Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

خوشبو، اسیری اور بغاوت، افریقی دیس کا خالص اردو بولتا رکن قومی اسمبلی

$
0
0

(محمد حامد زمان امریکا کی بوسٹن یونی ورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انھوں نے پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے سلسلے میں افریقی ملک زنجبار کا دورہ کیا، جس کا دل چسپ سفرنامہ قارئین کی نذر ہے)

شہزادی سلمیٰ جرمنی میں مٹھی بھر زنجباری خاک کے ساتھ مدفون ہیں۔ زنجبار(Zainzibar)کی اس مشہور شہزادی کی کہانی زبان زد خاص و عام ہے۔ سلمیٰ کی کہانی وطن اور محبت کی خوشبو سے جنم لیتی ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز والدین کی موت اور محلاتی سازشوں سے محبت بھری یہ زندگی غلامی اور اسیری میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ محبت بھرے محل کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔

کبھی ایک بھائی کی برتری اور کبھی دوسری بہن کی سازش، کبھی ایک گھر میں نظربندی اور کبھی خاندان بھر سے قطع تعلقی۔ اسی اسیری میں ایک بغاوت جنم لیتی ہے، جو شہزادی سلمیٰ کو ایملی روئٹ (Emily Ruete)بنادیتی ہے۔ راتوں رات زنجبار سے یمن اور یمن سے سرد اور سرد مہر جرمنی لے جاتی ہے۔ اس بغاوت کے اثرات زنجبار کا عمانی محل بھی محسوس کرتا ہے اور خود شہزادی بھی مالی تکالیف، یورپ کی بے وفا سیاست اور اجنبیت سلمیٰ کا مقدر بن جاتی ہے۔ شاید اسیری بغاوت سے پہلے نہیں، اس کے بعد تھی۔ کہانی شاید محبت سے شروع نہیں ہوتی، شاید دیس کی محبت پر مٹھی بھر خاک سے گلے لگا کر ختم ہوتی ہے۔

خوشبو، اسیری اور بغاوت کی یہ داستان صرف شہزادی سلمیٰ ہی کی نہیں سرزمین زنجبار کی بھی ہے۔ خوشبو کے ذریعے جو تاجر اور سوداگر یہاں آئے انھوں نے غلاموں کی تجارت میں کمال حاصل کیا۔ اسیری صرف مقامی غریبوں کا مقدر ہی نہیں بنی بلکہ اس ثقافت کا بھی حصہ بن گئی جو یہاں پر یورپی تاجروں اور عمانی سلطانوں سے پہلے آباد تھی۔ اسیری نے بغاوت کو جنم دیا جس نے 60 کی دہائی میں ایک طرف تو مقامی لوگوں کو ’’آزاد‘‘ کرایا تو دوسری طرف غربت کی نئی اور تاریک اسیری کو جنم دیا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar.jpg

زنجبارسے میرا رشتہ اتفاقیہ تھا۔ میں کام کی غرض سے تنزانیہ جا رہا تھا۔ وہاں کی درس گاہوں کا دورہ کرنا تھا۔ بوسٹن میں ایک دوست نے صلاح دی کہ بھائی! اگر اس جانب جا رہے ہو تو لگے ہاتھوں زنجبار بھی ہو آؤ۔ میرے پاس زنجبار جانے کے لیے صرف ایک دن تھا، وہ بھی اتوار کا۔ اگلے روز یعنی سوموار کی دوپہر کو مجھے بہرصورت دارالسلام پہنچنا تھا۔ زنجبار کی کچھ تاریخ پڑھ رکھی تھی اور پاکستانی ہونے کے ناتے ادھر ادھر کی بھی سن رکھی تھی۔ ہر پاکستانی کی ہر جگہ کے بارے میں کچھ نہ کچھ تاثرات اور معلومات ضرور ہوتی ہیں، بھلے صحیح ہوں یا نہ ہوں۔ یہی عالم میرا بھی تھا۔ سوچا کہ کیا حرج ہے، وہاں جاکر ان کی نئی درس گاہ بھی دیکھ آؤں گا اور اتوار کو جو تھوڑا بہت وقت ملے گا اس میں شہر بھی۔ یوں بنا تیاری کے ہم زنجبار پہنچ گئے۔

دارالسلام ایئرپورٹ پر اتر کر جب ہم اندرون ملک پروازوں کے ٹرمینل پہنچے تو ایک گہماگہمی کا عالم تھا۔ کچھ نہ کرتے ہوئے بھی لوگ مصروف نظر آئے۔ کمپیوٹر سسٹم کام سے فارغ تھا۔ ٹکٹ ایجنٹ، جس کا نام موسیٰ تھا، ہوا میں نہ معلوم کون سے قلعے تعمیر کر رہا تھا۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا زنجبار جانے والے جہاز پر سیٹ ہے؟

’’ہے! ‘‘ وہ بولا۔

’’بھائی! ایک سیٹ چاہیے۔‘‘ میں نے کہا۔

اس نے ایک غیرمعمولی سے کاغذ پر ہاتھ سے لکھ کر ایک ٹکٹ عطا فرمایا۔

’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ٹکٹ۔‘‘ موسیٰ نے متاثر ہوئے بغیر جواب دیا۔

