یہ بات 1970کی ہے جب این۔ای۔ڈی کالج برنس روڈ پر ہوا کرتا تھا۔ میں یونین کا آرٹس سیکریٹری تھا۔ میرا شوق شاعری کی طرف سوا تھا لہٰذا یہ طے پایا کہ ایک مشاعرے کا اہتمام کیا جائے ۔ پہلا مرحلہ تھا بین الکلیاتی شاعرہ جس میں غزل کا مصرعہ طرح تھا:
عقل بڑھتی ہے مگر دل کا زیاں ہوتا ہے
اور نظم کے لیے عنوان تھا:
’’دو آنکھیں‘‘
یہ آل پاکستان بین الکلیاتی مشاعرہ تھا، اس لیے میری خواہش تھی کہ جوش ملیح آبادی صاحب کو ضرور مدعو کیا جائے۔ لیکن یہ جوئے شیر لانے کے برابر تھا، اس لیے کہ جوش صاحب کالج کے مشاعروں میں نہیں جاتے تھے۔ ہماری خوش قسمتی سمجھیے کہ ایک واسطہ ایسا نکل آیاجس کے ذریعے ہماری رسائی جوش صاحب تک ہوگئی۔ یہ ذریعہ تھا پرنس عباس مرزا، نواب آف اودھ۔ پرنس عباس مرزا سے ہماری دو تین ملاقاتیں رہیں۔ وہ ایک اشتہاری کمپنی کے ڈائریکٹر تھے۔ ان کو ہم نے مہمان خصوصی بننے کی دعوت دی جسے انہوں نے فوراً قبول کر لیا اور ساتھ ہی ہمیں گولڈ میڈل کے لیے رقم بھی عطا کی اور یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ جوش صاحب کو وہ ہر حال میں شرکت کرنے پر آمادہ کریں گے۔
چوں کہ ہمارا ارادہ ایک سووینئیر نکالنے کا بھی تھا اس لیے ہم نے جوش صاحب کا انٹرویو لینے کی ٹھانی، تاکہ وہ سووینئیر میں چھپ سکے۔ اس سووینئیر میں جوش صاحب کے علاوہ صادقین، ذوالفقارعلی بخاری اور فیض احمد فیض کے انٹرویو بھی چھپنے تھے۔ انٹرویوز تو ہوگئے لیکن شومئی قسمت کہ ہمیشہ کی طرح پیسے کی کمی آڑ ے آگئی اور وہ رقم جو اشتہارات سے ملنی تھی وعدوں کے مطابق نہ مل سکی اور یوں وہ سووینئیر نہ چھپ سکا۔ لیکن یہ میری کیا سب پڑھنے والوں کی بھی خوش قسمتی سمجھیے کہ آج اپنے پرانے کاغذات کھنگالتے ہوئے مجھے جوش صاحب کا یہ انٹرویو ہاتھ لگا جو قطعی غیرمطبوعہ ہے اور ان کے شائقین کے لیے ایک نادر تحفہ بھی۔
پرنس عباس مرزا نے پہلے ہی سے جوش صاحب کو فون پر بتا دیا تھا کہ این ای ڈی کے طلبہ آپ کا انٹرویو لینے آئیں گے، لہٰذا ہم بے دھڑک اہتمام کے ساتھ روانہ ہوئے۔ میری بزم کے نائب اختر نجمی جو اب کرنل ہو کر ریٹائر ہوچکے ہیں، بھی ساتھ ہو لیے۔ ان کو انگریزی بولنے کا بہت شوق تھا۔ راستے بھر میں ان کو تنبیہ کرتا رہا کہ دیکھو وہاں انگریزی بولنے کی کوشش نہ کرنا۔ بس تم اپنے ٹیپ ریکارڈر کی طرف دھیان رکھنا اور جو کچھ بھی گفتگو ہو اسے ریکارڈ کرلینا۔ خیر ہم لوگ مقررہ وقت پر جوش صاحب کے گھر کریم آباد پہنچ گئے۔ یہ کوئی گیارہ بجے صبح کا وقت تھا۔ ہمیں جوش صاحب کے کمرے میں اوپری منزل پر پہنچادیا گیا۔
