ملتان شہر اپنی قدامت اور تاریخی اہمیت کے حوالے سے ایک خاص مقام کا حامل ہے، قدامت کے ساتھ ساتھ گرد و گرما گدا و گورستان بھی ملتان کی دنیا بھر میں شہرت کا حوالہ بنتے ہیں، گردوگرما کے حوالے سے دیکھا جائے تو ملتان کا تصور ایک ریگزار کے طور پر سامنے آتا ہے جہاں بے آب وگیاہ صحرا میں قیامت کی گرمی پڑتی ہے اور خاک اُڑتی ہے۔
گو ملتان سخت موسموں کا خطہ ہے یہاں گرمی بھی زوروں پر ہوتی ہے اور سردی بھی یہی وجہ ہے کہ قدیم عہد میں یہاں موسموں کو اعتدال میں رکھنے کے لئے بڑی تعداد میں اشجار لگائے گئے اور ثمردار باغوں کا ایک سلسلہ قائم کیا گیا‘ ایک دور تھا کہ ملتان شہر چار اطراف سے باغوں میں گھرا ہوا تھا‘ اس کے باغات اپنے ثمردار اشجار اور خوش نوا پرندوں کے دم قدم سے آباد تھے۔
یہاں کی زمین زرخیزی میں اپنی مثال آپ تھی۔ ملتان چونکہ قدیم عہد سے مختلف قومیتوں کے حکمرانوں کا مرکز رہا، اس لئے ہر فرمانروا نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق گردوگرما کے باوجود اس شہر کے گردو پیش ایسی سرسبز و شاداب فضائیں پیدا کیں جو واقعی قابل رشک تھیں‘ پرہلاد بھگت کازمانہ کتنا قدیم ہے لیکن اس عہد عتیق میں بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ دریا شہر سے لگ کر بہتا تھا اور محل سرائے شاہی بھی باغات میں گھرا ہوا تھا۔
ملتان میں مسلم حکمرانی کے آغاز میں بھی سرسبز وشاداب باغات کا سلسلہ قائم ہوا، خصوصاً محمد بن قاسم کی فتح کے بعد علمدیسورہ اور قاسم بیلا کے نخلستان تاریخ کے صفحات پر بھی نظر آتے ہیں۔ ملتان چونکہ قدیم عہد میں دریا کے کنارے پر آباد تھا اس لئے شہر کے قریب بھی اشجار کی بہتات تھی۔
ملتان کے اولین صوفی حضرت موج دریاؒ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے شہر سے باہر ایک خوبصورت باغ لگوایا جو رفتہ رفتہ ایک پرفضاء مقام میں تبدیل ہو گیا، سہروردی خاندان نے بھی شہر کے جنوب میں ایک قطعہ اراضی خرید کر اس میں باغ لگوایا‘ آج بھی بی بی پاک دامنؒ کا مزار اسی جگہ واقع ہے‘ سلطان غیاث الدین تغلق کے گورنر ملتان ملک شیر خان نے اپنے دور گورنری میں قلعہ شاہی کے غرب میں دریا کے کنارے باغات اور محلات کا نظر فریب سلسلہ قائم کیا لیکن آج ان باغات اور محلات کا نام ونشان بھی نہیں ملتا‘ یوں تو ملتان شہر میں مختلف اوقات میں بہت سے باغات اپنی بہاریں دکھاتے رہے لیکن چند معروف ترین باغوں میں باغ نواب عابد خان‘ باغ لانگے خان‘ باغ جیسمل والا‘ باغ قصائی والا‘ باغ زبردست خان‘ باغ مخدوم محمد زمان قریشی، باغ مخدوم محمد غوث قریشی، باغ شیش محل، کمپنی باغ، باغ دیوان والا اور باغ مخدوم گردیزی والا شامل تھے۔
