سب جانتے ہیں کہ پاکستانی معیشت کا انحصار زیادہ تر زراعت پر ہے۔ یہ شعبہ خوراک کا منبع ہونے کے ساتھ ملکی صنعت کوخام مال بھی مہیاکرتا ہے۔
ہمارا بیشترتجارتی مال براہِ راست زرعی پیداوارکی شکل میں ہوتا ہے یا پھر زرعی مصنوعات پر مشتمل۔ تجارت سے کمایا جانے والا زرِمبادلہ پاکستان کی کل برآمدات کا45 فیصد ہے۔ یوں زراعت مقامی سے عالمی تجارت تک ریڑھ کی ہڈی ثابت ہورہی ہے۔ ہمارے ہاں جی ڈی پی میں اس کا حصہ26فیصد ہے جبکہ وطنِ عزیز کی52 فیصد آبادی اس سے روز گار حاصل کرتی ہے۔ پاکستان کے دیہاتوں میں بسنے والے 67 فیصد لوگ براہ راست زراعت سے منسلک ہیں۔
1947ء میں پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 53 فیصد تھا جو سکڑ کر اب21 فیصد رہ گیا ہے۔ زرخیز دریائی مٹی سے بنے میدانوں کی وجہ سے پاکستان شاندار زرعی صلاحیت رکھتاہے لیکن ہم اس زمین کی صلاحیت سے50 فیصدکم پیداوار لے رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے خطے کے بیشتر ممالک زراعت کے شعبے میں انقلابی اقدامات کرکے ہم سے کہیں زیادہ پیداوار لے رہے ہیں۔ چین صحرائے گوبی میں بھی فصلیں اگا رہا ہے۔ جبکہ پاکستان میں ابھی تک پیرینئل کینال سسٹم پر انحصار کیاجارہاہے۔
آبی وسائل کے حوالے سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن دنیا کا یہ پانچواں بڑا ملک ہرسال تیرہ ملین کیوسک (368119کیوبک میٹرز فی سیکنڈ) دریائی پانی سمند میں بہا کر ضائع کر رہا ہے۔ اس پانی کے ساتھ زرخیز مٹی سمندر برد ہوتی ہے۔ اس ضیاع کی بڑی وجہ آبی ذخیروں کی نایابی ہے۔ ڈیمز کی کمی ہمارا قومی مسئلہ بنا ہوا ہے جس پر بولتے زیادہ ہیں، کام تھوڑا کرتے ہیں دوسری طرف بھارت مسلسل ڈیموں کی تعمیر میں مصروف ہے۔
کاشتکاری کے قدیم اور روایتی طریقوں کے نتیجے میں پاکستان کی اوسط فی ایکٹر پیداوار ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں تین گنا کم ہے۔ جبکہ خطے کے دوسرے ممالک نیپال، بنگلہ دیش اور بھارت جدید طریقوں کے ذریعے زیادہ پیداوار حاصل کر رہے ہیں۔ مثلاًموافق موسمی حالات اور مفید زمین کے باوجود پاکستانی پنجاب کی پیداوار بھارتی پنجاب کے مقابلے میں آدھی ہے۔ہمارا زیادہ تر زرعی رقبہ جاگیرداروں کے قبضے میں ہے جہاں کسان دن رات غلاموں کی طرح کام کرتے ہیں۔ پاکستان ہیومن رپورٹ 2003ء کے مطابق 57.4 فیصد افراد بغیر مناسب معاوضہ کے جاگیرداروں کے ہاں کام کرتے ہیں۔ ہمارا کسان معاشی لحاظ سے بہت پسماندہ ہے۔ زیادہ تر کسان دو ایکٹر سے بھی کم اراضی کے مالک ہیں۔ اس قدرکم اراضی کہ کسان اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کرپاتا۔
دنیا میں ڈرپ اور سپرنکل جیسے جدید آبپاشی کے نظام چل رہے ہیں جبکہ ہمارے یہاں دستیاب پانی کو موثر طریقے سے کھیتوں تک پہنچانے اور اس کے ضیاع کو روکنے کے اقدامات نہیں ہورہے۔کھیتوں کی طرف جانے والے پانی کا25 سے35 فیصد پانی فرسودہ نظام آبپاشی کی بدولت ضائع ہو رہا ہے۔
بعض علاقوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کسان کھارا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ پانی میں نمکیات کی بہتات ہونے کے سبب زمین سیم اور تھور کا شکارہو رہی ہے۔ سیم اور تھور کی وجہ سے ہر سال قابلِ کاشت ایک لاکھ ایکڑ زمین دلدل اور نمکین زمین میں تبدیل ہو رہی ہے۔ پانی کی کم یابی کے ضمن میں یہ پہلو بھی سنگین ہے کہ پیندے میں مٹی اور کیچڑ جمع ہونے کی وجہ سے ڈیموں کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے، نتیجتاً فی ایکٹر پانی کی دستیابی مزید کم ہورہی ہے۔
