اسلام آباد: اسلام آباد میں چودہ اگست 2014 سے شروع ہونے والے دو دھرنوں کی کہانیاں بالترتیب 70 اور 126 دنوں کے بعد اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکیں۔
دونوں ہی اوپیرا سوپ ڈرامے جیسی دل چسپی سے مزین تھیں۔ ان کہانیوں میں بے شمار موڑ بھی آئے لیکن ان کہانیاں نے سننے اور دیکھنے والوں کو ہرگز، ہرگز بور نہیں ہونے دیا تھا۔ عوامی تحریک کی کہانی اگر آرٹ فلم جیسی سنجیدہ تھی تو تحریک انصاف کے دھرنے کی کہانی کمرشل فلموں کی طرح سانگ آئٹمز سے سجی رہی۔
جب سال 2014 کاآغاز ہوا تھا تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اسلام آباد میں دھرنا دینے والی دو سیاسی جماعتیں، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک ملک میں طویل ترین دھرنے کی تاریخ رقم کریں گے گو کہ دھرنے جن وجوہات کی بنا پر شروع ہوئے تھے، وہ آج بھی موجود ہیں اور دھرنوں کے بہ ظاہر اختتام کے بعد حکومت نے سکھ کا سانس بھی لیا مگر حکومت کے کاریڈوروں اور ایوانوں میں بوکھلاہٹ اب بھی چلتی پھرتی محسوس ہوتی ہے۔
ایک وقت وہ تھا کہ جب حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ دھرنوں سے جان کیسے چھڑائی جائے؟ اور اب اُسے یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ دھرنے سے حکومت کی بدعنوانیوں سے اُٹھنے والے پردے سے سامنے آ جانے والی نااہلی کو کس طرح اہلیت میں بدلا جائے۔ نیتوں میں فتور کی یہ کہانیاں نئے سال میں کیا رنگ لائیں گی، اس بارے میں تاحال کچھ کہنا ممکن نہیں۔
پی اے ٹی کے بعد پی ٹی آئی نے جب دھرنا ابھی ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا تھا تو اُس وقت پاکستان تحریک انصاف پاکستان اپنے عروج پر نظر آرہی تھی اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ فیصل آباد،کراچی اور لاہور میں کام یاب شوز کرنے کے بعد پاکستان بھر میں بھی اپنے مطالبے کو پورا کرا لے گی لیکن پشاور کے واقعے کی الم ناکی نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کی ہیئت کو ہی بدل کے رکھ دیا۔
اُس سانحے کے بعد عمران خان نے جس رد عمل کا اظہار کیا، اس نے ان کے ’’کھیلن کو چاند مانگنے والے ضدی لاڈلے‘‘ کا تاثر بدل کر رکھ دیا، ان کے اس عمل نے، ان تجزیہ کاروں کی سوچ کا دھارا بھی بڑی حد تک تبدیل کیا جو پی ٹی آئی کو چونچلے باز لڑکوں لڑکیوں کا اکٹھ اور برگر کھانے والے ممی ڈیڈی کلاس کا کلب قرار دے رہے تھے اور ایک مرتبہ پھرقوم کی آس بندھی ہے کہ حکم ران دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان کے جائزمطالبات مان لے گی۔
یاد رہے کہ اسی طرح جب پاکستان عوامی تحریک نے ستر دنوں کے بعد جب اچانک دھرنا ختم کردیا تھا، تو قوم نے حکومتی رویے میں مثبت تبدیلی کی امید باندھ لی تھی لیکن قوم کی یہ امید پوری نہ ہوسکی البتہ اُن دنوں پاکستان تحریک انصاف تنہائی کا شکار ضرور ہوگئی تھی مگر کیا کیا جائے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ترجمانوں کا، جنہوں نے اپنے سنہرے فرمودات کے باعث پی ٹی آئی کی اس تنہائی کو بھی ختم نہیں ہونے دیا بل کہ اس تنہائی کو چند روز میں ہی دوبارہ رونق میں بدل ڈالا حال آں کہ پی ٹی آئی نے رحیم یار خان والے جلسے میں استفعے کی شرط واپس لے کر حکومت کو ایک نادرموقع فراہم کر دیا تھا کہ وہ معاملات کو احسن طریقے سے سُلجھالے مگر حکومتی نورتن دھرنے والوں کو اپنے بیانوں سے رگڑا لگا کر سمجھتے رہے تھے کہ اب ہمارا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا جب کہ اس رگڑے سے دوسری طرف چمک اور بڑھی۔