سٹی سٹیشن کے پاس سیٹھ کلیان داس کا باغ بھی ایک خاص انفرادیت کاحامل تھا۔ مختلف ادوار میں ملتان پر حکومت کرنے والے مغل حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں ملتان میں تین باغات لگوائے‘ ان میں سے دو باغات لگوانے کا سہرا تو شاہ جہاں کے سب سے چھوٹے بیٹے شہزادہ مراد بخش کے سر ہے جبکہ ایک باغ جو باغ بیگی کے نام سے معروف تھا آخری دور کے مغل حکمران معزالدین جہاندار شاہ نے لگوایا تھا۔
شاہ جہان نے دہلی کے تخت پر بیٹھتے ہی پہلے پہل قیلچ خان کو ملتان کا گورنر بنایا کچھ عرصہ بعد اسے تبدیل کرکے قندھار بھیج دیا اور ملتان کو اپنے سب سے چھوٹے بیٹے شہزادہ مراد بخش کی جاگیر قرار دیا‘ شہزادہ مراد بخش نے 1642ء میں ملتان کی حکومت سنبھالتے ہی یہاں رفاہ عامہ کے بہت سے کام کئے‘ اس نے سب سے پہلے قلعہ و فصیل کی مرمت کرائی‘ قلعہ کے اندر ایک مسجد‘ حمام بنوائے اور کنویں احداث کرائے‘ لوہاری دروازہ کے باہر جو پل شہر کو قلعہ سے ملاتا تھا، اسے پختہ کرایا۔ شہزادہ مراد بخش سے پہلے ملتان کے بیشتر حکمران قلعہ کہنہ کے اندر ہی رہائش رکھتے تھے، حفاظتی نکتہ نظر سے قلعہ سے باہر بہت کم حکمرانوں نے رہائش اختیار کی۔
سلاطین کے عہد میں تغلق خاندان نے پہلے پہل قلعہ کہنہ سے باہر رہائش اختیار کی اور کوٹلہ تغلق خان کے علاقے میں اپنے لئے محلات تعمیر کرائے۔ سلاطین کے بعد شہزادہ مراد بخش ملتان کا وہ پہلا حکمران تھا جس نے قلعہ کہنہ سے قربت رکھنے والے علاقے دولت دروازہ میں اپنی رہائش کے لئے ایک محل بنوایا اور اس کے اطراف ایک خوبصورت باغ بھی لگوایا جو عام خاص باغ کے نام سے آج بھی معروف ہے۔
شہزادہ مراد بخش نے عام خاص باغ کے علاوہ اپنے دور حکومت میں ایک اور باغ بھی لگوایا جو قلعہ کہنہ کی قربت کی وجہ سے حضوری باغ کہلاتا ہے‘ حضوری باغ جس کا اب نام ہی شہر کی تاریخ میں رہ گیا ہے کی طرف لوہاری دروازہ سے ایک راستہ جاتا تھا۔ ملتان کے بیشتر حکمران سرکاری مصروفیات سے فراغت کے بعد اسی باغ میں آرام کرتے تھے، ملتان کا یہ تاریخی باغ درانی حملوں کے دوران برباد ہوا۔
مغل حکمرانوں نے ملتان میں تیسرا باغ، باغ بیگی کے نام سے معزالدین جہاندار شاہ کے دور میں لگوایا جو ملتان شہر کے جنوب میں واقع تھا۔ اس باغ کے اندر ایک خوشنما محل اطراف میں شالامار باغ کی طرح خوبصورت بارہ دریاں‘ درمیان میں حوض‘ فوارے اور آبشاریں بنائی گئی تھیں۔ شہزادہ جہاندار شاہ نے یہ باغ اپنی منکوحہ لال کنور کو دے دیا تھا‘ جو ابتداء میں باغ بیگم بعدازاں باغ بیگی ہو گیا‘ ملتان پر درانی حملوں کے دوران یہ باغ اُجڑتا رہا‘ بعدازاں نواب مظفر خان کے صاحبزادے نواب سرفراز خان نے اپنی صوبیداری کے زمانے میں اس کی مرمت کرائی‘ اس باغ میں وہ سرکاری مہمانوں سے ملاقاتیں کرتا تھا۔ اس باغ کی آخری تباہی ملتان پر سکھوں کے حملوں کے دوران ہوئی‘ اب صرف باغ کا نام رہ گیا ہے اور باغ کی جگہ ایک پورا محلہ آباد ہے۔
