ڈھائی ہزار سال قبل چین میں سون تسی نامی جرنیل گزرا ہے۔ یہ جنگ وجدل کی حکمت عملی بنانے کا ماہر تھا۔ اس نے جنگی چالوں پر ایک کتاب ’’آرٹ آف وار‘‘ لکھی جس کا مطالعہ آج بھی ماہر جنگی امور بصدشوق کرتے ہیں۔ اسی سون تسی کا قول ہے: ’’بہترین دفاع یہ ہے کہ آپ اپنی قوت سے آگاہ ہوں۔ دشمن آپ کے متعلق کیا سوچتا ہے، یہ ثانوی بات ہے۔‘‘
پچھلے دنوں ’’آئیڈیاز 2014ء‘‘ کے شاندار انعقاد سے ثابت ہو گیا کہ پاک افواج کی قیادت اپنی عسکری قوتوں کے بارے میں پوری طرح باخبر ہے۔ یہی نہیں، افواج پاکستان سے منسلک ہر افسر‘ جوان‘ سائنس دان‘ انجینئر اور ہنرمند ہمہ وقت کوشش کرتا ہے کہ اپنی عسکری صلاحیتوں کو بہتر سے بہتر بنایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنا دفاع مضبوط بنا کر ہی دنیا میں آن ،بان ،شان سے رہ سکتے ہیں۔
سون تسی مزیدکہتا ہے:’’ ایک بہترین جرنیل دو خوبیاں ضرور رکھتا ہے: جب وہ حملہ کرے تو دشمن کو سمجھ نہ آئے کہ کس کا دفاع کیا جائے؟ اور جب وہ دفاع کرے تو دشمن کی سمجھ میں نہ آئے کہ کہاں حملہ کیا جائے۔‘‘
ہم اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ ہمارا دین جارحیت کی اجازت نہیں دیتا، ایک اسلامی فوج صرف دفاعی جنگ لڑ سکتی ہے۔ اسی لیے دفاع کو قوی ترین بنانا اسلامی مملکت کی افواج کا مطمع نظر ہونا چاہیے۔ امریکی مسلمانوں کے مشہور سیاہ فام رہنما میلکم ایکس کا کہنا ہے :’’اپنی حفاظت کے لیے لڑائی کو میں تشدد و فساد نہیں ذہانت وتدبر سمجھتا ہوں۔‘‘ اسی طرح قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے: ’’جہاں تک ہو سکے (فوج کی جمعیت کے) زور اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے (دشمن کا مقابلہ کرنے کی خاطر ) مستعد رہو کہ یوں دشمنوںپر تمہاری ہیبت بیٹھی رہے (اور وہ حملہ کرنے کی جرأت نہ کر سکیں)۔ (سورۂ الانفال‘ 60)
’’آئیڈیاز‘‘ ایک قومی عسکری نمائش ہے۔ اس میں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے اسلحہ ساز ادارے اپنے اپنے ہتھیار برائے نمائش رکھتے ہیں۔ ایسی پہلی نمائش 2000ء میں منعقد ہوئی تھی۔ یہ پاکستانی عسکری ادارے‘ ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن کے تحت لگتی ہے۔ آٹھویں نمائش 1 تا 4 دسمبر کراچی کے ایکسپو سنٹر میں منعقد ہوئی۔یہ اب تک ہونے والی تمام نمائشوں میں کامیاب ترین اور سب سے بڑی نمائش ثابت ہوئی۔ اس نے دنیا والوں پر آشکار کر دیا کیا کہ پاکستان ایک ابھرتی ہوئی عسکری طاقت بن چکا جو بہ سرعت مقامی طور پر نہایت معیاری بھاری و ہلکے ہتھیار تیار کرنے لگا ہے۔
اس ساتویں نمائش میں 47 ممالک کے تین سو سے زائد اسلحہ ساز اداروں نے اپنے سٹال لگائے۔ اسی نمائش میں پہلی بار روس کے اسلحہ ساز ادارے بھی شامل ہوئے۔ سب سے بڑا سٹال دوست ملک چین کے اداروں نے لگایا۔ ترکی کی اسلحہ ساز کمپنیوں کا سٹال دوسرے نمبر پر رہا۔ ان دونوں ممالک کی عسکری مصنوعات اتنی زیادہ تھیں کہ انھوں نے پورے ہال بک کرائے۔
آئیڈیاز 2014ء میں ملکی و غیرملکی اداروں نے ہر قسم کا اسلحہ بغرض نمائش پیش کیا۔ اس میں لڑاکا و جنگی ہوائی جہاز‘ آبدوزیں‘ ٹینک‘ توپیں‘ بکتربند گاڑیاں‘ مشین گنیں‘ رائفلیں اور دوران جنگ کام آنے والے الیکٹرونک آلات شامل تھے۔نمائش میں وطن عزیز کے سبھی سرکاری و نجی اسلحہ ساز اداروں بشمول پی او ایف اور ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا نے اپنے ساختہ ہتھیار پیش کیے۔ بیرون ممالک سے آنے والے ماہرین عسکریت‘ فوجی افسر اور حکومتی نمائندے ان میں گہری دلچسپی لیتے پائے گئے۔
