Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

پرنسس بامبا سدھر لینڈ

$
0
0

پرنسس بامبا سکھ سرکار کی پنجاب پر حکومت کے حوالے سے ایک انتہائی اہم خاتون ہیں۔ وہ رنجیت سنگھ کے خاندان کی آخری خاتون تھیں جن کا پنجاب اور خصوصاً لاہور سے گہرا تعلق رہا۔

رنجیت سنگھ کی وفات کے بعداس کی اولاد آپسی جھگڑوں اور خون خرابے میں مصروف رہی۔ خوش قسمتی سے رنجیت سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا دلیپ سنگھ اس کشت وخون سے بچا رہا۔ دلیپ سنگھ کی پیدائش 6 ستمبر 1838ء کو رانی جنداں کے گھر ہوئی۔

ایک دوسری روایت کے مطابق اس کی پیدائش 4 ستمبر1838ء کو قلعہ لاہور میں ہوئی۔ مغل شہزادے خرم کے بعد کسی بھی دوسرے شہزادے کا جنم تھا۔ وہ محض نو ماہ کا تھا جب رنجیت سنگھ کاانتقال ہوا۔ 1843ء میں دلیپ سنگھ محض پانچ برس کا تھا جب اس کو سکھوں کی خانہ جنگی کے بعد تخت لاہور پر بٹھایا گیا۔اس کے ماموں جواہر سنگھ کو وزیراعظم بنا دیا گیا اور اصل حکومت رانی جنداں ہی کے ہاتھ میں رہی۔ 1849ء تک انگریز مکمل طور پر پنجاب پر قابض ہو چکے تھے۔

رانی جنداں کو پہلے شیخوپورہ قلعہ اور بعد میں کانشی بجھوا دیا گیا اور دلیپ سنگھ کو سرکاری طور پر جان سپینر لوگن کے حوالے کر دیا گیا۔انگریز سرکار نے نوجوان سکھ شہزادے کو اپنے لئے خطرہ جانتے ہوئے 19فروری 1850ء کو لاہور سے فتح گڑھ منتقل کر دیا جو کہ اس وقت ایک فوجی کیمپ تھا۔ اس دن کے بعد دلیپ سنگھ کو کبھی بھی دوبارہ لاہور آنے کی اجازت نہ ملی۔ جان سپینر لوگن اور اس کی بیوی لینا لوگن کے زیر اثر دلیپ سنگھ عیسائیت کی جانب اتنا مائل ہوا کہ 8 مارچ 1953ء کو دلیپ سنگھ نے مسیحیت کو اختیار کر لیا۔ رانی جنداں قلعہ چنار سے روپ بدل کر نیپال چلی گئی جہاں اس وقت کے بادشاہ نے اس کی بہت عزت کی اور ایک ہزار روپے مہینہ پنشن مقرر کی۔

دوسری جانب 19اپریل 1854ء کو دلیپ سنگھ لندن روانہ ہوا ۔ وہاں وہ ملکہ انگلستان کا نورنظر ٹھہرا اور اپنے شاہی اخراجات کے باعث بلیک پرنس کے نام سے معروف رہا۔ اس دوران اس کی اپنی ماں رانی جنداں سے خفیہ خط و کتابت بھی جاری رہی۔ رانی جنداں رو رو کر اندھی ہو چکی تھی۔ اس سے دلیپ سنگھ کی ملاقات چودہ برس کے بعد 16جنوری 1861ء کو کلکتہ کے Spence Hotel میں ہوئی۔ اس وقت بھی دلیپ سنگھ کو پنجاب آنے کی اجازت نہ دی گئی۔ اسی برس رانی جنداں نیپال سے انگلینڈ چلی گئی جہاں یکم اگست 1863ء کو اس کا انتقال ہو گیا۔

اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد استھیاں لندن کے Elueden چرچ میں دفنائی گئیں۔ کچھ استھیاں لاہور بجھوا دی گئیں اور رنجیت سنگھ کی سمادھ کے مغربی جانب ایک سمادھی میں دفن کی گئیں۔ عصر حاضر میں وہ نامکمل تعمیر ابھی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ دلیپ سنگھ نے دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی بمبا نامی مصری لڑکی سے ہوئی اور دوسری شادی ایڈا نامی خاتون سے ہوئی۔ روایات میں دلیپ سنگھ کے آٹھ بچے بتلائے جاتے ہیں۔ جن میں سے چھ بچے اس کے حقیقی اور دو ایڈا کے پہلے سے تھے۔ حقیقی بچوں میں ایک شہزادہ پرنس البرٹ ایڈورڈ بچپن میں فوت ہو گیا تھا‘ بقیہ پانچ بچوں کی تفصیل کچھ یوں تھی، شہزادہ وکٹر‘ پرنس فریڈرک‘ پرنسس کیتھرائین ‘ پرنسس صوفیہ اور پرنسس بامبا سدھر لینڈ۔