مغل حکمران شہزادہ مراد بخش کا لگوایا ہوا ایک تاریخی باغ عام خاص جو آج بھی شہر میں موجود ہے، ملتان کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ عام خاص باغ جو شہر میں شرقی سمت سے داخل ہونے والے راستے پر واقع ہے اپنے عروج کے دور میں یہ مغل شہزادوں کی رہائش کے کام آتا تھا۔ اس باغ کا کل رقبہ 50 بیگھے پختہ تھا‘ اس باغ میں شہزادہ مراد بخش کا مراد محل ایک غیر معمولی عمارت کے طور پر موجود تھا‘ باغ کے مشرقی کونے پر ایک مثمن شکل کا تالاب تھا‘ جہاں چہار اطراف بارہ دریاں اور دالان اندر دالان تھے۔
انتہائی مشرقی کونے میں وسیع گول حوض کے درمیان دو منزلہ چوگوشہ بارہ دری تھی جہاں شہزادگان غسل سے قبل اور بعد لباس تبدیل کرتے تھے‘ اس عمارت میں سنگ مر مر پر نفیس منقش سنگ کاری اور چھتوں پر شنگرفی و لاجوردی گلکاری کے اعلیٰ و حسین نمونے موجود تھے۔ اس باغ میں شہزادہ مراد بخش نے ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کرائی جو مسجد مراد کہلاتی تھی۔ اپنی رہائش کے ساتھ شہزادہ مراد بخش نے دیوان خاص اور دیوان عام بھی اسی باغ میں بنوایا‘ شہزادہ اسی باغ میں اپنے درباریوں کو شرف ملاقات بخشتا تھا اور اسی جگہ عوام کی داد رسی کرتا تھا۔ شہزادہ مراد بخش اور اس کی کچہری کی وجہ سے یہ علاقہ ایک خاص اہمیت حاصل کرگیا تھا۔
شہزادہ مراد بخش کی ملتان میں عوامی مقبولیت اور رفاہ عامہ کے کام دیکھتے ہوئے بادشاہ نے خائف ہوکر اسے دکن بھیج دیا، کچھ عرصہ نجابت خان ملتان کا گورنر رہا بعد ازاں صوبہ ملتان اورنگزیب عالم گیر کی جاگیر میں شامل ہوگیا‘ اورنگزیب عالم گیر کے دور میں ملتان کا عام خاص باغ کسی خاص کردار کا حامل نہ رہا‘ البتہ اس علاقے کی شاہی حیثیت برقرار رہی‘ باہر کے شہروں سے ملتان آنے والے سرکاری مہمانوں کو اسی باغ میں ٹھہرایا جاتا تھا۔
نادر شاہ درانی اور بعد ازاں احمد شاہ ابدالی کے پے در پے حملوں کے دوران یہ باغ اجڑا‘ نواب مظفر خان کے دور میں اس باغ کا نصیب ایک بار پھر جاگا‘ نواب مظفر خان نے اپنے دور حکومت میں اس باغ کو دوبارہ تعمیر کرایا اور خوبصورت آبشار بنوائی‘ جس کی تاریخ تعمیر پر حضرت منشی غلام حسن شہیدؒ نے یہ قطعہ موزوں کیا:۔
مظفر طالعے نواب والا
بنا کرد است ایں باغ دل آرا
زہے گلزار باغ تازہ بنیاد
کہ باداز بہار بخت آباد
چوں تاریخ از خرد جستم بگفتا
’’مبارک بوستان رونق افراء‘‘ (1227ھ)
