حج کی آرزو
تالیف: محمودہ ممنون حسین
تدوین: صوفیہ یزدانی
طباعت: فضلی سنز
سفر نامہ اردو ادب کی وہ تخلیقی صنف ہے جس میں سفرنامہ نگاروں نے جہاں اپنی واردات قلبی، تاریخ وجغرافیہ کے بارے میں معلومات اور واقعات و ملاقاتوں کے تذکرے شامل کیے ہیں وہیں بعض مصنفین نے اپنے اسفار کو ایک روداد کی صور ت میں بھی بیان کیا ہے۔
حج جہاں مسلمانوں کی ایمان کی تکمیل کا ذریعہ ہے وہیں تجربات و مشاہدات اور مختلف قومیتوں کے لوگوں سے ملنے جلنے کے ساتھ ساتھ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ قلبی و ایمانی تعلق میں گہرائی و گیرائی بھی پیدا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں اردو ادب میں کئی مشہور شخصیات مثلاً قدرت اللہ شہاب اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی وغیرہ کے حج کے سفر نامے موجود ہیں، جن میں سفرنامہ نگاروں نے سفری روداد کے علاوہ حالات و واقعات اور قلبی وارداتوں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ محمودہ ممنون حسین برصغیر پاک و ہند کے مرکز ِدہلی کی تہذیبی وراثت کا ایک شائستہ نمونہ ہیں۔
اس حقیقت کا اظہار ان کے سفر نامے ’’حج کی آرزو‘‘ میں جگہ جگہ ہوتا ہے۔ اس سفرنامے میں بہت ہی خوب صورت انداز میں جہاں دہلی کی تہذیبی و ثقافتی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں وہیں محمودہ ممنون حسین کی سادگی ، ایمان کی پختگی اور اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ مثلاً وہ کہتی ہیں،’’جب میں نے اپنے والد کو پہلی بار اپنے حج پر جانے کی خبر سنائی اور انہیں بتایا کہ ممنون صاحب اپنی مصروفیات کے سبب میرے ساتھ حج پر نہیں جاسکیں گے تو ان کے والد نے انہیں مشورہ دیا کہ بیٹا شادی کے بعد لڑکیوں کو سفر پر ہمیشہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی جانا چاہیے۔
ایسے اکیلے جانا مناسب نہیں ہے‘‘۔ محمودہ ممنون حسین کہتی ہیں کہ ’’مجھے اپنے والد کی یہ راہ نمائی بہت اچھی لگی اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ حج ہی نہیں بلکہ کسی سفر پر بھی ممنون صاحب کے بغیر نہیں جاؤں گی‘‘۔ اسی طرح آزادی سے قبل اور اس کے فوراً بعد برصغیر کے گھرانوں میں بچوں اور بچیوں کو قرآن کی تدریس اور نماز کی تربیت ایک لازمی جزو تھی۔ یہ رویے اور روایات موجودہ معاشرے میں ناپید ہوتے جارہے ہیں۔
یہ سفرنامہ حج جس انداز میں تحریر کیا گیا ہے، وہ عازمین حج کے لیے جہاں ایک تربیتی مینول کا کام دے گا وہیں ان کے روحانی تجربات میں بھی اضافے کا سبب بنے گا۔ مصنفہ نے اپنے دونوں حجوں کی تفصیل اور ان کے فرق اور حج پر جانے والی خواتین کی راہ نمائی کے لیے جو باتیں بیان کی ہیں وہ عمرہ اور حج پر جانے والوں خصوصاً خواتین کے لیے یقیناً راہ نمائی کا ذریعہ بنیں گی۔ کتاب کا خوب صورت سرورق عاصم نور نے بنایا ہے۔
وِلائے محمدﷺ
شاعر: یوسف راہی چاٹگامی
ناشر: نام درج نہیں
صفحات:155
قیمت: 250
اردو اصنافِ سخن میں حمد اور نعت گوئی کو خاص درجہ حاصل ہے۔ نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے واقعات، معجزات کا بیان، اوصاف کا تذکرہ اور شان میں اشعار کہنا یقیناً باعثِ سعادت و ثواب ہے۔ پیشِ نظر کتاب یوسف راہیؔ چاٹگامی کی نعتیہ شاعری پر مشتمل ہے اور عقیدت و محبت کے اظہار کا یہ سلسلہ نقد و نظر کا محتاج نہیں۔ اس سے قبل یوسف راہیؔ کی غزلوں کا ایک مجموعہ بھی منظرِ عام پر آچکا ہے۔ انہوں نے بنگلادیش کے شہر چاٹگام میں آنکھ کھولی اور اسی نسبت سے وہ اپنے نام کے ساتھ چاٹگامی لکھتے ہیں۔
1983میں بنگلادیش سے لاہور آئے اور بعدازاں کراچی میں رہائش اختیار کی۔ یوسف راہی لکھنے لکھانے اور مطالعے کا شوق رکھتے ہیں۔ نعت گوئی قدیم فن ہے اور جہاں اس فن کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے وجہِ تخلیقِِ کائناتﷺ سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے، وہیں شعرا کو مذہبی نقطۂ نگاہ سے بھی کئی باریکیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک مشکل صنف ہے۔