دلیپ سنگھ کی موت بھی انتہائی عجیب و غریب حالت میں ہوئی۔ وہ پیرس کے ایک ہوٹل Hotel de la Tremouille میں بیماری کی حالت میں رہائش پذیر تھا جہاں بروز اتوار 22اکتوبر 1893ء کو اس کی پراسرار موت واقع ہوئی۔ اس کی موت کے سرٹیفکیٹ پر کوئی وجہ درج نہ تھی اور نہ ہی کوئی پوسٹ مارٹم کروایا گیا۔ایک امریکی اخبار نے یہ شہ سرخی دی “King died without country” تمام عمر ماں سے بچھڑے دلیپ سنگھ کو اس جگہ دفن کیا گیا جس کے قریب ہی اس کی ماں رانی جنداں کی استھیاں دفنائی گئی تھیں۔ اس کے پاس ہی اس کی بیوی بمبا اور بیٹے پرنس البرٹ ایڈورڈ کی قبریں تھیں۔

دلیپ سنگ کی اولاد میں سب سے زیادہ شہرت پرنسس صوفیہ کو ملی۔ جن کا جنگی زخمیوں اور بیماریوں کے خلاف نبردآزمائی میں قابل قدر کردار رہا۔ دوسرا نام پرنسس بامبا کا ہے۔ جن کی شہرت کا باعث ان کی لاہور اور پنجاب سے وابستگی تھی۔ بامبا کی پیدائش 29 ستمبر1869ء کو لندن میں ہوئی۔ بامبا کا زیادہ وقت آرتھر آئی فینٹ اور فولک سٹون کے زیر نگرانی گزرا۔ بامبا نے اپنی دونوں بہنوں پرنسس کیتھرائین اور پرنسس صوفیہ کے ساتھ ستمبر 1893ء کو یورپ کا پہلا سفر کیا۔ بامبا کو لاہور سے خاص طرح کی انسیت تھی۔

انہیں اس بات کا شدید دکھ تھا کہ ان کے والد دلیپ سنگھ سے نہ صرف پنجاب کی حکومت لے لی گئی بلکہ اسے د وبارہ لاہور آنے کی اجازت بھی نہ دی۔ 1907ء میں وہ پہلی بار ہندوستان آئیں اور اس کے بعد زندگی کا زیادہ عرصہ لاہور ہی میں گزرا۔ 1907ء کے پہلے دورے میں ان کی ملاقات لاہور میں سدھر لینڈ سے ہوئی جو اس وقت کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پتھالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر تھے۔ سدھر لینڈ پیدائشی طور پر آسٹریلین تھے اور 1895ء میں ملکہ کے میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی تھی۔ 1915ء میںانہیں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کا پرنسپل بنادیا گیا تھا۔

بامبا نے 1909ء میں سدھر لینڈ سے شادی کر لی اور انہیں بھی اپنی بہن پرنس کیتھرائین کی مانند انگریز سرکار سے دس ہزار پاؤنڈ کی رقم بطور جہیز ملی۔1924ء میں بامبا نے اپنے شوہر اور بہن شہزادی صوفیہ کے ساتھ ہندوستان کی ایک خصوصی سیر کی جس میں انہوںنے اپنی دادی رانی جنداں کی ناستک میں ادا ہوئی آخری رسومات والی جگہ کی بھی زیارت کی اور 17 مارچ 1924ء ہی کو رانی جنداں کی استھیاں ریاست کپور تھلہ کے تعاون کے ساتھ ان کے دادا رنجیت سنگھ کی سمادھی کے پاس دفنائی گئیں۔

