Mental Power Project
مصنف: ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی
صفحات: 288، قیمت: 400 روپے
ناشر: الحمدپبلی کیشنز، گلشن اقبال، کراچی
اردو اور انگریزی میں لکھنے والے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی انگریزی زبان میں مزاح پر یہ تیسری کتاب ہے۔ اس میدان میں ان کی شہ سواری کو اب 64 برس تمام ہوچکے، مجموعی طور پر یہ ان کی 24 ویں تصنیف ہے، جس میں 56 مضامین ڈھلے ہیں۔ کتاب کا عنوان سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے دور کے ’رینٹل پاور پروجیکٹ‘ کے الفاظ کی پیروی میں ’مینٹل پاور پروجیکٹ‘ ہے۔
سرورق مصنف کے رنگین خاکے سے آراستہ ہے، جس میں وہ محو تحریر ہیں اور اُن کے سر سے چاروں سمت روشنیاں نکل رہی ہیں۔ اعجاز رحیم ان مضامین میں ادبیت کے اعتراف کے ساتھ مزاح اور آگاہی کے عنصر کو سراہتے ہیں۔ ورق گردانی کیجیے، تو صرف آگاہی نہیں، بل کہ اس میں فکریت بھی واضح طور پر محسوس ہوتی ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ مصنف غیر پیشہ ورانہ طور پر اس نگر کے راہی ہیں، ’سندھ سوشل سیکیوریٹی‘ چار دہائیوں تک اُن کا وسیلۂ روزگار رہا۔ کتاب کے آغاز میں وہ اُس دشت کی کٹھنائیوں اور روایتی سازشوں کو بھی مذکور کرتے ہیں۔
اشتہاریات پر بھی کتاب لکھ چکے ہیں، جو گذشتہ تین عشروں سے طلبہ کے مطالعے میں ہے۔ اس لیے اُن کی تحریر میں جہاں پیشہ ورانہ تجربات جھلکتے ہیں، وہیں اِبلاغ عامہ کے رنگ بھی اسے منفرد بناتے ہیں۔ اپنے ’’بے ترتیب‘‘ خیالات سے متاثر ہونے والوں کو ’تلقین‘ کرتے ہیں کہ ابن انشا نے کہا ہے کہ ’دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا۔‘ مصنف رقم طراز ہیں کہ دو درجن کتابیں تصنیف کرنے کے باوجود میں لکھنے میں کام یابی کا صرف یہی نسخہ جانتا ہوں کہ آپ درست لفظ لکھنا جانتے ہوں۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ مزاح لکھنا ایک مشکل امر ہے، جیسے کسی کے پیروں کی انگلیوں پر یوں کھڑے ہوں کہ اس کے جوتے کی چمک بھی خراب نہ ہو۔ Don Mariquisکے بقول ’شعری مجموعہ شایع کرنا ایسے ہی ہے کہ Grand Canyon (امریکا کا آبی درہ) سے گرنے والی گلاب کی پتی کی بازگشت کا انتظار کیا جائے۔‘‘ مصنف اس قول کو نثر پر بھی منطبق کرتے ہیں۔
بلوچستان، تنازعات اور قومی صحافت
مصنف: ارشاد مستوئی
صفحات: 68، قیمت: درج نہیں
زیراہتمام: مہردرانسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن، کوئٹہ
یہ کتاب بلوچستان کے مقتول صحافی ارشاد مستوئی کے پانچ مضامین پر مشتمل ہے، جسے عابد میر نے مرتب کیا ہے، وہ ارشاد مستوئی کے مزید بکھرے ہوئے مضامین کو یک جا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ’ایڈیٹر کے نوٹ‘ میں عابد میر رقم طراز ہیں،’’یہ چند مختصر تحریریں اس امر کا اعادہ کرتی ہیں کہ بلوچستان کا صحافی سوچتا بھی ہے، بولتا بھی ہے، پڑھتا بھی ہے، لکھتا بھی ہے۔
