عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروندکیجری وال سمیت پارٹی کے ہرکارکن کو چیونٹی کی وہ کہانی پوری تفصیل سے ازبر ہے ۔
جس میں ننھی چیونٹی جب دانہ لے کر چلتی ہے، دیواروں پر چڑھتی ہے، سوبارپھسلتی ہے لیکن اس کے اندر کا یقین کم ہونے کے بجائے بڑھتاہے، چڑھ کر گرنے اور گرکر چڑھنے کا عمل جاری رہتاہے، اس کی کوشش بے کار نہیں ہوتی کیونکہ کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی۔ کیجری وال اور ان کے ساتھی ایک دوسرے کو یہ کہانی بارباریاد دلاتے رہے حتی کہ وہ گزشتہ ماہ دہلی کی 70رکنی ریاستی اسمبلی میں67سیٹیں لے کر جاپہنچے۔
سب جانتے ہیں کہ اس سے پیشتر انتخابات ہوئے تو عام آدمی پارٹی کو اکثریت حاصل نہ تھی، اسے70میں سے محض 28نشستیں ملیں، تاہم اس نے کانگریس سے مل کر حکومت قائم کر لی۔ جب کیجری وال نے اپنے منشورپر عمل درآمد میں مشکلات محسوس کیں تو وہ حکومت چھوڑ کر اسمبلی سے باہرآگئے۔
دہلی کے عوام کو جہاں ان کا حکومت چھوڑنا پسند نہ آیا وہاں انھیں کیجری وال کی مجبوریوں کا بھی احساس تھا۔ چنانچہ انھوں نے اس بار اسمبلی کی قریباً ساری سیٹیں کیجری وال کی جھولی میں ڈال دیں۔ 2013ء کے انتخابات میں 28نشستیں ملیں، ووٹوں کا حساب کتاب کیاجائے تو اسے23لاکھ 22ہزار 330ووٹ ملے تھے یعنی مجموعی ووٹوں کا29.49فیصد۔سن2015ء کے انتخابات میں70سیٹیں ملیں،48لاکھ 79ہزار127ووٹ ملے۔ اب کی بار ووٹوں کی شرح تھی54.3فیصد۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے یہ انتخاب بڑے دھچکے کی صورت میں سامنے آیا جن کی جماعت نے گذشتہ سال انتخاب یہ نعرہ لگا کر بھاری اکثریت سے جیتا کہ وہی محب وطن ہیں، وہی قوم پرست ہیں اور وہ تو پیدائشی ہندوبھی ہیں۔اس لئے وہی بھارت کا دیا روشن کریں گے۔ تاہم دہلی انتخابات میں ان کی جماعت کو صرف تین نشستیں ملیں۔
کانگریس جو دہلی میں سب سے بڑی سیاسی جماعت رہی ہے کا ان انتخابات میں صفایا ہوا۔ اروِند کیجری وال نے اپنے ملک کے وزیراعظم کو بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی مگر مودی نے اْن کی دعوت ٹھکرا دی۔ شاید وہ جس طرح اپنے علاوہ کسی کو محب وطن نہیں مانتے، اسی طرح اس علاقے کو اپنا علاقہ ماننے سے بھی انکار کردیتے ہیں جہاں انھیں مخالف بری طرح پٹخ دے۔
کیجری وال نے اس بار اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو فوراً ہر دہلی والے مخاطب ہوئے کہ
’’ہم نے آپ سے کہاتھا کہ حکومت بنتے ہی گھروں میں مفت پانی پہنچائیں گے، ہم نے اپنا وعدہ پورا کردیاہے،یکم مارچ سے آپ کے گھر تک 20ہزار لٹر پانی مفت آئے گا۔ ہم نے آپ سے کہاتھا کہ حکومت بنتے ہی بجلی کے دام آدھے کریں گے، ہم نے وہ وعدہ بھی پورا کیا، یکم مارچ سے آپ کے بجلی کے بل 400یونٹوں تک آدھے ہوں گے۔
ذرا سوچئیے کہ یہ سب کس نے کیا، یہ میں نے نہیں کیا،یہ آپ سب نے کیا۔ آپ نے اعتمادکیا،آج 67عام آدمی دلی کی ریاستی اسمبلی میں آپ کی آواز سن رہے ہیں۔دلی کو ایک بہترشہربنانے کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرناپڑے گا۔ میں آپ سے وقتاًفوقتاً بات کرتارہوں گا۔ ہم سب مل کر دلی کو خوشحال بنائیں گے‘‘۔