بامبا کے بھائی پرنس فریڈرک کی موت 1926ء میں ہوئی۔ جس کی وفات کے بعد تینوں بہنوں کی سالانہ پنشن 681 پونڈ سالانہ سے بڑھا کر 1500پونڈ کر دی گئی۔ پرنسس بامبا نے تمام زندگی دو عشق کیے ایک لاہور کے ساتھ اور دوسرا عشق اپنے شوہر سدھرلینڈ کے ساتھ‘ سدھر لینڈ 19اپریل 1939ء میں انتقال کر گئے اس وقت بھی بامبا لاہور ہی میں تھیں۔ جبکہ سدھرلینڈ لندن میں تھے۔ اس تمام عرصہ میں بامبا کا ہندوستان آنا جانا لگا رہا۔ وہ اپنی بہن صوفیہ کی انسان دوست کاموں میں بھی اس کا کچھ ساتھ ضرور دیتی تھیں۔ لیکن اتنی بھرپور محنت نہ تھی جس طرح کہ پرنسس صوفیہ کی۔

روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ دلیپ سنگھ کی اپنی حقیقی اولاد میں سے آگے کوئی بھی بیٹا اور بیٹی صاحب اولاد نہ ہو سکے۔ 1942ء میں پرنسس کیتھرائن کی موت واقع ہو جاتی ہے جس کے بعد پرنسس بامبا نے لاہور کو اپنی مستقل رہائشگاہ بنا لیا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس طرح اپنے مرحوم باپ دلیپ سنگھ کی روح کو کسی طور پر سکون پہنچا سکے گی۔ لاہور میںانہوں نے 16جیل روڈ پر ایک کوٹھی کو اپنی رہائش گاہ بنایا۔ وہ عمارت اس وقت گلزار کے نام سے معروف تھی۔

1944ء میں انہوں نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہائش اختیار کر لی۔ ان کے گھر کا نمبر A-104 تھا۔ اسی گھر میں وہ آخری سانس تک رہیں۔ وہ عمارت1944ء میں سات ہزار روپے میں خریدی گئی تھی۔ آج بھی یہ عمارت ان کے خاص ملازم پیر بخش کی اولاد کے زیراستعمال ہے۔

تقسیم کے ایک برس قبل 13جولائی 1946ء کو بامبا نے رنجیت سنگھ کی اولاد کا ایک حقیقی وارث ہونے کے ناطے اپنے ایک وکیل رگھبیر سنگھ ایڈووکیٹ فیڈرل کورٹ آف انڈیا کی وساطت سے اپنی پنجاب کی سلطنت کا مطالبہ کر تے ہوئے ایک خط یو این او کو بھجوایا لیکن اس خط کا کوئی بھی خاطر خواہ جواب نہ دیا گیا۔ تقسیم کے وقت پرنسس بامبا انگلینڈ، ہندوستان اور دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں رہنے کا حق رکھتی تھیں۔ لیکن انہوں نے اپنے دادا کی سلطنت پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ وہ لاہور میں رہ کر دلیپ سنگھ کی جائیداد اور دیگر معاملات کو دیکھتی رہیں۔ وہ لاہور میں اکثر اپنی گاڑی پر مال روڈ اور دوسرے علاقوں میں چلی جاتیں اور عہد رفتہ کی عمارات کو دیکھتی رہتی تھیں۔

بامبا نے ایک مرتبہ ایک سرکاری افسر سے گلہ کیا کہ میں اس بادشاہ کی پوتی ہوں جس کی ملکیت میں تمام پنجاب تھا اور مجھے بس میں الگ سے کوئی نشست بھی نہیں دی جاتی۔ بامبا کے آخری ایام انتہائی تکلیف دہ تھے وہ اپنی وفات سے دو برس قبل ہی کانوں سے بہری ہو چکی تھیں، آنکھوں سے خاص دکھائی بھی نہیں دیتا تھا اور فالج کے حملے کے باعث وہ اپنے دستخط بھی نہ کر سکتی تھیں۔

ان تمام حالات کی خبر شہزادی کے قریبی رشتہ داروں میں سے پریتم سنگھ کو مکمل طور پر تھی۔ 10 مارچ 1957ء کو بامبا انتقال کر گئیں اور ان کو عیسائی رسومات کی ادائیگی کے بعد قبرستان جیل روڈ میں دفنایا گیا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی تمام جائیداد کا وارث ان کے خاص ملازم پیر کریم بخش کو ٹھہرایا گیا تھا۔

