Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

شیخ دین محمد؛ انگریزی زبان کا پہلا ہندوستانی مصنف

$
0
0

وہ انگریزی زبان میں کتاب لکھنے اور چھاپنے والا پہلا ہندوستانی تھا۔ اس نے وسطی لندن کے پوش علاقے پورٹ مین اسکوائر میں برطانیہ کی پہلی دیسی رستوران کھولی۔

اس نے ہندوستانی کے عام لفظ ’’چمپی‘‘کو انگریزی میں شیمپو کا نام دیا جو آج ’’چائے‘‘،’’ قہوہ‘‘ اور ’’فٹ بال‘‘ کے ساتھ عالمی سطح پر زبان زدِ عام ہیں۔ 25 سال کی عمر میں وہ آئرستان کی بندرگاہ ’’کارک ‘‘ میں وارد ہوا اور اپنی زندگی کے بقیہ 76 سال برطانوی جزائر میں بسر کئے اور کبھی واپس ہندوستان نہ لوٹا ۔ برطانیہ کو برِصغیر کے مسلمانوں کی ثقافت سے روشناس کروانے والا یہ دین محمد (1759-1851) کون تھا؟

میں نے اس دین محمد کا نام سب سے پہلے 2005میں کراچی سے شائع ہونے والی انگریزی زبان کے پاکستانی لکھاریوں کے ایک انتخاب میں دیکھا جسے منزہ شمسی  نے تالیف کیا ۔ کتاب کے دیباچہ میں منزہ شمسی لکھتی ہیں کہ اس انتخاب میں فکشن اور انشائیوں کے ذریعہ پاکستانیوںکے ہجرت کے تجربے کاجائزہ پیش کیا ہے۔ وہ کہتی  ہیں کہ ’’میں نے یہ جانا کہ برصغیر کی پہلی انگریزی کتاب ہجرت کے بیان سے شروع ہوتی ہے۔  پس میں نے علامتی طور پر اس کا ایک اقتباس کتاب کے پیش لفظ کے طور پر شامل کیا ہے۔‘‘ اس اقتباس کو پڑھ کر میں نے دین محمد کے بارے میں مزید کھوج لگائی۔

بی بی سی کے مطابق دنیا کو دین محمد کے بارے میں یاد دلانے والا اولین شخص انگریزی زبان کا ہمارا مایہ ناز شاعر عالمگیر ہاشمی ہے۔ کچھ سال قبل ہاشمی صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ 1970کی دہائی میں بر ٹش لائبریری، لندن کی کتب کی فہرست کے معائنہ میں انہوں نے دین محمدکی کتاب کو دریافت کیا ، جس کا مکمل عنوان یوں تھا ۔

The Tavels of Deen Mohamed:

A Native of Patna in Bengal Through several Parts of India while in the Service of the Honourable East India Company,written by Himself in a series of Letters to a Friend.

ہاشمی صاحب نے لائبریری سے یہ کتاب نکلوا کر اس کا مطالعہ کیا اور اس پر مقالات لکھے۔ 1970 کی دہائی میں دین محمد کی اس کتاب کو امریکا سے دوبارہ شائع کیا گیا جس کا مکمل متن انٹر نیٹ پر پڑھا جا سکتا ہے۔

اس کتاب میں دین محمد اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھتا ہے کہ وہ پٹنہ کے شہر کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ، جس کا مرشدآباد کے نوابوں سے رشتہ تھا ۔ اس کا والد کمپنی بہادر کی فوج میں صوبیدار (کپتان) کا عہدہ  رکھتا تھا جو اس وقت کے دیسی فوجیوں کیلئے اعلیٰ ترین درجہ تھا ۔

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے ساتھ دین محمد وادی گنگا اور دلی، بنارس، ڈھاکہ، کلکتہ اور مدراس کے علاقوں میں متعین رہا ۔ جہاں نوابوں، مہاراجوں اور عوام کو زبردستی محکوم بنا یا جا رہا تھا۔ دین محمد نے ہر جگہ کے اپنے مشاہدات کو انگریز خواں دنیا کیلئے اپنی کتاب میں قلمبند کیا۔ چونکہ وہ ہندو معاشرے کے بارے میں زیادہ معلومات نہ رکھتا تھا  لہٰذا اس کی کتاب میں مسلمانوں کی سماجی تنظیم، رسم و رواج ، تہوار اور تقویم ، طعام و قیام مذکور ہیں۔