یاد رہے، پاکستانی اسلحہ ساز ادارے طویل عرصہ افواج پاکستان ہی کو مختلف ہتھیار فراہم کرتے رہے ہیں۔ چونکہ افواج پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی عسکری قوت ہیں، اس لیے انہیں درکار اسلحے کی مانگ پوری کرنا معمولی بات نہیں۔ لیکن اب پچھلے چند برس سے پاکستانی اسلحہ ساز ادارے اپنے ہتھیار برآمد بھی کر رہے ہیں۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ محض ایک برس میں پاکستانی ہتھیاروں کی برآمد دوگنا بڑھ چکی۔
پاکستانی اسلحہ ساز اداروں میں بننے والے ہتھیار مضبوطی‘ پائیداری اور معیار میں امریکی و جرمن ہتھیاروں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی کم قیمت ہونا ہے۔ اس واسطے ترقی پذیر ہی نہیں ترقی یافتہ ممالک بھی اب پاکستانی اسلحہ ساز اداروں میں بنے ہتھیار خرید رہے ہیں۔ یہ اس امر کی علامت ہے کہ پاکستان ساختہ اسلحہ ان کے معیار پر پورا اترا۔آج پاکستان ساختہ اسلحہ چالیس سے زیادہ ممالک کو ایکسپورٹ ہورہا ہے اور اس کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہمیں پاکستانی ہنرمندوں کی بہترین صلاحیتوں پر ناز ہے اور ان پر فخر بھی۔
پی او ایف (پاکستان آرڈیننس فیکٹریز) میں جرمن کمپنیوں کی لائسنس یافتہ مشین گن‘ ایم جی 3 (Rheinmetall MG 3)اور سب مشین گن، ایم پی 5 (Heckler & Koch MP5)تیار ہوتی ہیں۔ (آخرالذکر پاکستان میں جی 3 (G3) کہلاتی اور پاک فوج کی مروجہ خودکار رائفل ہے) پی او ایف میں تیار شدہ دونوں ہتھیاروں کے بہترین معیار کا اندازہ اس حقیقت سے لگایئے کہ خود جرمن فوج کو ان گنوں کی ضرورت پڑے تو وہ پاکستان سے خریدتی ہے۔ جبکہ حال ہی میں امریکی فوج نے بھی 400 ایم پی 5 گنیں خریدی ہیں۔
دفاعِ پاکستان کے حوالے سے پاکستانی حکومت اور افواج میں جنم لیتی ایک نئی سوچ بھی قابل ذکر ہے۔ وہ یہ کہ غیرملکی اسلحے پر کم سے کم انحصار کیا جائے۔ اس لیے افواج پاکستان اور حکومت کی کوشش ہے کہ اپنے اسلحہ ساز اداروں کو ’’سٹیٹ آف دی آرٹ‘‘ سہولیات سے مزین کیا جائے۔ نیز حکومت پاکستان یہ پالیسی بنانا چاہتی ہے کہ اسی غیرملکی کمپنی سے اسلحہ خریدا جائے جو ہتھیار بنانے کے سلسلے میں ٹیکنالوجی بھی پاکستانی اداروں کو ٹرانسفر کر سکے۔یاد رہے ،چین اور بھارت کے بعد پاکستان دنیا میں اسلحے کا تیسرا بڑا خریدار ہے۔ پاکستان فی الوقت بیرون ممالک سے خریدے گئے اسلحے کا 50 فیصد حصہ چینی کمپنیوں جبکہ 23 فیصد امریکی اسلحہ ساز اداروں سے خریدتا ہے۔اگر پاکستانی اسلحہ ساز ادارے جدید ترین لڑاکا وجنگی ہوائی/ بحری جہاز‘ ٹینک‘ ڈرون‘ توپیں وغیرہ بنانے لگیں تو یقینا ہم اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بچا سکیں گے۔
بھارت کی بھی کوشش ہے کہ بھارتی افواج کو درکار بیشتر اسلحہ ملک ہی میں تیار کیا جائے۔ پاکستانی اسلحہ ساز اداروں کو یہ برتری حاصل ہے کہ وہ اپنے ہتھیار دوست اسلامی ممالک کو فروخت کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں یہ خوش خبری سننے کو ملی ہے کہ اواخر 2015ء تک الخالد ٹینک کا نیا ورژن، الخالد دوم تیار ہوجائے گا۔ یہ پہلے والے کی نسبت زیادہ جدید آلات سے لیس ہوگا۔
وطن عزیز کے بڑے اسلحہ ساز ادارے
جب پاکستان معرض وجود میں آیا‘ تو ہندوستان میں انگریزوں نے ’’16‘‘ اسلحہ ساز کارخانے بنا رکھے تھے۔ لیکن وہ سبھی بھارت کے حصے میں آئے۔ اسی لیے 1947ء میں پاک افواج اسلحے کی شدید کمی سے دوچار تھیں۔ اس تکلیف دہ اور پریشان کن صورت حال کے باوجود نوزائیدہ مملکت کے رہنماؤں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ دراصل اس وقت سبھی لوگ جذبہ حب الوطنی سے سرشار تھے اور نئے وطن کی خاطر تن من دھن وارنے کو تیار!