میں کچھ بوکھلا گیا۔ ٹکٹ ہاتھ سے بنا ہوا، بنا سیٹ نمبر۔ یہ کیا مجھے بے وقوف تو نہیں بنا رہا۔ میں نے قدرے درشتی سے پوچھا۔

’’موسیٰ! پکی بات ہے ناں، سیٹ مل جائے گی؟‘‘

اب موسیٰ نے مجھے یوں دیکھا کہ میں نے اس کی اور اس کی قابلیت کو نشانہ بنایا ہے۔ ٹکٹ جوکہ 50 ڈالر کا تھا اچانک 70 کا ہوگیا ۔ میرے پاس اب معافی مانگنے کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔ بڑی منت سماجت کی، کہا کہ بھائی ابھی لمبا سفر کرکے آیا ہوں، دماغی صلاحیت جواب دے چکی ہے، مگر موسیٰ نہ مانا۔ بہرکیف مہنگا ٹکٹ لے کر ٹرمینل پر آگیا۔ ٹرمینل پر کچھ سیٹوں پر مسافر اور بقیہ جہاز پر جانے والا سامان براجمان تھے۔ ایک طرف ایک سیٹ خالی دیکھ کر میں بھی بیٹھ گیا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar9.jpg

میرے برابر کی خالی سیٹ پر سفید ریشمی یونیفارم میں ملبوس ایک باریش حضرت آکر بیٹھ گئے۔ قدرے بھاری حجم کے یہ حضرت شکل سے ہمارے جنوبی ایشیائی بھائی معلوم ہو رہے تھے۔ انگریزی صاف اور لہجہ مشفقانہ۔ اپنا تعارف کراتے ہوئے بولے کہ میں زنجبار ہوں، یہاں دارالسلام میں قومی اسمبلی کا ممبر ہوں اور پارٹی کی ایک تقریب کے لیے زنجبار جا رہا ہوں۔

میں نے دریافت کیا کہ حضرت! کیا آپ کے آباؤ اجداد بھارت سے آئے تھے، تو حضرت ناراض ہوگئے۔ بولے۔

’’میاں! ہم ہندوستان سے آئے تھے، یہ پاکستان اور بھارت وغیرہ تمہارا آپس کا معاملہ ہے۔‘‘

اب تو مجھے واقعی فکر لاحق ہوگئی کہ جسے دیکھو میری باتوں کا برا مانے چلا جا رہا ہے۔ میں نے ازراہ محبت پانی کی دو بوتلیں خریدیں اور ایک انھیں دی اور ایک خود رکھی۔ موصوف فوراً اٹھے اور کاؤنٹر پر واپس کرنے کو چلے گئے۔ میری گھبراہٹ اب شدت اختیار کرگئی اور زنجبار جانے اور ان تمام دوستوں کو کہ جنھوں نے وہاں جانے کی صلاح دی تھی، میں نے خوب کوسا۔

کیا دیکھتا ہوں کہ سفید وردی میں ملبوس حضرت مسکراتے ہوئے واپس آرہے ہیں۔ بولے بوتل کا بہت شکریہ، وہ والی بہت ٹھنڈی تھی اس لیے تبدیل کرنے کو گیا تھا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar0.jpg

جہاز اڑنے میں صرف دس منٹ باقی تھے اور بورڈنگ کے کوئی حالات نظر نہیں آرہے تھے۔ فکر ہوئی کہ کہیں فلائٹ چلی تو نہیں گئی؟ دل تو چاہا کہ پوچھوں کہ یہ کیا معاملہ ہے مگر بادل نخواستہ چپ سادھ لی کہ میرے کچھ کہنے پر پھر کوئی ناراض نہ ہوجائے۔

سفید وردی میں ملبوس، رکن پارلیمنٹ حضرت نے اپنا نام سلیم ترکی بتایا۔ گفتگو کے شوقین سلیم ترکی صاحب انگریزی کے بعد خالص اردو پر اتر آئے۔ میری حیرانی دیکھ کر بولے کہ گو میرے آباؤ اجداد قریباً دو سو برس پہلے جزیرے پر آئے تھے مگر تجارت اور تبلیغی سرگرمیوں کی بنا پر اردو سے تعلق جڑا رہا۔ اچانک سلیم صاحب کو الہام ہوا اور بولے،’’چلیے! جہاز تیار ہے۔‘‘ بظاہر تو کوئی اعلان نہیں ہوا تھا مگر حقیقتاً جہاز تیار تھا۔

یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ جہاز کو جہاز کہنا صحیح معنوں میں سچ نہیں ہے۔ ’’دبلی‘‘ سی ایک سفید ویگن اور برابر میں دو پر۔ اس گاڑی نما جہاز میں مسافرین کرام کو جلدی سے ٹھونس دیا گیا۔ اگلی سیٹوں پر مسافر اور پچھلی پر سامان رکھ دیا گیا۔ ایک بھاری بھرکم مسافر سے درخواست کی گئی کہ میاں آپ پچھلی سیٹ پر آجائیے، وزن برابر کرنا ہے۔ ایک اور قدرے دبلے شخص کو کپتان کے برابر ’’کو پائلٹ‘‘ والی سیٹ پر بٹھا دیا گیا کیوں کہ ’’کو پائلٹ‘‘ نامی چیز سے جہاز فارغ تھا۔