14 اگست 2014 سے شروع ہونے والے دھرنوں کی طوالت کے حوالے سے اب تک جتنے بھی غیر جانب دار تجزیے سامنے آئے ہیں، اُن سے یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ احتجاج کرنے والوں کے عزم وہمت پر حکومت کے وزیروں اور مشیروں کی غیر دانش مندانہ اور ’’ریگ مار حکمت عملی‘‘ سے تخلیق پانے والی بڑھکوں کو واضح برتری حاصل رہی اور یوں جہاں ٹی وی ٹاک شوز کی ریٹنگ بڑھتی رہی، وہاں دھرنے والوں نے بھی مدت کے حوالے سے (بعضوں کے مطابق) عالمی ایک ریکارڈ قائم کر دیا۔
اس حکمت عملی کے تحت حکومت نے جلتی پر تیل ڈالنے کا عمل مسلسل جاری رکھا تھا۔ حکومت نے ایک طرف احتجاج کرنے والوں کے لب و لہجے کو گالی قرار دیا تھا تو ساتھ ہی نئی نسل کو بگاڑنے کا بھی خوب ڈھنڈورا پیٹا مگر اس کا نتیجہ اُلٹا نکلا کہ احتجاج کرنے والوں کی تعداد کم ہونے کے بجائے روش بہ روز بڑھتی ہی گئی اوراس پر حکومت نے غورکرنے کی زحمت ہی نہ کی۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق شاید اس لیے بھی، کہ میڈیا نے عوام کواتنا با شعورکردیا ہے کہ اربوں روپے کی سرکاری اشتہاری مہم بھی حکومت کو سچا ثابت کرنے میں ناکام دکھائی دیتی رہی۔ عوام کو اپنا پیسا یوں لٹنے پر دکھ محسوس ہوتا رہا جب کہ نون لیگ کی ایک خاتون رہ نما (عوامی ٹیکسز سے کی جانے والی) اس اشتہار بازی کو اپنا حق قرار دیتی سنی گئیں۔ یہ دھرنا جب چوراسیویں روز میں داخل ہوا تو ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے اس کو پاکستان کی تاریخ کا طویل دھرنا قرار دے دیا تھا۔
حالانکہ دھرنے کے 70 ویں دن عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری اسلام آباد میںاپنا دھرنا ختم کرنے کے بعد اسلام آباد سے واپس جا چکے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کی طوالت کی ایک اور وجہ یہ بھی سامنے آئی کہ حکومت نے آغاز میں دونوں جماعتوں کی دھرنا کال کو وہ ’’اہمیت‘‘ نہ دی جو زرداری حکومت نے اپنے دور میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے کودی تھی۔
زرداری دور میں دھرنے کو جس عمدگی سے پسپا کیا گیا تھا، نواز حکومت نے اُس سے یک سر مختلف حکمت عملی اپنائی، جس کا ایک نتیجہ یہ ہی تھا کہ دھرنے کے شرکا کو پارلیمنٹ اور پی ٹی وی کے اندر گھسنے کا موقع ملا اور اس کے نتیجے میںدنیا بھر کو پولیس اور دھرنے والوں کے درمیان ایک خوف ناک معرکہ دیکھنے کو ملا، جس میں بے تحاشہ آنسو گیس استعمال ہوئی تھی۔