نگارشات
صابر بدرؔ جعفری
ناشر: ادارہ انوارِ ادب، 371، بلاک c 1/، یونٹ نمبر 8، لطیف آباد، حیدر آباد
صفحات:292،قیمت:400
اخباری کالموں، مقالوں، ادبی تخلیقات پر تبصروں اور تجزیوں کے ساتھ حالاتِ حاضرہ اور بعض سماجی مسائل کی نشان دہی کرتی ہوئی تحریروں نے نگارشات کو وجود بخشا ہے۔ صابر بدر جعفری کی یہ کتاب ان کے وسیع مطالعے اور تنقیدی بصیرت کا اظہار بھی ہے۔ اردو اصنافِ سخن میں انہوں نے افسانہ نگاری اور شاعری کو اپنانے کے ساتھ علمی اور ادبی تحقیقی مضامین تحریر کیے۔ مختلف موضوعات پر سنجیدہ تحریروں کے ساتھ طنزومزاح میں قلم کو آزمایا ہے۔
انگریزی ادب کو اردو کا پیراہن دیا، اور دونوں زبانوں پر اپنی گرفت کا ثبوت دیا۔ ان کی پیشِ نظر کتاب میں قارئین حکیم سعید اور سردار عبدالرب نشتر سے متعلق مضامین کے علاوہ مرزا غالبؔ، علامہ اقبال، حسرتؔ موہانی، نظیرؔ اکبر آبادی و دیگر کے فکروفن پر تبصرے اور ان کی تخلیقات کا تجزیہ بھی پڑھیں گے۔ جونؔ ایلیا کی شاعری کا ’’پوسٹ مارٹم‘‘ اور عبدالعزیز خالد کی رباعی پر نقدونظر کے ساتھ پروفیسر عنایت علی خاں کی شاعری کا ’’جائزہ‘‘ بھی اس کتاب کا حصّہ ہے۔
ادب میں تنقید جہاں متعلقہ صنف کی باریکیوں اور موضوع سے مکمل واقفیت کے ساتھ زبان و بیان میں مہارت کا تقاضا کرتی ہے، وہیں نقاد کا کھرا اور بے لاگ انداز اسے جامع اور بامقصد بناتا ہے۔ صابر بدر نے بھی رفتگاں اور ہم عصروں کو ادبی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے کسی رعایت سے ’’دوچار‘‘ نہیں کیا اور یہ جرأت اب شاذ ہی کی جاتی ہے۔
یارِ ترکی
مصنف: فیروز شاہ گیلانی
اہتمام: فرخ سہیل
صفحات: 152،قیمت: 350
پاکستان اور ترکی کی حکومتیں آپس میں برادرانہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون کے ضمن میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کرتی آئی ہیں۔ حکومتی سطح پر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں، مختلف تجارتی معاہدوں کے ساتھ دونوں ملکوں کے عوام میں مذہبی، سماجی اور ثقافتی قدروں کی یک رنگی بھی قریبی اور خوش گوار تعلقات برقرار رکھنے کا باعث بنی ہے۔ ترکی اپنے دورِ خلافت میں مسلمانوں کی مذہبی اقدار، مقاماتِ مقدسہ کا محافظ اور عالمِ اسلام کا مرکز رہا ہے۔
خلافتِ عثمانیہ کا تاریخ میں کردار، باہمی اختلافات اور مسلمانوں کے انتشار کا شکار ہونے اور سازشوں کے نتیجے میں مسلمانوں کے اکٹھ کا شیرازہ بکھرنے سے متعلق تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ ترکی کی تاریخ، مشہور مقامات اور اہم شخصیات کے بارے میں کئی کتابیں لکھی گئیں اور انہی میں سفرنامے بھی شامل ہیں۔ اعلیٰ حکومتی اہل کاروں، ادیبوں اور سیاحت کی غرض سے ترکی میں قیام کے بعد وطن لوٹنے والوں نے وہاں کی سیر کے دوران جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، اسے کتابی شکل میں ہمارے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔
فیروز شاہ گیلانی کی یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے ترکی میں قیام کے دوران اپنے تجربات اور مشاہدات کے ساتھ ساتھ ترک تاریخ اور مختلف ادوار کے سیاسی اور سماجی حالات بھی بیان کیے ہیں۔ بشریٰ رحمن نے اس سفرنامے پر رائے دیتے ہوئے لکھا ہے،’’فیروز شاہ گیلانی کی تحریر رواں دواں، سادہ اور دل موہ لینے والی ہے۔ ان کا فطری خلوص اور رومانی رغبت اس سفرنامے کے ایک ایک لفظ میں بول رہے ہیں۔ اختصار اس سفرنامے کی اضافی خوبی ہے۔ غیرضروری واقعات، غیراہم کردار جابجا لاکر سفرنامے کو بوجھل نہیں کیا گیا۔‘‘