جہاز کا دروازہ بند ہوا اور ساتھ ہی گرمی اور گرمی کی وجہ سے چھوٹنے والے پسینوں سے جہاز مہک اٹھا۔ جہاز کی سیٹوں پر سیٹ بیلٹ برائے نام تھی اور جہاں سے مسافروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ہوا نکلتی ہے وہاں ہوا تو کیا، ہوا کی آواز بھی نایاب۔ جہاز کا کپتان سویڈن کے شمالی علاقہ جات سے تھا اور چوں کہ وہاں سے میرا گزر ہوچکا ہے، اس لیے مجھ سے مل کر وہ بہت خوش ہوا۔ میری شکل کے بارہ بجنے پر اس نے مجھے تسلی دی،’’ڈاکٹر صاحب! دیکھیے میں زندہ ہوں، آج تک حادثہ نہیں ہوا۔‘‘ خدا جانے کس قسم کی تسلی تھی یہ۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar1.jpg

جہاز میں میرے اور سلیم ترکی کے علاوہ دو امریکی، ایک تُرک اور ایک آسٹریلوی جوڑا تھا۔ سب کے سب اپنے اپنے پسینے کے تعفن سے ہمارے گردونواح کو مہکا رہے تھے۔

جہاز میں سلیم صاحب سے مزید گفتگو ہوئی۔ کافی موثر اور بڑے سرمایہ دار نکلے۔ جہاز میں موجود پانی کی بوتلیں بھی ترکی گروپ آف کمپنیز کی نکلیں۔ اس کے علاوہ زنجبار میں ہوٹل، فیکٹریوں، اسکول اور اسپتال کے بھی مالک نکلے۔

اتنے چھوٹے جہاز پر بیٹھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دائیں، بائیں اور سامنے جو کچھ تھا، سب صاف نظر آرہا تھا اور شاید وہ سب کچھ بھی جو مسافروں کو نظر نہیں آنا چاہیے۔ جب جہاز نے کچھ غیرضروری ہچکولے کھائے تو پائلٹ کے چہرے کے تاثرات بھی صاف نظر آئے۔ اس وقت ایک بار پھر ان دوستوں کو لعن طعن کی کہ جن کی صلاح پر ہم نے زنجبار آنے کی ٹھانی تھی۔

چند لمحوں بعد انتہائی حسین ساحل اور صابن کی جھاگ کی مانند موجوں کو دیکھا تو سب کچھ بھول گیا۔ سرزمین زنجبار صاف نظر آرہی تھی۔ ایسا لگا کہ برسوں بعد گہرے دوست سے ملاقات قریب ہے۔

ایئرپورٹ پہنچ کر سلیم صاحب نے کہا کہ وہ مجھے میرے ہوٹل پہنچادیں گے اور ان کا ڈرائیور حاضر ہے اگر کسی بھی قسم کی کوئی ضرورت پیش آئے۔ ایئرپورٹ کا تمام عملہ سلیم صاحب کو دیکھ کر چاق و چوبند ہوگیا۔ میرا تو خیال تھا کہ سلیم صاحب صرف آج سفید لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں، مگر ان کی نئی اور شان دار گاڑی کی نمبر پلیٹ دیکھ کر معلوم ہوا کہ حضرت جزیرے میں ’’مسٹر وائٹ‘‘ (Mr. White)کے نام ہی سے جانے جاتے ہیں۔ میری حیرانی دیکھ کر بولے کہ پورے زنجبار میں اب تک صرف ایک گاڑی کو خصوصی نام والی نمبر پلیٹ رکھنے کی اجازت ملی ہے۔ اب تک پولیس والوں کو معلوم نہیں کہ چالان کیسے کریں کہ ان کے فارم پر صرف نمبر لکھنے کی جگہ ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar4.jpg

ایئرپورٹ سے ہوٹل کی جانب نکلے تو زنجبار سے ملاقات ہوئی۔ پرانی طرز کی مساجد اور مینار، پختہ اور شکستہ گھر، پرانی طرز کے محلے اور ان میں نئی طرز کی گاڑیاں۔ مسجدوں کے نقوش، لوگوں کی چال ڈھال اور محلوں کا نقشہ زنجبار کو افریقہ کے دوسرے شہروں سے مختلف بنادیتا ہے۔ ہوٹل کے راستے ہی میں سلیم صاحب کا شان دار گھر تھا۔ وہ پہلے اتر گئے، چائے پر بہت بلایا مگر میں تھکن سے چور تھا اور چوبیس گھنٹے کی مسافرت کے بعد ہوٹل جانے کے لیے بے تاب۔

