گزشتہ سال اس اعتبار سے یادگار رہے گا کہ اس کے دوران ملکی تاریخ میں دوسری مرتبہ نوبل پرائز جیسا معتبر عالمی اعزاز کسی پاکستانی شخصیت کے حصے میں آیا۔
2014ء کا نوبل امن انعام ملالہ یوسف زئی اور ہندوستان کے کیلاش ستیارتھی کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔ نوبل انعام کی تاریخ میں، ملالہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی کم عمر ترین شخصیت ہیں۔ اس سے قبل 1979ء میں عالمی شہرت یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کو دوسرے دو سائنسدانوں کے ساتھ طبیعات کا نوبل پرائز دیا گیا تھا۔
9 اکتوبر2012ء کو، چند شقی القلب دہشت گردوں نے 15سالہ ملالہ کو گولیاں مار کر قتل کرنے کی کوشش کی، جو سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کر رہی تھی۔ معجزانہ طور پر اس کی زندگی محفوظ رہی، ابتدائی علاج کے بعد، مزید علاج کے لیے اسے برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال بھجوا دیا گیا۔
اس بزدلانہ حملے کے بعد بھی طالبان نے دھمکی دی کہ وہ ملالہ اور اس کے والد ضیاء الدین یوسف زئی کو قتل کر کے دم لیں گے، جن کا جرم یہ تھا کہ وہ شدت پسندوں کی پھیلائی ہوئی دہشت کے باوجود اپنے علاقے کی طالبات کو علم کی روشنی سے منور کررہے تھے۔ یاد رہے جہالت اور موت کے یہ بیوپاری، اسی فضل اللہ کی قیادت میں لڑ رہے تھے، جس کے درندہ صفت دہشت گردوں نے گزشتہ ماہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا۔ جن سے یہ برداشت نہ ہوا کہ ایک معصوم لڑکی ان کی مخالفت کے باوجود نہ صرف خود تعلیم حاصل کر رہی ہے، بلکہ سیکڑوں دوسری طالبات کی تعلیم کا ذریعہ بھی بن رہی ہے، وہ سکول میں پڑھنے والے دوسرے بچوں کو زندہ رہنے کا حق کس طرح دے سکتے ہیں۔
اس ظالم ٹولے کے نزدیک ہر وہ شخص گردن زدنی ہے، جس کے ہاتھ میں بندوق کے بجائے کتاب ہے۔ جو دھونس، دھمکی اور تنگ نظری کے کلچر کو مسترد کر کے دلیل، رواداری اور وسیع النظری کے کلچر کو فروغ دیتا ہے۔ جو دوسروں کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔ جو خدائی فوجدار نہیں ہے۔ ملالہ کا بھی یہی قصور تھا۔ اور ان فسادیوں کے نزدیک اس جرم کی سزا موت ہے۔
اس شرمناک قاتلانہ حملے کے بعد، گزشتہ دو سال سے بین الاقوامی سطح پر ملالہ کی پذیرائی کا سلسلہ پورے زور و شور سے جاری ہے۔ فروغ تعلیم اور بچوں کے حقوق کے لیے کوشاں ملالہ یوسف زئی ایک عالمی سلیبریٹی بن چکی ہے، جس سے دنیا کے طاقتور ممالک کے حکمران، مایہ ناز اسپورٹس مین، صحافی اور دیگر نامی گرامی شخصیات مل کر فخر محسوس کرتی ہیں۔
عالمی سطح پر پذیرائی کا یہ سلسلہ اس وقت اپنے عروج کو پہنچا، جب گزشتہ سال 10 اکتوبر کو اسے سال 2014ء کے لیے کیلاش ستیارتھی کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبل امن انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ ملالہ یوسف زئی نے یہ اعزاز 10 دسمبر 2014ء کو ناروے کے شہر اوسلو میں منعقد ہونے والی ایک پروقار تقریب میں وصول کیا۔ 2013ء میں بھی نوبل پیس پرائز کے ممکنہ امیدواروں میں ملالہ کا نام شامل تھا۔
گذشتہ سال کے دوران ملالہ یوسف زئی کو مختلف ممالک اور تنظیموں کی طرف سے کئی قابل ذکر دوسرے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ ملالہ کو ورلڈ چلڈرن پرائز، جسے بچوں کا نوبل پرائز بھی کہاجاتا ہے، کے لیے نامزد کیا گیا۔ آئرلینڈ کی تنظیم ’’پبلک سروس ایگزیکٹو یونین‘‘ کی اعزازی رکنیت دی گئی۔