کمرہ نہایت ہی سادہ۔ ایک بڑا سا تخت تھا، جس پر سفید چاندنی بچھی ہوئی تھی، اس پر گائو تکیہ اور کاغذات پھیلے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی ایک پاندان رکھا ہوا تھا۔ سامنے تپائی تھی چھوٹی سی، جس پر ایک پانی کا جگ رکھا تھا اور ایک گلاس۔ ہمارے لیے دو بید کی کرسیاں رکھی تھیں جن پر ہم جاکر بیٹھ گئے۔ جوش صاحب سفید کرتے پاجامے میں ملبوس تھے۔ ان کا چشمہ ان کی ناک پر ٹکا ہوا تھا۔ ہم نے داخل ہوکر سلام کیا۔
جواب میں مسکراہٹ کے ساتھ جواب ملا ’’جیتے رہیے۔‘‘ اور فوراً فرمایا،’’کیا نام رکھا ہے آپ کا آپ کے والدین نے؟‘‘میں نے کہا، سید محمود علی، فرمایا ’’خیر سے (ساتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اور آپ؟‘‘، انہوں نے کہا اختر نجمی۔ فرمایا،’’تشریف رکھیے اور اپنا یہ آلا (ٹیپ ریکارڈر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) اسے ٹھیک کرلیجیے اکثر ان کا مزاج آپے سے باہر ہو جاتا ہے‘‘۔ نجمی نے لمبا سا ’’جی‘‘ کہا اور میں نے انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا، کیوںکہ نجمی کے لیے یہ اردو جو جوش صاحب کے منہ سے پھول کی طرح جھڑ رہی تھی ناقابلِ فہم تھی۔
اس کے بعد جوش صاحب نے فرمایا،’’جی صاحبان، بسم اﷲ کیجیے۔‘‘
محمود: (جنابِ والا) یہ فرمائیے کہ ایک عام انسان اور شاعر میں کیا فرق ہے اور آپ شاعر کو دنیا کے تمام لوگوں پر ترجیح کیوں دیتے ہیں؟
جوش صاحب: پہلے فرق سن لیجیے۔ اسے بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ شاعر آپ کے احساسات کو وہ زبان دیتا ہے جو آپ کے دل کی آواز ہوتی ہے اور آپ کے جذبات کی مکمل ترجمانی کرتی ہے۔ آپ جو بات کہتے ہیں سطحی ہوتی ہے اور اس میں تسلسل اور فہم و ادراک اور خوش بیانی نہیں ہوتی ہے۔ ہم جو بات کہتے ہیں اسے سن کر آپ کہہ اٹھتے ہیں، ہاں میں یہی تو کہنا چاہتا تھا اور یہی میرے دل کی آواز ہے۔ لیکن آپ کہنا چاہتے تھے، کہہ نہیں سکتے تھے۔
محمود: جناب، اس کی کوئی مثال عطا کیجیے۔
جوش صاحب: مثال کے طور پر آپ اور آپ کی ہم عمر ایک لڑکی دونوں ایک ساتھ کھیلتے ہیں اور کھیلتے کھیلتے وقت کے ساتھ بڑے ہوئے، جوان ہوگئے۔ آپ اس لڑکی سے کہیں گے کہ ’’تم بڑی ہوگئی ہو اور جوان ہو گئی ہو۔‘‘ میں یہ نہیں کہوں گا:
بدلی نگاہ طور سے بے طور ہو گئے
تم تو جوان ہوتے ہی کچھ اور ہو گئے
محمود: سبحان اللہ، فرق سمجھ آگیا۔
جوش صاحب: تصیح فرمالیجیے۔ فرق سمجھ میں آگیا۔ رہا سوال کہ میں شاعر کو دنیا کے تمام لوگوں پر ترجیح کیوں دیتا ہوں تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ شاعر کے وجود کے اندر تمام کائنات سانس لیتی ہے۔ اس لیے وہ تمام دنیا کے لوگوں سے افضل اور بہتر ہے۔ دو لفظ ہندوستان اور پاکستان میں زائل ہوئے، ایک ’حکیم‘ اور دوسرا ’شاعر‘۔ حکیم کہنے لگے نبض دیکھنے والے کو حالاںکہ یہ فلسفی کا لقب تھا۔ اور شاعر کہنے لگے ہر اس شخص کو جو شعر کہتا ہے، حالاںکہ ہر شعر کہنے والا شاعر نہیں ہوتا۔
