا ذریعہ بنے۔ میں ندی کے ساتھ ساتھ چلنے لگی کہ یہ مجھے کسی آبادی تک لے جائے گی۔ شام 6 بجے اندھیرا چھاگیا تو میں نے رات گزارنے کیلئے ایک محفوظ پناہ گاہ کو ڈھونڈا، ایک ٹافی کھائی اور نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ 28 دسمبر کو میری گھڑی بھی بند ہوگئی جو میری دادی نے مجھے بطور تحفہ دی تھی۔ میں ندی کے ساتھ ساتھ چلتی گئی جو آہستہ آہستہ چوڑی ہوتی گئی اور پھر ایک چھوٹے دریا میں تبدیل ہوگئی۔ چونکہ موسم برسات تھا اس لیے درختوں پر کوئی پھل موجود نہ تھا اور اس کے علاوہ میں کسی بھی شے کو کھانے سے گریز کرتی رہی کیونکہ جنگل میں اگنے والے پودے زیادہ تر زہریلے ہی ہوتے ہیں۔ ہاں میں نے ندی سے خوب پیٹ بھر بھر کر پانی ضرور پیا۔‘‘

’’29 یا 30 دسمبر کو مجھے ایک پرندے کی گونجیلی آواز سنائی دی جس نے میرے اعتماد کو بحال کیا اور میری ہمت بندھائی۔ اس پرندے کی آواز میں پہلے بھی کئی دفعہ سن چکی تھی کیونکہ یہ پرندے انسانی آبادی کے قریب ہی اپنے گھونسلے بناتے ہیں۔ میں ایک نئے جذبے کے ساتھ تیز تیز چلنے لگی۔ جلد ہی میں ایک بڑے دریا کے کنارے پر پہنچ گئی مگر وہاں بھی آبادی تو کیا کوئی بھی انسان موجود نہ تھا۔ مجھے دور جہازوں کی آوازیں بھی سنائی دیں مگر پھر غائب ہوگئیں۔ شاید ریسکیو والوں نے تھک ہار کر میری تلاش ختم کردی ہے۔ مجھے یکایک بے انتہا غصہ آیا کہ وہ ایسا کیسے کرسکتے ہیں اور وہ بھی اس وقت کہ جب میں اتنی تکالیف سے گزر کر جنگل سے باہر کھلی فضا میں پہنچ چکی ہوں۔

آہستہ آہستہ میرا غصہ مایوسی میں تبدیل ہوگیا مگر میں نے ہمت نہ ہاری کیونکہ مجھے علم تھا کہ جہاں دریا ہو وہاںقرب و جوار میں آبادی ضرور ہوتی ہے۔ میں دریا کے کنارے کنارے چلنے لگی مگر کوشش کے باوجود مجھے آگے بڑھنے میں انتہائی مشکل پیش آرہی تھی کیونکہ دریا کنارے بہت بڑے بڑے سرکنڈے اور خودرو جھاڑیوں کی بہتات تھی۔ پھر میں نے کنارے چلنے کے بجائے دریا میں تیرنے کو ترجیح دی۔ مجھے سانپوں، مگر مچھوں اور دیگر خونخوار دریائی جانوروں سے خوف بھی محسوس ہورہا تھا مگر یہ سوچ میری ڈھارس بندھا رہی تھی کہ یہ جانور عام طور پر انسانوں پر حملہ آور نہیں ہوتے۔ ہر دن کے اختتام پر میں رات گزارنے کیلئے کوئی محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈ لیتی جہاں میں سونے کی کوشش کرتی تھی۔‘‘

