ماہرین ارضیات یونان کے دارالحکومت ایتھنز کے شمال میں ماضی کے ایک ایسے گاؤں کی تلاش میں لگے ہوئے تھے جسے Vlochós کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس گاؤں کے حوالے سے کیا ہوا، یہ تو معلوم نہیں ہوسکا، مگر اپنی اس مہماتی کھوج کے دوران انہیں انہی کھنڈرات کے درمیان ماضی بعید کا ایک ایسا شان دار شہر مل گیا، جس کے بارے میں تاریخ کے ماہرین پہلے سے بہت کچھ جانتے تھے اور طویل عرصے سے اس شہر کی تلاش میں تھے، مگر یہ ان کی گرفت میں نہیں آرہا تھا۔
انہوں نے قدیم تاریخ میں اس کے تذکرے پڑھے تھے، مگر اس کا وجود کہاں تھا، یہ انہیں کہیں سے نہیں مل پارہا تھا، پھر جب قدیم تاریخ کا یہ گم شدہ شہر ان کے سامنے جس شکل میں آیا، وہ دیکھ کر انہیں یقین بھی نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی شہر ہے جس کے بارے میں انہوں نے تاریخ کی کتابوں میں بہت کچھ پڑھا تھا اور اسے کھوج نکالنے کے آرزو مند تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ کی یہ تحقیقاتی ٹیم یونان، سوئیڈن اور برطانیہ کے محققین پر مشتمل ہے اور وہ قدیم گاؤں Vlochó کے قریب اپنے کام میں کافی عرصے سے مصروف تھے۔
واضح رہے کہ یہ ریسرچ پراجیکٹ اس گاؤں کے پاس ہی چل رہا تھا جو یونان کے دارالحکومت ایتھنز کے شمال میں لگ بھگ پانچ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے اور یہ گاؤں یہاں کے قدیم خطے Thessaly میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں متعدد ایسے قدیم آثار اور کھنڈرات موجود ہیں جو یہاں کے عظیم اور شان دار ماضی کے بارے میں بہت کچھ بتاسکتے ہیں۔ اور اب انہیں اپنی کام یابی کی ایک روشن کرن دکھائی دے رہی تھی۔ وہ اس پر بے حد خوش تھے۔
یونان کے اس قدیم خطے میں یہ سارا کام Vlochos Archaeological Project کے زیراہتمام جاری ہے اور مسلسل تحقیق کے عمل میں مصروف ہے۔ یہ پراجیکٹ کیا ہے، اس کے بارے میں بھی اپنے قارئین کو بتادیں کہ یہ ایتھنز میں واقع Ephorate of Antiquities of Karditsa اور سوئیڈش انسٹی ٹیوٹ کے درمیان ایک اشتراک کے نتیجے میں قائم کیا گیا ہے جس کا کام اس خطے میں ماضی بعید کی قدیم باقیات کو تلاش کرکے منظر عام پر لانا ہے۔
اس ریسرچ ادارے نے اپنا کام کب شروع کیا، اس کے بارے میں حقیقت حال یہ ہے کہ سوئیڈن میں یونی ورسٹی آف گٹن برگ اور برطانیہ میں یونی ورسٹی آف بورن ماؤتھ نے اس سال Vlochós کے تاریخی مقام پر اس دو سالہ تحقیقی کام کا آغاز کیا ہے جس کے نتیجے میں مذکورہ انکشافات سامنے آئے ہیں جنہوں نے آثار قدیمہ کے حلقوں میں ہلچل مچادی ہے۔
ہم نے دیکھا کہ ماہرین نے اپنی محنت اور جستجو کے بعد بتایا اور دکھایا کہ یہ گم شدہ شہر ایتھنز کی قریبی پہاڑی کے اوپر ایستادہ ایک غیرمربوط بستی کی شکل میں تھا۔ لیکن بعد میں اس کے تفصیلی جائزے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ شہر ماضی بعید کا ایک شاہ کار ہے اور بہ ظاہر چھوٹا سا دکھائی دینے والا یہ شہر بہت وسیع و عریض ہے۔ اس شہر کے چاروں طرف فصیل بھی بنی ہوئی ہے اور فصیل کے اندر موجود شہر لگ بھگ 40 ہیکٹرز پر مشتمل ہے۔