دین محمد کی اپنے کمپنی کمانڈر کیپٹن ایونز بیکر سے اچھی خاصی دوستی ہو گئی۔ کیپٹن بیکر کا آئرستان کے ایک جاگیردار خاندان سے تعلق تھا۔ ہندوستان میں سپاہ گری کی زندگی سے تنگ آنے پر اس نے نوکری چھوڑ کر آئرستان واپس جانے کا فیصلہ کیا اور کمپنی بہادر کی فوج سے استعفیٰ دے دیا۔ دین محمد نے بھی کیپٹن بیکر کے ساتھ جانے کی خواہش کی اور اپنی والدہ کی ناخوشی کے باوجود آئرستان جانے کی ٹھان لی ۔ 1784ء کے اواخر میں وہ دونوں آئرستان پہنچے جہاں بیکر کے خاندان نے اس کا خیر مقدم کیا اور اسے اسکول میں داخل کروا دیا جہاں اس محنتی جوان نے انگریزی زبان پر حیرتناک حد تک عبور حاصل کر لیا۔

دین محمد کی اپنی ایک کلاس فیلو جین ڈیلی سے اچھی خاصی دوستی ہو گئی ۔ جین ڈیلی کارک شہر کے ایک متمول خاندان سے تھی۔گو اس نے دین محمد سے شادی کی ہامی بھر لی لیکن اسے خوف تھا کہ اس کی فیملی کو یہ رشتہ منظور نہ ہو گا۔ لہٰذا دین محمد کے ساتھ گھر چھوڑ کر بھاگنے کو آمادہ ہو گئی اور وہ دونوں جنوب مغربی آئرستان کے پہاڑوں میں روپوش ہو گئے۔ ایک سال بعد لڑکی کے والدین ان کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوئے اور اس اجنبی ہندوستانی کو داماد بنانے پر رضا مندی ظاہر کی ۔ اس بن باس میں دین محمد نے اپنی محبوبہ کو ہندوستان کے بارے میں جو قصے سنائے ان کو قلمبند کرنے کا سوچا اور شاید اس نے اس عرصہ میں کافی کچھ لکھ بھی لیا ہو گا۔ کارک واپس آ کر اس نے اپنی کتاب پر باقاعدہ کام کیا اور جلد مکمل کرلیا۔

آئرستان میں اپنی تعیناتی کے دوران مجھے کارک شہر جانے کے متعدد مواقع نصیب ہوئے۔ سرکاری مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر میں نے دین محمد اور اس کتاب کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ ایک تو مجھ کو یہ بتایا گیا کہ جس ہوٹل میں میرا قیام تھا (Springfield Hotel)  وہ بیکر خاندان کی زمین پر واقعہ تھا۔ ہوٹل کی عمارتوں میں دین محمد کے وقت کی ایک عمارت اب بھی کھڑی تھی۔کتاب کی طباعت کے اخراجات کیلئے  دین محمد نے ایک انوکھی حکمت عملی اپنائی جو آج بھی مغربی دنیا میں اور کسی حد تک ہمارے ہاں بھی رائج ہے:  پہلے بیچو  پھر بناؤ۔ مثلاًہمارے شہروں میں یہ جو کثیرالمنزلہ پلازے کھڑے ہو رہے ہیں ان کی تعمیر کے آغاز پر ہی ان کی مختلف دکانوں یا فلیٹوں کی ’’بکنگ‘‘ کا کاروبار شروع ہو جاتا ہے۔

کارک شہر کے روز نامہ ’’ایگزامینر‘‘  میں اس نے اپنی کتاب کے پہ در پہ اشتہارات دیئے جن کے ذریعے کتاب کی ایک کاپی بعوض ڈھائی شلنگ کی پیشگی ادائیگی پر بیچنے کی آفر دی گئی ۔ انگریزی زبان کا یہ روزنامہ ’’ ایگزامینر‘‘  آج بھی شائع ہو رہا ہے۔ اخبار کے دفتر جا کر میں نے دین محمد کے اشتہار والی کاپیوں کو دیکھنے کی خواہش کی۔ مجھے بتایا گیا کہ ان کے پاس اٹھارویں صدی کے آخر کے اخبارات کا کوئی ریکارڈ محفوظ نہیں ہے اور یہ کہ شاید کہیں اور بھی دستیاب نہ ہو۔

البتہ دین محمد کی کتاب کے پہلے ایڈیشن کی دو کاپیاں کارک شہر کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں جن تک پہنچنے کا مجھے وقت نہ مل سکا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ  دین محمد کے زمانے میں مصنفوں کے اپنی کتب کی پیشگی فروخت کا یہ طریقہ رائج تھا لیکن کسی سمندر پار کے مہاجر کے اس طریقے کو اپنانے کا شاید یہ پہلا موقع تھا۔ اخباری اشتہار وںکے علاوہ شیخ دین محمد نے جنوبی آئرستان کے اشرافیہ کے گھروں پر جا کے اپنی کتاب کی پیشگی فروخت کا ڈھنڈورا پیٹا۔ اس سب کا وش کے نتیجہ میں اس نے 320 خریداروں سے ڈھائی شلنگ فی کاپی کے حساب سے رقم اکٹھی کر کے کتاب کی اشاعت کا انتظام کیا۔