نواب مظفر خان کے عہد میں سکھ ہر سال خراج کے لئے ملتان پر حملہ کیا کرتے تھے‘ نواب مظفر خان کے عہد سے بھی پہلے شروع ہونے والے ان حملوں میں قلعہ ملتان تو ایک بار بھی فتح نہ ہوا البتہ ملتان شہر میں تباہی و بربادی کی تاریخ رقم ہوتی رہی‘ 1818ء میں جب ملتان سکھوں کے تصرف میں آگیا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے دیوان ساون مل کو ملتان کا گورنر مقرر کیا۔
دیوان ساون مل کے دور میں ایک بار پھر اس باغ کی قسمت چمکی، دیوان ساون مل نے اس باغ میں رہائش رکھی اس کو باقاعدہ آباد کیا‘ اس میں بارہ دریاں اور کچہریاں بنائیں‘ شاہی محلات کو اپنے خانگی استعمال میں لایا اور نواب مظفر خان کی مسند پر بیٹھ کر مہمات ملکی انجام دینے لگا‘ آخر کار 1844ء میں دیوان ساون مل اسی عام خاص باغ میں اپنے ایک سپاہی کے ہاتھوں قتل ہوا‘ دیوان ساون مل کے بعد دیوان مولراج ملتان کا گورنر بنا تو اس نے بھی عام خاص باغ میں ہی اپنی رہائش رکھی۔
1845ء میں پہلی جنگ پنجاب کے بعد لاہور کا انتظام ریذیڈنٹ بہادر نے سنبھال لیا اور صوبے کے مختلف اضلاع سے حساب وصول کرنے کیلئے افسران روانہ کئے گئے۔ حساب کتاب کے معاملے پر دیوان مولراج مستعفی ہو گیا اور اقتدار کے انتقال کیلئے جب دو افسران 18 اپریل 1848ء کو ملتان آئے تو مولراج عام خاص باغ میں ہی ان کا منتظر تھا۔
مولراج اور انگریزوں کے درمیان انتقال اقتدار کا یہ مرحلہ ایک خونریز جنگ پر منتج ہوا‘ تو انگریز فوج عام خاص باغ کے راستے ہی ملتان میں داخل ہوئی۔ انگریز مؤرخین کے مطابق جب سکھوں اور انگریزوں کی لڑائی شروع ہوئی تو قلعہ کی توپیں چلنا شروع ہو گئیں، اسی طرح عام خاص باغ کی توپوں کو بھی گھسیٹ کر ایک اونچے ٹیلے پر لایا گیا۔
27 دسمبر 1848ء کو انگریز فوج کا دستہ سیتل ماڑی میں رکا‘ پھر انہوں نے شہر کی طرف پیش قدمی کی‘ 27 دسمبر کے حملے کا حقیقی ہدف عام خاص باغ اور دیوان ساون مل کی سمادھی تھی‘ دائیں دستے نے بڑی آسانی سے ان دونوں اہداف پر قبضہ کر لیا۔ 27 دسمبر کو ہی انگریز فوج نے بم مار کر عام خاص باغ کے داخلی دروازے کو تباہ کر دیا‘ یوں میجر ایڈورڈ اور لیفٹیننٹ مسٹر لیک اندر داخل ہو کر باغ پر قابض ہو گئے۔
برطانوی فتح کے بعد عام خاص باغ کی اراضی کو مختلف سرکاری محکموں کو سپرد کر کے اس کی قطع و برید شروع کر دی گئی، اس باغ کا کل رقبہ 50 بیگھے پختہ تھا، 1849ء میں برطانوی فتح کے ایک سال بعد 15 بیگھے رقبہ پر ملتان کا پہلا تحصیل آفس قائم کیا گیا، تحصیل آفس کے لیے مراد محل کا انتخاب کیا گیا، 1922ء میں تحصیل آفس سند باد ہوٹل کے سامنے ایک بلڈنگ میں شفٹ ہو گیا تو مراد محل کو تباہی و ویرانی کے سپرد کر دیا گیا، اس باغ میں قائم مسجد مراد بخش جو خشتی فن تعمیر کا نمونہ تھی وہ بھی ختم کر دی گئی۔