ہوٹل پہنچے تو باہر سے تو کچھ خاص معلوم نہ ہوا، مگر اندر آنے پر اس نے بہت متاثر کیا۔ اپنے اندر یہ چھوٹا سا ہوٹل تاریخ، ثقافت اور حُسن کے ذخائر سمیٹے ہوئے تھا۔ ابھی صبح کے دس بھی نہ بجے تھے اور کمرہ تیار ہونے میں کچھ دیر باقی تھی۔ میں ناشتہ کرنے کی غرض سے باہر بالکونی کی جانب چلا گیا۔

باہر بالکونی پر قدرتی حسن کے جلووں کا جلال دیکھا، تاحد نظر سمندر اور وہ بھی ایسا ہرا کہ آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ کچھ کشتیاں سطح پر لیٹی سمندر کی آغوش اور اس کی لوری سے دل بہلا رہی تھیں اور ان پر ان کے ملاح انھیں جگا کر اپنے روزگار زندگی کی تلاش میں کوشاں۔ دنیا کے نشیب و فراز سے بہت دور لہروں کے نشیب و فراز کی آسودگی کو تکتے جانے کتنے لمحے بیت گئے۔ اچانک سفر کی تھکن اور آسودگی ماحول میں بیداری اور خماری گڈمڈ ہوگئے۔ آنکھ کھلی تو اپنے کمرے کا رخ کیا۔

کمرہ قدیم افریقی اور عرب طرز میں سجایا گیا تھا۔ بستر آرام دہ تھا اور اس پر لیٹتے ہی سفر کی تھکن نے آلیا۔ دوپہر کو ظہر کی اذان سے آنکھ کھلی افریقہ میں اذان کا یہ تجربہ میرے لیے پہلا تھا۔

نہا دھو کر باہر آیا تو موسم گرم مگر پھر بھی خوش گوار تھا۔ ہوٹل کے مختلف جرائد میں یہاں کے مقامی جواہر TANZANITE کی دکانوں کا کافی ذکر تھا۔ سوچا کہ ان کی قیمت معلوم کی جائے۔ قیمت معلوم کی تو ہوش ٹھکانے آگئے۔ مگر دکانوں میں جانے کا فائدہ یہ ہوا کہ یہاں کے کچھ مقامی لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ جواہرات کی ہر دکان کے مالک ہندوستانی نژاد تھے اور تقریباً سبھی کسی زمانے میں گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔ اکثر مسلمان تھے اور اردو (یا اس سے ملتی جلتی) کسی زبان سے قدرے واقف۔ ایک دکان دار خاتون جن کا نام نسیم تھا، سے کچھ بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اور ان کا خاندان پاکستان میں بھی قیام کرچکا ہے۔ 1960کی دہائی میں جزیرے کے حالات بہت کشیدہ تھے۔ عرب مارے جا رہے تھے اور اب جارحیت ہندوستانی نژاد کاروباری خاندانوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ چوںکہ یہ لوگ مال و دولت میں مقامی لوگوں سے آگے تھے، اس لیے باغیوں کے عتاب کا نشانہ بنے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar3.jpg

نسیم کے خاندان کی کہانی بہت سے دوسرے ہندوستانیوں سے مختلف نہ تھی۔ بگڑتے ہوئے حالات، بڑھتی ہوئی اغوا کی صورت حال کے تحت نسیم کے دادا اپنے خاندان کو کراچی لے گئے۔ 1970 کے اوائل میں حالات قدرے بہتر ہوئے تو واپس زنجبار آگئے۔ مگر دو بار گھر اجاڑنے سے خاندان بکھر گیا۔ کچھ گھر والے دبئی اور کچھ کینیڈا چلے گئے۔ انہی دنوں مشرقی افریقہ میں ہندوستانیوں پر عیدی امین (یوگنڈا کا سابق صدر) نامی ایک اور عذاب گزرا۔ نسیم کے دوست احباب اور بھی کم ہوگئے۔ محنت اور کاروباری صلاحیتوں کی بدولت نسیم اور ان کے والد کو کچھ ہی عرصے میں کافی کام یابی حاصل ہوئی۔ نسیم جوکہ اردو، ہندی، گجراتی اور سواحیلی زبانوں پر دسترس رکھتی ہیں، اب اپنی شان دار دکان کی مالکہ ہیں اور کراچی کے اچھے دنوں کو یاد کرتی ہیں۔

نسیم کی دکان سے باہر نکل کر ایک دو اور دکانیں دیکھیں اور مقامی لوگوں سے پوچھا کہ بھئی! مقامی لوگ کہاں پر دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں؟ ہم بھی وہیں جائیں گے۔

ایک دکان دار نے صلاح دی کہ لقمان ریسٹورنٹ چلے جاؤ۔

پرانے شہر کی بھول بھلیوں سے گزرتے ہوئے لقمان صاحب کی دکان کی طرف چلے تو میری عمر کے ایک صاحب نے پوچھا کہ میاں کدھر کو چلے؟ میں نے فارغ کرنے کا سوچا۔ پھر ایک منٹ کے لیے توقف کیا کہ بات کرنے میں کیا حرج ہے، میرے پاس ہے ہی کیا؟ سو میں نے کہا کہ لقمان جا رہا ہوں۔