اس وقت آئرستان انگریزوں کے استعماری قبضے میں تھا۔ چند انگریز جاگیرداروں کے علاوہ  مقامی آئرستانی عوام نہایت غریب اور بد حال تھے ۔ لہٰذا دین محمد کو وہاں اپنی معاشی ترقی کے مواقع محدود لگے اور 1807ء میںوہ اپنی بیوی بچوں کو لے کر لندن منتقل ہو گیا اور بھاپ سے علاج کرنے والے ایک شفاخانہ میں ملازمت کر لی ۔ یہاں اس نے شیمپو (چمپی) کو متعارف کروایا  جس میں سر کی مالش اور بالوں کا معالجہ شامل تھا ۔ تھوڑے عرصہ بعد اس نے ملازمت چھوڑ کر شہر کے وسط میں واقع پوش علاقہ پورٹمین اسکوائرمیں ’’ہندوستانی کافی ہاوس‘‘ کے نام سے ایک ریستوران  قائم کی۔ جہاں پہ کئی ہندوستانی کھانے دستیاب تھے اور چلم والے حقے بھی۔

کافی ہاؤس کی دیواروں کو اس نے ہندوستانی مناظر کی تصویروں سے سجایا اور بید کے بنے کرسی میز استعمال کئے۔ جلد ہی’’ ہندوستانی کافی ہاؤس‘‘  لندن کے امراء اور روساء میں مقبول ہو گیا اور وہاں پر گاہکوں کا تانتا لگا رہنے لگا ۔ کافی ہاؤس اتنا کامیاب ہوا کہ تین سال کے عرصہ میں دین محمد کنگال ہو گیا کیونکہ اتنے  کامیاب کاروبار کو چلانے کیلئے اب اس کے پاس رقم نہ تھی ۔ اور شاید کوئی ’’گورا‘‘ اس ہندوستانی کے کاروبار میں رقم لگانے کو تیار بھی نہ تھا ۔دین محمد نے کافی ہاؤس کی قرقی کروا کر قرضوں سے جان چھڑوائی۔ تاہم نئے مالکان نے ہندوستانی کافی ہاؤس کو اسی مقام پر  1833ء تک چلایا جس کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔

دین محمد کی کتاب کے امریکی مدون پروفیسر مائیکل فِشر کتاب کے دیباچہ میں لکھتا ہے کہ ہم عصر یورپی مصنفوں کے ہندوستان کے بارے بیانات اور اس کی کتاب  کے مندرجات میں واضح  فرق ہے۔ دین محمد یورپی قارئین کو مخاطب کر رہا تھا جو ہندوستانیوں کو محکوم قوم  اور اس کی تہذیب و تاریخ کو نیچ جانتے تھے۔ اس نے اپنی کتاب میں یہ مدعا پیش کیا کہ ہندوستانی اقوام بھی احترام کے لائق ہیں اور یہ کہ چند باتوں میں اس کی قوم یورپی اقوام سے زیادہ مہذب ہے۔ اس کی کتاب میں یورپی اور ہندوستانی مسلمانوں کی اچھائیوں اور خامیوں کا موازنہ پیش کیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ دین محمد کی اپنی شناخت ان دونوں رنگوں میں گندھی ہوئی ہے ۔

لندن کے اخبار و جرائد نے دین محمد کی کتاب کا کوئی نوٹس نہیں لیا، کوئی خبر چھپی، نہ کوئی تبصرہ نہ ذکر ہی شائع ہوا۔ پروفیسر فِشر کے مطابق اس وقت کے فرنگیوں کو یقین نہیں تھا کہ ایک ایشیائی ایسی اعلیٰ انگریزی تحریر لکھنے کے قابل تھا۔ پروفیسر نے لکھا کہ ہو سکتا ہے کہ دین محمد کی کتاب میں کچھ اقتباس انگریز مصنفوں سے مستعار لئے گئے ہوں لیکن کتاب دین محمد کی اپنی ہے۔