دھرنے کے بعد حکومت کی ساکھ کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو تب بھی حکومت کی عوامی سطح پر ساکھ روز بہ روز کم زورہوتی نظر آئی۔ دھرنے کے آغاز پر حکومت کے وزیروں اور مشیروں نے موقف اختیار کیا کہ دونوں جماعتوں کے پیچھے درپردہ فوج کے چند جرنیلوں کا ہاتھ ہے لیکن پھر خود ہی گھبراہٹ میں فوج کو سہولت کاری کا عندیہ دے دیا اور بعد میں اس بات سے حکومت نے جب انکار کیا تو آئی ایس پی آر کی طرف سے صرف ایک ٹوئیٹ نے حکومتی اعتماد کا شیرازہ بکھیردیا البتہ دھرنے کے دوران پارلیمنٹ کے طویل ترین مشترکہ اجلاس نے حکومت کووقتی طور پر شیلڈ فراہم کی اور اسی دوران جاوید ہاشمی پی ٹی آئی سے علیحدہ ہوگئے، اس نے بھی حکومت کو عارضی سا سہارا دیا لیکن وہ ان دونوں سنہری مواقع کا کیش کرانے میں ناکام رہی۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹر اعتزاز احسن اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کے درمیان الزامات کا گھمسانی رن پڑا، اس پر جاوید ہاشمی کا اپنے تمام تر باغیانہ پن اور غیبی امداد کے باوجود الیکشن میں شکست کھا گئے، اوپر تلے رونما ہوئے ان واقعات نے اس وقتی شیلڈ کو توڑ دیا اور دھرنے والوں کے عاید کردہ الزامات پر لوگوں کا یقین پھر بڑھنے لگا۔ مشترکہ اجلاس نے اس تاثر کو بھی تقویت دی تھی کہ جب تک پی پی پی، موجودہ حکومت کے ساتھ ہے، (ن) لیگ کی حکومت محفوظ ہے۔ اس تاثر نے جمہوریت کے استحکام کے لیے پارلیمان میں سیاسی جماعتوں کی یگانگت کو ایک ایسے منفی تاثر میں بدل دیا کہ دال میں کچھ کالا کالا سا نظر آنے لگا۔
اس کے بعد لندن پلان کا شوشہ چھوڑا گیا لیکن یہ بھی ناکام، سوائے اس کے کہ جب ستر دنوں بعد طاہرالقادری کے دھرنے کا اختتام ہوا تو حکومت نے سکھ کا سانس لیا لیکن وزیراعظم نواز شریف کی واضح ہدایت کے باوجود حکومتی مشیراور چند وزیر دھرنے والوں کی بدگوئی کا پراپیگنڈا کرتے اورخود اپنی ’’خوش گوئی‘‘ سے مخالفین کا تمسخر اڑانے کا وتیرہ نہ چھوڑ سکے۔ اس کا ایک نیا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان نے پاکستان کے متعدد شہروں میںپے در پے کام یاب جلسے کرکے حکومتی اعصاب کو ایک بار پھر شل کر دیا۔
30 نومبر کو اسلام آباد میں عمران خان نے ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فیصل آباد، لاہور اور کراچی بند کرنے کے بعد پورے پاکستان میں شٹرڈاؤن کا اعلان کردیا تو جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے حکومت کو ایک بار پھر خبردار کیا کہ حالات بگڑنے سے پہلے حکومت پہل کرتے ہوئے مذاکرات شروع کرے لیکن حکومت یہ موقع بھی نہ صرف ضائع کیا بل کہ دھرنوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو ترجیح دی، جس کا مظاہرہ 8 دسمبر کو ہوا اور فیصل آباد میںپولیس کی موجودی میں کھلے عام اسلحے کا استعمال ہوا، جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کا ایک ورکر جان سے گیا۔ اس کے بعد مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے سڑکیں بلاک کیں اور حالات مزید بگڑے لیکن حکومت نے اشتہاری بازی جاری رکھی، اُلٹے سیدھے بیان دینے والے وزرا ڈیوٹی نباہتے رہے سو جلتی پر تیل ڈَلتا رہا۔
