سن 2014ء میں افغانستان کے دارالحکومت کابل سے محض ایک گھنٹہ کے فاصلہ پر واقع ضلع چرخ مکمل طور پر طالبان کے زیراختیار میں آچکا تھا۔ طالبان کھلے عام سڑکوںپر پٹرولنگ کرتے تھے، ان کی اپنی انتظامیہ تھی، شرعی عدالتیں تھیں اور طالبات کے لئے علیحدہ سکولز تھے۔ یہ تین برس قبل کا منظر تھا جب حامدکرزئی کا دورختم اور اشرف غنی کا شروع ہواتھا۔
امریکی حکام شاکی تھے کہ کرزئی ان کی توقعات پر پورا نہیں اترسکے، اس لئے وہ بڑی امیدوں کے ساتھ اشرف غنی کو نیا صدر بنا رہے تھے۔سوال یہ ہے کہ کیا اشرف غنی امریکیوں کی امیدوں پر پورا اترسکے؟ اس کا اندازہ ضلع چرخ کے منظرنامے ہی سے ہوگا، تین برس گزرنے کے بعد اس ضلع کے حالات کیا ہیں؟
عرب ٹی چینل ’الجزیرہ‘ سے وابستہ صحافی، فلم ساز اور مصنف نجیب خواجہ کا کہناہے:’’افغانستان میں حالات زیادہ سنگین ہوچکے ہیں، افغان سیکورٹی فورسز کا خون بہہ رہاہے، بڑی تعداد میں اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں، افغان قومی فوج انتہائی مشکل میں ہے۔ حال ہی میں امریکا نے ہلمند میں 600 فوجی بھیجنے کا فیصلہ کیاہے، حالانکہ امریکا اس سے قبل جنگ ختم کرنے کا اعلان کرچکاتھا‘‘۔
افغانستان میں امن وامان کی صورت حال پر نظر رکھنے والے خصوصی امریکی ادارے’’سگار‘‘ کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ 2016ء میں افغانستان میں ہلاک ہونے والے فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی تعدادمیں اضافہ ہواہے کیونکہ افغان حکومت کا اپنے ہی ملک پر کنٹرول کمزور پڑگیاہے۔ امریکی سرکاری ادارے ’سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن‘(SIGAR) کی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ یکم جنوری2016ء سے 12نومبر2016ء کے دوران ، صرف 300دنوں میں6785 افغان فوجی اور پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 11,777 زخمی ہوئے۔2015ء میں ان ہلاکتوں کی تعداد5000 کے لگ بھگ تھی جو اگلے ہی سال 35 فیصد بڑھ گئی۔
سگار کی رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ 2016ء میں افغان فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی زیادہ تر ہلاکتیں براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی ہیں جبکہ اس سے پہلے بم دھماکوں اور بارودی سرنگوں کی وجہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوا کرتی تھیں۔ رپورٹ میں یہ اعتراف بھی کیاگیاکہ افغان حکومت کے زیرانتظام بیشتر علاقوں میں طالبان کی کارروائیوں اور اثر ورسوخ میں اضافہ ہورہاہے۔ امریکی سرکاری ادارے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگریہی رجحان رہا تو جلد ہی افغانستان کا بڑا حصہ طالبان یا ایسے دوسرے گروہوں کے قبضے میں چلاجائے گااور افغان حکومت کابل تک ہی محدود ہوکر رہ جائے گی۔