دہلی کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’مجھے علم ہے کہ دہلی والے مجھ سے محبت کرتے ہیں مگر یہ نہیں معلوم کہ اتنی محبت کیوں کرتے ہیں۔‘ انھوں نے عہد کیا ہے کہ وہ دہلی سے ’وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کریں گے جس کے نتیجے میں سیاستدانوں کو عام لوگوں پر ترجیح دی جاتی ہے،انہیں اجازت دی جاتی ہے کہ وہ شہر کی بھیڑ اور ٹریفک میں سے بچ کر نکل جائیں۔ ’ترقی یافتہ ممالک میں اراکینِ پارلیمان بھی بس کے اڈے پر انتظار کرتے ہیں تو ایسا یہاں کیوں نہیں ہو سکتا؟
انہوں نے عہد کیا کہ وہ اگلے پانچ سال میں ’دہلی کو بھارت کی پہلی بدعنوانی سے پاک ریاست بنائیں گے۔‘انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی رشوت مانگے تو انکار مت کریں بس موبائل جیب سے نکال کر ریکارڈ کر لیں۔ اس کے بعد یہ آکر مجھے دے جائیں ہم خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔‘
کیجری وال بھارت کے روایتی سیاست دانوں کے لئے بہت خطرناک ثابت ہورہے ہیں، اس عام آدمی کی موجودگی میں روایتی سیاست دانوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جائے گی کیونکہ عام لوگوں کا پرانے سیاست دانوں کے ساتھ چلنا ممکن نہیں ہوتا، عام آدمی پارٹی کے سیاست دانوں کے ساتھ ان کا سفر اس لئے بھی آسان ہوتاہے کہ کیجری وال وی آئی پی کلچر کو کسی بھی سطح پر قبول نہیں کرتے۔
مثلاً بھارت کی تاریخ میں انوکھی مثال قائم ہوئی کہ کیجری وال نے دونوں مرتبہ وزیر اعلیٰ کا حلف عام لوگوں کے درمیان ہی اٹھایا۔ وہ انتخابی نتائج آنے کے فوراً بعد بار بار دہلی کے عام لوگوں سے اپیل کرتے رہے کہ وہ تقریب حلف برداری میں ضرور شریک ہوں۔ان عام لوگوں کو یاد ہوگا کہ چند ماہ پہلے بھارتی عوام سے بے شمار وعدے کرنے والے نریندرمودی نے روایتی سیاست دانوں کی طرح ایک مخصوص طبقہ کے منتخب لوگوں کے درمیان ہی حلف اٹھایاتھا۔
کیجری وال نے جس روز وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا، اگلی صبح وہ معمول کے مطابق اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر اسی راستے پر صبح کی سیر کرتے دکھائی دئیے جہاں روز نظرآتے تھے۔ ان کے ساتھ کوئی باڈی گارڈ نہ تھا، راستے میں حسب سابق ہر کسی کے ساتھ ہنستے مسکراتے، ہاتھ ملاتے، آگے بڑھتے رہے۔
روایتی سیاست دان اب ایسا طرززندگی اختیار نہیں کرسکتے، اس لئے وہ کیجری وال سے مقابلہ مشکل محسوس کرتے ہیں۔ پرانے سیاست دان گاڑیوں اور محافظوں کے لمبے چوڑے قافلے کے عادی ہوچکے ہیں، وہ وی آئی پی کلچر سے باہر آنہیں سکتے، کیجری وال اسی طبقہ کے خلاف میدان میں اترے ہیں، اسی طبقہ کے خلاف سیاست میں عام لوگوں کا مفاد ہے۔ ان کی ایک تقریر بہت مقبول ہوئی، وہ اسمبلی کے اجلاس میں کہہ رہے تھے:
’’اس دیش کے نیتائوں(رہنما) کو لگا کہ اس دیش کا عام آدمی مرا ہوا آدمی ہے، کچلا ہوا آدمی ہے، یہ چنائو کیالڑے گا۔ وہ بھول گئے اس دیش کے کھیتوں کے اندر عام آدمی ہل جوتتا ہے، یہ ہل جوتنے کے لئے نہیں جاتے۔ اس دیش کا عام آدمی مکان بناتاہے، یہ تو مکان نہیں بناتے۔ اس دیش کا عام آدمی آٹو چلاتا ہے، یہ تو آٹونہیں چلاتے۔ اس دیش کا عام آدمی چاند پر جاتا ہے۔
نیتا چاندپر نہیں جاتے۔اس دیش کا عام آدمی ریسرچ کرتا ہے، نیتا ریسرچ نہیں کرتے۔جب اس دیش کے عام آدمی کے پاس کوئی چارہ نہیں بچاتواس دیش کے عام آدمی نے طے کرلیا کہ ٹھیک ہے، اس بارچنائوبھی لڑ کر دکھائیں گے۔
بھگوان، ایشور، اللہ یہ سچائی کا ساتھ دیتے ہیں، سچائی ہارنہیں سکتی، دلی کے عام لوگوں نے دیش سے بھرشٹ راج نیتی (ناپاک حکومتی نظام) کو اکھاڑنے کی طرف پہلا قدم اٹھانے کی جرات کی ہے۔یہ لڑائی دیش کی بھرشٹ راج نیتی سماپت (ختم) کرکے سچائی اور ایمان داری کی راج نیتی قائم کرنے کی لڑائی ہے‘‘۔
حقیقت یہی ہے کہ کیجری وال کی ساری سیاست اور حکمرانی مذکورہ بالا فلسفہ پر استوار ہے۔ وہ عام لوگوں کے لئے بھرپور اور منظم اندازمیں کام کررہے ہیں۔
انھوں نے عوامی خدمت کے لئے اپناسفر وہاں سے شروع کیاہے، جہاں سے چھوڑاتھا۔ مفت میں پینے کا صاف پانی فراہم کرنے اور بجلی کے نرخ آدھے کرنے کا وعدہ فوراً پورا کردیا، تاہم ابھی انھیں دہلی کو ایسا شہر بناناہے جہاں بجلی 24گھنٹے ہی رہے، وہ اسے شمسی توانائی استعمال کرنے کا شہر بناناچاہتے ہیں۔
، صرف دہلی شہر کو نہیں بلکہ یہاں کے دیہاتی علاقوں میں بھی 24 گھنٹے بجلی فراہم کرنی ہے، ان دیہاتوں کے ہرگھر میں ہرماہ 20ہزار لیٹر پانی فراہم کرناہے، پانچ برسوں میں ہرگائوں کے ہر گھر میں سرکاری پانی کا پائپ پہچانا ہے، دہلی کے لئے ایک پاور پلانٹ لگانے کا وعدہ بھی پورا کرناہے، موجودہ 70کالجز میں طلبہ وطالبات کی تعداد کو دوگنا کرناہے، دہلی کے نواحی علاقوں میں کم ازکم 20نئے کالجز بنانے ہیںاور سٹیڈیم بھی تعمیر کرنے ہیں، ہر گائوں کا اپنا لوکل ڈویلپمنٹ فنڈ قائم کرناہے۔
آٹھ لاکھ لوگوں کو روزگارفراہم کرناہے، 10لاکھ نوجوانوں کو پروفیشنل ٹریننگ فراہم کرنی ہے، دہلی میں VATکی شرح ملک کے باقی حصوں کی نسبت کم کرنی ہے، 29انڈسٹریل ایریاز بہترین سہولیات کے ساتھ قائم کرنے ہیں، دہلی کو منشیات سے مکمل طورپر پاک کرناہے، یہاں وائی فائی کی سروس مکمل طورپر مفت فراہم کرنی ہے، طلبہ وطالبات کو ایجوکیشن لون فراہم کرناہے تاکہ کوئی محض اس لئے تعلیم ادھوری نہ چھوڑدے کہ پیسے نہ تھے۔
بڑی تعدادمیں نوجوانوں کوسرکاری خرچ پر تعلیم اور کھیلوں کی بیرون ملک تربیت کے لئے بھیجناہے، دہلی میں 4000سکول گرائونڈز کو نوجوانوں کے لئے کھیلوں کی تربیت کے لئے کھولناہے، ای۔ رکشہ منصوبہ دوبارہ شروع کرناہے۔ان سمیت دیگرمنصوبوں کی تکمیل کے لئے کیجری وال نے مجموعی طورپر20ٹاسک فورسز قائم کی ہیں۔
