موٹے موٹے ہاتھوں، پیروں اور پھولے ہوئے گالوں والے بچے کی پیدائش پر مبارک باد سمیٹتے ہوئے والدین کو یہ فکر بھی ستاتی رہتی ہے کہ ان کے تن درست اور توانا بچے کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔
نومولود کی صحت کے حوالے سے والدین کا حساس ہونا فطری امر ہے، لیکن جسمانی وزن کی بنیاد پر اس کے تن درست ہونے کا خیال غلط بھی ہوسکتا ہے۔ انہیں ڈاکٹر سے معلوم کرنا چاہیے کہ بچہ زاید جسمانی وزن کا حامل تو نہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں بڑی عمر کے افراد کو بھی بھاری بھرکم ہونے کی وجہ سے توانا اور صحت مند خیال کیا جاتا ہے، لیکن یہ مٹاپے کی علامت بھی تو ہوسکتا ہے۔
دراصل ہمارے ہاں صحت اور جسمانی نشوونما سے متعلق بنیادی باتوں سے آگاہی نہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جب طبی سائنس زائد وزن کو جسمانی پیچیدگیوں اور مٹاپے کو مہلک امراض کی بڑی وجہ قرار دیتی ہے۔ ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ مٹاپا وبائی صورت اختیار کرتا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں جسمانی کارکردگی متأثر ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف امراض کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
ایک طبی رپورٹ کے مطابق گذشتہ تین دہائیوں میں کوئی بھی ملک مٹاپے کی شرح کم کرنے میں کام یاب نہیں ہوسکا ہے۔ زاید وزن اور مٹاپے کے منفی اثرات ہمارے گردوں پر بھی پڑتے ہیں اور یہ عضو خطرناک حد تک متأثر ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال مارچ کے مہینے میں گردوں کی صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس سال مٹاپے اور اس کے باعث گردوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے معروف ماہرِامراضِ گردہ ڈاکٹر سید علی جعفر نقوی سے کی گئی گفتگو پیشِ خدمت ہے۔
مٹاپا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔ طبی ماہرین نے مٹاپے کو گردوں کے امراض کی ایک وجہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف کوششیں تیز کرنے پر زور دیا ہے۔ ڈاکٹر سید علی جعفر نقوی نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو ہمیں صحت مند جسم اور فربہی میں فرق کو سمجھنا ہو گا۔ بڑھا ہوا پیٹ، پھیلی ہوئی کمر اور بھاری بھرکم جسم کا مطلب کسی کا صحت مند اور توانا ہونا نہیں بلکہ یہ مٹاپا ہے جو ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کا سبب بنتا ہے اور ان کے نتیجے میں انسان کے گردے بری طرح متأثر ہوتے ہیں۔ مٹاپے کا گردوں کی کارکردگی پر براہِ راست بھی برا اثر پڑتا ہے۔
ایسے افراد کے جسم میں گردوں کو نارمل وزن کے حامل افراد کے مقابلے میں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور میٹابولک سسٹم کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ان اعضا کو جسم کو فراہم کرنے کے لیے زیادہ مقدار میں خون صاف کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح گردوں کی مجموعی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور وہ بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ فربہ افراد میں یکایک گردوں کا نظام ناکارہ ہونے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کسی کو اس کے زاید وزن یا مٹاپے کا علم طبی سائنسی طریقے سے ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ایک پیمانہ یا معیار مقرر کیا گیا ہے جسے باڈی ماس انڈیکس ( BMI ) کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق انسانوں کو ان کے جسمانی وزن کے اعتبار سے مختلف زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