محمود: یہ فرمائیے کہ ہم کس طرح پہچانیں کہ شعر کہنے والا شاعر ہے یا نہیں۔ آپ شعر کس طرح کہتے ہیں؟ سوچتے ہیں، ردیف قافیہ ملاتے ہیں، ایک کے بعد ایک شعر بنتا ہے؟
جوش صاحب: بہت لمبا سوال ہے۔ میں کچھ بھی نہیں کہتا۔ (انگلیوں سے اوپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) یہ سب اوپر سے آتی ہے۔ بنی بنائی کیسے آتی ہے، کہاں سے آتی ہے، مجھے نہیں معلوم۔ کسی ایک موضوع پر یا کسی مضمون کے لیے پورا کا پورا کلام اترتا چلا آتا ہے۔ میں کبھی لکھ لیتا ہوں اور کبھی بھول جاتا ہوں۔ پرانے زمانے میں ازار بند میں گٹھا یا گرہ لگا لیتے تھے۔ گرہ کھولتے جاتے تھے اور شعر یاد آتا جاتا تھا لکھتے جاتے تھے۔ شاعر کا رابطہ اوپر والے سے ہوتا ہے۔ وہ اس سے کلام بھی کرتا ہے اور اس سے بحث بھی کرتا ہے، حتٰی کہ چھیڑخانی بھی کرتا ہے۔
اسی دوران فون کی گھنٹی بجی اور جوش صاحب معذرت چاہ کر فون سننے چلے گئے جو برابر والے کمرے میں تھا۔ اسی دوران میں نے جلدی جلدی لکھنا جاری رکھا، جب کہ ٹیپ ریکارڈر ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ لیکن کبھی کبھی اٹک بھی جاتا تھا۔
جوش صاحب واپس آئے تو میں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ جنابِ والا، اگر مناسب سمجھیں تو بتادیں کس کا فون تھا۔ کہنے لگے،’’ارے بھئی شان الحق حقی کا فون تھا۔ ہم لوگ آج کل اردو لغت مرتب کر رہے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں پوچھ رہے تھے کہ اردو زبان میں ازار بند ڈالنے کی لکڑی کو کیا کہتے ہیں؟‘‘
میرا تجسس بڑھ گیا اور میں نے پوچھا، حضرت پھر آپ نے کیا جواب دیا۔ فرمایا،’’میں نے کہہ دیا کہ اردو زبان میں اس کا کوئی لفظ نہیں۔ البتہ میں نے ایک مرتب کیا ہے ’کمرنی۔‘
محمود: جوش صاحب، فرمائیے کہ یہ اردو لغت جو آپ مرتب کر رہے ہیں کس مرحلے تک پہنچ چکی ہے۔
جوش صاحب: بس ہم آخری جلد کی جانب رواں دواں ہیں۔ اصل میں بہت سے الفاظ اردو زبان میں موجود ہی نہیں ہیں، خاص چیزوں کے لیے جو کہ دوسری زبانوں میں موجود ہیں۔ مثلاً کپڑے دھونے میں استعمال ہونے والی لکڑی پنجابی میں اس کا نام ہے۔ اردو میں نہیں ہے۔ اسی طرح اور بہت سے الفاظ ہیں ہم لوگ اس میں تحقیق کرکے دوسری زبانوں کے لفظ اس نئی لغت میں ڈال رہے ہیں۔
محمود: حضرت، یہ فرمائیے کہ آپ نظم کو غزل پر کیوں ترجیح دیتے ہیں۔
جوش صاحب: اچھا سوال ہے اور جواب بہت آسان اور قابل فہم بھی۔
