کراچی: شہرِ علم جامعہ کراچی کے اس گوشے میں آسمانی شامیانے تلے، تِل دھرنے کو بھی جگہ نہیں۔۔۔ قناتوں کے ساتھ ساتھ کوئی درجن بھر اسٹال سجے ہیں، اور ہر اسٹال کیا ہے، گویا ہنر کا ایک مکمل نمونہ ہے۔۔۔ دیکھیں تو آنکھیں پھیل جاتی ہیں۔۔۔ کہ فن کا یہ مظاہرے فقط صنف نازک کی دست کاری ہے، کسی مشین کا نمونہ نہیں۔
کہیں کھَڈی ایستادہ ہے، جس پر ہاتھ سے غالیچہ بُنا جا رہا ہے۔۔۔ کہیں کڑھائی کا ’’اڈہ‘‘ بچھا ہوا ہے۔۔۔ کسی گوشے میں قریشیہ کی بہار ہے، تو کسی کونے میں نگوں اور موتیوں سے جَڑی آرایشی اشیا سجی ہیں۔۔۔ کہیں سلائی، کڑھائی اور کپڑے پر ہنر کاری ہے، کہیں شیشوں سے آراستہ چِق (سرکنڈوں کی آرایشی چلمن) چمچما رہی ہیں۔۔۔
یہ میلہ عالمی یوم خواتین کے سلسلے میں جامعہ کراچی کے ویمنز اسٹڈیز کے سائے میں جاری تھا۔۔۔ جس میں ایسی خواتین کی ہنر کاری کی نمایش کی جا رہی تھی، جو اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے معاش کی گاڑی کو دھکیلتی ہیں۔ چاہتی ہیں کہ گھر کی چار دیواری میں رہ کر ہی کسی طرح اپنے مسائل حل کریں۔۔۔ بہت سی ایسی بچیاں بھی ہیں، جو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر اس میدان میں اتری ہیں۔۔۔ ایسی بیویاں بھی ہیں، جو معاش کی جنگ میں مکمل طور پر اپنے نصف بہتر کے شانہ بشانہ ہیں۔۔۔ کچھ ایسی ہیں جو بے سہارا اولاد کی کفیل بنی ہوئی ہیں۔۔۔
یہاں ویمنز اسٹڈیز کے طلبا تو بڑی تعداد میں موجود ہیں ہی، ساتھ ہی دیگر شائقین فن بھی ان دست کاریوں کے لیے ٹھہر ٹھہر جاتے ہیں۔۔۔ کچھ طالبات ہیں، جو عن قریب پیا گھر سدھارنے والی ہیں، ان کی خواہش ہے کہ وہ ان منفرد دست کاریوں کو اپنے جہیز میں لے جائیں۔ ظاہر ہے اس پروگرام کا مقصد ایسی خواتین کے کام کو مشتہر کرنا ہی نہیں، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہے، یہی سلسلے ان کے کام کو مہمیز کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ بہتیری خواتین مستقبل میں ان سے کام بنوانے کی خواہش مند نظر آئیں، مگر یہ خواتین اپنے گھروں میں کام کرتی ہیں، اور ذرایع اِبلاغ میں آنے سے گریز کرتی ہیں۔ تاہم کچھ ہنر مند خواتین ’’ایکسپریس‘‘ سے بات کرنے پر تیار ہو گئیں، جس کا احوال قارئین اگلی سطروں میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
٭اس نمایش میں جہاں دیگر ہنر مند خواتین موجود تھیں، وہاں دو خواتین ایسی بھی تھیں، جن کو کچھ معذوری لاحق تھی۔ انہیں جو بھی دیکھتا، ان کی ہمت پر عَش عَش کر اٹھتا۔ ایسی ہی ایک خاتون اریبہ ہیں۔ پیدایشی طور پر ان کے ہاتھ ٹھیک نہیں۔۔۔ گزشتہ ایک سال سے اپنے گھر میں سلائی کا کام کر رہی ہیں۔ نگوں وغیرہ کا کام بھی کرتی ہیں۔ مہینے کی آمدنی ایک ہزار تک ہو پاتی ہے۔ بڑا مسئلہ گھر کا کرایہ ہے۔ اپنا کام پھیلانے کی خواہش ہے۔