ان حالات میں عوام کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہانی کہاں ختم ہو گی؟ سوائے اس بات کے کہ تاریخ شاہد ہے جب بھی اس طرح کے احتجاج ہوئے، ہمیشہ حکومتوں کی بُردباری اور تدبر سے ہی ختم ہوئے۔ اُس وقت حکومت کی اپنی حلیف جماعتیں بھی حکومت کو مشورہ دے رہی تھیں کہ اب بھی حکومت کے پاس موقع موجود ہے کہ وہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھرنے والوں کے خلاف تمام مقدمات ختم کرنے کا اعلان کرے، خلوص نیت سے مذاکرات کو وہیں سے شروع کرے، جہاں سے سلسلہ ٹوٹا کیوں کہ مذاکرات ہی وہ کُنجی ہے جو دیوار کو در کر سکتی ہے لیکن حکومت ڈٹی رہی اور الٹے بانس بریلی کو یوںکہ چیلنج کردیاکہ عمران تین شہروں اور پاکستان کو بند کرنے کا شوق پورا کرلیں۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف نے اپنے کہے کوپورا کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔ جب فیصل آباد کو کھلا رکھنے اور بند کرنے کادن آیا تو اس دن حکومت ایک بار پھر ناکامی سے دوچار ہوئی اور اگلے ہی دن ہی حکومتی بڑوں کو یہ عندیہ دینا پڑا کہ مذاکرات کا ٹوٹا تاگا جوڑا جا سکتا ہے۔اس دن سو پیاز اور سو جوتے کھانے کی حکومتی پالیسی پر ناراض ہونے والے بھی تسلیم کرچکے تھے کہ حکومت کو اپنے نورتن اب بدل دینے چاہییں۔
کراچی میں تحریک انصاف کی کال کے جواب میں زرداری اور الطاف بھائی کی بہتر حکمت عملی نے حکومت کو مجبور کر دیا کہ اب وہ بھی لاہور میں اسی ہوش مندی کا مظاہرہ کرے اور یوں حکومت کو طوہاً و کرہاً ایسا کرنا پڑا مگر کسے خبر تھی کہ سقوط ڈھاکا والے دن، معصوموں کے لہو میں بھیگا ایک اوردن دیکھنا پڑے گا۔
16 دسمبر کو جب دہشت گردوں نے پشاور کو لہو لال کیا تو سیاست کی دیوار میں در نظر آیا۔ یہ پشاور کے آرمی بپلک اسکول کے بچوں کی شہادتوں کا صدقہ تھا۔ اب بھی حکومت کو ہوش نہیں آتا تو پھر یہ طے ہے کہ اب کی دھرنے شروع ہوگئے تو جمہوریت کے نام پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اور دھرنے والوں کی غلطیاں بھی حکومت کو بچا نہیں سکیں گی۔
اب یہ دھرنے ماضی کا قصہ بن چکے لیکن ان کی بازگشت نئے سال میں بھی سنائی دیتی رہے گی۔ قوم نے 14 اگست 2014 سے لے کر 16 دسمبر 2014 تک دھرنوں کے مختلف پہلوئوں کو دیکھا، سنا اور اپنے تئیں بہت سے تجزیے بھی کیے۔ اگر ہم مجموعی طور پران دھرنوں سے دیے جانے والے پیغامات کا تجزیہ کریں تو اِس بات پر پوری قوم متفق نظر آئے گی کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے جن نکات کی نشان دہی کی وہ غلط نہیں تھے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگ یہ کہتے ہوئے بھی سنے گئے کہ دھرنے والے درست ہیں لیکن ان کا اسلوب ٹھیک نہیں۔
دھرنوں کے دوران پیدا ہونے والی صورت حال پر پوری قوم نے مختلف زاویوں سے اپنے اپنے تجزیے مختلف پلیٹ فارمز پر ریکارڈ بھی کروائے لیکن یہ دھرنے قوم کے لیے ایک سوال چھوڑ گئے کہ کیا حکومت نے دھرنوں کے بعد اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کا صدق دل سے تہیہ کر لیا ہے؟ یا وہ ایک بار پھر پہلے کی طرح حکومت چلانے پر کاربند رہے گی۔ دیکھا جائے تو یہ وہ سوال ہے جو پاکستان کے سنہری مستقبل کی نوید بھی اپنے دامن میںلیے ہوئے ہے۔
اگر موجودہ حکومت واقعی خلوص نیت کے ساتھ، تمام شراکت داروں کو قومی دھارے میں لے کر آگے بڑھنے کی حکمت عملی وضع کر لے تو اِس کی معینہ مدت تک نہ صرف ترقی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوسکتے ہیں بل کہ بہت سے دیگر مسائل بھی، جن کی طرف سال ہا سال سے توجہ نہیں دی گئی، حل ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔
فرق صاف ظاہر ہے!