غزل میں ہر شعر اپنے وجود میں ایک احساس، جذبہ اور معنیٰ رکھتا ہے، جن کو کامل یا بھر پور طور پر بیان کرنے کے لیے جگہ یا حصار بہت کم ہے۔ اس کو یہ سمجھیے کہ یہ آپ کو پابند کردیتا ہے کہ بڑے حکیمانہ خیال اور سوچ کا محدود ذریعے سے اظہار کیا جائے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ دریا کو کوزے میں بند کرنا ہوتا ہے۔ نظم میں آپ ایک تسلسل کے ساتھ اپنا احساس اور جذبہ بھرپور طریقے سے بیان کر سکتے ہیں۔
محمود: حضرت، اس کی کوئی مثال عطا ہو۔
جوش صاحب: ملاحظہ فرمائیے، یہ ’’انقلاب‘‘ پر میرا کلام
اکسائے میرا شعر اگر جذبہائے جنگ
پیدا ہو آبگینوں کے اندر مزاج سنگ
خرمن میں میرا شعر اگر کج کرے کلاہ
خس تند بجلیوں سے لڑانے لگے نگاہ
آہن کے جوہروں سے ٹپکنے لگے شراب
پیری کی ہڈیوں میں مچلنے لگے شباب
اب آپ بتائیے، کیا یہ اظہار بیان اور ولولہ آمیز تسلسل غزل میں لا سکتے ہیں۔ میری یہ بحث علامہ اقبال سے بھی ہوئی تھی۔ میں انہیں ہسپتال دیکھنے گیا تھا جب وہ بیمار تھے۔ میں نے کہا تھا کہ یہ کیا کر رہے ہو۔ غزل سے توبہ کر لو۔ اور نکھر جائو گے۔
محمود: پھر کیا جواب ملا۔
جوش صاحب: صرف مسکراہٹ۔
محمود: حضرت، آپ اکثر عالمی مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں اور دہلی میں جو تاریخی مشاعرہ ہر سال ہوتا ہے اس میں بھی صدر کی حیثیت سے شرکت فرماتے ہیں۔ اس بارے میں کوئی دل چسپ واقعہ جو کہ آپ سمجھتے ہیں کہ سارے پڑھنے والوں کے لیے تفریح طبع کا باعث ہوگا اور تاریخی بھی ہو جائے گا۔ ضرور عطا کیجیے۔
جوش صاحب: ایک دفعہ میں دہلی کے عالمی مشاعرے میں بحیثیت صدر مشاعرہ مدعو تھا۔ نظامت کے فرائض راجندر سنگھ بیدی انجام دے رہے تھے۔
آخر میں جب انہوں نے دعوت کلام دی تو یوں دی:
’’اب تشریف لاتے ہیں ہندوستان کے بزرگ شاعر، پاکستان کے بزرگ شاعر، ہمارے بزرگ اور آپ کے بزرگ، اعلیٰ حضرت جوش ملیح آبادی۔‘‘
میں نے مائیک پر بیٹھتے ہی کہا کہ راجندر سنگھ بیدی کے منہ سے بزرگ بزرگ کی تکرار کچھ عجیب سی لگی۔ میں اور راجندر ایک ساتھ کھیلے۔ بڑے ہوئے بلکہ ایک دوسرے کی لنگوٹ بھی کسی۔ اس ساتھی کے منہ سے بزرگ بزرگ سن کر حیران ضرور ہوں، لیکن ساتھ ہی ابھی ابھی ایک فی البدیع رباعی نازل ہوئی ہے پیش کرتا ہوں:
دار پہ سولی پہ چڑھانا یا رب
آگ میں دوزخ کی جلانا یا رب
معشوق کہے آپ ہمارے ہیں بزرگ
ناچیز کو یہ دن نہ دکھانا یا رب
یہ رباعی سن کر محفل باغ باغ ہوگئی اور داد کے وہ ٹوکرے وصول ہوئے کہ الاماں والحفیظ۔
محمود: ہم نے سنا ہے کہ ہندوستان کے وزیراعظم نہرو آپ کو ہندوستان میں روکنا چاہتے تھے لیکن آپ نہیں رکے۔
جوش صاحب: ہاں بہت اصرار تھا نہرو کا۔ ذاتی طور پر کئی مرتبہ بہ نفس نفیس مجھے بلایا بھی اور پیغامات بھی بھیجے۔