انہی کے برابر میں ایسی ہی دوسری خاتون ثمرین پہیا کرسی پر سلائی مشین لیے بیٹھی ہیں۔ ہاتھوں کی معذوری کے باوجود ان کی ہمت، عزم اور حوصلہ قابل دید ہے۔ وہ بچوں اور بڑوں کے کپڑے سیتی ہیں۔ جان پہچان کے لوگ ان سے اپنے کپڑے سلواتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کڑھائی کا کام بھی بخوبی کر لیتی ہیں۔ سلائی کے مقابلے میں اس میں زیادہ محنت ہوتی ہے۔ دن میں دو تین فراکیں بنا لیتی ہیں۔ بڑا جوڑا بنانے میں ایک دن صرف ہو جاتا ہے۔
٭لانڈھی میں رہائش پذیر رمشہ تین سال سے فیبرک پینٹنگ کا کام کر رہی ہیں، کپڑے پر نقش و نگار سانچوں کی مدد سے بنائے جاتے ہیں۔ کہتی ہیں کہ نہم جماعت کی طالبہ ہیں اور اس کام سے بس ان کے پڑھائی کے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں۔
٭نمائش میں شریک نوشین کی تعلیمی قابلیت میٹرک ہے۔ یہ شیشوں سے بنے ہوئی دست کاری کا کام کرتی ہیں۔ مختلف شکلوں میں کٹے ہوئے شیشے چِق پر لگاتی ہیں۔ اس سے پہلے سلائی کا کام کرتی رہیں۔ سلائی میں بہتر، جب کہ اس کے پیسے کم ملتے ہیں، کام بھی زیادہ نہیں۔ اس لیے چاہتی ہیں کہ بڑے پیمانے پر کام بڑھے اور مناسب منافع ملے۔
٭شوہر کی ناکافی آمدنی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے سدرہ اپنے گھر میں مینا کاری والی بیل اور فیتے تیار کرتی ہیں۔ چار بچے ہیں، جو پڑھ رہے ہیں۔ بچوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے گزشتہ چار سال سے اس کام سے وابستہ ہیں۔ گھر میں ہی کام کرنا چاہتی ہیں۔ تعلیم یافتہ نہیں۔ منافع کم ہے، بعض اوقات صرف لاگت ہی کے پیسے ملتے ہیں، محنت کے نہیں۔
وسائل اتنے نہیں کہ کام کو بڑھا سکیں۔ کسی کی مالی مدد یا قرض حسنہ کا ذکر ہوا تو انہوں نے نفی کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو اس کا اہل خیال نہیں کرتیں۔ بس چاہتی ہیں کہ لوگ صحیح پیسے دیں، ہمارا کام خود بخود بڑھ جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کارخانوں کے لیے کام کروں گی، تو ان کی مانگ پوری نہیں کر سکوں گی۔ اس لیے بس تھوڑا بہت کام کر کے قریبی دکان میں دے دیتی ہوں۔ فیتے کا ایک رول ایک ہفتے میں تیار ہوتا ہے۔ اس پر صرف 20، 30 روپے بچتے ہیں۔
٭نعیمہ کے ہنر مند ہاتھ چُٹلوں (پراندوں) کے ذریعے صنف نازک کی زلفوں کو سجاتے ہیں۔ ہفتے میں پندرہ سے بیس چٹلے بنا لیتی ہیں۔ صرف 25 روپے ملتے ہیں۔ یوں ہفتے میں 500 روپے تک بچ جاتے ہیں۔ کام کے لیے مواد فراہم کیا جاتا ہے، انہیں صرف مزدوری ملتی ہے۔ پچاس روپے کی لاگت (پچیس روپے کے میٹریل اور پچیس کی مزدوری) سے تیار ہونے والا چُٹلا بازار میں ڈیڑھ سو روپے کا فروخت ہوتا ہے۔