امریکہ اور اس کی حمایت یافتہ افغان فوج کے خلاف لوگوں کے جذبات کیسے ہیں؟ اس کا اندازہ ضلع چرغ کے اس باپ کے الفاظ سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے جس کا بیٹا افغان فوج سے لڑائی میں ہلاک ہوگیاتھا۔ اس کے جنازے میں سینکڑوں افراد شریک تھے۔ شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے والد کہہ رہاتھا:’’مجھے فخر ہے کہ میں ایک ایسے بیٹے کا باپ ہوں جس نے اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کی‘‘۔ اس سے پوچھاگیا کہ آپ حکومت کے خلاف کیوں ہیں؟ اس کا جواب تھا:’’ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے منکر اور امریکیوں کے ساتھی ہیں‘‘۔ نمازجنازہ اور تدفین کے بعد ایک طالبان کمانڈر نے شرکاء سے خطاب کیا۔’’ جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ، وہ بہت خوش ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں جو کچھ دیا ہے، وہ اس پر بہت راضی ہیں‘‘۔
وہاں 17 سالہ احسان اللہ سے ملاقات بھی ہوئی، وہ بھی افغان فوج سے لڑ رہاہے ۔ اس سے پوچھاگیا کہ آپ کیوں افغان فوج سے لڑ رہے ہیں؟ اس کا کہناتھا کہ میرے تین بہن بھائیوں کو قتل کردیاگیا۔ دو ننھے منے بھائی اور ایک بہن۔ دراصل یہاں ایک لڑائی ہوئی تھی جس میں افغان فوج نیہماریگھرانے پر میزائل فائر کیا، نتیجتاً یہ بچے ہلاک ہوگئے۔ حکومت اس قدر لاپروا ہے کہ وہ ایسے واقعات کا نوٹس لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی‘‘۔
’الجزیرہ‘ کی ٹیم نے حال ہی میں طالبان کے اثرورسوخ والے صوبوں میں دیکھا کہ وہاں طالبان مکمل طور پر معاشرے کا حصہ ہیں، عام لوگوں کے ساتھ مل جل کر عام سی زندگی بسر کررہے ہیں۔ پہلے کہاجاتا تھاکہ طالبان داڑھی سمیت ہرچیز لوگوں پر مسلط کرتے ہیں تاہم اب طالبان تبدیل ہوچکے ہیں۔ آج کے افغانستان کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہی ہے۔
ٹیم نے جن طالبان کمانڈروں سے بات کی، انھوں نے تسلیم کیا کہ اس سے پہلے طالبان نسبتاً متشدد تھے، یقیناً ہمارے گروہ کے کچھ لوگوں نے برے کام بھی کئے، ہم بھی انسان ہیں، ہر ایک سے غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ لوگوں نے ٹیم کو بتایا کہ طالبان بالکل مختلف قسم کے لوگ بن چکے ہیں، وہ ایک بالکل مختلف طرزعمل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اب وہ کچھ بھی مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ وہ طالبان سے مکمل طور پر مطمئن ہیں اور ان سے کوئی شکایت نہیں۔ ان سے پوچھاگیا کہ کیا وہ آپ کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرتے ہیں؟
لوگوں نے بتایا کہ نہیں، وہ اپنا کام کررہے ہیں اور ہم اپنا کام۔ اس کا ایک ثبوت عرب ٹی وی چینل کی ٹیم کو ’چرخ‘ کے علاقے میں گھوم پھر کر فلم بنانے کی آزادی تھی کہ طالبان کیسے حکومت کرتے ہیں؟ فلم میں دکھایاگیا کہ ایک خاتون ایک طالبان رہنما کے پاس شکایت لے کر جاتی ہے۔ شکایت کرنے والی اور شکایت سننے والا دونوں زمین پر بیٹھے ہیں۔ مخصوص افغان برقعہ اوڑھے ہوئے خاتون نے طالبان رہنما کو بتایا کہ وہ اپنے سوتیلے بیٹوں کے پاس گئی، انھیںبتایا کہ انکے باپ نے کچھ زمین میرے لئے چھوڑی تھی، وہ تم لوگ مجھے دیدو تاکہ میں اس سے کچھ فائدہ اٹھاکر اپنی زندگی گزار سکوں۔تاہم میرے سوتیلے بیٹے میرے ساتھ نہایت ظالمانہ اندازمیں پیش آئے اور کہنے لگے کہ اپنے کسی دوسرے شوہر کے پاس چلی جاؤ۔
طالبان رہنما نے ایک دوسرے لڑکے سے پوچھا کہ کیا اس کے سوتیلے بیٹوں نے اسے گھر سے نکال دیاہے؟اس نے جواب دیا:’’ ہاں! وہ اسے اس کا حصہ نہیں دے رہے ہیں۔ انھوں نے اس کی زمین سمیت ہرچیز پر قبضہ کرلیاہے‘‘۔اس کے بعد طالبان رہنما نے خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’ میں نے تمہاری بات سن لی ہے،اب آپ چلی جاؤ، آج جمعرات ہے، بروزہفتہ اپنے سوتیلے بیٹوں سمیت آجاؤ۔ ہم تمہارا مسئلہ حل کردیں گے‘‘۔