اکتوبر 1947ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان نے واہ کینٹ میں اسلحہ ساز کارخانے کے قیام کی منظوری دی۔ چار ورکشاپوں پہ مشتمل یہ کارخانہ دسمبر 1951ء سے کام کرنے لگا۔ اس کو منظم کرنے اور چلانے میں ان فوجی افسروں و جوانوں نے بنیادی کردار ادا کیا جو پاکستان کو مضبوط و طاقتور ملک بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے پاکستان کی خاطر بے مثال قربانیاں دیں اور اپنی صلاحیتیں نئی مملکت کی تعمیر و ترقی میں صرف کر دیں۔ یہ انہی افسروں اور جوانوں کی شبانہ روز محنت و مشقت کا نتیجہ ہے کہ بیشتر سرکاری اداروں کے برعکس آج عسکری ادارے ہر لحاظ سے بین الاقوامی معیار پر پورے اترتے اور ہمیں فخر و طمانیت کا احساس بخشتے ہیں۔
دسمبر 1951ء میں جو کارخانہ محض چار ورکشاپوں پر مشتمل تھا‘ آج چودہ وسیع و عریض کارخانوں پر مشتمل انڈسٹریل کمپلیکس بن چکا اور ’’پی او ایف‘‘ (Pakistan Ordnance Factories) کہلاتا ہے۔ یہ متفرق تحقیقی‘ تعلیمی و کاروباری اداروں کا بھی مالک ہے۔ اس صنعتی سلطنت سے چالیس ہزار سے زائد افراد منسلک ہیں۔ اور یہ کمپلیکس افواج پاکستان کو درکار گولہ بارود اور چھوٹے ہتھیاروں کی ’’80 فیصد‘‘ ضروریات پوری کرتا ہے۔ پی او ایف کے کارخانوں میں جنگی طیاروں‘ ٹینکوں‘ توپوں اور مشین گنوں کے لئے گولے و گولیاں بنتی ہیں۔ نیز مشین گنیں و رائفلیں تیار کی جاتی ہیں۔
ملازمین کی تعداد کے لحاظ سے وطن عزیز کا دوسرا بڑا اسلحہ ساز ادارہ ’’ایئرویپن کمپلیکس‘‘(Air Weapons Complex) ہے ۔اس کمپلیکس کے کچھ ادارے واہ اور بقیہ کامرہ میں واقع ہیں۔ ان اداروں سے 25 تا30 ہزار سائنس داں‘ انجینئر وغیرہ منسلک ہیں۔
اس ادارے کی بنیاد1992ء کے اوائل میں پڑی۔ مقصد یہ تھا کہ یہاں ایٹم بم لے جانے والوں میزائیلوں اور طیاروں کی ہوائی حرکیات(Aerodynamics) پر تحقیق ہوسکے۔ رفتہ رفتہ ادارے میں ائیربورن پوزیشنگ اینڈ نیوی گیشن اور گلوبل پوزیشنگ کے آلات‘ ہوائی جہاز کے بم‘ میزائل اور ڈرون تیار ہونے لگے۔اس ادارے میں ہونے والی تحقیق خفیہ ہے۔ بہر حال پاک فوج اسی ادارے کے تعاون سے اپنا آئی ایس ٹی اے آر (Intelligence, surveillance, target acquisition, and reconnaissance)سکواڈ ’’براوؤ‘‘ (Bravo)تیار کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ یونٹ میدان جنگ سے متعلق تمام امور کو ایک جگہ یکجا کر دیتا ہے تاکہ انہیںبہ آسانی و منظم طور پر انجام دیا جا سکے۔ ایئرویپن کمپلیکس میں ہوائی جہاز سے چھوڑے جانے والے 6 تا 1000 کلو وزنی بم بنتے ہیں۔ سری لنکن فوج نے انہی بھاری بھرکم پاکستانی بموں کی مدد سے تامل گوریلوں کی عسکری تنصیبات کا صفایا کر ڈالا تھا۔
وطن عزیز کا بہ لحاظ تعداد ملازمین تیسرا بڑا اسلحہ ساز ادارہ ’’پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس‘‘(Pakistan Aeronautical Complex) ہے۔ یہ بھی چار بڑے کارخانوں پر مشتمل انڈسٹریل کمپلیکس ہے جس کی بنیاد 1971ء میں چین کے تکنیکی تعاون سے رکھی گئی۔ یہ ادارہ اٹک شہر کے قریب کامرہ نامی مقام پر واقع ہے۔