ملتان پر انگریزوں کے حملہ کے دوران اس مسجد کا ایک حصہ گر گیا تھا، قیام پاکستان سے پہلے ہی اس تاریخی مسجد کو ایک اور مسجد کی توسیع کے نام پر ختم کر دیا گیا، پاکستان بننے سے پہلے مارچ کے مہینے میں یہاں ڈسٹرکٹ بورڈ کے زیراہتمام گھوڑوں کا سالانہ میلہ بھی لگا کرتا تھا، عام خاص باغ کے قریب ہی مغل دور میں شاہی اصطبل بھی ہوا کرتا تھا، قیام پاکستان سے پہلے باغ عام خاص کی اراضی اردگرد کے تمام علاقے میں پھیلی ہوئی تھی آج جس اراضی پر اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ اور گورنمنٹ ولایت حسین کالج قائم ہیں بعض روایات کے مطابق یہ ادارے بھی عام خاص باغ کی اراضی پر ہی قائم کیے گئے، اس دعوے کو دیوان ساون مل کی سمادھ بھی تقویت فراہم کرتی ہے کیونکہ ملتان کی تاریخ کے مطابق دیوان ساون مل کی سمادھی عام خاص باغ کے مشرقی کونے پر ہی بنائی گئی تھی۔
باغ عام خاص کے قریب ہی واقع چوک دولت بھی قلعہ کہنہ کی قربت کی وجہ سے ایک خاص اہمیت کا علاقہ ہے اس چوک کی وجہ تسمیہ کے پیچھے دو آراء ملتان کی تاریخ میں پائی جاتی ہیں، جن میں ایک روایت تو یہ ہے کہ یہ علاقہ چوک کے عین درمیان موجود حضرت دولت شاہؒ کے نام سے موسوم ہے جو ملتان کے برگزیدہ صوفی اور حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے خدام میں سے تھے، دوسری روایت یہ ہے کہ اس علاقہ میں اکبر بادشاہ کے دور میں سکے ڈھالنے کی ایک ٹکسال لگائی گئی تھی، اسی وجہ سے یہی علاقہ دولت درواز کے نام سے معروف ہو گیا۔ چوک دولت گیٹ سے حافظ جمال روڈ کی طرف مڑتے ہی سامنے عام خاص باغ کا مرکزی گیٹ نظر آتا ہے۔
چوک دولت گیٹ پر برطانوی دور میں قائم ہونے والا ملتان کا ایک ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ بھی موجود ہے، قیام پاکستان سے پہلے یہ انسٹی ٹیوٹ ملتان میں علمی و ادبی سرگرمیوں کا اہم ترین مرکز تھا۔ باغ عام خاص کی اہمیت اس حوالے سے بھی ہے کہ یہ لاہور، جھنگ، دہلی اور چولستان سے ملتان میں داخل ہونے والے راستے پر موجود ہے۔
حضرت سخی سرورؒ کے عرس کے موقع پر ہندوستان بھر سے سنگوں کے جو قافلے ملتان میں داخل ہوا کرتے تھے وہ سبھی عام خاص باغ کے علاقے میں ہی قیام پذیر ہوتے تھے، ملتان کے مزاروں پر حاضری کے بعد سنگوں کے لیے یہ قافلے سخی سرورؒ کی طرف کوچ کیا کرتے تھے۔
آج بھی بہاء الدین زکریا ملتانیؒ اور حضرت شاہ رکن عالم ملتانیؒ کے عرس میں شرکت کے لیے آنے والے سندھی زائرین بھی پہلے پہل عام خاص باغ میں ہی بیٹھتے ہیں جب ان کی رہائش کا انتظام سرکاری سکولوں اور کالجوں میں ہو جاتا ہے تو وہ وہاں شفٹ ہو جاتے ہیں۔