یہ اور بات ہے کہ ایسا دماغ جہل کی قوتوں سے زیادہ دیر برداشت نہیں ہوتا!‘‘ اس کتاب میں ہندوستان کے بٹوارے سے بھی پہلے شایع ہونے والے اخبار ’’استقلال‘‘ کی خبر ملتی ہے، جس پر تقسیم ہند کے بعد پابندی عائد کردی گئی، بلوچستان میں باقاعدہ صحافت کی شروعات کرنے والے عبدالصمد اچکزئی سمیت اِس خطے میں صحافتی خدمات انجام دینے والی متعدد شخصیات کی خدمات مذکور کی گئی ہیں۔ عبدالصمد اچکزئی اور میر عبدالعزیز کرد سے نور محمد پروانہ کی صحافتی خدمات کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔
اگلے مضامین میں بلوچستان میں صحافتی معیار، مسائل اور سب سے بڑھ کر کٹھن ترین حالات میں فرائض کی انجام دہی کا اَلم کہا گیا ہے۔ ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر کی کتاب ’بلوچستان میں ذرایع اِبلاغ‘ سے بھی ایک چھوٹا سا اقتباس کتاب کی زینت ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں بلوچستان میں جان سے گزرنے والے 37 صحافیوں کے نام اور مختصر تعارف رقم ہیں، جہاں مرتب اپنے نوٹ میں لکھتا ہے کہ 2012ء میں یہ فہرست ارشاد مستوئی نے ہی مرتب کی تھی، جسے وہ نئے واقعات سے ہم آہنگ بھی کرتے رہے، پھر خود اس فہرست کا حصہ ہو گئے۔۔۔اس فہرست میں اب بھی اضافہ ہو رہا ہے، لیکن کوئی اسے رقم کرنے والا موجود نہیں۔
سندربن میں آگ
(گیت، نغمات اور دوہوں کا مجموعہ)
شاعر: شاعر صدیقی
صفحات: 256، قیمت:600 روپے
ناشر: رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی
یوں تو یہ کتاب دوہے، گیت اور نغموں کا مجموعہ ہے، مگر اس میں ساتھ ساتھ مصنف سے ہونے والی زیادتیوں کا تذکرہ بھی ہے۔ اُنہیں شکایت ہے کہ اُن کے لکھے گئے بہت سے گیت دوسروں کے نام سے منسوب کیے گئے، وہ شکوہ کناں ہیں کہ اُن کے بعض مصرعے بھی اُچک لیے گئے۔
مشہور غزل ’’کہاں ہو تم چلے آؤ محبت کا تقاضا ہے‘‘ اور قوالی ’’مدینے والے کو میرا سلام کہہ دینا‘‘ جیسی تخلیقات کے حامل شاعر صدیقی کی اوائل کی زندگی سابقہ مشرقی پاکستان میں بسر ہوئی، سقوط ڈھاکا کے بعد وہ کراچی آگئے۔ جہاں اپنے فن کی بے قدری سے کافی دل برداشتہ ہوئے، اپنا کلام دوسروں سے منسوب ہوتا دیکھا، تو اس پر موقر روزناموں میں وزیراطلاعات کے نام مراسلے لکھے۔
قانون کی چوکھٹ پر بھی دستک دی اور ایسا کرنے والوں کو عدالتی تنبیہ کی۔ 1971ء کی شورش کے دوران ریڈیو (کراچی سینٹر) سے شہناز بیگم کی آواز میں ایک نغمہ ’’میرا سندر سپنا ٹوٹ گیا‘‘ نشر ہوا۔ یہ دراصل ایک ہندوستانی گانے کی پیروڈی تھی۔ شہناز بیگم چوں کہ شاعر صدیقی کا کلام گاتی تھیں، اس لیے مکتی باہنی والوں نے یہ سمجھا کہ یہ اُن کا لکھا ہوا ہے۔ یوں وہ اُن کے زبردست عتاب کا شکار ہوئے، اُن کے گھر پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔
اس کٹھن وقت میں وہ ایک بنگالی دوست کی مدد سے وہاں سے نیپال پہنچنے میں کام یاب ہوئے اور پھر کراچی کا رخ کیا۔ کتاب میں گیت اور شاعری کے ساتھ حالات کا بیان بھی قاری کو دل گرفتہ کرتا ہے۔ یہ کتاب ذوق شاعری کی آب یاری کے ساتھ بطور حوالہ بھی خاصی کارآمد ہے۔
سونار بنگلا
مصنف: منصور الظفر داؤد
صفحات: 55، قیمت: درج نہیں
ناشر:الحمد پبلی کیشنز، کراچی
