پاکستان کی چھے دہائیوں پر پھیلی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی آسمان سے اس ملک کی دھرتی پر پانی اپنی حد سے زیادہ برسا، تو دنوں میں سیکڑوں لوگ ڈوبے اور لاکھوں بے گھر ہو کر در بہ در ہوگئے۔
حسب روایت سال 2014 میں بھی ایسا ہی ہوا اور دریاؤں کے قرب وجوار میں بسنے والوں پر قیامت ٹوت پڑی۔ ستمبر 2014 کے آغاز میں آزاد جموں کشمیر کے علاقے میں شدید بارشوں سے ایک بہت بڑے سیلاب کی خبریں جب محکمۂ موسمیات کی قبل از وقت پیشین گوئیوں کے عین مطابق پوری ہورہی تھیں تو اُن دنوں اس دھرتی کے حکمران اپنے اقتدار کو بچانے میں مصروف تھے۔
اس سیلاب سے بھارت کے جموں و کشمیر اور پاکستان میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور پنجاب کے علاقے متاثر ہوئے تو میڈیا نے بہت شور مچایا مگر ۔۔۔۔۔۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ 7 ستمبر 2014 تک بھارت میں 200 جب کہ پاکستان میں 205 کے قریب لوگ سیلاب کی وجہ سے ہلاک ہوچکے تھے۔ ان ہلاکتوں پر جب حکومتی بے حسی پر عوامی سطح پر سیاپا شروع ہُوا تو حکمرانوں کی جانب سے روایتی بیانات کے ذریعے ’’پرسہ کاری‘‘ شروع ہو گئی مگر لوگوں کو بچانے کے لیے بروقت اقدامات پھر بھی نہ کیے جا سکے۔ پاکستان کے قیام سے اب تک ہمیں 20 بڑے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بارہا کے اس منظر نامے کو دیکھ کر محسن نقوی کا یہ شعر ذہن کے دریچوں میں گونجتا رہا
محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے
محکمۂ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہونے والی ان بارشوں کا 75 فی صد صرف چار مہینوں میں یعنی جون سے ستمبر تک ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اس بار بھی بروقت اطلاعات اور پیشن گوئیوں کے باوجود حکومت کسی بھی مناسب منصوبہ بندی سے عاری نظر آئی۔ بلاشبہ 2005 کے زلزلے کے بعد نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی NDMA کا قیام وجود میں آیا تھا، جو یقینا ایک احسن قدم ہے لیکن یہ ادارہ بھی اب ایسے چیلنجز سے نمٹنے میں اس لیے ناکام نظر آتا ہے کہ یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔
پاکستان میں 2014 کے سیلاب سے دیہی علاقوں میں انفرا اسٹرکچر اور کھڑی فصلوںکو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، پچیس لاکھ افراد اور چار ہزار سے زیادہ دیہات متاثر ہوئے۔ دریائے چناب کے سیلاب سے پنجاب کے بیش تر ایسے دیہی علاقے متاثر ہوئے ،جہاں وسیع پیمانے پر قربانی کے جانور پالے جاتے تھے۔ سیلاب سے قربانی کے ہزاروںجانور مر گئے اور سال 2014 میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر بڑے شہروں کی منڈی مویشیاں میںبچ جانے والے جانوروں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھا گیا۔
انٹرنیشنل ریڈکراس کے اعدادوشمار کے مطابق 2025 تک دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے 50 فی صد سے زیادہ لوگ سیلاب اور طوفانوں کے خطروں سے دوچار ہوں گے، یقیناً یہ ایک انتہائی خطرناک پیشن گوئی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی قومی پیداوار کو بارش اور سیلاب سے جو نقصان پہنچ رہا ہے، وہ فی کس آمدنی کی نشو و نما سے بھی زیادہ ہے۔ یہ نقصان تمام ایشیائی ممالک میں ہونے والا سب سے بڑا نقصان شمار کیاگیا ہے۔