ان حضرت کا نام محمد تھا۔ محمد دوئم، انہوں نے بتایا محمد اول ان کے والد گرامی قدر ہیں۔ انگریزی اچھی بولتے تھے۔ کہنے لگے کہ جرمن بھی اور اطالوی زبان بھی بول لیتا ہوں۔ کہنے لگے کہ وہ بھی لقمان ہی جا رہے ہیں۔ راستے میں محمد دوئم نے بتایا کہ انھوں نے انگریزی ہالی وڈ کی فلمیں دیکھ کر سیکھی ہے۔ ہالی وڈ سے تو میں پہلے ہی متاثر تھا اس کی تدریسی قابلیت کو بھی مان گیا۔

حکیم لقمان کے دسترخوان پر بلا کا رش تھا۔ مقامی بھی اور غیرملکی بھی۔ چھوٹا سا ایک کمرہ کہ جس سے نکلتی ہوئی قطار سڑک پر آکر رکتی تھی۔ محمد دوئم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جناب! کبھی ہفتے میں کام والے دن آئیے گا، بلکہ مت آئیے گا، کیوں کہ جگہ ملنا ناممکن ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar2.jpg

محمد صاحب بڑے کاری گر آدمی نکلے۔ جانے کیا گُر دکھائے کہ قطار میں جگہ بھی مل گئی اور میز پر کرسی بھی۔ کھانے کی اس چوکور میز پر اور بھی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نظام میں ایک محبت اور حلاوت تھی، جوکہ مغرب کے اس نظام میں نہیں ملتی جہاں پر اپنی اپنی پلیٹ لے کر ہر شخص اپنی میز پر اکیلا ہوتا ہے۔

ہم نے محمد سے دریافت کیا کہ کھانے کو کیا ہے؟ بولا بریانی، چپاتی اور سالن۔ مجھے اس پر، اپنے آپ پر اور پچھلے ایک گھنٹے میں ملنے والے تمام دکان داروں پر شدید غصہ آیا۔ ہم نے خصوصاً کہا تھا کہ وہاں جانا ہے جہاں مقامی لوگ کھاتے ہیں، چند روز پہلے میں پاکستان میں تھا، اس لیے بدذائقہ بریانی کی قطعاً کوئی خواہش نہ تھی۔

میری شکل کے بداخلاق تاثرات دیکھ کر محمد ہنس دیا اور بولا کہ بریانی ہماری خاص چیز ہے، چکھو تو سہی، تمہارے ہاں کی بریانی سے یکسر مختلف۔ بھوک کی شدت نے بحث کے جرثومے مار دیے تھے، اس لیے کہا کہ اچھا لے آؤ اور ہاں چپاتی اور سالن بھی لیتے آنا۔ پہلا نوالہ کھا کر احساس شرمندگی کا غلبہ طاری ہوگیا۔ محمد صحیح اور میں مکمل طور پر غلط تھا۔ ذائقہ یکسر مختلف، معیار اعلیٰ اور مقامی محبت کا خلوص اور مٹھاس۔

زنجبار آہستہ سے مجھ سے مخاطب ہوا۔ بولا دوست پوری بات کا موقع تو دیا کرو! اب میں سنبھل گیا، بات سمجھ میں آگئی تھی۔ محمد نے پوچھا چائے پیوگے؟ میں بولا ’’چائے؟‘‘ دل میں سوچا کہ یہ خطہ تو کافی کے لیے مشہور ہے، ان کو چائے سے کیا واسطہ؟ پھر بھی اثبات میں سر ہلادیا۔

چائے آئی اور جب آئی تو سفید تھی۔ دل تو چاہا مگر۔۔۔۔۔

آنکھ بند کرکے جب پہلا گھونٹ پیا تو شرمندگی سے سر اٹھا ہی نہ سکا۔ اپنا اندازہ ایسا غلط پایا کہ کھانے کے بارے میں تمام تر فیصلے اور تمام تر دماغی صلاحیتوں پر سے ایمان اٹھ گیا۔ چائے میں اس قدر لذت کے دل چاہا کہ سب کچھ بھلا کر ساری دوپہر اور شام بیٹھ کر اسی ایک شکستہ سے کپ کے ساتھ خوش گپیاں کروں اور دنیا کے رموز اور فلسفے کے پیچ و تاب پر بحث کروں، اسی شکستہ کپ کے ساتھ لقمان سے باہر نکلے تو میں نے محمد سے کہا کہ مجھ کو کچھ پرانی مساجد دیکھنی ہیں اور اگر لگے ہاتھوں مسالوں کے مشہور بازار سے بھی ہولیں تو کیا مضائقہ؟ محمد مجھے پیچ دار گلیوں سے گزارتا ہوا، مساجد دکھاتا ہوا مسالوں کے سوق (بازار) کی طرف روانہ ہوا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar5.jpg

زنجبارکے اپنے اندر صدیوں کے کیا کیا خزانے چھپا رکھے تھے۔ پرانے مہربان دوستوں کی طرح جب زنجبار ان خزانوں کی داستانیں سنانے بیٹھا تو وقت کا اندازہ ہی نہیں رہا۔ زنجبار کا طرز تعمیر عرب اور افریقہ کے طرز تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ مساجد بوسیدہ مگر نمازیوں سے بھری ہوئی۔ دو مساجد اندر سے دیکھیں اور پھر سوق کی جانب چل دیے۔

