ایبولا وائرس 1976ء میں سوڈان اور ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو میں پہلی دفعہ وبا کی شکل میں ظاہر ہوا۔ ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو میں ایبولا دریا کے کنارے واقع ایک گاؤں میں اس وائرس کی وباء پھیلی جہاں سے اسے ایبولا وائرس کا نام دیا گیا۔
مغربی افریقہ میں پھیلنے والی اس وائرس کی حالیہ وباء سب سے بڑی اور پیچیدہ ہے کیونکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 1976ء سے 2013ء تک 1716کیس رجسٹرڈ ہوئے۔ جبکہ حالیہ وباء میں دس ہزار سے زائد کیس رجسٹرڈ ہو چکے ہیں جن میں 4555 کی موت واقع ہو چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ایبولا سے اب تک سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک لائبیریا ہے جہاں اب تک 2705 افراد اس مرض سے ہلاک ہو چکے ہیں ۔ سیئرا لیون میں مرنے والوں کی تعداد 1281 سے جبکہ گنی میں 926 افراد ایبولا وائرس کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ نائیجیریا میں اب تک آٹھ افراد جبکہ مالی اور امریکا ایک، ایک فرد ایبولا سے مر چکا ہے ۔
ایبو لا وائرس کی پانچ اقسام ہیں جن میں سے چار اقسام انسانوں میں اس بیماری کے پھیلاؤ کا سبب بنتی ہیں ۔ ایبولا وائرس چمگادڑ سے دوسرے جانوروں اور انسانوں میں منتقل ہوتا ہے ۔ چمگادڑ اس وائرس کا قدرتی کیرئیر carrier)) ہے جو اس وائرس سے خود متاثر ہوئے بغیر اسے دوسرے جانوروں اور انسانوں میں منتقل کر دیتا ہے۔ ایبو لا وائرس خون اور دوسری رطوبتوںسے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے ۔ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں بیماری پھیلانے کا سبب بھی بنتا ہے ۔
انسانوں کے درمیان یہ وائرس جسم کی رطوبتوں ، خون، لعاب دہن، قے ، آنسو ، پسینے اور پیشاب وغیرہ سے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔ استعمال شدہ سرنجیں اور جنسی تعلقات بھی اس وائر س کے پھیلا ؤ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایبو لاوائرس انسانی جسم میں داخلے کے بعد مختلف خلیوں مثلاً خون کے خلیے، جگر کے خلیے وغیرہ پر حملہ کر دیتا ہے۔ اس وائرس کی علامات وائرس کے جسم میں داخل ہونے کے 2 دن سے لے کر21 دن کے درمیان ظاہر ہوتی ہیں ۔
ایبو لا وائرس کی ابتدائی علامات میں ، گلا درد، جسم درد، سر درد ، اسہال، قے ، خارش اور تیز بخار کا ہونا شامل ہے۔ اس کے بعد مریض کا جگر اور گردے متاثر ہو جاتے ہیں اور آخری سٹیج میں خون کی نالیوں سے خون باہر آ جاتا ہے ۔ اورخون کی کمی کی وجہ سے مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ مریض کی موت عام طور پر علامات ظاہر ہونے کے 6 دن سے لے کر 16دن کے درمیان واقع ہو سکتی ہے۔ ایبو لا وائرس کی ابتدائی علامات دوسری بیماریوں مثلاً ملیریا، نمونیہ ، ڈینگی بخار سے ملتی جلتی ہیں جن کی وجہ سے اس مرض کی مناسب تشخیص کے لئے مریض سے مناسب ہسٹری لینا بہت ضروری ہے۔
ایبو لا وائرس انسانی جسم سے باہر آ کر کسی بھی خشک جگہ پر چند گھنٹے جبکہ انسان کی رطوبتوں میں کچھ دن زندہ رہ سکتا ہے۔ ایبو لا وائرس کی لیبارٹری میں تشخیص ممکن ہے۔ اس کے لئے مختلف قسم کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں ۔ جن میں سیل کلچر سے وائرس کی علیحدگی ، وائرس کے خلاف جسم میں پیدا شدہ اینٹی باڈیز کی موجودگی ، وائرس کے جسم میں موجود RNA کی پی سی آر ٹیسٹ سے پہچان اور ELISA ٹیسٹ سے وائرس کی پروٹین کی موجودگی کو کنفرم کیا جا سکتا ہے۔
ایبو لا وائرس کے شکار افرا د کے پلیٹ لیٹس (platletes)کم ہو جاتے ہیں ۔ یہ خلئے خون کو جمنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ بیماری کی ابتدا میں خون کے سفید خلیے کم اور بعد میں زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جگر کے انزائمز بھی متاثر ہوتے ہیں ۔
ایبو لا بیماری کا ابھی تک کوئی مناسب علاج یا ویکسین تیار نہیں ہو سکی ۔ مریضوں کو ان کی علامات کے مطابق علاج فراہم کیا جاتا ہے۔ عام طور پر 7 دن سے 14دن کے اندر مریض صحت یا ب ہو جاتا ہے ۔ اینٹی وائرل میڈیسن مثلاً لیمووڈین وغیرہ کچھ حد تک اس بیماری کے مریضوں کے لئے مددگار ثابت ہوتی ہیں ۔ اس کے علاوہ اس بات پر ریسرچ جاری ہے کہ ایبولا کے شکار افراد کو ان افراد کا خون لگایا جائے جو اس بیماری کا شکار ہو کر صحت یاب ہو چکے ہیں تاکہ ان کے جسم سے ایبولا کے خلاف اینٹی باڈیز دوسرے انسانوں میں منتقل ہو جائیں ۔ آٹھ میں سے چھ افراد اس تجربے سے ٹھیک ہو چکے ہیں۔
موجودہ حالات میں عالمی ادارہ صحت کا فوکس اس بیماری کا پھیلاؤ روکنے پر ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ جو افراد جانوروں کے ارد گرد کام کریں وہ مکمل حفاظتی لباس پہن کر رکھیں۔ دستانوں اور ماسک کا استعمال کریں ۔ جانوروں کو مرنے کے بعد ان کو ضائع کرنے کا مناسب بندوبست کیا جائے۔
کیونکہ ایبولا وائرس مردہ جانوروں سے بھی انسانوں میں منتقل ہو جاتا ہے ۔ ہسپتال کے لوگوں اور ڈاکٹرز کو خاص احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے۔ ایبولا وائرس کے افراد کو الگ رکھا جائے مریضوں کے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء مثلاً تولیے، کپڑے وغیرہ بھی الگ سے واش کئے جائیں ۔ مریضوں کے واش روم الگ ہونے چاہئیں ۔ مریضوں کے ساتھ کم سے کم لوگوں کو ملنا چاہیے۔ ہسپتال کا عملہ ہر وقت مکمل حفاظتی لباس پہن کر رکھے ۔ مریضوں کے خون کے نمونہ جات احتیاط سے رکھے جائیں۔ فی الوقت احتیاط ہی اس بیماری کا علاج ہے او ر اس کے لئے آگاہی مہم وقت کی اشد ضرورت ہے۔