اوائل میں ایروناٹیکل کمپلیکس میں پاک فضائیہ کے مختلف طیاروں کی اوورہالنگ ہوتی تھی۔ بعدازاں یہاں پاک افواج کے لیے طیارے اور ان میں استعمال ہونے والے آلات (ایوانکس سسٹمز) بنائے جانے لگے۔
آج اس کمپلیکس سے 10 ہزار سے زائد سائنس داں‘ انجینئر اور دیگر ہنر مند وابستہ ہیں۔ یہ پاکستانی جوہر قابل طیاروں اور ایوانکس سسٹمز کی ڈیزائنگ و تیاری میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا اور اپنے پرایوں سے داد پاتا ہے۔وطن کی حفاظت روزمرہ کاموں کا پہلا اصول ہے۔
پی اے سی کے ہنر مند چین کے تعاون سے جے ایف۔ 17 تھنڈر ملٹی رول طیارہ اور قراقرم ۔8 تربیتی جیٹ طیارہ تخلیق کر چکے۔ نیز ہوا بازی سکھانے کے لیے مشاق طیارہ بھی بنایا گیا۔ کمپلیکس کے کارخانوں میں ایف 16‘ میراج اور ایف 7 طیاروں کے آلات بھی بنتے ہیں۔ مزید براں پی اے سی میں ’’ابابیل‘‘ اور ’’باز‘‘ ڈرون بھی بن رہے ہیں جو نشانہ بازی اور جاسوسی میں کام آتے ہیں۔ ایوانکس پروڈکشن فیکٹری میں ریڈار اور دیگر فضائی سسمٹرز تخلیق ہوتے ہیں۔
’’ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا‘‘(Heavy Industries Taxila)وطن عزیز کا چوتھا بڑا اسلحہ ساز کمپلیکس ہے۔ یہ نو چھوٹے بڑے کارخانوں اور تحقیقی اداروں پر مشتمل ہے جن میں سات ہزار سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ اس کا قیام 1971ء میں چین کے اشتراک سے عمل میں آیا۔ مدعا یہ تھا کہ پاک فوج کے ٹینکوں کی مرمت واوورہالنگ کی جا سکے۔ وطن عزیز کے دیگر اسلحہ ساز کارخانوں کے ماند یہ بھی بتدریج پھل پھول کر عظیم الشان عسکری کمپلیکس بن گیا۔
آج اس کمپلیکس میں الخالد ٹینک‘ ضرار ٹینک‘ پینٹر توپ (بہ اشتراک ترکی) اور طلحہ‘ سعد‘سخب‘ الخمرہ‘ معاذ‘ معوذ ‘ الحدید‘ القصوی (بکتر بند گاڑیاں) تیار ہو رہی ہیں۔ نیز نئی توپوں، بکتر بند گاڑیوں اور الخالد ٹینک دوم کی تیاری پر کام جاری ہے۔ ادارے کی مکینیکل فیکٹری میں کارخانوں کی مشینری‘ بوائلر‘ کرینیں‘ انجن وغیرہ بھی تیار ہوتے ہیں۔
’’کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس لمیٹڈ‘‘ (Karachi Shipyard & Engineering Works Limited)بہ لحاظ تعداد ملازمین پانچواں بڑا قومی اسلحہ ساز ادارہ ہے۔اسے دوسرے قدیم ترین پاکستانی اسلحہ ساز ادارہ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ کراچی بندرگاہ میں واقع اس ادارے کی تعمیر 1951ء میں شروع ہو کر 1956ء میں ختم ہوئی۔ 71ایکڑ رقبے پر پھیلے اس ادارے سے چار ہزار سے زائد ملازمین منسلک ہیں۔
یہ ادارہ بحری جہاز بنانے کے لیے کھڑا کیا گیا۔ ادارے میں کئی تجارتی بحری جہاز‘ ایف22پی فریگیٹ‘ اگوسٹا 90 بی آبدوز‘ کوسموس کلاس ایم جی 110 منی آبدوز‘ جلالت پٹرول بوٹ اور لاڑکانہ پٹرول بوٹ بنا چکا۔ پاک بحریہ کے لیے درکار مختلف اقسام کے غیر جنگی بحری جہاز بھی کراچی شپ یارڈ میں بنتے ہیں۔
مرعوب کُن نئے پاکستانی ہتھیار