ایک اوسط باڈی ماس انڈیکس 18.5 تا 24.9 کے درمیان ہوتا ہے اور ایسے لوگ نارمل کہے جاتے ہیں۔ 18.5 سے کم بی ایم آئی کے حامل افراد کو انڈر ویٹ یا اوسط سے کم وزن کا حامل جب کہ 25 سے اوپر بی ایم آئی کی صورت میں اوور ویٹ یا اوسط سے زیادہ وزنی مانا جاتا ہے۔ اسی طرح 30 اور اس سے اوپر بی ایم آئی کے حامل افراد موٹے ہوتے ہیں اور ایسے افراد میں ذیابیطس، فالج، دل کے امراض اور کینسر جیسی بیماریوں کے خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اسے مزید بیان کیا جائے تو 35 بی ایم آئی کے حامل افراد شدید مٹاپے اور 40 سے اوپر بی ایم والے افراد کو ان کے مٹاپے کی وجہ سے شدید علیل تصور کیا جاتا ہے۔
مٹاپا جسمانی معذوری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ مٹاپے کی وجہ سے لاحق ہونے والی بعض بیماریوں اور طبی پیچیدگیوں کو دواؤں اور دیگر طبی طریقوں پر عمل کر کے کنٹرول تو کیا جاسکتا ہے، لیکن کئی ایسے مسائل بھی سامنے آرہے ہیں جن کا مؤثر اور مکمل علاج موجود نہیں یا اتنا منہگا ہے کہ غریب آدمی نہیں کروا سکتا۔
ڈاکٹر سید علی جعفر نقوی کا کہنا ہے کہ مٹاپے کی ایک وجہ غیرمعیاری کھانے، چربی دار اور چٹپٹی غذائیں، شکر کا غیرضروری اور اضافی استعمال، بیکری آئٹم اور ڈبہ بند مصنوعات ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا طرزِ زندگی بھی وزن میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ لوگوں کی اکثریت چہل قدمی اور ورزش کو اہمیت نہیں دیتی، کام کاج اور دفتری مصروفیات کے بعد ان کا زیادہ تر وقت ٹیلی ویژن، موبائل فونز اور کمپیوٹر اسکرین کے آگے گزرتا ہے جس سے لوگ فربہی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ غذا اور خوراک کی افادیت یا نقصانات کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی نہیں ہے۔ بہت زیادہ چربی اور نشاستہ جسم کو فربہ کرتے ہیں اور یہ ناقص و غیرمتوازن خوراک کے استعمال کی صورت میں ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زیادہ جسمانی وزن والے افراد کو ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر کے علاوہ دل کی بیماریوں، گٹھیا، فالج، خون میں چربی اور گردے کے مسائل کے علاوہ کینسر جیسے مہلک مرض کا خطرہ رہتا ہے جن سے بچنے کے لیے مرغن غذاؤں، کولڈ ڈرنکس اور زیادہ میٹھی چیزوں سے پرہیز ضروری ہے۔
ڈاکٹر نقوی کا کہنا تھاکہ مٹاپا ختم کرنے کا کوئی جادوئی نسخہ دنیا میں موجود نہیں۔ یہ چٹکی بجاتے ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اس کے لیے ہمیں اپنا طرزِ زندگی بدلنا ہوگا۔ اگر غذائی عادات میں تبدیلی کے ساتھ وزن کم کرنے کے لیے چہل قدمی اور ورزش کو معمول بنا لیا جائے تو اس کے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہ ایسے کام ہیں جن پر کچھ خرچ کیے بغیر بہت سے فائدے سمیٹے جاسکتے ہیں۔
اس کے برعکس مٹاپے کی وجہ سے بیمار ہونے والا نہ صرف جسمانی تکلیف جھیلتا ہے بلکہ علاج معالجے کے اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں ورنہ زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ستر فی صد گردے شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کا بروقت اور درست علاج نہ ہونے کے سبب ناکارہ ہوجاتے ہیں اور ان کا علاج پاکستان جیسے ملکوں میں بہت مہنگا ہے۔ ہمارے ملک میں تو لوگوں کی اکثریت کو دو وقت کی روٹی مشکل سے نصیب ہوتی ہے، وہ ڈائیلاسس یا گردوں کی پیوند کاری کیسے کرواسکتے ہیں۔ ایک مریض کے ڈائیلاسس پر تین سے چار لاکھ خرچ ہوسکتے ہیں اور کوئی غریب یہ علاج نہیں کرواسکتا۔ نتیجتاً اموات کی شرح بڑھ رہی ہے۔