طالبان لوگوں کو فوری انصاف فراہم کرکے افغانستان میں بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کرچکے ہیں۔ انھوں نے شرعی عدالتوں کا نظام قائم کردیاہے۔ ہندو افغان صحافی اور مصنف انند گوپال نے بتایا کہ افغانستان میں حکومتی سسٹم کرپٹ ہے، ایسے میں طالبان کا نظام انصاف لوگوں میں زیادہ مقبول ہورہاہے۔
’الجزیرہ‘ ٹیم نے ایک بوڑھے شخص سے پوچھا کہ آپ لوگ سرکاری عدالتوں کے بجائے طالبان کی شرعی عدالتوں میں کیوں جاتے ہیں؟ اس نے جواب دیا:’’ افغان حکومت کے پاس کوئی مناسب قانونی نظام ہی نہیں ہے۔ وہاں پیسہ چلتاہے، اقربا پروری کا راج ہے یا پھر اگرآپ کے پاس کوئی مضبوط سفارش ہے تو آپ کو انصاف مل سکتاہے۔ناٹو میں سابق امریکی سفیر کرٹ والکر نے بھی اعتراف کیا کہ حکومتی نظام کرپٹ ہے، عدالتی نظام ناقابل اعتبار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مساجد میں پہنچ کر فوری انصاف حاصل کررہے ہیں۔
یہ منظر مزید حیران کن تھا کہ طالبان افغان سیکورٹی اہلکاروں کی نظروں کے سامنے گھوم پھر رہے تھے۔ ایک طالبان کمانڈر نے سرکاری چھاؤنی کے عین سامنے ایک گھر دکھایا جہاں سے چھاؤنی پر متعدد حملے کئے گئے۔ طالبان اہکار نے بتایا کہ ہم یہاں بی ایم ون میزائل لانچر لائے اور اسے ادھر ہی سے فائر کیا۔ ٹیم نے ایسے گھرانے بھی دیکھے جن کا کوئی فرد بھی طالبان کا حصہ نہیں تھا لیکن ان کے چھوٹے بچوں کو بھی نہ بخشا گیا اور ہلاک کردیاگیا۔
بعض گھرانوں میں ظلم کی یہ کہانی سنانے کے لئے کوئی بڑا فرد نہیں بچاتھا، ایک چھوٹی سی بچی نے اپنے بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی قبریں دکھائیں جنھیں ہلاک کیاگیا۔ ایک بچی نے بتایا:’’ ہم سب بیٹھے ہوئے تھے، اچانک ایک میزائل آگرا، یہ بہت بڑا میزائل تھا، پھر ایک دوسرا میزائل آن گرا، بصیرہ، عزیر اور بابو ہلاک ہوگئے‘‘۔ اس بچی کا بھائی محض ڈیڑھ برس کا تھا، ابھی اس نے چلنا ہی سیکھاتھا جبکہ اس کی بہن گیارہ برس کی تھی۔ ٹیم نے بچی سے پوچھا:
’’ آپ کا بھائی اور بہن کہاں ہیں؟ ‘‘
’’ جنت میں‘‘
’’ کیا آپ انھیں یاد کرتی ہو؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’آپ ان کے لئے روتی ہو؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’میزائل کس نے پھینکا تھا؟‘‘
’’امریکیوں نے‘‘
’’ نہیں، وہ امریکی نہیں تھے، کون تھے وہ؟‘‘
بچی اس سوال کا جواب نہ دے سکی، البتہ ساتھ کھڑی ایک دوسری بچی بولی:’’ وہ افغان فوجی تھے۔‘‘
٭٭٭
طالبان کی بدلے ہوئے طرزعمل کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ ان کے زیراثر علاقے میں سکول بھی چل رہے ہیں، لڑکوں کے لئے الگ اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ سکول۔ زیادہ زور مذہبی تعلیم پر دیاجاتاہے تاہم ریاضی سے کیمسٹری تک کے مضامین کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ایک استاد سے پوچھاگیا کہ کیا طالبان آپ کے لئے کوئی مسئلہ کھڑا کرتے ہیں؟ استاد، جس نے داڑھی کے بجائے شیو کی ہوئی تھی،کہنے لگا کہ میں ریاضی کا استاد ہوں، مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ انھیں ریاضی سے کیا اختلاف ہوسکتاہے بھلا!