ماضی کا یہ عظیم شہر لگ بھگ 2,500 سال پرانا ہے اور اسے بجاطور پر یونان کے ماتھے کا جھومر کہا جاسکتا ہے۔ ماہرین ارضیات اس بات پر شدید حیران تھے کہ وہ ایتھنز کے شمال میں 190میل یا 300کلومیٹر دور ماضی کے جس قدیم گاؤں Vlochós کو تلاش کررہے تھے، اس کے بدلے میں انہیں جو بہت بڑی کام یابی ملی، اس نے ان کی ساری تھکن دور کردی، وہ اس شہر کی دریافت کو اپنی طویل عرصے کی جدوجہد کا ایک بہت بڑا انعام سمجھ رہے ہیں اور اس پر بے حد خوش بھی ہیں اور مطمئن بھی۔
مذکورہ کام یابی حاصل کرنے والے ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ ڈھائی ہزار سال پرانے اس گم شدہ شہر میں ایک زبردست اور پرشکوہ قلعہ بھی ہے جس کی فصیل پر بڑے بڑے مینار اور فلک بوس یا بلند دروازے بھی بنے ہوئے ہیں۔ یہ مینار اور دروازے آسمان کی بلندیوں میں جاکر بہت اوپر سے دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی انہیں دیکھنے کے لیے ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر کی مدد حاصل کرنی پڑتی ہے، لیکن نیچے سے یعنی زمین سے تو ان کے کھنڈرات ذرا بھی نہیں دکھائی دیتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ کھنڈرات اتنے طویل عرصے تک دریافت نہ کیے جاسکے، کیوں کہ یہ انسانی آنکھ سے اوجھل رہے۔
آثار قدیمہ کی دنیا اس انکشاف پر حیران بھی ہے اور بے حد خوش بھی، مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ کام کسی ایک فرد یا کسی ایک ملک یا قوم کی کاوش کا نتیجہ نہیں ہے، بل کہ یہ ایک اجتماعی کام ہے، بل کہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ ایک غیرمعمولی شاہ کار ہے۔ ہم اوپر بھی بیان کرچکے ہیں کہ یہ تین ملکوں کے ماہرین پر مشتمل گروپ کا مشترکہ منصوبہ ہے جس میں یونانی، برطانوی اور سوئیڈش ماہرین آثار قدیمہ شامل ہیں۔
ان کے ساتھ ساتھ اس تحقیقاتی مشن میں انگلستان کی یونی ورسٹی آف بورن ماؤتھ اور سوئیڈن کی یونی ورسٹی آف گٹن برگ کے محققین بھی شامل ہیں جنہوں نے اس پہاڑی کے بارے میں مزید تحقیق شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جب یہ لوگ مذکورہ پہاڑی پر پہنچے تو انہیں ٹوٹے پھوٹے اور دور تک بکھرے ہوئے پتھروں کے درمیان ماضی بعید کا وہ شان دار شہر مل گیا جس کی انہیں طویل عرصے سے تلاش تھی۔ پہلے تو ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں۔ انہیں توقع نہیں تھی کہ ان کے سامنے اس کرۂ ارض پر ڈھائی ہزار سال پہلے بسنے والا ایک قدیم شہر بکھرا پڑا ہے جس کو کھوج نکالنے کی انہیں طویل عرصے سے خواہش تھی۔
اس مہم کی قیادت رابن رونالڈ نے کی جو یونی ورسٹی آف گٹن برگ میں کلاسیکل آرکیالوجی اور قدیم تاریخ کے ایک پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’یہاں ہمیں ایک مربع شہر کے آثار ملے اور ساتھ ہی ایک گلی کا کٹہرا یا جنگلا بھی دکھائی دیا جس کو دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ ہم ایک قدیم ترین گم شدہ شہر کی طرف بڑھ رہے ہیں اور جلد ہی اسے کھوج نکالیں گے۔ یہ ٹیم آگے بڑھتی رہی اور یہاں تک کہ ایسی جگہ پہنچ گئی جہاں سے ہمارے سامنے بلند میناروں، فصیلوں اور شہر کے بلند دروازوں کے آثار دکھائی دینے لگے۔ یہ سب دور پہاڑ کی چوٹی پر نظر آرہا تھا۔ یہاں زمین ڈھلوان تھی، گویا یہ اس شہر کی طرف جانے کا پھسلواں راستہ تھا۔