آکسفورڈ یونین کی طرف سے ’’سکول گلوبل ٹریژر ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ کینیڈا کے یونیورسٹی آف کنگز کالج کی طرف سے سول لاء پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ملالہ یوسف زئی کو کینیڈا کی اعزازی شہریت کے ساتھ فلاڈیلفیا لبرٹی میڈل بھی مل چکا ہے۔دوسرے اعزازات میں آندرے سخاروو ایوارڈ اور آنا پولتکووسکی ایوارڈ بھی شامل ہیں۔
2014ء کے نوبل امن انعام میں ملالہ کے شریک ہندوستان کے سماجی رہنما کیلاش ستیارتھی ہیں۔ انہوں نے 1980ء میں ایک سماجی تنظیم، بچپن بچاؤ اندولن (تحریک) کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے جھنڈے تلے انہوں نے بھارت بھر میں یہ مہم چلائی کہ معصوم بچوں سے گھروں، فیکٹریوں اور دکانوں میں کام نہ کرایا جائے۔
حقوق اطفال کے قوانین بھی اس ظالمانہ روش کو روکتے ہیں۔ اپنے ادارے کے پلیٹ فارم سے کیلاش نے زبردستی مزدور بنائے گئے بچوں کو ان کے مالکان سے آزاد کرانے کا کام کیا۔ کیلاش پھر ان بچوں کو بے یارو مددگار نہ چھوڑتے بلکہ انہیں سہارا اور تحفظ فراہم کرتے۔ بچوں کوکوئی ہنر سکھایا جاتا تاکہ وہ بالغ ہوکر کمائی کے قابل ہوسکیں۔ پچھلے 34 برس میں کیلاش اپنے ساتھیوں کے ساتھ 80 ہزار سے زائد بھارتی بندوا مزدور بچوں کو محنت و مشقت کی زنجیروں سے آزادی دلواچکے۔
ملالہ نے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ نوبل انعام کی تقریب میں وزیراعظم نوازشریف اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی، دونوں شریک ہوں، تاکہ برصغیر میں پائیدار امن کے عمل کا آغاز کیا جاسکے۔ یہ اگرچہ ممکن نہیں ہوسکا، لیکن امید کرنی چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کی شخصیات کو مشترکہ طور پر نوبل امن انعام ملنے سے، کسی نہ کسی سطح پراس بات کا احساس ضرور کیا جائے گا کہ ترقی، خوشحالی، غربت کے خاتمے اور پر امن بقائے باہمی کے لیے ہمسایوں کے درمیان اچھے تعلقات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اور نوبل امن انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی نے بھی ان دونوں کو مشترکہ طور پر نامزد کر کے شاید یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔
ملالہ یوسف زئی نے مختلف انٹرویوز میں اپنی اس خواہش کا ذکر بھی کیا ہے کہ وہ پاکستان کی وزیراعظم بن کے، ملک کے مسائل حل کرنا چاہتی ہیں۔اس حوالے سے ملالہ نے ایک انٹرویو میں بتایا: ’’جب میں چھوٹی تھی تو ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھتی تھی۔ میں سوچتی تھی کہ ایک روایتی معاشرے میں لڑکیاں ڈاکٹر یا استانیاں ہی بن سکتی ہیں۔ مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ عورتیں صحافی ہو سکتی ہیں، کاروبار کر سکتی ہیں اور سیاستدان بن سکتی ہیں۔ لیکن جب میں وادی سوات سے باہر ایک وسیع دنیا سے متعارف ہوئی تو مجھے دکھائی دیا کہ عورتیں تو بہت کچھ کرسکتی ہیں۔
سب سے درخشاں بے نظیر بھٹو کی مثال تھی۔ وہ ہم سب کے لیے ایک مثال ہیں۔ انہوں نے دکھا دیا کہ عورت وزیر اعظم بھی بن سکتی ہے اور یہ کہ عورت اور مرد کے حقوق برابر ہیں۔ پھر میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں سیاست میں آؤں گی۔ صرف اس لیے ہی نہیں کہ پاکستان کی مدد کروں بلکہ اس لیے تاکہ بچیوں کو دکھا سکوں کہ وہ ڈاکٹر اور استانی بننے کے علاوہ بھی ملک کی خدمت کر سکتی ہیں۔ ڈاکٹر بن کر تو میں لوگوں کے ایک چھوٹے سے حلقے کے کام ہی آ سکتی ہوں جبکہ سیاستدان بن کر میں پورے ملک کی مدد کر سکتی ہوں اور پوری قوم کی خدمت کر سکتی ہوں۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ بے نظیر تو مضبوط سیاسی پس منظر رکھتی تھیں۔ آپ کس طرح وزیراعظم بن سکیں گی؟ تو ملالہ نے پورے اعتماد سے جواب دیا: ’’میں جانتی ہوں کہ میری راہ میں مشکلات کچھ کم نہیں ہیں۔ یہ مشکلات سال بہ سال زیادہ ہوتی جائیں گی۔ میں نے اس سب پر غور کیا ہے۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ امید کو ہاتھ سے نہ جانے دوں۔ میں سب سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ دنیا میں کچھ بدلا نہیں جا سکتا۔