اسی طرح گردوں کی پیوندکاری بھی کروانا آسان نہیں اور اس کے لیے تو گردہ بھی چاہیے ہوتا ہے۔ منہگے علاج، دواؤں اور تکالیف سے بچنے کا واحد راستہ کھانے پینے میں احتیاط اور طرز زندگی میں تبدیلی ہی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ بلڈ پریشر اور شوگر کی سطح کو باقاعدگی سے جانچنے کے ساتھ دواؤں کا استعمال جاری رکھنے سے ہم گردوں کے امراض سمیت کئی بیماریوں سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی یونیورسٹی نے کڈنی فاؤنڈیشن کو گردوں کے حوالے سے ریسرچ سینٹر کے قیام کے لیے زمین دی تھی جس پر عمارت قائم کرکے علاج معالجے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ اس عمارت میں جدید مشینری کے ساتھ لیبارٹری ٹیسٹ، ریڈیالوجی اور ڈے کیئر کی سہولت موجود ہے اور ایک ڈائلاسس یونٹ بھی کام کررہا ہے۔
ڈاکٹر سید علی جعفر نقوی کے زیرِنگرانی گردوں کے حوالے سے تحقیقی کام کے ساتھ سستے علاج اور مریضوں کو بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے فنڈز کی بھی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ گردوں کے امراض کے حوالے سے طبی سہولیات کی فراہمی میں صاحبِ ثروت اور دردمند لوگ بھی مالی تعاون کریں تو کئی انسانی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔
ڈاکٹر سید علی جعفر نقوی کا کہنا تھاکہ مشکلات کے باوجود محدود وسائل میں رہتے ہوئے لوگوں کی تکالیف کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، امید ہے کہ جلد ایک مکمل طبی سہولیات سے آراستہ گردوں کا اسپتال کام کرنے لگے گا۔ ڈاکٹر سید علی سید علی جعفر نقوی نے ایک اہم مسئلے کی نشان دہی کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں زیادہ تر لوگ اس وقت اسپتال پہنچتے ہیں جب ان کے گردے بہت خراب ہوجاتے ہیں۔
اس کا سبب جسمانی صحت اور امراض سے متعلق شعور اور آگاہی نہ ہونا ہے، دوسری طرف غربت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور لوگ ڈاکٹر کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں یہ ضروری ہے کہ ہم خود اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ غیرمعیاری کھانوں اور فاسٹ فوڈ کے بجائے گھروں میں سبزیوں، پھلوں، دالوں اور دیگر اجناس کو اپنی خوراک میں شامل رکھیں۔ اسی طرح شکر اور نمک کے علاوہ مرچ مسالوں اور مرغن غذا کا استعمال بھی اعتدال میں کیا جانا چاہیے۔ ہم انڈے کی سفیدی اور مچھلی کو غذا کا حصّہ بنا سکتے ہیں جو ہماری پروٹین کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ دوسری طرف لوگوں کو طرز زندگی میں تبدیلی لانے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کرنا ہوں گی اور اس حوالے سے بڑے پیمانے پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
گردے کے افعال، عام امراض اور خرابیوں سے متعلق ڈاکٹر جعفر نقوی نے گفتگو کے دوران بتایا کہ گردے کے چند بنیادی افعال میں جسم سے اضافی پانی کا اخراج بھی شامل ہے جس کے ساتھ ہی ناکارہ اور فاضل مادے بھی جسم سے باہر نکل جاتے ہیں۔ یہ عضو جسم میں نمکیات وغیرہ کی مقدار کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ یعنی جسم میں نمکیات کی زیادتی دور کرتا ہے اور اگر پانی کی کمی ہورہی ہے تو اسے بھی روکے رکھتا ہے۔
گردے بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ یہ خود ایک ایسا مادہ پیدا کرتے ہیں جس کا تعلق بلڈ پریشر کنٹرول کرنے سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گرد وٹامن ڈی کو ایک ایسی حالت میں تبدیل کرتا ہے جو ہماری ہڈیوں کی نشوونما اور مضبوطی کے لیے نہایت ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گردے کے مختلف امراض میں سب سے عام پتھری ہوجانا ہے۔ اسی طرح معمر لوگوں میں غدود کا بڑھ جانا اور پیشاب کی تکالیف، بچوں میں ورم کا مسئلہ اور پیشاب میں پروٹین آنا بھی خرابی کی نشانی ہے۔ گردے کے ان تمام امراض کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں اور انہی میں مٹاپا بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ مٹاپے کے باعث استقرارِ حمل مشکل ہوتا ہے جب کہ حاملہ عورت ڈیلیوری کے دوران پیچیدگیوں کا سامنا کرسکتی ہے۔ ڈاکٹر سید علی جعفر نقوی نے شعبۂ صحت اور کڈنی فاؤنڈیشن کے تحت نہ صرف گردوں کی پیچیدگیوں اور امراض سے متعلق آگاہی پھیلائی بلکہ متعدد ماہر امراضِ گردہ بھی تیار کیے۔