Peter Bance نے اپنی کتاب’’دلیپ سنگھ‘‘ میں تحریرکیا ہے کہ شہزادی کے سندھانوالیہ رشتے داروں نے اس وصیت کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ لندن میں بچی ہوئی دلیپ سنگھ کی وسیع و عریض جائیداد کا کوئی بھی وارث نہ بچا اور نہ ہی کسی نے اس کا مطالبہ کیا اور یوں وہ تمام جائیداد تاج برطانیہ کو منتقل ہو گئی۔ لندن میں موجود سکھ خاندان کے نوادرات وصیت کے مطابق پیر کریم بخش نے حکومت پاکستان کے تعاون سے لاہور منگوانے کی درخواست دائر کی۔ متعلقہ بنک نے انتہائی ایمانداری سے وہ خاندانی نوادرات ایک ہفتے میں لاہور بھجوا دیئے۔

ان نوادرات کو بامبا کی رہائش گاہ میں محفوظ کر کے ’’اورئینٹل میوزیم‘‘ کھولا گیا۔ 1962ء میں وہ نوادرات شاہی قلعہ لاہور میں منتقل کر دیئے گے۔ جن میں سے رنجیت سنگھ کی گھوڑی کا انتہائی قیمتی سامان 14اکتوبر 1996ء کو ’’سکھ گیلری‘‘ شاہی قلعہ لاہور سے چوری ہو گیا اور 2002ء میں اس کی انکوائری کو بھی داخل دفتر کر کے ختم کر دیا گیا۔

شہزادی بامبا کی قبر آج بھی گورا قبرستان جیل روڈ پردیکھی جا سکتی ہے۔ یہ قبرستان جیل روڈ شیر پائو برج سے کچھ فرلانگ پہلے سڑ ک کے بائیں جانب واقع ہے۔ یہ قبر قبرستان کے داخلی دروازے سے سیدھا کچھ فاصلے پر بائیں جانب ہے۔ اس کی پکی تعمیر سیکرٹری پیر کریم بخش نے کروائی تھی۔ اس کے گرد خستہ حالت میں ایک جنگلہ بھی موجود ہے۔ قبر پر فارسی اور انگریزی زبانوں میں تحریریں موجود ہیں۔اس قبرستان کے ملازمین کا رویہ بھی مقامی طالب علموں سے کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ وہ مقامی طالب علموں کو کوئی تصویر اتارنے کی اجازت نہیں دیتے۔ غیر ملکی افراد اور مسیحی افراد اس معاملے میں آزاد ہیں یا وہ افراد جو کوئی دوسرا طریقہ کار جانتے ہیں۔ کھوج اور تاریخ کے طالب علموں کے لئے یہ سماجی حوصلہ شکنی اپنے اندر کئی سوال لئے کھڑی ہے۔ پرنسس بامبا کی قبر کے کتبے پر درج ذیل تحریر رقم ہے۔

Here lies in eternal peace The Princess Bamba Sutherland Eldest Daughter of Maharajah Daleep Singh and Grand Daughter of Maharajah ranjit Singh of Lahore.Born on 29th September 1869 in London-Died on 10th March 1957 at Lahore.

فرق شاہی و بندگی برخاست
چوں قضائے نوشتہ آید پیش
گر کسے خاک مردہ باز کند
نہ شناسد تو نگراز درویش
قبر کی لوح پر درج ذیل تحریر ہے۔
آخری آرام گاہ
شہزادی بمبا صدر لینڈ
دختر کلاں مہاراجہ دلیپ سنگھ و پوتی مہاراجہ رنجیت سنگھ شیرپنجاب
ولادت 29 ستمبر1869ء درلنڈن
وفات10 مارچ 1957ء لاہور
آورد باضطر ایم اول بوجود
جز حیرتم از حیات چیزے نفرود
رفتیم باکراہ وندا نیم چہ بود
زین آمدن و بودن و رفتن مقصود
مھر توچہ دو صد وچہ سیعد و چہ ہزار
زیں کہنہ سرابرون برندت ناچار
گر بادشے و گرگردائے بازار
ایں ہر دو بیک نرخ بود آخر کار
اے واقف اسرار ضمیر ہرکس
در حالت عجز دستگیر ہمہ کس
یارب تو مرا توبہ وہ دعا پذیر
اے تو بہ دہ و عذر پذیر ہمہ کس
This monument is erected by her Secretary pir karim Bakhash supra.

The post پرنسس بامبا سدھر لینڈ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>