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں میں بہت سے نمایاں فرق دیکھنے میں آئے۔ عوامی تحریک کے کارکنوں نے ہر لحاظ سے منظم اور صفائی پسند ہونے کا مظاہرہ کیا جب کہ تحریک انصاف کے قافلے میں بے ہنگم شور شرابہ، نظم و ضبط کی کمی اورگندگی کے باعث وہاںکھڑے ہونا محال ہوتا تھا۔ طاہر القادری کے کارکن سیکیوریٹی اور صفائی کے معاملے میں تحریک انصاف پر سبقت لیتے دکھائی دیے۔ تحریک انصاف کے دھرنے میں آنکھوں دیکھے حال کے مطابق آب پارہ چوک کے قریب ایک درجن بنائی گئی ٹوائلٹس میں غلاظت ہی غلاظت تھی۔
کارکنوں میں کھانا تقسیم کیا جاتا تو چھینا چھپٹی سے بڑی مقدار میں کھانا سڑک پر گرجاتاتھا لیکن تحریک کے کارکن اسے ایک طرف کرنے کی زحمت نہ کرتے۔ عوامی تحریک کے اسٹیج کے اعتراف میں منظم سیکیوریٹی ہوتی تو تحریک انصاف کے سٹیج کے قریب بے ہنگم ہجوم رہتا۔ سیکیوریٹی کے نام پر تحریک انصاف نے اپنے کارکنوں کو اللہ کے سپرد کیے رکھا، کسی بھی جگہ تحریک انصاف کے کارکن دھرنے میں شریک ہونے کے لیے آنے والے کسی بھی شخص کو چیک نہیں کرتے تھے۔
نظریاتی اور جنونی کارکنوں میں ایک فرق یہ بھی تھا کہ عوامی تحریک کے شرکا سارا دن دھرنے میں موجود رہتے ، دھوپ کے وقت سائے میں بیٹھ کر اخبار یا کتابوں کا مطالعہ کرتے ، خواتین سردیوں کی تیاریوں کے لیے جرسیاں بنتی نظر آتیں اور بچے کھیلتے کودتے دکھائی دیتے، نوجوان کھانے پینے کا بندوبست کرتے، لڑکیاں صفائی کرتیں اور شام ہوتے ہی سب لوگ قائد کے انتظار میں بیٹھ جاتے۔ نہ کوئی ناچ گانا ہوتا اور نہ ہی کسی قسم کی ہلڑ بازی۔
عمران خان کے دھرنے میں دیکھا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکن سرِشام بھنگڑوں میں مصروف ہوجاتے یا کھانے پینے کی تلاش میں سرگردان ہوجاتے جب کہ پاکستان عوامی تحریک، مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل کے کارکن مہذب انداز میں بیٹھے رہتے تھے، یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے کارکن بھی عوامی تحریک کے دھرنے کاکھانا تناول فرماتے نظر آتے۔ اوقاتِ نماز میں نظریاتی کارکن نماز پڑھتے یا فارغ اوقات میں تسبیح و نوافل ادا کرتے۔
تحریک انصاف کے کارکن دھرنے کو ایک اچھا میوزیکل کنسرٹ سمجھ کر شریک ہوتے رہے۔ وہ سارا دن دھرنے سے غائب رہتے اور شام ہوتے ہی دھرنے کے مقام پر پہنچنا شروع ہو جاتے۔کسی کو پردے کا خیال نہ ہوتا اور کئی بار اس کے کارکن گتھم گتھا بھی ہوئے۔ کئی مواقع پر انہوں نے میڈیا کو ہراساں بھی کیا۔
سال کا مقبول ترین نعرہ
دھرنوں کے دوران ’’گو نواز گو‘‘ ایک مقبول ترین نعرہ قرار پایا لیکن بہرحال ایک متنازعہ سیاسی نعرہ رہا۔ یہ نعرہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے استعفی کی مہم کے دوران پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے لگایا جاتا رہا اور دھرنے ختم ہونے تک مقبول رہا۔ عمران خان نے نواز شریف کے خلاف عام انتخابات 2013 میں دھاندلی کا الزام لگایا اور وزیر اعظم سے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا، جس پر وزیر اعظم نے انکار کر دیا۔ بعد میں عمران خان اور طاہر القادری نے وزیراعظم کے خلاف ملک گیر مہم چلانے کا علان کیا۔
