پورا ماجرا
مصنف: انور سعید صدیقی
ناشر: میڈیا کونٹیکٹ، 101، پی ای سی ایچ ایس کمیونٹی سینٹر بلاک 2، کراچی
صفحات: 166،قیمت:200
صحافت اور درس و تدریس انور سعید صدیقی کا حوالہ ہیں۔ ان کا صحافتی سفر روزنامہ مشرق سے شروع ہوا اور پھر مختلف اخبارات، ٹیلی ویژن چینل اور ریڈیو سے جڑ کر انہوں نے صحافتی ذمہ داریاں نبھائیں۔ بہ طور کنٹرولر نیوز ریڈیو پاکستان سے ریٹائرمنٹ کے بعد انور سعید صدیقی نے اخبارات میں کالم نویسی شروع کی اور یہ کتاب انہی کالموں اور چند مطبوعہ مضامین پر مشتمل ہے۔ حالاتِ حاضرہ اور مختلف مسائل کی نشان دہی کرتے یہ کالمز مصنف کی زندگی کے مختلف ادوار کے تجربات اور گہرے مشاہدے کا نچوڑ ہیں۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں سنیئر صحافی مقصود یوسفی لکھتے ہیں:
’’انور سعید ایسے عامل صحافی ہیں جنہیں نجی اداروں کے ساتھ سرکاری ادارے کے شعبۂ خبر میں کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ اس تجربہ میں وہ سب شامل ہے، جس کا نجی اداروں میں کام کرنے والوں کو پتا بھی نہیں چلتا۔ اپنے اس تجربے اور مشاہدے کے ساتھ انور سعید اب پھر میدانِ صحافت میں اپنے وجود کا احساس دلانے اترے ہیں۔‘‘
’’ایک مخصوص مدت پر ریٹائرمنٹ کی رسمی کارروائی تک صحافی کے مشاہدات اور تجربات اس قدر پختہ ہو جاتے ہیں کہ ان سے استفادہ نہ کرنا زیادتی کے زمرے میں آجاتا ہے۔ انور سعید عملی صحافت کے ساتھ کالم اور مضامین بھی لکھتے رہے تھے اور اب تو ان کے پاس لکھنے کا وقت بھی ہے اور عملی زندگی کے بھرپور تجربات اور مشاہدات بھی، اس لیے ان کے مضامین اور کالموں میں نہ صرف معلومات ہیں بلکہ بہت سے سوالوں کے تسلی بخش جوابات ملتے ہیں۔‘‘
باطنی بیماریوں کی معلومات
تصنیف و تالیف: ابو ماجد مولانا محمد شاہد عطاری
ناشر: مکتبۃُ المدینہ، باب المدینہ، کراچی
صفحات:352، قیمت: درج نہیں
دینِ اسلام فقط عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ہر سطح پر انسانوں کی راہ نمائی اور تربیت بھی کرتا ہے۔ پیشِ نظر کتاب اپنے موضوع اور مواد کے لحاظ سے بنیادی طور پر اخلاقی تعلیمات پر مشتمل ہے اور انہیں قرآن اور احادیث کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ان خامیوں اور ان خرابیوں کی نشان دہی کرتی ہے، جو انفرادی طور پر ہماری شخصیت کو دھندلانے کے ساتھ معاشرے کا حُسن برباد کرنے کا باعث بھی بنتی ہیں۔ ان میں دھوکا دہی، غیبت، تکبر، خود پسندی، خوشامد، ریا کاری، بدگمانی وغیرہ شامل ہیں، جو دین اور دنیاوی اعتبار سے بھی ناپسندیدہ ہیں۔
اس سلسلے میں قرآن و حدیث سے مدد لیتے ہوئے ان کا علاج یا حل بھی بتایا گیا ہے۔ ابو ماجد مولانا محمد شاہد عطاری نے انہیں باطنی بیماری کہا ہے اور یہ بڑی حد تک درست بھی ہے۔ جس طرح ہمارا جسم مختلف عوارض کا شکار ہوتا ہے، اسی طرح ہم بری عادات اور افعال کی وجہ سے روحانی طور پر کم زور ہو جاتے ہیں۔ اسلام ہمیں ان سے دور رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔
یہ کتاب دراصل تبلیغِ قرآن و سنت کی غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے شعبۂ نشرواشاعت کے تحت شایع کی گئی ہے۔ یہ تنظیم ہر مسلمان کی اصلاح اور دینی تربیت کے لیے سرگرم ہے اور ان کا مقصد معاشرے کی شرعی راہ نمائی کرنا ہے۔ اس کتاب کی طباعت اور اشاعت کے مختلف مراحل میں تنظیم کی مجلسِ المدینۃُ العلمیہ نے بہت محنت کی ہے۔ موضوع سے متعلق اسناد، مواد کا ماخذ اور دیگر حوالہ جات شامل کیے ہیں۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے، جسے ہر گھر اور لائبریری میں رکھا جانا چاہیے۔
عزم و ہمت کا پیکر، حاجی عیسیٰ کچھی
مصنف:کھتری عصمت علی پٹیل
شایع کردہ: کتیانہ میمن ایسوسی ایشن، کراچی
صفحات:160،قیمت: بلا قیمت دست یاب ہے