انجنیئرنگ میں ڈاکٹریٹ کے حامل مصنف کی یہ پہلی تصنیف ہے، جو کہ بنگلادیش کا سفرنامہ ہے۔ اسلوب بے حد سادہ اور رواں ہے، اس بنا پر اسے بہ آسانی ایک نشست میں پڑھا جا سکتا ہے، تاہم اس پر اپنی ریاست سے وابستگی کا رنگ اس قدر غالب ہے کہ اکثر توازن جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے، جیسے ایک دُلہن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ اپنے سنگھار اور حرکتوں سے مکمل بنگالن ہونے کا ثبوت دے رہی تھی۔ وہ پاکستانیوں (بہاریوں) کے پناہ گزین کیمپ دیکھنے کی سہار نہیں پاتے، جب کہ شیخ مجیب کی رہائش گاہ پر اظہار خیال کرتے ہیں ’اسی جگہ شیخ مجیب کو پورے خاندان کے ساتھ اس کی اپنی بنگلادیش کی فوج نے بھون کر رکھ دیا۔
شاید ایسی تحریک چلانے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔‘‘ آخری سطروں میں انہوں نے اس سفر کی بابت اپنے تاثرات رقم کرنے کا عندیہ دیا ہے، جس میں وہ سقوط ڈھاکا پر بھی اظہار خیال کریں گے۔ چکنے کاغذ پر بڑھیا طباعت سے آراستہ سفرنامہ 72 رنگین تصاویر سے مزیّن ہے، تصویروں کے ساتھ توضیح (کیپشن) نہ ہونے کے سبب قاری بہت سے اہم تاریخی مقامات سے متعارف نہیں ہو پاتا۔ امید ہے آیندہ اشاعت میں اس کمی کو دور کرلیا جائے گا۔
اصطلاحات
(ادبی، تنقیدی، تحقیقی، لسانی)
مصنف: ڈاکٹر محمد اشرف کمال
صفحات:502 قیمت:1200 روپے
ناشر: بک ٹائم، کراچی
اصطلاحات سازی کسی بھی زبان کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ زبانوں کی ترقی کے لیے ان میں اصطلاحات کے حوالے سے درست معلومات ہونا ضروری ہیں۔ عام قاری ہو، لکھاری یا طالب علم، اگر اصطلاحات سے آگاہی نہ ہو تو علم وفن کے بہت سے پہلو تشنہ رہ جاتے ہیں۔ محقق کے لیے اگر یہ کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا کہ اسے تو اصطلاحات کے دروازے سے گزر کر ہی تحقیق کے در تک پہنچتا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں حرف تہجی کے لحاظ سے ادبی، تنقیدی، تحقیقی اور لسانی اصطلاحات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
کتاب ’آپ بیتی‘ سے شروع ہو کر ’یوٹوپیا‘ پر دم لیتی ہے۔ بعض اصطلاحات کو اختصار کے ساتھ، جب کہ کچھ اصطلاح کی وضاحت کی خاطر اسے دو صفحات تک بھی پھیلایا گیا ہے۔ اہم امر یہ ہے کہ باقاعدہ رسائل وجرائد اور کتابوں سے لے کر مختلف ویب سائٹس تک کے حوالے دیے گئے ہیں۔ کتاب میں لگ بھگ 500 اصطلاحات کو جگہ دی گئی ہے، آخر میں حرف تہجی کی ترتیب کے ساتھ ان کے حوالہ جات ہیں، جو 46 صفحات تک دراز ہیں۔
تحریک پاکستان میں ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کا کردار
تصنیف و تالیف: شاہین حبیب
صفحات:281، قیمت: درج نہیں
ناشر: الجلیس پبلی کیشنز، کراچی
ڈاکٹر امیر حسن صدیقی نے ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقے بدایوں میں آنکھ کھولی اور بطور طالب علم بانی پاکستان کے ساتھ نئی مملکت کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ بٹوارے کے بعد وہ جامعۂ کراچی سے وابستہ ہوئے اور ’اسلامی تاریخ‘ کا شعبہ قائم کیا اور ساتھ ہی اس کا نصاب بھی ترتیب دیا۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں رنگین تاریخی تصاویر سجائی گئی ہیں، جن کی توضیح (کیپشن) دو الگ صفحات پر درج ہے۔ کتاب میں ڈاکٹر امیر حسن کے بچپن سے لے کر تعلیم اور پیشہ ورانہ امور سے لے کر ان کی تعلیمی اور علمی خدمات تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔
کتاب 12 ابواب پر استوار ہے، جس میں زمانی ترتیب کے ساتھ امیر حسن صدیقی کے حالات و واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اُن کے بارے میں مختلف مضامین اور اقتباسات بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔ تحریک پاکستان سے دل چسپی رکھنے والے قارئین اور طلبا کو اس کتاب سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے، یہی نہیں اُس زمانے کی تاریخی گتھیاں سلجھانے والے محققین کو بھی اس میں اپنے موضوع کی بابت اہم حوالے دست یاب ہو سکتے ہیں۔
Stroke Manifesto
(فالج منشور)
مصنف: عبدالمالک
ناشر: پکسلز پوائنٹ، کراچی
پاکستان کی 4.8 فی صد آبادی فالج کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس کے باعث اموات کا شکار ہونے والوں کا تناسب بھی سات سے 20 فی صد کے درمیان ہے۔ اس کتاب میں اس مرض سے بچاؤ اور علاج سے متعلق اہم باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ علامات اور طبی امداد سے لے کر ملک میں دست یاب وسائل پر نظر ڈالی گئی ہے، ساتھ ہی ہر نکتے کے ساتھ حکومت وقت کے سامنے اس مرض سے متعلق توجہ دینے اور مسائل حل کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ چھوٹی سی کتاب فالج سے متعلق 12 نکات پر مشتمل ہے ، جس میں مرض سے بچاؤ کے لیے اہم تدابیر کے ساتھ طبی حوالوں سے بھی کچھ اہم معلومات دی گئی ہیں۔ کتاب کی ایک جانب اردو، جب کہ دوسری جانب انگریزی میں یہ تمام نکات رقم کیے گئے ہیں۔
ادب اور فن کے عظیم دیدہ وَر
مصنف: احسان شوق
صفحات: 416، قیمت:700 روپے
ناشر: سٹی بک پوائنٹ، کراچی
یہ کتاب ’فلسفہ کیا ہے؟‘ کے جواب کے طور پر رقم کی گئی ہے، جس میں میں دنیا کے 26 بڑے فلسفیوں، مفکروں، مدبروں، دانش وَروں، شاعروں اور فن کاروں کا احاطہ کیا گیا ہے، جس میں 43 ق م کے اووِڈ ناسو (Ovid Naso)، چودھویں صدی عیسوی کے عظیم شاعر جیوفری چاسر (Geoffrey Chaucer)، پندرہویں صدی کے عظیم اطالوی مصور اور مجسمہ ساز لیونارڈوڈاونچی (Leonardo Da Vinci) سے لے کر غالب، اقبال، خلیل جبران، علامہ محمد اسد، آغاحشر، فیض احمد فیض، جالب، منٹو، حمید نظامی سے لے کر محمد علی جناح کو ’قائد اعظم‘ کا خطاب دینے والے مولانا مظہر الدین وغیرہ تک کے نام شامل ہیں۔
مصنف ’پیش کش‘ میں رقم طرا ز ہیں کہ کسی بھی قوم کے تہذیب یافتہ ہونے کا براہ راست تعلق اس کی فلسفیانہ برتری پر ہے اور ریاست کے نزدیک بڑی سے بڑی نیکی بہترین فلسفے کا علم تھا۔ فلسفے کو یوں ہی تو تمام علوم کی ماں قرار نہیں دیا جاتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں فلسفے کا شعبہ ہی نظرانداز کردیا جاتا ہے، جس بنا پر سماج میں بنیادی استدلالی فکر عنقا ہو رہی ہے۔ ایسے میں زیرتبصرہ کتاب کی اشاعت اس موضوع میں دل چسپی رکھنے والوں کو تاریخ کی مختلف اہم شخصیات کے طرزفکر اور قیمتی خیالات سے آگاہی ملتی ہے، جن سے اتفاق اور اختلاف سے قطع نظر یہ قاری کو اپنی بساط کے مطابق منطقی انداز میں جینے کا ڈھنگ ضرور سکھا سکتے ہیں۔