آئیڈیاز 2014ء میں وطن عزیز کے اسلحہ ساز اداروں نے نئے ہتھیار بھی متعارف کرائے۔ ان ہتھیاروں کو مہمانان گرامی اور پاکستانیوں نے ذوق و شوق سے دیکھا اور ہنرمندوں کو داد دی۔ ان نئے ہتھیاروں میں ’’تکبیر‘‘، ’’پی او ایف آئی‘‘ اور ’’عضب‘‘ کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔
تکبیر ایک سمارٹ یا گائیڈڈ بم ہے۔ سمارٹ بم میں گائیڈڈ یا راہنما نظام نصب ہوتا ہے۔ اس نظام کو مصنوعی سیارے (سیٹلائٹ)، ریڈیو، انفراریڈ یا لیزر کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اولیّں سمارٹ بم دوسری جنگ میں تیار کیے گئے۔ ان کا فائدہ یہ ہے کہ انہیں عین نشانے پر گرایا جاسکتا ہے۔ یوں سول جانی و مالی نقصان کم سے کم ہوتا ہے، جبکہ ٹارگٹ بھی صحیح سالم نہیں بچتا۔
تکبیر سیٹلائٹ سے کنٹرول کیا جانے والا سمارٹ بم ہے۔ یہ 250 کلو تک بارود اسّی تا ایک سو کلو میٹر دور تک لے جاسکتا ہے۔ اسے طیارے کے ذریعے چھوڑا جاتا ہے۔ طیارے سے الگ ہوتے ہی یہ بم اپنے ننھے منے پر پھیلا لیتا ہے۔ پروں کا فائدہ یہ ہے کہ یوں بم شکن میزائل سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ تکبیر سمارٹ بم وطن عزیز کی نجی اسلحہ ساز کمپنی، گلوبل انڈسٹریل ڈیفنس سلوشنز (Global Industrial Defence Solutions) کے ہنرمندوں کا شاہکار ہے۔
سمارٹ بم اور میزائل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے ذریعے دشمن کے علاقے میں داخل ہوئے بغیر اس کی عسکری تنصیبات تباہ کرنا ممکن ہے۔امید ہے کہ پاکستانی ہنر مند ’’تکبیر‘‘ کو بہتر سے بہتر بنانے کی سعی جاری رکھیں گے تاکہ اس کا معیار عالمی سطح کے مطابق بنایا جاسکے۔ فی الوقت بہترین سمارٹ بم امریکا تیار کررہا ہے۔
یاد رہے، بھارت مقامی طور پر لیزر گائیڈڈ سمارٹ بم ’’سدرشن‘‘ (Sudarshan)تیار کرچکا۔ لیزر گائیڈڈ سمارٹ بم سیٹلائٹ گائیڈڈ کی نسبت زیادہ تیز رفتار اور درست نشانے پر بیٹھتا ہے۔ تاہم اس کی حد مار زیادہ نہیں ہوتی۔ اسی لیے سدرشن صرف 9 کلو میٹر دور تک مار رکھتا ہے۔ اس پر 450 کلو وزنی بارود لادنا ممکن ہے۔ بھارتی ہنر مند ایسے لیزر گائیڈڈ بم بنانے کی کوشش کررہے ہیں جو 100 کلو میٹر دور تک جاسکے۔
بھارتیوں کی ایک اور کوشش بھی قابل ذکر ہے۔ وہ ’’ای بم‘‘(Electromagnetic Bomb) بنانا چاہتے ہیں۔ یہ ای بم پھٹ کر بارود نہیں الیکٹرومیگنیٹک شعاعیں خارج کرتا ہے۔ ان کی وجہ سے مخصوص علاقے میں بجلی سے کام کرنے والی ہر برقی شے ناکارہ ہوجاتی ہے مثلاً وائرلیس، کمپیوٹر، موبائل اور ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور توپوں میں نصب الیکٹرونکس آلات وغیرہ۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں استعمال کرنے کی خاطر ای بم بنانا چاہتے ہیں تاکہ مجاہدین کا کمونیکشن نیٹ ورک ختم کرسکیں۔ امریکا یہ بم تیار کرچکا۔
’’پی او ایف آئی‘‘ (POF Eye)خاص قسم کا ہتھیار ہے۔ اس کی مدد سے خود سامنے آئے بغیر چھپے دشمن کو نشانہ بنانا ممکن ہے۔اس ہتھیار میں ہائی ریزولیشن کیمرہ، لیزر سائٹ ( laser sight) اور رنگین ایل سی ڈی مانیٹر لگا ہے۔