ان میں سب سے پہلی ٹاسک فورس کا کام ہے کہ وہ ہرقیمت پر عام آدمی پارٹی کی طرزحکمرانی کوصاف اور موثر بنانے کا منصوبہ عمل بنائے، اس پر عمل درآمد کرائے اور حکومتی معاملات پر نظر رکھے۔ اسی طرح عام آدمی پارٹی کے منشور کے مطابق بجلی اورپینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے بھی ٹاسک فورسز ہیں۔ ایک ٹاسک فورس کا کام دریائے جمنا کو صاف ستھرا رکھنا ہے۔
دارالحکومت کو صاف شفاف رکھنے لئے قائم ایک ٹاسک فورس ’صاف ستھری دلی‘ کے نام سے قائم کی گئی ہے۔ تعلیم اور صحت کے لئے الگ الگ فورسز قائم کی گئی ہیں۔ ’تحفظ خواتین‘ کے لئے بھی علیحدہ فورس نے کام شروع کردیاہے۔ دہلی کی دیہاتی آبادی کو بھی نظراندازنہیں کیاگیا، اس کا معیارزندگی بہتر بنانے کے لئے بھی ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے۔
تجارت، ملازمت اور تحفظ ملازمت، ماحولیات، ٹرانسپورٹ، غیرقانونی آبادیوں، جھگی جھونپڑی میں زندگی بسر کرنے والوں کے لئے بھی الگ ٹاسک فورسز ہیں۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے، ٹریفک کے حسن انتظام کے لئے، فوری انصاف کی فراہمی کے لئے بھی ٹاسک فورسز ہیں۔ ایک ٹاسک فورس ’موبائل پر سرکار‘ کے نام سے حکومت اور عوام کے براہ راست رابطے کو بہتر سے بہترین بنانے کی سعی کرے گی۔
اسی طرح وائی فائی اور سی سی ٹی وی کے سسٹم کی بہتری کے لئے بھی ٹاسک فورس بنی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ٹاسک فورسز میں کام کرنے والے عوامی خدمت کے جذبے کے تحت کام کریں گے، ہمارے ہاں حکمران جماعتیں اپنے بڑے بڑے حامیوں کو لاکھوں روپوں کی تنخواہوں پر ’افسر بغیرکام‘ بنادیتی ہیں۔ تاہم کیجری وال خود بھی اور اپنے ساتھیوں کو بھی عوام پر بوجھ نہیں بننے دیناچاہتے۔انھیں یقین ہے کہ ان کی ٹاسک فورسز موثر حکمرانی میں انھیں معاونت فراہم کریں گی۔
اگرچہ کیجری وال67سیٹوں کے ساتھ دہلی میں اپنا رعب ودبدبہ قائم کرچکے ہیں لیکن ان کے لئے چیلنجز وہی ہیں۔ دہلی کی پولیس جو وزیراعظم مودی کے ماتحت ہے،دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی وزارت شہری ترقی کے ماتحت ہے۔ پولیس کا معاملہ پھر سے کیجری وال اور مرکزی حکومت کے درمیان لڑائی کا سبب بنے گا ، کیونکہ دہلی کے حکمران کو اپنی ریاست کا امن وامان مثالی بناناہے۔ اسی طرح کیجری وال شہر میں ناجائز آبادیوں کے مکینوں کو گھر دیناچاہتے ہیں، ان کی اس معاملے پر بھی شہری ترقی کی وزارت سے کشمکش ہوگی۔
مودی سرکار اور اس کے باقی اہلکاروں کا طرزعمل دوسروں کو برداشت کرنے والا نہیں ہے، یہ سب سے بڑا چیلنج ہے جو کیجری وال کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا۔ یہ بات طے ہے کہ اب کیجری وال مرکزی حکومت کے عدم تعاون یا مخالفانہ طرزعمل سے تنگ آکر استعفیٰ نہیں دیں گے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے دہلی میں اپنا دیا جلا کر باقی ریاستوں میں بھی دیاجلانا ہے۔ اغلب امکان ہے کہ کیجری وال ہزار رکاوٹوں کو عبور کرکے بڑی کامیابی سمیٹ لیں گے۔