ہم اس میں تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ سیاستدان بن کر میں کوشش کروں گی کہ ہر بچی، پاکستان کا ہر شخص، بلکہ ساری دنیا کو اپنی خواہشات پورے کرنے کے امکانات حاصل ہوں۔ یہ خواہشات ذاتی طور پر دولت کمانے، قیمتی ذاتی اشیاء یا معاشرے میں بلند مقام کا حصول نہیں ہونی چاہییں۔ صرف عام انسان ہونا چاہیے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے پیسے کی ضرورت نہیں، ذاتی اشیاء بھی درکار نہیں ہیں اور میرے خاندان کی حیثیت بھی کوئی بڑی نہیں۔ میں دوسروں کے لیے مثال بننا چاہوں گی۔‘‘
ظاہر ہے اس طرح کی خواہش کوئی بری بات نہیں ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ عاصمہ جہانگیر جیسی شخصیت نے ملالہ کی اس خواہش کو بچکانہ قراردیا ہے۔ جو لوگ ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، ان کے وزیراعظم بننے کی خواہش کو اسی طرح بچکانہ قرار دے کر، ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی، تو ہم کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ مستقبل میں پڑھے لکھے مڈل کلاس کے لوگ سیاست میں آگے آئیں گئے، جن کی موجودہ سیاسی منظر نامے میں بظاہر کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔
گل مکئی کی ڈائری
سوات میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران بی بی سی اردو نے ’’گل مکئی‘‘ کے فرضی نام سے ملالہ یوسف زئی کی ڈائری چھاپی، جس میں وہاں کے عمومی حالات اور اسکول میں پیش آنے والے واقعات کا ذکر ملتا ہے۔ ’’گل مکئی‘‘ کی ڈائری میں سے ایک انتخاب یہاں دیا جا رہا ہے۔
لڑکوں کے اسکول کھل گئے
دوپہر کو میں اورمیرا چھوٹا بھائی ابوکے ساتھ مینگورہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ امی لوگ پہلے ہی جا چکے تھے۔ بیس دن کے بعد مینگورہ جاتے ہوئے خوشی بھی ہو رہی تھی اورساتھ میں ڈر بھی لگ رہا تھا۔میں نے جب اپنی الماری کھولی تو وہاں پر پڑے سکول کے یونیفارم، بستے اور جیومٹری بکس کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ کل تمام پرائیوٹ سکولوں کے بوائز سیکشن کھل رہے ہیں۔ ہم لڑکیوں کی تعلیم پر تو طالبان نے پابندی لگا رکھی ہے۔
میں نے جیومٹری بکس کھولا تو اس میں دو سو روپے پڑے تھے۔ یہ سکول کے جرمانے کے پیسے ہیں۔ جب کوئی لڑکی سکول نہ آتی یا کبھی لیٹ آتی تو ان سے جرمانے کے پیسے لینے کی ذمہ داری ٹیچر نے میری لگائی تھی۔ الماری میں ہمارے کلاس کے بورڈ کا مارکر بھی پڑا تھا، جسے میں اپنے ساتھ رکھا کرتی تھی۔ سکول کی بہت سی باتیں یاد آئیں، سب سے زیادہ لڑکیوں کے آپس کے جھگڑے۔
سوات میں لڑکوں کے سکول کھل چکے ہیں اور طالبان کی طرف سے پرائمری تک لڑکیوں کے سکول جانے سے پابندی اٹھائے جانے کے بعد لڑکیوں نے بھی سکول جانا شروع کر دیا ہے۔ ہمارے سکول میں پانچویں تک لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ آج ہماری نوکرانی کے ساتھ ایک پشتون خاتون آئی، وہ سوات کی ہے۔ اس نے امی کو ایک پشتو ٹپہ سنایا۔
عالم پہ چارلہ مُلکہ نہ زی
یا ڈیر غریب شی یاد یارلہ غمہ زی نا
(ترجمہ: جو لوگ مرضی سے اپنا وطن نہیں چھوڑتے، انہیں یا تو بہت زیادہ غربت، یا پھر محبوب کا غم، ترک وطن پر مجبور کر دیتا ہے۔)