اس ہتھیار کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی نالی دائیں یا بائیں 75 ڈگری تک مڑ سکتی ہے۔ چناں چہ آڑ یا دیوار کے پیچھے بیٹھ کر دائیں یا بائیں چھپے بیٹھے دشمن کو کیمرے کی مدد سے دیکھ کر نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
یہ ہتھیار بنیادی طور پر غیر روایتی جنگ میں استعمال ہوتا ہے۔ پی او ایف کے ہنرمندوں نے بھی اسے دہشت گرد مارنے کے لیے تیار کیا جو عمارتوں یا ٹھکانوں میں چھپ کر لڑتے ہیں۔ اس کی بدولت پوشیدہ دشمن کو ٹھکانے لگانا بہت آسان ہوچکا۔ درج بالا قسم کا پہلا ہتھیار ’’پریسیکوپ رائفل‘‘ (Periscope rifle) پہلی جنگ عظیم میں ایجاد ہوا۔ اس رائفل میں پریسیکوپ لگی ہوتی، یوں خندق میں بیٹھا فوجی سامنے آئے بغیر دشمن کو دیکھ لیتا۔ اسی اصول کی بنیاد پر اسرائیلی سائنس دانوں نے اپنی مشہور رائفل، ’’کارنر شوٹ‘‘ ایجاد کی۔ اب اسرائیل کے علاوہ صرف چین، پاکستان، ایران اور جنوبی کوریا یہ خاص ہتھیار تیار کررہے ہیں۔
پی او ایف کے ہنرمندوں کی مہارت کو داد دیجیے کہ انہیں نے صرف 6 ماہ کی مدت میں یہ پیچیدہ ہتھیار کو ڈیزائن کرلیا جس کی تیاری میں دوسروں نے کئی برس لگائے۔ یہی نہیں، پی او ایف اب ہتھیار کے تین ورژن بنا رہا ہے: ایک پستول ،دوسرا سب مشین گن اور تیسرا دستی بم چھوڑنے والا۔
دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ہی پی او ایف کے قابل قدر ماہرین نے ایک سنائپر رائفل ’’عضب‘‘ بھی تیار کرلی۔ یہ 800 میٹر دور کھڑے دشمن کو سو فیصد درستی سے نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس کی حد مار چار کلو میٹر ہے۔ یہ سنائپر رائفل ’’نائٹ وژن ٹیکنالوجی‘‘ کی بھی حامل ہے تاکہ رات کو بھی کام آسکے۔
یاد رہے، پی او ایف میں جرمنی کی مشہور سنائپر رائفل، ہیلکر اینڈ کوخ پی سی جی 7 بھی لائسنس پر پی ایس آر 90- (PSR-90)کے نام سے بنتی ہے۔ مگر اب پاک فوج اور دیگر پاکستانی سکیورٹی فورسز پاکستان ساختہ ’’عضب‘‘ سنائپر رائفل بھی استعمال کرسکیں گی۔ اس رائفل کی گولی مشین گن سے نکلی گولی جتنی قوت رکھتی ہے۔ پی ایس آر90- کی مؤثر حد مار بھی 800 میٹر ہے۔
تاہم دشمن سے مقابلہ کرنے کی خاطر ضروری ہے کہ پی او ایف کے ماہرین زیادہ مؤثر حد والی سنائپر رائفل ایجاد کریں۔ بھارتی اسلحہ ساز کمپنی 2300 میٹر مؤثر حد مار رکھنے والی سنائپر رائفل، ودھاونسک (Vidhwansak) تیار کرچکی۔ یہ ’’اینٹی۔ میٹریل رائفل‘‘ بھی ہے، یعنی سرحد پر بنی دشمن کی چوکیاں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور چین کے ساتھ لگنے والے علاقوں میں بھارتی فوج نے ودھاونسک چلانے والے سنائپر رکھے ہوئے ہیں۔
غیر ملکی مہمانوں نے تکبیر، پی او ایف آئی اور عضب سمیت تمام پاکستانی ہتھیاروں میں دلچسپی لی۔ انہوں نے خصوصاً جے ایف 17- اور الخالد ٹینکوں کی خصوصیات کا جائزہ لیا۔ پاکستانی ہتھیاروں کی ایک اہم خاصیت معیاری ہونے کے باوجود ترقی یافتہ ممالک کے اسلحے سے سستا ہونا ہے۔ اسی لیے ترقی پذیر ممالک کے نمائندے پاکستانی ہتھیار خریدنے پر غور و فکر کرتے پائے گئے۔