ذوق نظر (شعری مجموعہ)
شاعر: الحاج ابوالبرکات
صفحات: 343، قیمت:400 روپے
پرنٹر: صلاح الدین، انڈسٹریل پیکیجز، کراچی
یہ مصنف کی چوتھی تصنیف ہے، جو نثر کے بہ جائے شاعری پر مشتمل ہے۔ ورق کھولیے تو کتاب کے صفحہ نمبر 60 پر پہنچ کر فہرست آتی ہے، اس سے پہلے مختلف شخصیات کا مصنف کے بارے میں نثری اور نظمی اظہارخیال شامل کیا گیا ہے۔ پہلے حصے کا عنوان ’’فی البدیہ قطعات ورباعیات‘‘ دوسرے حصے کو نظموں اور غزلوں سے مامور کیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں چکنے کاغذ پر مصنف کی رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔
دیباچے میں وہ رقم طراز ہیں،’’میں اس لیے لکھتا ہوں کہ لکھنا میری سرشت میں ہے، پڑھتا اس لیے ہوں کہ پڑھنا میری عادت ہے۔‘‘ شفیق مراد لکھتے ہیں،’’الحاج ابوالبرکات ہر شاعر کی طرح حساس دل رکھنے والے انسان ہیں، معاشرتی ناہم واریاں، معاشی عدم استحام، طبقاتی تقسیم انہیں بے چین کر دیتی ہے۔‘‘ ابوالبرکات کے کلام پر نظر ڈالیے تو رسم غنا کے زیرعنوان فیض احمد فیض کے کلام ’پرورش لوح و قلم‘ کی زمین پر لکھتے ہیں ؎
وہ اہل زباں، شاعر وایثار کے پُتلے
ہم لفظوں میں فقط رسم غناء ڈھونڈ رہے ہیں
اجراء (کتابی سلسلہ24)
مدیر: اقبال خورشید،صفحات: 373، قیمت: 500 روپے
اہتمام: Beyond Time Publication
احسن سلیم کی ادارت اور شاہین نیازی کی زیرسرپرستی جس جریدے کی داغ بیل ڈالی گئی تھی، اُسے اب ناصر شمسی اور اقبال خورشید آگے بڑھا رہے ہیں۔ احسن سلیم اپنی زندگی میں اس سلسلے کے 23 شمارے سامنے لائے تھے۔ کسی بھی منقطع سلسلے کو اُسی معیار کے ساتھ بحال کرنا شاید شروعات کرنے سے زیادہ بڑا چیلینج ہوتا ہے، پھر ہمارے ہاں بدقسمتی سے ادبی جرائد کی بندش کے حوالے سے مالی مشکلات کے بعد سب سے بڑا مسئلہ جریدے کی اہم شخصیت کا دنیا سے رخصت ہو جانا بھی بنتا ہے۔
اس ضمن میں زیرتبصرہ جریدے کا جاری رہنا خوش آیند ہے۔ یہ جریدہ درجن بھر خانوں میں بٹا ہوا ہے، جن میں ’نشاط باریابی‘ میں حمدونعت رونق افروز ہیں تو ’موضوع سخن‘ اور ’وسعت بیاں‘ میں مضامین شامل ہیں، جب کہ 9 افسانے ’داستان سرا‘ تلے استوار ہیں۔ 14 شاعروں کی دو، دو جب کہ 14 ہی شعرا کی ایک، ایک غزل شامل کی گئی ہے، نظموں کا گوشہ علیحدہ سے 19 سخن پاروں کا حامل ہے۔ یوں اس جریدے میں شاعری کو بھی قابل قدر جگہ دی گئی ہے۔ رسالے کا آخری گوشہ بانی مدیر ’اجرا‘ احسن سلیم مرحوم کے نام ہے، جو 54 صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ سرورق بھی انہی کی تصویر سے آراستہ ہے، رشحات قلم کے آخر میں بچ جانے والی جگہ پر بھی احسن سلیم کے اشعار اور نثری ٹکڑے ٹانکے گئے ہیں، جب کہ بعض جگہ نئی کتب کے تعارف بھی دیے گئے ہیں۔ قیمت کچھ گراں معلوم ہوتی ہے، لیکن ضخامت، کاغذ کے معیار اور طباعت کو دیکھیے تو اتنی زیادہ بھی نہیں۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.