سوق مراکش اور شام کے مشہور اسواق کی طرح باضابطہ تو نہیں مگر اپنی تاریخ سے مالا مال تھا۔ یہی تاریخ اس جزیرے کے ساحلوں پر عرب اور یورپی جہاز رانوں نے بھی لکھی اور غلاموں کے ان سوداگروں نے بھی جن کے ظلم سے ہر ذی روح کے ہوش اُڑجاتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں آج بھی لونگ، الائچی اور ونیلا کی خوشبو جاوداں ہے اور غلاموں اور ان معصوموں کی آہ و زاری بھی کہ جن کا قصور اس جزیرے کا باسی ہونا تھا۔

میں یہاں پر تاریخ کی اس رنگینی اور تکلیف کی اس آہ و زاری سنتے ہوئے رک گیا۔ میں زنجبار سے معلوم کرنا چاہتا تھا کہ کیا یہ حس حقیقی ہے یا پھر کسی بھیانک چہرے کا مصنوعی رنگ۔ کیا یہ وہ حسن ہے جس کی چاہت میں محبوب اپنی جان وارد کر دیتا ہے یا پھر وہ حسن جوکہ حسینہ کی جان لے لیا کرتا ہے۔

زنجبار نے پھر میرے کان میں سرگوشی کی،’’میں اپنے ان دکھوں کو سمیٹ کر آگے بڑھ چکا ہوں۔ یہ زخم بھی میرے ماضی اور میرے حُسن کا حصہ ہیں۔‘‘ زنجبار کی زندہ دلی دیکھ کر میں بھی آگے بڑھ گیا۔ سوق میں خوشبو کا جادو تھا۔ ان چیزوں اور قدرت کی نعمتوں کی خوشبو جن کے نام نہ تو میں اردو میں جانتا ہوں اور نہ انگریزی میں۔ اور بھلا خوشبو اور نام کا کیا رشتہ۔ اپنی کوتاہی پر ہنس دیا اور مالک کائنات کی رعنائی کا ایک اور پہلو دیکھ کر بازار سے باہر نکل آیا۔

محمد دوئم نے مجھے میرے ہوٹل کا راستہ بتایا۔ اپنا فون نمبر لکھوایا اور تاکید کی کہ اگر کسی بھی قسم کی کوئی بھی ضرورت پڑی تو اس کو اپنا بھائی سمجھ کر فوراً فون کرلوں۔ محبت سے بغل گیر ہوا اور اپنے گھر کو چل دیا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar6.jpg

تھکن اپنا زور دکھا رہی تھی مگر ابھی شام ہونے میں تقریباً دو گھنٹے باقی تھے۔ زنجبار نے کہا کہ بس اب میں اور تم ہیں داستان تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ گھر کس لیے جاؤگے؟

میں آہستہ آہستہ ہوٹل کے بجائے ساحل کے ساتھ ساتھ چل دیا۔ میری منزل عمانی سلاطین کا قدیم محل تھا جوکہ اب ایک میوزیم تھا۔ محل کا نام شروع ہی سے بیت العجائب تھا۔ مورخین کے مطابق افریقہ کے شمال اور مشرق میں اس محل سے پہلے بجلی کہیں بھی نہ تھی اور اس کے برقی قمقمے پورے علاقے میں اپنی شہرت کی وجہ سے مشہور تھے۔ اپنے عروج پر بیت العجائب سلطان اور اس کے اہل خانہ کا مسکن تھا، مگر اب اس کی حالت خستہ تھی۔ تین ڈالر میں ذاتی ٹور گائیڈ حاصل کرکے خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی۔ اسی زمانے کے محلات اور عجائب گھر یورپ میں کہیں بہتر حالت میں سیاحوں سے درجنوں بلکہ کبھی کبھار تو سیکڑوں ڈالر وصول کرتے ہیں۔ یہاں پر چینی سیاحوں کا غلبہ، جوکہ اب یورپ کے محلات کا خصوصی حصہ ہیں، نہ تھا۔ میرے علاوہ صرف ایک اور یورپی جوڑا تھا جوکہ پرائیویٹ ٹور بھی نہ لے رہا تھا۔ گویا ان کا ٹکٹ مجھ سے بھی سستا تھا۔

محل کی سب سے دل چسپ بات شہزادی سلمیٰ کا کمرہ اور خصوصاً وہ کمرہ تھی جہاں پر موجود کھڑکی اس کی جرمن سرمایہ کار اور سفارت کار روڈالف روئٹ (Rudolph Ruete) سے ہوئی۔ یہ دل لگی محلاتی اقدار کے منافی تھی۔ گوکہ محل میں ایک وسیع حرم تھا اور شہزادی سلمیٰ کی والدہ کنیزہ تھیں مگر اخلاق ثقافت سے جنم لیتا ہے اصول سے نہیں۔ بہرحال شہزادی سلمیٰ کے یہ تعلقات محل کو ناگوار گزرے۔ اس سے کچھ عرصہ قبل شہزادی سلمیٰ نے محلاتی سازشوں میں شکست خوردہ گروہ کا ساتھ دیا تھا۔ جانے اگر وہ کام یاب گروہ میں شامل ہوتیں تو آج تاریخ کیا ہوتی؟

