عالمی سطح پر کیا کھچڑی پک رہی ہے، یورپ کس چکر میں ہے، امریکا کے کیا عزائم ہیں، جرمنی کیا چاہتا ہے اور ایران کی خواہش کیا ہے؟ ان سب کا آپس میں کیا رشتہ ناتا ہے، اس کا ایک مختصر جائزہ یقیناً قارئین کے لیے دل چسپ رہے گا۔
یوروزون کے اندر سارے ممالک خوش حال نہیں۔ یونان، اٹلی، سپین وغیرہ جیسے، ایسے عناصر بھی اس میں شامل ہیں جو لاٹھی لے کر چل رہے ہیں اور ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس کے باعث ان کی صحت مسلسل گر رہی ہے۔ یہ بیماری ایڈز کی طرح متعدی ہے اور خدشہ ہے کہ دوسرے ممالک بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ جرمنی کی تجوری اس وقت یورپ میں سب سے بڑی ہے لہٰذا وہی ان ملکوں کو طاقت کے ٹیکے لگا رہا ہے، ایک تو واقعی اس لیے کہ یہ ممالک صحت مند ہو جائیں اور خاص طور پر اس لیے کہ ان کی صحت سے جرمنی کی اپنی صحت بھی وابستہ ہے۔
یورو زون میں یونان کا وجود ایک بوجھ بنتا چلا جا رہا ہے اور اس کی حیثیت یورپ کے دوسرے ملکوں کے لیے اس چھپکلی کی سی ہے جو سانپ کے گلے میں اٹکی ہوئی ہے کہ نگلے بنتی ہے نہ اگلے۔ جرمنی اس وقت یورپ کی سب سے طاقت ور معیشت ہے اور یہ طاقت ور معیشت اپنی بنا رکھتی ہے اپنی برآمدات پر۔
اس کی کل قومی آمدنی کا نصف اس کی برآمدات سے حاصل ہوتا ہے، اگر برآمدات کا یہ سلسلہ رک جائے یا اس میں کوئی ایسا رخنہ پڑ جائے جس سے اس کا تسلسل مجروح ہو جائے تو جرمنی دھڑام سے نیچے آ کر ٹائیں ٹائیں فش ہو جائے اور خود بھی یونان جیسی معیشتوں کی صف میں کھڑا دریوزہ گری کرتا نظر آئے۔ اپنے کو اس حشر سے بچانے کی خاطر یورپ کی گرتی ہوئی معیشتوں کو سنبھالا دینے کے لیے اسے ان ملکوں کو قرضے دینا پڑتے ہیں۔
یہ قرضے دینے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ ان کا بہتر استعمال کرکے وہ اپنی معیشتوں کو بہ حال کریں اور دوسرا یہ کہ ان قرضوں کا ایک بڑا حصہ وہ جرمن ساختہ مال کی خریداری پر صرف کریں۔ یہ ہو بہ ہو ہم خرما وہم ثواب والا معاملہ ہے۔ اس طرح ایک تو ان ممالک پر جرمنی کے احسانات کا بار پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ ان کے معاشی و سیاسی معقولات میں کسی حد تک دخیل ہو جاتا ہے اور دوسرے وہ یورپ کے ایک بہت بڑے خطے کا ان داتا ہونے کا مقام حاصل کرتا ہے۔
یہ گر دیکھنے میں تو بڑا دل فریب اور متاثر کن ہے لیکن اس کے ساتھ بہت سے اندیشے اور خدشے بھی موجود ہیں، مثال کے طورپر یونانی ان قرضوں کے ذریعے جرمن مال تو اٹھا رہے ہیں لیکن اگر وہ اپنی معیشت کو مطلوبہ معیار پر نہ لا سکے تو جرمنی اپنی امدادیں اور قرضے کیسے وصولے گا۔
قرضوں کو ایک حد تک ہی معاف یا ری شیڈیول کیا جا سکتا ہے۔ جرمنوں نے یونانیوں کے بارے میں ایک قول تخلیق کیا ہے جس کا ذکر پہلے بھی ان صفحات پر کیا جا چکاہے کہ ’’یونانی صبح اٹھتے ہی پینا شروع کر دیتے اور ہم جرمن (کام سے فارغ ہو کر) شام کو پیتے ہیں۔‘‘
مفہوم یہ کہ یونانی سہولت پسند اور عیش کوش لوگ ہیں۔ کل کی فکر نہیں کرتے۔ کل کی فکر کرنا آپ مانیے انسانیت کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی لعنت ہے۔ یہ ہی فکر ہے جو انسان کو زیادہ سے زیادہ اینٹھ لینے پر مجبور کرتی ہے کیوں کہ اس نظام میں حکومتیں، شہریوں کی ذمہ داری اٹھانے سے گریز کرتی ہیں۔