باغ عام خاص اپنی خوبصورتی اور شہر کے مرکز میں واقع ہونے کی وجہ سے ایک خوبصورت تفریح گاہ تھا اندرون شہر اور بیرونی علاقوں سے قربت کی وجہ سے بھی اس تک رسائی بہت آسان تھی، گو یہ باغ ملتان میں مسلم حکمرانوں کی یادگار کے طور پر موجود رہا لیکن یہ باغ سناتن دھرم ہائی سکول سے قریب ہونے کی وجہ سے ہندوئوں کی ثقافتی و سماجی سرگرمیوں کا بھی مرکز رہا، باغ عام خاص نہ صرف ہندوئوں کی ثقافتی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز تھا بلکہ ملتان کے ہندو ادیبوں کی تحریروں میں بھی اس باغ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر عذرا شوذب نے اپنی کتاب ’’ملتان میں اردو نثر کا ارتقا‘‘ میں ملتان کے ایک ہندو ناول نگار لالہ مول چند کے ناول ’’چلتا پرزہ المعروف بگلا بھگت‘‘ کی خاص طور پر نشاندہی کی ہے، لالہ مول چند کا یہ ناول 1900ء کے قریب ملتان سے شائع ہوا تھا۔ اس ناول کی کہانی کسی ہندو تاجر کندن لعل اور ایک طوائف مہر النساء کے گرد گھومتی ہے اور وہ دونوں ملنے کے لیے شام کے وقت اسی باغ میں آتے ہیں، ڈاکٹر عذرا شوذب کے مطابق ناول ’’چلتا پرزہ المعروف بگلا بھگت‘‘ ایک صدی قبل کی ملتانی معاشرت کا عکاس ہے۔
ناول کے مطابق ’’کندن لعل کئی ماہ دیہاتوں کے دورے میں لگا کر کثیر سرمایہ جمع کر کے ملتان لوٹتا ہے اور یہاں آکر جمع شدہ مال سے دکان کو جنرل شاپ میں تبدیل کر لیتا ہے اور لوگوں کو سود پر روپیہ دینے لگتا ہے۔ اب وہ شادی بھی کر لیتا ہے لیکن اس کی بیوی سے نہیں بنتی اور دلہن اپنے میکے واپس ہو جاتی ہے، کندن لعل ایک دن دکانداری میں مصروف ہوتا ہے کہ ایک خوبصورت طوائف مہر النساء ریشمی مخمل خریدنے دکان پر آتی ہے، کندن لعل اس کے تیز نظر سے گھائل ہو جاتا ہے اور دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے دوست پریم چند کے ساتھ ملتان کے مشہور جنت نظیر باغ عام خاص باغ میں پہنچتا ہے جہاں شام کے وقت گلزار پور بستی کی طوائفیں جلوس کی شکل میں سیر کے لیے آتی ہیں، اس وقت اس سڑک پر جو دلی دروازے اور عام خاص باغ کے درمیان ہے بے شمار عاشق بھی سیر کے بہانے جمع ہو جاتے ہیں کندن لعل باغ میں مہر النساء کو دیکھتا ہے تو اس کے جنون عشق میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے وہ مٹھائی، پھول اور تحائف سے لدا پھندا مہر النساء کے ڈیرے پر پہنچ جاتا ہے‘‘۔
قیام پاکستان سے پہلے عام خاص باغ ملتان کے سیاسی و مذہبی اجتماعات کا بھی مرکز تھا، یہاں ہر سال مسلم لیگی لیڈر سید زین العابدین شاہ گیلانی کی تاج پوشی بھی کی جاتی تھی، تاج پوشی کے موقع پر انہیں سیپ کے بٹنوں سے آراستہ تاج پہنایا جاتا تھا، سید زین العابدین شاہ گیلانی کی تاج پوشی کے لیے عام خاص باغ کا انتخاب اس لیے کیا جاتا تھا کہ ملتان کا یہ تاریخی باغ ہندوئوں کے سناتن دھرم ہائی سکول کے سامنے تھا، سناتن دھرم ہائی سکول ہندوئوں کی بھی علمی و ادبی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا، قیام پاکستان کے بعد عام خاص باغ کی اصل عوامی صورت سامنے آئی اور سیرو تفریح کے لیے یہاں لوگوں کی بڑی تعداد بھی آنے لگی، یہاں پہلوانوں کے اکھاڑے بھی رہے، تن سازی کو بھی یہاں اچھا خاصا فروغ حاصل ہوا۔