شہزادی کی داستان طویل اور اداس ہے۔ راتوں رات شہزادی سلمیٰ زنجبار سے یمن پہنچ جاتی ہیں۔ وہاں پر ان کی باقاعدہ شادی ہوتی ہے اور وہ سلمیٰ سے ایملی روئٹ (Emily Ruete)بن جاتی ہیں۔ جرمنی پہنچ کر ان کے تین بچے ہوئے اور شروع کے چند برس خوش گوار گزرے۔ اچانک ایک دن ٹرام کے ایک حادثے میں ان کے مشفقانہ شوہر ہلاک ہوگئے۔ زنجباری شہزادی، غیرملکی عورت اور اب بیوہ ایملی کی مالی حالت گرتی چلی گئی۔ سیاست دانوں کے مالی اعانت کے وعدے وفا نہ ہوئے اور شہزادی کسمپرسی کا شکار ہوگئیں۔ کچھ روز اس ملک اور کچھ روز اس ملک میں بسر ہوئے۔ زنجبار یاد آیا اور واپس آنے کی کوشش کی تو سلطان نے اپنے خون کو زہر جانا اور محل کے قریب سے گزرنے بھی نہ دیا۔ شہزادی بندرگاہ سے شہر بھی نہ آسکیں۔ آخرکار لبنان میں کچھ وقت گزارنے کے بعد جرمنی واپس آئیں اور انتہائی مشکل حالات میں دنیا سے کوچ کرگئیں۔

مرتے وقت شہزادی کی وصیت تھی کہ ان کے ساتھ قبر میں مٹھی بھر زنجباری خاک بھی ان کے سرہانے رکھی جائے۔ یہ خاک شہزادی سلمیٰ ساری عمر اپنے ساتھ رکھے رہیں اور مرتے دم اور بعدازموت بھی جدا نہ کیا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar7.jpg

محل کے سامنے ہرا سمندر اپنے دیس کی بے وفائی کی پرواہ کیے بغیر اپنے جوش میں مگن تھا مگر میں اب تھک چکا تھا۔ ہوٹل کی جانب واپس چلنے لگا۔ راستے میں نسیم کی دکان پر دوبارہ رکا اور دریافت کیا کہ آیا آس پاس کوئی کتب خانہ ہے؟ جواباً نسیم نے برابر کی دکان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ہاں، وہاں شاید کچھ کتابیں مل جائیں۔

برابر کی دکان جوس اور کافی بیچنے میں زیادہ اور کتب بیچنے میں کم دل چسپی رکھتی تھی۔ تشفی نہ ہوئی اور پھر ہوٹل کی جانب چل دیا۔ کپڑے کی ایک دکان کے باہر کباڑیہ کچھ کتابیں بیچ رہا تھا۔ اس کے پاس 1940 کی ایک نایاب کتاب ملی۔ چار ڈالر میں یہ کتاب زنجبار کی ثقافت اور 1940میں زنجباری حالات کی غمازی کر رہی تھی۔

مغرب سے کچھ پہلے ہوٹل پہنچا۔ معلوم ہوا کہ برابر کا مکان ٹپوٹپ(Tippu Tip) کی رہائش گاہ ہے۔ یہ حضرت، جن کا اصلی نام محمد بن محمد بن جمعہ بن رجب بن محمد بن سعید تھا، زنجباری کاروباری حضرات میں سرفہرست ہیں۔ ان ہی کی خدمات کی بدولت عربوں کو غلاموں اور کنیزوں کو خریدنے میں بہت آسانی رہی تھی۔ ان کا گھر دیکھ کر یک دم سمندر کی آواز اونچی ہوگئی۔ اس میں وہ آہ و زاری مل گئی جو اب تک پوشیدہ تھے میرے کان آہوں سے گونج اٹھے۔ مجھ سے اور نہیں رکا گیا اور میں پھر شہر کی طرف چلا گیا۔

بوسٹن میں احباب نے صلاح دی تھی کہ رات کو ساحل کے پاس ’’فورا دھانی‘‘ مارکیٹ ضرور جانا۔ وہاں پر سڑک کے ساتھ ساتھ ٹھیلے والے ایک قطار سے کباب، تکے اور دیگر حسین معاملات شکم کا کاروبار کرتے ہیں۔ میں بھی اس جانب چل نکلا۔ دوستوں کی صلاح سو فی صد صحیح ثابت ہوئی۔ ٹھیلے کم اور حجم کی بہشت صغریٰ زیادہ تھی۔ ایک پلیٹ میں کچھ سیخیں میں نے بھی بنوائیں۔ نت نئے سمندری کھانے اور مقامی مسالے۔ کھانے میں پناہ لذت تھی۔