اقوام متحدہ کے تجزیہ نگاروں کے بقول 2010 کے سیلاب میں پاکستانی معیشت کو جو نقصان ہوا وہ 2005 کے زلزلے اور ایشیا میں آنے والی سونامی کے مجموعے سے زیادہ ہے۔ اس نقصان کی مالیت تقریباً 10 بلین ڈالر بنتی ہے ۔ 2012 میں سیلاب کے نتیجے میں تقریباً 2.5 بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ 2013 کے مون سون میں ہونے والی بارشوں سے 15 لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھے، 80 ہزار بہے اور لاکھوں ایکڑ سے زیادہ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی تھیں۔
قدرتی آفات شروع دن سے ہی انسانی کی آزمائش بنی ہوئی ہیں۔ ان آفات سے نمٹنے میں اب تک وہی قومیں سرخ رو ہوئیں، جنہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی اور اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری قوم میں یہ دونوں صفات مفقود ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس کوئی موثر منصوبہ بندی ہے اورنہ ہی اتحاد کا وہ مظاہرہ جو ان آفتوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
اس وقت ہمارے سیاسی رہنماوں کی آپس میں ضد اور انا پرستی سے پوری قوم انتشار کا شکار ہوچکی ہے ۔ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں، یہ لوگ اپنی جمع پونجی بارشوں اور سیلاب میں ہار چکے ہیں اور اب تک بحال نہیں ہوسکے۔ پاکستان میں اس سیلاب کے نتیجے میں بیس لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں جب کہ ہلاکتوں کی تعداد تین سو سے زیادہ ہے۔
ایسے میں پھر ذہنوں میں سوال اُٹھتا ہے کہ کیا قدرتی آفات بھی طبقاتی ہوتی ہیں ؟ یہ ہمیشہ استحصال زدہ اورمحروم طبقوں کو ہی نشانہ کیوں بناتی ہیں؟ چلو مان لیا کہ سیلاب یا زلزلے قہر خداوندی ہوتے ہیں لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ یہ قہر پہلے سے عذابوں میں گھرے ہوئے غریبوں پر ہی کیوں نازل ہوتا ہے؟ دنیا کا وہ کون سا گناہ ہے جوحکم ران طبقے کے محلات میں نہیں ہوتا۔ زلزلوں اور سیلابوں میں کتنے سرمایہ دار یاجاگیر مرتے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وسائل پر قابض یہ طبقہ ان سیلابوں سے بہت دور میٹرو پولیٹن شہروں کے پوش علاقوں میں بستا ہے۔
ان کے بنگلے زلزلوں میں اس لیے منہدم نہیں ہوتے کہ وہ بنائے ہی اس طرح جاتے ہیں کہ منہدم ہی نہ ہوں۔ پھریہ بھی توسچ ہے کہ ہمارا جاگیر دار اور سرمایہ دار حکم ران ذرا جدید قسم کے ساہو کار بن چکا ہے لیکن مگرمچھ کے آنسو بہانے والا یہ ہی طبقہ دراصل ان تباہ کاریوں کا ذمہ دار ہے اور اس نظام کے محافظ بھی ۔ وہ ہیلی کاپٹر سے بربادیوں کا نظارہ کرتا ہے، اپنی سیاست چمکاتا ہے ، پھرفوٹو سیشن ہوتے ہیں، عالمی برادری سے امداد کی اپیل کی جاتی ہے، جب امداد مل جاتی ہے تو یہ امداد نچلی و بالائی افسر شاہی سے لے کر سیاسی اشرافیہ تک کی غربت دور کرنے کے کام آتی ہے۔
این جی اوز اور امدادی کاموں میں سرگرم مذہبی اور کالعدم تنظیموں کی چاندی الگ ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی کی کئی تنظیمیں بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتی ہیں۔ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ڈونرز سے ملنے والی بھاری امداد کی پائپ لائن چالو ہوجاتی ہے۔ 2005 کا زلزلہ ہو، تھرپاکر میں قحط سالی یا پھر ہر سال آنے والے سیلاب، ہر آفت، خیرات کے اس کاروبار کو فروغ دیتی ہے۔