یہ کتاب حاجی عیسیٰ کچھی کی زندگی کے مختلف ادوار اور ان کی سماجی خدمات کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ کتیانہ میمن برادری سے تعلق رکھنے والے 84 سالہ حاجی عیسیٰ کچھی کاروباری دنیا کی معروف شخصیت ہیں۔ تجارتی و معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلاحی کاموں میں بھی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور میمن برادری میں انہیں سماجی سرگرمیوں اور خدمات کی بدولت نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہ کتاب کھتری عصمت علی پٹیل کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے حاجی عیسیٰ کچھی کے حالاتِ زندگی اور ان کی سماجی خدمات کا احاطہ کیا ہے۔
عصمت علی پٹیل کے مطابق اس کتاب کے لیے حاجی عیسیٰ کچھی سے ملاقات کر کے ان کی زندگی کے اہم اور یادگار واقعات جاننے کے علاوہ اپنی برادری کے لیے ان کے فلاحی کاموں اور دیگر سرگرمیوں سے متعلق مختلف ذرایع سے مکمل معلومات اکٹھی کیں اور انہیں اختصار کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ انہیں حاجی عیسیٰ کچھی کے ساتھ کام کرنے کے دوران انہیں جاننے کا موقع بھی ملا اور وہ ان کی شخصیت اور کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ عصمت علی پٹیل کا میدان تصنیف اور تالیف ہے اور ان کا مخصوص انداز اس تذکرے کے قاری کی دل چسپی اور توجہ حاصل کرنے کا باعث بنے گا۔
ابتدائی صفحات میں مختلف کاروباری اور سماجی راہ نماؤں کی حاجی عیسیٰ کچھی سے متعلق آرا اور ان کی مختلف ادوار کی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔ آگے چلیے تو چند صفحات میمن قوم کا مختصر تعارف پڑھنے کو ملے گا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے شہر کتیانہ کا تذکرہ، ہجرت کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں سکونت اختیار کرنے والی کتیانہ برادری کی مختلف شخصیات اور ان کی اپنی برادری کی فلاح و بہبود سے متعلق کوششوں اور سرگرمیوں کو مصنف نے مختصراً بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کتاب میمن برادری کی تاریخ اور اس سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بنے گی۔ آخر میں حاجی عیسیٰ کچھی کی مختلف موضوعات پر چند تحریریں بھی شامل ہیں۔
نگار (جولائی تا اکتوبر2014)
مدیرِ اعلیٰ: علی ابرار بن فرمان فتح پوری
نگار کا یہ شمارہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی پہلی برسی پر اُن کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر خصوصی تحریروں سے مزین ہے۔ تنقید اور تحقیق کے ساتھ انہوں نے درس و تدریس کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ اُن کا اصل نام سید دلدار علی تھا۔ قلم اور قرطاس کی طرف آئے تو فرمان فتح پوری کے نام سے اپنی پہچان بنائی۔ وسیع مطالعے اور موضوعات کا تنوع نے تحقیقی اور تنقیدی میدان میں انہیں اپنے ہم عصروں میں منفرد اور ممتاز بنایا۔ اردو ادب کی اس معتبر شخصیت نے نثر کے ساتھ نظم کی صنف میں بھی اپنی فکر اور جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا شعری سرمایہ بہت کم ہے، لیکن یہ اردو کی مختلف اصناف میں ان کی دل چسپی اور دسترس کا اظہار ہے۔
مرحوم نے پچاس سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں، جن میں تحقیق و تنقید، اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری، فنِ تاریخ گوئی اور اس کی روایت، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان اور اردو املا، قواعد، رسم الخط پر نہایت پُرمغز اور مستند کتب شامل ہیں۔ وہ کئی سال تک اردو ڈکشنری بورڈ سے بھی وابستہ رہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کے بعد اسی درس گاہ میں استاد کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا۔ اس شمارے میں مضامین کے علاوہ مختلف علمی و ادبی شخصیات کی ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی شخصیت اور ان کے علم و فن پر آرا شامل ہیں۔
انتقال کے ایک سال بعد نگار کے اس خصوصی شمارے نے جہاں رفتگاں کے ذکر کی ایک روایت برقرار رکھی ہے، وہیں ایک نابغۂ روزگار کی ادبی فکر، نظریات، خدمات اور تخلیقات پر مضامین اور مستند آرا جہانِ ادب کے مختلف شعبوں میں قلم کاروں کی فکری تربیت اور راہ نمائی کا ذریعہ ثابت ہوں گی۔