’’رات کے وقت جنگلی مچھر، مکھیاں اور مکوڑے مجھے بے حال کردیتے۔ وہ میرے ناک، کان اور منہ میں گھسنے کی کوشش کرتے۔ جس رات بارش ہوتی وہ رات میرے لیے سوہان روح بن جاتی۔ ٹھنڈی برف ہوائیں اور پھر بارش، میری روح تک ٹھٹھر کر رہ جاتی اور میں کانپ کانپ کر اتنی بے حال ہوجاتی کہ مجھ سے مزید کانپا بھی نہ جاتا۔ دن کے وقت میں دریا میںتیرتے ہوئے آگے بڑھتی رہتی۔ میں کمزور ہوتی جارہی تھی۔ میں دریا کا پانی پیٹ بھر کر پیتی مگر مجھے احساس تھا کہ اگر جلد ہی مجھے کچھ کھانے کو نہ ملا تو میں زندہ نہ رہ سکوں گی۔ایک دن مجھے اپنی کمر کے بالائی حصے میں شدید درد کا ا حساس ہوا۔ میں نے وہاںہاتھ لگایا تو میراہاتھ خون سے بھرگیا۔ دریا میں تیرتے ہوئے سورج کی تپش میری کمر پر پڑتی تھی جس نے میری کمر کو جھلسا دیا تھا۔ تیرتے ہوئے کئی دفعہ میری آنکھوں نے دھوکہ کھایا اور مجھے یوں لگا کہ میں نے دریا کنارے کوئی گھر یا جھونپڑا دیکھا ہو، مگر بعدازاں وہ میرا وہم اور سراب ثابت ہوا۔ میں ذہن میں اپنے پسندیدہ قسم قسم کے کھانوں کا تصور لاتی اور جب ہر نئے دن دریا میں اترتی تو خود کو سمجھاتی کہ میری محنت ضرور رنگ لائے گی اور میں انسانی آبادی تک پہنچ جاؤں گی۔‘‘

’’دسویں دن میں دریا میں تیرتی تیرتی ایک نسبتاً ہموار سطح والے کنارے پر پہنچی۔ میں نے سوچا کہ سستانے کیلئے یہ اچھی جگہ ہے اس لیے میں چند منٹوںکیلئے نیند کی وادی میں پہنچ گئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو مجھے کچھ دور کنارے پر ایک کشتی نظر آئی۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا ۔ میں نے آنکھیں مل مل کر دیکھا مگر کشتی ہنوز موجود تھی مگر میں پھربھی بے یقینی کی کیفیت سے دوچار رہی۔ آخر میں کشتی کے پاس پہنچی اور اسے چھوا تو مجھے یقین آیا کہ ہاں یہ کشتی ہی ہے۔ وہاں سے ایک راستہ پہاڑ کی چوٹی کی طرف جارہاتھا۔ میں چوٹی کی طرف چل پڑی جو زیادہ فاصلے پر نہ تھی۔ مگر میں اتنی کمزور ہوگئی تھی کہ مجھے یہ تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے میں گھنٹوں لگے۔ چوٹی پر مجھے انسانی ہاتھوں کا بنا ہوا ایک جھونپڑا نظر ایا اور وہاں سے ایک راستہ جنگل کے اندر رہنمائی کررہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی کشتی کا مالک یہاں آئے گا مگر رات تک کوئی نہ آیا تو میں سوگئی۔‘‘

’’دوسرے دن میں جاگی تو تب بھی وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ پھر بارش شروع ہوگئی تو میں رینگ کر جھونپڑے میں داخل ہوگئی اور وہاں پڑی ہوئی ترپال اپنے گرد لپیٹ لی۔ دوپہر کے وقت بارش رک گئی۔ میں اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ مجھ میں اب کھڑا ہونے کی ہمت بھی نہ تھی۔ میں نے خود کلامی کے انداز میں کہا کہ ’’میں ایک دن مزید اس جھونپڑے میں آرام کروں گی اور کل پھر آگے روانہ ہوجاؤں گی۔‘‘ غروب آفتات کے وقت مجھے دور سے کچھ انسانی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے انہیں اپنا وہم جان کر جھٹکنے کی کوشش کی مگر وہ آوازیں قریب آتی گئیں اور صاف سنائی دینے لگیں، پھر تین آدمی جنگل سے برآمد ہوئے اور ان کی نظر مجھ پر پڑی تووہ پتھرا کر رہ گئے۔

’’میں تباہ شدہ جہاز کی مسافر ہوں اور میرا نام جولیان ہے‘‘

میں نے انہیں نحیف آواز میں بتایا اور آنکھیں موند لیں۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>