انہوں نے اس حوالے سے اپنی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ملک بھر میں مذاکروں کا انعقاد کیا، باہر سے تعلیم حاصل کرکے آنے والوں کو ساتھ ملایا اور پاکستان میں امراضِ گردہ پر کام کرنے کے لیے مضبوط ٹیم تیار کی، پھر پاکستان سوسائٹی آف نیفرولوجی کی بنیاد رکھی۔ اب ملک میں مستند اور ماہر ڈاکٹروں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں تو زیادہ ہے، مگر مریضوں کی شرح کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بہت کم ہے اور یہ ماہرین بھی صرف شہروں تک محدود ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ گردہ ایک ایسا پیچیدہ عضو ہے جس کی خرابی کا مکمل اور مؤثر علاج کرنے کے لیے اس کے فنکشن کو پوری طرح سمجھنا ضروری ہے اور اس کے لیے ماہرین تیار کرنے کے ساتھ اس شعبے میں سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی۔
گردہ اور اس کے افعال
گردے انسانی جسم میں کمر کے نچلے حصے میں ریڑھ کی ہڈی کے دائیں بائیں پائے جاتے ہیں۔ ان کا شمار ایسے اعضائے رئیسہ میں ہوتا ہے جن میں معمولی خرابی بھی زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتی ہے۔ ہماری رگوں میں دوڑتے خون کی صفائی کا کام گردے ہی انجام دیتے ہیں۔ گردہ بے شمار باریک نالیوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس پر جالی دار کپ لگے ہوتے ہیں۔ ان کا کام مخصوص نالیوں کے ذریعے گردے میں داخل ہونے والے خون کو چھاننا اور اسے دوبارہ خون کے نظام میں شامل کرنا ہوتا ہے۔
اس عمل کے دوران گردے خون میں شامل مختلف نمکیات، شکر، پروٹین اور پانی کی مقدار میں توازن بھی برقرار رکھتے ہیں۔ یعنی انسانی جسم کی ضرورت کے مطابق نمکیات اور پانی خون میں واپس جانے دیتے ہیں اور ان کی زائد مقدار کو پیشاب کی شکل میں جسم سے خارج کردیتے ہیں، لیکن پروٹین اور شکر مکمل طور پر واپس چلے جاتے ہیں۔
گردے ہمارے جسم کا وہ اہم ترین عضو ہیں جو نہ صرف خون کے اجزائے ترکیبی کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ خون کے دباؤ کا معیار بھی برقرار رکھتے ہیں۔ گردوں کی صحت اور خون کی بہتر صفائی کے لیے پانی کی مناسب مقدار اور نمکیات بھی ضروری ہیں۔ ہماری غذاؤں میں مختلف اقسام کا نمک پایا جاتا ہے جن کا جسم میں توازن گردوں ہی کی بدولت برقرار رہتا ہے۔ اسی طرح ہمارے خون کے خلیے (RBC ) میں ہیموگلوبن نامی کیمیا ہوتا ہے جس کے ذریعے آکسیجن جسم کے کونے کونے تک جاتی ہے۔
گردے Erthroprotin نامی کیمیا بناتے ہیں جو RBC کی نشوونما اور صحت کے ضامن ہوتے ہیں۔ ان کی کمی سے خون کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ انسانی جسم کی عمارت ہڈیوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ ان ہڈیوں کو کیلشیم اور وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وٹامنز ہماری آنتوں سے جذب ہوکر گردے میں آتے ہیں اور یہی اعضا انہیں ہڈیوں کی نشوونما کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
بلڈ پریشر یا خون کے دباؤ کا کنٹرول بھی گردے کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ گردہ ایک ہارمون بناتا ہے جو خون کی نالیوں کو مستحکم رکھتا ہے۔ اس ہارمون کی زیادتی بلڈ پریشر بڑھا دیتی ہے۔ گردے کے وہ امراض جو اس کے فعل کو متأثر کرکے ہماری زندگی کے لیے مسائل پیدا کردیتے ہیں ان میں نیفرائٹس (Nephrotic) یعنی گردوں کا متورم ہونا، بلڈ پریشر، شوگر، مختلف نوعیت کے انفیکشنز، گردے کی پتھریاں وغیرہ شامل ہیں۔
The post موٹاپے کی وجہ سے گردوں کے امراض بڑھ رہے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.