روس بہ طور سوویت یونین بھلے جیسا بھی تھا، شہریوں کو روزگار، خوراک، رہائش اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کاپابند تھا، اسی لیے آج جب روسی کارکن قہر کی سرد راتیںفٹ پاتھوں پر بتاتا اور نان شبینہ کو ترستا ہے، تو اسے اپنا سوویت عہد بڑی شدت سے یاد آتا ہے بل کہ اب تو یورپ اور امریکا کا مزدور بھی ان مراعات سے محروم کر دیا گیا ہے جو اسے سوویت یونین کے خوف سے بڑی فیاضی کے ساتھ دی جارہی تھیں۔
جرمنی اس وقت یورپ کا قرضے فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ ظاہر ہے وہ ٹیکسال میں کرنسی چھاپ چھاپ کر دولت مند نہیں ہوا۔ اس کی دولت کا مدار اپنی برآمدات اور شہریوں کے ٹیکسوں پر ہے۔
وہ اپنی اسی آمدن میں سے قرضے فراہم کرتا ہے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل انتہائی دور اندیش سربراہ ہیں، خوب جانتی ہیں کہ ان کی چادر کی پیمائش کیا ہے اور اس کے اندر کہاں تک ٹانگیں پساری جا سکتی ہیں لیکن جرمنوں کو اپنی شفیق صورت سربراہ کا اپنی ممتا کو بے فیضوں پر یوں نچھاور کرنا کھلتا ہے اور محترمہ مرکل کی اپوزیشن تو ظاہر ہے ناک بھوں چڑھائے رکھتی ہے کہ بڑی بی کہیں جرمنی کی لٹیا ہی نہ ڈبو بیٹھے۔
ابھی کچھ عرصے پہلے یونان کے رویے سے کچھ لیت و لعل کے آثار نمودار ہوئے تھے لیکن جرمنی نے برسلز میں اس معاملے پر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ فرانس، پرتگال، اسپین اور یورو زون کے وزرا خزانہ نے بھی اس کا ساتھ دیا کہ جرمنی ان کا بھی مربی ہے یا مستقبل میں ہو سکتا ہے۔
سو یونانی بلی کھل کر اپنے سائیں کو میاؤں نہ کر پائی۔ یونان نے جب پہلی بار بیل آؤٹ پایا تو تبھی اس نے وعدہ کر لیا تھا کہ اب وہ ’’اچھا بچہ‘‘ بن کر دکھائے گا، بے جا اصراف سے گریز کرے گا اور کفایت کا راستہ اپنائے گا، سادہ زندگی (Austerity) گزارنے کی کوشش کرے گا لیکن پوتڑوں (تاریخ) کے بگڑے ہوئے جلدی جلدی سنورتے تھوڑی ہیں ، صدیوں کی عادتیں ہیں، جاتے جاتے جائیں گی لہٰذا ابھی تک تو اس کے لچھن ویسے کے ویسے ہیں اور جلدی والی کوئی بات بھی نہیں لہٰذا ماہرین کو یقین سا ہے کہ تین چار ماہ بعد ایتھنز اور برلن ایک بار پھر ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے دکھائی دیں گے کیوںکہ ’’ایتھنز بوائے‘‘ سدھرنے کا نہیں اور بڑی بی چھوڑیں گی نہیں، یوں یورو زون سارے کا سارا تماشا بھی بنے گا اور تماشائی بھی، جوتیوں میں دال بٹنے کا اہتمام ہونے کو ہے۔
بڑی بی (انجیلا مرکل) اِدھر یورو زون کا توازن برقرار رکھنے میں الجھی ہوئی ہیں اور ادھرجرمنی کامشرقی محاذ ایک اور طرح سے بھڑکا ہوا ہے۔ روس نے یوکرائن سے سینگ پھنسا رکھے ہیں، یوں کہ وہ یوکرائن کے علیحدگی پسندوں کا گرو بنا ہوا ہے۔ یہ معاملہ بھی کچھ ایسا نہیں کہ یورپ، یورو زون اور خاص طور پر جرمنی اس سے صرف نظر کرے۔ حالات کو اپنے معمول کی طرف لوٹانے کی کوششیں تو خیر دور کی بات ہے فی الحال تو اتنا ہی بہت ہے کہ فریقین کے درمیان متارکۂ جنگ کرا دیا جائے۔
جرمنی کی خاتونِ بزرگ نے خود پر نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور یہاں سے وہاں، وہاں سے یہاں مسلسل دوڑی پھرتی ہیں کہ کسی طرح فساد کی شدت کو کم کیا جا سکے۔ وہ بیلاروس کے دارالحکومت منسک (Minsk) میں فریقین کو جنگ کے امتناعی معاہدے پر رضا مند کر چکی ہیں۔ اس کارِ خیر میں بھی جرمنی کی اقتصادی برتری کام آئی ہے۔