1980ء تک اس باغ کی تمام قدیم تعمیرات منہدم ہو چکی تھیں، اسی زمانے میں باغ کی حافظ جمال روڈ اور معصوم شاہ روڈ سے ملحقہ اراضی پر قبضہ کر کے دکانیں تعمیر کر لی گئیں تھیں جنہیں دو عشروں بعد وزیراعظم پاکستان کے حکم پر ختم کیا گیا، عام خاص باغ کی تزئین و آرائش کے لیے مختلف ادوار میں بہت سے منصوبے شروع کیے گئے لیکن کسی صورت بھی اس باغ کی عظمت رفتہ بحال نہ ہو سکی۔
عام خاص باغ کا نام
ملتان کی تاریخی روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عام خاص باغ مغل عہد میں شاہی رہائش اور دیوان خاص کے طور پر استعمال ہوتا تھا، مغلوں کے بعد بھی اس باغ کی شاہی حیثیت برقرار رہی اور یہ خواص کی ہی مصروفیات کا مرکز رہا، خواص کی سرگرمیوں کا مرکز ہونے کی وجہ سے اس باغ کا نام بھی پہلے خاص عام باغ تھا۔
مغل دور کے بعد نواب مظفر خان کے عہد میں پہلی مرتبہ اس باغ کو عوامی حیثیت ملی، نواب مظفر خان کے عہد میں جب اس باغ کی تزئین و آرائش کی گئی تو اس وقت ملتان کے میر منشی حضرت غلام حسن شہید تھے، منشی غلام حسن شہید کی خاندانی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ہی نواب مظفر خان کو یہ مشورہ دیا کہ اس باغ کا نام خاص عام کے بجائے عام خاص رکھا جائے کیونکہ اس سے پہلے یہ باغ صرف خواص کے لیے ہی مختص تھا‘ اس باغ کا ابتدائی نام جو بھی ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ جب تک یہ باغ خواص کے لیے تھا تو اس کا پھیلائو بھی بہت زیادہ تھا اور اس میں بہت اعلیٰ تعمیرات بھی موجود تھیں لیکن جب سے یہ باغ عوام کے لیے مخصوص ہوا اس کی اراضی بھی سکڑتی چلی گئی اور اس کی حالت بھی ایسی عام ہو گئی کہ اس میں کوئی خاص بات نہ رہی۔
عام خاص باغ میں ملتان کے سکھ گورنر دیوان ساون مل کا قتل
دیوان ساون مل اکال گڑھ کا رہنے والا تھا جسے ملتان میں دوسرے سکھ گورنر بدن ہزاری کے دور میں 350 روپے ماہانہ مشاہرے پر حسابات کا نگران بنایا گیا‘ اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1821ء میں دیوان ساون مل کو ملتان کا گورنر مقرر کر دیا تو اس نے اپنی رہائش گاہ کیلئے عام خاص باغ کو ہی پسند کیا‘ دیوان ساون مل جو ملتان میں سکھ عملداری کا اہم ترین اور مشہور ناظم تھا کو دیوان کا خطاب حسن کارکردگی پر رنجیت سنگھ نے دیا‘ دیوان ساون مل کی عدل گستری اور انصاف پروری ضرب المثل تھی۔