یہ نعرہ مختصر ترین عرصے میں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا اور اس دوران احتجاجوں اور مظاہروں میں بھر پور طریقے سے استمعال کیا گیا۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ایک موقع پر گلو بٹ جو، نواز شریف کا حامی سمجھا جاتا تھا، اُس نے بھی گو نواز گو کے نعرے لگائے، ایک اور موقع پر نون لیگی رہ نماؤں امیرمقام اور صابر شاہ کے منہ سے بھی یہ الفاظ نکل گئے۔ پاکستان تحریک انصاف کا یہ نعرہ ایک روایتی نغمے کی دھن پر مسلسل لگوایا جاتا رہا، جس کے باعث یہ اتنا مقبول ہوا کہ شہر کی گلیوں میں بچے اس کا مفہوم جانے بغیر اسے گاتے پھرتے۔
علامہ طاہرالقاردی کی جانب سے کرنسی نوٹوں پر بھی گو نوازگو لکھنے کی تحریک کا آغاز کیا گیا تھا تاہم سٹیٹ بینک کی اس وضاحت کے بعد کہ ایسے نوٹ ناقابل استعمال ہوں گے، علامہ صاحب نے یہ تحریک ختم کرنے کا اعلان کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینتالیسویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آصف زرداری نے بھی کہا تھا ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگانا ہمارے کارکنوں کو بھی اچھا لگتا ہے، تاہم ہم جلدی میں نہیں‘‘۔
اس نعرے کے رد عمل میں اسی طرح کا ایک نعرہ ’’گو عمران گو‘‘ نواز شریف کے حامیوں نے شروع کیا، جو بعد میں ’’رو عمران رو‘‘ میں بدلا لیکن ’’باکس آفس‘‘ پر ہٹ نہیں ہو سکا۔ یاد رہے اسی بندش میں سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف ’’گو زرداری گو‘‘ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے خلاف ’’گو بلاول گو‘‘ کے نعرے بھی سامنے آئے۔ ایک نعرہ وزیر اعلی خیبر پختونخواہ پرویز خٹک کے خلاف ’’گو خٹک گو‘‘ بھی سنا گیا جو تحریک انصاف ہی کے ایک رکن نے متعارف کرایا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست میں ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے کو معاشرے میں انتشار کا باعث قرار دیا گیا۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھاکہ گو نواز گو کا نعرہ پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکن مختلف سرکاری تقریبات اور غیر سرکاری اجتماعات میں لگا رہے ہیں اور جگہ جگہ دیواروں پر بھی یہ نعرہ لکھا گیا ہے، اس سے مسلم لیگ (ن)کے کارکنوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور دونوں طرف کے کارکنوں میں تصادم کا خطرہ ہے۔
درخواست میں پاکستان تحریک،آئی جی پنجاب اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فریق بنایا گیا تھا، عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ الیکشن کمیشن کو حکم دے کہ وہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو پابند کریں کہ وہ یہ نعرہ بلند نہ کریں۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آزادیٔ اظہار لامحدود نہیں اور ایسے افعال، جن سے معاشرے میں بے چینی اور انتشار پھیلے، ان سے گریز کرنا چاہیے۔ گو نواز گو کے نعرے نے گذشتہ چند ہفتوں میں کافی مقبولیت حاصل کی ہے، اب تک یہ نعرے لیگی وزرا اور قیادت کی تقریبات میں لگائے جاتے ہیں۔
پارلیمنٹ کا طویل ترین مشترکہ اجلاس
پارلیمان کا یہ خصوصی اجلاس قوم کو چھے کروڑ روپے میں پڑا تھا، جو سیاسی بحران کا حل پیش نہ کرسکا اور متفقہ قرارداد مذمت منظور کرکے ختم ہوگیا۔ پارلیمنٹ کی قرارداد میں آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں اور ریاستی اداروں پر حملوں کی مذمت کی گئی تھی۔
مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والے اکثر اراکین پارلیمنٹ کا لب و لہجہ تند و تیز رہا۔ اسی دوران اگست کی ایک رات کو، اُس وقت طاقت استعمال کی گئی، جب دھرنے کے شرکا نے پارلیمنٹ اور پی ایم ہاؤس کی جانب پیش قدمی کی۔ اس واقعے میں چار افراد جاں بحق اور پانچ سو زخمی ہوئے مگر دھرنوں کے شرکا ڈٹے رہے۔ زخمی کارکن صحت یاب ہونے کے بعد پھر دھرنوں میں شریک ہوگئے۔
اس وقت وفاقی وزیر خزانہ سنیٹر اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ دھرنے والوں کے چھے میں سے ساڑھے پانچ مطالبات مان لیے گئے البتہ وزیر اعظم کے استعفے پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، تفتیشی ٹیم کے نتائج میں وزیر اعلیٰ سانحۂ ماڈل ٹائون کے قصوروار ہوئے تو مستعفی ہو جائیںگے، تمام معاملات افہام و تفہیم کے ذریعے حل کر نا چاہتے ہیں، دھرنے والے ملک کی جان چھوڑ دیں اور معیشت کو مزید نقصان نہ پہنچائیں۔
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ، آئین پر حملہ ہے۔ عمران اور طاہرالقادری کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے، ملک نعشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں جاری سیاسی بحران کے تناظرمیں ہونے والا پارلیمان کا یہ مشترکہ اجلاس ختم ہوگیا لیکن حکومت مخالف جماعتوں کا احتجاج بدستور جاری رہا۔ اجلاس کے اختتامی سیشن میں دھرنوں کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی گئی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزہر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ کسی کو بھی جمہوریت پر کلہاڑا چلانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ سب گزشتہ پانچ ہفتوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اسلام آباد کی شاہ راہِ دستور پر کیا کچھ ہو رہا ہے، لوگوں کو مشتعل کر کے بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے، شیر خوار بچوں کو کفن پہناکرجذبات بھڑکائے جا رہے ہیں اور خوب صورت سبزہ زاروں پر قبریں کھودی جا رہے ہیں۔ یہ مناظر پوری قوم بھی دیکھ رہی ہے اور وہ عالمی برادری بھی جسے ہم یقین دلارہے تھے کہ پاکستان انتہا پسندی سے نکل کر ایک جدید مہذب جمہوری ریاست بن رہا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت نے بہت سے مطالبات کو تسلیم کیا اور ایف آئی آر میں اپنا اور وزیراعلیٰ پنجاب کا نام بھی شامل کرایا لیکن اس کے باوجود ریڈ زون پر یلغار کی گئی۔ ان کاکہنا تھا کہ حکومت نے کھلے دل سے دونوں جماعتوں کے اکثر مطالبات تسلیم کیے لیکن اس کے باوجود بھی ان کی جانب سے لچک پیدا نہیں کی گئی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ ملک کی تاریخ کا سب سے طویل پارلیمنٹ کا یہ مشترکہ اجلاس نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام نے دیکھ لیا کہ صرف شاہ راہِ دستور کے سوا پورا ملک پرامن رہا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک کسی بھی انتشار میں نہیں۔ اجلاس میں چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ ممبران پارلیمنٹ کو علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کا مشکور ہونا چاہیے کہ جن کی بدولت ایوان وزیراعظم کی آمد سے مشرف ہوا اور اراکین پارلیمنٹ کی آنکھیں ٹھنڈی اور قلوب مسرور ہوئے اور ایوان میں بہار آئی۔