محمود: پھر آپ کیوں نہیں رکے؟
جوش صاحب: بس شومئی قسمت۔
محمود: پاکستان آجانے پر آپ کو افسوس تو نہیں ہے؟
جوش صاحب: افسوس اس وجہ سے ضرور ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ ملک بنا تھا وہ دور دور نظر نہیں آتا۔ یہاں پر مجھ کو جو صعوبتیں جھیلنی پڑی ہیں اور پڑ رہی ہیں وہ ایک لمبی داستان ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ میرے پاس یہ پیغامات بھی آتے ہیں کہ آپ حکم رانِ وقت کی شان میں روز دو اشعار لکھ دیا کریں۔ آپ پھلے پھولیں گے، جب کہ یہ ناچیز اس صفت سے مبّرا ہے اور یہ شرائط کسی صورت قابل قبول نہیں۔ نتیجتاً صعوبتیں ہی تو ملیں گی۔ لیکن جوش بِک نہیں سکتا۔ خریدا نہیں جا سکتا۔
اسی دوران ایک چھوٹے سے قد کی خاتون، غرارے اور اوٹنگے جمپرس میں ملبوس ہوبہو ہماری دادی اور نانی کے حلیے جیسی، کسی ہوئی پتلی سی گوندھی ہوئی چوٹی، بیچ سے نکلی ہوئی سیدھی مانگ، انہوں نے داخل ہوتے ہی فرمایا کچھ کھا پی بھی لو۔ ایسے ہی لکھتے پڑھتے رہو گے۔ جوش صاحب فرمانے لگے کہ میں اور کسی سے اس عالم میں نہیں ڈرتا سوائے ان خاتون کے۔ میری مجال نہیں کہ ان کی بات ٹال دوں۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ انہوں نے اس بوڑھے کو بڑھاپے تک سنبھال کر رکھا ہے اور ٹوٹ کر خیال رکھا ہے، جب کہ میں ان کو وہ نہ دے سکا جو کہ ان کا حق ہے۔
محمود: آپ نے اپنے آپ کو بوڑھا فرما دیا، جب کہ آپ خود کو بوڑھا نہیں مانتے۔
جوش صاحب: بالکل صحیح۔ جس بوڑھے کی میں بات کر رہا ہوں وہ شبیر حسن خان ہے۔ جوش اب بھی جوان ہے اور ہمیشہ جوان رہے گا۔
ہم نے دیکھا کہ ڈھیر سارے کاغذات تخت پر سمٹے ہوئے رکھے تھے۔ جیسے کوئی رجسٹر ہوتا ہے۔ ان کاغذات کی طرف میں نے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، یہ کاغذات کس نوعیت کے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے آپ کچھ تخلیق کر رہے ہیں۔
جوش صاحب: یہ میری یادوں کا مجموعہ ہے۔ سوچا کہ اتنا کچھ میرے اس دماغ میں اور ذہن میں ہے کہ اگر منتقل نہ ہوا تو یہ سر پھٹ جائے گا۔ اس کی وجہ سے مجھے نیند بھی نہیں آتی۔ راتوں کو اٹھ جاتا ہوں۔ ایک مسّودہ تیار ہوا، پڑھا، پھاڑ کر پھینک دیا۔ دوبارہ لکھا، پڑھا، سمجھ میں نہیں آیا پھاڑ دیا۔ اب یہ تیسری مرتبہ لکھا ہے۔ شاید نہ پھاڑنا پڑے۔
محمود: کیا یہ آپ بیتی ہے؟
جوش صاحب: جی، یہ آپ بیتی ہے۔ اور غور فرمائیں کہ یادداشت کی بنیاد پر پچاس ساٹھ سال کے واقعات اور حالات اکٹھا کرنا اور لکھنا۔ بس میں ہی جانتا ہوں۔ اس کا عنوان اسی نسبت سے میں نے ’’یادوں کی برات‘‘ رکھا ہے۔