پاکستان میں سیلاب آنے کے ذمہ دار کون ہوسکتے ہیں ؟۔ اس حوالے سے جوباتیں سامنے آئیں، اُن میں یہ بھی شامل تھا کہ پاکستان میں سیلاب کے لیے بھارت ذمے دار ہے ۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق حافظ سعید کو اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کو درپیش سیلاب کی صورتِ حال کے لیے کِسے ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ کیوں کہ انہوں نے رائٹرز سے بات چیت میں کہا تھا ’’بھارت اپنے ریگستانوں کو سیراب کرتا ہے اور اضافی پانی بغیر کسی انتباہ کے پاکستان میں چھوڑ دیتا ہے، اگر ہم بھارت کو اب نہیں روکیں گے تو پاکستان کو یہ خطرہ درپیش رہے گا‘‘۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا تھا اور وہاں گزشتہ ایک صدی کا بدترین سیلاب آیا تھا جب کہ ہلاکتوں کی تعداد دو سو سے زیادہ تھی۔ کشمیر میں سیلاب سے متاثرہ ایک علاقے شیر شاہ میں ایک کسان سید علی کا کہنا تھا ’’یہ غلطی نہیں ہے، یہ پاکستان کو تباہ کرنے اور عوام کو مشکل میں ڈالنے کی سوچی سمجھی کارروائی ہے‘‘۔
بعض پاکستانی اس صورتِ حال کے لیے اپنی حکومت کی نااہلی کو ذمہ دار قرار دیتے رہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا ’’کچھ لوگ کہیں گے کہ پانی بھارت نے چھوڑا لیکن میرا سوال یہ ہے اگر بھارت وقت پر انتباہ جاری کر بھی دیتا تو کیا ہم اس پر توجہ دیتے؟ کیا یہ حکومت اس کے لیے کوئی اقدامات کرتی؟ مجھے تو حکومت پر شبہ ہے۔‘‘
پاکستان میں مسائل اور مشکلات کی ایک ایسی کھچڑی پکی ہوئی ہے، جس کو سمجھنا اور سلجھانا تو دور کی بات اس کے بارے میں سوچنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریاں، ٹارگٹ کلنگ ،خود کش بم دھماکوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ان سب کی زد میں آئے ہوئے ہیں اور بے بس عوام کا کوئی پرسان حال نہیں!
پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی اب تک ہر طرف داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ ملک کے بہت سے شہر، قصبے اور دیہات جوزیر آب آئے تھے، ہزاروں گھر بہے تھے اور سیکڑوں کی تعداد میں قیمتی جانور اور کھڑی فصلیں تباہ ہوئی تھیں، کاروبار اجڑے، لاکھوں متاثرین کھلے آسمان تلے اب تک بے یارومددگار پڑے ہیں، معصوم بچوں کو سینوں سے لگائے مائیں مایوس آنکھوں سے اپنے گھروں کو ڈوبتا دیکھتی رہیں۔ یہ بات پرانی ہو چکی مگر صورت حال آج بھی ویسی کی ویسی ہے۔
پاکستان کو تاریخ کے ایسے بدترین سیلاب کا سامنا ہے جسے اقوام متحدہ نے سونامی سے بھی تباہ کن قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرین کی تعداد 2004 کے سونامی ، 2005 کے کشمیر کے تباہ کن زلزلے اور 2010 کے ہیٹی میں آنے والے زلزلے کے سارے متاثرین سے بھی زیادہ ہے اور ان کی بحالی کے لیے اربوں ڈالرز درکار ہوں گے۔ ہمیشہ کی طرح حکومت پاکستان کے اقدامات ناکافی رہے اور بے بس و بد حال لوگ مدد کی دہائیاں دے رہے ہیں۔
سیلاب اور اسکی تباہ کاریوں کے علاوہ بجلی، پانی، اشیا ئے خوردنی کی قلت و مہنگائی اور عدم دست یابی کی داستاں اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ ساتھ دیگر معاشی مسائل نے بھی پاکستان کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف 9 سال سے جاری جنگ اور اس کے مضر اثرات سے نہ صرف حالات کشیدہ ہو رہے ہیں بل کہ پاکستان میں تو اس کے نتائج انتہائی تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔
اس الم ناک صورت حال میںجہاں ایک طرف پاکستانی قوم مسائل و مشکلات اور سیلاب جیسی قدرتی آفت میں مبتلا ہوئی تو دوسری طرف افسوس ناک طرز عمل یہ بھی رہا کہ سیاسی قائدین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بیان بازی میں مصروف رہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ملکی قائدین اپنے مفادات سے بالا تر ہو کر ان مسائل اور مشکلات سے نجات حاصل کریں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی اور انہیں ایک نئی زندگی شروع کرنے میں مدد کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں تاکہ اس قدرتی آفت کے آثار کو مٹایا جاسکے۔