اس نے کم و بیش 17 سال ملتان پر حکومت کی۔ دیوان ساون مل کے قتل کا واقعہ اسی عام خاص باغ میں پیش آیا‘ ہوا یوں کہ صاحب داد خان نامی ایک سپاہی جو ساون مل کے سواروں میں سے تھا ملازمت چھوڑنا چاہتا تھا لیکن دیوان اسے کسی صورت چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا۔ میجر ایڈورڈ اس کہانی کو یوں بیان کرتے ہیں ’’وہ ایک اچھا سپاہی تھا جو دیوان کو چھوڑ دینا چاہتا تھا چنانچہ دیوان نے اسے پہلے نرم الفاظ میں اور وعدوں کے ذریعے مائل کرنا چاہا لیکن جب سپاہی اپنی تنخواہ اور ڈسچارج کا مطالبہ کرتا رہا تو اس نے اس کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا اور جیل میں ڈالنے کی دھمکی دی۔
سپاہی نے احتجاج کیا اور مطالبہ پر اڑا رہا تو ساون مل غصے میں آ گیا اور اپنے محافظوں سے کہا اس بدمعاش کو پکڑ لو، اس کی تلوار اور ڈھال ضبط کر لو‘ سپاہی نے محافظوں سے کہا کہ اگر انہوں نے اس پر ہاتھ ڈالا تو انجام اچھا نہیں ہو گا بلکہ پیچھے ہٹ جائیں تو وہ خود ہی اپنا اسلحہ حوالے کر دے گا۔ صاحب داد کو غیر مسلح کرنے کے بعد محافظوں نے پوچھا کیا اسے جیل لے جائیں۔ دیوان نے کہا نہیں اسے دروازے میں بٹھائو تاکہ میں باہر جاتے وقت اس سے چند باتیں کر سکوں۔ صاحب داد نے اپنے ہتھیار تو دیوان کے محافظوں کے سپرد کر دیئے تھے لیکن ایک بھرا ہوا پستول اپنی پگڑی میں چھپا کر دیوان پر حملہ کرنے کا انتظار کرنے لگا‘ دربار ختم ہوا تو ساون مل چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے زیر حراست سپاہی کے سامنے رکا اور مدافعت کے کسی خطرے کے بغیر طنزیہ باتیں کہنے لگا۔
صاحب داد جو انتقام کی آگ میں جل رہا تھا نے اچانک پستول نکال کر دیوان کے سینے پر فائر کیا۔ گولی دیوان کے دل سے ذرا اوپر لگی دیوان ساون مل دس دن تک زخمی حالت میں رہا پھر زخم خراب ہونے سے وفات پا گیا۔ دیوان ساون مل کی آخری رسومات بھی اسی باغ میں ادا کی گئیں‘ اسی باغ میں اس کی چتا جلائی گئی اور اسی باغ کے آخری شرقی کونے پر مزار شاہ شمس کے سامنے اس کی سمادھی بنائی گئی۔
اصل نقشے کے مطابق ہشت پہلو کمرے پر مشتمل اس سمادھی کے گرد ایک تالاب تھا جس پر متعدد پلیاں بنائی گئی تھیں، ان پلیوں کے ذریعے ہی سمادھی میں داخل ہوا جاتا تھا یہاں ایک کنواں بھی تھا کنویں سے تالاب تک نالیاں آتی تھیں‘ آہستہ آہستہ یہ کنواں مٹی سے بھر گیا‘ نالیاں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایک مشتعل ہجوم نے اس سمادھ کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔ انگریز دور حکومت میں دیوان ساون مل کی سمادھی کا انتظام اس کے خاندان کے پاس ہی تھا اور انتظام چلانے کیلئے ایک چھوٹی سی گرانٹ بھی دی جاتی تھی۔
The post عام خاص باغ؛ ملتان میں مغل حکمرانی کی آخری نشانی appeared first on ایکسپریس اردو.