محمود: حضور، ہم دعاگو ہیں کہ اس بار یہ مسودہ آخری ہو اور طباعت میں چلا جائے، تاکہ ہم جیسے آپ کے مداح فیض یاب ہوسکیں۔
جوش صاحب: مجھے اندازہ ہے کہ بہت ہی متنازع کتاب ہوگی۔ لیکن مجھے پروا نہیں ہے۔ جو میں نے سوچا، جو دیکھا، ہو بہو لکھ دیا، بغیر کسی لیپا پوتی اور بناوٹ و مصلحت کے۔ فیصلہ پڑھنے والے خود ہی کریں گے۔ اس لیے کہ کوئی مجھے دہریہ سمجھتا ہے۔ کوئی مجھے سنّی اور کوئی مجھے شیعہ۔ جب کہ میں انسان ہوں۔ انسان ہوں اور صرف انسان۔ انسانیت ہی میرا مذہب ہے۔
یہ کہتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ جوش صاحب کے چہرے پر سکون و طمانیت عیاں ہے اور ویسے بھی میں نے فیض صاحب، ذوالفقار علی بخاری اور صادقین جیسی شخصیتوں کے انٹرویوز کیے۔ لیکن کسی کے چہرے پر وہ بلا کی معصومیت نہیں دیکھی جو کہ جوش صاحب کے چہرے پر دیکھی۔ جوش صاحب کے انٹرویو کے شروع سے آخر تک لگتا تھا کہ آپ ایک معصوم بچے کا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔
اٹھتے اٹھتے ہم نے اپنا دوسرا مدعا بھی بیان کر دیا کہ جوش صاحب آپ کو انشاء اللہ ہم ایک ہفتے بعد مشاعرے میں لے جانے کے لیے حاضر ہوں گے۔ رات کے وقت۔
جوش صاحب: آپ کی عزت نفس کو کیا ہو گیا ہے۔ میں رات تین بجے سے اٹھ جاتا ہوں اور لکھنے پڑھنے کا کام کرتا رہتا ہوں۔ مغرب کے وقت سورج غروب ہوتا ہے اور میں طلوع ہوتا ہوں۔ موذّن کہتا ہے اﷲ اکبر میں کہتا ہوں بسم اﷲ اور قدرت کے کرشمے چھت پر بیٹھ کر کبھی یاروں دوستوں کے ساتھ اور کبھی تنہا بھی دیکھتا ہوں۔ سوچتا ہوں، پرکھتا ہوں۔ بہرحال جب وعدہ کیا ہے تو حاضر ہوجائوں گا۔ تشریف لے آئیے گا۔ اور اب میں مزید اپنی بیگم کو ناراض نہیں کرسکتا۔ وہ مجھے دوسری بار گھور کر جاچکی ہیں۔
اور یوں ہم جوش صاحب کا دلی شکریہ ادا کرکے پُرامید روانہ ہوئے جوش صاحب کی صدارت میں مشاعرہ نہ صرف ہمارے لیے بل کہ این۔ای۔ڈی کالج کے لیے ایک تاریخی واقعہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔
یہ انٹرویو یہاں پر ختم ہوگیا، لیکن قارئین کی دل چسپی کے لیے میں چند معروضات اور پیش کرنا چاہوں گا۔
مشاعرے میں جانے کے لیے دو گاڑیاں جوش صاحب کے گھر سے واپس آچکی تھیں اور خالی ہاتھ لوٹی تھیں۔ لوگ جوش صاحب کو سننے کے لیے بے چین، لیکن جوش صاحب کا پتا ہی نہیں تھا۔
اب میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ میں خود جوش صاحب کو لینے جائوں۔ یہاں پنڈال میں میں نے دلاورفگار صاحب سے درخواست کی، جب تک میں نہیں آتا آپ حاضرین کو مصروف رکھیں اور نوازتے ہیں۔ جب گاڑی کالج سے باہر نکل رہی تھی تو مائیک پر فگار صاحب نے نئی نظم چھیڑ دی تھی:
کل رات اک گدھے سے ملاقات ہوگئی