اس سے پہلے ہم جسے کسی غیرمنظم بستی کے کھنڈرات سمجھ رہے تھے، وہ اب ہمارے سامنے ایک زیادہ اہم اور ایسے اہم شہر کی صورت میں نمودار ہورہا تھا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں اور میرا ایک ساتھی گذشتہ برس بھی اسی سلسلے میں اس مقام پر آئے تھے، مگر اس وقت ہمیں اس مقام کی اہمیت کا کوئی اندازہ نہیں تھا، مگر اب احساس ہورہا تھا کہ یہ وہ چیز ہے جس کی قدروقیمت کا ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا۔ ہمارے لیے یہ احساس خاصا سنسنی خیز تھا کہ یہ وہ پہاڑی ہے جس پر ہم سے پہلے کسی نے نہ کوئی تحقیق کی اور نہ اس کے بارے میں ریسرچ کے لیے قدم بڑھائے، گویا یہاں آنے والے ہم پہلے لوگ تھے۔ اس شہر کے کھنڈرات پہاڑ کی چوٹی پر دکھائی دیے اور اس کے قریب واقع ایک قدیم گاؤں Vlochós کی ڈھلوانوں پر ہمیں اس گم شدہ شہر کی مزید باقیات بھی ملی تھیں۔
ماہرین ارضیات نے اس شہر کی باقیات کو محفوظ کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ وہاں کوئی کھدائی نہیں کی، کیوں کہ اس سے اہم شواہد ضائع ہوسکتے تھے، چناں چہ انہوں نے اس کے بجائے زمین کے اندر اترجانے والے ریڈار سسٹم سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔اپنے کام کے ابتدائی دو ہفتوں کے دوران ماہرین کی ٹیم نے یہاں سے مٹی کے قدیم برتن دریافت کیے اور انہیں کچھ قدیم سکے بھی ملے۔
مسٹر رونالڈ نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ رومیوں نے جب اس خطے کو فتح کیا ہوگا تو ان کی آمد سے خوف زدہ ہوکر یہاں کے مکین اپنے گھروں سے نکل بھاگے ہوں گے جس کے نتیجے میں یہ شہر ویران ہوگیا ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس خطے میں قدیم شہروں کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہے، اسی لیے یہاں اس ضمن میں کام نہیں ہوسکا۔
لیکن ہمارا منصوبہ اس کمی کو پورا کرے گا اور اس خطے کی اہم معلومات تک پہنچنے میں ہمارے لیے راستہ فراہم کرے گا اور ہم ایک روز فخر سے کہہ سکیں گے کہ یونانی مٹی میں ایسے ڈھیروں باقیات اور کھنڈرات ہیں جنہیں ابھی کھوجنا ہے اور ان میں سے سنہرے ماضی کے آثار نکال کر دنیا کے سامنے پیش کرنے ہیں۔
یہ گم شدہ شہر
اپنے کام کے پہلے دو ہفتوں کے دوران ماہرین کی ٹیم نے ماضی بعید کے مٹی سے بنے ہوئے جو قدیم برتن اور سکے دریافت کیے تھے، وہ کم از کم 500قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں۔
شہر کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ 300 قبل مسیح کے لگ بھگ ویران اور غیرآباد ہوا تھا، مگر اس سے پہلے یعنی 200سال پہلے کے عرصے میں یہ شہر نہ صرف آباد تھا، بل کہ یہاں کے لوگ بہت خوش حال تھے اور بڑی اچھی زندگی گزارتے تھے۔
یونی ورسٹی آف گٹن برگ کے رابن رونالڈ اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’میرا اندازہ ہے کہ جب رومیوں نے اس علاقے کو فتح کیا تھا تب اس شکست سے مایوس ہوکر اس شہر کے باشندے اپنے گھروں کو چھوڑ کر چلے گئے ہوں گے، لیکن ان کھنڈرات کی مزید تحقیق اور ریسرچ ہمیں اہم ترین شواہد فراہم کرسکتی ہے اور یہ بتاسکتی ہے کہ یونانی تاریخ کے افراتفری اور ہنگامہ خیزی کے دور میں اس شہر کے ساتھ کیا ہوا تھا اور یہ کس طرح برباد ہوا۔‘‘
The post یونان کا قدیم گُم شدہ شہرایتھنز کے پہاڑوں میں دریافت appeared first on ایکسپریس اردو.