دین محمد کے پانچ بیٹے تھے جن میں سے ایک فریڈرک محمد تھا جس کا بیٹا ڈاکٹر فریڈرک اکبر محمد (1849-1884)  ایف آر سی ایس کی ڈگری یافتہ سرجن تھا اور لندن کے مشہور ہسپتال سینٹ گایئز سے منسلک تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے انسانی بلڈ پریشر ماپنے کا آلہ ایجاد کیا جو آج بھی دنیا میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس کی اس ایجاد کا ذکر طب کے لٹریچر میں نہیں ملتا۔ برطانیہ کی ایک ویب سائٹ www.black-history.org.uk  پر درج ہے کہ ڈاکٹر فریڈرک اکبر محمد کا اپنی دریافت پر تحریر کردہ مقالہ سینٹ گائیز ہسپتال کے کتب خانہ میں آج بھی محفوظ ہے۔ دین محمد کے ورثا کی کھوج جاری ہے، جس کے تازہ ترین نتائج اسی ویب سائٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

اس ویب سائٹ پر درج ہے کہ ’’آج دین محمد کو بھلا دیا گیا ہے، اس کی بھرپور زندگی اور اس کی کامیابیوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس کی نسلیں آج بھی برطانیہ میں آباد ہیں ۔‘‘

دین محمد لندن چھوڑ کر ساحلی تفریحی مقام برائٹن منتقل ہو گیا جہاں اس نے ایک بھاپی شفا خانہ قائم کیا جسے ’’ محمد بھاپی حمام‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کلینک کے اشتہارات میں اس نے خود کو ’’شیمپو سرجن‘‘ کے طور پر متعارف کروایا اور یہ کہ وہ ’’انڈین معالجی بھاپ اور شیمپو غسل‘‘ کا موجد  ہے۔ اس کے کلینک میں گنٹھیا، دمہ، جوڑوں کی سوزش، جلدی امراض اور خون کی گردش کی سستی کی وجہ سے لاحق جسمانی نقاہت اور اضمحلال اعضاء کا علاج کیا جاتا تھا ۔ یہاں دین محمد نے اپنے نام کے آگے’’ شیخ‘‘ کا اضافہ کیا تا کہ سماج میں اس کی قدر و منزلت بڑھ سکے۔ اس کے گاہکوں میں دو برطانوی بادشاہ جارج چہارم اور ولیم چہارم اور برطانوی اشرافیہ، مثلاً مستقبل کے وزیر اعظم رابرٹ پیل اور مستقبل کے گورنر جرنیل کی بیگم لیڈی کارن والس شامل تھے۔ اس کو ’’ ڈاکٹر برائیٹن‘‘ کا لقب دیا گیا۔

برائٹن اور گرد و نواح کے ڈاکٹر اور سرجن اس ’’ ڈاکٹر برائیٹن‘‘ کی کامیابی سے پریشان ہونا شروع ہو گئے۔ اس کے حمام کے ساتھ انگریزوں نے بھی حمام قائم کئے لیکن وہ شیمپو سرجن سے مریض نہ چھین سکے۔ برائیٹن کی بلدیہ  کے ساتھ مل کر انہوں نے شیخ دین محمد کے کلینک کے گرد و نواح میں اونچی دیوار کھڑی کر کے کلینک تک رسائی کیلئے صرف ایک تنگ راستہ چھوڑ دیا۔ 1820ء  میں اس نے بھاپ سے علاج کے مختلف طریقوں پر ایک کتاب شائع کی جو اس کی دوسری تصنیف تھی ۔ یوں اس کے معالجی حمام کی خوب تشہیر ہوئی۔

75 سال کی عمر میں 1834ء میں دین محمد نے ریٹائرمنٹ لے لی اور کلینک حمام  اپنے بیٹے آرتھر کے حوالہ کر دیا۔ 1841ء میں مالی مشکلات کے شکار کلینک کو نیلام کر دیا گیا۔ آج برائیٹن شہر میں اس مقام پر کوئنز ہوٹل کی عمارت کھڑی ہے۔ سن 1850ء میں اس کی بیوی جین انتقال کرگئی۔ شیخ دین محمد 91 برس کی عمر میں فروری 1851ء میں گزر گیا۔ برائیٹن کے قبرستان میں اس کی قبر آج بھی موجود ہے جس کے کتبہ پر اس کا نام کے آ گے ’’پٹنہ، ہندوستان‘‘ درج ہے۔

اس غیر معمولی ہندوستانی مسلمان کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے ۔ جیسا کہ کچھ سال قبل برطانیہ میں ایک دیسی تھیٹر گروپ نے اس کی حیات پر مبنی ایک ڈرامہ اسٹیج کیا۔ اور 2005ء میںلندن کی  ویسٹ منسٹر سِٹی نے ہندوستانی کافی ہاوس 102 George Street کے مقام پر تختی لگا کر ایک یاد گار قائم کی۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>