شوہر مزدوری کرتے ہیں، لیکن 10، 11 ہزار میں تین بچوں کے ساتھ گزارہ نہیں ہوتا۔ خود باہر آ، جا نہیں سکتیں۔ اس لیے مال لانا اور لے جانا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ چاہتی ہیں کہ باہر کے کام میں کوئی ان کی مدد کرے۔ بچوں کی عمریں دس گیارہ سال ہیں۔ شوہر صبح چھے بجے کے نکلے ہوئے رات نو بجے لوٹتے ہیں، زیادہ پڑھے لکھے نہیں کہ اچھی ملازمت کر سکیں۔ اس لیے گھر کے کام کاج کے ساتھ سودا سلف لانے کی ذمہ داری بھی انہی کے کندھوں پر ہے۔ کام بڑھانے کے لیے وسائل کی کمی ہے۔
٭مدیحہ کی تعلیمی قابلیت میٹرک ہے۔ کپڑوں اور دوپٹوں میں لگائی جانے والی چھوٹی چھوٹی بالیں بناتی ہیں۔ چھوٹی پلاسٹک کی ان گولیوں پر پہلے کیمیکل لگایا جاتا ہے، پھر اس پر نہایت چھوٹے چھوٹے ایک ایک نگ کو اٹھا کر چپکایا جاتا ہے۔ دن میں لگ بھگ 50 کے قریب بن تیار کر لیتی ہیں۔ تین سال سے یہ کام کر رہی ہیں۔ 10 روپے کی ایک فروخت کرتی ہیں۔ جس میں لاگت ان کی اپنی ہوتی ہے۔ مال بنانے کے لیے دیا جائے تو دو روپے فی تین بالیں مزدوری ملتی ہے۔ ان کے مال کی کھپت دو، تین دکانوں میں ہے۔ آمدنی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ بس اخراجات پورے ہو جاتے ہیں۔
٭ثنا گزشتہ پانچ سال سے آئس کریم اسٹکوں کی مدد سے آرایشی اشیا تیار کرتی ہیں۔ روزانہ ایک یا دو دانے ہی تیار ہو پاتے ہیں۔ ایک دانہ 500 روپے تک کا فروخت ہو جاتا ہے۔ لانڈھی کی بابر مارکیٹ میں رکھواتی ہیں، وہاں بک جائے تو پھر مزید بنا کر دے دیتی ہیں۔ صرف اس کام سے گزار نہیں ہوتا، اس لیے زنانہ کپڑے بھی سیتی ہیں۔
٭گلگت سے تعلق رکھنے والی عابدہ قریشیہ اور ہاتھ کی کڑھائی میں ملکہ رکھتی ہیں۔ بلوچی، کشمیری اور سواتی ٹانکے پر بھی عبور حاصل ہے۔ جان پہچان کے لوگوں کے لیے کپڑوں کی سلائی بھی کرتی ہیں۔ سالانہ آمدنی 15 ہزار تک ہے۔ البتہ اس طرح کے میلے یا نمایشوں میں فروخت اور آرڈر ملنے سے چھے، سات ہزار مل جاتے ہیں۔ شوہر کمپیوٹر ہارڈویئر کا کام کرتے ہیں۔ پانچ بچے ہیں۔ بڑی بیٹی بھی ابھی اسکول کی طالبہ ہے۔ لہٰذا منہگائی میں اخراجات کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے وہ گزشتہ ایک عشرے سے اپنے ہنر کو کام میں لا رہی ہیں۔ گھر کی ہنڈیا روٹی نمٹا کر روزانہ دو سے پانچ گھنٹے اس کام کو دیتی ہیں۔ عابدہ کی تعلیمی قابلیت پرائمری ہے۔ انہیں شکایت ہے کہ محنت زیادہ اور منافع کم ہے۔ قریشیہ کے بعض نمونے تیار ہونے میں ایک ہفتہ لگ جاتا ہے، جس میں صرف 400 روپے تک ہی بچتے ہیں۔
٭کانچ کی چوڑیوں کو رنگنے کا دقت طلب کام کرنے والی خاتون کا نام نسیم ہے۔ بے رنگ چوڑیوں کو طرح طرح کے رنگ دینے کے لیے ایک، ایک چوڑی کو اٹھا کر رنگ لگانا پڑتا ہے۔ یہ برسوں سے اپنے گھر میں یہ کام کر رہی ہیں۔ شوہر بھی مددگار ہیں۔ اب اپنے بچوں کی شادیاں کر چکی ہیں۔ روزانہ ڈیڑھ سو روپے تک کا کام کر لیتی ہیں۔