کسان کی مارکیٹ تک رسائی بھی اہم مسئلہ ہے۔ اولاً مارکیٹ کھیت سے بہت فاصلے پر ہے۔ ثانیاً کسان کو مارکیٹ میں کسی قسم کی سہولت بھی میسر نہیں۔ پرائس کنٹرول پالیسیاں ناقص ہونے کے ساتھ کسان دشمن بھی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ کسان اپنے مال سمیت مارکیٹ میں کئی کئی دن دھکے کھاتا رہتا ہے۔ کہیں غیرمنظم طریقہ کارکی وجہ سے ایسا ہوتاہے،کہیں جان بوجھ کر کسان کو انتظار کرایا جاتا ہے تاکہ وہ مجبور ہوکر کم نرخ پر اپنا مال بیچنے پر مجبور ہو۔ یوں کسان اپنی پیداوار کے کم دام پانے کی وجہ سے مایوس اور بد حال ہے۔ اس کے حصے کا میٹھا پھل صنعت کار کھا جاتا ہے۔ مثلاًمل مالکان گنے کی خریداری کے وقت کئی کئی دن کسان کو باہر انتظار کراتے ہیں، انتظار میں سوکھنے کی وجہ سے گنے کا وزن کم ہو جاتا ہے نتیجتاًکسان مکمل خسارے سے بچنے کے لئے ایک مڈل مین کے ذریعے گنا سوکھنے سے پہلے ہی فروخت کردیتاہے۔ مڈل مین بھی مل مالک کا ہوتاہے اور گنے کی قیمت خرید بھی مالک ہی طے کرتا ہے۔
2050ء میں دنیا کی آبادی 9ارب ہوگی۔ اس وقت دنیا کی 63فیصد آبادی بھوک کا شکار ہے۔ دنیا کی کل نوجوان آبادی کا 85 فیصد حصہ ترقی پذیر ممالک میں رہتا ہے جہاں آمدن کا بڑا ذریعہ زراعت ہے۔ یاد رہے کہ ہم اس عہد میں رہ رہے ہیں جہاںدیہی آبادی تیزی سے شہروں کا رخ کررہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق2030ء تک دس میں سے چھ افراد شہروں میں رہائش پذیر ہوں گے۔ شہروں کی طرف اس نقل مکانی کی وجوہات میں روزگار کی تلاش بڑی وجہ ہے ، نتیجتاً دیہی علاقوں میں زراعت سے متعلقہ افرادی قوت میں بتدریج کمی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہورہاہے۔
کھیتوں کھلیانوں میں کون اور کس عمر کے لوگ کام کررہے ہیں یہ بھی جان لیجئے۔ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن(FAO) کے مطابق دنیا میں27فیصد آبادی کی عمر 10یا اس سے کم ہے جبکہ 8فیصد آبادی کی عمر 65سال سے زائدہے۔ یورپ میں ہر ایک تہائی جبکہ افریقہ میں70 فیصد کسانوں کی عمر 35سال سے کم ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، بھوٹان اور بھارت میں خواتین زرعی شعبہ میں دنیا کے باقی حصوں کی نسبت زیادہ تعداد میں کام کرتی ہیں، ان کی شرح 60فیصد سے زائد ہے۔پاکستان کے زرعی شعبہ میں سات سے چودہ سال عمر کے لڑکوں کی شرح 13فیصد ہے۔خواتین اور بچوں کی زرعی شعبے میںموجودگی کا واضح مطلب ہے کہ زرعی شعبہ نوجوانوں کو اپنی طرف بلارہاہے۔
پاکستان کے رقبے کا 79.6 فیصد رقبہ قابلِ کاشت ہے۔ جس میں سے محض 20سے 43 فیصد رقبہ زیرِ کاشت ہے۔ اسباب کا جائزہ لیاجائے تو زیادہ بڑی وجوہات یہ ہیں:
اول: زیادہ تر رقبہ جاگیر داروں کے قبضے میں ہے جو اتنی بڑی اراضی کو بہتر طریقے سے کاشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ نتیجتاًکچھ رقبہ کاشت کر کے باقی ویسے ہی چھوڑ دیا گیا ۔
دوم: صنعت کاری کی حالیہ ترقی، کیونکہ صنعت کاری نے زراعت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جسکی وجہ سے اچھے بھلے خاندان کاشتکاری چھوڑ کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں، لہلہاتے کھیتوں کی جگہ صنعتیں اور کالونیاں آباد کی جا رہی ہیں۔ اگر صنعت اہم ہے تو صنعت میں استعمال ہونے والا خام مال اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں سیکٹرز کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے توازن قائم کرنا ہو گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ زرعی شعبے میں ایسی اصلاحات متعارف کرائی جائیں جو اسے پرکشش اور منافع بخش بنائیں تاکہ لوگ اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔
سوم: یہ سبب بھی اہم ہے کہ نوجوان نسل جو زیادہ توانائی اور ہمت رکھتی ہے،زرعی شعبے سے دور ہے۔ نوجوان جدت کو جلدی قبول کرتے ہیں۔ تاہم رجحان یہ ہے کہ کسان اپنے میٹرک پاس نوجوان کوکاشت کاری کی طرف راغب کرنے کے بجائے ملازم دیکھنا پسند کرتاہے۔ بہتر اور پرتعیش طرزِ زندگی کے خواہاں نوجوان خود بھی روزبروز زراعت سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ کاشت کاری میں عزت، شہرت، دولت تینوں مفقود ہیں۔ زراعت کو مجبوراً یا آخری حل کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ شہروں میں انھیں بے روزگاری سے واسطہ پڑتاہے۔ جس سے نپٹنے کا کوئی طریقہ فی الحال سجھائی نہیں دے رہا۔ حل کے طور پر نوجوانوں کو’اپنی خوراک آپ اگاؤ‘ کے ماٹو کے تحت زراعت میں کھپانا ضروری ہے۔
دنیا میں بہت سے ممالک نے اپنے ہاں نوجوانوں کو زرعی شعبہ میں لانے کے لئے بھاری بھرکم مراعات دیں، پیسہ بھی دیا اور زمین بھی۔ نوجوانوں کو صرف مراعات دے کر چھوڑ نہیں دیاگیابلکہ ان ممالک نے رورل ایگروانڈسٹری ڈویلپمنٹ کو یقینی بنایا، دیہاتوں میں سرمایہ کاری کرائی، انفراسٹرکچر بہتر کیا اور زرعی اداروں کو اوپرسے نیچے تک مضبوط ومستحکم کیاگیا۔
پاکستان کوبھی پڑھے لکھے کسانوں کی سخت ضرورت ہے جو مناسب زرعی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقف ہوں۔ لہذا نوجوانوں کو معمولی ملازمتوں کے بجائے زراعت کے شعبہ میں آناچاہئے ، اس کے نتیجے میں نہ صرف خوشحالی ان کے گھروں میں اترے گی بلکہ ملکی پیداوار میں اضافہ بھی ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں کوکاشتکاری کی طرف کیسے راغب کیاجائے؟
دنیا میں جہاںنوجوان کاشت کار موجود ہیں، انہیں یہاں بطورِ ماڈل متعارف کرا کے نوجوانوں کی ہمت افزائی کرنی چاہئے۔ 2013ء میں برطانیہ کے ایک ٹیلی ویژن نے ملک بھر سے نوجوان کسانوں کی کہانیوں پر مشتمل ’فرسٹ ٹائم فارمرز‘ کے نام سے ایک پروگرام نشر کیاتھا، ہماے یہاں بھی ایسے پروگرام نشرکرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے یہاں سکولوں میں زرعی تعلیم و تربیت کا فقدان ہے۔ اس دوران ان کی حوصلہ افزائی کا اہتمام نہیں ہوتا کہ وہ مستقبل میں زراعت کو پیشے کے طور پراختیارکریں۔ ضروری ہے کہ زراعت کو نصاب کا ناگزیر حصہ بنایاجائے، ہائی ویلیو فصلوں کا تعارف، ان کی کاشت کاری کا طریقہ کار، لائیو سٹاک کا قیام اور گلوبل مارکیٹ کے لیے مقامی منڈی کے قیام کے امکانات پر مشتمل نصاب پڑھایا جانا چاہیے۔ ایسے مقامی کسانوں کو پالیسی میکنگ لیول تک رسائی دی جائے تاکہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں کچھ اقدامات تجویز کریں۔
بہتر پیداوار دینے کی صورت میں انعامی سکیموں کا اجراکیاجائے، زمین کے قطعے کو بلاکز کی صورت میں نوجوانوں میں تقسیم کیا جائے، پنجاب میں وزیراعلیٰ شہبازشریف نے اپنے پچھلے دور حکومت میں زرعی گریجویٹس کو زرعی اراضی دینے کا منصوبہ بنایا تھا،وہ منصوبہ وقت کی دھول میں گم ہوگیا۔ یہاں نوجوانوں کو ٹریکٹرز اور دوسرے لوازمات فراہم کیے جائیں۔ سالانہ کارکردگی کی بنیاد پر انہیں مزید مراعات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
منظور شدہ معیاری بیجوں کا استعمال، مناسب کھادیں، زرعی ٹیکنالوجی میں مہارت اور پودوں کے حفاظتی اسلوب جیسے اقدامات بھی ضروری ہیں۔کسانوں کو زرعی مشینری خریدنے کے لیے بلاسود قرضے فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ قرضے گھریلو مد میں خرچ ہونے کی بجائے زرعی مقاصد کے حصول کے لیے خرچ ہوں۔یہ سب کچھ اس وقت ہوگا جب ہمارے حکمران ’کسان دوست‘ بنیں گے۔