ان کے علاقے میں طالبات کے سکولز بھی چل رہے ہیں،چھوٹی بچیوں کو مرد تعلیم دیتے ہیں۔ ایک طالبہ سے پوچھا کہ کس عمر میں سکول میں داخل ہوئی تھی؟ اس نے جواب دیا:’’چاربرس۔‘‘کون سا مضمون زیادہ پسند ہے؟ ’’انگریزی‘‘۔ مغربی حکام کا کہناہے کہ یہ طالبان کی طرف سے مزیدعوامی حمایت حاصل کرنے کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔
طالبان نے امریکا اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں رویہ تبدیل نہیں کیا۔ ایک طالبان کمانڈر سے پوچھا کہ آپ اپنے ہی ملک کے فوجیوں سے کیوں لڑتے ہیں؟ اس کا کہناتھا:’’ ہمیں ان سے پرامن طور پر رہنے میںکوئی مسئلہ نہیں لیکن وہ غیرمسلموں کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف کام اور جمہوریت کو قبول کرتے ہیں، اس لئے ہم ان کے خلاف جہاد کریں گے۔ جب ہم افغان فوجیوں کو گرفتار کرتے ہیں، ان میں سے کوئی نیا فوج میں بھرتی ہوا ہو، تو ہم اسے رہا کردیتے ہیں لیکن جب کوئی افغان پورے شعور کے ساتھ حکومت سے تعاون کرتا ہے تو ہم اسے قتل کردیتے ہیں۔ آزادی کی جنگ نے ہمیں ایک سبق دیاہے کہ ہم مستقبل میں مردوں اور خواتین کے ساتھ ایک جیسا سلوک کریں گے۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں کہ مرد داڑھی رکھتے ہیں یا نہیں، وہ سگریٹ پئیں تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
اب ہم کسی چرسی کو بھی سزا نہیں دیں گے۔ ہم ان میں شعور پیدا کریں گے کہ یہ بُری چیز ہے۔ ہاں! موسیقی کی اجازت نہیں ہے، البتہ لوگوں کے پاس سیٹلائٹ ٹی وی موجود ہیں، ہم اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے‘‘۔ القاعدہ کی بابت ایک سوال پر کمانڈر کا کہناتھا: ’’القاعدہ عرب ممالک میں کام کررہی ہے، انھیں اپنے آپریشنز کے لئے افغان سرزمین استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ امن معاہدہ کے بارے میں ایک سوال پر طالبان رہنما کا کہناتھا:’’ اگر ہم امن معاہدہ کریں گے تو ہم اس کی خلاف ورزی نہیں کریں گے، اُس وقت تک ہم غیرملکی حملہ آوروں کو سبق سکھاتے رہیں گے، اُن سے انتقام لیتے رہیں گے۔‘‘
آج کے افغانستان کا منظر یہ ہے کہ طالبان کے پاس عسکری سامان اور اسلحہ میں سے کسی چیز کی کمی نہیں۔ باہم مربوط رہنے کے لئے جدید وائرلیس سسٹم، دشمن سے نمٹنے کے لئے راکٹ لانچرز سے مشین گنوں تک سب کچھ موجود ہے۔ وہ اس قدر طاقتور اور باخبر ہیںکہ کوئی ڈرون طیارہ بھی ان کی طرف پرواز نہیں کرسکتا۔
The post 16 برس بعد، افغانستان کیسا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.