بات بن تو گئی لیکن گڑبڑ یہ ہوئی کہ انہوں نے روس کی پشتی بانی میں لڑتے علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کو تسلیم کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ یوکرائن کے صدر پیترو یوروشنکو کسی طور میز پر بیٹھنے کو آمادہ نہ تھے لیکن بڑی بی انجیلا مرکل نے انہیں میدان جنگ کی حقیقت کو محسوس کرایا اور راضی کیا کہ فی الحال سامنے کی صداقت کو مان لو اور چندے دم سادھو۔ اس کوشش کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ روس اور امریکا کے درمیان کشیدگی کی بڑھتی ہوئی فضا کو معمول پر لایا جائے لیکن لگتا ہے یہ بھی ایک خواب عبث ہی نکلے گا کیوں کہ یہ دونوں عفریت (امریکا، روس) کسی طور ایک دوسرے کی حیثیت تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں، آخر کو رقابت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
روس کی بات کی جائے تو مغرب میں اس کا رقیب قریب قریب اس کے پہلو میں بیٹھا خنجر کی نوک چبھو رہا ہے۔ وہ بار بار ماسکو کو خبردار کر چکا ہے کہ یوکرائن کا پنڈ چھوڑو، نہیں تو میں اسے زہر سے بھر دوں گا، مال و اسباب بھی فراہم کروں گا، تربیت بھی دوں گا اور امریکی ساخت کے بوٹوں والے بھی بھیجوں گا۔ اُدھر صدر پیوٹن ماسکو میں بیٹھ کر نقشہ سامنے بچھائے بیٹھے ہیں کہ کس کس جانب سے روسی سرحدوں کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
ان کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے کہ یوکرائن سے پیچھے ہٹتے ہیں تو واشنگٹن پڑوسیوں کے ہاں بیٹھ کر ان کا جینا حرام کر دے گا۔ پیوٹن خیال کرتے ہیں اور غالباً درست بھی، کہ امریکا اپنے ظرف سے باہر ہوا جاتا ہے، نیٹو کی سرحدوں کے پار پھیلنے کے چکر میں ہے اور دھیرے دھیرے روس کے اردگرد اپنے حمایتیوں کا مجمع لگا رہا ہے۔ اب عالمی سطح کے تجزیہ نگاروں کا قیاس یہ ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران میں وہ اپنی فوج کے لیے ترجیحات کا نیا ایجنڈا تیار کرلیں گے اور یوکریمیا کو ایک ارضی پل کے ذریعے خود سے جوڑ لیں گے۔ ملک گیری یوں تو شاہان روسیہ کا پرانا مشغلہ ہے تاہم اس بار اسے کچھ اور طرح کے حالات کا سامنا ہے، اس بار اس نے آنکھ جھپکی تو مال یاروں کا۔
امریکا بہادر کی تمام تر ریشہ دوانیاں اس کے اندر کے خوف کی مظہر ہیں۔ وہ یوکرائن وغیرہ کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی فروگذاشت کی عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور ساتھ وہ یوریشیا کے اسٹیج پر کھیلے جانے والی تمثیل سے بھی غافل نہیں رہ سکتا۔ علاوہ ازیں یورپ میں اگر اس کا ناطقہ بند ہونے کے اندیشے ہیں تو مشرقِ وسطیٰ کی کھیر بھی خاصی ٹیڑھی ہے۔ مشرق وسطیٰ تک پہنچنے والی تنگ نائے کی فراخی کے لیے وہ ایران پر اس وقت توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے ایرانی ہم منصب جاوید ظریف فروری کے آخری ہفتے میں جنیوا میں ایک دوسرے سے ملے تاکہ 31 مارچ سے پہلے پہلے ایران کے ایٹمی قضیے پر مطلوبہ پیش رفت ہو سکے۔