خواہش ہوئی کہ کافی سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ معلوم ہوا کہ سب سے اچھی کافی کی دکان زنجبار کافی ہاؤس ہے۔ اپنے پاکستانی بھائیوں کی طرح ہر مقامی نے اپنی مرضی کا راستہ بتایا۔ بالآخر ایک بڑے میاں نے اپنے نو یا دس سالہ پوتے کو، جوکہ انگریزی سے ہر سو ناواقف تھا ہمارے حوالے کردیا۔ اندھیری گلیوں میں یہ نوعمر ایسے چل رہا تھا کہ جیسے سورج سوا نیزے پر ہو۔ بالآخر جب کافی ہاؤس پہنچے تو معلوم ہوا کہ زنجبار معقول لوگوں کا ملک ہے۔ کافی رات کو نہیں پیتے اور دکان شام چھ بجے ہی بند کردیتے ہیں۔ میرے جیسے نشئی (Addicted) حضرات کو چاہیے کہ اپنا راستہ ناپیں۔ ہم کب ماننے والے تھے گھومتے گھماتے ایک مغربی کیفے ڈھونڈ ہی لیا اور اپنی طلب پوری کی۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Zanzibar8.jpg

نو اور دس بجے کے درمیان کمرے میں پہنچا۔ صبح اٹھ کر کچھ کام کیا اور زنجبار سے اگلی ملاقات کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ زنجبار سے اکیلے میں ملنا ضروری تھا۔ فجر کا وقت قریب تھا۔ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ساحل کی مسجد پہنچا اور درجن بھر نمازیوں کے ساتھ سربسجود ہوا فجر کے وقت کا مزہ اپنا ہے مگر ساحل کی آواز اور قاری کی آواز کی آمیزش کا سحر اور تھا۔

نماز کے بعد ساحل کے برابر آہستہ آہستہ چلنا شروع ہوگیا۔ شہر نے پہلی انگڑائی نہیں لی تھی مگر زنجبار، اسی نیم روشنی میں اپنی داستانیں کھل کر بیان کر رہا تھا۔ محل کے برابر سے دوبارہ گزرا اور باہر سے شہزادی سلمیٰ کی کھڑکی دیکھی اس کھڑکی کے اس جانب کون سی یاد بیدار تھی اور کون سی ہمیشہ کے لیے سو گئی تھی؟

آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ایک مقامی ہوٹل نظر آیا۔ ساحل سے کچھ دور مگر ملاحوں کی گہما گہمی سے پر رونق چائے منگوائی اور ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا خریدا۔ باہر نکلا تو شہر بیدار ہو رہا تھا۔ ننھے منے فرشتے اسکول کی طرف اپنے بھاری بستے لیے نکل چکے تھے۔ آنکھوں میں نیند مگر پڑھائی کی لگن۔ ایک لمحے کے لیے مجھے اپنے پشاور کے بچے یاد آگئے۔ آنکھوں کے سامنے میرے اپنے بچے، پشاور کے بچے اور زنجبار کے بچے سبھی تھے۔ اب بولنے کی باری میری تھی۔ میں نے پرنم آنکھوں سے بچوں کے اسکول کو دیکھا اور زنجبار سے کہا ’’یار وہ نہ کرنا جو ہم نے کیا۔ خدارا ان پھولوں کو مرجھانے نہ دینا۔ تمہارا وجود اور ہمارا تمہارا رشتہ ان ہی کلیوں اور پھولوں سے ہے۔‘‘

سورج نکل چکا تھا۔ ہوٹل آیا اور تیار ہوکر ہوٹل کا بل ادا کیا اور باہر ڈرائیور کا انتظار کرنے لگا۔ جب ڈرائیور صاحب تشریف لائے تو دیر سے آنے کی معذرت چاہی۔ شاید یہی کہا تھا۔ شاید کچھ اور۔ انگریزی سے کچھ شغف تھا مگر صرف اتنا کہ وہ ہمارا سوال سمجھ لے مگر ہم ان کے جواب سے استفادہ نہ کرسکیں۔

گاڑی شہر سنگ (Stone) سے باہر نکلی۔ یہ علاقہ زنجباری سیاحوں کی دسترس اور ان کے ڈالر سے آزاد تھا۔ ہرا بھرا اور پُرامن۔ اس کے رخسار میں تاریخ کی سرخی کی رعنائی تو نہ تھی مگر محنت کش کے بدن کی سی سرعت اور جذبہ ضرور تھا۔

بیس منٹ کے سفر کے بعد ہم یونیورسٹی پہنچے تو وہاں پر وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس راعی نے ہمارا والہانہ استقبال کیا۔

میٹنگ بہت کام یاب رہی۔ زنجباری مدرسوں اور محققوں میں خلوص بھی ہے اور لگن بھی۔واپسی کا وقت قریب آرہا تھا۔ ڈاکٹر ادریس بھی اسی روز دوپہر کی فلائٹ سے دارالسلام جا رہے تھے۔ ہمیں ایئرپورٹ چھوڑنے پر مصر ہوگئے۔ ایئرپورٹ پر گہماگہمی تو تھی مگر بے چینی نہ تھی۔جہاز اڑا تو زنجبار نے مشفقانہ انداز میں سرگوشی کی۔ یار حامد! دوبارہ آنے میں اڑتیس(38)برس مت لگا دینا۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>