ٹائم تو بے تکا تھا مگر بات ہوگئی
میں گاڑی تیز دوڑاتا ہوا آخرکار رات ڈیڑھ بجے جوش صاحب کے گھر کریم آباد پہنچ گیا۔ باہر کا دروازہ جو لو ہے کا تھا اسے بجایا۔ اندر سے کتّے کے بھونکنے کی آوازیں آتی رہیں۔ کافی دیر بعد ایک صاحب نمودار ہوئے۔ یہ جوش صاحب کے داماد تھے۔ میں نے عرض کیا کہ میرا جوش صاحب سے وعدہ تھا اور میں انہیں لینے آیا ہوں۔ فرمانے لگے کہ آپ کی طرف کے دو حضرات اور بھی آئے تھے لیکن جوش صاحب نیچے نہیں اترے۔ اگر انہوں نے وعدہ کیا تھا تو خود بخود نیچے آجاتے۔ ان سے میری گفتگو شروع ہوئی۔ فرمانے لگے، تھوڑا انتظار کرلیں۔ شاید نیچے آجائیں۔ بمشکل انہوں نے کتے کو چپ کرایا۔
اسی دوران میں نے گھڑی دیکھی ۔ ڈیڑھ بج رہے تھے رات کے۔ میں نے عرض کی کہ آپ ہی کچھ کریں ۔ فرمانے لگے آپ خود ہی اوپر جاکر لے آئیں، مجھ میں ہمت نہیں۔ میں مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق پہلی منزل پر جوش صاحب کے کمرے کے دروازے پر پہنچا۔ دروازہ پہلے آہستہ پھر ذرا زور سے اور تیسری بار زیادہ زور سے کھٹکھٹایا۔ شکرالحمدﷲ اندر سے آواز آئی۔ ذرا صبر کیجیے۔ اور تھوڑی دیر بعد چرچراہٹ کے ساتھ دروازہ کھلا۔ جوش صاحب سفید شیروانی میں ملبوس شیروانی کے بٹن لگاتے ہوئے نمودار ہوئے۔ ایک ہاتھ میں دیوان تھا۔ دیوان میری طرف بڑھایا اور فرمایا،’’لیجیے، صاحبِ کتاب ہوجائیے۔‘‘
اور یوں یہ شاعر، الفاظ کا بادشاہ اور اردو ادب کا شہنشاہ مشاعرے میں شرکت کے لیے روانہ ہوا۔
پنڈال میں پہنچتے ہی شور مچ گیا۔ جوش آگئے، جوش آگئے۔ جوش صاحب پرانی تہذیب اور روایات کے نہ صرف دل دادہ تھے بلکہ امین بھی تھے۔ لہٰذا داد کے طور پر تالیوں کے استعمال سے انہیں سخت نفرت تھی۔ مشاعرے کے ناظم راغب مرادآبادی نے یہ بات جوش صاحب کو مائیک پر بلانے سے پہلے سامعینِ مشاعرہ کے گوش گزار کردی تھی۔ اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ جوش صاحب کے پہلے مصرعے کو اٹھانا لازمی ہے۔ پھر جب جوش صاحب کو دعوت کلام راغب مرادآبادی نے دی تو ساتھ ہی اس بات کا خیال آگیا کہ مصرع اٹھانا ہے۔ جوش صاحب نے پورے پنڈال پر نظر دوڑائی۔ ایک طرف خواتین کا جم غفیر اور دوسری طرف حضرات کا۔ خواتین کے پنڈال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
اس سِن میں بھی اٹھتی ہیں حسینوں پہ نگاہیں
اب بھی یہ تمنا ہے ملیں پھول سی باہیں
اور داد کے ٹوکرے فضا میں برستے رہے۔ اور پھر ان کی مشہورِزمانہ نظم گلبدنی کے اشعار جوش صاحب کے منہ سے ادا ہوتے رہے اور سامعین کیا گلبدنی، گلبدنی، گلبدنی ہے۔ ہر رباعی کے بعد باآوازِ بلند دہراتے رہے۔ نعرے گونجتے رہے۔ تاریخ رقم ہوتی رہی۔