31 مارچ اس لیے، کہ امریکی کانگریس نے صدر اوباما کو زچ کر رکھا ہے، اس تاریخ کو وہ کانگریس کوباور کرانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ایران کے معاملے پر خاصی کام یابی حاصل کر لی ہے۔ ممکن ہے کانگریس ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں لگانے سے باز آ جائے۔ اگر اوباما تہران پر سے پابندیاں ہٹوانے میں کام یاب ہو جاتے ہیں تو اس سے ایک تو وہ روس کے خلاف یورپ میں اپنی فوج تعینات کرنے کے قابل ہو جائے گا اور اس کے کاندھوں پر سے مشرق وسطیٰ کا بوجھ بھی اترنے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔
یہ بوجھ وہ دوسری علاقائی طاقتوں کو منتقل کر دے گا۔ ایران اور امریکا اس امرپر ایک دوسرے کی پہلے سے بہتر تفہیم کر رہے ہیں کہ ایران کتنا یورانیم جمع کر سکتا ہے اور کتنا اسے افزودہ کرنے کی اجازت دی جائے اور یہ کہ ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کے لیے اسے اس پر عاید پابندیوں میں اسے کتنی نرمی دی جائے۔
اس سے ایرانی اثر و رسوخ کے خط و خال اور اس کا محیط بھی طے ہو جائے گا اور یہ بھی طے کرنے میں آسانی ہو جائے گی کہ دونوں اپنے مفادات کے حصول کے لیے کن کن شعبوں میں تعاون کر سکتے ہیں۔ شام اور عراق میں رونما ہونے والی صورت حال نے دونوں ملکوں کو یوں بھی ایک دوسرے کے قریب آنے کی راہ سجھا دی ہے۔
دونوں کو مل کر داعش وغیرہ کو روکنے میں عافیت کا احساس ہو گیا ہے۔ اس وقت دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف خاردار بیانات کا سلسلہ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کے لیے یہ کام ایسا کچھ سہل بھی نہیں ہے، اسے اسرائیل جیسے ملک سے نمٹنا درپیش ہے جو ایک انتہائی ’’بگڑا ہوا بچہ‘‘ ہے۔
امریکا کی طرف سے خطے میں حزب اللہ کے کردار کے لیے تعریفی جملے آ رہے ہیں اور ادھر اسرائیل تلملا رہا ہے کیوں کہ اسی ایرانی حمایت یافتہ تنظیم نے اسے خطے میں ’’نتھنیا‘‘ ڈال رکھی ہے۔ ہر چند امریکی فی الحال حزب اللہ کے حق میں کھلے بیانات دینے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں لیکن تنظیم کو وہ لبنانی رہ نماؤں کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں میں نجی طور پر خراج تحسین پیش کر چکے ہیں۔
اب سطحی طور پر یہ معمولی بات لگتی ہے لیکن ایران ایسے موقع کی تاک میں ہے جب وہ حزب اللہ کو امریکا سے تسلیم کروا سکے تاہم یہ سارے سلسلے خاصے وقت طلب بھی اور دقت طلب بھی۔ نتائج کی واضح صورت کہیں اگلے برس جا کر دکھائی دے پائے گی۔ ایک بات بہرحال واضح کرنا ضروری ہے کہ جب یہ کہا جائے کہ مغرب، مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے دائرۂ اثر کا اندازہ بھی لگائے گا تو اس سے تو وہ پہلے سے آگاہ ہے لہٰذا اس معاملے سے نمٹنے کے لیے وہ سعودی عرب، ترکی وغیرہ کے مہرے آگے بڑھائے گا۔ وہ ان ملکوں کے درمیان پرانی رقابتوں کو تازہ رکھنے کی کوشش کرے گا تاکہ ان کے درمیان قوت کا پلڑا کسی طرف جھکنے نہ پائے۔
۔۔۔۔۔ سو برآمد یہ ہوا اس پے چیدہ صورتِ حال کو سامنے لانے سے کہ جرمنی یورو زون کے بحران کے حل کے لیے روسی بیل کو رام کرنے میں کوشاں ہے، روس، واشنگٹن کی یورپ میں تجاوزات محدود کرنے کی فکر میں ہے اور امریکا اس چکر میں ہے کہ اتھرے ایران کو قابو میں لائے تاکہ تمام تر توجہ روس کا ناطقہ بند کرنے پر صرف کیا جائے۔
ممکن ہے جرمنی اور روس کے درمیان میں کچھ بہتر پیش رفت ہو جائے، اسی طرح ایران اور واشنگٹن کے مابین بھی کچھ مثبت ہو جائے مگر ماسکو اور واشنگٹن…… ؟؟؟