2020ء تک 200 ایٹم بم
ماضی کے پاکستانی حکمران طبقے سے کئی غلطیاں سرزد ہوئیں، مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سبھی حکمرانوں نے ایٹمی منصوبہ جاری رکھ کر پاکستان کا دفاع نہایت مضبوط بنادیا۔ اور اب امریکہ کے مشہور ترین تھنک ٹینک، کونسل آن فارن ریلیشنز نے خبر دی ہے کہ پاکستان کا ایٹمی منصوبہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ فعال ہے۔
کونسل سے وابستہ تعلیمی ادارے، جارج مین یونیورسٹی (ریاست ورجینیا) کے محققین کی تحقیق سے انکشاف ہوا کہ پاکستان کا ایٹمی منصوبہ سب سے زیادہ متحرک ہے۔ تحقیق کی رو سے پاکستان 2020ء تک ’’دوسو سے زائد‘‘ ایٹم بم تیار کرلے گا۔ جبکہ اس وقت تک بھارت کے پاس ’’110 ایٹم بم‘‘ موجود ہوں گے۔
پاکستان کا ایٹمی منصوبہ فعال ہونے کی وجہ نمایاں ہے… بھارت بہ سرعت دنیا بھر سے اربوں روپے کے جدید ترین ہتھیار خرید رہا ہے۔ ان ہتھیاروں میں ففتھ جنریشن والے ملٹی رول طیارے، ٹینک، توپیں، آبدوزیں اور جنگی بحری جہاز شامل ہیں۔ پاکستان بھارتیوں کے برعکس اربوں روپے اسلحے کی خریداری پر خرچ نہیں کرسکتا، اسی لیے مذید ایٹم بم بناکر حساب برابر رکھنے کی سعی جاری ہے۔
پاکستانی سائنس دانوں اور ہنرمندوں کی توجہ کا دوسرا مرکز ڈلیوری سسٹم ہیں جن کے ذریعے ایٹم بم دشمن کی سرزمین پر پھینکے جائیں گے۔ فی الحال پاکستان بمبار طیارے، بلاسٹک میزائل اور کروز میزائل کے ذریعے پھینکے جانے والے ایٹم بم تیار کرچکا۔ اب پاکستانی ماہرین کی سعی ہے کہ میزائلوں کی رفتار زیادہ سے زیادہ بڑھائی جائے۔ وجہ یہ کہ بھارتی میزائل شکن نظام بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ لہٰذا پاکستانی میزائلوں کی رفتار اتنی زیادہ تیز ہونی چاہیے کہ کوئی بھارتی میزائل شکن انہیں چھو بھی نہ سکے۔
نیا اسلحہ بنانے کی یہ دوڑ یقینا غیر عقلی و غیر اخلاقی ہے، مگر یاد رہے، اس کا آغاز بھارت نے کیا۔ اگر پاکستان نے دلیری و ثابت قدمی سے یہ دوڑ جاری نہ رکھی تو خاکم بدہن بھارت پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
جے ایف۔17…نمائش کا ہیرو
آئیڈیاز 2014ء میں مہمانوں اور میزبانوں کی توجہ کا مرکز پاکستان و چین ساختہ ملٹی رول طیارہ، جے ایف۔17 بنا رہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام جدید ملٹی رول طیاروں میں سب سے سستا ہے۔ اس لیے مصر، جنوبی افریقہ اور نائیجیریا جے ایف17- خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔پچھلے دنوں پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کے سربراہ، ایئرمارشل جاوید احمد نے قوم کو یہ خوش خبری سنائی کہ مقامی طور پر تیار کردہ ’’50‘‘ جے ایف17- پاک فضائیہ میں شامل ہوچکے۔ یاد رہے، پاک فضائیہ اپنے ہوائی بیڑے میں 250 تک جے ایف17- شامل کرنا چاہتی ہے۔ فی الوقت ان کی تعداد 90 سے زیادہ ہے۔ یہ آئندہ کئی برس تک پاک فضائیہ کا مرکزی لڑاکا و بمبار (ملٹی رول) طیارہ رہیگا۔جے ایف17- پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس اور چین کے اسلحہ ساز ادارے، چنگدو ایئرکرافٹ انڈسٹری گروپ کی مشترکہ تخلق ہے۔ اس ایک جدید طیارے کی قیمت ڈھائی کروڑ ڈالر ہے۔ جبکہ جے ایف 17- جیسی خصوصیات رکھنے والے بھارتی ملٹی رول طیارے ’’ہال تیجاس‘‘ کی قیمت تین کروڑ بیس لاکھ ڈالر ہے۔ سستا ہونے کے باوجود ماہرین عسکریات کی رو سے جے ایف 17- اپنے بھارتی معاصر سے کارکردگی میں بہتر ہے۔پاکستانی و چینی ادارے جے ایف17- میں نت نئے آلات متعارف کراتے رہتے ہیں۔ اسی لیے طیارے کا ہر ورژن پہلے سے عمدہ ہوتا ہے۔ پاک فضائیہ چنگدو گروپ سے جے 10- بھی خریدنا چاہتی ہے تاہم سرمائے کی کمی آڑے رہی ہے۔ جے10- اور جے ایف17- میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر زیادہ رفتار یعنی 2.2 ماخ رکھتا ہے جبکہ آخر الذکر کی رفتار 1.6 ماخ ہے۔
دور حاضر کی جنگ میں تیز ترین طیاروں نے اہمیت اختیار کرلی ہے کیونکہ ایک طیارہ جتنا تیز ہو، وہ اتنی ہی جلد اپنے ہدف پر پہنچے گا۔ یوں دشمن کے ہتھیار اس کے سامنے بے اثر رہیں گے۔ فی الوقت روس ساختہ مگ 31- اور مگ25- تیز ترین ملٹی رول طیارے ہیں۔
روس کی بھی شمولیت
آئیڈیاز 2014ء کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں روس کی اسلحہ ساز کمپنیاں بھی پہلی بار شریک ہوئیں۔ پچھلے چند ماہ سے روس اور پاکستان کے عسکری تعلقات تاریخی موڑ لے چکے۔ دونوں کے مابین دفاعی معاہدہ ہوا۔ روس نے پاکستان کو اسلحہ فروخت کرنے کی پابندی بھی ہٹالی ہے۔ پھر یہ خوش خبری آئی کہ روس ہمیں ایم آئی35- ہیلی کاپٹر اور جے 17- میں لگنے والے آرڈی93- کلیموف جیٹ انجن براہ راست فراہم کرنے پر رضامند ہوچکا۔(پہلے وہ چین کو فراہم کرتا تھا) روسی حکومت بجلی کی کمی، انسداد منشیات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی پاکستان کی مدد کررہی ہے۔
دراصل بھارت اور مغربی ممالک کی بڑھتی قربت سپرپاور روس کو پاکستان کے قریب لے آئی۔ بھارت اور روس کے تعلقات میں دراڑ 2012ء میں پڑی جب بھارتی حکومت نے روسی مگ35- پر فرانسیسی ملٹی رول طیارے، رافیل کو ترجیح دی۔ بعدازاں بھارتیوں نے امریکہ سے اپاچی ہیلی کاپڑ خریدنے کا بھی معاہدہ کر لیا۔حال ہی میں بھارت میں متعین روسی سفیر، الیگزینڈر قدقن نے بیان دیا:
’’چین کے سخوئی27- طیارے (جو روس نے چینیوں کو فراہم کیے) رافیل کو کسی بھی مجادلے میں مچھروں کی طرح مسل ڈالیں گے۔‘‘ اس پر بھارتی میڈیا نے روسی سفیر کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا۔
گو روس کے لیے اب بھی بھارت زیادہ اہم ہے لیکن بدلتی عالمی صورت حال میں چین اور پاکستان بھی روسیوں کے لیے کہیں زیادہ اہم ہوچکے۔ خصوصاً چین اور روس کی بڑھتی دوستی ایشیا میں بھارت کو کبھی بے قابوجن نہیں بننے دے گی جو طاقت کے بل پر علاقائی سپرپاور بننا چاہتا ہے۔