٭شفق آرایشی پھول پتیوں کا کام کرتی ہیں۔ اس کے سانچے مشینوں سے کٹوا کر اس پر نگ لگائے جاتے ہیں۔ روزانہ آمدنی 150تک ہو جاتی ہے۔ شوہر کی بھی مکمل معاونت حاصل ہے۔ بالخصوص بازار میں مال لانے اور لے جانے کا کام ان کے سپرد ہے۔ دن میں 40، 50 بنا لیتی ہیں۔ شفق کو شکایت ہے کہ ایک دانہ 20 روپے کا جاتا ہے۔ تین روپے بچتے ہیں۔ چاہتی ہیں کہ کم سے کم پانچ روپے تو بچیں۔
٭سینڈلکے نگ لگی پٹیوں کا اسٹال لانڈھی کی رہایشی ناہید کا ہے۔ چھے بہن بھائیوں میں ان کا نمبر چوتھا ہے۔ پانچ سال پہلے والدہ کا انتقال ہوا تو ساتویں جماعت کی ناہید کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ بڑے بھائی کی شادی کے بعد ایسے حالات ہوئے کہ انہیں یہ کام کرنا پڑا، دوسرے بھائی سب سے چھوٹے ہیں، سات سال کے۔ وہ دو سال سے یہ کام کر رہی ہیں۔ ایک جوڑی کے 10 روپے ملتے ہیں۔ مہینے کے ہزار روپے ہی جوڑ پاتی ہیں۔ گوند کی مدد سے پہلے پٹیاں چپکاتی ہیں، پھر سوئی دھاگے سے جوڑتی ہیں۔ کارخانے میں یہ جوتیوں اور سینڈلوں پر لگایا جاتا ہے۔ ناہید ایک طرف معاشی تنگی سے پریشان ہیں، تو دوسری طرف ادھوری تعلیم کو پوری کرنے کے خواب آنکھوں میں سجائی ہوئی ہیں، مگر پہلے گھر کے حالات تو سنبھلیں۔ خواہش ہے کہ کم سے کم میٹرک یا انٹر ہو جائے۔
٭میمونہ قیصر گھر میں اپنے شوہر کے ساتھ ایک کارخانے کے لیے جینز کی سلائی کا کام کرتی ہیں، یوں 500 روپے روز کے مل جاتے ہیں۔ ایک پیس پر 15 روپے ملتے ہیں، چاہتی ہیں کہ 25 روپے تو ملیں۔ انہیں کپڑا کٹا ہوا ملتا ہے، جسے سینا ہوتا ہے۔ روزانہ 10، 12 بنا لیتی ہیں۔ بجلی نہ ہو تو رات تک بیٹھنا پڑتا ہے۔ اس کام کو کرتے ہوئے دس برس بیت گئے ہیں۔ ہر ماہ گھر کا کرایہ نکالنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
٭کرسٹل کے کام پر اپنے ہنر کا مظاہرہ کرنے والی افشین کہتی ہیں، یہ بہت محنت طلب کام ہے، لوگ صحیح پیسے نہیں دیتے۔ مال بھی خود لے کر آتی ہیں۔ ایک دانے پر 10 سے 50 روپے تک بچتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی چیز پر 100 روپے کی صرف لاگت ہے، تو محنت کے بعد اس کے 100 روپے تو ملنے چاہئیں، مگر 10سے 20 ہی مل پاتے ہیں۔ یہ اشیا لانڈھی کی بابر مارکیٹ کے کچھ سیلز مین لے جاتے ہیں۔ صدر وغیرہ کے دکان دار صحیح پیسے نہیں دیتے۔ انہیں طلاق ہو چکی ہے، تین بچے ہیں۔ بڑا بیٹا ساڑھے پانچ سال کا ہے۔ تین بھائی اور دو بہنیں اور امی ساتھ ہیں۔
شوہر سے علیحدگی کے بعد اپنے بچوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے یہ کام شروع کیا۔ اس کے علاوہ برقعے بھی سیتی ہیں۔ اس میں بہتر پیسے مل جاتے ہیں۔ صبح سات بجے سے رات تک کرتی ہیں۔ اپنے کام سے مطمئن ہیں کہ گزارا ہو جاتا ہے۔ اس لیے مستقبل کے حوالے سے کوئی خاص ارادے نہیں۔ افشین نے خصوصی طور پر خواتین کے پیغام میں کہا کہ گھر کے کام تو سب ہی کر لیتے ہیں، گھروں میں بیٹھی معاش میں بھی انہیں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